اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق0%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق

مؤلف: احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 172050
ڈاؤنلوڈ: 4874

تبصرے:

اسلامی اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172050 / ڈاؤنلوڈ: 4874
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

کوئی منفی مقصد بھی نہیں رکھتے ہیں یعنی دین حق اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی کے مقصد سے انجام نہیں دیتے اور فاعل انھیں انجام دینے کے لئے مادی اور حیوانی ضرورتوں کے پورا کرنے سے بالاتر مقصد دکھاتا ہے یعنی اس کا عمل، انسانی احساسات وعواطف کی خاطر انجام پاتاہے (جیسے کسی کو معاف کردیتا ہے اور سخاوت کو ظاہر کرتا ہے اس جیسے دوسرے اعمال) اگرچہ انسانی نفس کی بلندی وتکامل کے لئے ضروری شرطیں نہیں رکھتے اور اس کے لازمی نصاب تک نہیں پہنچتے لیکن وہ اس کے لئے مقدمہ فراہم کرتے ہیں یعنی انسان کی روح وجان کو معنوی سفر طے کرنے کے لئے آمادہ کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں کی بناپر اُخروی سزائوں کے رفع ہونے یا اُن میں تخفیف ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور اگرچہ لازم شرطوں کے نہ ہونے کی بناپر بہشت میں داخل نہیں ہوگا اوراسے ابدی سعادت میسر نہیں ہوگی لیکن مطلق ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہ ہو''۔(١)

٢۔فعلی اور عینی عنصر

اخلاقی عمل کے لئے ان شرطوں کے علاوہ جو فاعل کے ذریعہ ان کی انجام دہی میں ہونی چاہئے، لازم ہے کہ وہ عمل فی نفسہ اورذاتی طور پربھی نیک، اچھا اور پسندیدہ ہو۔

اسلامی علوم میں رائج تعبیر کے مطابق اُسے حُسن فعلی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں یہ حُسن فاعلی کے مقابلہ میں ہے جس کے بارے میں عنصر فاعلی کے عنوان کے تحت اس کتاب میں گفتگو ہوئی ہے۔

اس سوال کے بارے میں کہ کیا کوئی عمل ذاتی طور پر نیک اور شائستگی کا حامل ہے یانہیں ؟ اس سے پہلے اس سلسلہ میں اجمالی طور پر گفتگو ہوچکی ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ تحقیق اورمعلو مات کے لئے اس سے مربوط منابع ومصادر میں جستجو کرنی چاہئے(٢) لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ اس عمل کا معیار اور اس کی نشانی انسان پر منحصر ہیں اور انھیںنشانیوں کی بنیاد پر اُسے نیکی اور برائی سے متّصف قرار دیاجاتاہے اور وہ ثواب یا عقاب کا مستحق ہوتا ہے اور محاسبہ وآزمائش کی بنیاد پر انسان خدا کے نزدیک جگہ پاتاہے۔ جب کہ اگر خارجی عمل پر اس کے علائم سے ہٹ کر اس پر توجہ کی جائے تو صرف ایک بدنی حرکت ہوگی اور وہ حرکت باقی تمام حرکتوں کی طرح نہیں ہوگی اور اس کی بہ نسبت اچھائی اور برائی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔(٣)

____________________

١۔ ر۔ک مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق درقرآن، ص١١٧١،١٧٢۔

٢۔ سبحانی، جعفر: حسن وقبح عقلی، پایہ ہائے جاودان اخلاق کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج١٦، ص٨٢۔

۴۱

اخلاقی عمل کے لئے حُسْن فعلی کی ضرورت کو عقلائی لحاظ سے بیان کرنے کے لئے کہا جاسکتاہے کہ انسان کا ارادی وآزادانہ (غیر ارادی) فعل اس کے نفس کے ذریعہ وجود میں آتاہے اورکمیّت، کیفیت، شکل، زمانی ومکانی خصوصیات وغیرہ کے لحاظ سے وہ فاعل کے مقصد کے تابع ہے۔ یعنی حقیقت میں فاعل کا مقصد اس کے عمل کی روح اور اسے وجود میں لانے والا ہے۔ اس بناپر ہر کام کو ہر مقصد کے ساتھ انجام نہیں دیا جاسکتا ہے اور ہر مقصد ایک خاص طریقہ سے کسی عمل کے ساتھ سنخیت اورمناسبت رکھتا ہے۔ سونے کی حالت میں کسی علمی امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ گھرمیں بیٹھ کر کعبہ کی زیارت نہیں ہو سکتی ہے اوردوسروں کی عزت وحرمت اور مال کے ساتھ زیادتی کر کے پروردگارکی خوشنودی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔(١)

اس طرح فلسفۂ اخلاق اسلامی میں فاعل کی نفسانی حالت اور مقصد پر بھی تو جہ کی جاتی ہے اس کے علاوہ عمل کی عینی ماہیت اوراس کے واقعی وحقیقی آثار کو بھی تو جہ کامرکزبنا یاجاتاہے۔یہ مکتب اُن اصالتِ فاعل کے طرفدار مکاتب کے برخلاف ہے جو عمل کی انجام دہی میں فقط فاعل کے نفسانی پہلووں پرتاکیدکرتے ہیں اور اصالت عین کے طرفدار مکاتب کے بر خلاف بھی ہے جو صرف خارجی عمل کی طبیعت اوراس کے عینی ومادی آثار کو اخلاقی اچھائی اوربرائی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ جو شرائط وحالات اخلاق اسلامی میں فاعل کے مقصد کے لئے عمل کا معنوی عنصرہیں اوراسی طرح اخلاقی عمل کے مادی عنصرکے لئے ضروری مانے جاتے ہیں، وہ دوسرے اخلاقی مکاتب میں بیان ہونے والے شرائط وحالات سے بنیادی طورپرمختلف ہیں۔

____________________

١۔ر۔ک: مصباح یزدی، محمدتقی، دروس فلسفۂ اخلاق، ص١٦٧،١٦٨۔

۴۲

ب: اخلاقی ذمہ د اری کی شرطیں

گزشتہ بحث میں اخلاقی عمل کی اہمیت کی شرطوں اور ان کے عنصروں کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے۔ اخلاقی تعریف، جزا اور اس کی اہمیت اور قدر وقیمت کے مقابلہ میں اخلاقی سرزنش، مذمّت وسزااوراس کی ذمہ داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم اخلاق میں ''قدروقیمت ''اور''ذمہ داری'' دوفیصلہ کن بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہیں اور اُن میں سے کسی ایک کے فقدان کی وجہ سے ایک اخلاقی نظام کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ اس وجہ سے مناسب ہے کہ اخلاقی ذمہ داری کے اصلی عناصر اور ارکان کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا جائے۔

اخلاقی ذمہ داری سے مراد پروردگار کے حضور میں ذمہ داری ہے اوراس کے نتیجہ میں اخروی جزاوسزاہوتی ہے خواہ دنیوی ذمہ داری اورسزا وجودرکھتی ہو یانہ رکھتی ہو۔دوسرے لفظوں میں اخلاقی ذمہ داری کی علامت، عمل پر مترتب ہو نے والااخروی عقاب اور سزا ہے، یہ اسی طرح ہے جیسے اخلاقی قدر وقیمت آخرت میں جزا وثواب کو وجودمیں لاتی ہے ۔ مسلمان متکلمین، اخلاقی دستوروں کے مقابلہ میں ذمہ داری کی شرطوں کو چارحصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ان شرطوں میں کچھ اصل دستور اور اخلاقی تکلیف سے مربوط ہیں، کچھ دوسری شرطیں، دستور دینے والے سے مربوط ہوتی ہیں اُن میں سے بعض شرطیں ایسی ہیں جواُن موضوعات کے لئے ہیں جن سے دستور کا رابطہ ہو تا ہے

۴۳

اوربعض دوسری شرطیں مسئول وذمہ دارانسان سے مربوط ہو تی ہیں۔(١)

اخلاقی اوامر واحکام کے پسندیدہ ہونے کی وہ شرطیں جو شریعت کی اساس اور بنیاد کا اہم حصہ ہیں اور اسی طرح حاکم اور اخلاقی فرمان جاری کرنے کے لائق انسان کی خصوصیات، علم اخلاق کے کلامی موضوعات وافکار کی جزٔ ہیں اوران کے سلسلہ میں تحقیق وبحث کرنے کی جگہ، علم کلام ہے جہاں خداشناسی، نبوت اور دین کی ضرورت، جیسے مباحث میں بحث وتحقیق کی گئی ہے۔ اُن عملی شرطوں کو بیان کیا جاچکا ہے جن کے لئے حکم دیا جاتا ہے یا ان کی انجام دہی سے نہی کی جاتی ہے، اب اُن بنیادی عناصر کے سلسلہ میں گفتگو ہوگی جن کا انسان کے اندر موجود ہونا اخلاقی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے شرط اور ضروری ہے۔

١۔بلوغ

بچے اورنا بالغ افراد اخلاقی ذمہ داری کے بارسے آزاداور بری ہیں۔البتہ اُن کے سرپرست اُن کے اعمال کی خاطر حقوقی طورپر ذمہ دارہیں۔اس وجہ سے اسلام کے اخلاقی نظام میں بچوں کے نیک اعمال اخلاقی اہمیت اور ثواب وجزا کے حامل ہیں لیکن ان کی اخلاقی برائیوں سے متعلق سوال نہیں ہو گا اور اُن کے لئے آخرت میں کوئی کیفروسزانہ ہوگی۔

اسلام کی مقدس کتابوں میں اخلاقی ذمہ داری کی بنیادی شرطوں میں سے بلوغ کو ایک شرط کے طور پرپیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرحضرت امام محمد باقر ـ ایک روایت میں بلوغ کے زمانہ آغاز کو بیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں: ''انسان کے سنّ بلوغ تک پہنچنے کے بعد حدودالہی مکمل طورپراس کے نفع اورنقصان میں جاری ہو جائیں گے۔''(٢)

____________________

١۔ علامہ حلی: کشف المراد، ص ٣٢٢، شیخ طوسی: الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص١٠٧۔ حمصی رازی شیخ سدید الدین: المنقذسن التقلید، ص٢٨٨کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ رک۔ کلینی: کافی، ج: ٧، ص: ١٩٨۔ شیخ صدوق: فقیہہ، ج٤، ص١٦٤۔

۴۴

٢۔عقل

طبیعی وفطری بلوغ کے علاوہ قوۂ عقل کی موجودگی اخلاقی ذمہ داری کی شرط ہے۔ اس بناپر وہ افراد جو عقل سلیم نہیں رکھتے اورقدرت تعقل کی کمی سے دوچارہیں وہ اخلاقی ذمہ داری کے حامل نہیں ہیں۔ اگر چہ ان کے سرپرست اُن کے اعمال کے نتیجہ میں دوسروں کو ہو نے والے نقصانات کے تئیں حقوقی طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں۔

فاعل میں عقل کے موجود ہو نے کی ضررت پر جودلیلیں ہیں اُن میں سے ایک وہ اثر ہے جو فاعل میں علم وآگاہی کے لئے عقل رکھتی ہے(١) ۔ آئندہ بیان ہو گا کہ اخلاقی ذمہ داری کی شرطوں میں سے ایک فعل کی اچھائی اور برائی سے متعلق فاعل کا علم اور اس کی آگاہی ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ شرط عقلی قدرت پر موقوف ہے انسان کے اندر عقل وادراک کی موجودگی آگاہی کے لئے ضروری مقدمہ ہے اور خود اخلاقی ذمہ داری کے لئے ایک شرط محسوب ہو تی ہے۔

٣۔علم یا اسے حاصل کرنے کا امکان

کو ئی انسان اخلاقی طور پراس وقت ذمہ دارہو تا ہے جب ترک کی جانے والے اعمال کی خرابی، برائی اور ممنوعیت کے بارے میں اورانجام دئے جانے والے اعمال کی خوبی، شائستگی، وجوب اور اسی طرح اُن کو انجام دینے کے سلسلہ کی کیفت میں علم وآگاہی رکھتا ہو یا یہ کہ ضروری علم حاصل کرنا اس کے لئے ممکن ہو۔یعنی ایسے حالات وشرائط کے تحت ہو جن میں وہ ان سے متعلق علم کو حاصل کرسکے۔(٢)

اس بنا پر بہت سے ایسے مسلمان یا غیر مسلمان جو اپنے اخلاقی فرائض کے بارے میں علم نہیں رکھتے لیکن اُن کے لئے اس طرح کا علم حاصل کرنا ممکن ہے، وہ اس طرح کے اپنے اعمال کے سلسلہ میں اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں اور اخروی سزائیں ان لوگوں سے بھی متعلق ہیں اگر چہ فی الحال علم نہ رکھتے ہوں ان کے مقابلہ میں وہ مسلمان یا غیرمسلمان جن کے لئے اس طرح کا امکان فراہم نہیں ہے اوران سے ممکن بھی نہیں ہے وہ اس طرح کی اخلاقی ذمہ داری سے بری ہونگے۔اخلاق کے علاوہ موجودہ حقوقی نظام بھی انسان کے علم یا اس کے لئے علم حاصل کرنے کے امکانات کو کیفری طور پر ذمہ دار ہونے کے لئے شرط سمجھتے ہیں۔

____________________

١۔ رک۔ شیخ طوسی: الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص١١٧۔

٢۔ ایضاً ١١٦، ١١٧۔ علامہ حلی: کشف المراد، ص٣٢٢۔

۴۵

فرائض سے متعلق علم یااسے حاصل کرنے کے امکان کو اخلاقی ذمہ داری کے لئے ایک شرط کیوں مانا گیاہے؟

علم کی شرط اور اس کی موجو دگی کی ضرورت کے سلسلہ میں اس کیوں کا جواب دینے کے لئے فطری ، وجدانی، عقلی وعقلائی اور دینی لحاظ سے متعدد دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں:

پہلی دلیل :

انسان کا سالم وجدان کسی انسان کے لئے کیفر اورسزاکے اعلان وابلاغ کے بغیر اور اس وقت تک پسند نہیں کرتا جب تک وہ اپنے فریضہ سے متعلق علم کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔(١)

یہاں یہ بیان کرنا مناسب ہے کہ یہ شرط حتّیٰ اس نظریہ کی صورت میں بھی قابل قبول ہے کہ بدلہ اور سزاکو اخلاقی عمل کا طبیعی نتیجہ مان لیں، کیونکہ وہ لوگ بھی جو عمل اور بدلہ کے درمیان قراردادی رابطہ کی نفی کرتے ہیں اور تکوینی رابطہ کو قبول کرتے ہیں عمل کا لحاظ اس کے معنوی عناصر کے ساتھ کرتے ہیں نہ کہ فقط مادی عنصر کے ساتھ۔ یعنی اخلاقی عمل اس کے تمام عنصروں، منجملہ ان کے اس کا مادی پیکر کے ساتھ، فاعل کے مقصد اور نیت اور اس کے آگاہ ہونے اور نہ ہونے کے نتیجہ میں بدلہ اور کیفر کی صورت میں نتیجہ دیتاہے اور یہ فقط اس کے مادی پیکر میں نہیں ہے۔

دوسری دلیل:

عقل، فریضہ سے متعلق علم وآگاہی کو فریضہ کی انجام دہی کے لئے تکوینی اور فلسفی شرط کے طور پر مانتی ہے اور اس بنا پر اس کے فقدان کی صورت میں فریضہ کی انجام دہی کو محال جانتی ہے۔ کیونکہ فرائض سے متعلق جہل کی حالت میں فریضہ سے متعلق پابندی کے لئے فاعل میں کوئی مقصد اور اسے تحریک کرنے والی کوئی چیز موجود نہ ہوگی اس طرح مقصد کے بغیر فعل کا صادر ہوناعقلی طور پر محال ہے(٢) اس کے علاوہ عقل اصولی طورپر انسان کی جواب دہی، بازپرس اور سزائوں کو مجہول تکلیف (نامعلوم فریضہ) اوران حالات کی بناپر جن میں انسان نے اپنے اخلاقی فرائض سے آگاہی کے لئے پوری کوششیں کی ہیں، برا، ناپسند، اور حقیقت میں تشریعی عدالت کے خلاف جانتی ہے(٣) عقل کے اس فیصلہ کو علم اصول کے علماء قاعدہ ''قبح عقاب بلابیان'' کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔

____________________

١۔ رک۔ آخوند خراسانی: کفایة الاصول، ص: ٣٤٣۔

٢۔ میرزا نائینی: فوائد الاصول (تقریر شیخ محمد علی کاظمی) ، ج٣، ص٣٦٥۔٣٧١۔

٣۔ آخوند خراسانی: کفایة الاصول۔

۴۶

تیسری دلیل:

عقلائی اور عرفی وجدان، مجہول تکلیف (نامعلوم فریضہ) کے ترک کرنے پر سزاکا مستحق نہیں جانتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ سماج کے عقلمند لوگ، اپنے ماتحت رہنے والوں کو اس دستور کی بنا پر جو ان کے لئے اعلان نہیں ہوا اوران تک نہیں پہنچا ہے یا جس کی دستیابی میں ان لوگوں نے کوتاہی اور تقصیر نہیں کی ہے، جواب دہی اور سزا کا مستحق نہیں جانتے ہیں اور اُن لوگوں کو سزا دینا غیر مناسب اور برا مانتے ہیں۔

چوتھی دلیل:

کتاب وسنت میں مذکورہ قاعدہ (قبح عقاب بلا بیان) کی تائید کثرت کے ساتھ کی گئی ہے۔ نمونہ کے طور پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیاجاتاہے:

خداوند عالم فرماتا ہے: ''ہم نے جب تک پیغمبر کو مبعوث نہیں کرتے، اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتے''۔(١)

معروف تفسیروں کے مطابق پیغمبر کو (بغیر کسی مقصد کے) بھیجنا اہم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک ضروری علم وآگاہی کو لوگوں تک نہیں پہنچا دیا جاتا، ان لوگوں کو ذمہ دار نہیں جاناجاسکتا ہے اور سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔

دوسری جگہ پر فرماتاہے: ''خداکسی کو بھی تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اتنی جتنی کہ اسے قدرت دی ہے''۔(٢) اس آیت کے مطابق بھی انسان اسی قدر ذمہ دار ہے جس قدر اس نے کچھ حاصل کیا ہے یا حاصل کرسکتا ہے۔ خواہ علم وآگاہی ہو یاقدرت واستعداد۔

پیغمبراکرم نے بھی فرمایا ہے:

''ہماری امت سے نو چیزوں (کے بدلہ) کو اُٹھا لیاگیا ہے: خطا، فراموشی، لاعلمی، ناتوانی، وہ امور جن کی خاطر قدرت نہیں ہے، وہ امور جن کو اضطرار یا اکراہ یا اجبار کی وجہ سے انجام دیا جاتا ہے، فال بد نکالنا، خلقت میں اور تفکّر وتدبّر میں وسوسہ پیدا ہونا اور حسد اس صورت میں کہ زبان یا ہاتھ سے ظاہر نہ ہو۔(٣)

____________________

١۔ سورۂ اسراء آیت١٥ (وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّیٰ نَبْعَثْ رَسُوْلاً

٢۔ سورۂ طلاق آیت٧(لَایُکَلِّفَ اللّٰهُ نَفْساً اِلّا مَا آتَاهَا

۳۔ کلینی، کافی، ج٢ ]کتاب الایمان والکفر، باب ما رفع عن الامة[ح٢۔ صدوق، فقیہہ، ج١، ص٣٦۔ خصال، ج٢، ص٤١٧۔

۴۷

اس حدیث میں انسان نوچیزوں سے متعلق اپنی اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی وسزا سے معاف ہوگیا ہے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ انسان ان تکلیفوں اور فرائض کے سلسلہ میں جواب دہ نہ ہوگا جن کے بارے میں علم وآگاہی نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ اس کی لاعلمی تقصیر اور کوتاہی کی بنا پر ہو، نہ کہ غلطی اورمجبوری کی بناپر۔ اس (غلطی کی) صورت میں بے خبررہنا ذمہ داری کو ختم نہیں کرتا ہے۔اس وجہ سے کہ علم کا دوام اورباقی رہنابھی اخلاقی ذمہ داری کے تحقق کے لئے مؤثر ہے اور عقلی طور پر بھولنے والے انسان کے لئے تکلیف اور ذمہ داری نہ ہونے کی دلیل کی بنا پر وہ انسان جو پہلے اپنی اخلاقی ذمہ داری سے متعلق علم رکھتا تھا لیکن اسے انجام دیتے وقت غفلت اور فراموشی کا شکار ہوگیا، اخلاقی طور پرذمہ دارنہ ہوگا۔

٤۔قدرت

اس شرط کی بنیاد پرانسان اُن چیزوں کے بارے میں جن کی پابندی کے لئے توانا ئی نہیں رکھتا اخلاقی طور پر ذمہ دارنہیں ہے۔ (خواہ وہ فعل کو انجام دینے کے لئے ہو یا ترک کرنے کے لئے) اور قیامت کے دن اس سلسلہ میں اس سے سوال وجواب نہ کیا جائے گا اور قابل توبیخ نہ ہو گا۔ اسلامی علوم میں یہ شرط ''تکلیف مالا یطاق'' کے عنوان کے تحت محال اور قبیح ہے اور یہ مسئلہ تمام لوگوں کے نزدیک مشہور، رائج اور قابل قبول ہے۔

مسلمان حکما اور متکلمین نے اس شرط کو ثابت کرنے کے لئے اس کے عقلی پہلو (یعنی یہ کہ نا قابل برداشت تکلیف اور فریضہ کی انجام دہی کا حکم دینا عدالت کے باخلاف اور ظلم کے واضح مصداقوں میں سے ہے) پر زور دینے کے علاوہ الہی حکمت اور خدا کے افعال کے بامقصد ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ خدا کے تکوینی اور تشریعی افعال کے حکیمانہ ہونے کی مصلحت کی بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اُنہیں تکلیفوں کو بندوں کے لئے مقرر کرتا ہے جن کے نتیجہ میں مقصد حاصل ہوسکے۔یہ بات واضح ہے کہ یہ مقاصد اس صورت میں قابل مقدور ہونگے کہ مقررشدہ فرائض کی انجام دہی افراد کی طاقت و توانائی سے باہر نہ ہو۔ اس بناپر ایسے امور کے لئے تکلیف معین کرنا جو انسان کے لئے غیر مقدور و ناممکن ہے، بے کار وبے فائدہ اور حکمت و مصلحت کے خلاف ہے اور اُن کا حکیم پرور دگار کی طرف سے نافذ ہو نامحال ہے۔(١)

____________________

١۔ رک۔ سبحانی ، جعفر، الہیات، ج١، ص٣٠١۔ شہیدصدر: دروس فی علم الاصول، حلقہ دوم، ص٢٣٥تا ٢٤٠۔

۴۸

یہ شرط کتاب وسنت میں بھی کئی بار تائید اور تأکید کے مرحلہ سے گذری ہے۔اُن کی بعض مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

''خدا کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگراسی قدر جتنی کہ اس کے پاس توانائی ہے۔ جو کچھ نیکی سے حاصل کیا اس کے لئے مفید اور جو کچھ برائی سے حاصل کیا اس کے لئے نقصان دہ ہے ''۔(١)

''ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اسی قدر جتنی کہ اس کے پاس طاقت ہے۔ اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جوحق بیان کرتی ہے اوران پرکوئی ظلم نہیں کیا جاتا ہے''۔(٢)

اس بات کے علاوہ کہ انسان کو اصل فعل کی انجام دہی پر قادرہونا چاہئے، یہ بھی ضروری ہے کہ اگر مکلّف کے لئے فریضہ کو انجام دینے میں وسائل ومقدمات فراہم کرنے کی ضرورت ہو تو مکلف کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقدمات کو بھی حاصل کرنے کی قدرت رکھتا ہو، ورنہ حقیقت میں وہ اس فریضہ سے متعلق قدرت اور توانائی نہیں رکھتا۔(٣)

یاد رہے کہ جس طرح علم کا فقدان اس صورت میں اخلاقی ذمہ داری کو معاف کرتا ہے جب انسان نے اپنی لاعلمی کے سلسلہ میں تقصیر اور کوتاہی نہ کی ہو، اسی طرح قدرت اور توانائی کی شرط کے سلسلہ میں بھی کہنا چاہئے کہ ہم بہت سے مقامات پر قدرت وتوانائی حاصل کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں(٤) ، مثلاً ہمارا فریضہ ہے کہ اسلامی سرزمین اورملکوں کی حفاظت اور ان کے دفاع کی قدرت وتوانائی اور آمادگی کے وسائل کو فراہم کریں۔

''( اے ایمان لانے والو!) تم سب ان کے مقابلہ کے لئے ہر ممکن طاقت (جنگی سامان) اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کر لو تاکہ اُن کے ذریعہ خداکے دشمن اور خود اپنے دشمن اور اُن دشمنوں کو جن کو تم نہیں جانتے اور اﷲ جانتا ہے ڈرائو۔(٥)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرة، آیت٢٨٦ ۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج٢، ص٤٤٣، ٤٤٤۔

٢۔ سورۂ مومنون، آیت ٦٢۔ اور اسی طرح سورۂ انعام، آیت١٥٢۔ اور علامہ طباطبائی: المیزان، ج١٥، ص٤١تا٤٣۔

٣۔ ر،ک۔ شیخ طوسی،الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد ، ص١١٨،١١٩۔

٤۔ ر،ک۔شہید مرتضیٰ مطہری: مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی (انسان درقرآن ) ، ص٢٧٦،٢٧٧۔

٥۔ سورہ ٔانفال، آیت٦٠

۴۹

٥۔ اضطرار (مجبوری) کا نہ ہونا

اضطرار (مجبوری) بہت سی جگہوں پر اخلاقی ذمہ داریوں کو ختم کردیتا ہے۔'' مضطر''اس انسان کو کہتے ہیں جسے مشکل حالات کا سامنا ہو۔ جیسے یہ کہ کوئی انسان کسی بیابان میں عاجز وناتوان اور بھوکا ہو اور اسے کھانے کے لئے مردار کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی۔

٦۔ اکراہ واجبار کا نہ ہونا

اکراہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب انسان کو کسی دوسرے جابر انسان یا گروہ کے ذریعہ دھمکی دی جاتی ہے اور وہ اپنی باطنی مرضی کے برخلاف ایسے فعل کو ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوتاہے جو اخلاقی لحاظ سے برا اور ناپسند ہے۔ جیسے یہ کہ اس سے کہا جائے کہ اگر تم نے اپنے روزہ کو نہیں توڑا تو تمہاری جان لے لوں گا یا یہ کہ اگر فلاں مسئلہ میں سچ بولوگے تم کو کام سے ہٹادیاجائے گا۔

وہ حدیث جسے حدیث رفع کہا جاتا ہے ایسے مختلف امور کو بیان کرتی ہے جن میں انسان کے لئے تکلیف اور ذمہ داری نہیں ہے، اُن امور میں سے ایک ''ما استکر ہوا علیہ'' ہے یعنی وہ امور جنہیں انجام دینے یا ترک کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔اکراہ اور اضطرار میں فرق یہ ہے کہ اضطرار میں دھمکی دینے والا کوئی نہیں ہوتا ہے بلکہ مجموعی حالات اس طرح ہوجاتے ہیں کہ وہ ناپسند حالات انسان کے اوپر بار ہو جاتے ہیں اور انسان ان نامطلوب حالات کو رفع کرنے کے لئے ناچار ہو جاتا ہے کہ اپنے اخلاقی فریضہ کے برخلاف عمل کرے اور اکراہ میں انسان اس مصیبت اور نقصان کو دفع کرنے کے لئے مجبور ہوتاہے کہ اپنے اخلاقی فریضہ کے برخلاف عمل کو انجام دے جو کسی دوسرے کی دھمکی کے نتیجہ میں اس کے سامنے ہے۔

اکراہ اور اضطرار مندرجہ ذیل دو بنیادی اسباب سے وابستہ ہے

ایک۔ ایسا صدمہ اور نقصان جس سے بچنا ضروری ہے۔

دو۔ اس تکلیف اور وظیفہ کی اہمیت کہ انسان اکراہ یا اضطرار کی بناپر اسے انجام دینے سے پرہیز کرتا ہے۔

۵۰

اسلام کے اخلاقی نظام میں بعض اخلاقی فرائض کو اکراہ یا اضطرار کی بنا پر ہرگز ترک نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہر حالت میں ان کی پابندی نہیں کی جاسکتی اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے، جیسے کبھی بھی اکراہ یا اضطرار کی بناپر دوسروں کی جانوں کو خطرہ میں نہیں ڈالاجاسکتاہے یاسماجی مصلحتوں کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتا ہے یا دین کی اہم مصلحتوں کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا ہے۔(١)

٧۔قصد وعمد

اخلاقی طور پر ذمہ دار (جوابدہ) ہونے کی دوسری شرط یہ ہے کہ انسان قصداً اورعمداً اپنے اخلاقی فریضہ کو نظر انداز کردے۔ اس بناپر جب بھول چوک کی وجہ سے اپنے اخلاقی فریضہ کو ترک کردے تو اخلاقی لحاظ سے وہ ذمہ دار نہ ہوگا۔

____________________

١۔رک۔ شہید مرتضیٰ مطہری: مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی، ٢٧٧۔٢٧٨۔

۵۱

ج: ۔ اخلاقی عمل کی پہچان

کار آمد اخلاقی نظام کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کی تعیین کے لئے عقلی اصولوں اور معیاروں کو پہچنوانے کے علاوہ ان کے مصداقوں کی بھی واضح طریقہ سے پہچان کرأے۔ انسانی اخلاقی نظام کے ناقص ہونے کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ اخلاقی فضائل ورذائل کو پہچنوانے کے لئے مفید قاعدوں، طریقوں اور راستوں کو پیش کرنے میں وہ ناکام ہیں حتی اگر یہ بھی قبول کر لیا جائے کہ اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کے سلسلہ میں اُن کی طرف سے پیش کردہ کلی اصول اور معیار صحیح ہیں۔(١)

اسلام کے اخلاقی نظام میں اخلاقی فضائل ورذائل کے مصداقوں تک پہنچنے کے لئے اِن تین بنیادی طریقوں پر تاکید کی گئی ہے جو اپنی خاص ماہیت رکھتے ہیں:

ا۔عقل(٢)

اعمال اور اشیاء کے ذاتی حُسن وقبح کو قبول کرنے اور اچھائی اور برائی کو درک کرنے اور پہچاننے کے لئے انسانی عقل کی توانائی کا اعتراف کرنے کے ساتھ انسانی عقل کو اسلام کے اخلاقی نظام میں ایک مستقل قاضی کی حیثیت سے مانا گیا ہے۔ عقلی راستہ ایک ایسا راستہ ہے جووحی سے جدا اور مستقل طریقہ ہے اور یہ بہت سی اچھائیوں اور برائیوں کو پہچنوانے کے لئے ذاتی طور پر قادر ہے۔

____________________

١۔ نمونہ کے طور پر کانٹ کے اخلاقی نظریہ میں جو ممتاز اخلاقی مکاتب میںسے ہے کہاگیا ہے کہ وہ عمل اخلاقی لحاظ سے اہمیت رکھتاہے جو تکلیف اور فریضہ کا مصداق ہو اور فاعل کی نیت اور مقصد صرف فریضہ کو انجام دینا۔ وہ اس سوال کے جواب میں کہ فریضہ کوکس طرح پہچانا جاسکتاہے ؟ جواب دیتا ہے کہ فریضہ ایک مطلق اور کلی بات ہے جو عام قانونی صورت میں مقرر ہوسکتا ہے۔ کانٹ اس بات کی تشخیص دینے کو انسان کی مشترک عقل یا وجدان کے سپرد کرتاہے۔یہ بات واضح ہے کہ یہ ضابطہ اور قانون بہت زیادہ کلی، غیرشفاف اور تفسیرکا محتاج ہے جس کے نتیجہ میں اس نظریہ کے کارگر اور مفید ہونے کو بہت زیادہ محدود کر دیتا ہے۔ (رجوع کیجئے: ایما نوئل کانٹ، ص١٢ تا ٣٤)۔

٢۔ یہاں پر ''عقل'' سے مراد عقلی احکام کی وہ قسم ہے جو قاعدۂ کلیہ: ''حکم عقل وشرع کے درمیان ملازمہ'' کے تحت قرار پا سکتی ہے اور اس قاعدہ کی مدد سے ارادۂ شریعت کی حکایت کرسکتی ہے۔ اس بات کے شرائط وکیفیات کو اصول فقہ کی کتابوں میں ملازمات عقلیہ کی بحث میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

۵۲

انسانی عقل قطعی طور پر درک کرتی ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کا احترام کرنا چاہئے، ان کے ساتھ ایسا برتائو کرنا چاہئے جوان کے لئے مناسب ہے، دوسروں کے مال پر ان کی ملکیت کا احترام کرنا چاہئے، اپنے فائدہ کو دوسروں کے نقصان پہنچانے کا ذریعہ نہ بنائے، دوسروں کی زیادتیوں کی تلافی عادلانہ طریقہ سے کی جائے، افراد کے مخصوص حقوق کا احترام کیا جائے اور اس طرح کی دسیوں ایسی مثالیں ہیں جو اخلاقی فضیلتوں کے اصولوں میں سے ایک اصل ہیں۔ انسانی اور الٰہی اخلاقی مکاتب کے درمیان پائی جانے والی اخلاق کی بعض مشترک چیزیں، اخلاقی اچھائی اور برائی کے متعلق انسانی عقل کا حاصل کروہ نتیجہ اور معلول ہیں۔ البتہ اخلاق کی بہت سی جزئی چیزوں کو سمجھنے میں عقل کی ناتوانی کی بنا پروہ (عقل) ہر گز انفرادی حیثیت سے اخلاق کی جامع وکا مل عمارت نہیں کرسکتی ۔

٢۔فطرت(١)

اخلاق سے متعلق نیکیوں کی طرف فطرت کی رغبتیں اوربرائیوں سے باطنی طور پر نفرتیں آدمی کی سرشت میں ہیں اور یہ ایسا قابل اعتماد اور اطمینان بخش طریقہ اور راستہ ہے جس کا مقصد ومبداء انسانیت کا پاک اور غیر آلودہ گو ہر قلب سلیم ہے۔انسان کی فطری رغبتوں کو ان کے مثبت اور معنوی ہونے، ارادی اور زیادہ با خبر ہونے اور ان کا انسانی زندگی سے مخصوص ہونے جیسے معیا روںکے ذریعہ آسانی کے ساتھ ان غریزی اورطبیعی میلانات سے جدا کیا جاسکتا ہے جو انسان کے اندر پائے جاتے ہیں۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو رائج عام تہذیب وتمدن اور علم و تعلیم و تربیت سے بے خبر ہیں لیکن اس (فطرت) کے جہاں ہیں جام اور حق نما آئینہ کا نظارہ کرنے کی برکت سے مکارم اخلاق کے شفاف سرچشموں سے سیراب اور اخلاقی فضائل کے زیور سے آراستہ ہیں۔اُویس قرنی وہ یمنی بادیہ نشین ہیں جو رسول خدا(ص) کے جمال کو دیکھے بغیر آپ کے فضائل ومکارم کے شیفتہ ہو جاتے ہیں اور آپ سے ملنے کے لئے اپنے وطن اورمال و دولت کو ترک کردیتے ہیں۔ سلمان فارسی فضیلت اور حقیقت کی جستجو میں ہر دَیر و خانقاہ کا چکر لگاتے ہیں اور عیسائی راہب اور یہودی خاخام سے جس کادل اس کے بارے میں خبر رکھتا تھا سوال کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ بے حد مشقت کا سامنا کرتے ہیں اور آخر کار یثرب کے اطراف نخلستانوں میں اپنی آرزئوں کی تجلی، امیدوں کی کرن اور اپنے گم گشتہ محبوب کو جبیب خدا کی صورت میں پالیتے ہیں اوریہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اہلبیت اطہار (ع) کے راز داروں میں شمار کئے جانے لگتے ہیں۔

____________________

١۔ یہاں فطرت سے مراد ایسے واضح، معلوم شدہ اور اختیاری، مثبت ، عالی ، غیر اکتسابی اور باطنی رجحانات ہیں جو تمام انسانوںمیں بالقوة پائے جاتے ہیں اور حالات کے فراہم ہونے پر فعلیت حاصل کرتے ہیں۔

۵۳

قرآن کریم نے معرفت کے سرچشموں اور ترقی کی راہوں کو اور اس سلسلہ میں آنے والی رکاوٹوں کوباربار یاد دلایاہے اور ان کی نشان دہی کی ہے۔ سورۂ شمس میں کئی بار قسمیں کھانے کے بعد، جس میں آخری قسم آدمی کی جان اور نفس کی قسم ہے، فرماتاہے: ''پھر اُس کو بدی اور تقویٰ کا الہام کیا ہے''۔(١)

الہام سے مراد وہ علم ہے جو تصور اورتصدیق کی صورت میں انسانی جان کے سپرد کردیا گیا ہے۔خدا کی طرف سے فجور اور تقویٰ کا الہام اس معنی میں ہے کہ انسانی رفتار کی اچھائی اور برائی کو فطری طور پر اسے بتایا اور سکھایا گیا ہے۔ مثلاً انسان واضح طور پر یتیم کا مال کھانے کی برائی کو اپنے مال کے استعمال سے جدا کرنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتاہے(٢)

خدا وند عالم سورۂ روم میں فرماتا ہے:

''بس (اے رسول!) اپنے رُخ کو دین توحید (اسلام) کی طرف رکھیئے اس حال میں کہ آپ دوسرے تمام ادیان ومذاہب سے منہ پھیرے رہیں اور حق پرست رہیں۔ یہ دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیا ہے خدا کی خلقت (توحیدی فطرت) میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی ہے سیدھا اور مستحکم دین۔ لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے ہیں''۔(٣)

اس آیت میں اس دین کوجو عقائد اور اخلاق، حقوق وغیرہ کی تعلیمات کا مجموعہ ہے، ایک فطری بات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جسے پہچاننا اور اس کی طرف رغبت پیدا کرنا انسان کی سرشت میں ڈال دیا گیا ہے۔(٤)

٣۔وحی

گذشتہ دو طریقے اگرچہ بہت سی جگہوں پر مشکل کشائی کرتے ہیں لیکن اُن کا مفید وکارگر ہونا کلی اور اصولی امور تک منحصر ہے اور جزئیات کی تفصیل بتانے اور اُن کو معین کرنے کے مرحلہ میں سخت نقصاندہ، ناکام اور اختلاف کا باعث بنتے ہیں۔

____________________

١۔ سورۂ شمس، آیت٨۔

٢۔ علامہ طباطبائی ، المیزان، ج٢٠، ص٢٩٧، ٢٩٨۔

٣۔ سورہ ٔروم، آیت ٣٠۔

٤۔ رک۔ علامہ طباطبائی، المیزان ج١٦، ص١٧٨۔

۵۴

اسی بنیاد پر خدا پرستی پر مبنی اخلاقی نظام میں''وحی'' پہچان کاتیسرا طریقہ جو گذشتہ دو طریقوں کو مکمل کرتی ہے۔ وحی کو اخلاقی مفاہیم کی تعیین وتفسیر میں اور ان کی جزئیات کو بیان کرنے کی قدرت رکھنے کی بناپر اخلاقی عمل کو پہچنوانے کے سلسلہ میں پہلا مرتبہ حاصل ہے۔ اگرچہ یہ کبھی بھی اُن دونوں کو نظرانداز نہیں کرتی ہے بلکہ ہمیشہ اُن کی ترقی اور زیادہ مفیدقرار دینے پر تاکید کرتی ہے۔

اسلام کے اخلاقی نظام میں اخلاقی فضیلتوں کو اِن عنوانات کے تحت پہچنوانا گیا ہے: حَسَنَہ(نیک، پسندیدہ) ، حلال، اجرو ثواب کا باعث اور جو کچھ انسان کے بہشت میں جانے کا سبب ہے۔ اور اس کے ساتھ اخلاقی برائیوں کو ذنب(جرم) ، اِثم(گناہ) ، حرام، گھاٹے اور جو کچھ، جہنم میں جانے کا باعث ہے ان جیسے عنوانات کے ذریعہ شناخت کرائی گئی ہے۔ اسی طرح اخلاقی لحاظ سے تمام مثبت اور منفی مفاہیم کی اہمیت اور اس سلسلہ میں داخل نمایاں باتیں جیسے سہل ودشوار، پوشیدہ وآشکار، فاعل کے مقصد اور نیت کی حالت وحقیقت اور اس کے ہمراہ یا بعد میں آنے والے کمی اور کیفی آثار ونتائج پر توجہ کرتے ہوئے کافی دقت کے ساتھ تحقیق کی گئی ہے اور انھیں جانچا اور پرکھا گیا ہے ۔ کتاب وسنت میں اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کی طبقہ بندی کے سلسلہ میں پائے جانے والے بہت سے نکات پر دقت کی ضرورت ہے، جن کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنااس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

د۔ اخلاقی اقدار کا تزاحم اورترجیح کا معیار

عمل کے مرحلہ میں اخلاقی قدروں کا تزاحم انسان کی اخلاقی مشکلات میں سے ایک ہے۔یعنی انسان ہمیشہ اپنی شخصی اور سماجی زندگی کے دوران ایک ہی وقت میں دو یا اس سے زیادہ اخلاقی تکلیفوں سے سامنا کرتا ہے اس طرح سے کہ اُن سب کی پابندی ایک وقت میںممکن نہیں ہوتی اور اُن میں سے بعض فرائض کی انجام دہی دوسرے زمانہ میں بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ اس بناپر اس کے پاس اس کے سوادوسرا راستہ نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ اُن میں سے ایک کا انتخاب کرلے۔ اس ناگزیر انتخاب کے سلسلہ میں ترجیح کا معیار کیاہے ؟ کیا اسلام کے اخلاقی نظام میں اس طرح کے انتخابات کے لئے کوئی معیار وملاک بیان کیا گیا ہے؟ ایک مفید اخلاقی نظام سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کی مشکلوں کو حل کرنے لئے ایسے معقول معیارکا مشورہ دیا جائے جسے سمجھا اور بروئے کار لایا جاسکے ۔ اسی بنیاد پر فلسفۂ اخلاق کی بعض کتابوں میں اس بات پر توجہ کی گئی ہے۔(١)

____________________

١۔ رک۔ فرانکنا: فلسفۂ اخلاق، ترجمۂ ہادی صادقی (فارسی) ص١٢١؛ اٹکینسون: فلسفۂ اخلاق، ترجمہ سہراب علوی نیا، ص ٣١، ٥٠۔

۵۵

اسلامی علوم میں فرائض کے درمیان کا مسئلہ خواہ اخلاقی ہو یا حقوقی، علماء اصول کی توجہ کا خاص مرکزبنا ہوا ہے اور تزاحم کے باب میں اس پر گفتگو کی گئی ہے۔ اِن لوگوں نے مقام عمل میں قدروں کے ٹکرائو اور تزاحم وکشمکش کی قسموں کو بیان کرنے کے علاوہ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے معیاروں اور قاعدوں کو بھی بتایا اور پہچنوایا ہے۔(١)

اُن معیاروں میں سب سے زیادہ اہم اورقابل فہم مندرجہ ذیل ہیں:

اخلاق اور حقوق کے درمیان میں عقلی اور شرعی لحاظ سے ترجیح دینے کا بہترین معیار، ہر فریضہ کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہے۔ یعنی جب مجبور ہوجائیں کہ دو یا چند اخلاقی تکلیفوں میں سے کسی ایک کو اطاعت اورپابندی کے لئے

انتخاب کریں تو اُن میں سب سے زیادہ اہم تکلیف کاانتخاب کرکے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم تکلیف کا انتخاب کس طرح کیا جائے؟ کیا سب سے زیادہ اہم تکلیف کی تشخیص کے لئے کوئی معیار ہے؟ انسانی عقل بہت سی جگہوں پر سب سے زیادہ اہم تکلیف کی پہچان کرنے پر قادر ہے۔ (مثال کے طور پر) جب مجبور ہوجائیں کہ دوسرے کی گاڑی کو اس سے پوچھے بغیراستعمال کرکے ایک مریض کی جان کو (ڈاکٹر کے پاس جاکر) خطرہ سے بچایا جائے یا دوسروں کے مال کا احترام کرنے کے اصول کی پابندی کی جائے، اِن دونوں باتوں

میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو عقلاً بیمار کی جان کو بچانا اہم اورنہایت ضروری ہوگا۔ انسانی عقل یہاں اور اس طرح کی دوسری جگہوں پر انسان کے حق مالکےّت کو نظر انداز کرنے کو موجّہ اور معقول مانتی ہے۔ بہت سی جگہوں پرعقل اور انسان کے وجدانی اور باطنی معلومات کے درمیان تزاحم سے حل کا راستہ نہیں ملتا لیکن شریعت نے اپنے خاص طریقوں سے اصولوں کو بیان کرکے اور اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کی درجہ بندی اور قدر وقیمت کو طے کرکے مہم تر فریضہ کی نشاندہی کی ہے مثلاً اسلام کے اخلاقی نظام میں جب بھی انسان کے ذمہ خدا سے متعلق اور بندوں سے مربوط فرائض میں ٹکرائو ہو تو لوگوں سے مربوط فریضہ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اسی بناپر دین کی مقدس کتابوں میں لوگوں کی جان ومال وآبرو کو اہم امور میں شمار کیا گیا ہے جن کے سلسلہ میں دست درازی اور زیادتی

نہیں ہونی چاہئے۔ اِن تینوںچیزوں میں سے لوگوں کی جان اور زندگی کی حفاظت بقیہ دو چیزوں پر مقدم ہے۔ اس بناپر اخلاقی مفاہیم کو کتاب وسنت میں موجود مطالب اور اُن کے سلسلہ میں پائی جانے والی تعبیر ات اور نظریات پر توجہ کرتے ہوئے حاصل کرنا چاہئے۔

____________________

١۔ رک: نائینی فوائد الاصول(تقریر شیخ محمد علی کاظمی) ، ج١، ٢، ص٣١٧، اور ٣٣٥۔

۵۶

کبھی ممکن ہے عقلی اور وجدانی قاعدے اور دینی کتابوں کی تعبیریں ایک فریضہ کی دوسرے کے مقابلہ میں اہمیت اور برتری کو معین کرنے کے لئے موجود نہ ہوں تو ایسی جگہوں پر انسان کسی کو بھی حسب خواہش انتخاب کرسکتا ہے۔ اس طرح اسلام کے اخلاقی نظام نے اخلاق سے متعلق اچھائیوں اور برائیوں کی جزئیات اور مصادیق کو پہچنوانے کے سلسلہ میں ضروری تدبیروں پر غور وفکر سے کام لیا ہے جو ایک مفید اخلاقی نظام کے ارکان میں سے ہے اور اس سلسلہ میں بھی اس کی حیثیت بے مثال ہے۔

۵۷

دوسرا باب :

اخلاق کے عام مفاہیم۔

پہلی فصل:

ہدایت کرنے والی نفسانی صفت

جیساکہ ذکر ہوچکا ہے اس طرح کی نفسانی صفتیں، انسان میں تاثیر گذار قوتوں کے طریقوں کی وضاحت کرتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ بنیادی اور اصلی مفاہیم یقین اور ایمان ہیں۔ جو ایک نیک اور قدر وقیمت والی نفسانی صفت کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ یقین ایمان کی سرپرستی میں عمل کرتا ہے۔ البتہ ناپسندیدہ صفات اور منفی مفاہیم بھی ہیں جو اسی نفسانی صفت کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس کتاب میں گفتگو کا محور فضیلتیں ہیں اس لئے رذائل کے بارے میں گفتگو آفات اور موانع کے عنوان سے فضائل کی تشریح کے بعد ہوگی۔

ایمان

اخلاق اسلامی میں ''ایمان'' ہدایت کرنے والی سب سے زیادہ اہم نفسانی صفت کے عنوان سے بہت زیادہ مقبول ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے علم ویقین کی طرح اس کے مبادی اور مقدمات کو حاصل کرنے کے لئے ترغیب و تشویق سے کام لیا گیا ہے اور اسلام کے اخلاقی نظام میں اُن ذرائع اور طریقوں کی خاص اہمیت ہے جو انسان کوان نفسانی صفات تک پہنچاتے ہیں۔ جیسے پسندیدہ فکر، خاطرات وخیالات اور الہامات۔ نفسانی صفات کے سامنے ایسے موانع اور رکاوٹیں ہیں جو انسان کو باایمان ہونے سے روکتی ہیں جیسے جہل بسیط یا مرکب، شک اورحیرت، مکاری اور فریب کاری، ناپسندیدہ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ وغیرہ۔ اِن سب کی ہمیشہ سے مذمت ہوئی ہے اوران سے روکا گیاہے۔

ایمان کی حقیقت اور اس کی شرطوں کے سلسلہ میں زمانۂ قدیم سے الٰہی مکاتب کے پیرؤوں خاص طور سے مسلمان متکلمین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہے(١) ۔

____________________

١۔رک۔جواد محسن، نظریہ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، ص١٩تا ١٨٠۔

۵۸

اخلاق اسلامی کے دو اصلی منابع یعنی قرآن کریم اور روایات میں ایمان کی اہمیت اور اس کے مرتبہ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتاہے۔

١۔ایمان کی اہمیت

ایمان کے بلند مقام ومنزلت کو بیان کرنے کے لئے یہ حدیث کفایت کرے گی کہ پیغمبر نے اپنی نصیحتوں میں جناب ابوذر سے فرمایا:

''اے ابوذر !خداوندمتعال کے نزدیک اس پر ایمان رکھنے سے اور ان چیزوں سے پرہیز کرنے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے جن چیزوں سے منع کرتا ہے ''۔(١)

یہ بات واضح ہے کہ خدا کے ذریعہ منع کی گئی چیزوں سے پرہیز، صرف اس پر ایمان کے سایہ میں ممکن ہے اور حقیقت میں یہ ایمان کی برکتوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

''خداوند متعال دنیا کو، اُن لوگوں کے واسطے بھی قرار دیتا ہے جن کو دوست رکھتا ہے اور اُن لوگوں کے واسطے بھی جن پر غضبناک ہے لیکن ایمان نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جنہیں دوست رکھتا ہے ''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ مومن کے مقام ومنزلت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''جب بھی لوگوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے گا اور وہ لوگ خدا اور بندۂ مومن کے درمیان وصال ورابطہ پر نظر کریں گے اس وقت اُن کی گردنیں مومنین کے سامنے جھک جائیں گی، مومنین کے امور اُن کے لئے آسان ہوجائیں گے اور اُن کے لئے مومنین کی اطاعت کرنا سہل اور آسان ہوجائے گا''۔(٣)

یہ تمام بلند درجات جو روایتوں میں ایمان کے لئے بیان ہوئے ہیں اس اثر کی وجہ سے ہیں جو ایمان انسان کے کما ل اورسعادت میں رکھتا ہے۔ ایمان ایک طرف خلیفۂ الٰہی کی منزلت پانے کے لئے سب سے آخری کڑی اور قرب معنوی کا وسیلہ ہے اور دوسری طرف قرآن وروایات کے مطابق تمام پسندیدہ نفسانی صفات اور عملی نیکیوں کے لئے مبدأ اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

____________________

١۔ شیخ طوسی: امالی، ص ٥٣١، ح١١٦٢۔

٢۔ کافی، ج٢، ص٢١٥، ح٤،اور ح٣ بھی دیکھئے۔

٣۔ کافی، ج٨، ص٣٦٥، ح٥٥٦۔

۵۹

٢ ۔ ایمان کی ماہیت

اگرچہ ایمان کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف نظر پایاجاتاہے پھر بھی اُس کی اہم خصوصیتیں یہ ہیں:

ایک۔ ایمان وہ قلبی یقین، تصدیق اور اقرار ہے جو ایک طرف سے کسی امر کی نسبت نفسانی صفت اور حالت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے خالص شناخت اور معرفت سے فرق رکھتا ہے۔(١)

دو۔ ایمان کے محقق ہونے کی جگہ نفس اور قلب ہے اور اگرچہ اس کا قولی اور فعلی اثر ہے لیکن اس کا محقق ہونا قول یا عمل پر منحصر نہیں ہے۔

تین۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کی نسبت عام وخاص مطلق جیسی ہے یعنی ہر مومن مسلمان ہے لیکن ممکن ہے بعض مسلمان صرف ظاہر میں حق کو تسلیم کئے ہوں۔

٣ ۔ایمان کے اقسام اوردرجات

اوّلاً:

ایک قسم کے لحاظ سے ایمان کی دو قسمیں ہیں: ''مستقر''اور'' مستودع''( مستودع یعنی وہ ایمان جو عاریت اور امانت کے طور پر لیا گیا ہو)۔

قرآن کریم میںارشاد ہورہاہے:

''وہ وہی ہے جس نے تم کو ایک بدن سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہارے لئے قرارگاہ اورامانت کی جگہ مقرر کردی۔ بے شک ہم نے اپنی نشانیوں کو اہل بصیرت اور سمجھدار لوگوں کے لئے واضح طور سے بیان کردی ہیں''۔(٢)

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

''مستقر ایمان وہ ایمان ہے جو قیامت تک ثابت وپائدار ہے اور مستودع ایمان وہ ایمان ہے جسے خداوند موت سے پہلے انسان سے لے لے گا۔(٣)

____________________

١۔ ر۔ک: سید مرتضیٰ: الذخیرة، ص ٥٣٦۔ شیرازی، صدرالدین: تفسیر القرآن، ج١، ص٢٤٩۔ شیخ مفید: اوائل المقالات، ص٤٨۔ اس بارے میں مزید اطلاع کے لئے محسن جوادی کی کتابت نظریۂ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، ص١١٩تا ١٥٨۔ کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ سورۂ انعام، آیت ٩٨۔٣۔ تفسیر عیاشی، ج١، ص٣٧١، ح٧٢۔ تفسیر قمی، ج١، ص ٢١٢، ح١۔

۶۰