اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178010 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

الف۔توبہ:

اپنے آپ پر نظارت کی روش میں جب بھی انسان اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہے تو عام طور پر اپنے صحیفۂ اعمال کو اخلاقی رذائل سے آلودہ دیکھتا ہے۔ ایسی صورت میںاگر ان برائیوں سے الگ اورجدا ہونے کی کوئی راہ اورامید نہ ہو تو انسان بدبختی اور شقاوت کے بھنور میں مکمل طور پر پھنس جائے گا، اورنا امیدی اور رذائل کے ہلاکت بار گڑھے میں گرجائے گا، اس کے علاوہ روحی اور نفسیاتی اعتبار سے گناہ کے اندر اسی حالت پیدا کرتا ہے کہ اگر رذائل نہ ہوں تو آئندہ مواقع پر اور بھی زیادہ گناہوں کے ارتکاب کرنے پر آمادہ ہوجاتاتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے اعمال کی غیر ارادی بنیادوں کے لحاظ سے ضروری ہے جیساکہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

''جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اُس کے دل میں سیاہ نقطہ ایجاد ہوجاتا ہے، پس اگر توبہ کرلیتا ہے تو مٹ جاتا ہے اوراگروہ گناہ جاری رکھا تو سیاہی اس کے پورے دل کوڈھانپ لیتی ہے اور کامیابی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے''۔(١)

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''گناہ'' کے مختلف مفاہیم ہیں:

نافرمانی اور بے وفائی کا احساس، اپنے آپ کو صدمہ پہنچانا، روح کو خراش لگانااور سزا کا مستحق ہونا۔ اگر یہ احساس گناہ انسان کی روح پر غالب آجائے اور سلسلہ باقی رہے، تو ذہنی افسردگی کا پیش خیمہ ہوگا اور انسان کو ہر قسم کی اپنی معنوی تعمیر اور اخلاقی فضائل کسب کرنے سے روک دے گا، اس وجہ سے توبہ اپنی ازسرِنو تعمیر کے لئے دوبارہ بازگشت کو کہتے ہیں، وہ تجدید اعمال کے لئے صاف وروشن نامۂ اعمال کے ہمراہ رحمت خداوندی کی امیدوار، منقلب، پختہ ارادہ کی مالک تعمیر کرتی ہے اور یہ توبہ وہی خدا کا لطف اور اس کی رحمت ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ کے بقول ''توبہ اﷲ کی رسی اور عنایت ربوبی ہے، لہٰذا بندے ہمیشہ توبہ کی کوشش کریں اور ہر گروہ کا ایک خاص توبہ ہے......''۔(٢)

____________________

١۔''اذا أذنب الرجل خرج فی قلبه نقطة سوداء فان تاب انمحت وان زاد زادت حتّی تغلب علی قلبه فلا یفلح بعدها ابداً' '(کافی ج٢ص ٢٧١)۔

٢۔ مصباح الشریعة ص ٩٧۔

۲۴۱

توبہ درحقیقت اپنے اوپر نظارت ہے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اپنے نفس سے جہاد کرو اورتوبہ کو مقدم رکھو تاکہ اپنے رب کے مقام طاعت تک پہنچ جائو''۔(١)

یہاںپر توبہ سے مراد راہ خطا اور عمل خلاف سے حسرت وندامت کے ساتھ واپس آنا ہے، یہ حسرت وندامت ہی کی آگ ہے جو اخلاقی گراوٹ اور پستی سے پاکسازی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے اورایسا سوز وگذار ہے کہ جو انسان کے ذہن میں عفو وبخشش کا مزہ شیریں بناتی ہے اورطراوت، تازگی، طہارت وپاکیزگی کو انسان کے اندر وجود بخشتی ہے، ہر ابتدا اور ہر قدم کے لئے اپنی تربیت کے سلسلہ میں توبہ لازم ہے تاکہ وہ انسانی عزّت وکرامت کا احساس واپس آجائے، '' اپنے متعلق اپنے قیمتی تصوّرات کا مشاہدہ کرے اور اخلاقی تربیت کے لئے آمادہ ہوجائے۔

''گناہوںکے اشجار کو اپنے قلب ونگاہوں کے سامنے قرار دیتے ہیں اور آب ندامت سے اُس کی آبیاری (سینچائی) کرتے ہیں، پھر صحت وسلامتی، رضا وکرامت کا پھل حاصل کرتے ہیں''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''جب کوئی بندہ واقعی (نصوح، خالص) توبہ کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہوجاتا ہے اورخداوندعالم دنیا وآخرت میں اس کے گناہ کو پوشیدہ کردیتا ہے....... وہ دو فرشتے جو نامہ اعمال کو ثبت کرتے ہیں انھیں غافل بنا دیتا ہے اور اعضا وجوراح کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گناہوں کو مخفی رکھیں اور زمین کے مختلف حصوں سے کہتا ہے کہ وہ سارے گناہ جو تم پر انجام دئے ہیں انھیں نظر انداز کردو، پھر خدا سے وہ ایسی حالت میں ملاقات کرتا ہے کہ ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جو اس کے گناہوں کی گواہی دے''۔(٣)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''توبہ دلوں کو پاک کرتی ہے اورگناہوں کو دھودیتی ہے''۔(٤)

____________________

١۔ غررالحکم۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص٧٢۔

٣۔ کافی ج٢ص٤٢٣۔

٤۔ ''التوبة تطہر القلوب وتغسل الذنوب''۔(غرر الحکم، فصل٥،ص١٩٥)۔

۲۴۲

امام خمینی بھی توبہ کے بارے میںبیان کرتے ہیں:

توبہ نام ہے نفس کا مادیت روحانیت کی طرف رجوع کرنے کا، جبکہ گناہوں اور نافرمانی کی کدورت کے ذریعہ روحانیت (معنویت) اورنورانی فطرت، طبیعت کی ظلمت میں محجوب ہوجاتی ہے۔ اور اس اختصار کی تفصیل یہ ہے کہ نفس ابتدائے فطرت میں ہر طرح کے کمال، جمال، نور اور درخشندگی اور چمک دمک سے خالی ہوتا ہے، جس طرح سے کہ ان کے مقابل ومخالف صفات سے بھی خالی ہوتا ہے، گویا ایک ایسا صفحہ ہوتا ہے جو مطلق نقوش سے خالی ہوتا ہے، جس میں نہ کوئی روحانی اورمعنوی کمالات پائے جاتے ہیں اورنہ ہی صفات اضداد سے متصف ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقام ومنصب کے حصول کی استعداد ولیاقت کا نور اُس میں بطور ودیعت رکھا گیا ہے اور اس کی فطرت استقامت پر ہے اور اس کا خمیر انوار ذاتیہ سے گوندھا ہوا ہے اورجب معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تواس کے ذریعہ اُس کے دل میں ایک کدورت پیدا ہوجاتی ہے اورگناہ جس قدر زیادہ ہوتے ہیں، کدورت اور ظلمت بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ دل بالکل ہی تاریک اور ظلمانی ہوجاتا ہے (یعنی گناہوں کی کثرت سے دل میں سیاہی اور ظلمانی پردہ حائل ہوجاتا ہے پھر اُس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی) اور نور فطرت خاموش ہوجاتا ہے اور ابدی شقاوت وبد بختی تک پہنچ جاتا ہے، اگر ان حالات کے دوران، دل کے تما م صفحہ پر ظلمت کے چھانے سے قبل خواب غفلت سے بیدار ہوجائے توپھر بیداری کی منزل کے بعد توبہ کی منزل میں وارد ہو جاتا ہے اور طبیعی کدورت اصلی نور فطرت اور ذاتی معنویت کی طرف واپس ہوجاتی ہے گویا کہ تمام کمالات اور اس کی اضداد سے خالی ایک صفحہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے: ''التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔۔۔''۔گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے مانند ہے۔(١)

اس بات کے لئے کہ انسان توبہ کرے اورمایوسی وناامیدی اس پر غالب نہ آئے، توبہ کی طرف دعوت دینے والی آیات کو پے درپے پڑھنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ خداوندعالم کی عفو و بخشش اور رحمت ورأفت کا دامن نہایت وسیع ہے:

(وَتُوبُوا اِلَی اللّٰهِ جَمِیْعاً اَیُّهَا المؤمِنُونَ لَعَلَّکُم تَفْلِحُون )(٢)

''اور اے صاحبان ایمان! تم سب اﷲ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہو کہ شاید اسی طرح تمھیں فلاح اور نجات مل جائے''۔

____________________

١۔ چہل حدیث ص٢٣١، ٢٣٢۔

٢۔ سورہ ٔنور آیت٣١۔

۲۴۳

(قُل یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اسْرِفُوا عَلیٰ أنفسِهِمْ لَا تَقْنُطُوا مِن رَحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمِ ۔)(١)

''پیغمبر! آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا، بے شک اﷲ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے''۔

(یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوبَةً نَّصُوحاً عَسیٰ رَبُّکُم اَنْ یُکَفِّرَ عنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ )(٢)

''اے ایمان والو! خلوص دل کے اﷲ سے توبہ کرو عنقریب تمھارا پروردگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا''۔

ان باتو ںکو بھی جا ن ودل سے سماعت فرمائیں:

...بالفرض اس فرض کی بنیاد پر ہے کہ اہل نجات اور اس کی عاقبت سعادت ہو پھر بھی اُس عالم میں گناہوں کی تلافی کوئی آسان کام نہیں ہے،پہلے شدائد، زحمات ومشکلات کا برداشت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان شفاعت کے قابل بنے اور ارحم الراحمین کی رحمت اُس کے شامل حال ہوجائے، پس اے عزیز!جتنا جلدی ممکن ہو کمرہمت کس لو اورعزم کو محکم اور ارادہ کو قوی کرلو اورگناہوں سے توبہ کرو کیونکہ ابھی جوانی کی عمر یا دنیاوی زندگی میں ہو، اور خداداد فرصت کو ہاتھ سے نہ گنوائو اور شیطانی دھوکوں اور نفس امارہ کی چالوں پر توجہ نہ دو۔(٣)

فرعون کے جادوگروں نے ایک دلیرانہ قدم اٹھایا اور توبہ کرلیا اوربارگاہ الٰہی کے مقربین کے درجہتک پہنچ گئے ابراہیم ادہم، فضیل بن عیاض، حربن یزیدریاحی، جابر جعفی اور بدھ واقعی منقلب ہونے والوں کے نمونے ہیں۔

توبہ کرن یکے بعد اس کے استحکام کے لئے اور گذشتہ گناہ کی تکرار نہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل باتوں کو یاد رکھیں: پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''گناہ سے توبہ یہ ہے کہ پھر اس کی طرف واپس نہ آ ئے''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔزمر آیت٥٣۔

٢۔ سورہ ٔ :تحریم آیت٨۔

٣۔ چہل حدیث ص ٢٣٣، ٢٣٤۔

٤۔ نہج الفصاحةحدیث ١٢١١۔

۲۴۴

''خداوند سبحان کے نزدیک توبہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نادانی اور جہالت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں کہ خداوندکریم ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اور خداوند متعال علیم دانا اور حکیم ہے''۔(١)

''وہ لوگ وہ ہیںکہ جب برا کام کرتے ہیں، یا اپنے نفس پر ستم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں، کون ہے خدا کے سوا جو گناہوں کو بخش دے؟ اورجو گناہ وقصور (ناگہانی) کر بیٹھے ہیں اس پر جان بوجھ کراصرار نہیں کرتے ''۔(٢) تمام متعلق اور مربوط امور میں اصلاح اور تبدیلی: ''مگر جن لوگوں نے توبہ کیا اور اپنے عمل کی اصلاح کی اور خدا سے تمسک رکھا اور اپنے دین کو خدا کے لئے خالص طور پر اختیار کیا تو نتیجہ کے طور پر وہ لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور عنقریب خداوند عالم مومنین کو اجر عظیم جزا دے گا''۔(٣)

خود کو خدا کے حضور میں تصور کریں اوریہ جانیں کہ خدا ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے:

ایک حبشی شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور بولا: اے رسول خدا! میں ایک بُرے کام کا مرتکب ہوا ہوں، آیا میرے لئے توبہ ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر وہ چلا گیا مگر تھوڑی ہی دیر بعد واپس آکر بولا: اے رسول خدا! آیا اس وقت خدا نے مجھے دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر اُس حبشی نے اس طرح چیخ ماری کہ روح اس کے جسم سے نکل گئی۔(٤)

آخری نکتہ:

توبہ کے بعد اپنے آپ پر نظارت اور تحفظ کے لئے اپنے آپ سے عہد کرے اور مشارطہ کرے۔

مشارطہ یہ ہے کہ پہلے دن مثال کے طو رپر اپنے آپ سے شرط کرے کہ آج خداوند عزوجل کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا اور اس بات کا عزم بالجزم کرے اور معلوم ہے کہ ایک دن خلاف ورزی نہ کرنا، بہت آسان امر ہے اور انسان آسانی سے عہدہ بر آہو سکتا ہے، تم عازم ہوکر شرط کرو اورتجربہ کرو تودیکھو گے کہ کتنا آسان ہے۔ ممکن ہے کہ شیطان اور اُس ملعون کالشکر تم پراس امر کو بہت سخت دکھائے، لیکن یہ اُس ملعون کا دھوکا ہے۔ اُس پر دل سے حقیقتاً لعنت کرو اور باطل اوہام وخیالات کو دل سے نکال دو اور ایک دن تجربہ تو کرو، اس وقت اس کی تصدیق کروگے۔(٥)

____________________

١۔ سورہ ٔنسائ آیت١٧۔ ٢۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٣٥۔ ٣۔ سورہ ٔنساء آیت١٤٦۔٤۔ احیاء العلوم، ابو حامد غزالیج٤ص١٥۔ ٥۔ چہل حدیث ص٨۔

۲۴۵

یہ مشارطہ اور معاہدہ کلی طور پر ہفت گانہ اعضا (آنکھ، کان، زبان، شکم، دامن، ہاتھ اور پائوں) کے ساتھ ہو یا یہ کہ ایک ایسی خالص اخلاقی رفتار یا خاص صفت سے متعلق ہو کہ انسان جس سے دوچار ہے، بہتر ہے کہ یہ مشارطہ پہلے ہی دن انجام دیا جائے۔ ملا مہدی نراقی اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت تمثیل پیش کرتے ہیں:

''جان لوکہ عقل آخرت کی راہ میں ایک تاجر کے مانند ہے جس کا سرمایہ اور پونجی عمر ہے اور اُسے وہ نفس کی مدد سے استعمال کرتا ہے کہ اس لحاظ سے عقل کے شریک کی مانند ہے کہ اُس کے مال میں تجارت کرتا ہے اور اس تجارت کا فائدہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا حصول ہے کہ انسان کو دائمی سعادت اور ابدی نعمت کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ اُس کا نقصان اس صورت میں ہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہوں کہ جو دوزخ کے دردناک عذاب تک منتہی ہوجاتے ہیں... اور اس تجارت کی مدت پوری عمر ہے۔ جس طرح تاجر کی ابتدا میں اپنے شریک سے مشارطہ ومعاہدہ کرتا ہے پھر اس کا مراقب اورنگران ہوجاتا ہے اور آخر میں اس کا محاسبہ کرتا ہے اور ممکن ہے کہ اُس سے تاوان بھی مانگ لے، اسی طرح عقل کو بھی اپنی نفس کے ساتھ مشارکت میں ان امور کی رعایت کرنی چاہئے''۔(١)

ب۔مراقبہ:

امام خمینی اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:

'' ایسا ہے کہ تمام شرط کی مدت میں اس پر عمل کر نے کی طرف متوجہ رہو اورخود کو اُس پر عمل کرنا لازم سمجھواور اگر خدانخواستہ تمھارے دل میں خیال آئے کہ ایسے کے مرتکب ہو رہے ہو جوکہ حکم خداوندی کے خلاف ہے تو جان لو کہ یہ شیطان اور اس کے لشکر کی طرف ہے وہ چاہتے ہیں کہ جو تم نے شرط کی ہے اُس سے روک دیں اُن پر لعنت کرو اور اُن کے شرّ سے خدا کی پناہ مانگو اور باطل خیال کو دل سے نکال دو اور شیطان سے کہو کہ ایک دن میں نے خود سے شرط کی ہے کہ خدا کے حکم کے خلاف نہ کروں لیکن ولیّ نعمت نے سالوں سال سے مجھے نعمت دی ہے، صحت، سلامتی اور امنیت مرحمت فرمائی ہے کہ اور اس نے مجھ پر ایسے لطف کئے ہیں کہ اگر تاابد اس کی خدمت کروں تب بھی ان میں سے کسی ایک کا حق ادا نہیں کرسکتا ، لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ ایک معمولی سی شرط کو بھی وفا نہ کروں... یہ مراقبہ تمہارے کاموں میں بھی جیسے کسب اورکمائی ، تعلیم وتعلم اور مسافرت، کسی ایک سے بھی منافات نہیں رکھتا ہے اور اسی حال پر رات تک باقی رہو کہ وہ محاسبہ کا وقت ہے...۔(٢)

____________________

١۔ جامع السعادات ج٣ص٩٣۔ ٢۔ چہل حدیث ص٨۔٩۔

۲۴۶

حضرت حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''سزاوار ہے کہ انسان اپنے نفس پر حاکم، قلب کا نگراں اور زبان کا محافظ ہو''۔(١)

حضرت امام حسین ـ نے فرمایا: ''تین چیزیں اگر ہرمومن میں پائی جائیں تووہ خدا کی پناہ میں ہے... (تیسرے یہ کہ) اپنے نفس سے محاسبہ کرے اور اُس وقت تک اپنے ہاتھ پائوں کو حرکت نہ دے جب تک یہ نہ جان لے کہ خدا کی راہ میں قدم اٹھایا ہے یا اُس کی نافرمانی کی راہ میں اور یہ کہ اپنے بھائی کے کسی عیب پر ملامت نہ کرے مگر یہ کہ خود اُس کا ترک کرنے والاہو''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''اُس بندہ پر آفرین ہو جو اپنے نفس سے جہاد کے لئے قدم اٹھائے، جو انسان ہوائے نفس کے سپاہیوں کو مغلوب بنادے اُس نے رضائے خداوندی کاراستہ پا لیا ہے اورجس شخص کی عقل کو شش وتلاش کے ساتھ نفس امارہ پر غلبہ کرے اورخضوع وخاکساری کے ساتھ عقل کی خدمت میں پہنچے تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کی ہے، خود نفس اور ہوائے نفس سے زیادہ تاریک اوروحشتناک خداوند متعال اوربندہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے اور اُس سے مقابلہ کے لئے خدا کی درگاہ میں احتیاج اوراس کے لئے خضوع وخشوع، دن میں بھوکا اور پیاسا رہنے اور تہجد کے علاوہ کوئی تیزتر اسلحہ نہیں ہے، لہٰذااگر راہ جہاد میں مرگیاتو وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اوراگر زندہ رہ گیا اور ثبات وپائداری کا ثبوت دیا تو نتیجہ میں ''رضوان اکبر''کے حاصل کرے۔ خداوند عزّوجل فرماتا ہے:

(وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُم سُبُلَنَا، وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(٣)

'''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اﷲ حسن عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔

____________________

١۔ غرر الحکم۔

٢ بحار الانوار ج٧٨ص ١٤١۔

٣۔ سورہ ٔعنکبوت آیت ٦٩۔المحجة البیضاء ج٨ص ١٧٠۔

۲۴۷

لہٰذا مراقبہ اعضائے ہفتگانہ کے عمل کرنے کے وقت انسان کا فعّالانہ حضور ہے ، عمل سے پہلے فکر و تامل کے ساتھ اپنی نیت اور مقصد کی نسبت توجہ اورمراقبت کرے، عمل کے وقت مراقبت کرے کہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اخلاقی اقدار اور الٰہی تعلیمات کے خلاف کوئی عمل اُس سے سرزد ہوجائے اورعمل کے بعد بھی مراقبت کرے کہ اس کے خاص آثار جیسے ریا، منّت، اذیت وغیرہ اس سے صادر ہوکر عمل کو ضائع نہ کریں یہاں پر اگر اس کی نظر میں کوئی خاص اخلاقی صفت ہو تو وہ مراقبہ کو اسی صفت پر یا اس کے مناسب اعمال پر مرکوز کردے ، اس لحاظ سے اپنے آپ پر نظارت کا اساسی مرحلہ یہی مراقبہ ہے۔

مراقبہ کے سلسلہ میں اہم نکتہ یہ ہے کہ آغاز امر میں اپنے اوپرزیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے اورعمل کے جزئیات اورظرائف کو بھی انجام نہیں دینا چاہئے ، یہ رویہ موجب ہوگا کہ اُس کی سختی اُسے اس عظیم جہاد سے روک دے گی، آغاز کار میں اُسے چاہئے کہ صرف اپنے بارے میں حلال وحرام کے سلسلہ میں نفرت کا اظہار کرے یا ایک اخلاقی رذیلت کی نسبت اپنا محاسبہ کرے تاکہ بعد کے مراحل میں خلوص نیت اور اُس سے بالاتر مراقبہ مراتب پر عمل کرے ۔

توجہ رکھنی چاہئے کہ خداوندعالم پر ایمان کی پشت پناہی کے بغیر مراقبہ بہت دشوار اور مشکل ہے، ایک بصیر وناظر کے حضور پر یقین واعتقاد ہی مراقبہ کو آسان کرتا ہے اور یہ بات ایمان کی تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔

ج۔محاسبہ:

یعنی کوئی وقت معین کرے (بہتر ہے کہ سونے سے قبل ہو) اور روزانہ کے اعمال کا حساب وکتاب کرے، اگر یہ محاسبہ انجام نہ پائے تواپنے آپ پر نظارت اور مراقبہ آئندہ ایّام میں عملی طور پرممکن نہیں ہوگا۔

''اے صاحبان ایمان! خدا سے ڈرو اورہرانسان کو غور کرنا چاہئے کہ اپنے کل (آئندہ) کے لئے پہلے سے کیا بھیجا ہے''۔(١)

''تم لوگ اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو ، خدا تمہارا ان سب کے سلسلہ میں محاسبہ کرے گا''۔(٢)

''حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں اس طرح مذکور ہے: عقلمندانسان جب تک کہ اس پر اس کی عقل حاکم ہے اس کو چاہئے کہ اپنے لئے چار اوقات معین کرے... اورایک ساعت اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے لئے معین کردے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔحشر آیت١٢۔

٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت٢٨٤۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٧١۔

۲۴۸

''اپنے نفس کو محاسبہ کے ذریعہ کنٹرول کرو اور اس (نفس) کی مخالفت کرکے اُس کے مالک ہوجائو''۔(١)

''اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارامحاسبہ کیا جائے اورخود کو بھاری اورہلکا کرو قبل اس کے کہ اس کا وزن دیکھیں اور اپنے اعمال کو پیش کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو''۔(٢)

عاقل انسان کے لئے مناسب ہے کہ اپنی برائیوں کا دین، اعتقاد، اخلاق وادب کے اعتبار اپنے نزدیک حساب کرے پھر انھیں سینوں میں یا کسی کاغذ پر محفوظ کرے اور ان کی اصلاح کرے۔

محاسبہ کی ترکیب اس طرح ہے کہ دن کی ابتدا سے شروع کرے اور جوکچھ اُس سے اعمال سرزد ہوئے ہیں ان کی جانچ کرے کہ آیا اخلاقی معیار کے مطابق ہیںیا نہیں ؟ آیااُن کے اندر خدا کی رضایت اورخوشنودی پائی جاتی ہے... ؟ حضرت امیر المومنین علی ـ سے سوال کیا گیا: انسان کس طرح اپنا محاسبہ کرے؟ فرمایا:

''جب صبح کو بیدار ہو تواُس وقت سے عصر تک اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور کہے: اے نفس! آج کا دن ایسا دن تھا جو تم پر گذر گیا اوردوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور خدا اُس سے متعلق تم سے بازپرس کرے گا کہ تم نے اس کو کس طرح سے گذارااور اس میں کونسا عمل انجام دیا آیا خدا کی یاد اوراس کے شکرانہ میں مشغول تھے؟ آیا اپنے مومن بھائی کا حق ادا کیا؟ آیا اس کی مشکلات کو برطرف کیا؟ آیا اس کی غیبت میں اُس کے اہل وعیال کی سرپرستی کی؟ آیامرنے کے بعد اُس کے ورثاء کی نسبت مہربان رہے ہو؟ آیا اپنی موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برادرمومن کی غیبت سے روکا ہے؟ آیا کسی مسلمان کی مدد کی ہے؟ اس دن تم نے کیا کیا؟ پھر دل میں سوچے جو کچھ اُس سے سرزد ہوا ہے: اگر نیک اورخیرکام تھے، تو خدا کی حمد وستائش کرے اور اس توفیق پر اس کی تعریف وتمجید کرے۔ اگر گناہ اورکوتاہی اُس سے سرزد ہوئی تو خدا سے طلب مغفرت کرے اوراُسے ترک کرے اور توبہ کرے۔اخلاقی تربیت سے متعلق محاسبہ نفس بہت سے آثاراور فوائد کا حامل ہے کہ ان میں سے بعض فوائد اپنے ناپسند صفات و عیوب سے واقف ہونا اور گناہوں سے خالی ہو نا اوراصلاح وسعادت کی راہ ہموار ہیں۔

اسی طرح بھولنا نہیں چاہئے کہ اگرمحاسبہ کچھ سخت معلوم ہو ، تو اُس پر مجاہدہ (جہاد بالنفس) کے ذریعہ غالب آجانا چاہئے اور اس کے آثار و فوائد کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ پھر کچھ مدت بعد روزانہ ایٹومیٹک صورت میں دن بھر یہ محاسبہ اور مراقبہ انجام پائے گا اور رات کے لئے کوئی کام نہیں رہ جائے گا ۔

____________________

١۔ غررالحکم۔ ٢۔ بحار الانوار ج٧٠ ص٧٣۔

۲۴۹

امام موسیٰ بن جعفر ـ نے فرمایا ہے:

''جو شخص روزانہ اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے، لھٰذااگراُس نے کو ئی اچھااور نیک کام کیا ہے تو خدا سے اس کی زیادتی کی دعا کرے اور اس کی حمدوستائش کرے اور اگر برا کام کیا ہے تو خداسے مغفرت طلب کرے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرے''۔(١)

د۔معاقبہ:

محاسبہ کے بعد قانون تقویت (فعال ماحول سازی ) کے مطابق ان مقامات پر جہاں انجام دیئے گئے اعمال اخلاقی معیار کے مطابق تھے اس کے لئے ایک جزا معین کرے (جیسے مناسب تفریح وگردش، اچھی غذا...) اور اگر اس کے برخلاف ہو تو اُس کے لئے مناسب سزا تجویز کرے، جیسے یہ کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو سرز نش اور ملامت کرے اس کے بعد مشقت آمیز اعمال کو برداشت کرے ؛جیسے روزہ رکھے یا خود کو وقتی طور پر بعض لذیذ چیزوں اور عطیوں سے محروم کرے۔ان موارد میںبرے عمل سے مشابہت کا لحاظ کیا جاسکتا ہے؛ مثال کے طورپر حرام غذا ئوں سے پرہیز نہ کرنے کے سلسلہ میں، خودکو بھوکا رکھے اور نا محرم کی طرف نگاہ کرنے کے سلسلہ میں بعض پسند یدہ اور محبوب امورکو دیکھنے سے اپنی آنکھ کو (جسے ایک جالب نظرفیلم دیکھنے سے ) دور کرے اور اگر زبان سے متعلق ہو تو اُسے سکوت کے ذریعہ سزادے اور اگر کسی کو رنج پہنچا یا ہو تو اس کے پاس جائے اور اُس سے عذر خواہی کرکے اپنے آپ کو ذلیل وخوار کرے...۔ مجازات معاقبہ پر جو کہ جہاداکبرہے ضرور بالضرور عمل کریںورنہ انسان کے لئے برے اعمال اور اخلاقی رذائل آسان ہو جائیں گے اور وہ اُن سے اس حدتک مانوس ہو جائے گاکہ اس کا ترک کرنا مشکل اور دشوار ہو جائے گا۔ حضرت علی ـ نے فرمایا: ''سب سے بڑاجہاد نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اور اسے دنیاوی لذّتوں سے بازرکھنا ہے ''۔(٢)

''جان لوکہ جہاد اکبر نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا ہے لہٰذا اس جہاد میں مشغول رہو تاکہ کامیابی کی سعادت نصیب ہو''۔(٣)

آخرمیں دوباتوں کی یاد دہانی ضروری اور لازم ہے: اوّل یہ کہ اپنے آپ پر نظارت کی بحث میں آداب ورسوم (عرفی عادات ) اصول اور افعال اخلاقی کے درمیان فرق رکھنا چاہئے: اول کلیت نہیں رکھتے لہٰذاان کی ہمیشہ مراعات کرنا ضروری نہیں ہے ؛بر خلاف دوسرے کے۔دوسرے یہ کہ تقویت ارادہ کی ترکیبوں سے استفادہ کرنا اپنے آپ پر نظارت کرنے کی کامیابی میں بہت زیادہ موثرہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ،ج٧٠ ،ص٧٣۔٢۔ غررا لحکم، فصل١، ص١٤٢۔٣۔ غررا لحکم، فصل ٧، ص٢٢٦۔

۲۵۰

۲:۔ ایمان کی تربیت

ایمان ایک قلبی حالت اور روحی اثر ہے کہ جس کی تاثیر افکار، احساسات اور اعمال میں آشکارہو تی ہے۔ حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں:

''الایمان ما کان فی القلب والاسلام ما علیه التناکح والتوارث ''(١)

''ایمان وہ ہے جو دل میں ہوتا ہے اور اسلام وہ ہے جو جس پر تناکح وتوازث ہوتا ہے''۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''الایمان قول مقول وعمل معمول وعرفان العقول ''۔(٢)

''ایمان وہ قول جو بولا جاتا ہے اور وہ عمل ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور عقلوں کی معرفت ہے''۔

خداوندمتعال روز قیامت، ملائکہ یا تدبیرعالم کے مامورین پر ایمان رکھنے سے (کہ یہ سب ایمان بالغیب کے مصداق ہیں) انسان کی معرفتی، عاطفی، اور اخلاقی جہات تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس نظر جسمانی، کمّی اور فائدہ طلب محاسبات کے حدود میں محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ اُس کی یہ فکر، یہ نظر اورخدا شناسی اس کی باطنی استعدادوں کی بالیدگی کا سبب بنتی ہے اور اس کے وجود کی وسعت کو کمال مطلق کے امتداد میں محقّق بناتی ہے۔ ایک بے کراںاور لامتناہی علیم وقدیر وجود مقدس کے سامنے حضور کاا حساس انسان کے اخلاقی کنٹرول اور تربیت میں ایک اہم عامل ہوگا، لہٰذا ایمان کی پرورش انسان کے پورے وجود میںبہت سے قوی وسائل انسان کے پورے وجود میں(جوکہ وہ اختیار میں رکھتی ہے، اخلاقی تربیت کو آسان بنادیتی ہے، بلکہ خود انسان کے وجود میں مکارم اخلاق کو پیدا کرتی ہے۔

____________________

١۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٠۔

٢۔ میزان الحکمةج١ ص٣٠٢۔

۲۵۱

الیکس کارل انسان کے مذہبی ایمان اور اخلاقی پہلو کے رابطہ کی اس طرح منظر کشی کرتا ہے:

اخلاقی اور مذہبی افعال عملی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اخلاقی احساس، عرفانی احساس کے ختم ہونے کے بعد دیر تک باقی نہیں رہتا انسان مذہب سے مستقل اور الگ ایک اخلاقی سسٹم بنانے میں جیسا کہ سقراط نے چاہا تھا کامیاب نہیں ہوا ہے ، وہ سماج اور معاشرہ جس نے دعا اور راز ونیاز کو اپنے اندر ترک کردیا ہے عام طور پر فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہے گا۔ لہٰذا بے ایمان (نام نہاد)متمدن افراد دیندار لوگوں کی طرح فریضہ رکھتے ہیں کہ اپنے باطنی افعال کے رشد کے مسئلہ میں کہ جو ایک انسانی وجود کا لازمہ ہے، دلبستگی پیدا کریں۔(١) علامہ طباطبائی اخلاقی اسلوب وطریقے کی توضیح میں، تین مسلک کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پہلا مسلک:

دنیوی صالح غایات کی راہ سے تہذیب ہے کہ یہی یونانی فلاسفہ کا عقلی مسلک ہے۔

دوسرا مسلک:

اخروی غرض وغایت کے لحاظ سے تہذیب ہے جیسے حور، قصور، بہشت ودوزخ و۔۔۔ کہ اس کے سلسلہ میں قرآنی آیات بہت زیادہ ہیں اور انبیاء کا تربیتی طرز عمل بھی اسی روش پر رہا ہے۔

تیسرا مسلک:

یہ قرآن کریم سے مخصوص ہے کہ ایک طرح سے ایمان کی پرورش اور معارف الٰہی سے استفادہ کے ذریعہ اخلاقی رذائل کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکتا ہے... جو عمل بھی انسان انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور غایت یا اُس میں عزت کا حصول مطلوب ہے یا وہ قدرت ہے جس سے ڈرتا ہے۔ لیکن خداوند سبحان فرماتا ہے: (اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعاً )(٢) تمام عزت اﷲ کے لئے ہے اور فرماتا ہے ۔

(اِنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعاً )(٣) تمام قدرت اﷲ کے لئے ہے ۔اگر یہ معرفت اور یقین محقق ہوجائے تو ریا، سمعہ، (دکھاوا)، خدا کے علاوہ سے خوف، خداکے سوا کسی اور سے امید نہ رکھنے، اس کے علاوہ پر تکیہ کرنے کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی، یہ دو جملے جب بھی انسان کو معلوم ہوجائیں ( قلبی یقین کی حد میں) تمام اخلاقی ورذیلت کو انسان سے پاک کردیتے ہیں( خواہ صفت) ہو یا فعل اور اس کے مقابل اخلاقی فضائل جیسے تقوائے الٰہی، عزت خدا وندی ، عظمت وشوکت ،بے نیازی اور ربانی ہیبت وغیرہ سے آراستہ کردیتے ہیں۔(٤)

____________________

١۔ نیائش ص٢٨۔ ٢۔سورۂ یونس، آیت٦٥۔٣۔ سورہ ٔبقرہ آیت١٦٥۔ ٤۔ المیزان ج١ص ٣٥٤۔٣٦٠۔

۲۵۲

خداوند ذوالجلال کی وحدانیت پر ایمان رکھنا انسان کے توحید ی مکتب فکر کو تنظیم کرتا ہے اور اسے انسجام بخشتا ہے، اہداف ومقاصد، افکار، عواطف وجذبات، عادات واطوار، افعال، سارے کے سارے ایک ہدف کے تحقّق کے لئے (کہ اﷲ کی حاکمیت اور اس کی رضاہے) ہم آہنگ اور متحد ہوجاتے ہیں اور اس وجہ سے دنیوی، شیطانی اور نفسانی خواہشات ، اہداف کے اسباب ہیں اس لئے کہ وہ غیر خدا کوئی اور ہیں تفرقہ اور اختلاف ، لڑائی جھگڑے ، کینہ وحسد اور دیگر اخلاقی رذائل ۔

اور خداوند عالم رقیب وعقید فرشتوں،پرشکوہ حضور روز قیامت کا یقین اخلاقی مراقبت اورکنٹرول کو انسان کے لئے سہل وآسان بنادیتا ہے اور جس قدر ایمان کی قوت زیادہ ہوگی احساس حضور زیادہ ہوگا اور اخلاقی تربیت آسان تر ہوگی: ''خداوند عالم تم پر ہمیشہ نگہبان ہے''۔(١) انسان کوئی بات نہیں کرتا، مگریہ کہ اس کے پاس ایک مراقب وآمادہ (فرشتہ) ہوتا ہے جسے وہ ضبط وثبت کرتا ہے۔(٢) حضرت علی ـ نے فرمایا:'' خداوند عالم نے ہرعمل کے لئے ثواب اور ہرچیز کے لئے حساب قرار دیا ہے''۔(٣)

علمائے اخلاق کے شیوہ میں بالخصوص غزالی کے زمانے سے اب تک یہ روش بہت مورد توجہ رہی ہے اور اخلاقی کتابوں کاقابل توجہ حصّہ باواسطہ یا بلاواسطہ اس سے مخصوص رہا ہے اس کے علاوہ چونکہ لوگوں کے اخلاق کو

آراستہ کرنااوران کی اصلاح انبیاء کی بعثت کا اصلی وبنیادی ہدف رہا ہے (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔]رسول خدا[) اور انبیاء کی تعلیمات میں اخلاقی پیغامات اور موعظے ان کی سیرت وسلوک کا عظیم باب رہے ہیں لہٰذا پرورش ایمان اور اخلاقی تربیت کے درمیان رابطہ کے اثبات کے سلسلہ میں تفصیل ضروری نہیں ہے۔ درج ذیل احادیث مطلب کی وضاحت کے لئے کافی ہیں:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: ''ایمان حرام امورسے دوری اور دنیوی خواہشات سے پاکیزگی کا سبب ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔنساء آیت١۔

٢۔ سورہ ٔقآیت ١٨۔

٣۔ غرر الحکم۔

٤۔ کنز العمال خ٥٨۔

۲۵۳

''ایمان حلم وبردباری اور جودو بخشش کے سواکچھ نہیں ''۔(١)

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑ وبنیاد یقین، شاخ تقویٰ، کلیاں شرم وحیا، اور اس کا ثمر سخاوت ہے'' (غررالحکم) ''سچائی ایمان کے لئے سر کے مانند ہے''۔(غرر الحکم)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں''مومن کی شادمانی اُس کے چہرہ پر اور غم و اندوہ اس کے دل کے اندر ہوتا ہے، وہ کشادہ سینہ اور خاکسار وخاضع نفس کا مالک ہوتا ہے، فوقیت طلبی کو ناپسند کرتا ہے... اس کا سکوت طولانی ہوتا ہے ، اُس کے اوقات مشغول ہوتے ہیں ، وہ شاکر اورصابر ہوتاہے...''۔(٢)

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: ''تم میں ایمان کے لحاظ سے کاملترین انسان وہ ہے جو سب سے اچھا اخلاق رکھتا ہو'' ۔(٣)

ویکٹورفرانکل ماہر نفسیات اورعلاج معنوی مکتب کا حامل مذہبی ایمان کو جیلوں کے اندر افراد کے اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لئے اہم ترین وسیلہ شمار کرتا ہے، آغاز میں جیلوں کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے:

''...ایک دن ایک پولیس جو کہ ہمارے جیلوں میں کام کررہا تھا اس نے مجھ سے کہا: چھائونی میں انسان مردار کا ایک ٹکڑا گوشت کو تلاش کررہا ہے ، آخرکار اُسے آگ پر چڑھے ایک برتن میں پایا... ہمارے جیل چھائونی آدم خوری سے بھری ہوئی تھی۔(٤) ہم نے تو اسیروں کے جیل میں زندگی گذار دی ہے ، اس وقت ہم ایسے لوگوں کو یاد کرتے ہیں جوکمرہ کمرہ میں جاتے اور دیگر قیدیوں کی دلداری کرتے حتی کہ روٹی کا آخری ٹکڑا بھی انھیں بخش دیتے تھے۔(٥)

انسان کبھی اخلاقی رفتار کی سمت کھینچ کر لے جایا نہیں جاتا بلکہ فیصلہ کرتا ہے کہ اخلاقی رفتار رکھے، وہ اس کام کو میلان کی تکمیل یاوجدان کی آسودگی کے لئے انجام نہیں دیتا ہے، بلکہ اس دلیل اور علت کی وجہ سے کہ جس کا پابند ہے اُس انسان کے لئے جسے دوست رکھتا ہے یااپنے خدا کے لئے انجام دیتا ہے... ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ تمام مقدس افراد کا مقصد اپنے خدا کی خدمت کے سوا کچھ نہیں تھا اورمیں یہ خیال نہیں کرتا کہ ان کااصلی وبنیادی ہدف مقدس ہونا تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ مکتب کمال کو انتخاب کرتے۔(٦)

____________________

١۔ کنز العمال خ٥٧۔ ٢۔ بحار الانوار ج٦٩ص ٤١١۔ ٣۔ بحار الانوار ج٧١ص ٣٨٧۔٤۔ انسان درجستجو ی معنا ص٦٢۔

٥۔ انسان درجستجو ی معنا ص٤٧۔ ٦۔ انسان درجستجو ی معنا ص ١٤٥و١٤٦۔

۲۵۴

اُس نے نیچہ کے جملہ سے استناد کیا کہ اس نے کہا تھا''جس انسان نے زندگی کی کیوں علت دریافت کرلیا ہے وہ ہر کیفیت کے ساتھ نبھالے گا '' فرانکل کہتا ہے: جرمن نازیوں کے جیل میں یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی ہے کہ وہ تمام وہ لوگ جو خیال کرتے تھے کہ ان کو کام اور ذمہ داری انجام دیناہے (اس معنی کے مقابل جس کا وہ اعتقاد رکھتے تھے) انھوں نے زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کا چانس رکھا (بعد میں یہ بات کوریا اور جاپان میں امریکی ماہرین کے ذریعہ ثابت ہوگئی ہے) ۔(١)

امریکا کا عظیم ماہر نفسیات ویلیام جیمزبھی دینی ایمان کے اخلاقی پہلو کی امر سون نامی انسان کے قول کو نقل کرتے ہوئے اس طرح تصویر کشی کرتا ہے:

... آدمی کی روح میں ایک عدالت پائی جاتی ہے کہ جس کی سزا اور جزا قطعی اور یقینی ہے جو شخص آلودگی اور برائی کو اپنے سے دورے کرے تو اس نے پاکی اور خوبی کو حاصل کرلیا ہے اور جو انسان پہلے ہی سے قلبی اعتبار سے اچھا انسان ہو اس کے دل میں خداوندعالم جگہ رکھتا ہے، اس عدالت اور اچھائی دوستی کے ساتھ جو یہ شخص اپنے دل میں رکھتا ہے، خداوند ازلی وابدی ، خدائے عظیم کو اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اگر کوئی دھوکہ دے اور مکر سے کام لے گویااُس نے خود کو دھوکا دیا اور اپنی معرفت بھی نہیں رکھتا ہے، ہر انسان کا باطن بخوبی پہچان لیا جاتا ہے، چور کبھی مالدار نہیں ہوتا اور جوانسان فقرا کی مدد کرتا وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا ہے۔ پتھریلی دیوار کی پشت

سے بھی قتل آواز دیتا ہے یعنی قتل کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

جھوٹ اور ملاوٹ کا ادنیٰ ذرہ بھی اگر کسی چیز میں ہو، مثال کے طور پر خود خواہی کا شائبہ، وسوسہ، تظاہر، ریاتو تمہارے کام کے نتیجہ کو فاسد کردے گا لیکن اگر صداقت اور راستگوئی سے کام لو گے تو ساری چیزیں اور ہرکوئی جاندار ہو یا بے جان تمہاری صداقت کا گواہ ہوگا...۔

عشق، عدالت، محبت، خوش خلقی اور صبر سبھی کا سرچشمہ ایک ہی ہے ، لہٰذا جتنا آدمی ان ''مقاصد''سے دور ہوگا، قدرت ونفرت کے سرچشمہ سے بھی ممکن ہے کہ اس سے فیضیاب ہو، دور ہوجائے گا نتیجہ کے طور پر اس کا وجود بے پناہ اور متزلزل ہوکر تدریجاً کمزوراور معمولی ہوکر ذرّہ اور نقطہ میں تبدیل ہوکر نہایت برائی اور پستی کے ساتھ

____________________

١۔ ا انسان درجستجو ی معنا ص١٥٥۔

۲۵۵

وجہ موت اور نابودی کے گڑھے میں گرجائے گا۔ اس قانون کا فہم وادراک آدمی میں ایسی فکر واحساس پیدا کرتا ہے کہ ہم اُسے احساس مذہبی کے نام سے یاد کرتے ہیںایک عجیب وغریب قوت کہ خود جذب بھی کرتی ہے اور شاد ومسرور بھی کرتی ہے۔ پہاڑوں سے چل کر جو عطر نسیم عالم کو معطر بنادیتی ہے وہ اسی کی ذات سے ہے، آسمانوں اور بلند وبالاپہاڑوں کو عظمت وجلالت وہی عطا کر تا ہے، ستاروں کے سکوت آمیز آواز اُسی کی دین ہے، تمام خوبصورتیاں اور خوبیاں اسی کی ذات سے ہیں، وہ ہے کہ آدمی کو ابدی بنادیتا ہے۔

جب انسان کہتا ہے: ''میرا فریضہ وفریضہ ہے'' جب عشق ومحبت اسے حکم دیتی ہے، جب عالم بالا سے الہام نیک اورعظیم کام کا انتخاب کرتا ہے، ایسے موقع پراس کی روح عالمِ عقل کے عالم گیر نغموں سے سرشار ہوجاتی ہے... (ویلیام جیمنرص٧،٨)

درحقیقت انسان کا خدا پر ایمان، غیرا ارادی طور پر ضمیر میں وارد ہونے سے (گوستاویونگ) کہ غیر ارادی ضمیری چیزوں کو ناخود آگاہ ضمیر کا مفہوم روح، خدا اور غیبی قوتوں پر مشتمل جانتا ہے۔(١)

اس کے بہت سے دیگر افکار ونظریات پر براہ راست نہایت تاثیر رکھتا ہے جیسے اُس کا زندگی اور زندگی ہدف کے بارینظریہ۔ اور یہ نظریات خود اپنی جگہ پر خوب وبد، درست ونادرست کے بارے میں انسان کے افکار کو تشکیل دیتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار انفرادی، اجتماعی اور اخلاقی عمل اور انفرادی مناسبتیں بھی اوّلی اور اساسی افکار ونظریات سے تاثیر قبول کرتی ہیں۔

انسان کے غیر ارادی طور پر وارد ہونے کے طریقے، چار اساسی راہ کے حامل ہیں کہ آخری کے علاوہ سبھی طبیعی ہیں:

١۔عہد طفولیت میں منصوبہ بنانا۔

٢۔مثبت یا منفی شدید ہیجانات کے وقت۔

٣۔ہوشیاری کے وقت نفس کی تلقین: اس طرح سے کہ اچھے اورمثبت جملات اورمفاہیم کی مناسب وقت میں آہستہ آہستہ توجہ کے ساتھ بلند آواز سے تکرار کرے۔

٤۔ہیپنا ٹزم کی روش۔

____________________

١۔ رواشناسی ضمیر خود آگاہ ص٩٢۔

۲۵۶

وہ دینی تعلیمات اوردستورات کہ جو ایمان کی تربیت کے لئے مد نظر قراردئے گئے ہیں، اوّل تین راستوں سے افراد معاشرہ کی ہدایت اورسماج کے اخلاقی اصلاح کے عنوان سے بہترین استفادہ کیا ہے۔ ایمان کی پرورش کے وہ اسلوب جو دینی معارف کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

الف۔عبادت:

عبودیت تذلل اورخاکساری کے اظہار کے معنی ہے کہ جو فارسی میں ''بندگی ''کے معنی میں ہے اور عبادت اس سے بھی بالاتر چیز ہے، یعنی انتہائی درجہ تذلل، اسی وجہ سے خدا کے علاوہ کوئی اس کا مستحق نہیں ہے۔(المفردات) اس بناپر مختلف عبادی اعمال، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی تذلل وبندگی کا اعلان ہے۔ سید قطب اس مطلب کی اچھی طرح منظر کشی کرتے ہیں:

نماز، روزہ، زکات، حج اور تمام تعبدی شعائر واعمال ایک کنجی کے سوا کچھ نہیں ہیں، وہ صرف ایسی کنجیاں ہیں جن کے ذریعہ اپنے لئے عبادت کے دروازوں کو کھول سکیں، یا ایسے منازل اورقیامگاہ ہیں کہ طریق عبادت کے راہی اورمنزل معبود کے سالکیں راستہ میں اُس قیام گاہ میں کچھ دیر قیام کرکے توشۂ راہ حاصل کرتے ہیں، تازہ دم ہوتے ہیں پھر کافی زادۂ راہ کے ساتھ اپنی راہ طے کرتے ہوئے معشوق کی منزل کی طرف چل پڑتے ہیں، یہ راہ وہی عبادت ہے لہٰذا جو کچھ اس راہ میں واقع ہو، عبادت سے لے کر روز مرہ کی زندگی کے امور یا غور وخوض اور ادراک تک جب تک کہ ہدف خدا ہو، وہ سب کا سب عبادت ہے۔ یہ اساس اور بنیاد اُس وقت زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے جب حقیقت اور عملی اعتبار سے (نہ کہ صرف زبان ) سے گواہی دے کہ کوئی بھی مقام اور شخصیت نیز مظہر قدرت عبادت کے قابل نہیں ہیسوائے اس خداوند واحد و خالق کے کہ جو حکیم وعلیم ہے۔(١)

اس طرح کی عبادت انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کرکے ایمان کی پرورش کا باعث ہے اور اس کانتیجہ وثمرہ اخلاقی تربیت اور انسانی فضائل ہیں۔

''اے لوگو! تم سب اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے والوں کو خلق کیا ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو، شاید تقویٰ اختیار کرو''۔(٢)

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلامص٣٩۔

٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت ٢١۔

۲۵۷

روزانہ کی عبادتوں کی راہ میں، جیسے روزانہ کی نمازیں اور موسمی عبادتیں جیسے روزہ، حج اور اعتکاف نفسیات کے مختلف فنون سے استفادہ کرکے (جیسے اپنے آپ کو تلقین کرنے، عادت دینے اور عمل کرنے، شرطی سازی وغیرہ کے ذریعہ) خدا کی بندگی اور پرستش کی اس حالت کو اپنے اندر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اپنے ناخود آگاہ ضمیر میں جاگزین کرسکتا ہے۔ لہٰذا عبادت میں جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اور عمل جتناہی صاف وشفاف اور خالص ہوتا ہوگا اتنا ہی انسان تیزی کے ساتھ اس مقصد تک پہنچ جائے گا۔ لیکن عبادت کے نچلے مراتب بھی اس ہدف تک رسائی کے لئے مقدمہ کے عنوان سے کار ساز ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عبادت کی تین قسمیں ہیں: ''کچھ لوگ خدا کے خوف سے عبادت کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے کچھ لوگ ثواب خداوندی کے حصول کے لئے عبادت کرتے ہیں، یہ مزدوروں کی عبادت ہے، کچھ لوگ خدا سے عشق ومحبت کی بناپر عبادت کرتے ہیں، یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی عبادت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے''(١) ''سب سے افضل عبادت عمل کو خدا کے لئے خالص کرنا ہے''۔(٢)

عبادت کی تاثیر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ رغبت ودلچسپی کی بنیاد پر ہو، نہ کہ کراہت اورسستی کی بنیاد پر ہو۔ اسی لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے:

''اُس بندہ پر آفرین ہوجو عبادت سے عشق کرتا ہے، جسم سے عبادت کرتا ہے اور قلب سے اُسے دوست رکھتا ہے اورخود کو اُس کے لئے فارغ کرتا ہے''۔

جو لذت و شیرینی عبادت میں ہے وہ اس کے استمرار اور اُسے قوت پہنچانے کا باعث ہوتی ہے، لیکن اس لذت کا احساس دو شرط پر مبنی ہے:

١۔ہوا پرستی (نفسانی خواہشات) سے دوری ۔

٢۔ حبّ دنیا سے اجتناب۔

حضرت علی ـنے فرمایا:

''جو نفسانی خواہشات سے اجتناب نہیں کرتاوہ کس طرح عبادت کی لذت محسوس کرتا ہے''؟۔ (غرر الحکم)

''جس طرح کوئی ایسا بیمار کہ جو شدید درد کا احساس کرتا ہے، اچھی غذا کی لذت محسوس نہیں کرتا، دنیا پرست بھی دنیا سے لگائو کی بناپر عبادت کی لذت محسوس نہیں کرتا اور اس کی حلاوت وشیرینی کو درک نہیں کرتا''۔(٣)

____________________

١۔ بحارالانوار ج٧٠ ص ٢٥٥۔ ٢۔ غرر الحکم۔ ٣ ۔ بحارالانوار ج١٤ ص٣١٠۔

۲۵۸

ایک دوسرا نکتہ جو عبادت میں قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ عبادت کا ہدف خداوند عالم کے سامنے صرف اطاعت ہے اور ''تعبد''کے معنی بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر باوجودیکہ ہم نہیں جانتے کہ نماز صبح دو رکعت کیوں ہے اور بلند آواز سے ہمیں پڑھنا چاہئے، تو ہم صرف اُس کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ فضل بن شاذان حضرت امام علی رضا ـ سے نقل کرتے ہیں: ''اس لئے کہ اُسے فراموشی کے حوالے نہ کردیں، اس کے مراتب ادب کو ترک نہ کریں، اس کے امر ونہی سے غافل نہ ہو جائیں....''۔(١) اسی وجہ سے (فرمان خدا کی اطاعت) اﷲ کے حدود حلال وحرام کی رعایت اورخدا کے فرائض اور واحبات کی مراعات کرنا عبادت کا اہم حصّہ شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: عبادت کے دس جز ہیں کہ اس کے نو جز حلال کے سراغ میں جانا ہے۔(٢) خداوندسبحان ارشاد فرماتا ہے: ''اے اولاد آدم! جو کچھ ہم نے تم پر واجب کیا ہے اُس پر عمل کرو تاکہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جائو''۔

ب۔ذکر:

ذکر ''یاد آوری'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اسی طرح کسی چیز کے معنی کا یاد رکھنایا اُس کا حاضر ہونا ذکر کہلاتا ہے۔ دقیق تر تعبیر میں کبھی ذکر سے مراد ایک نفسانی حالت ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان اُس چیز کو جس کی اس سے پہلے شناخت اور معرفت یاد رکھ سکتا ہو۔ ذکر اس معنی میں حفظ کے مانند ہے اس فرق کے ساتھ کہ ذکر اس جگہ استعمال ہوتا ہے کہ کوئی بات حافظہ کے خزانہ میں موجود ہونے کے علاوہ اس کی نظر میں بھی حاضر ہو، کبھی سے مراد دل وزبان پر کسی مطلب کا حاضر ہونا ہے اور اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ذکر کی دوقسم ہے قلبی اور لسانی۔(٣) اس بنا برایمان کی تربیت کا ایک دوسرا شیوہ ذکر ہے کہ جو خدا کے قطعی اور یقینی حضورکی انسان کے نزدیک تقویت کرتا ہے۔ زبانی اذکا ر جو اسلامی تعلیمات میں وارد ہو ئے ہیں اس لئے ہیں کہ وہی حضور قلبی کی حالت انسان میں ایجاد کریں ہے۔البتہ اذکار کی تربیتی تاثیرسے بھی غافل نہیں ہو نا چاہئے ؛کیونکہ معین باتوں کو زبان پر لانا تلقین نفس سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اُس کے متقضیٰ سے انسان کے ضمیر میں ایک تبدیلی ایجاد کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے غیرہو شیار ضمیر کی راہ ورود کے سلسلے میں ذکر کیا ہے، یہ شیوہ اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ مور دتوجہ واقع ہوا ہے اور ہماری پوری زندگی خواب وبیداری، کام اور راحت، خوشی اور غم سب کے وقت خدا پرستانہ اذکا ر اور تلیقنات سے بھری پڑی ہے جو ہم میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ علل الشرائع ص٢٥٦۔ ٢۔ بحار الانوار ج١٠٣ ص١٨۔ ٣۔(مفردات )

۲۵۹

یومیہ نمازیں (نافلہ اور فریضہ ) ان کے مقدمات اور تعیقبات مخصوص اذکار کے ساتھ، کاموں کا آغاز ''بسم اللّٰہ'' سے اور ہر کام کا خاتمہ ''الحمد لِلّٰہ''سے اور دیگر اذکار کہ جو گھر سے نکلتے وقت، کام کی جگہ میں داخل ہو تے وقت، مسجد میں وارد ہونے کے وقت... یہ ساری تلقینیں پوشیدہ اور آشکاراذکار کی صورت میں صاف وشفاف اور زلال بارش کے مانند مومینن کے قلب وروح کو بارآورکرکے ایمان وفضلیت کے ثمرات اُن کے اختیار میں قرار دیتے ہیں۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زبان کے اذکارقلب کو زیادہ سے آمادہ کرتے ہیں، امام خمینی اپنے استاد کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہمارے عارف کامل شیخ (استاد ) جناب شاہ آبادی (روحی فداہ)فرماتے تھے: ذاکرانسان ذکرمیں اُس انسان کے مانند ہے جو چھوٹے بچے کو کہ جس نے ابھی ڈھنگ سے بولنا نہیں سیکھا ہے اُسے اگرکوئی کلمہ یاد کراتا ہے تو اُس کی تکرار کرتا ہے تاکہ اُس کی زبان کھل جائے اور کلمہ کو ادا کرے اورجب وہ کلمہ اداکردیتاہے تو معلم بچہ کا اتباع کرتا ہے اور اس تکرار کی تھکن ختم ہو جاتی ہے گویا کہ اُسے بچہ سے مددملتی ہے، یہی صورت ہے اس کی جو ذکرکرتا ہے اُسے چاہئے کہ اپنے دل کو کہ جس نے زبان ذکر نہیں کھولی ہے ذکر کی تعلیم دے اور ان اذکار کی تکرار میں نکتہ یہ ہے کہ ز با ن دل کھل جائے اور زبان قلب کے کھلنے کی علامت یہ ہے کہ زبان، دل کی تبعیت کرتی ہے اور تکرا ر کی زحمت اور تھکن بر طرف ہو جاتی ہے۔(١)

پس اے عزیز!ذکرو یاد محبوب کے راستہ میں تونے جتنی زحمتیں برداشت کی ہیں کم ہیں، دل کو یاد محبوب کی عادت دے، بلکہ خدا کی خواہش اور مرضی سے قلب کی صورت ذکر حق کی صورت ہوجائے اور کلمۂ ''لاالٰہ الا اﷲ'' کمال نفس کی انتہاہوجائے کہ اس سے بہتر سلوک الیٰ اﷲکے لئے کوئی زادہ راہ اور نفس کے معایب (عیوب) کے لئے سب سے اچھا مصلح اور معارف الٰہیہ میں بہترین رہبر نہیں ملے گا، لہٰذا اگر صوری اور معنوی کمال کے طالب ہو اور طریق آخرت کے سالک، مسافر و مہاجر الیٰ اﷲہو تو قلب کو محبوب کے ذکر کی عادت دو اور دل کو یاد حق تبارک وتعالیٰ سے عجین کردو(گوندھ دو)(٢)

____________________

١۔ چہل حدیث، ص٢٥٠۔٢۔ چہل حدیث، ص٢٥٠۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296