اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق0%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق

مؤلف: احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 171746
ڈاؤنلوڈ: 4867

تبصرے:

اسلامی اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 171746 / ڈاؤنلوڈ: 4867
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

خداوند سبحان کی یاد انسان کو غفلت اور نسیان سے نکال دیتی ہے اور اخلاقی تربیت کی راہ ہموار کرتی ہے، کیونکہ اخلاقی انحراف اور برے افعال کے اسباب وعلل غفلت اور نسیان ہیں:

'' اس انسان کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور اس نے اپنی ہوا وہوس کی پیروی کی ہے اوراس کے کام کی بنیاد زیادہ روی پر ہے''۔(١)

''در حقیقت جو لوگ صاحبان تقویٰ ہیں، جب شیطان کی جانب سے انھیں وسوسہ ہوتا ہے تو ]خداکو[ یاد کرتے ہیں اور حقائق کو دیکھنے لگتے ہیں''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''خداوند سبحان نے اپنی یاد کو دلوں کے لئے روشنی قرار دیا ہے، قلوب اس وسیلہ سے بہر ے پن کے بعد سننے والے، نابینائی کے بعد بینا اور سرکشی و طغیانی کے بعد مطیع وفرمانبردار ہوجاتے ہیں''۔(٣)

آیات ورایات میں ذکر کثرت ومداومت کی تاکید کی گئی ہے: ''اے صاحبان ایمان! خدا کو بہت زیادہ کرو''۔(٤)

ذکر الٰہی کی مداومت قلب کی اصلاح اور اخلاقی فضائل سے کہ جو بالیدگی وحیات نو کا سبب ہے:''جو انسان اپنے دل کو ذکر کی مداومت سے آباد کرے تو اس کا کردار ظاہر وباطن دونوں صورتوں میں نیک ہوجائے گا''۔(٥)

''قلب کی اصلاح کی بنیاد، انسان کا ذکر خداوندی میں مشغول ہونا ہے''۔(٦)

ذکر کی روش میںذکر خداوندی کے علاوہ خدا کی نعمتوں کا یاد کرنا بھی منعم ]نعمت دینے والے[ کے احترام کے عنوان سے انسان کو خداوندعالم کی بے نظیر اور لاثانی ذات کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور اس کی تعظیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے، بالخصوص جس قدر نعمت عظیم اور اس کا منعم بے غرض ہوگا، اس کا احترام فطرت کی نظر میں اتنا ہی زیادہ لازم ہوگا:''اے لوگو! اپنے اوپر خداوند سبحان کی نعمت کو یاد کرو، آیاخدا کے علاوہ کوئی خالق ہے کہ تمہیں زمین وآسمان سے رزق دے ''۔(٧)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔاعراف آیت٢٠١۔٣۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٢٢۔ ٤۔ سورۂ احزاب آیت٤١۔المیزان ج١ ص٣٤٠۔

٥۔ غرر الحکم۔ ٦۔ غرر الحکم۔ ٧۔ سورہ ٔفاطر آیت ٣۔

۲۶۱

چونکہ قرآن کریم خود کو ذکر اور حامل ذکر کے عنوان سے تعارف کراتا ہیلہٰذا تلاوت قرآن بھی ذکر کی حالت انسان کے اندر پیدا کیااور ایمان کی پرورش کا باعث ہوتی ہے:

(اِنْ هُوَ الّا ذِکْر لِلْعَالَمِیْن )(١)

''یہ عالمین کے لئے صرف ذکر (نصیحت) کا سامان ہے''۔

(ص، والقرآن ذی الذکر )(٢)

''ص ذکر (نصیحت) والے قرآن کی قسم''۔

(وَاِذَا تَلِیَتْ عَلَیْهِم آیَاتِهِ زَادَتْهُمْ اِیْمَاناً )(٣)

''اور جب ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے''۔

ذکر کی بحث میں آخری نکتہ ''موت کی یاد'' سے متعلق ہے، اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ آخرت پر ایمان رکھنا اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، موت کا تذکرہ اور اس کا ]ذہن میں[حضور ایمان کی پرورش اور اخلاقی آثار کے مجسم ہونے کا باعث ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ موت کی یاد، دنیا کی دوستی اور محبت کو ختم کرنے میںجوکہ بہت سے اخلاقی رذائل کا سرچشمہ ہے، اہم کردار اداکرتی ہے:

(کلّ نفس ذائقة الموت، وانّما توفون اجورکم یوم القیامة فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز وما الحیاة الدنیا الّا متاع الغرور )(٤)

''ہرنفس موت کامزہ چکھنے والا ہے اور تمھارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا اس وقت جسے جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے''۔

ائمہ اطہار علیہم السلام کے بیانات میں بھی موت کی یاد کا تربیتی اثر ملتا ہے:

''جو شخص ]مرنے کے بعد[ سفر کی دوری کو یاد کرے گا وہ آمادہ سفر ہوجائے گا''۔(٥)

''جو انسان موت کی آمد کا انتظار کرے گا وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا''۔(٦)

____________________

١۔ سورہ ٔتکویر آیت٢٧۔ ٢۔ سورہ ٔصآیت١۔٣۔ سورہ ٔانفالآیت ٢۔ ٤۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٨٥۔

٥۔ غرر الحکم ٦۔ غرر الحکم۔

۲۶۲

موت کی یاد نفسانی خواہشات اور شہوات کو مار دیتی ہے ، غفلت کی جڑوں کو اکھاڑ دیتی ہے، دل کو خداوند سبحان کے وعدوں سے قوی اور مضبوط بنا دیتی ہے ، انسان کے وجود کو لطیف ونرم کرتی ہے اور ہوا وہوس کی نشانیوں کو درہم وبرہم کردیتی ہے اورحرص وطمع کی آگ کو خاموش کردیتی ہے اور دنیاکوانسان کی نظر میں بے وقعت اور ذلیل وخوار کردیتی ہے۔(١)

راہ آخرت کے سالکین نے اپنے شاگردوں کو ہمیشہ قبرستان میں جانے کی تاکید کی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار جائیں اور اہل قبور کی زیارت کریں اور موت کی یاد سے اپنے آپ کو تقویت کریں۔(٢)

ج۔دعا :

دعا در اصل عالم کے غیر مادی مرکز کی جانب روح کی کشتی کا نام ہے عام طور سے عام طور سے دعا سے مراد تضرع وزاری، اضطراب اور نالہ وشیون، استعانت اور مددطلبی ۔ اور کبھی ایک روشن کشف وشہود کی حالت جو تمام محسوسات کی دنیا سے دورمستمر اور باطنی آرام ہے۔ بعبارت دیگر کہا جاسکتا ہے کہ دعاخدا کی سمت پروازِ روح کا نام ہے یا عاشقانہ پر ستش کی حالت ہے اس مبدأ کی نسبت جس سے معجزہ حیات صادر ہوا ہے اور بالآخر دعاانسان کی کوشش ہے اس نامرئی اور ناقابل دید وجود سے ارتباط کے لئے جو تمام ہستی کا خالق ، عقل کل، قدرت مطلق اورخیر مطلق ہے۔ خاص اورادکے نقل سے صرف تطر کرتے ہوئے، حقیقت دعا سوزو گذار سے بھری ایک عرفانی حالت کو مجسم کرتی کہ دل اس میں خدا سے جذب ہوجاتا ہے ۔(٣)

راز ونیاز ،دعا و مناجات بھی پرورش ایمان کا ایک طریقہ ہے۔دعا احتیاج کا اظہار ہے بلکہ دعایہ ہے کہ انسان یکسر احتیاج بن جائے ۔دعا اشتیاق کا اظہار ہے ، بلکہ انسان کی تمام احتیاج یہی شوق و اشتیاق ہے۔دعا سنوار نے اور تربیت دینے کا ایک عامل ہے کہ نہ صرف انسان کو اس کی کمیوں سے متعلق ہوشیار کرتی ہے بلکہ اس کی تمام کوششوں اور توانائیوں کو اس کے مطلوب کے حصول کی خاطر صرف کردیتی ہے۔

____________________

١۔ المحجة البیضا ج٨ص ٢٤٢۔

٢۔ ہم بالخصوص ملا حسین قلی ہمدانی ، بہاری ہمدانی اور میرزا جواد انصاری ہمدانی کی وصیتوں میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

٣۔ الکسین کارل: نیایش، ص ٥١۔

۲۶۳

جب کوئی بیمار درد وسوز سے پیچ وتاب کھاتا ہے اور ڈاکٹر سے مدد مانگتا ہے خود ہی ابتدائی کاموں کو انجام دیتا ہے تاکہ معالجہ کی راہ ہموار ہوجائے پس یہی بات ہے کہ دعا اور طلب اپنے حقیقی معنی کو پالیتی ہے اور نتیجہ کے طور پر اجابت اور قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے:

(وَاِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبُ، اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِی وَلْیُؤمِنُوا بِیْ لَعَلَّهُم یَرْشُدُونَ )(١)

''اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں، پکارنے

والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے لہٰذا مجھ سے طلب کرو قبولیت کریں اور مجھ ہی ایمان واعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہِ راست پر آجائیں''۔

ابھی دعا کے عینی آثار ]حاجتوں کی برآوری اور قبولیت واجابت [ مورد نظر نہیں ہیں، بلکہ ان کے علاوہ دعا ومناجات ہے، معبود سے باتیں کرنا اورراز ونیاز کا اظہار کرنا ہے، اس وجہ سے محبوب کے حضور کو دعا کرنے والے کے دل وجان میں تقویت کرتی ہے، کیونکہ دعا ومناجات حاضر مخاطب سے بات کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، اسی وجہ سے کہ دعا عارفوں کے روح کی غذااور مومنین کے لئے خالص شراب ہے۔ خداوند سبحان نے اپنی توجہ وعنایت کو دعا وعبادت میں قراردیا ہے: ''کہو: اگر تمہاری دعا نہ ہو تو تمہارا رب تمہاری کوئی اعتنا نہیں کرتا''۔(٢)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''دعا ]مراد تک [پہنچنے کا خزانہ اور کامیابی کا چراغ ہے۔''(٣)

خداوند رحیم وکریم نے کشائش ، اور آسمانوں کے فتح باب اور معلومات ]فضائل ومکارم اخلاق[کے راستہ کو اپنی بارگاہ میں درخواست اور دعا کرنا قرار دیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: زیادہ سے زیادہ دعا کرو کیونکہ وہ رحمت رحمت اور حاجت پوری ہونے کا ذریعہ ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ صرف دعا کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہو...۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہآیت ١٨٦۔

٢۔ سورہ ٔفرقان آیت ٧٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣٤١۔

٤۔ بحار الانوار ج٩٣ص٢٩٥۔

۲۶۴

استجابت وقبولیت دعا کے شرائط میں حضور قلب اور رقت کی شرط کی گئی ہے، کیونکہ جو چیزسوز ونیاز کے ساتھ ہوتی ہے وہ حقیقت میں ارزش وقیمت رکھتی ہے اور ایک حقیقت کو اپنے اندر پروان چڑھاتی ہے:جان لو کہ خداوندسبحان دعا کو غافل اور بے خبر دل سے قبول نہیں کرتا۔(١)

''دعا کو رقت قلب کے وقت غنیمت سمجھو اس لئے کہ وہ نزولِ رحمت کی نشانی ہے''۔(٢)

ائمہ معصومین (ع) کی دعائوں اور مناجاتوں میں ایسے عارفانہ مضامین ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) نے محبوب ازلی کے ساتھ اپنی خلوتوں میں ان کو انشأ فرمایا ہے اورراز ونیاز کیا ہے۔ ان دعا ئو ں کے بعض فقرات کو حفظ کرکے اور مناسب مواقع پر ان کی تکرار کرکے تربیتی مکتب میں طرز دعا کو ہم سیکھ سکتے ہیں۔ البتہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ راز ونیاز، دعا ومناجات سوز دل کے ساتھ ہونی چاہئے اور دل کی گہرائی سے نکلنی چاہئے، اس لحاظ سے ہمیں سعی وکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زبان سے بھی دلوں کے محبوب سے راز ونیاز کریں اور اس سے شفیق و مہربان دوست اور اپنی خلوتوں کا مونس وغمخوار جانیں:''یَارَفِیقَ مَنْ لَا رَفِیقَ لَهُ، یَا اَنِیْسَ مَن لَا اَنِیْسَ لَهُ '' اے اس کا رفیق جوکوئی رفیق نہیں رکھتا، اے اس کا انیس جو کوئی انیس نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ بعض دعائیں ( بالخصوص صحیفۂ سجادیہ کی دعائیں) ہمیں باطنی دردوں اور بیرونی خطائوں سے آشنا کرتی ہیں کہ ہم ان دعائوں کے مضامین سے بھی استفادہ کرتے ہوئے اپنی اخلاقی تربیت کے بارے میں کوشش کریں۔

حضرت امام زین العابدین ـکی دعائے مکارم الاخلاق خاص اہمیت کی حامل ہے:

خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوںحرص وطمع کی طغیانی سے، غیض وغضب کی تندی سے ، حسد کے غلبہ سے، صبر کی کمی اور قناعت کی کمی سے، بداخلاقی سے، شہوت افراط سے، تعصب کے غلبہ سے، نفسانی خواہشات کی پیروی سے، درستگی اورہدایت کی مخالفت سے، خواب غفلت سے، (دنیا کے) کاموں پر سخت راضی ہونے سے، حق پر باطل کے انتخاب سے، گناہوں پر اصرار سے، گناہوں کو معمولی اورکم سمجھنے سے اورعبادت و اطاعت کو عظیم خیال کرنے سے ۔(٣)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ص١٧٣۔

٢۔ بحار الانوار ج٩٣ص٣١٣۔

٣۔ صحیفہ سجادیہ دعائے مکارم اخلاق۔

۲۶۵

د۔اولیائے خدا سے محبت:

جو کسی شخص کوانسان کامل سمجھے اور اس کے اخلاق ومعنویات کا سخت دلدادہ ہو تو اس کے تحت تاثیر واقع ہوجاتا ہے ۔

استاد مطہری اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

محبت مشابہت ومشاکلت کی طرف کھینچتی ہے اور اس کی قدرت باعث ہوتی ہے کہ محب محبوب کی شکل اختیار

کرلے۔ محبت الکٹریک تار کی طرح ہے کہ جو محبوب کے وجود سے وصل ہوتا ہے اور اُس میں محبوب کے صفات کو منتقل کرتا ہے۔(١)

تہذیب اخلاق میں محبت کی تربیتی تاثیر کے بارے میںفرماتے ہیں:

اہل عرفان اورصاحبان سیر وسلوک راہ عقل واستدلال سے کام لینے کے بجائے محبت وعقیدت کی تاکید اور پیشکش کرتے ہیں]اور[ کہتے ہیں: کسی کامل کو تلاش کرو اور اس کی محبت وعقیدت کے رشتہ کو گردن دل میں آویزاں کرلو کہ راہ عقل واستدلال سے بھی زیادہ بے خطر ہے اور سریع تر ہے۔ محبت اور عقیدت کی قوت کی تاثیر دل سے اخلاقی رذائل کو زائل کرنے میں لوہے پر کیمیکل مواد ڈالنے کے مانند ہے، مثال کے طورپر ایک اچھے چھاپے کی ]پھولدار[ پلیٹ بنانے والا تیزاب کے ذریعہ حروف کے اطراف کو مٹادیتاہے، نہ کہ ناخن سے اور نہ ہی چاقو کی نوک سے۔ لیکن عقلی توانائی کا اثر اُس انسان کے کام کے مانند ہے جو لوہے کے ذرّوں کو ہاتھ کے ذریعہ خاک سے جدا کرنا چاہتا ہے، اس میں کس قدر زحمت ومشقت ہے؟ اگر ایک قوی ومضبوط آہن ربا ]مقناطیس[ ہاتھ میں ہو، ممکن ہے کہ ایک گردش میں اُن سب کو جدا کردے، عقیدت ومحبت کی طاقت آہن ربا کے مانند صفات رذیلہ کو جمع کرکے دورپھینک دیتی ہے۔ صاحبان عرفان کے عقیدہ کے مطابق پاک و پاکیزہ اور کامل واکمل افراد کی محبت وعقیدت ایک ایٹومیٹک مشین کے مانند ہے جو خود بخود رذائل کو جمع کرکے باہر پھینک دیتی ہے(٢)

____________________

١۔ جاذبہ ودافعہ علی ـ ، ص٧٣۔

٢۔ جاذبہ و دافعہ علی ـ ص٧٧۔٧٨۔

۲۶۶

ان لوگوں کے نمونے جو صدر اسلام میں اس جذب وانجذاب کے تحت تاثیر واقع ہوئے ہیں اور حضرت رسول اکرم کے شیفتہ اور دلدادہ ہوگئے ہیںابوذر غفاری، بلال حبشی ،اویس قرنی اورسلمان فارسی ہیں اس محبت نے ایک عظیم اکسیر کے مانند انھیں بے مثال گوہر کے مثل کرامت انسانیمیں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی پوری تاریخ میں ایسے نمونے ]شدت وضعف[کے ساتھ کثرت سے پائے جاتے ہیں جلال الدین محمد رومی جو ''مولوی''کے نام سے معروف ہیں اس مسیر کے بارزترین نمونوں میں سے ایک نمونہ ہیں۔ جب وہ ایک کمسن بچہ تھے اور اپنے والد کے ہمراہ نیشاپور سے گذر رہے تھے تو نیشاپور کے بزرگ شیخ عطار نے بہاء الدولہ بچہ کو عام انسانوں سے زیادہ افضل بچہ پایا اور کسی تردید اور تأمل کے بغیر، بہاء الدولہ کو مبارک باد دی کہ عنقریب یہ بچہ سوختگان عالم میںآگ روشن کردے گا اوررہروان طریقت کے درمیان ایک اورشور وغوغا مچادے گا۔(١)

اس واقعہ کو گذرے ہوئے چند عشرے بھی نہ گذرے تھے کہ یہ پیشینگوئی مولانا کی شمس تبریزی سے ملاقات اور اُن سے عشق وعقیدت میں ظاہر ہوئی۔اسلام میں یہ محبت اور شیفتگی ''ولایت ''کے عنوان سے معصومین علیہم السلام کی نسبت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ان اولیائے الٰہی کی محبت کہ جو حق کے مکمل آئینہ دار اور اس کی تجلی کی کاملجلوہ گاہ ہیں، انسان کو خدا پر ایمان اورعقیدت کی طرف منتقل کرتی ہے، اور اسی وجہ سے دعائوں میں اس محبت کو ہم خدا سے طلب کرتے ہیں:

خدایا! میرے نفس کو اپنی قدر سے ہماری جان کو قدرسے مطمئن اور اپنی قضا سے راضی قرار دے اور اپنے ذکر ودعا کا مشتاق اور حریص قرار دے اور اپنے خاص الخاص اولیاء کا دوستدار قرار دے اورزمین وآسمان کے درمیان محبوب قرار دے... ۔(٢)

آیات وروایات میں عام طور سے ائمہ ہدیٰ (ع) کی محبت اورمودت عمومی اورخالص طور پر امیر المومنین ـ کی محبت ومودت قابل توجہ و تاکید قرار پائی ہے:

(قُلْ لَا اَسْئَلُکُم عَلَیهِ اَجْراً اِلّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ )(٣) ''اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو''۔

____________________

١۔ عبد الحسین، زرین کوب، پلہ پلہ تا ملاقات خداص٥٠۔

٢۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی، زیارت امین اللہ۔

٣۔سورہ ٔشوریٰ آیت٢٣۔

۲۶۷

اس آیت کے ذیل میں بہت سی احادیث شیعہ اور سنی سے نقل ہوئی ہیں کہ ''پیغمبر کے قربیٰ'' سے مراد ا

١س آیت میں علی، فاطمہ، اور آپ کے دونوں فرزند]حسن وحسین[ (ع) ہیں۔(١)

اس بناپر پیغمبر اور ائمہ اطہار (ع) کی محبت و ولایت کہ جو کامل انسان ہیں جس قدر بھی زیادہ ہوگی ، یہ درحقیقت مکارم اخلاق اور فضائل سے عشق ہے اور یہ عشق خدا کی محبت سے جدا نہیں ہوسکتا۔

اولیائے خداوندی سے قلبی طور پر محبت آمیز رابطہ اور توسل اسی وجہ سے پرورش ایمان کا باعث ہے۔

ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ انسان کی خصوصیات میں ہے کہ وہ صرف یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کی توجہ کا مرکز رہے، بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جس سے اظہار محبت کرے اور عشق رکھے جیساکہ مزلو ذکر کرتا ہے: ''... اسی طرح ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ محبت کی ضرورتیں دونوں ضرورتوں کو یعنی محبت کرنے اور محبت دیکھنے کو شامل ہیں''۔(٢)

اس بناپر اگر محبت کا متعلَّق ]ظرف[، اولیائے الٰہی اورانسان کامل کی محبت ہوں، تویہ سرگرداں قوّت مجازی عشقوں اوربے قیمت محبتوں میں صرف نہیں ہوگی، بلکہ کمال انسانیت کے اعلیٰ مقصد میں پھولے پھلے گی۔

سعدی اگر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد بس است وآل محمد

اے سعدی! اگر تم عاشقی اور جواں مردی کرو تواس کے لئے عشق محمد وآل محمد (ع) کافی ہے۔

اس موضوع میں آخری نکتہ ''زیارت'' ہے ائمہ اطہار (ع) کے مشاہد مشرفہ کی زیارت ان امور میں سے ہے جو ان کی محبت اور ولایت کو تقویت کرتی ہے اور باغ ایمان کو سر سبز وشاداب بنا دیتی ہے۔ متعدد روایات میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے، نمونہ کے طور پر چند حدیث کی جانب ہم اشارہ کررہے ہیں:

''کسی قبر کی زیارت کے لئے سامان سفر آمادہ مت کرو، جز ہماری قبروں کی زیارت کے۔ جان لو کہ میں زہر سے شہید کیا جائوں گا اور پردیس اور عالم غربت میں دفن کیا جائوں گا۔ جو شخص میری زیارت کو آئے گا اس کی دعا مقبول ومستجاب ہے اور اس کا گناہ معاف ہے۔(٣)

____________________

١ ۔منجملہ تفسیر فخر رازیج٢٧ ص١٦٦۔بحارالانوار ج٢٧ ص١٣۔٢۔ روانشناسی شخصیت سالم ص١٥٤۔٣۔ عیون اخبار الرضا ـ ج١ ص٢٨٥۔

۲۶۸

محبت کے عنوان سے برادران دینی وایمانی کی زیارت بھی قلوب کی حیات کا باعث، ایمان اور محبت میں رشد

و اضافہ کا موجب ہے، بالخصوص صالح انسان اور ربانی علماء کی زیارت جو کہ دوگنا اخلاقی تاثیر رکھتی ہے:

''تم لوگ ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کو جائو کہ یہ تمہارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اورہماری باتیں بھی ذکر ہوں اورہماری احادیث تمہارے درمیان رابطہ برقرار کرتی ہیں، لہٰذا اگر ان سے تمسک اختیار کرو گے تو تمہارے رشد اورنجات کا باعث ہے''۔(١)

''زیارت دلوں میں دوستی اورمحبت ایجاد کرتی ہے''۔(٢)

نیک اور صالح افراد سے ملاقات کرنا قلب کی اصلاح کا باعث ہے۔(٣)

____________________

١۔بحارالانوارج٧٤ ص٢٥٨۔

٢۔ بحارالانوارج٧٤ ص٣٥٥۔

٣۔ بحارالانوارج٧٧ ص٢٠٨۔

۲۶۹

منابع

١۔ قرآن مجید

٢۔ نہج البلاغہ

٣۔آدلر، آ لفرد، روان شناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی شرفشاہی، تصویر، ١٣٧٥۔

٤۔آمدی، عبدالواحد، غررالحکم ودرالکلیم، تہران، محمد علی الانصاری القمی، ١٣٣٧۔

٥۔ آندرہ، پی تیر، مارکسومارکسیم، ترجمہ شجاع الدین ضیائیان، تہران انتشارات دانشگاہ تہران، ، ١٤٠٢۔

٦۔ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ٢٠ جلد، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧۔ ابن اثیر، مبارک بن محمد، نہایہ، قم، اسماعیلیان، ١٤٠٨ ق۔

٨۔ ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول، قم، مؤسسہ النشرالاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

٩۔ابن طاووس، علی ابن موسی، الملاحم و الفتن، قم، مؤسسہ صاحب الامر (عج ) ، ١٤١٦ ق۔

١٠۔ ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، مصر، مطبعة المصطفی، ١٣٨٩۔

١١۔ ابن فہد حلّی، عدّة الداعی، قم، مکتبة الو جدانی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢۔ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق، قم، بیدار، ١٣٧١ ش۔

١٣۔ ابن منظور، لسان العرب، بیروت، دار صار، ١٤١٥ق۔

١٤۔ اتکینسون، رتیال، زمینئہ روان شناسی، ترجمہ محمد تقی براہنی اور دیگر افراد، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

١٥۔ اتکینسون، فلسفئہ اخلاق، ترجمہ سہراب علوی نیا، تہران، مرکز ترجمہ و نشر کتاب، ١٣٧٥۔

١٦۔ احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، قم، مؤسسہ ونشر فرھنگ اہل بیت، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٧۔ احمدی سید احمد، اصول و روشہای تربیت در اسلام، تہران، جہاد دانشگاہی، ١٣٦٤۔

١٨۔ ادگاردپش، اندیشہ ہای فروید، ترجمہ غلام علی توسّلی، تہران، انتشارات کتاب فروشی ابن سینا، ١٣٣٢۔

١٩۔ اربلی، ابوالفتح، کشف الغمہ، بیروت، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٢٠۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ سید ابو القاسم پور حسینی، تہران، انتشاردانشگاہ تہران، ١٣٦٨۔

٢١۔ ارون سون، الیوت، روان شناسی اجتماعی، ترجمہ حسین شکر کن، تہران، رشد، ١٣٦٦۔

٢٢۔ اسکانی، محمد بن ہمام، التمحیص، قم، مدرسہ امام مہدی (عج) ، ١٤٥٤ق۔

۲۷۰

٢٣۔اشعث کوفی، جعفریات، تہران، مکتبة نینوی الحدیثة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٤۔ الراغب اصفہانی، الحسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تہران، المکتبة المرتضویة لاحیاء آثار لمرتضویة۔

٢٥۔ المظفر، محمد رضا، المنطق، قم، اسماعیلیان، ١٣٦٦۔

٢٦۔ امام خمینی ، تحریر الوسیلہ، تہران، المکتبة العلمیة الاسلامیة، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٢٧۔ امام خمینی ، چہل حدیث، تہران، مرکز نشر دانشگاہی رجائ، ١٣٦٨۔

٢٨۔ حضرت امام جعفر صادق ـ ، مصباح الشریعة۔

٢٩۔ حضرت امام جعفر صادق ـ، نہج الفصاحہ۔

٣٠۔ باب الحوائجی، نصر اﷲ، فروید چہ می گوید، تہران، انتشارات دریا، ١٣٤٧۔

٣١۔ باقری، خسرو، مبانی شیوہ ہای تربیت اخلاقی، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، مرکز چاپ و نشر، ١٣٧٧۔

٣٢۔ باقری، خسرو، نگاہی دوبارہ بہ تربیت اسلامی، تہران، وزارت آموزش وپرورش، ١٣٦٨۔

٣٣۔برقی، محمد بن خالد، محاسن، قم مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤١٣ ق۔

٣٤۔ بلاکہام، ھ۔ج، شش متفکر اگز یستانسیا لیست، ترجمہ محسن حکیمی، تہران، نشر مرکز، ١٣٧٢۔

٣٥۔ بی ناس، جان، تاریخ جامع ادیان، تہران، شرکت انتشارات علمی فرہنگی، ١٣٧٣۔

٣٦۔ بیہقی، احمد بن الحسین، شعب الایمان، بیروت، دارالکتب العلمیة، ١٤١٥ ق۔

٣٧۔ پاپکین و استرول، کلیات فلسفہ، ترجمہ جلال الدین مجتبوی، تہران، حکمت، ١٣٧٥ ش۔

٣٨۔ پروین، لارنس، روان شناسی شخصیت: نظر یہ وتحقیق، ترجمہ محمد جعفر جوادی، تہران، رسا، ١٣٧٢۔

٣٩۔ پیاژہ، ژان، تربیت بہ کجا می سپرد، ترجمہ دادستان و منصور، تہران، دانشگاہتہران، ١٣٦٩۔

٤٠۔ پیاژہ، ژان، دیدگاہ پیاژہ در گسترہ تحول روانی، ترجمہ وگردآوری ازمنصور، محمود وپریرخ دادستان، تہران، نشرژرف، ١٣٦٧۔

٤١۔ تفتازنی، سعد الدین، شرح مقاصد، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

٤٢۔ ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تہران، انجمن آثار ملّی، ١٣٩٥ ق۔

٤٣۔ جرجانی، سید شریف، شرح المواقف، قم، انتشارات شریف رضی، ١٣٧٥۔

۲۷۱

٤٤۔ جعفری، محمد تقی، بررسی و نقد افکار راسل، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٥۔

٤٥۔ جوادی، محسن، مسلہ باید و ہست، قم، تبلیغات اسلامی، ١٣٧٥۔

٤٦۔ جوادی، محسن، نظریہ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، قم، معاونت امور اساتیدو دروس معارف اسلامی، ١٣٧٦۔

٤٧۔ جونز ارنست ودالبی یزو، اصول روانکاوی، ترجمہ ہاشم رضی، تہران، کاوہ، ١٣٤٢۔

٤٨۔ جوہری، اسماعیل بن حمّاد، صحاح اللّغة، بیروت دارالعلم للملایین، ١٩٩٠ م۔

٤٩جیمز، ویلیام، دین وروان، ترجمہ مہدی قائنی، قم، دارالفکر، ١٣٦٧۔

٥٠۔ حسینی، سید مہدی، مشاورہ وراہنمائی در تعلیم و تربیت اسلامی۔

٥١۔ حکیمی، محمد رضا، الحیاة، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ١٤٥٩ ق۔

٥٢۔ حمصی رازی، سدیدالدین محمود، المنقذ من التقلید، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٣۔ خراسانی، محمد کاظم، کفایة الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لاحیاء التراث، ١٤١٧ ق۔

٥٤۔ خزّاز القمی، کفایة الاثر، قم، بیدار، ١٤٥١ ق۔

٥٥۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، مدینہ منوّرہ، مکتب سلفیّہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٥٦۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، روان شناسی رشد با نگرش بہ منابع اسلامی، تہران، سمت، ١٣٧٤۔

٥٧۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، مکتب ہای روان شناسی و نقد آن، ٢ جلد، تہران، سمت، ١٣٦٩۔

٥٨۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ، نقش تربیتی معلم۔

٥٩۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب ٢ جلد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ا١٤١٣ ق۔

٦٠۔ دیلمی، حسن بن ابی الحسن، اعلام الدین، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤٥٨ ق۔

٦١۔ راسل برتر اند، تاریخ فلسفہ غرب، ٢جلد، ترجمہ نجف دریابندی، تہران، شرکت سہامی کتاب داری جیبی، ١٣٥١۔

٦٢۔ راسل برتر اند، زناشویی واخلاق، ترجمہ مہدی افشار، تہران، کاویان، ١٣٥٥۔

٦٣۔ راوندی، قطب الدین، دعوات، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ، ١٤٥٧ ق۔

٦٤۔ روحانی، شہر یار، خانودہ موعود مارکسیم، تہران، قلم، ١٣٦٤۔

۲۷۲

٦٥۔ زبیدی، سید محمد بن محمد، تاج العروس، بیروت، دارالفکر، ١٤١٤ ق۔

٦٦۔ زرین کوب، عبد الحسین، پلہ پلہ تا ملاقات خدا، مولانا جلال الدین رومی کی زندگی اور ان کی فکر کے بارے میں، تہران، علمی، ١٣٧٢۔

٦٧۔ سبحانی، جعفر، حسن و قبح عقلی، پایہ ہای جاودان اخلاق، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، ١٣٧٧۔

٦٨۔ سید ابن طاووس، مسکن الفوائد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع) ١٤١٢ ق۔

٦٩۔ سیف، علی اکبر، تغییر رفتار و رفتار درمانی (نظریہ ہا وروش ہا) ، تہران، دانا، ١٣٧٣۔

٧٠۔ سیف، علی اکبر، روان شناسی پرورشی (روان شناسی یاد گیری و آموزش ) ، تہران، آگاہ، ١٣٦٨۔

٧١۔ شالہ، فیلیسین، فروید و فروید یسم، ترجمہ اسحاق وکیلی، تہران، بنگاہ مطبو عاتی قائم مقام، ١٣٤١۔

٧٢۔ شعیر سبزواری، جامع الاخبار، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ٤١٤ ق۔

٧٣۔ شیخ صدوق، اعتقادات، قم، کنفرانس جہانی ہزارہ شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

٧٤۔ شیخ صدوق، توحید، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٥۔شیخ صدوق، خصال، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤٥٣۔

٧٦۔ شیخ صدوق، صفات الشیعہ، قم، مؤسسہ الامام المہدی (عج) ١٤١٥۔

٧٧۔شیخ صدوق، علل الشرایع، بیروت، دار احیاء التراث، ١٣٨٥ ق۔

٧٨۔شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ـ ، تہران، مکتبة جہان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٧٩۔ شیخ صدوق، مقنع، قم، مؤسسہ ا مام ہادی ـ، ١٤١٥ ق۔

٨٠۔ شیخ صدوق، تومن لا یحضر الفقیہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨١۔ شیخ طوسی، امالی، قم، مؤسسہ البعثة، دارالثقافة، ١٤١٤ ق۔

٨٢۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بیروت، دارالتعارف و دار صعب، ١٤٥١ ق۔

٨٣۔ شیخ مفید، ارشاد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، ١٤١٣ ق۔

٨٤۔شیخ مفید، اوائل المقالات، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، ١٤١٣ ق۔

۲۷۳

٨٥۔ شیرازی، صدرالدین، تفسیر القرآن، قم، بیدار، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٦۔صبور اردو باری، احمد، معمای عادت۔

٨٧۔ صحیفہ سجادیہ، الکاملة، دمشق، رایزنی فرہنگی جمہوری اسلامی ایران، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٨۔ صدرا لدین شیرازی، الاسفار الاربعة، قم، مصطفوی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٨٩۔ صدر، سید محمد باقر، فلسفتنا (نظریہ المعرفة) ، قم، دارالکتاب الاسلامی، ١٤٥١ ق۔

٩٠۔ صدر، محمد باقر، بحث فی علم الاصول (تقریر سید محمود ہاشمی ) ، ٧جلد، قم، مکتب الاعلام اسلامی، ١٤٠٥ ق۔

٩١۔ صدر، محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ٣حلقہ، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، قاہرہ، دارالکتاب المصری، ١٩٨٧۔

٩٢۔ صدوق، عیون اخبارالرضا ـ تعلیق حسین اعلمی، بیروت، مؤسسہالاعلمی للمطبوعات، ١٤٠٤۔

٩٣۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٤ ق۔

٩٤۔ طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، قم، مؤسسہ البعثہ، ١٤١٥ ق۔

٩٥۔ طوسی، خواجہ نصیر الدین، اخلاق ناصری، شیراز انتشارات علمیہ اسلامیہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

٩٦۔ عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ، ٢٠ جلد، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ١٤٠٣ ق۔

٩٧۔ عبد الباقی، محمد فواد، المعجم لالفاظ القرآن الکریم، قاہرہ، مطبعہ دارالکتب المصریہ، ١٣٦٤ ق۔

٩٨۔ عدة من الرواة، اصول ستہ عشر، قم، دارالشبستری، ١٤٠٥ ق۔

٩٩۔ عسکری، ابو ہلال و جزایری، سید نور الدین، معجم الفروق اللغویہ، قم، مکتبہ بصیرتی، ١٣٥٣۔

١٠٠۔ علامہ امینی، احمد، الغدیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ١٤٠٢ ق۔

١٠١۔علامہ حلی، کشف المراد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤١٣ ق۔

١٠٢۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القران، ٢٠ جلد، قم، جامعةالمدرسین، مؤسسہ نشر اسلامی۔

١٠٣۔ علامہ طبا طبائی، سید محمد حسین، رسائل سبعہ، قم، نمایش گاہ ونشر کتاب، ١٣٦٢۔

١٠٤۔ علم الہدی، سید مرتضی، الذخیرہ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ١٤١١ ق۔

١٠٥۔ عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، ١٣٨٠ ق۔

۲۷۴

١٠٦۔ غزالی، ابو حامد محمد، احیاء علوم الدین، بیروت، دارالعلم، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٠٧۔ فرانکل، ویکتور، انسان در جستجوی معنا، ترجمہ نہضت صالحیان ومیلانی، درسا، ١٣٧٣۔

١٠٨۔ فرانکنا، فلسفہ اخلاق، ترجمہ ہادی صادقی، قم، مؤسسہ فرہنگی طہ، ١٣٧٦۔

١٠٩۔ فقہ الرضا ( فقہ منسوب بہ امام رضا ـ) ، مشہد، کنفرانس جہانی امام رضا ـ ١٤٠٦ ق۔

١١٠۔ فلسفی، محمد تقی، اخلاق، تہران، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١١۔ فلسفی، محمد تقی، کودک ازنظر وراثت و تربیت، تہران، ، نشر معارف اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٢۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١١٣۔ فیض کاشانی، ملا محسن، المحجة البیضا فی تہذیب الاحیائ، ٨ جلد، بیروت، مؤسسہ اعلمی مطبوعات، ١٤٠٣ ق۔

١١٤۔ قطب محمد، روش تربیتی در اسلام، ترجمہ محمد مہدی جعفری، تہران، انجام کتاب، ١٣٦٢۔

١١٥۔ قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، بہ خط طاہرہ خوشنویس، تہران، کتابچی، ١٣٧٠۔

١١٦۔قمی، علی بن ابر ا ہیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، ١٤٠٤ ق۔

١١٧۔ کارل الکسیس، نیایش، ترجمہ علی شریعتی، تہران، حسینیہ ارشاد، ١٣٥٨۔

١١٨۔ کانت، ایمانوئل، بنیاد ما بعد الطبیعہ اخلاق، ترجمہ حمید عنایت و علی قیصری، تہران، شرکت سہامی انتشار خوارزمی، ١٣٦٩۔

١١٩۔کتاب مقدس، ترجمہ فارسی، قطع جیبی، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٢٠۔ کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، ١٤١٠ ق۔

١٢١۔ کریستیانی، ترزاس، روان شناسی مشاورہ، ترجمہ رضا فلاحی و حاجی لو، مؤسسہ رشد، ١٣٧٤۔

١٢٢۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ٢جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٤ ق۔

١٢٣۔ مارستون، انتفانی، معجزئہ تشویق، ترجمہ توراندخت تمدن (مالکی ) ، تہران، علمی، ١٣٧٥۔

١٢٤۔ مثولتز، دوان، روان شناسی کمال، ترجمہ گیتی خوش دل، تہران، نشر نو، ١٣٦٢۔

١٢٥۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ١١١ جلد، بیروت، دارالاضوائ، ١٤١٣ ق۔

۲۷۵

١٢٦۔ محمد قاسمی، حمید، اخلاق جنسی اسلام کی نظر میں، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، ١٣٧٣۔

١٢٧۔ محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ١٠ جلد، قم، حوزہ علمیہ قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ١٣٦٢۔

١٢٨۔ مزلو، آبراہام، روان شناسی شخصیت سالم، ترجمہ شیوا روی گردان، تہران، ہدف، ١٣٦٧۔

١٢٩۔ مزلو، آبراہام، انگیزش و شخصیت، ترجمہ احمد رضوانی، مشہد، آستانہ قدس رضوی، ١٣٦٧۔

١٣٠۔ مشکور، محمد جواد، خلاصئہ ادیان، تہران، شرق، ١٣٧٢۔

١٣١۔ مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق در قرآن، تہران، امیر کبیر، ١٣٧٢۔

١٣٢۔ مصباح یزدی، محمد تقی، دروس فلسفہ اخلاق، تہران، اطلاعات، ١٣٦٧۔

١٣٣۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( حکمت عملی) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٤۔ مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی ( عرفان) ، قم، صدرا، ١٣٧١۔

١٣٥۔ مطہری، مرتضی، اخلاق جنسی در اسلام و جہان غرب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٣٦۔ مطہری، مرتضی، اسلام و مقتضیات زمان، ٢جلد، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٣٧۔ مطہری، مرتضی، تعلیم وتربیت در اسلام، تہران، ، صدرا، ١٣٦٧۔

١٣٨۔ مطہری، مرتضی، جاذبہ ودافعہ علی ـ ، تہران، ، صدرا، ١٣٦٨۔

١٣٩۔ مطہری، مرتضی، جاودانگی اخلاق، (چاپ شدہ در یاد نامہ استاد مطہری، ج١) ، تہران، سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ٦٠ ١٣۔

١٤٠۔ مطہری، مرتضی، سیر ی در سیرئہ نبوی، قم، صدرا، ١٣٧٦۔

١٤١۔ مطہری، مرتضی، مسلہ حجاب، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٢۔ مطہری، مرتضی، مسلہ شناخت، قم، صدرا، ١٣٧٤۔

١٤٣۔ مطہری، مرتضی، مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی (انسان در قرآن) ، قم، صدرا، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٤٤۔ مطہری، مرتضی، نظام حقوق زن در اسلام، قم، صدرا، ١٣٧٥۔

١٤٥۔ مطہری، مرتضی، نقدی بر مارکسیسم، قم، صدرا، ١٣٦٢۔

۲۷۶

١٤٦۔ معین، محمد، فرہنگ فارسی( متوسط) ، ٦جلد، تہران، امیر کبیر، ١٣٧١۔

١٤٧۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧٢۔

١٤٨۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ٢٧ جلد، تہران، دارالکتب الاسلامےة، ١٣٧١۔

١٤٩۔ملکی تبریزی، میرزا جواد آغا، رسالئہ لقاء اﷲ، ترجمہ ومقدمہ واضافات سید احمد فہری، نہضت زنان مسلمان، ١٣٦٠۔

١٥٠۔منصور، محمود، احساس کہتری، تہران، دانشگاہ تہران، مؤسسہ انتشارات وچاپ، ١٣٦٩۔

١٥١۔ منصور، محمود، روان شناسی ژنتیک: تحول روانی از کودکی تا پیری، تہران، ترمہ، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٢۔ مہرین، مہراد، فلسفہ شرق، تہران، مؤسسہ مطبو عاتی، عطائی، ١٣٥٧۔

١٥٣۔ نائینی، میرزا محمد حسین، فوائد الاصول ( تقریر محمد علی کاظمی ) ، ٤جلد، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٤٠٤ ق۔

١٥٤۔ ناطق، ناصح، بحثی دربارئہ زندگی مانی وپیام او، تہران، امیر کبیر، ١٣٥٧۔

١٥٥نراقی، ملا احمد، معراج السعادہ، تہران، رشیدی، ١٣٦٢۔

١٥٦۔ نراقی، ملا مہدی، جامع السعادات، قم، اسماعیلیان، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٧۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تہران، مکتبة الصدوق، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٥٨۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل البیت، ١٤٠٧ ق۔

١٥٩۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل ومستنبط المسایل، بیروت، مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٨ ق۔

١٦٠۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ٢ جلد، بیروت، دارالتعارف ودار صعب، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦١۔ ویل دورانت، تاریخ تمدّن، ترجمہ گروہی ازمترجمین، تہران، اقبال، (تاریخ طبع مشخص نہیں ہے)۔

١٦٢۔ ویل دورانت، لذات فلسفہ، تہران، شرکت سہامی انتشار اندیشہ، ١٣٥٤۔

١٦٣۔ہرگنہان، بی۔ آر۔ مقدمہ ای بر نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ علی اکبر سیف، تہران، دانا، ١٣٧٤۔

١٦٤۔ ہرمان الدنبورک، فروغ خاور، ترجمہ بدر الدین کتابی، اصفہانی، انتشارات کتاب فروشی تیید، ١٣٤٠۔

١٦٥۔ ہیلگارد، ارنست، نظریہ ہای یاد گیری، ترجمہ محمد نقی براہنی، تہران، ستاد انقلاب فرہنگی مرکز نشر دانشگاہی، ١٣٧٦۔

١٦٦۔یونگ، روان شناسی ضمیر نا خود آگاہ، ترجمہ محمد علی امیری، تہران، انتشارات آموزش و انقلاب اسلامی، ١٣٧٢۔

۱۶۷- The Psychology of Healthe ,M.Robin Dimatteo, colifornia,۱۹۹۱

۲۷۷

فہرست

پہلا باب : اخلاق کے اصول ۴

پہلی فصل: کلّیات ۴

الف۔ علم اخلاق سے واقفیت ۴

١۔ لفظ اخلاق کا لغوی مفہوم ۴

٢۔علم اخلاق کی تعریف ۵

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ ۶

٤۔ اخلاقی تربیت ۷

ب۔ علم اخلاق اور دوسرے علوم ۸

١۔ علم اخلاق اور فقہ ۸

٢۔ علم اخلاق اور حقوق ۹

٣۔ علم اخلاق اورعرفان عملی ۹

٤۔علم اخلاق اور تربیتی علوم ۱۰

ج۔ اخلاق سے متعلق نظریات ۱۱

١۔فیلسوفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٢۔ عارفوں کا نظریۂ اخلاق ۱۱

٣۔اخلاق نقلی(٣) ۱۳

د: اخلاق اسلامی کے مباحث کی تقسیم ۱۶

١۔اخلاق کی بعض بنیادی اور فلسفی بحثیں ۱۶

٢۔اخلاقی خوبیوںاوربرائیوں کی توصیف ۱۶

۲۷۸

٣۔اخلاق تربیتی ۱۶

دوسری فصل : اخلاق کی جاودانی ۱۷

مقدمہ ۱۷

١۔مسئلہ کی وضاحت: ۱۷

٢۔ بحث کی تاریخ: ۱۷

٣۔ موضوع کی دینی اہمیت: ۱۸

٤۔اطلاق اور نسبیت کا مفہوم: ۱۸

الف۔ اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے: ۲۰

١۔ ذمہ داری کا سلب ہونا: ۲۰

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا: ۲۱

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی: ۲۱

٤۔ اخلاقی شکّاکیت : ۲۱

٥۔خادموں اور خائنوں کا یکساں ہونا: ۲۲

ب۔ ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں ۲۲

١۔پائدار اخلاق کی نشاندہی کی ضرورت: ۲۲

٢۔ اخلاق کے جاودانی اصولوں کو بیان کرنا: ۲۲

ج۔ سو ا لا ت اور جوابات ۲۵

پہلاسوال: ۲۵

پہلا جواب: ۲۵

دوسرا جواب: ۲۵

۲۷۹

تیسرا جواب: ۲۶

چوتھا سوال: ۲۸

جواب: ۲۸

تیسری فصل: اخلا قی عمل ۲۹

عناوین ۲۹

١لف ۔اخلاقی عمل کے قیمتی عناصر ۳۰

١ ۔فاعلی عناصر ۳۰

ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیار ۳۱

١۔فلسفی جبر: ۳۲

٢۔ اخلاقی جبر: ۳۲

٣۔ حقوقی جبر: ۳۲

٤۔ نفسیاتی جبر: ۳۲

٥۔سماجی جبر: ۳۳

دو: فاعل کی نیت اورمقصد ۳۴

١۔مقصدکی عقلی اہمیت: ۳۵

نیت کے مراتب: ۳۶

مقصد اور ایمان کارشتہ: ۳۷

ایمان اورعمل کا رشتہ : ۳۹

کافروں کے نیک اعمال: ۴۰

٢۔فعلی اور عینی عنصر ۴۱

۲۸۰