اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق13%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177991 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

الف۔توبہ:

اپنے آپ پر نظارت کی روش میں جب بھی انسان اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہے تو عام طور پر اپنے صحیفۂ اعمال کو اخلاقی رذائل سے آلودہ دیکھتا ہے۔ ایسی صورت میںاگر ان برائیوں سے الگ اورجدا ہونے کی کوئی راہ اورامید نہ ہو تو انسان بدبختی اور شقاوت کے بھنور میں مکمل طور پر پھنس جائے گا، اورنا امیدی اور رذائل کے ہلاکت بار گڑھے میں گرجائے گا، اس کے علاوہ روحی اور نفسیاتی اعتبار سے گناہ کے اندر اسی حالت پیدا کرتا ہے کہ اگر رذائل نہ ہوں تو آئندہ مواقع پر اور بھی زیادہ گناہوں کے ارتکاب کرنے پر آمادہ ہوجاتاتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے اعمال کی غیر ارادی بنیادوں کے لحاظ سے ضروری ہے جیساکہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

''جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اُس کے دل میں سیاہ نقطہ ایجاد ہوجاتا ہے، پس اگر توبہ کرلیتا ہے تو مٹ جاتا ہے اوراگروہ گناہ جاری رکھا تو سیاہی اس کے پورے دل کوڈھانپ لیتی ہے اور کامیابی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے''۔(١)

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''گناہ'' کے مختلف مفاہیم ہیں:

نافرمانی اور بے وفائی کا احساس، اپنے آپ کو صدمہ پہنچانا، روح کو خراش لگانااور سزا کا مستحق ہونا۔ اگر یہ احساس گناہ انسان کی روح پر غالب آجائے اور سلسلہ باقی رہے، تو ذہنی افسردگی کا پیش خیمہ ہوگا اور انسان کو ہر قسم کی اپنی معنوی تعمیر اور اخلاقی فضائل کسب کرنے سے روک دے گا، اس وجہ سے توبہ اپنی ازسرِنو تعمیر کے لئے دوبارہ بازگشت کو کہتے ہیں، وہ تجدید اعمال کے لئے صاف وروشن نامۂ اعمال کے ہمراہ رحمت خداوندی کی امیدوار، منقلب، پختہ ارادہ کی مالک تعمیر کرتی ہے اور یہ توبہ وہی خدا کا لطف اور اس کی رحمت ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ کے بقول ''توبہ اﷲ کی رسی اور عنایت ربوبی ہے، لہٰذا بندے ہمیشہ توبہ کی کوشش کریں اور ہر گروہ کا ایک خاص توبہ ہے......''۔(٢)

____________________

١۔''اذا أذنب الرجل خرج فی قلبه نقطة سوداء فان تاب انمحت وان زاد زادت حتّی تغلب علی قلبه فلا یفلح بعدها ابداً' '(کافی ج٢ص ٢٧١)۔

٢۔ مصباح الشریعة ص ٩٧۔

۲۴۱

توبہ درحقیقت اپنے اوپر نظارت ہے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اپنے نفس سے جہاد کرو اورتوبہ کو مقدم رکھو تاکہ اپنے رب کے مقام طاعت تک پہنچ جائو''۔(١)

یہاںپر توبہ سے مراد راہ خطا اور عمل خلاف سے حسرت وندامت کے ساتھ واپس آنا ہے، یہ حسرت وندامت ہی کی آگ ہے جو اخلاقی گراوٹ اور پستی سے پاکسازی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے اورایسا سوز وگذار ہے کہ جو انسان کے ذہن میں عفو وبخشش کا مزہ شیریں بناتی ہے اورطراوت، تازگی، طہارت وپاکیزگی کو انسان کے اندر وجود بخشتی ہے، ہر ابتدا اور ہر قدم کے لئے اپنی تربیت کے سلسلہ میں توبہ لازم ہے تاکہ وہ انسانی عزّت وکرامت کا احساس واپس آجائے، '' اپنے متعلق اپنے قیمتی تصوّرات کا مشاہدہ کرے اور اخلاقی تربیت کے لئے آمادہ ہوجائے۔

''گناہوںکے اشجار کو اپنے قلب ونگاہوں کے سامنے قرار دیتے ہیں اور آب ندامت سے اُس کی آبیاری (سینچائی) کرتے ہیں، پھر صحت وسلامتی، رضا وکرامت کا پھل حاصل کرتے ہیں''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''جب کوئی بندہ واقعی (نصوح، خالص) توبہ کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہوجاتا ہے اورخداوندعالم دنیا وآخرت میں اس کے گناہ کو پوشیدہ کردیتا ہے....... وہ دو فرشتے جو نامہ اعمال کو ثبت کرتے ہیں انھیں غافل بنا دیتا ہے اور اعضا وجوراح کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گناہوں کو مخفی رکھیں اور زمین کے مختلف حصوں سے کہتا ہے کہ وہ سارے گناہ جو تم پر انجام دئے ہیں انھیں نظر انداز کردو، پھر خدا سے وہ ایسی حالت میں ملاقات کرتا ہے کہ ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جو اس کے گناہوں کی گواہی دے''۔(٣)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''توبہ دلوں کو پاک کرتی ہے اورگناہوں کو دھودیتی ہے''۔(٤)

____________________

١۔ غررالحکم۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص٧٢۔

٣۔ کافی ج٢ص٤٢٣۔

٤۔ ''التوبة تطہر القلوب وتغسل الذنوب''۔(غرر الحکم، فصل٥،ص١٩٥)۔

۲۴۲

امام خمینی بھی توبہ کے بارے میںبیان کرتے ہیں:

توبہ نام ہے نفس کا مادیت روحانیت کی طرف رجوع کرنے کا، جبکہ گناہوں اور نافرمانی کی کدورت کے ذریعہ روحانیت (معنویت) اورنورانی فطرت، طبیعت کی ظلمت میں محجوب ہوجاتی ہے۔ اور اس اختصار کی تفصیل یہ ہے کہ نفس ابتدائے فطرت میں ہر طرح کے کمال، جمال، نور اور درخشندگی اور چمک دمک سے خالی ہوتا ہے، جس طرح سے کہ ان کے مقابل ومخالف صفات سے بھی خالی ہوتا ہے، گویا ایک ایسا صفحہ ہوتا ہے جو مطلق نقوش سے خالی ہوتا ہے، جس میں نہ کوئی روحانی اورمعنوی کمالات پائے جاتے ہیں اورنہ ہی صفات اضداد سے متصف ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقام ومنصب کے حصول کی استعداد ولیاقت کا نور اُس میں بطور ودیعت رکھا گیا ہے اور اس کی فطرت استقامت پر ہے اور اس کا خمیر انوار ذاتیہ سے گوندھا ہوا ہے اورجب معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تواس کے ذریعہ اُس کے دل میں ایک کدورت پیدا ہوجاتی ہے اورگناہ جس قدر زیادہ ہوتے ہیں، کدورت اور ظلمت بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ دل بالکل ہی تاریک اور ظلمانی ہوجاتا ہے (یعنی گناہوں کی کثرت سے دل میں سیاہی اور ظلمانی پردہ حائل ہوجاتا ہے پھر اُس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی) اور نور فطرت خاموش ہوجاتا ہے اور ابدی شقاوت وبد بختی تک پہنچ جاتا ہے، اگر ان حالات کے دوران، دل کے تما م صفحہ پر ظلمت کے چھانے سے قبل خواب غفلت سے بیدار ہوجائے توپھر بیداری کی منزل کے بعد توبہ کی منزل میں وارد ہو جاتا ہے اور طبیعی کدورت اصلی نور فطرت اور ذاتی معنویت کی طرف واپس ہوجاتی ہے گویا کہ تمام کمالات اور اس کی اضداد سے خالی ایک صفحہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے: ''التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔۔۔''۔گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے مانند ہے۔(١)

اس بات کے لئے کہ انسان توبہ کرے اورمایوسی وناامیدی اس پر غالب نہ آئے، توبہ کی طرف دعوت دینے والی آیات کو پے درپے پڑھنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ خداوندعالم کی عفو و بخشش اور رحمت ورأفت کا دامن نہایت وسیع ہے:

(وَتُوبُوا اِلَی اللّٰهِ جَمِیْعاً اَیُّهَا المؤمِنُونَ لَعَلَّکُم تَفْلِحُون )(٢)

''اور اے صاحبان ایمان! تم سب اﷲ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہو کہ شاید اسی طرح تمھیں فلاح اور نجات مل جائے''۔

____________________

١۔ چہل حدیث ص٢٣١، ٢٣٢۔

٢۔ سورہ ٔنور آیت٣١۔

۲۴۳

(قُل یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اسْرِفُوا عَلیٰ أنفسِهِمْ لَا تَقْنُطُوا مِن رَحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمِ ۔)(١)

''پیغمبر! آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا، بے شک اﷲ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے''۔

(یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوبَةً نَّصُوحاً عَسیٰ رَبُّکُم اَنْ یُکَفِّرَ عنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ )(٢)

''اے ایمان والو! خلوص دل کے اﷲ سے توبہ کرو عنقریب تمھارا پروردگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا''۔

ان باتو ںکو بھی جا ن ودل سے سماعت فرمائیں:

...بالفرض اس فرض کی بنیاد پر ہے کہ اہل نجات اور اس کی عاقبت سعادت ہو پھر بھی اُس عالم میں گناہوں کی تلافی کوئی آسان کام نہیں ہے،پہلے شدائد، زحمات ومشکلات کا برداشت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان شفاعت کے قابل بنے اور ارحم الراحمین کی رحمت اُس کے شامل حال ہوجائے، پس اے عزیز!جتنا جلدی ممکن ہو کمرہمت کس لو اورعزم کو محکم اور ارادہ کو قوی کرلو اورگناہوں سے توبہ کرو کیونکہ ابھی جوانی کی عمر یا دنیاوی زندگی میں ہو، اور خداداد فرصت کو ہاتھ سے نہ گنوائو اور شیطانی دھوکوں اور نفس امارہ کی چالوں پر توجہ نہ دو۔(٣)

فرعون کے جادوگروں نے ایک دلیرانہ قدم اٹھایا اور توبہ کرلیا اوربارگاہ الٰہی کے مقربین کے درجہتک پہنچ گئے ابراہیم ادہم، فضیل بن عیاض، حربن یزیدریاحی، جابر جعفی اور بدھ واقعی منقلب ہونے والوں کے نمونے ہیں۔

توبہ کرن یکے بعد اس کے استحکام کے لئے اور گذشتہ گناہ کی تکرار نہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل باتوں کو یاد رکھیں: پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''گناہ سے توبہ یہ ہے کہ پھر اس کی طرف واپس نہ آ ئے''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔزمر آیت٥٣۔

٢۔ سورہ ٔ :تحریم آیت٨۔

٣۔ چہل حدیث ص ٢٣٣، ٢٣٤۔

٤۔ نہج الفصاحةحدیث ١٢١١۔

۲۴۴

''خداوند سبحان کے نزدیک توبہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نادانی اور جہالت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں کہ خداوندکریم ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اور خداوند متعال علیم دانا اور حکیم ہے''۔(١)

''وہ لوگ وہ ہیںکہ جب برا کام کرتے ہیں، یا اپنے نفس پر ستم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں، کون ہے خدا کے سوا جو گناہوں کو بخش دے؟ اورجو گناہ وقصور (ناگہانی) کر بیٹھے ہیں اس پر جان بوجھ کراصرار نہیں کرتے ''۔(٢) تمام متعلق اور مربوط امور میں اصلاح اور تبدیلی: ''مگر جن لوگوں نے توبہ کیا اور اپنے عمل کی اصلاح کی اور خدا سے تمسک رکھا اور اپنے دین کو خدا کے لئے خالص طور پر اختیار کیا تو نتیجہ کے طور پر وہ لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور عنقریب خداوند عالم مومنین کو اجر عظیم جزا دے گا''۔(٣)

خود کو خدا کے حضور میں تصور کریں اوریہ جانیں کہ خدا ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے:

ایک حبشی شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور بولا: اے رسول خدا! میں ایک بُرے کام کا مرتکب ہوا ہوں، آیا میرے لئے توبہ ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر وہ چلا گیا مگر تھوڑی ہی دیر بعد واپس آکر بولا: اے رسول خدا! آیا اس وقت خدا نے مجھے دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر اُس حبشی نے اس طرح چیخ ماری کہ روح اس کے جسم سے نکل گئی۔(٤)

آخری نکتہ:

توبہ کے بعد اپنے آپ پر نظارت اور تحفظ کے لئے اپنے آپ سے عہد کرے اور مشارطہ کرے۔

مشارطہ یہ ہے کہ پہلے دن مثال کے طو رپر اپنے آپ سے شرط کرے کہ آج خداوند عزوجل کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا اور اس بات کا عزم بالجزم کرے اور معلوم ہے کہ ایک دن خلاف ورزی نہ کرنا، بہت آسان امر ہے اور انسان آسانی سے عہدہ بر آہو سکتا ہے، تم عازم ہوکر شرط کرو اورتجربہ کرو تودیکھو گے کہ کتنا آسان ہے۔ ممکن ہے کہ شیطان اور اُس ملعون کالشکر تم پراس امر کو بہت سخت دکھائے، لیکن یہ اُس ملعون کا دھوکا ہے۔ اُس پر دل سے حقیقتاً لعنت کرو اور باطل اوہام وخیالات کو دل سے نکال دو اور ایک دن تجربہ تو کرو، اس وقت اس کی تصدیق کروگے۔(٥)

____________________

١۔ سورہ ٔنسائ آیت١٧۔ ٢۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٣٥۔ ٣۔ سورہ ٔنساء آیت١٤٦۔٤۔ احیاء العلوم، ابو حامد غزالیج٤ص١٥۔ ٥۔ چہل حدیث ص٨۔

۲۴۵

یہ مشارطہ اور معاہدہ کلی طور پر ہفت گانہ اعضا (آنکھ، کان، زبان، شکم، دامن، ہاتھ اور پائوں) کے ساتھ ہو یا یہ کہ ایک ایسی خالص اخلاقی رفتار یا خاص صفت سے متعلق ہو کہ انسان جس سے دوچار ہے، بہتر ہے کہ یہ مشارطہ پہلے ہی دن انجام دیا جائے۔ ملا مہدی نراقی اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت تمثیل پیش کرتے ہیں:

''جان لوکہ عقل آخرت کی راہ میں ایک تاجر کے مانند ہے جس کا سرمایہ اور پونجی عمر ہے اور اُسے وہ نفس کی مدد سے استعمال کرتا ہے کہ اس لحاظ سے عقل کے شریک کی مانند ہے کہ اُس کے مال میں تجارت کرتا ہے اور اس تجارت کا فائدہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا حصول ہے کہ انسان کو دائمی سعادت اور ابدی نعمت کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ اُس کا نقصان اس صورت میں ہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہوں کہ جو دوزخ کے دردناک عذاب تک منتہی ہوجاتے ہیں... اور اس تجارت کی مدت پوری عمر ہے۔ جس طرح تاجر کی ابتدا میں اپنے شریک سے مشارطہ ومعاہدہ کرتا ہے پھر اس کا مراقب اورنگران ہوجاتا ہے اور آخر میں اس کا محاسبہ کرتا ہے اور ممکن ہے کہ اُس سے تاوان بھی مانگ لے، اسی طرح عقل کو بھی اپنی نفس کے ساتھ مشارکت میں ان امور کی رعایت کرنی چاہئے''۔(١)

ب۔مراقبہ:

امام خمینی اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:

'' ایسا ہے کہ تمام شرط کی مدت میں اس پر عمل کر نے کی طرف متوجہ رہو اورخود کو اُس پر عمل کرنا لازم سمجھواور اگر خدانخواستہ تمھارے دل میں خیال آئے کہ ایسے کے مرتکب ہو رہے ہو جوکہ حکم خداوندی کے خلاف ہے تو جان لو کہ یہ شیطان اور اس کے لشکر کی طرف ہے وہ چاہتے ہیں کہ جو تم نے شرط کی ہے اُس سے روک دیں اُن پر لعنت کرو اور اُن کے شرّ سے خدا کی پناہ مانگو اور باطل خیال کو دل سے نکال دو اور شیطان سے کہو کہ ایک دن میں نے خود سے شرط کی ہے کہ خدا کے حکم کے خلاف نہ کروں لیکن ولیّ نعمت نے سالوں سال سے مجھے نعمت دی ہے، صحت، سلامتی اور امنیت مرحمت فرمائی ہے کہ اور اس نے مجھ پر ایسے لطف کئے ہیں کہ اگر تاابد اس کی خدمت کروں تب بھی ان میں سے کسی ایک کا حق ادا نہیں کرسکتا ، لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ ایک معمولی سی شرط کو بھی وفا نہ کروں... یہ مراقبہ تمہارے کاموں میں بھی جیسے کسب اورکمائی ، تعلیم وتعلم اور مسافرت، کسی ایک سے بھی منافات نہیں رکھتا ہے اور اسی حال پر رات تک باقی رہو کہ وہ محاسبہ کا وقت ہے...۔(٢)

____________________

١۔ جامع السعادات ج٣ص٩٣۔ ٢۔ چہل حدیث ص٨۔٩۔

۲۴۶

حضرت حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''سزاوار ہے کہ انسان اپنے نفس پر حاکم، قلب کا نگراں اور زبان کا محافظ ہو''۔(١)

حضرت امام حسین ـ نے فرمایا: ''تین چیزیں اگر ہرمومن میں پائی جائیں تووہ خدا کی پناہ میں ہے... (تیسرے یہ کہ) اپنے نفس سے محاسبہ کرے اور اُس وقت تک اپنے ہاتھ پائوں کو حرکت نہ دے جب تک یہ نہ جان لے کہ خدا کی راہ میں قدم اٹھایا ہے یا اُس کی نافرمانی کی راہ میں اور یہ کہ اپنے بھائی کے کسی عیب پر ملامت نہ کرے مگر یہ کہ خود اُس کا ترک کرنے والاہو''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''اُس بندہ پر آفرین ہو جو اپنے نفس سے جہاد کے لئے قدم اٹھائے، جو انسان ہوائے نفس کے سپاہیوں کو مغلوب بنادے اُس نے رضائے خداوندی کاراستہ پا لیا ہے اورجس شخص کی عقل کو شش وتلاش کے ساتھ نفس امارہ پر غلبہ کرے اورخضوع وخاکساری کے ساتھ عقل کی خدمت میں پہنچے تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کی ہے، خود نفس اور ہوائے نفس سے زیادہ تاریک اوروحشتناک خداوند متعال اوربندہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے اور اُس سے مقابلہ کے لئے خدا کی درگاہ میں احتیاج اوراس کے لئے خضوع وخشوع، دن میں بھوکا اور پیاسا رہنے اور تہجد کے علاوہ کوئی تیزتر اسلحہ نہیں ہے، لہٰذااگر راہ جہاد میں مرگیاتو وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اوراگر زندہ رہ گیا اور ثبات وپائداری کا ثبوت دیا تو نتیجہ میں ''رضوان اکبر''کے حاصل کرے۔ خداوند عزّوجل فرماتا ہے:

(وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُم سُبُلَنَا، وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(٣)

'''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اﷲ حسن عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔

____________________

١۔ غرر الحکم۔

٢ بحار الانوار ج٧٨ص ١٤١۔

٣۔ سورہ ٔعنکبوت آیت ٦٩۔المحجة البیضاء ج٨ص ١٧٠۔

۲۴۷

لہٰذا مراقبہ اعضائے ہفتگانہ کے عمل کرنے کے وقت انسان کا فعّالانہ حضور ہے ، عمل سے پہلے فکر و تامل کے ساتھ اپنی نیت اور مقصد کی نسبت توجہ اورمراقبت کرے، عمل کے وقت مراقبت کرے کہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اخلاقی اقدار اور الٰہی تعلیمات کے خلاف کوئی عمل اُس سے سرزد ہوجائے اورعمل کے بعد بھی مراقبت کرے کہ اس کے خاص آثار جیسے ریا، منّت، اذیت وغیرہ اس سے صادر ہوکر عمل کو ضائع نہ کریں یہاں پر اگر اس کی نظر میں کوئی خاص اخلاقی صفت ہو تو وہ مراقبہ کو اسی صفت پر یا اس کے مناسب اعمال پر مرکوز کردے ، اس لحاظ سے اپنے آپ پر نظارت کا اساسی مرحلہ یہی مراقبہ ہے۔

مراقبہ کے سلسلہ میں اہم نکتہ یہ ہے کہ آغاز امر میں اپنے اوپرزیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے اورعمل کے جزئیات اورظرائف کو بھی انجام نہیں دینا چاہئے ، یہ رویہ موجب ہوگا کہ اُس کی سختی اُسے اس عظیم جہاد سے روک دے گی، آغاز کار میں اُسے چاہئے کہ صرف اپنے بارے میں حلال وحرام کے سلسلہ میں نفرت کا اظہار کرے یا ایک اخلاقی رذیلت کی نسبت اپنا محاسبہ کرے تاکہ بعد کے مراحل میں خلوص نیت اور اُس سے بالاتر مراقبہ مراتب پر عمل کرے ۔

توجہ رکھنی چاہئے کہ خداوندعالم پر ایمان کی پشت پناہی کے بغیر مراقبہ بہت دشوار اور مشکل ہے، ایک بصیر وناظر کے حضور پر یقین واعتقاد ہی مراقبہ کو آسان کرتا ہے اور یہ بات ایمان کی تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔

ج۔محاسبہ:

یعنی کوئی وقت معین کرے (بہتر ہے کہ سونے سے قبل ہو) اور روزانہ کے اعمال کا حساب وکتاب کرے، اگر یہ محاسبہ انجام نہ پائے تواپنے آپ پر نظارت اور مراقبہ آئندہ ایّام میں عملی طور پرممکن نہیں ہوگا۔

''اے صاحبان ایمان! خدا سے ڈرو اورہرانسان کو غور کرنا چاہئے کہ اپنے کل (آئندہ) کے لئے پہلے سے کیا بھیجا ہے''۔(١)

''تم لوگ اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو ، خدا تمہارا ان سب کے سلسلہ میں محاسبہ کرے گا''۔(٢)

''حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں اس طرح مذکور ہے: عقلمندانسان جب تک کہ اس پر اس کی عقل حاکم ہے اس کو چاہئے کہ اپنے لئے چار اوقات معین کرے... اورایک ساعت اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے لئے معین کردے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔحشر آیت١٢۔

٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت٢٨٤۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٧١۔

۲۴۸

''اپنے نفس کو محاسبہ کے ذریعہ کنٹرول کرو اور اس (نفس) کی مخالفت کرکے اُس کے مالک ہوجائو''۔(١)

''اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارامحاسبہ کیا جائے اورخود کو بھاری اورہلکا کرو قبل اس کے کہ اس کا وزن دیکھیں اور اپنے اعمال کو پیش کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو''۔(٢)

عاقل انسان کے لئے مناسب ہے کہ اپنی برائیوں کا دین، اعتقاد، اخلاق وادب کے اعتبار اپنے نزدیک حساب کرے پھر انھیں سینوں میں یا کسی کاغذ پر محفوظ کرے اور ان کی اصلاح کرے۔

محاسبہ کی ترکیب اس طرح ہے کہ دن کی ابتدا سے شروع کرے اور جوکچھ اُس سے اعمال سرزد ہوئے ہیں ان کی جانچ کرے کہ آیا اخلاقی معیار کے مطابق ہیںیا نہیں ؟ آیااُن کے اندر خدا کی رضایت اورخوشنودی پائی جاتی ہے... ؟ حضرت امیر المومنین علی ـ سے سوال کیا گیا: انسان کس طرح اپنا محاسبہ کرے؟ فرمایا:

''جب صبح کو بیدار ہو تواُس وقت سے عصر تک اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور کہے: اے نفس! آج کا دن ایسا دن تھا جو تم پر گذر گیا اوردوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور خدا اُس سے متعلق تم سے بازپرس کرے گا کہ تم نے اس کو کس طرح سے گذارااور اس میں کونسا عمل انجام دیا آیا خدا کی یاد اوراس کے شکرانہ میں مشغول تھے؟ آیا اپنے مومن بھائی کا حق ادا کیا؟ آیا اس کی مشکلات کو برطرف کیا؟ آیا اس کی غیبت میں اُس کے اہل وعیال کی سرپرستی کی؟ آیامرنے کے بعد اُس کے ورثاء کی نسبت مہربان رہے ہو؟ آیا اپنی موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برادرمومن کی غیبت سے روکا ہے؟ آیا کسی مسلمان کی مدد کی ہے؟ اس دن تم نے کیا کیا؟ پھر دل میں سوچے جو کچھ اُس سے سرزد ہوا ہے: اگر نیک اورخیرکام تھے، تو خدا کی حمد وستائش کرے اور اس توفیق پر اس کی تعریف وتمجید کرے۔ اگر گناہ اورکوتاہی اُس سے سرزد ہوئی تو خدا سے طلب مغفرت کرے اوراُسے ترک کرے اور توبہ کرے۔اخلاقی تربیت سے متعلق محاسبہ نفس بہت سے آثاراور فوائد کا حامل ہے کہ ان میں سے بعض فوائد اپنے ناپسند صفات و عیوب سے واقف ہونا اور گناہوں سے خالی ہو نا اوراصلاح وسعادت کی راہ ہموار ہیں۔

اسی طرح بھولنا نہیں چاہئے کہ اگرمحاسبہ کچھ سخت معلوم ہو ، تو اُس پر مجاہدہ (جہاد بالنفس) کے ذریعہ غالب آجانا چاہئے اور اس کے آثار و فوائد کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ پھر کچھ مدت بعد روزانہ ایٹومیٹک صورت میں دن بھر یہ محاسبہ اور مراقبہ انجام پائے گا اور رات کے لئے کوئی کام نہیں رہ جائے گا ۔

____________________

١۔ غررالحکم۔ ٢۔ بحار الانوار ج٧٠ ص٧٣۔

۲۴۹

امام موسیٰ بن جعفر ـ نے فرمایا ہے:

''جو شخص روزانہ اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے، لھٰذااگراُس نے کو ئی اچھااور نیک کام کیا ہے تو خدا سے اس کی زیادتی کی دعا کرے اور اس کی حمدوستائش کرے اور اگر برا کام کیا ہے تو خداسے مغفرت طلب کرے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرے''۔(١)

د۔معاقبہ:

محاسبہ کے بعد قانون تقویت (فعال ماحول سازی ) کے مطابق ان مقامات پر جہاں انجام دیئے گئے اعمال اخلاقی معیار کے مطابق تھے اس کے لئے ایک جزا معین کرے (جیسے مناسب تفریح وگردش، اچھی غذا...) اور اگر اس کے برخلاف ہو تو اُس کے لئے مناسب سزا تجویز کرے، جیسے یہ کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو سرز نش اور ملامت کرے اس کے بعد مشقت آمیز اعمال کو برداشت کرے ؛جیسے روزہ رکھے یا خود کو وقتی طور پر بعض لذیذ چیزوں اور عطیوں سے محروم کرے۔ان موارد میںبرے عمل سے مشابہت کا لحاظ کیا جاسکتا ہے؛ مثال کے طورپر حرام غذا ئوں سے پرہیز نہ کرنے کے سلسلہ میں، خودکو بھوکا رکھے اور نا محرم کی طرف نگاہ کرنے کے سلسلہ میں بعض پسند یدہ اور محبوب امورکو دیکھنے سے اپنی آنکھ کو (جسے ایک جالب نظرفیلم دیکھنے سے ) دور کرے اور اگر زبان سے متعلق ہو تو اُسے سکوت کے ذریعہ سزادے اور اگر کسی کو رنج پہنچا یا ہو تو اس کے پاس جائے اور اُس سے عذر خواہی کرکے اپنے آپ کو ذلیل وخوار کرے...۔ مجازات معاقبہ پر جو کہ جہاداکبرہے ضرور بالضرور عمل کریںورنہ انسان کے لئے برے اعمال اور اخلاقی رذائل آسان ہو جائیں گے اور وہ اُن سے اس حدتک مانوس ہو جائے گاکہ اس کا ترک کرنا مشکل اور دشوار ہو جائے گا۔ حضرت علی ـ نے فرمایا: ''سب سے بڑاجہاد نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اور اسے دنیاوی لذّتوں سے بازرکھنا ہے ''۔(٢)

''جان لوکہ جہاد اکبر نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا ہے لہٰذا اس جہاد میں مشغول رہو تاکہ کامیابی کی سعادت نصیب ہو''۔(٣)

آخرمیں دوباتوں کی یاد دہانی ضروری اور لازم ہے: اوّل یہ کہ اپنے آپ پر نظارت کی بحث میں آداب ورسوم (عرفی عادات ) اصول اور افعال اخلاقی کے درمیان فرق رکھنا چاہئے: اول کلیت نہیں رکھتے لہٰذاان کی ہمیشہ مراعات کرنا ضروری نہیں ہے ؛بر خلاف دوسرے کے۔دوسرے یہ کہ تقویت ارادہ کی ترکیبوں سے استفادہ کرنا اپنے آپ پر نظارت کرنے کی کامیابی میں بہت زیادہ موثرہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ،ج٧٠ ،ص٧٣۔٢۔ غررا لحکم، فصل١، ص١٤٢۔٣۔ غررا لحکم، فصل ٧، ص٢٢٦۔

۲۵۰

۲:۔ ایمان کی تربیت

ایمان ایک قلبی حالت اور روحی اثر ہے کہ جس کی تاثیر افکار، احساسات اور اعمال میں آشکارہو تی ہے۔ حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں:

''الایمان ما کان فی القلب والاسلام ما علیه التناکح والتوارث ''(١)

''ایمان وہ ہے جو دل میں ہوتا ہے اور اسلام وہ ہے جو جس پر تناکح وتوازث ہوتا ہے''۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''الایمان قول مقول وعمل معمول وعرفان العقول ''۔(٢)

''ایمان وہ قول جو بولا جاتا ہے اور وہ عمل ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور عقلوں کی معرفت ہے''۔

خداوندمتعال روز قیامت، ملائکہ یا تدبیرعالم کے مامورین پر ایمان رکھنے سے (کہ یہ سب ایمان بالغیب کے مصداق ہیں) انسان کی معرفتی، عاطفی، اور اخلاقی جہات تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس نظر جسمانی، کمّی اور فائدہ طلب محاسبات کے حدود میں محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ اُس کی یہ فکر، یہ نظر اورخدا شناسی اس کی باطنی استعدادوں کی بالیدگی کا سبب بنتی ہے اور اس کے وجود کی وسعت کو کمال مطلق کے امتداد میں محقّق بناتی ہے۔ ایک بے کراںاور لامتناہی علیم وقدیر وجود مقدس کے سامنے حضور کاا حساس انسان کے اخلاقی کنٹرول اور تربیت میں ایک اہم عامل ہوگا، لہٰذا ایمان کی پرورش انسان کے پورے وجود میںبہت سے قوی وسائل انسان کے پورے وجود میں(جوکہ وہ اختیار میں رکھتی ہے، اخلاقی تربیت کو آسان بنادیتی ہے، بلکہ خود انسان کے وجود میں مکارم اخلاق کو پیدا کرتی ہے۔

____________________

١۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٠۔

٢۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٢۔

۲۵۱

الیکس کارل انسان کے مذہبی ایمان اور اخلاقی پہلو کے رابطہ کی اس طرح منظر کشی کرتا ہے:

اخلاقی اور مذہبی افعال عملی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اخلاقی احساس، عرفانی احساس کے ختم ہونے کے بعد دیر تک باقی نہیں رہتا انسان مذہب سے مستقل اور الگ ایک اخلاقی سسٹم بنانے میں جیسا کہ سقراط نے چاہا تھا کامیاب نہیں ہوا ہے ، وہ سماج اور معاشرہ جس نے دعا اور راز ونیاز کو اپنے اندر ترک کردیا ہے عام طور پر فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہے گا۔ لہٰذا بے ایمان (نام نہاد)متمدن افراد دیندار لوگوں کی طرح فریضہ رکھتے ہیں کہ اپنے باطنی افعال کے رشد کے مسئلہ میں کہ جو ایک انسانی وجود کا لازمہ ہے، دلبستگی پیدا کریں۔(١) علامہ طباطبائی اخلاقی اسلوب وطریقے کی توضیح میں، تین مسلک کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پہلا مسلک:

دنیوی صالح غایات کی راہ سے تہذیب ہے کہ یہی یونانی فلاسفہ کا عقلی مسلک ہے۔

دوسرا مسلک:

اخروی غرض وغایت کے لحاظ سے تہذیب ہے جیسے حور، قصور، بہشت ودوزخ و۔۔۔ کہ اس کے سلسلہ میں قرآنی آیات بہت زیادہ ہیں اور انبیاء کا تربیتی طرز عمل بھی اسی روش پر رہا ہے۔

تیسرا مسلک:

یہ قرآن کریم سے مخصوص ہے کہ ایک طرح سے ایمان کی پرورش اور معارف الٰہی سے استفادہ کے ذریعہ اخلاقی رذائل کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکتا ہے... جو عمل بھی انسان انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور غایت یا اُس میں عزت کا حصول مطلوب ہے یا وہ قدرت ہے جس سے ڈرتا ہے۔ لیکن خداوند سبحان فرماتا ہے: (اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعاً )(٢) تمام عزت اﷲ کے لئے ہے اور فرماتا ہے ۔

(اِنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعاً )(٣) تمام قدرت اﷲ کے لئے ہے ۔اگر یہ معرفت اور یقین محقق ہوجائے تو ریا، سمعہ، (دکھاوا)، خدا کے علاوہ سے خوف، خداکے سوا کسی اور سے امید نہ رکھنے، اس کے علاوہ پر تکیہ کرنے کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی، یہ دو جملے جب بھی انسان کو معلوم ہوجائیں ( قلبی یقین کی حد میں) تمام اخلاقی ورذیلت کو انسان سے پاک کردیتے ہیں( خواہ صفت) ہو یا فعل اور اس کے مقابل اخلاقی فضائل جیسے تقوائے الٰہی، عزت خدا وندی ، عظمت وشوکت ،بے نیازی اور ربانی ہیبت وغیرہ سے آراستہ کردیتے ہیں۔(٤)

____________________

١۔ نیائش ص٢٨۔ ٢۔سورۂ یونس، آیت٦٥۔٣۔ سورہ ٔبقرہ آیت١٦٥۔ ٤۔ المیزان ج١ص ٣٥٤۔٣٦٠۔

۲۵۲

خداوند ذوالجلال کی وحدانیت پر ایمان رکھنا انسان کے توحید ی مکتب فکر کو تنظیم کرتا ہے اور اسے انسجام بخشتا ہے، اہداف ومقاصد، افکار، عواطف وجذبات، عادات واطوار، افعال، سارے کے سارے ایک ہدف کے تحقّق کے لئے (کہ اﷲ کی حاکمیت اور اس کی رضاہے) ہم آہنگ اور متحد ہوجاتے ہیں اور اس وجہ سے دنیوی، شیطانی اور نفسانی خواہشات ، اہداف کے اسباب ہیں اس لئے کہ وہ غیر خدا کوئی اور ہیں تفرقہ اور اختلاف ، لڑائی جھگڑے ، کینہ وحسد اور دیگر اخلاقی رذائل ۔

اور خداوند عالم رقیب وعقید فرشتوں،پرشکوہ حضور روز قیامت کا یقین اخلاقی مراقبت اورکنٹرول کو انسان کے لئے سہل وآسان بنادیتا ہے اور جس قدر ایمان کی قوت زیادہ ہوگی احساس حضور زیادہ ہوگا اور اخلاقی تربیت آسان تر ہوگی: ''خداوند عالم تم پر ہمیشہ نگہبان ہے''۔(١) انسان کوئی بات نہیں کرتا، مگریہ کہ اس کے پاس ایک مراقب وآمادہ (فرشتہ) ہوتا ہے جسے وہ ضبط وثبت کرتا ہے۔(٢) حضرت علی ـ نے فرمایا:'' خداوند عالم نے ہرعمل کے لئے ثواب اور ہرچیز کے لئے حساب قرار دیا ہے''۔(٣)

علمائے اخلاق کے شیوہ میں بالخصوص غزالی کے زمانے سے اب تک یہ روش بہت مورد توجہ رہی ہے اور اخلاقی کتابوں کاقابل توجہ حصّہ باواسطہ یا بلاواسطہ اس سے مخصوص رہا ہے اس کے علاوہ چونکہ لوگوں کے اخلاق کو

آراستہ کرنااوران کی اصلاح انبیاء کی بعثت کا اصلی وبنیادی ہدف رہا ہے (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔]رسول خدا[) اور انبیاء کی تعلیمات میں اخلاقی پیغامات اور موعظے ان کی سیرت وسلوک کا عظیم باب رہے ہیں لہٰذا پرورش ایمان اور اخلاقی تربیت کے درمیان رابطہ کے اثبات کے سلسلہ میں تفصیل ضروری نہیں ہے۔ درج ذیل احادیث مطلب کی وضاحت کے لئے کافی ہیں:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''ایمان حرام امورسے دوری اور دنیوی خواہشات سے پاکیزگی کا سبب ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔنساء آیت١۔

٢۔ سورہ ٔقآیت ١٨۔

٣۔ غرر الحکم۔

٤۔ کنز العمال خ٥٨۔

۲۵۳

''ایمان حلم وبردباری اور جودو بخشش کے سواکچھ نہیں ''۔(١)

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑ وبنیاد یقین، شاخ تقویٰ، کلیاں شرم وحیا، اور اس کا ثمر سخاوت ہے'' (غررالحکم) ''سچائی ایمان کے لئے سر کے مانند ہے''۔(غرر الحکم)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں''مومن کی شادمانی اُس کے چہرہ پر اور غم و اندوہ اس کے دل کے اندر ہوتا ہے، وہ کشادہ سینہ اور خاکسار وخاضع نفس کا مالک ہوتا ہے، فوقیت طلبی کو ناپسند کرتا ہے... اس کا سکوت طولانی ہوتا ہے ، اُس کے اوقات مشغول ہوتے ہیں ، وہ شاکر اورصابر ہوتاہے...''۔(٢)

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: ''تم میں ایمان کے لحاظ سے کاملترین انسان وہ ہے جو سب سے اچھا اخلاق رکھتا ہو'' ۔(٣)

ویکٹورفرانکل ماہر نفسیات اورعلاج معنوی مکتب کا حامل مذہبی ایمان کو جیلوں کے اندر افراد کے اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لئے اہم ترین وسیلہ شمار کرتا ہے، آغاز میں جیلوں کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے:

''...ایک دن ایک پولیس جو کہ ہمارے جیلوں میں کام کررہا تھا اس نے مجھ سے کہا: چھائونی میں انسان مردار کا ایک ٹکڑا گوشت کو تلاش کررہا ہے ، آخرکار اُسے آگ پر چڑھے ایک برتن میں پایا... ہمارے جیل چھائونی آدم خوری سے بھری ہوئی تھی۔(٤) ہم نے تو اسیروں کے جیل میں زندگی گذار دی ہے ، اس وقت ہم ایسے لوگوں کو یاد کرتے ہیں جوکمرہ کمرہ میں جاتے اور دیگر قیدیوں کی دلداری کرتے حتی کہ روٹی کا آخری ٹکڑا بھی انھیں بخش دیتے تھے۔(٥)

انسان کبھی اخلاقی رفتار کی سمت کھینچ کر لے جایا نہیں جاتا بلکہ فیصلہ کرتا ہے کہ اخلاقی رفتار رکھے، وہ اس کام کو میلان کی تکمیل یاوجدان کی آسودگی کے لئے انجام نہیں دیتا ہے، بلکہ اس دلیل اور علت کی وجہ سے کہ جس کا پابند ہے اُس انسان کے لئے جسے دوست رکھتا ہے یااپنے خدا کے لئے انجام دیتا ہے... ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ تمام مقدس افراد کا مقصد اپنے خدا کی خدمت کے سوا کچھ نہیں تھا اورمیں یہ خیال نہیں کرتا کہ ان کااصلی وبنیادی ہدف مقدس ہونا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ مکتب کمال کو انتخاب کرتے۔(٦)

____________________

١۔ کنز العمال خ٥٧۔ ٢۔ بحار الانوار ج٦٩ص ٤١١۔ ٣۔ بحار الانوار ج٧١ص ٣٨٧۔٤۔ انسان درجستجو ی معنا ص٦٢۔

٥۔ انسان درجستجو ی معنا ص٤٧۔ ٦۔ انسان درجستجو ی معنا ص ١٤٥و١٤٦۔

۲۵۴

اُس نے نیچہ کے جملہ سے استناد کیا کہ اس نے کہا تھا''جس انسان نے زندگی کی کیوں علت دریافت کرلیا ہے وہ ہر کیفیت کے ساتھ نبھالے گا '' فرانکل کہتا ہے: جرمن نازیوں کے جیل میں یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی ہے کہ وہ تمام وہ لوگ جو خیال کرتے تھے کہ ان کو کام اور ذمہ داری انجام دیناہے (اس معنی کے مقابل جس کا وہ اعتقاد رکھتے تھے) انھوں نے زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کا چانس رکھا (بعد میں یہ بات کوریا اور جاپان میں امریکی ماہرین کے ذریعہ ثابت ہوگئی ہے) ۔(١)

امریکا کا عظیم ماہر نفسیات ویلیام جیمزبھی دینی ایمان کے اخلاقی پہلو کی امر سون نامی انسان کے قول کو نقل کرتے ہوئے اس طرح تصویر کشی کرتا ہے:

... آدمی کی روح میں ایک عدالت پائی جاتی ہے کہ جس کی سزا اور جزا قطعی اور یقینی ہے جو شخص آلودگی اور برائی کو اپنے سے دورے کرے تو اس نے پاکی اور خوبی کو حاصل کرلیا ہے اور جو انسان پہلے ہی سے قلبی اعتبار سے اچھا انسان ہو اس کے دل میں خداوندعالم جگہ رکھتا ہے، اس عدالت اور اچھائی دوستی کے ساتھ جو یہ شخص اپنے دل میں رکھتا ہے، خداوند ازلی وابدی ، خدائے عظیم کو اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اگر کوئی دھوکہ دے اور مکر سے کام لے گویااُس نے خود کو دھوکا دیا اور اپنی معرفت بھی نہیں رکھتا ہے، ہر انسان کا باطن بخوبی پہچان لیا جاتا ہے، چور کبھی مالدار نہیں ہوتا اور جوانسان فقرا کی مدد کرتا وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا ہے۔ پتھریلی دیوار کی پشت

سے بھی قتل آواز دیتا ہے یعنی قتل کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

جھوٹ اور ملاوٹ کا ادنیٰ ذرہ بھی اگر کسی چیز میں ہو، مثال کے طور پر خود خواہی کا شائبہ، وسوسہ، تظاہر، ریاتو تمہارے کام کے نتیجہ کو فاسد کردے گا لیکن اگر صداقت اور راستگوئی سے کام لو گے تو ساری چیزیں اور ہرکوئی جاندار ہو یا بے جان تمہاری صداقت کا گواہ ہوگا...۔

عشق، عدالت، محبت، خوش خلقی اور صبر سبھی کا سرچشمہ ایک ہی ہے ، لہٰذا جتنا آدمی ان ''مقاصد''سے دور ہوگا، قدرت ونفرت کے سرچشمہ سے بھی ممکن ہے کہ اس سے فیضیاب ہو، دور ہوجائے گا نتیجہ کے طور پر اس کا وجود بے پناہ اور متزلزل ہوکر تدریجاً کمزوراور معمولی ہوکر ذرّہ اور نقطہ میں تبدیل ہوکر نہایت برائی اور پستی کے ساتھ

____________________

١۔ ا انسان درجستجو ی معنا ص١٥٥۔

۲۵۵

وجہ موت اور نابودی کے گڑھے میں گرجائے گا۔ اس قانون کا فہم وادراک آدمی میں ایسی فکر واحساس پیدا کرتا ہے کہ ہم اُسے احساس مذہبی کے نام سے یاد کرتے ہیںایک عجیب وغریب قوت کہ خود جذب بھی کرتی ہے اور شاد ومسرور بھی کرتی ہے۔ پہاڑوں سے چل کر جو عطر نسیم عالم کو معطر بنادیتی ہے وہ اسی کی ذات سے ہے، آسمانوں اور بلند وبالاپہاڑوں کو عظمت وجلالت وہی عطا کر تا ہے، ستاروں کے سکوت آمیز آواز اُسی کی دین ہے، تمام خوبصورتیاں اور خوبیاں اسی کی ذات سے ہیں، وہ ہے کہ آدمی کو ابدی بنادیتا ہے۔

جب انسان کہتا ہے: ''میرا فریضہ وفریضہ ہے'' جب عشق ومحبت اسے حکم دیتی ہے، جب عالم بالا سے الہام نیک اورعظیم کام کا انتخاب کرتا ہے، ایسے موقع پراس کی روح عالمِ عقل کے عالم گیر نغموں سے سرشار ہوجاتی ہے... (ویلیام جیمنرص٧،٨)

درحقیقت انسان کا خدا پر ایمان، غیرا ارادی طور پر ضمیر میں وارد ہونے سے (گوستاویونگ) کہ غیر ارادی ضمیری چیزوں کو ناخود آگاہ ضمیر کا مفہوم روح، خدا اور غیبی قوتوں پر مشتمل جانتا ہے۔(١)

اس کے بہت سے دیگر افکار ونظریات پر براہ راست نہایت تاثیر رکھتا ہے جیسے اُس کا زندگی اور زندگی ہدف کے بارینظریہ۔ اور یہ نظریات خود اپنی جگہ پر خوب وبد، درست ونادرست کے بارے میں انسان کے افکار کو تشکیل دیتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار انفرادی، اجتماعی اور اخلاقی عمل اور انفرادی مناسبتیں بھی اوّلی اور اساسی افکار ونظریات سے تاثیر قبول کرتی ہیں۔

انسان کے غیر ارادی طور پر وارد ہونے کے طریقے، چار اساسی راہ کے حامل ہیں کہ آخری کے علاوہ سبھی طبیعی ہیں:

١۔عہد طفولیت میں منصوبہ بنانا۔

٢۔مثبت یا منفی شدید ہیجانات کے وقت۔

٣۔ہوشیاری کے وقت نفس کی تلقین: اس طرح سے کہ اچھے اورمثبت جملات اورمفاہیم کی مناسب وقت میں آہستہ آہستہ توجہ کے ساتھ بلند آواز سے تکرار کرے۔

٤۔ہیپنا ٹزم کی روش۔

____________________

١۔ رواشناسی ضمیر خود آگاہ ص٩٢۔

۲۵۶

وہ دینی تعلیمات اوردستورات کہ جو ایمان کی تربیت کے لئے مد نظر قراردئے گئے ہیں، اوّل تین راستوں سے افراد معاشرہ کی ہدایت اورسماج کے اخلاقی اصلاح کے عنوان سے بہترین استفادہ کیا ہے۔ ایمان کی پرورش کے وہ اسلوب جو دینی معارف کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

الف۔عبادت:

عبودیت تذلل اورخاکساری کے اظہار کے معنی ہے کہ جو فارسی میں ''بندگی ''کے معنی میں ہے اور عبادت اس سے بھی بالاتر چیز ہے، یعنی انتہائی درجہ تذلل، اسی وجہ سے خدا کے علاوہ کوئی اس کا مستحق نہیں ہے۔(المفردات) اس بناپر مختلف عبادی اعمال، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی تذلل وبندگی کا اعلان ہے۔ سید قطب اس مطلب کی اچھی طرح منظر کشی کرتے ہیں:

نماز، روزہ، زکات، حج اور تمام تعبدی شعائر واعمال ایک کنجی کے سوا کچھ نہیں ہیں، وہ صرف ایسی کنجیاں ہیں جن کے ذریعہ اپنے لئے عبادت کے دروازوں کو کھول سکیں، یا ایسے منازل اورقیامگاہ ہیں کہ طریق عبادت کے راہی اورمنزل معبود کے سالکیں راستہ میں اُس قیام گاہ میں کچھ دیر قیام کرکے توشۂ راہ حاصل کرتے ہیں، تازہ دم ہوتے ہیں پھر کافی زادۂ راہ کے ساتھ اپنی راہ طے کرتے ہوئے معشوق کی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں، یہ راہ وہی عبادت ہے لہٰذا جو کچھ اس راہ میں واقع ہو، عبادت سے لے کر روز مرہ کی زندگی کے امور یا غور وخوض اور ادراک تک جب تک کہ ہدف خدا ہو، وہ سب کا سب عبادت ہے۔ یہ اساس اور بنیاد اُس وقت زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے جب حقیقت اور عملی اعتبار سے (نہ کہ صرف زبان ) سے گواہی دے کہ کوئی بھی مقام اور شخصیت نیز مظہر قدرت عبادت کے قابل نہیں ہیسوائے اس خداوند واحد و خالق کے کہ جو حکیم وعلیم ہے۔(١)

اس طرح کی عبادت انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کرکے ایمان کی پرورش کا باعث ہے اور اس کانتیجہ وثمرہ اخلاقی تربیت اور انسانی فضائل ہیں۔

''اے لوگو! تم سب اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے والوں کو خلق کیا ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو، شاید تقویٰ اختیار کرو''۔(٢)

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلامص٣٩۔

٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت ٢١۔

۲۵۷

روزانہ کی عبادتوں کی راہ میں، جیسے روزانہ کی نمازیں اور موسمی عبادتیں جیسے روزہ، حج اور اعتکاف نفسیات کے مختلف فنون سے استفادہ کرکے (جیسے اپنے آپ کو تلقین کرنے، عادت دینے اور عمل کرنے، شرطی سازی وغیرہ کے ذریعہ) خدا کی بندگی اور پرستش کی اس حالت کو اپنے اندر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اپنے ناخود آگاہ ضمیر میں جاگزین کرسکتا ہے۔ لہٰذا عبادت میں جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اور عمل جتناہی صاف وشفاف اور خالص ہوتا ہوگا اتنا ہی انسان تیزی کے ساتھ اس مقصد تک پہنچ جائے گا۔ لیکن عبادت کے نچلے مراتب بھی اس ہدف تک رسائی کے لئے مقدمہ کے عنوان سے کار ساز ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عبادت کی تین قسمیں ہیں: ''کچھ لوگ خدا کے خوف سے عبادت کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے کچھ لوگ ثواب خداوندی کے حصول کے لئے عبادت کرتے ہیں، یہ مزدوروں کی عبادت ہے، کچھ لوگ خدا سے عشق ومحبت کی بناپر عبادت کرتے ہیں، یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی عبادت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے''(١) ''سب سے افضل عبادت عمل کو خدا کے لئے خالص کرنا ہے''۔(٢)

عبادت کی تاثیر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ رغبت ودلچسپی کی بنیاد پر ہو، نہ کہ کراہت اورسستی کی بنیاد پر ہو۔ اسی لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے:

''اُس بندہ پر آفرین ہوجو عبادت سے عشق کرتا ہے، جسم سے عبادت کرتا ہے اور قلب سے اُسے دوست رکھتا ہے اورخود کو اُس کے لئے فارغ کرتا ہے''۔

جو لذت و شیرینی عبادت میں ہے وہ اس کے استمرار اور اُسے قوت پہنچانے کا باعث ہوتی ہے، لیکن اس لذت کا احساس دو شرط پر مبنی ہے:

١۔ہوا پرستی (نفسانی خواہشات) سے دوری ۔

٢۔ حبّ دنیا سے اجتناب۔

حضرت علی ـنے فرمایا:

''جو نفسانی خواہشات سے اجتناب نہیں کرتاوہ کس طرح عبادت کی لذت محسوس کرتا ہے''؟۔ (غرر الحکم)

''جس طرح کوئی ایسا بیمار کہ جو شدید درد کا احساس کرتا ہے، اچھی غذا کی لذت محسوس نہیں کرتا، دنیا پرست بھی دنیا سے لگائو کی بناپر عبادت کی لذت محسوس نہیں کرتا اور اس کی حلاوت وشیرینی کو درک نہیں کرتا''۔(٣)

____________________

١۔ بحارالانوار ج٧٠ ص ٢٥٥۔ ٢۔ غرر الحکم۔ ٣ ۔ بحارالانوار ج١٤ ص٣١٠۔

۲۵۸

ایک دوسرا نکتہ جو عبادت میں قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ عبادت کا ہدف خداوند عالم کے سامنے صرف اطاعت ہے اور ''تعبد''کے معنی بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر باوجودیکہ ہم نہیں جانتے کہ نماز صبح دو رکعت کیوں ہے اور بلند آواز سے ہمیں پڑھنا چاہئے، تو ہم صرف اُس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ فضل بن شاذان حضرت امام علی رضا ـ سے نقل کرتے ہیں: ''اس لئے کہ اُسے فراموشی کے حوالے نہ کردیں، اس کے مراتب ادب کو ترک نہ کریں، اس کے امر ونہی سے غافل نہ ہو جائیں....''۔(١) اسی وجہ سے (فرمان خدا کی اطاعت) اﷲ کے حدود حلال وحرام کی رعایت اورخدا کے فرائض اور واحبات کی مراعات کرنا عبادت کا اہم حصّہ شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: عبادت کے دس جز ہیں کہ اس کے نو جز حلال کے سراغ میں جانا ہے۔(٢) خداوندسبحان ارشاد فرماتا ہے: ''اے اولاد آدم! جو کچھ ہم نے تم پر واجب کیا ہے اُس پر عمل کرو تاکہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جائو''۔

ب۔ذکر:

ذکر ''یاد آوری'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح کسی چیز کے معنی کا یاد رکھنایا اُس کا حاضر ہونا ذکر کہلاتا ہے۔ دقیق تر تعبیر میں کبھی ذکر سے مراد ایک نفسانی حالت ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان اُس چیز کو جس کی اس سے پہلے شناخت اور معرفت یاد رکھ سکتا ہو۔ ذکر اس معنی میں حفظ کے مانند ہے اس فرق کے ساتھ کہ ذکر اس جگہ استعمال ہوتا ہے کہ کوئی بات حافظہ کے خزانہ میں موجود ہونے کے علاوہ اس کی نظر میں بھی حاضر ہو، کبھی سے مراد دل وزبان پر کسی مطلب کا حاضر ہونا ہے اور اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ذکر کی دوقسم ہے قلبی اور لسانی۔(٣) اس بنا برایمان کی تربیت کا ایک دوسرا شیوہ ذکر ہے کہ جو خدا کے قطعی اور یقینی حضورکی انسان کے نزدیک تقویت کرتا ہے۔ زبانی اذکا ر جو اسلامی تعلیمات میں وارد ہو ئے ہیں اس لئے ہیں کہ وہی حضور قلبی کی حالت انسان میں ایجاد کریں ہے۔البتہ اذکار کی تربیتی تاثیرسے بھی غافل نہیں ہو نا چاہئے ؛کیونکہ معین باتوں کو زبان پر لانا تلقین نفس سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اُس کے متقضیٰ سے انسان کے ضمیر میں ایک تبدیلی ایجاد کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے غیرہو شیار ضمیر کی راہ ورود کے سلسلے میں ذکر کیا ہے، یہ شیوہ اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ مور دتوجہ واقع ہوا ہے اور ہماری پوری زندگی خواب وبیداری، کام اور راحت، خوشی اور غم سب کے وقت خدا پرستانہ اذکا ر اور تلیقنات سے بھری پڑی ہے جو ہم میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ علل الشرائع ص٢٥٦۔ ٢۔ بحار الانوار ج١٠٣ ص١٨۔ ٣۔(مفردات )

۲۵۹

یومیہ نمازیں (نافلہ اور فریضہ ) ان کے مقدمات اور تعیقبات مخصوص اذکار کے ساتھ، کاموں کا آغاز ''بسم اللّٰہ'' سے اور ہر کام کا خاتمہ ''الحمد لِلّٰہ''سے اور دیگر اذکار کہ جو گھر سے نکلتے وقت، کام کی جگہ میں داخل ہو تے وقت، مسجد میں وارد ہونے کے وقت... یہ ساری تلقینیں پوشیدہ اور آشکاراذکار کی صورت میں صاف وشفاف اور زلال بارش کے مانند مومینن کے قلب وروح کو بارآورکرکے ایمان وفضلیت کے ثمرات اُن کے اختیار میں قرار دیتے ہیں۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زبان کے اذکارقلب کو زیادہ سے آمادہ کرتے ہیں، امام خمینی اپنے استاد کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہمارے عارف کامل شیخ (استاد ) جناب شاہ آبادی (روحی فداہ)فرماتے تھے: ذاکرانسان ذکرمیں اُس انسان کے مانند ہے جو چھوٹے بچے کو کہ جس نے ابھی ڈھنگ سے بولنا نہیں سیکھا ہے اُسے اگرکوئی کلمہ یاد کراتا ہے تو اُس کی تکرار کرتا ہے تاکہ اُس کی زبان کھل جائے اور کلمہ کو ادا کرے اورجب وہ کلمہ اداکردیتاہے تو معلم بچہ کا اتباع کرتا ہے اور اس تکرار کی تھکن ختم ہو جاتی ہے گویا کہ اُسے بچہ سے مددملتی ہے، یہی صورت ہے اس کی جو ذکرکرتا ہے اُسے چاہئے کہ اپنے دل کو کہ جس نے زبان ذکر نہیں کھولی ہے ذکر کی تعلیم دے اور ان اذکار کی تکرار میں نکتہ یہ ہے کہ ز با ن دل کھل جائے اور زبان قلب کے کھلنے کی علامت یہ ہے کہ زبان، دل کی تبعیت کرتی ہے اور تکرا ر کی زحمت اور تھکن بر طرف ہو جاتی ہے۔(١)

پس اے عزیز!ذکرو یاد محبوب کے راستہ میں تونے جتنی زحمتیں برداشت کی ہیں کم ہیں، دل کو یاد محبوب کی عادت دے، بلکہ خدا کی خواہش اور مرضی سے قلب کی صورت ذکر حق کی صورت ہوجائے اور کلمۂ ''لاالٰہ الا اﷲ'' کمال نفس کی انتہاہوجائے کہ اس سے بہتر سلوک الیٰ اﷲکے لئے کوئی زادہ راہ اور نفس کے معایب (عیوب) کے لئے سب سے اچھا مصلح اور معارف الٰہیہ میں بہترین رہبر نہیں ملے گا، لہٰذا اگر صوری اور معنوی کمال کے طالب ہو اور طریق آخرت کے سالک، مسافر و مہاجر الیٰ اﷲہو تو قلب کو محبوب کے ذکر کی عادت دو اور دل کو یاد حق تبارک وتعالیٰ سے عجین کردو(گوندھ دو)(٢)

____________________

١۔ چہل حدیث، ص٢٥٠۔٢۔ چہل حدیث، ص٢٥٠۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296