اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق13%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 183653 / ڈاؤنلوڈ: 5408
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

اسلامی ا خلاق

مولف: احمد دیلمی ومسعود آذر بائیجانی

shianet.in

۳

پہلا باب : اخلاق کے اصول

پہلی فصل: کلّیات

علم اخلاق کیا ہے ؟ اس کا موضوع اور ہدف کیا ہے؟ دوسرے علوم سے اس کا کیا رابطہ ہے؟اخلاق کی تعلیم کیوں ضروری ہے ؟ مسلمان علماء کے درمیان موجود اخلاقی نظریات اور اُن کے طریقوں کی قسمیں کون سی ہیں؟

یہ وہ اہم سوالات ہیں جو علم اخلاق کے مسائل شروع ہوتے ہی ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ان کا مناسب اور شائستہ جواب نہ صرف اس علم کے موضوع، حدود اور مقام و منزلت کے واضح ہونے کا سبب بنے گا بلکہ ہماری امیدوںکی اصلاح کے ساتھ بہت سے ایسے شبہات اور ابہامات کو بڑھنے سے روک سکتا ہے جو ممکن ہے بعد کی بحثوں میں سامنے آسکتے ہیں۔

الف۔ علم اخلاق سے واقفیت

علم اخلاق کی ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات اور مفاہیم کا واضحہونا ضروری ہے:

١۔ لفظ اخلاق کا لغوی مفہوم

اخلاق خُلق کی جمع ہے جس کے معنی انسان کی باطنی قدرت اور عادت کے ہیں، جسے باطنی آنکھوں سے نہیں بلکہ چشم بصیرت سے درک کیا جا سکتا ہے یہ(خُلق) خَلق کے مقابلہ میں ہے جو ظاہراً قابل حس و درک شکل وصورت کے معنی میں ہے اور ظاہری آنکھوں سے دیکھنے کے قابل ہے۔(١)

اسی طرح خُلق کو واضح و پائیدار نفسانی صفت بھی کہتے ہیں کہ انسان اپنی صفت کے مطابق بغیر کسی تاخیر کے اعمال کو انجام دیتا ہے۔مثلاً اگر کوئی انسان شجاع ہے تو وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے میں شش وپنج میں نہیں پڑتا۔ یہ باطنی وراسخ وثابت حالت، ممکن ہے کسی انسان میں طبیعی، ذاتی و فطری طور پر پائی جاتی ہو جیسے کوئی

____________________

١۔ اصفہانی، راغب: معجم مفردات الفاظ قرآن، ص: ١٥٩۔

۴

جلدی غصہ میں آجاتا ہے یا معمولی بات پر خوش ہو جاتا ہے۔خُلق پیدا ہونے کے دوسرے عوامل واسباب وراثت، تمرین و تکرار ہیں۔ مثلاًیہ کہ کوئی پہلے شجاعت والے کاموں کو تردّد اور تذبذب کی حالت میں انجام دیتا ہے پھر تمرین کی وجہ سے تدریجاً اس کے اندر شجاعت کی پائدار صفت اس طرح وجود میں آجاتی ہے کہ اُس کے بعد کسی جھجک کے بغیر شجاعت کا مظاہرہ کرتا ہے۔(١)

یہ باطنی و نفسانی راسخ صفت ممکن ہے '' فضیلت'' یعنی اچھی خصلتوںکا سبب قرار پائے اور ممکن ہے ''رذیلت '' یعنی برائی اور بدکرداری کی ہو جائے۔بہر حال اُسے خُلق کہا جاتا ہے۔

٢۔علم اخلاق کی تعریف

اسلامی علوم میں علم اخلاق کے مستند و معروف اور سب سے اصلی منابع کی طرف رجوع کرنے سے اور قرآن واحادیث میں اس کے استعمال کے مقامات پر دقت کرنے سے علم اخلاق کی تعریف اس طرح بیان کی جاسکتی ہے: علم اخلاق وہ علم ہے جو ا چھی ا و ر بری نفسانی صفات اور ان کے مطابق اختیاری اعمال و رفتار کو بیان کرتا ہے اور ا چھی نفسانی صفات کو حاصل کرنے، پسندیدہ اعمال کو انجام دینے اور بری نفسانی صفات اور نا پسندیدہ اعمال سے پرہیز کرنے کے طریقوں کو بتاتا ہے۔(٢)

اس تعریف کی بناء پر علم اخلاق ا چھی ا و ر بری صفات کے بارے میںگفتگو کرنے کے علاوہ ان کے مطابق انجام پانے والے اعمال و رفتار کے بارے میں بھی بحث کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسانی یا عمل فضائل تک پہنچنے اور برائیوں سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں بھی بحث کرتا ہے۔

اس طرح علم اخلاق کے موضوع کو یوں بیان کیا گیا ہے: اچھی اور بری صفات اور اعمال، اس وجہ سے کہ انسان کے لئے ان کا حاصل کرنا اور انجام دینا یا ترک کرنا ممکن ہو۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: ابن مسکویہ: تہذیب الاخلاق و طہارة الاعراق، ص: ٥١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ٢٢۔

٢۔ رجوع کیجئے: ابن مسکویہ: تہذیب الاخلاق، ص ٢٧، طوسی۔ خواجہ نصیر الدین: اخلاق ناصری: ص ٤٨۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج ١، ص ٢٦، ٢٧۔ صدر الدین شیرازی: الاسفار الاربعة، ج ٤، ص ١١٦، ١١٧۔

۵

چونکہ انسان کے ا چھے اور برے صفات اور اس کے طرز عمل کی بازگشت اس کی جان و روح سے وابستہ ہے اس لئے بعض اخلاقی دانشوروں نے انسانی نفس کو علم اخلاق کا موضوع قرار دیا ہے۔(١) علم اخلاق کا آخری ہدف یہ ہے کہ انسان کو اس کے حقیقی کمال و سعادت تک پہنچائے کہ یہی کائنات اور انسان کی خلقت کا اصلی مقصد ہے. اس کمال و سعادت کی واقعی تفسیر اور اس کا محقق ہونا، اس بات میں ہے کہ انسان اپنی استعداد اور ظرفیت کے مطابق، نفسانی صفات اور کردارمیں الٰہی اسماء اور صفات کا مظہر بن جائے تاکہ جہاں پوری طبیعی دنیا کسی ارادہ کے بغیر، خدا کے جمال وجلال کی تسبیح میں مشغول ہے، وہیںانسان اپنے اختیار اور اپنی آزادی کے ساتھ سب سے زیادہ گویا، مقرب اور مکمل الٰہی مظہر بن کر سامنے آجائے۔

٣۔ اخلاق کا فلسلفہ

اخلاقی گفتگو میں قبل اس کے کہ ا چھی ا و ر بری صفات و اعمال کے مصادیق کو معین کیا جائے اور ان کو حاصل کرنے یا ان سے پرہیز کرنے کے طریقوں کو بیان کیا جائے، بعض ایسے بنیادی سوالات سامنے آتے ہیں جو دوسرے اخلاقی مباحث پر مقدم ہیں اور مخصوصاً عقلی ماہیت رکھتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ سوالات مندر جہ ذیل ہیں:

''اچھے'' اور' 'برے '' جیسے الفاظ اور عناوین کا مفہوم کیا ہے ؟

اخلاقی مفاہیم کی ماہیت و حقیقت کیا ہے ؟

اخلاقی قضیوں کی زبان، انشائی ہے یااخباری ؟

صحیح یا غلط اخلاقی قضیوں کا مبدأ اور معیار کیا ہے ؟

کسی اچھی یا بری صفت یا رفتار کا معیار کیا ہے ؟

آیااخلاقی قضیے مطلق (عالمی اور دائمی) ہیں یا نسبی(زمانی و مکانی ہیں) ؟

اخلاقی ذمہ داری کی حدیں اور شرطیں کیا ہیں ؟

اخلاقی مباحث وتحقیقات کا وہ حصہ جو اِن بنیادی سوالوں کا جوابدہ ہے اسے فلسفۂ اخلاق کہتے ہیں۔ اگر چہ اس کے مباحث کی ماہیت حتمی اور ہمیشہ عقلی نہیں ہوتی ہے، خاص طور سے فلسفۂ اخلاق کے جدید مکاتب فکر میں زبان و ادب کے لحاظ سے بھی (پہلے سوال کے مانند) گفتگو ہوتی ہے۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٦۔

۶

٤۔ اخلاقی تربیت

لغت میں تربیت کے معنی کسی شئے کی صلاحیتوں کو پرورش دینا ہے۔یہ صلاحیتیں ممکن ہے جسمی و مادّی، علمی و عقلی ہوں اور ممکن ہے وہ قابلیتیں اخلاقی ہوں۔

اخلاقی تربیت سے مراد، پسندیدہ اخلاقی صفات و کردار کے حصول میں باطنی صلاحیتوں کو پرورش دینا، بلند اخلاقی فضائل کو حاصل کرنا اور برائیوں سے پرہیز اور ان کو نابود کرنا ہے۔اس بناء پر تربیت اخلاقی کا اہم کام، اخلاقی صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اخلاقی کمالات تک پہونچنا ہے۔ جبکہ علمی تربیت میں اصل مقصد علمی قابلیتوں کی پرورش کرنا اور اس کے اعلیٰ مراتب کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔اس بناء پر انسان کو ایک آلہ اور وسیلہ کی حیثیت دیکھاجاتا ہے۔

اخلاقی تربیت کا ربط علم اخلاق کے ایک اہم حصے سے ہے اور چونکہ اس کی اکثر باتیںعمل سے متعلق ہیں لہٰذا اس حصہ کو کبھی اخلاق عملی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس کے مقابلہ میں اخلاقی مباحث کا وہ حصہ جو اخلاقی لحاظ سے اچھائیوں اوربرائیوں کی تعریف کرتا ہے اُسے کبھی اخلاق نظری کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

۷

ب۔ علم اخلاق اور دوسرے علوم

علم اخلاق بھی دوسرے علوم کی طرح بعض موجودہ علوم سے مربوط ہے۔ہم یہاں دوسرے علوم پر علم اخلاق کے اثر اور اس سے مربوط بعض علوم جیسے علم فقہ، عرفان عملی و علوم تربیتی کا ایک جائزہ پیش کریں گے۔

١۔ علم اخلاق اور فقہ

علم فقہ مکلّف انسان کے اعمال و رفتار کے بارے میں دو جہت سے بحث کرتا ہے:

الف۔ اُخروی آثار کے لحاظ سے یعنی ثواب وعقاب کے لحاظ سے، جو واجب و حرام جیسے عناوین کے تحت بیان ہوتے ہیں۔

ب۔ دنیاوی آثار کے لحاظ سے جس میں صحیح و باطل جیسے عناوین کے تحت گفتگو ہوتی ہے۔

فقہ کی پہلی قسم کے احکام کی حیثیت اخلاقی ہے اور ان میں سے بہت سے علم اخلاق سے مربوط ہیں۔

۸

فقہ کی دوسری قسم کے احکام کا ربط علم اخلاق سے نہیں ہے، ان کی حیثیت صرف فقہی اور حقوقی ہے۔(١)

٢۔ علم اخلاق اور حقوق

علم حقوق کا موضوع، معاشرے کے لئے وہ لازم الاجراء قوانین ہیں جنہیں حکومت پیش کرتی ہے اور وہ اس کی ذمہ دار ہے۔ اس بناء پر علم حقوق کا ربط فقط انسان کی اجتماعی و دنیاوی زندگی سے ہے اور اس کے سارے قوانین سب کے لئے ہوتے ہیں اور ان کا اجراء دنیاوی فلاح کے لئے ہوتا ہے۔ جبکہ علم اخلاق کا ربط، انسان کی فردی زندگی سے بھی ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری بھی نہیں ہوتا۔اس طرح اخلاق کا ربط، فردی و اجتماعی زندگی سے بھی ہے اور اس میں بعض پر عمل ضروری اور بعض پر عمل ضروری نہیں ہوتا ہے ۔ وہ اخلاقی احکام جن کی حقوقی حیثیت نہیں ہوتی۔(٢)

اور اُن میں دنیاوی فائدے بھی نہیں ہوتے وہ پاکیزگی ٔ نفس کے لئے اور اُخروی لحاظ سے لازم الاجرء ہوتے ہیں۔

علم اخلاق اور حقوق میں فرق ہونے کے باوجود دونوں میں یگا نگت بھی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف حقوق عدالت اجتماعی کے اجراء میں جس کا شمار بلند اخلاقی اقدار میں ہوتا ہے، اخلاق کے لئے معاون ثابت ہوتا ہے تو دوسری طرف علم اخلاق، اخلاقی خوبیوں کی ترویج اور برائیوں سے مقابلہ کر کے معاشرے کو پاک و پاکیزہ بناتا ہے۔ اس طرح یہ معاشرے میں نظم و ضبط اور عدالت برقرار کرکے علم حقوق کا بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس وجہ سے دونوں میں سے کسی ایک کا بھی نہ ہونا معاشرے کے لئے بہت زیادہ نقصاندہ ہے۔

٣۔ علم اخلاق اورعرفان عملی

عرفان ایک علمی اور ثقافتی نظام ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں: نظری اور عملی۔عرفان نظری کا رابطہ ہستی (وجود)، یعنی خدا، دنیا اور انسان سے ہے۔ عرفان کی یہ قسم فلسفہ سے زیادہ مشابہ ہے۔ عرفان عملی، خدا، دنیا اور خود سے

____________________

١۔ البتہ کبھی کبھی اُن احکام کو جن پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے مثلاً مستحب و مکروہ، احکام اخلاقی یا آداب کہا جاتا ہے اور فقہ میں ان کے شامل ہونے کا معیار حکم کا لازم ہونا مانا جاتا ہے۔ یہ استعمال صرف ایک خاص اصطلاح ہے اور عام طور پر اس کا واسطہ اخلاق سے نہیں ہے۔

٢۔غیر مذہبی حقوقی نظام میں حقوق کو اخلاق کے مقابل قرار دیاگیا ہے اور اُن دونوں کے لئے مشترک حدود اور موضوعات کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اسلامی حقوقی نظام میں بعض اجتماعی زندگی کے طریقے، اخلاقی ماہیت بھی رکھتے ہیں اور حقوقی ماہیت بھی۔جس کے نتیجہ میں وہ حقوقی حکم اور اجراء کی ضمانت بھی رکھتے ہیں، جیسے چوری اورقتل۔

۹

انسان کے رابطے اور ان کے فرائض کوبیان کرتا ہے۔ عرفان کی یہ قسم جس کو سیر و سلوک کا علم بھی کہتے ہیں، علم اخلاق سے زیادہ مشابہ ہے۔ عرفان عملی میں گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ سالک کو انسانیت کی معراج (توحید) تک پہنچنے کے لئے کہاں سے آغازاور کن منزلوں کو ترتیب سے طے کرنا چاہئے اور اس سفر کی منزلوں میں کون سے حالات، اس سے روبرو ہوسکتے ہیں اور اس کے سامنے کون سے واقعات پیش آئیں گے۔ البتہ یہ تمام مراحل اس کامل اور تجربہ کار انسان کے زیر نظر ہوں جو خود اس سفر کو طے کر چکا ہو اور ان منزلوں کے قاعدے اور قانون سے آگاہ ہو اور اگر انسان کامل کی رہنمائی ہمراہ نہ ہو تو گمراہی کا خطرہ ہے۔(١)

اس طرح عرفان عملی کی بحثیںخاص طور پر اخلاقی تربیت اور معنوی مقامات تک پہنچنے کے طریقوں اور وسیلوں کے ارد گرد گھومتی ہیںاور حقیقت میں یہ مسئلہ علم اخلاق کے اصلی موضوعات میں شمار ہوتا ہے۔

٤۔علم اخلاق اور تربیتی علوم

تربیتی علوم، علم نفسیات کے نتیجوں سے بہرہ مند ہو کر اور انسان کے سلیقوں پر حاکم قوانین کوپہچنواکر اور اُن فارمولوں سے آگاہی کی کوشش کر کے جو انسان کے عمل اور رد عمل کے دائر ہ میں ہیں، شکل اختیار کرتے ہیں اور علمی، اخلاقی و فنی مہارتوں کی قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لئے وسائل امکانات فراہم کرتے ہیں اور اگر ان کی توجہ اخلاقی عوامل پر ہے تو ان کی اُن عاملوں پر نظر وسیلہ اور آلہء کار کی حثیت رکھتی ہے اور چونکہ اخلاقی فضیلتوں کی وجہ سے تربیتی مرحلوں کو طے کرنے میں مدد ملتی ہے، لہٰذا اُن پر بھی توجہ کر تے ہیں۔(٢)

اگر چہ علم اخلاق اس سے بلند ہے کہ اس کو تربیت کے ایک وسیلہ کے عنوان سے پہچنوایا جائے لیکن بعض اخلاقی حدود میں علم اخلاق اور تربیتی علوم (دونوں) حدود اور مسائل میںاخلاق علمی کے مانندمشترک ہیں۔

علم اخلاق اس (اخلاق علمی کے) دائرہ میں بھی، اصل علم وموضوع اور متعلقات پر اخلاقی نظر رکھتا ہے اور معلم وشاگرد کے مقاصد کو بھی اخلاقی لحاظ سے منظم کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کے ایک دوسرے سے متعلق رابطوں کو، اخروی معیار کے مطابق مستحکم کر تا ہے۔ علو م تربیتی کی تربیت کر نے والے ان اخلاقی فارمولوں سے اور علم نفسیات کی معلومات نیز، خطا و آزمائش کے نتیجوں سے بہرمند ہوکر اپنے بلند اور قیمتی اہداف تک تیزی سے اور آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: شہید مطہری، مرتضیٰ: آشنائی باعلوم اسلامی (عرفان) ص: ١٨١، ١٨٦۔

٢۔ تعلیم وتربیت کی تعریف اور ماہیت کے سلسلہ میں مجموعی نظریات سے زیادہ معلومات حاصل کر نے کے لئے''فلسفہء تعلیم وتربیت، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ، جلد اول، بخش دوم، ، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۰

ج۔ اخلاق سے متعلق نظریات

اخلاق کے بارے میںمسلمانوں کے درمیان خاص طور سے علمائے علم اخلاق کے درمیان تین نظریات پائے جاتے ہیں ابتداء میں اِن تین نظریوں کے بارے میں اجمالی طور پر گفتگو کی جائے گی پھر ان میں مورد قبول نظریہ کو پیش کیا جائے گا۔

١۔فیلسوفوں کا نظریۂ اخلاق

اس مکتب فکر کے افراد، افراط و تفریط کے مقابلہ میں جو رذائل اخلاقی میں سے ہیں، اخلاقی فضائل کے لئے حد اعتدال کو اختیار کرتے ہیں اور خوبی و بدی کے لئے اسی کو کسوٹی قرار دیتے ہیں۔اس بناء پر چونکہ انسان کے عمل کا سرچشمہ نفسانی قوتیں ہیں لہٰذا اس کے اعمال و کردار باطنی قوتوں میں اعتدال یا عدم اعتدال سے مربوط ہیں اس بناء پر اس مکتب میں قوائے نفسانی میں اعتدال اور اس میں افراط وتفریط سے بحث ہوتی ہے اور تمام دینی اخلاقی باتوں کو اسی معیار پر پیش کیا جاتا ہے۔ تربیت اخلاقی کے بارے میں یہ مکتب نفسانی قوتوں میں اعتدال کی نصیحت کرتا ہے ۔ ابن مسکویہ کی تہذیب الاخلاق و طہارت الاعراق، نصیر الدین طوسی کی اخلاق ناصر ی اور کافی حد تک جامع السعادات، تصنیف مولیٰ محمد مہدی نراقی اسی مکتب ونظریہ کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔

اعتدال کی توضیح کے سلسلہ میں موجود مشکلوں کی وجہ سے نیز اخلاق کے تمام مفاہیم کی تفسیر میں جامعیت کے نہ ہونے کی بناء پر یہ مکتب تنقید کا شکار ہوا ہے اور چونکہ یہ موضوع علمی اور بہت زیادہ خشک ہے لہٰذا علماء اور فلاسفر کو چھوڑ کر عوام کے درمیان رائج نہ ہو سکا۔(١)

٢۔ عارفوں کا نظریۂ اخلاق

یعنی وہ اخلاق جس کو رائج کرنے والے صوفی اور عرفاء تھے۔اس طرح کے اخلاق نے جس کازیادہ دار ومدار اخلاقی تربیت اور سیر سلوک پر ہے، ایک تربیتی نظام کو رائج کرنے اور اس کے آغاز وانجام و مراحل کے علاوہ

____________________

١۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ٢٠٠۔

۱۱

اس راہ پر چلنے کے لئے ضروری وسیلوں کو معیّن کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ عارفانہ اخلاق کا محور (اصل مقصد) نفس سے جنگ وجہاد کرنا ہے۔پرہیز گار عارفوں کی ہمیشہ یہ کوشش تھی کہ اپنے اعمال و کردار کو شریعت کے ظاہر و باطن کے مطابق قرار دیں اور اس سلسلہ میں اُنھوں نے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ان لوگوں نے اسی طرح دل اور محبت کی قدرت پر زور دے کر اور اشعار کی نفوذی زبان سے استفادہ کر کے اور تشبیہات واستعارات وکنایات کو استعمال کر کے لوگوں کے درمیان زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔خواجہ عبداﷲ انصاری کی لکھی ہوئی کتاب ''منازل السائرین، ، اور بہت سے معنوی وعرفانی مضامین والے فارسی اشعار کے معتبر دیوان جیسے مولوی کی مثنوی معنوی اور عطار نیشاپوری کی منطق الطیر اسی طرح کے اخلاق کو بیان کرتی ہیں۔

اس نظریۂ اخلاق میں بھی متعدد نظریات پائے جاتے ہیں۔اس مکتب کا تنقیدی جائزہ اور اس کی قدر وقیمت کو طے کرتے وقت ضروری ہے کہ اس بات پر بھی توجہ کی جا ئے کہ اُن نظریات کو بطور کلی تقسیم کر نے پراُن کے دو گروہ بنتے ہیں:

پہلا گروہ: وہ نظریات جو معنوی سلوک میں اصولی طور پر شریعت کی پابندی کو ضروری نہیں جانتے یا مختصر مدت اور ایک خاص مرحلہ تک ہی لازم مانتے ہیں۔

دوسرا گروہ: وہ نظریات جو شرعی احکام کی پابندی کو بلند معنوی مقامات تک پہنچنے کے لئے تنہا راستہ اور اسے ہمیشہ ضروری جانتے ہیں۔

پہلے گروہ کی قدر وقیمت کا اگر اندازہ لگایا جائے توکہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ ایک طرح سے نفس سے جنگ کرنے

میں افراط کا شکار ہوگئے اور اخلاق اسلامی کو زندگی سے موت کی طرف لے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اخلاق میں غور و فکر کی اہمیت کو بھی کافی حد تک فراموش کرچکے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ لوگ ایسی تعلیمات سے نزدیک ہو گئے ہیں جو قرآن وسنت کے بر خلاف ہے مثلاًخود پرستی (تکبر) اور نفس سے جہاد کے بہانے، نفس کی عزت اور کرامت کو فراموش کر دیا ہے۔

۱۲

حالانکہ اخلاق اسلامی میں نفس کی شرافت و کرامت نہ صرف ایک اخلاقی فضیلت ہے(١) بلکہ اسے حاصل کرنا اور تقویت پہنچانا تربیت کا خود ایک طریقہ ہے۔(٢)

لیکن عرفانی نظریہ کے دوسرے گروہ والے جو شریعت سے وفاداری کو اپنی تعلیم کے لئے سرِ لوح (بنیاد) اور لازم قرار دیتے ہیں، معنوی سفر کے قاعد وں کو منظم کرنے اوراُن کے مبدأ و مقصد اور اس سفر کے مرحلوں کو معین کرنے سے حاصل نتیجوں کواور ان قدرتمند عناصر (جیسے محبت، ذکر، معنوی بلندی کے لئے نظارت) کے استعمال کر نے کی کیفیتوں کو جو اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بہت ہی کار آمد و مفید ہیں، اپنے ہمراہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اِن تمام امور کو قرآن و روایات کے مطابق جانتے ہیں۔ تربیت کے ان جذاب نتیجوں کو اخلاق اسلامی کے توصیفی مباحث کے ہمراہ کرنا اسلام کے اخلاقی نظام کے لئے مفید ثابت ہوگا۔

٣۔اخلاق نقلی(٣)

یعنی وہ اخلاق جسے محدثین نے اخبار واحادیث کو نقل ونشر کر کے لوگوں کے در میان بیان کیا ہے اور اس طرح اسے وجود میں لائے ہیں۔(٤)

اس نظریہ میں اخلاقی مفاہیم کو کتاب وسنت کی بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل اُن مفاہیم پر حاکم، واقعی تربیت اور ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبتوں پر کافی و وافی توجہ کے بغیر ہوتا ہے۔ اس طرح کے متن اکثر اخلاقی مفاہیم کی توصیف کو اپنا مقصد قرار دیتے ہیں اور ان کی بنیادوں اور عملی نمونوں پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اس بناء پر (اس نظریہ میں ) اخلاق کی ابتداء و انتہا مخصوصاً اخلاقی تربیت زیادہ واضح نہیں ہے۔ اس اخلاقی روش میں ایسی کوئی چیز نظرنہیں آتی ہے جس کی بناء پر اسے ایک اخلاقی نظام کہا جاسکے اور جو اخلاق کی بنیادی بحثوں کو بھی شامل کئے ہو اور تربیتی و توصیفی بحثوں کو بھی عقلی ترتیب کے لحاظ سے پیش کئے ہو۔اس روش پر لکھی ہوئی

____________________

١۔ (وَ لِلّٰهِ العِزَّةُ وَ لِرَسُولِه وَ لِلمُومِنین ) (سورہ: منافقون، آیت: ٨)۔

''وَلاَ تَکُن عَبد غَیرکَ وَ قَد جَعَلَکَ اﷲُ حُرّاً ، ، (نہج البلاغہ: نامہ٣١)۔

٢۔ مقدس اسلامی کتابوں میں مکارم اخلاق (مکارم یعنی بڑی خوبیاں) سے مراد یہی ہے۔

بعض روایتیں، جیسے''مَن کَرُمَت عَلَیه نَفسَه هَانَت عَلَیه شَهوَاته ، ،۔(نہج البلاغہ، حکمت: ٤٤١)۔

ایضاً: ''مَن هَانَت عَلَیه نَفسَه فَلَا تَمَن شَرَّه ، ،۔(تحف العقول، ص: ٤٨٣) اس بات کو بیان کرتی ہیں۔

٣۔ نقلی سے مراد آیات و روایات یا کسی کے قو ل کو نقل کرنا ہے۔٤۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ٢٠١۔

۱۳

کتابیں، اخلاقی مواد و مطالب کے لحاظ سے غنی ہونے کے باوجود، شکل وصورت کے لحاظ سے مناسب ورضایت بخش نہیں ہیں۔محمد غزالی کی احیاء العلوم اور فیض کاشانی کی المحجة البیضاء جیسی کتابیں اس طرح کے اخلاقی مضامین کی ترجمانی کرتی ہیں۔

اس کتاب میں ایسا قابل قبول قاعدہ ہے جو تینوں مذکورہ طریقوں میں پائے جانے والے مثبت نکات کی ترکیب اور ان کا مجموعہ ہے۔اسی کے ساتھ اس قاعدہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مذکورہ طریقوں میں پائی جانے والی کمیوں کو پورا کیا جائے۔ اس بناء پر اس قاعدہ میں اولاًیہ کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان اخلاق اسلامی کو شکل ومضمون کے لحاظ سے منطقی و عقلی قاعدوں کی بنیاد پر بیان کیا جائے۔ثانیاًعارفوں کے نتیجوں اورتجربوں سے حتی المقدوراستفادہ کیا جائے اور ثالثاً اخلاقی فیصلوں کا معیار ہمیشہ قرآن و روایات کو قرار دیا جائے۔

اس روش میں کتاب خدا اور نبی اکرم اوراُن کے اہلبیت اطہار (ع) کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے جن خوبیوں کو گذشتہ اخلاقی طریقوں اور مکاتب میں شمار کیا گیا ہے، وہ سبھی موجود ہیں۔ اخلاق اسلامی میں وسعت کی بناء پر اصلی اخلاقی سوالوں کے جواب بھیملیں گے اور اس میں اخلاقی مفاہیم پر بحث بھی شامل ہوگی اور اسی کے ساتھ طریقۂ کار اور تربیت کے عملی طریقوں اور قوانین کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ یہاں اسلامی مفاہیم پر ایک خاص نظام حاکم ہے۔ ہر مفہوم کی دوسرے مفاہیم سے نسبتوں پر اور اخلاقی نظام کے مجموعہ میں ان کی اہمیت پر بھی دقت کی گئی ہے۔ اخلاق تربیتی پر زیادہ توجہ کے ساتھ ہی مخاطبین کے شعور کی مناسبت سے راستوں اور وسیلوں کو پہچنوایا گیا ہے اور اس میں مبدأ و مقصد، درجات و مراتب کا بھی خیال کیا گیا ہے۔معر فت اور جہاد بالنفس پر خا ص توجہ کے ساتھ ہی انسان کی عزت و شرافت و بزرگی پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ اخلاقی مفاہیم کو سمجھنے اور بیان کرنے اور عمل کی ترغیب کے لئے عقلی نتیجوں کو سامنے رکھ کر محبت و دوستی کو اس معنوی سفر کے لئے کامیاب اور نتیجہ تک پہنچانے والے وسیلہکے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

اس نظریہ کا وحی سے نسبت رکھنا اور اس کا شریعت کے مطابق ہونا اس کی جوہری خصوصیت ہے۔ اس کے باوجود، عقلی میزانوں، عرف و عقل کے مسلّم اصولوں، اور معنوی سفر میں پیش قدمی کرنے والے سچے لوگوں کے عملی تجربوں سے، نیز قرآن و سنت میں جو کچھ آیا ہے اسے سمجھنے، اس کی تفسیر، تطبیق و اجرا ء کر نے میں غفلت نہیں کی گئی ہے۔

۱۴

اس بناء پر اس مقبول اخلاقی نظریہ کی کچھ خاص خصوصیتوں کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

١۔مباحث کا کتاب و سنت کے مطابق ہونا اور ان کے بر خلاف نہ ہونے کو واضح کرنا۔

٢۔ایسا جامع نظام پیش کرنے کی کوشش کرنا جو تمام اخلاقی سوالوں کا جواب دے سکے۔

٣۔ایک ایسی تفسیر پیش کرنا جو معتدل اور اخلاقی مفاہیم کے موافق ہو۔

٤۔ اخلاقی بحثوں کوعقلی لحاظ سے مطالعات کے تین حصوں (اصولی، توصیفی، ترتیبی ) میں تقسیم و ترتیب دینا۔

٥۔اخلاقی تربیت کے وسیلوں اور ان کی طبیعی ترتیب پر توجہ دینا اور ان کا شرعی ہونا۔

٦۔ تہذیب اخلاق (خوش اخلاقی ) میں پیش قدم و کہنہ مشق (تجربہ کار ) لوگوں کے تجربوں سے عملی فائدہ حاصل کرنا۔

٧۔ کتاب و سنت میں وارد ہوئے مصداقوں کے درمیان سے اخلاق کے کلی اصولوں اور قاعدوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔

٨۔عمل اور نفسانی ملکات کے مختلف حلقوںکے بارے میں اسلام کے نظریہ کو مستقل طور پر البتہ ہر ایک کی تثیر پر توجہ کرتے ہوئے بیان کرنا۔

٩۔ فکر، نفسانی ملکات، ر فتار و کردار پر آپس میں پڑنے والے ہر ایک کے اثرات پرتوجہ کرنا۔

١٠۔ اخلاقی مفاہیم کی تفسیر اور عمل میں، عقل، فطری رجحانات اور عملی آثار اور تجربوں کے مرتبہ پر توجہ کرنا۔

١١۔ اخلاقی لیاقتوں کے توازن اور اُن سب کی باہمی ترقی پر تا کید کرنا اور اُن میں افراط و تفریط سے پرہیز کرنا۔

١٢۔ اخلاقی قوانین کو استعمال کرنے میں مخاطبین کی خاص حالت و کیفیت پرتوجہ کرنا۔

۱۵

د: اخلاق اسلامی کے مباحث کی تقسیم

یہ اخلاق، اسلامی مفہوم کے مطابق اور قرآن و عترت اطہار (ع) کے ذریعہ جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس کی روشنی میں علم اخلاق کے اُن بنیادی سوالوں کا جن کی گفتگو آج فلسفہء اخلاق میں کی جاتی ہے، جواب دیتا ہے اور مطلوب و کامل انسان کو نفسانی صفات اور عمل کے مختلف نمونوں کے طور پر نمایاں بھی کرتا ہے۔ان دو مسئلوں کے علاوہ، مثالی انسان اور سب سے بلند معنوی مقامات تک پہنچنے کے لئے علمی و اجرائی، عملی قاعدوں اور ضابطوں کو پہچنواتا ہے۔ اس بناء پر اخلاق اسلامی منظّم ومرتّب طور پر مندرجہ ذیل تین فصلوں میں تقسیم وترتیب پاتا ہے:

١۔اخلاق کی بعض بنیادی اور فلسفی بحثیں

اخلاق کی حقیقت اوراخلاقی عمل کے ضروری عناصر سے واقفیت اور ان کو پہچنوانا۔

٢۔اخلاقی خوبیوںاوربرائیوں کی توصیف

نفسانی صفت کے عنوان سے بھی اور عمل کے مختلف حدود میں بھی۔

٣۔اخلاق تربیتی

انسان کو اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ اور برائیوں سے پاک کرنے کے لئے وسیلوں اور طریقوں کو بیان کرنا۔

۱۶

دوسری فصل : اخلاق کی جاودانی

مقدمہ

١۔مسئلہ کی وضاحت:

ناقص بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا، چوری کرنا، قومی برتری پر اعتقاد رکھنا وغیرہ بعض گذشتہ معاشرے میں جائز مانا جاتا تھا اور اُنھیں اخلاق کے خلاف شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ آج معاشرے کی اکثریت ان چیزوں کو غیر اخلاقی مانتی ہے۔اس زمانے میں بھی مختلف تہذیبیں اخلاقی فضائل ورذائل کے بارے میں متعدد قسم کے نظریات رکھتی ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ بعض معاشرے ''چند بیویوں، ، کے ہونے کو جائز اور حجاب کو ضروری جانتے ہیں، اکثر عیسائی تہذیبوں میں ''چند بیویوں، ، کا ہونا غیر اخلاقی بات اور حجاب کو غیر ضروری جانا جاتا ہے۔

اس طرح کی حقیقتوں پر توجہ کر نے سے ہم اخلاق سے متعلق ایک اہم سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کیا اچھی اور بری اخلاقی عادتیں اور خصلتیں آفاقی و جاودانی ہیں ؟ اخلاقی عدالتوں نے انسانوں کی ظاہری اور باطنی صفتوں کے لئے جن احکام کو صادر کیا ہے کیا وہ عالمی اور ابدی اعتبار رکھتی ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا اخلاقی خوبیا ں اور برائیاں مطلق اور عام ہیں یا نسبی خصوصیتیں رکھتی ہیں اور تنہا کسی خاص دور اور زمانہ یا خاص مکان و معاشرہ اور مخصوص حالات کے لئے اعتبار اور معنی رکھتی ہیں ؟

٢۔ بحث کی تاریخ:

اس بحث کی شروعات قدیم یونان کے زمانہ تک پہنچتی ہے اور مغربی ملکوں کے جدید علمی زمانہ میں بھی یہ سوال اخلاقی فلسفیوں کے لئے ایک بنیادی سوال بن گیا ہے۔ اسلامی مکاتب میں اخلاق کے نسبی رجحان کو اشعری متکلمین کے یہاں پایاجا سکتا ہے، اگرچہ ان لوگوں نے اشیاء کے عقلی وذاتی حسن وقبح

سے انکار کرنے میں '' اخلاقی نسبیت''( Ethical relataivity )کی اصطلاح سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ لیکن یہ بحث موجودہ زمانہ میں مسلمان دانشوروں کے علمی حلقوں میں بھی ایک بلند درجہ رکھتی ہے اور مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی گئی ہے۔

۱۷

٣۔ موضوع کی دینی اہمیت:

اُن آثار کے علاوہ جو اس بحث کے نتیجوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور آگے بیان کئے جائیں گے یہ موضوع مسلمانوں کے سب سے زیادہ بنیادی و کلیدی عقیدوں اور اعتقادی و ایمانی ارکان میں سے کسی ایک سے بہت زیادہ نزدیکی رابطہ رکھتا ہے۔ اسلام کا مکمل اور خاتم ہونا اور نتیجةً اس کا عالمی اور جاودانی ہونا ایسی خصوصیت ہے کہ اسے گذشتہ و حال کے کٹگھروں سے آزاد کرتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ، گذشتہ وآئندہ کے ادیان سے بشر کے بے نیاز ہونے کو بیان کرتا ہے، اخلاق کا جاودانی ہونا اس بات کی تاکید ہے کہ جغرافیائی موقعیت، تاریخی ادوار، زمان و مکان کے حالات، دینی تعلیمات اور منجملہ ان کے اخلاقی احکام اس کو اپنے زیر اثر قرار نہیں دیتے ہیں مگر ان مجازو بہترراستوں سے جسے دین نے خود معین کیا ہے۔

وہ مبانی و نظریات جو نسبیت کو اچھائیوں اور برائیوں کے دائرہ میں قبول کرتے ہیں، اسلام کے کمال اور خاتمیت کی معقول تفسیر کے سلسلہ میں ٹکراتے نظر آتے ہیں۔ اس بناء پر مذکورہ اصل کی پابندی، اخلاقی مفاہیم میں ثبات واطلاق کے اثبات کی مرہونی ہے۔ یہ بات ثابت ہو نا چاہئے کہ اخلاقی موضوعات کی ابتدائی طبعیت ہمیشہ ایک حکم رکھتی ہے اور جغرافیائی اختلاف زمانہ کا گذر، تہذیبوںکا اختلاف، ایک اخلاقی موضوع کے اچھائی یا برائی سے متّصف نے میں کوئی اثر نہیں رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ سوال کا جواب دینے کا ہمارا طریقہ اخلاق کے سلسلہ میں ہمارے نظریہ کو بھی بیان کرے گا اور اخلاقی تحقیقات کے تانے بانے پر بہت اثر ڈالے گا اور نہ صرف اخلاقی اچھائی اور برائی کے سلسلہ میں ہمارا فیصلہ بدل جائے گا بلکہ اخلاق میں بحث کے طریقے، اس کے منابع اور یہاں تک کہ اخلاقی احکام کے مخاطبین کے حدود کو بھی بیان کرے گا۔

٤۔اطلاق اور نسبیت کا مفہوم:

اخلاقی مطلق پسندی سے مراد اس عقیدہ پر زور دینا ہے کہ اخلاقی اصول و تعلیمات، ا خلاقی موضوعات کی ذات اور ان کے حقیقی آثار ونتائج کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز سے وابستہ نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کسی موضوع کے اچھے یا برے ہونے کی جو چیزیں سبب بنتی ہیں صرف موضوع کی ذات میں موجود عناصر کا مجموعہ اور اس پر پڑنے والے واقعی آثارہیں نہ کہ اس سے باہر کے حالات و حوادث۔جیسے کسی سماجی، اجتماعی، ثقافتی، اقتصادی زندگی کے حالات یا فاعل کے ذوقی ونفسیاتی حالات۔ا س بناء پر بوڑھوں کی مناسب طریقہ سے دیکھ بھال کرنا، ابتداء سے پرہیزگار و پاک دامن رہنا اور اخلاقی لحاظ سے دوسروں کی عزت کی حفاظت کرنا اگر ایک پسندیدہ عمل مانا گیا ہے تو اصولی طور پر ہر زمان ومکان میں اور ہر فاعل کے ذریعہ تمام حالات میں اسے سراہا گیا ہے اور اخلاقی بھی مانا گیا ہے مگر یہ کہ حالات کا بدل جانا عمل کی ماہیت میں تبدیلی کا سبب قرار پائے

۱۸

یا قدروں کے درمیان کش مکش کا سبب بن جائے۔(١)

نسبیت یعنی ایک شئے کا اس کے اصلی آثار اور ذات سے خارج و متغیر امر یا امور سے وابستہ ہونا۔اس بناء پر ایک اخلاقی مفہوم کی نسبیت خواہ فضیلت ہو یا رذیلت اس طرح سے ہے کہ ایک باطنی صفت یا ظاہری رفتار پر اس کا صادق آنا یا نہ آنامعلوم ہو اور وہ صفات (باطنی یا ظاہری ہوں) اپنے اصلی آثار اور حقیقت سے خارج اور متغیّر عناصر سے وابستہ ہوں۔ جیسے اس صفت کا حامل انسان یا اس رفتار سے مربوط فاعل، وہ سماج جس میں وہ انسان زندگی گذار رہا ہے اور جس میں وہ قاعدہ و طریقہ پایا جاتا ہے، اور اس زمانہ کے حالات۔ مثلاًبوڑھوں سے متعلق رفتار، اخلاقی لحاظ سے ہمیشہ ایک حکم نہیں رکھتی۔ یا مختصر شراب پینا یا حجاب کی پابندی نہ کرنا، عیسائی سماج میں زندگی بسر کرنے والے کے لئے ایک اخلاقی برائی شمار نہیں کی جاتی لیکن اسلامی سماج میں زندگی گذارنے والے کے لئے ایک برا اور اخلاق کے خلاف عمل مانا جاتا ہے۔(٢)

ایک موضوع کو اخلاقی اچھائی یابرائی سے متّصف ہونے کے اعتبار سے موضوع کی ذات اور اس کے اصلی آثار سے باہر کس متغیّر چیز کے تابع قرار دیا جائے اس کے لئیاخلاقی نسبت پسندی کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

ایک کلی تقسیم کی بناء پر(٣) وہ لوگ جو اخلاقی اصول کو سماجی تہذیب کی تبدیلی کے تابع قرار دیتے ہیں وہ نسبیت قرار دادی(۴) کے طرفدار ہیں اور وہ لوگ جو اسے انسان کی خواہش اور انتخاب کے تابع قرار دیتے ہیں، نسبیت ذہنی(۵) کو قبول کرتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جو اخلاقی اصول کے لئے عینی وخارجی اصل اور مبدأ کے قائل ہیں وہ اصالت عین(۶) کے طرفدار ہیں۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: اسی کتاب میں اخلاقی قدروں میں تزاحم اور ترجیح کا معیار اور سوالات وجوابات کی طرف (صفحہ ٦٧ پر) ۔

٢۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی: المیزان، ج: ١، ص: ٣٧٦، ٣٧٧۔

٣۔ رجوع کیجئے: لوئس پویمن۔ نقدی برنسبیت اخلاقی، ترجمہ فتح علی۔ ( بحوالۂ مجلّہ نقد و نظر، ش ١٣، ١٤، ص٣٢٦)

Objectivsm ۔۶ Subjectivism ۔۵ Conventional ۔۴

۱۹

دوسری تقسیم کے لحاظ سے اخلاقی نسبیت پسندی کی قسموں کو مندرجہ ذیل طریقہ سے بیان کیا جاسکتا ہے:

١۔علم حیات کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی اصول، انسان کی متغیر زندگی کے حالات کے تابع ہیں۔

٢۔علم سماجیات کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی اصول اس سماج کے متغیر حالات کے تابع ہیں جس میں انسان زندگی گذار تا ہے۔

٣۔ علم نفسیات کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی مفاہیم، انسان کے متغیر نفسیاتی حالات اور اس کے ذوق وشوق، رغبت وسلیقہ کے تابع ہیں۔ اس طرح کی قسم کو کبھی ذوقی نسبیت پسندی یا (نظریۂ اصالت وجود) { Egzistansialism } اگز سٹنسیا لیسٹی بھی کہتے ہیں۔

٤۔ تہذیب وثقافت کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: اخلاقی فضائل و رذائل اخلاقی سماج کے آداب و رسوم کے پابند ہیں۔

٥۔ مادہ پرستی کے سلسلہ میں نسبیت کا رجحان: کسی صفت یا رفتار کی اچھائی یا برائی کا معیار، انسانوں کے درمیان مادی لحاظ سے برابری اور مساوات کو ایجاد کرنے اور امکانات کو مساوی لحاظ سے تقسیم کرنے کے سلسلہ میں اس کی تثیرو کار کردگی کو قرار دیا گیا ہے۔(١)

الف۔ اخلاقی نسبیت پسندی کے نتیجے:

کلی طور پر اور ہر اس دلیل و مبنیٰ کی بنیاد پر جسے دعوے کے طور پر پیش کیا جائے، اخلاقی نسبیت کا رجحان، تباہ کن نتائج کا حامل اور غیر قابل قبول ہے اور وہی دلیلیں اسے باطل کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس کے بعض کلی اور مشترک نتیجے مندرجہ ذیل ہیں:

١۔ ذمہ داری کا سلب ہونا:

اخلاق مطلق اور عمومی و جاودانی اصول سے انکار کرنے سے کسی بھی انسان کو اس کی رفتار کے مقابلہ میں، اخلاقی لحاظ سے اور بہت سی جگہوں پر حقوقی لحاظ سے بھی ذمہ دار نہیں مانا جاسکتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: موافق و مخالف اگزسٹنسیالیزم، ترجمہ: سعید عدالت نژاد، نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، ش١٣۔١٤، ص: ٣٠٠تا٣٢٣۔

٢۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: ایضاً، (نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، شمارہ: ١٣۔١٤، ص: ٣٠٥)۔

۲۰

٢۔اخلاقی احکام کا بے ثمر ہونا:

اخلاقی احکام اور قضیے اس صورت میں مفید ہیں جب وہ تاثیر گذار ہوں۔ اس کے علاوہ مخاطبین کے ذوق وشوق، تسلیم و رضا کو پروان چڑھائے اور ان کو ایثار و فداکاری کے لئے آمادہ کرے۔ یہ چیزیں عام ومطلق کی حقانیت اور اخلاقی اصول کی جاودانی کو قبول کرنے اور ان سے عشق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاقی نسبیت کا رجحان ان تمام امور سے ٹکراؤ رکھتا ہے اور ہر طرح کے مشترک اخلاقی اصول کی سفارشوں سے لگاؤ اور اس سے محبت کی گرمی کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔(١) جس کے نتیجہ میں تبلیغ و ہدایت اور ارشاد و تربیت بے معنی ہیں اور خدا کے نبیوں اور ولیوں کو بشر کی ہدایت کے لئے نہ کسی اجازت کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی سماجی مصلحین اپنی دعوت پر لبیک کہنے کے لئے لوگوں کے کسی معقول جواب کے منتظر رہ سکتے ہیں۔

٣۔ دین کے مکمل اور جاودانی ہونے کی نفی:

اخلاق دین کی نظر میں ایک بلند اور وسیع مرتبہ کا حامل ہے۔ اور اتنا بلند ہے کہ اس کی نظر میںتکوین و تشریع کا اصل مقصد، اخلاق کی عالی فضیلتوں تک پہنچنا اور اسے حاصل کرنا بتایا گیا ہے۔اسی وجہ سے دین کی تمام تعلیمات میں اخلاقی باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اکثر دینی تعلیمات براہ راست اخلاقی موضوعات کے بارے میں ہوتی ہیں۔

اس حقیقت پر توجہ کر تے ہوئے اخلاقی احکام کے عدم ثبات اور تغیّر کو قبول کرنا دینی تعلیم کا عصری اور وقتی ہونا مانا جائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کے کامل اور خاتم ہونے کی نفی کردی جائے۔ اس بناء پر اخلاقی نسبیت اور دین کا عالمی و جاودانی ہونے میں ٹکرائو نظر آتا ہے جبکہ کمال اور خاتمیت دین کی شان ہے۔

٤۔ اخلاقی شکّاکیت :

اخلاقی نسبیت پر اعتقاد رکھنے سے کسی اخلاقی موضوع کے سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا امکان ختم ہوجا تا ہے۔ اخلاقی نسبیت پسندی سے تہذیبی ماحول اور کسی خاص سلیقہ کے تحت، صداقت کے قبیح ہونے کے بارے میں کسی فیصلہ کا جتنا احتمال ہوسکتا ہے اتنا ہی حسن صداقت کے سلسلہ میںبھی ممکن ہے۔ اخلاقی نسبیت پسندی، واقعیت کی توصیف اور اسے بیان کرنے والے کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ اخلاقی احکام کی ماہیت کے بارے میں اپنے نظریہ کوبیان کرنے کی حیثیت سے ہے اور اس کے مطابق اخلاقی اصول کا سالم وناسالم ہونا، انسان یا سماج کے متغیر عوامل پر منحصر ہے۔ اس بناء پر کسی اخلاقی موضوع کے بارے میں کوئی مستقل فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہی اخلاقی شکاکیت ہے۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: پُل رو بیجک: (نقل ازمجلہ ء نقد و نظر، شمارہ: ١٣۔١٤، ص: ٣١٢)۔

۲۱

٥۔خادموں اور خائنوں کا یکساں ہونا:

اخلاقی نسبیت کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور وجدان کے خلاف نتیجہ یہ ہے کہ خدمت وخیانت، اصلاح وجنایت، خیر خواہی وشرارت وغیرہ اخلاقی دائرہ میں سبھی برابر اور سبھی ایک نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور ایک ہی طریقہ سے ان کی تعریف و تنقیص ہوتی ہے۔اس بناء پر فرعون و معاویہ کا عمل اتنا ہی معقول ہوگا جتنا حضرت آسیہ وحضرت زینب کے عمل کو پسندیدہ کیا گیا ہے۔

ب۔ ا خلاق میں مطلق پسندی اور اس کی دلیلیں

اخلاقی نسبیت کے رجحان کے تباہ کن نتیجوں پر توجہ کرنے کے بعد ضروری ہے کہ جاودانہ اخلاق کی معقول اور عقلی بنیادوں پر بیان کیا جائے اور اُن نظریاتی اختلافات اور نقصانات کو راستہ سے ہٹادیا جائے جو اس نظریہ کے لئے خطرہ کا باعث ہیں۔ اس نظریہ کو حاکم بنانا اور اس کا معقول قوام واقتدار حاصل کرنا اس شرط کے ساتھ ہے کہ اپنے دعوے کو عقل وبرہان کی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

١۔پائدار اخلاق کی نشاندہی کی ضرورت:

اخلاقی نسبیت کے رجحان کے بعض نتیجوں پر اجمالی نظر ڈالتے ہی اخلاق کے جاودانی ہونے کی ضرورت آشکار ہوجاتی ہے۔ انسان کا با مقصد ہونا اور اس کا اپنی ذمہ د اری کو قبول کرنا، تعلیم وتربیت اور ترغیب وترہیب (ڈرانے) کی حکیما نہ توجیہ، عدل وظلم کے بارے میں گفتگو کا امکان، انسانی حقوق کا دفاع اور اس کی حق تلفی کے خلاف جنگ، فضیلت ورذیلت، خیر و شر، خائن وخادم، جزاء و سزا، ثواب وعقاب، جنت وجہنم، عادل وفاسق کے درمیان تمیز پیدا کرنا، انبیاء واولیاء کی رسالت، مصلحین اور خیر خواہوں کی کوششوں کا دفاع کرنا، ابدی اور کامل دین کی طرفداری، اخلاقی حسن وقبح کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے عمومی اصولوں اور معیاروں کی نشاندہی کا امکان اور دسیوں اور سیکڑوں ایسے انسانی زندگی کے اصول و ارکان جن کو نظر اندازکرنے سے انسانی زندگی کا شیرازہ بکھرجائے گا لہٰذا اُن کی بقاء صرف ثابت اور پائدار اخلاقی اصولوں کو قبول اور بیان کرنے اور اُن کی نشاندہی کرنے سے ممکن ہے۔

٢۔ اخلاق کے جاودانی اصولوں کو بیان کرنا:

مختلف اخلاقی مکاتب میں اخلاق کے جاودانی اصولوں کی عقلی تفسیر مختلف شکلوں میں کی جاتی ہے۔یہاں اختصار کے طور پر اخلاق کی صرف اُن بحثوں کا ذکر ہوگا جو اسلامی دائرہ میں داخل ہیں۔اس دائرہ میں اخلاق جاودانہ کے عقلی بنیاد وں کو بیا ن کرنے کے لئے جس مطلب کو سب سے زیادہ قوی مانا گیا ہے

۲۲

وہ حقیقت میں اخلاقی فرائض کی بحث کے سلسلہ میں علامہ طبا طبائی کی قائم کردہ بنیادوں سے اخذشدہ نظریہ ہے۔اس نظریہ کی مختصر شرح درج ذیل عبارت میں بیان کی جارہی ہے۔

اخلاقی مفاہیم، انسان کے اختیاری افعال کے درمیان عینی اور حقیقی رابطوں کا نتیجہ اور مظہر ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ مفاہیم اُن دونوں ( عینی اور حقیقی رابطوں) کے درمیان پائے جانے والے علت و معلول کے رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ رابطہ فاعل کے علم وجہل و ارادہ اور سماج پر حاکم حالات سے آزاد ومستقل اور حقیقی ہوتا ہے۔ اخلاقی خوبی و بدی اور اوامر و نواہی اسی واقعی و تکوینی نسبت کا مظہر ہیں، اِسے جیسے انسان کے اختیاری فعل کا اس کے نفسانی کمال پر پڑنے والی تثیر کی نوعیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ رابطہ، عینی وتکوینی ہے اور علیت کے رابطہ کی نوعیت سے متعلق ہے لہٰذا وہ تغیّر وتحوّل سے دوچار نہیں ہوتا۔ دونوں (عینی اور حقیقی) روابط کے ثبات و پائداری کی وجہ سے یہ نسبت ثابت و جاودانی ہے۔ اس طرح اس سے حاصل اخلاقی مفا ہیم بھی عالمی اور جاودانی ہیں۔ کیونکہ انسان کی روح اور حقیقت میں جو رابطہ کا ایک سرا ہے تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اور وہ مشخص فعل اور عمل بھی جو اخلاقی حکم کا موضوع اور رابطہ کا دوسرا سرا ہے، اسے بھی واحد اور ثابت فرض کیا گیا ہے۔(١)

کتاب و سنت کی نظر میں بھی انسان کی واقعی شخصیت اور روح پر اس کے اختیاری اعمال کا رابطہ اور اثرایک حقیقی اورعینی امر ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں جابجا نظر آتی ہے۔ نمونہ کے طور پر چند مورد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے قرآن کریم اُن لوگوں کے بارے میں جو قیامت اور آیات الٰہی سے انکار کرتے ہیں، فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی بد اعمالیوں کی تاریکی نے ان کے دلوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔(٢)

علامہ طباطبائی کے قول کے مطابق ا س آیت سے معلوم ہوتا ہے:

١۔برے اعمال کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اور وہ انسان کے نفس کو اپنے مطابق بنادیتی ہیں۔

٢۔ یہ نقوش اور صورتیں، نفس اور حقیقت کو درک کرنے میں مانع اور حائل ہوجاتی ہیں۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے: علامہ طبا طبائی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، مقالہء اعتباریات و رسائل سبعہ، مقالہء اعتباریات۔اسی طرح زیادہ معلومات کے لئے رجوع کیجئے: استاد مطہری کی جاودانگی و اخلاق، یاد نامہ استاد مطہری، ج: ١، ص: ٤١٠ ،٤١٨ وانہی استاد کی: حکمت عملی، ص: ١٤، ٢٠ و اسلام و مقتضیات زمان ج: ١، ص: ٣٤١ ، ٣٥١ و ج: ٢، ص: ٢٤٦۔

٢۔ سورہ ٔ مطففین، آیت: ١٤۔

۲۳

٣۔نفس اپنی ابتدائی طبیعت کے لحاظ سے ایسا پاک اور نورانی ہوتا ہے کہ حقائق کو درک کرسکتا ہے اور حق و باطل کے درمیان تمیز پیدا کرسکتا ہے۔(١)

اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا خدا اس کے لئے نجات کا راستہ کھول دے گا۔(٢)

اور فرمایا کہ اے ایمان لانے والو! اگر تم تقوائے الہی اختیار کروگے تو حق وباطل میں تشخیص کی قدرت تم کو وہ عطا کر دے گا۔(٣)

علامہ طباطبائی مرحوم اِن آیات کی تفسیر کر تے ہوئے فرماتے ہیں:

''معرفت'' حاصل کرنے کے لئے تقویٰ ایک مستقل ذریعہ نہیں ہے بلکہ تقویٰ، انسان کی طبیعت کے اپنے فطری اعتدال پر پلٹنے کے لئے سبب بنتا ہے اور یہ اعتدال اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان کی رغبتیں پہلے کی بہ نسبت عالی بن جائیں اور اس کے ذریعہ بہتر اعمال انجام پائیں۔ یعنی اعمال صالح، پسندیدہ اور نیک اخلاق کی حفاظت کا ضامن نیز حقیقی معرفت، مفید علوم اور صحیح افکار کی پیدائش کا موجب بنتا ہے۔(٤)

اس بیان میں فضیلتوں اور رذیلتوں کے پیدا ہونے کے اسباب کے ثابت ہونے کی کیفیت کی شرح کے ساتھ خوبی اور بدی کے اطلاق اور اثبات کو نتیجہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی جب انسان کی باطنی طاققتیں ثابت ہیں اور ان میں افراط وتفریط و اعتدال جیسی تینوں حالتیں بھی ایک ہی طرح ہیں، لہٰذا اخلاقی فضایل ورذایل جو انھیںحالات سے وجود میںآتے ہیں بالطبع ثابت ہوں گے اور نسبیت و تبدیلی سے دور ہوں گے۔ یہ بیان باطنی قوّتوں سے مربوط ایک خاص معرفت شناسی پر مبنی ہے۔یہاں کوشش کی گئی ہے کہ عقلی لحاظ سے اورانسان کی نفسانی قوّتوں کی مخصوص وضاحت پر تکیہ کرتے ہوئے تمام اخلاقی مفاہیم کی تفسیر کی جائے۔ اخلاق اسلامی کے وہ مشہور منابع جو فلسفی نظریات پر مبنی ہیں، اس شیوہ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ روش ایک ایسے نظام سے متثر ہے جسے ارسطو نے اخلاقی قضیوں کو بیان کرنے کے لئے پیش کیا ہے۔

____________________

١۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج: ٢٠، ص: ١٣٤۔

٢۔ سورئہ: طلاق، آیہ: ٢۔

٣۔ سور١ئہ: انفال، آیہ: ٢٩۔

٤۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج: ٩، ص: ٥٦ وج:١٩، ص٣١٣و٣١٥۔

۲۴

ج۔ سو ا لا ت اور جوابات

اس بحث کی تکمیل کے لئے مناسب ہے کہ ایسے بعض شبہات جو ممکن ہے اسی طرح بیان کئے جاتے ہوں، سوال و جواب کی شکل میں تحقیق کی جائے۔ اس مربوط واصلی سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

پہلاسوال:

اگر اخلاقی اصول، مطلق اور جاودانی ہوتے ہیں تو استثنائات کے لئے کیا توجیہ اور تفسیر کی جا سکتی ہے؟

پہلا جواب:

حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی احکام استثنا نہیں ہوتے اور جس وقت اخلاقی حکم کا موضوع محقق ہوتا ہے اسی وقت اس کا حکم بھی اس کے لئے ثابت ہوجاتا ہے۔ہاں، کبھی اخلاقی حکم کے اصل معیار میں خطا نظر آتی ہے مثلاً ہم کہتے ہیں: ' 'سچ بولنا اچھا ہے'' لیکن اگر یہ کسی بے گناہ کا خون بہنے کا سبب بن جائے یا اسلام کے دفاعی نظام کے اسرار کے فاش ہونے کا موجب قرار پائے تو ایسے موقعوں پر ''سچ بولنا اچھا نہیں ہے، ، یہاں اخلاقی حکم عمومی اور کلی قاعدوں سے جدا ہوگیا ہے۔حالانکہ حقیقت میں ہم نے اخلاقی حکم کے موضوع کو اس کی تما م خصوصیتوں اور قیدوں کے ہمراہ پہچنوانے میں خطا کی ہے۔پہلے والے حکم میں اس کا واقعی موضوع ' 'سچ بولنا کسی بڑی خرابی اور فساد کے بغیر مفید ہونا '' ہے(١) قطعی طور پران تمام موارد میں جہاںیہ موضوع محقق ہوتا ہے سچ بولنے کا حکم موجود رہے گا۔سچ بولنا اگر بے گناہوں کا خون بہنے وغیرہ کا سبب بنے تو یہ معاملہ اخلاقی نہیں ہے۔(٢)

دوسرا جواب:

اخلاقی اصول استثناء کو قبول نہیں کرتے ہیں۔لیکن ایسی جگہ پر جہاں غیر ضروری اور نا مناسب نتائج کا سامنا ہوتا ہے ایسی حالت میں ایک خارجی فعل، دو عنوان کا مصداق بن جاتا ہے۔جیسے پہلے جواب میں درج مثال۔ اُن دو عنوانات میںایک سچ بولنا ہے اور دوسرا بے گناہ کا قتل یا اسلامی فوج کے اسرار کا فاش کرنا۔ اس بناء پر ایک ہی عمل ایک لحاظ سے اچھا ہے اور دوسرے لحاظ سے برا۔ ایسی جگہوں پر مجبوراً ایک ہی طرف کو انتخاب کیا جائے گا۔ کیونکہ یا اس عمل کو ترک کیا جائے یا انجام دیا جائے۔ یہاں تیسری صورت ممکن نہیں ہے۔ عمل کے ترک کرنے یا انجام دینے کے انتخاب میں مجبوراً اس کے حسن وقبح کے درجات کا بھی لحاظ کرنا پڑے گا۔

____________________

١۔ اشیاء اور افعال کے ذاتی وعقلی حسن وقبح کو قبول کرنے کی بناء پر۔ جسے شیعہ اور معتزلہ قبول کرتے ہیں۔انسان کا اختیاری عمل، مصلحت کی بناء پر اچھااور مفسدہ وفساد کی بناء پربرا ہوجاتا ہے۔البتہ مصلحت اور مفسدہ کی تشخیص میں اور ان کی اہمیت کے توازن میں عقل کے علاوہ وجدان، فطرت اور وحی بھی بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ ٢۔ ر جوع کیجئے: مصباح یزدی، محمد تقی: دروس فلسفہ ء اخلاق، ص: ٤١، ١٨٧تا ١٨٩۔

۲۵

اگر ان کی اچھائی یا برائی مرتبہ کے لحاظ سے ایک ہے تو اسے انجام دینے میں انسان نہ مذمت کا مستحق ہے اور نہ تعریف کا۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر مقدم ہے تو اسی کو انتخاب کرنا چاہئے۔ اس بنا پر خوبی اور بدی (اچھائی اور برائی) مطلق ہیں لیکن کبھی عمل کے مرحلہ میں دونوں یکجا ہوجاتے ہے۔ یہاں ان دونوں کے تداخل کوپہلے بیان کی گئی ترتیب سے حل کرنا چاہئے(١)

تیسرا جواب:

اخلاقی فعل و رفتار، اخلاقی خصلت و عادت سے جدا ہے۔ اخلاق کا مطلق ہونا یعنی اخلاقی فعل ورفتار کا مطلق ہونا نہیں ہے۔ اس شبہہ کے پیدا ہونے کی وجہ، اس ظریف نکتہ سے غفلت کا نتیجہ ہے ممکن ہے۔ کہ ایک فعل ایک اعتبار سے اخلاقی ہو اور دوسرے اعتبار سے غیراخلاقی۔ مثال کے طور پر بچہ کی جسمانی تنبیہ کرنا مطلقاً اچھا ہے اور نہ ہی خراب۔ لیکن کبھی یہ رفتار زیادتی و ظلم کا مصداق اور اخلاقی لحاظ سے بری بن جا تی ہے۔ لیکن جب بچہ کی تادیب کے لئے یہی طریقہ باقی رہ جائے تو اخلاقی لحاظ سے یہی اچھا ہے۔اس بنا پر اخلاقی مفاہیم اور خصلتیں مطلق ہیں اور اخلاقی افعال و رفتارنسبی۔ یہاں اخلاقی احکام کا موضوع اخلاقی مفاہیم اور خصلتیں ہیں نہ کہ خاص افعال و رفتار۔ انسان کے افعال و رفتار پر اس وجہ سے کہ وہ کس اخلاقی مفہوم کا مصداق ہے، اخلاقی حکم لگایا جاتا ہے اور چونکہ ایک رفتار مختلف حالات میں مختلف اخلاقی مفاہیم کا مصداق بن سکتی ہے لہٰذا اُس پر مختلف اخلاقی احکام لگائے جائیں گے۔یہ بات '' اخلاقی احکام میں نسبیت '' کے معنی میں نہیں ہے۔(٢)

دوسرا سوال: بعض روایات کے مطابق عورت و مرد کے اخلاقی احکام میں فرق ہے۔ گویا یہ ایسا ہے کہ اسلام کی نظر میں بھی اخلاقی مفاہیم نسبی ہیں۔جیسے حضرت علی ـ کی یہ فرمائش کہ'' عورتوں کی سب سے اچھی خصلتیں مردوں کی سب سے بری خصلتیں ہیں: جیسے تکبر، بزدل ہونا، کنجوس ہونا۔ لہٰذا جب عورت مغرور ہوتی ہے سر

نہیں جھکاتی ہے اور جب کنجوس ہوتی ہے اپنا اور اپنے شوہر کا مال محفوظ رکھتی ہے اور جب بزدل ہوتی ہے اس کے سامنے جو آتاہے اس سے ڈرتی ہے۔(٣)

اس فرمائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اخلاقی مفاہیم، انسانوں کے آدھے حصہ ( مردوں ) کے لئے بُرے اور باقی آدھے حصّہ ( عورتوں ) کے لئے اچھے اور پسندیدہ ہیں۔

____________________

١۔ ر جوع کیجئے: مصباح یزدی، محمد تقی: دروس فلسفہ ء اخلاق، ص: ١٨٦و ١٨٧۔

٢۔ ر جوع کیجئے: استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ١٤٨ تا ١٥٦۔

٣۔ نہج البلاغہ، فیض اسلام، حکمت ٢٢٦۔

۲۶

جواب: اس روایت میں اس فرمائش کا موضوع، خاص حالات و شرائط کے تحت رفتار و عمل کا وجود میں آنا ہے۔ عورتوں کے لئے تکبر کا پسندیدہ قرار پانا، نا محرم مردوں کی متکبرانہ رفتار کے مقابلہ میں ہے۔ کیونکہ روایت اس حکم کے بیان کی دلیل میں کہتی ہے:

'' اگر عورت، نا محرم مرد کے مقابلہ میں اس طرح کی بزرگانہ و متکبرانہ رفتار رکھتی ہے تو دوسروں کے لئے سوء استفادہ اور دست درازی کا امکان نہیں رہتا ہے''۔

عورتوں کے خوف کی تعریف بھی ان کی اپنی عفّت و پا کدامنی کے لئے محتاط رہنے کے معنی میں ہے۔ یعنی جب بھی ان کی عفّت خطرہ سے دوچار ہو تو انھیںاحتیاط کو ترک کرنا اور بے پروا نہیں ہونا چاہئے۔اسی طرح عورتوں کے لئے کنجوسی کو اچھا قرار دینا اصل میں ان کے اپنے شوہر کے مال کو استعمال کرنے کے لئے ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی ـ آگے فرماتے ہیں کہ: '' عورت کا بخل سے کام لینا سبب بنتا ہے کہ اس کے اور اس کے شوہرکے درمیان مشترک مال محفوظ رہے۔، ،

اس بنا پر تکبر، خوف اور بخل، عورت اور مرد کے تئیں نفسانی خصلتوں کے عنوان سے ایک ہی اخلاقی حکم رکھتے ہیں۔ لیکن نا محرم مرد کے مقابلہ میں عورت کی متکبرانہ رفتار اور اس کی اپنی عفّت کے واسطے محتاط رہنا، اور اپنے شوہر اوراپنے کنبہ کے مشترک مال کو استعمال کرنے میں بخل سے کام لینا ایک پسندیدہ عمل ہے۔اور اس طرح یہ وسیلہ اخلاقی نسبیت تک (یہ کہ وہی اخلاقی عادتیں اور خصلتیں ہیں) نہیں پہنچ سکتا ہے۔

تیسرا سوال:علوم انسانی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اعمال ایک گروہ کے درمیان اچھے اور دوسرے گروہ کے نزدیک برے مانے جاتے ہیں، مثلاً بعض کے نزدیک احترام کی خاطر سر سے ٹوپی اتارنا اچھا اور بعض دوسروں کے یہاں بے احترامی اور بے ادبی مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے بہت سے اعمال ہیں یہ اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کے نسبی ہونے کی دلیل ہے۔(١)

جواب: مذکورہ رفتار اور ان سے متعلق نظریات میں اختلاف علم اخلاق کے دائرہ سے باہر ہے۔حقیقت میں اس طرح کے امور ایک سماج کے آداب و رسوم اور عرف کو تشکیل دیتے ہیں۔

آداب و رسوم قرار دادی (اعتباری) ماہیت رکھتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں قرار دادی اعتباریات کی قسموں میں سے ہیں، جو نہ ہی خارجی وجود رکھتی ہیں اورنہ ہی خارجی حصول کے لئے سبب بنتی ہیں بلکہ ایک سماج میں

____________________

١۔ر جوع کیجئے: ویل دورانٹ: لذات فلسفہ، ص ٨٣ تا ٩٩۔

۲۷

رہنے والے لوگوں کے قولی یا عملی توافق سے وجود میں آتی ہیں۔ اسی وجہ سے مختلف معاشرہ کے لوگوں سے وابستگی متفاوت اور نسبی ہے البتہ اُن کا نسبی ہونا اخلاقی احکام نسبیت کا سبب نہیں ہے۔(١)

چوتھا سوال:

ادیان و مکاتب اور جوامع کے درمیان ایسے موضوعات جو ذاتی طور پر علم اخلاق کے دائرہ میں داخل ہیں اُن کے سلسلہ میں موجود عقیدوں کے درمیان اختلاف، اخلاقی احکام میں نسبیت کی دلیل ہے۔ مثال کے طور پر، مسلمان نماز پڑھنے کو واجب اور سور کے گوشت کھانے کو حرام جانتے ہیں، جبکہ اس سلسلہ میں عیسائیوں کا عقیدہ دوسرا ہے۔ یا یہ کہ عیسائیوں کے درمیان چند بیویوں کا رکھنا حرام اور اخلاق کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے درمیان محدود طور پر مباح ہے اور اخلاق کے خلاف نہیں ما نا جاتا ہے۔

جواب:

کسی واقعیت اور حقیقت کی معرفت میں اختلاف یا ان کو پہچاننے کے ذریعوں، یا کسی بات کے صدق وکذب یا اخلاقی اچھائی یا برائی کے معیار کے سلسلہ میں نظریاتی اختلاف، واقعی امور کی نسبیت کی دلیل نہیں بن جاتا۔اس حقیقت کو قبول کرنے کے بعد کہ اخلاقی فضائل و رذائل جن کی جڑیں عالم عینی میں ہیں اور ان کی حقیقتیں ثابت اور انسان وجہان میں تکوینی اور وجودی آثار رکھتی ہیں ان کے سلسلہ میں نظریاتی اختلاف کا موجود ہونا، ثابت حقیقتوں کے بدلنے اور ان کے نسبی ہونے کا سبب نہیں بنتا اور نہ ہی وہ اخلاقی حقائق کی تغیّر کا نتیجہ ہوتا ہے، بلکہ ان کو پہچاننے میں بعض لوگوںکے خطا کرنے کی دلیل ہے۔جیسے وہ خطائیں جو مادی اور جسمانی حقیقتوں کو پہچاننیمیں انسان سے سر زد ہوتی ہیں۔ حقیقت میں جو کچھ اخلاقی احکام کے اسباب کے سلسلہ میں بیان ہوا، اس پر توجہ کرتے ہوئے دیکھا جائے تو اس طرح کے اختلافات یا انسان کی کمال مطلوب کے صحیح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں یا انسان کے فعل کے سلسلہ میں کافی دقت کے باوجود غلطی ہو جانے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ یعنی وہ عمل جو حقیقت میں اس مقصد کے خلاف ہے، اس کے مطابق مانا جاتا ہے اور اس کے بر خلاف بھی ہوتا ہے۔اس طرح اخلاق کے جاودانہ اصولوں کو عقلی اور عقلی طور پر بیان اور سوالوں کا جواب دینے کے بعد معلوم ہوا کہ جاودانہ اخلاق کے نظریے، ایسے نظریے ہیںجو قابل قبول اور شائستہ ہیں۔(٢)

____________________

١۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: اسلام و مقتضیات زمان ج: ٢، ص: ٢٤٨ تا٢٥٨ کی طرف ر جوع کیجئے۔٢۔ البتہ جاودانہ اخلاق کے دفاع کے لئے دوسرے راستوں کو بھی طے کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مشہور اخلاقی اصولوں کی جدا جدا تحقیق کی جائے تا کہ ان کا مطلق ہونا ثابت ہو جائے۔ (ر جوع کیجئے: استاد مطہری، مرتضیٰ، سیری د ر سیرئہ نبوی، ص: ٩١ تا ١١٦)۔

۲۸

تیسری فصل: اخلا قی عمل

عناوین

اس حصہ میں اُن بنیادی موضوعات پرگفتگوکی جائے گی جوفلسفہ اخلاق کی بحثوں میں اخلاق کے عنوان سے بیان کئے گئے ہیں یعنی ''اخلاقی اچھائی اوربرائی کا معیار ''۔ وہ بنیادی سوالات جن کے جوابات اس فصل میں دئے جائیں گے مندرجہ ذیل ہیں:

١ ۔ ایک عمل کس صورت میں علم اخلاق کی عدالت کے دائرہ میں قرار پاتا ہے ؟

٢ ۔ اخلاق اسلامی کی نظر میں کن عام شرطوں کے تحت ایک عمل اچھا یا برا مانا جاتا ہے؟

٣ ۔ اسلام کی نظر میں اخلاقی ذمہ داری کی عام شرطیں کیا ہیں؟

٤۔ اخلاقی فضائل ورذائل کے کلی معیار کی شناسائی کے بعد اچھے یابرے عمل کے مصداق کی پہچان کے لئے دین میں کن وسیلوں کو پہچنوایا گیا ہے ؟

٥ ۔ کیا دین میں اخلاقی اچھائی اور برائی کو پہچنوانے کے لئے مشخص مفاہیم اور کلمات موجود ہیں؟

٦ ۔کبھی عمل کے مقام پر ایک وقت یاموضوع میں دو اخلاقی حکم اس طرح جمع ہوجاتے ہیں کہ انسان دونوں کا پابند ہوتا ہے دونوں کی پیروی کی قدرت نہیں رکھتا۔کیا اسلامی اخلاق کے نظام میں ان موارد کے لئے کوئی راہ حل تلاش کیا گیا ہے اور کیا ایک اخلاقی حکم کو دوسرے پر ترجیح دینے کے لئے کوئی معیار بتایا گیاہے؟

ان تمام سوالوں کو ان چار محوروں میں خلاصہ کیا جا سکتاہے:

١لف ۔ اخلاقی عمل کے حدود اور ان کی کلی شرطیں۔

ب۔ اخلاقی ذمہ داری کی عمومی شرطیں۔

ج۔ اخلاقی اچھائیوں اور برائیوں کو پہچنوانے کے راستے اوروسیلے۔

د۔ اخلاقی تعارض اور تزاحم کا معیاراس بناپراس فصل کے مطالب چار عنوان میں ترتیب پاتے ہیں۔

۲۹

١لف ۔اخلاقی عمل کے قیمتی عناصر

اس بحث میں اخلاقی عمل سے مراد ''اچھا عمل'' ہے اسلامی اخلاق کے نظام میں، جہاں اخلاق کے لئے جزا وسزا کو ضروری مانا گیا ہے، اچھا عمل وہ عمل ہے جس کے ہمراہ اخروی بدلہ اور ثواب موجود ہو، خواہ اس کے ہمراہ دنیوی بدلہ ہو یا نہ ہو۔

اس بنا پراس بحث کا مقصد ایسی شرطوں کو بیان کرنا ہے کہ ایک عمل انجام دینے والا اُخروی ثواب اور جزا کو حاصل کر سکے۔

ایک مجموعی تقسیم بندی کے لحاظ سے ایک اچھے اور قیمتی اخلاقی عمل کے لئے اس کے ضروری عناصر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: فاعلی عناصر اور فعلی یاعینی عناصر۔ فاعلی عناصر سے مراد ایسے حالات ہیں جو ایک طرح سے فاعل کی طرف پلٹتے ہیں۔ فعلی یا عینی عناصر یعنی ایسے حالات جن کا فاعل کے ارادہ اور حالات سے آزاد ہو کر ایک واقعی اور عینی امر کے عنوان سے فعل میں موجود رہنا ضروری ہو۔ مجموعی طورپریہ دو طرح کے عناصر جو اخلاق کی اصلی فضیلتوں کی بنیادوں کوتعمیر کرتے ہیں، درج ذیل ہیں:(١)

١ ۔فاعلی عناصر

فاعل میں دو اساسی عنصر کی موجودگی لازم ہے تا کہ اس کے عمل فعل میں موجود دوسری شرطوں کے باوجود اخلاق کے اچھے اور قیمتی زیورسے آراستہ ہو۔ یہ دو عنصر جنھیں ''فاعل کی آزادی اور اس کے اختیار '' اور ''ایک خاص نیت اور مقصد کے وجود'' سے تعبیر کیا گیا ہے اس انسان میں فعل کے شروع ہونے سے تمام ہونے تک پائے جاتے ہیں۔

____________________

١۔ توجہ کرنی چاہئے کہ اخلاق اسلامی کی کلامی شرطیں جیسے مبدأ ومعاد ورسالت پر عقیدہ جو بعض عناصر کے محقق ہونے کے لئے مبنأاور ابتدائی شرطیں ہیں، یہاں ان کے سلسلہ میں بحث نہیں کی جائے گی۔ بلکہ علم اخلاق کے کلامی اصول کے عنوان سے ان کو مسلم جانا جاتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ کہ کلامی بحثوں اور اسلامی معارف کے درسوں میں ان پر تحقیق ہوئی ہے اور ان کو قبول کیا گیا ہے۔

۳۰

ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیار

جیسا کہ علم اخلاق کی تعریف سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاق انسان کے اُن اختیاری اعمال اوراس کی اُن قدرتوں اور صفتوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے جو اختیاری مبدا ٔکی حیثیت رکھتی ہیں اوروہ چیزیں جو اس کی آزادی اور اختیار سے باہر ہیں اصولی طور پر وہ اخلاقی تحسین وتقبیح اور فیصلہ کے دائرہ سے باہرہیں اوروہ اخلاقی حکم کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اوروہ اس کی مستحق بھی نہیں ہیں۔

انسان دو طرح کے افعال انجام دیتا ہے: ایک وہ افعال ہیں جو فطری اور اضطراری (بے اختیاری) طور پر انجام دئے جاتے ہیں اور دوسرے وہ افعال ہیں جواختیاری اور ارادی طور پر انجام دئے جاتے ہیں۔

فطری اور اضطراری افعال انسان کی طبیعت سے صادر ہوتے ہیں اور ان کے انجام میں علم وآگاہی کا دخل نہیں ہوتا ہے جیسے سانس لینا۔ انسان کے ارادی اور اختیاری افعال اس کے علم وآگاہی کے ذریعہ صادر ہوتے ہیں۔ یعنی انسان ابتدا میں اس عمل کو پہچانتا ہے اور اسے دوسرے تمام اعمال سے جدا کرتا ہے، پھر اسے نفس کے کمال کا مصداق سمجھتا ہے۔ اس کے بعد اسے انجام دینے کے لئے اقدام کرتا ہے۔(١)

البتہ جس طرح فلسفی اور کلامی بحثوں میں ثابت ہوچکا ہے اوراس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان ان کاموں کی نسبت جوعلم وارادہ سے انجام دیتا ہے، اختیار تکوینی رکھتا ہے۔ ہاں یہ جاننا چاہئے کہ آدمی کا اختیار مطلق نہیں ہوتاہے، کیونکہ اس کااختیار سلسلہ ٔ علل کے اجزاکاایک جز ہے۔ خارجی اسباب وعلل بھی اس کے اختیاری افعال کے محقق ہونے میں دخیل ہیں۔ مثلاً تغذیۂ انسان، اس کے ارادہ وخواہش کے علاوہ غذا کے خارج میں موجود ہونے اور اس تک دسترسی و کھانے کی قابلیت و صلاحیت اور قوۂ ہاضمہ کی سلامتی اور دسیوں بلکہ سیکڑوں ایسی علتیں ہیں جو اس کے اختیار سے باہر ہیں، ان علتوں کے سلسلہ میں خدا کی مرضی و ارادہ کی بھی ضرورت ہے، یہ ایسی حالت میں ہے کہ انسان کے ارادہ کی بقا بھی اس کی مرضی سے وابستہ ہے۔(٢) اس بنا پر انسان کے ارادہ کی آزادی، اس کے ارادی افعال کے دائرہ میں بھی محدود اور مشروط ہوتی ہے لیکن اس کے عمل کی نسبت اخلاقی تعریفیں اور مذمتیں اس کے اختیاری فعل کے دائرہ کے لحاظ سے محدود ہیں۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی ، المیزان، ج١، ص ١٠٦،١٠٧۔

٢۔ ایضاً، ج١٦، ص٦٧۔

۳۱

اختیاری اور ارادی فعل کے مقابلہ میں طبیعی اور جبری (غیر ارادی) فعل ہے، جبر واختیار کے الفاظ کا مختلف علوم کی اصطلاح میں مختلف طریقہ سے اور سماج کی عام بول چال میں اس کے بہت سے معانی میں استعمال ہونے کی بناپر لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے شبہے پیدا ہوتے ہیں۔یہاں مناسب ہے کہ جبر واختیار کے مختلف استعمالات اور ان کی اہم قسموں کو بیان کیا جائے۔

کلمۂ جبر مندرجہ ذیل مقامات پر استعمال ہوتاہے اورآزادی واختیارہر جگہ اس کے مقابل معنی رکھتا ہے:

١۔فلسفی جبر:

وہ اعمال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں لیکن ان کے وجود میں آنے کے لئے اس کاکچھ بھی دخل نہیں ہوتاہے۔جیسے آدمی کا سانس لینا، اس کی طبیعت کے مطابق ہے۔اس طرح کے جبر کے مقابلہ میں، فلسفی آزادی اور اختیار ہے۔

٢۔ اخلاقی جبر:

وہ اعمال جنھیں اخلاقی حکم وتقاضہ کے مطابق انسان انجام دیتا ہے یا ترک کرتا ہے جیسے یہ کہ انسان اخلاقی لحاظ مامور سے ہے کہ نماز پڑھے یا حرام ہے کہ وہ شراب پئے اس طرح کا جبر، اخلاقی آزادی واختیار کے مقابلہ میں ہے۔

٣۔ حقوقی جبر:

قانونی لحاظ سے انسان کے لئے ضروری ہو تاہے کہ اپنی اجتماعی زندگی میں کچھ مخصوص اعمال کو انجام دے یا کچھ خاص اعمال کو ترک کرے۔جیسے قانون کے مطابق ہم سب مجبور ہیں کہ اپنی آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس اور مال گذاری ادا کریں یادوسروں کی ملکیت اوران کی خصوصی زندگی کے حقوق کا احترام کریں۔ ان امورکی مخالفت کی صورت میں قانونی سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جبرکے اس مفہوم کے مقابلہ میں حقوقی آزادی اور اختیار ہے۔ علم حقوق میں جن ضروری اعمال کی مناسبت سے گفتگو ہوتی ہے وہ اسی زمرہ میں آتے ہیں۔

٤۔ نفسیاتی جبر:

کبھی ایساہوتاہے کہ انسان نفسیاتی وضعیت اور باطنی حالت سے متاثر ہوکر کچھ ایسے اعمال کو انجام دیتایاترک کرتاہے کہ وہ اس کے لئے ناگزیر ہوتاہے۔ جیسے کوئی انسان اپنی ماں کے انتقال کی وجہ سے غمگین ہوجاتاہے اوراس پر قلبی رقت طاری ہوجاتی ہے اوروہ اس حالت میں دوسرے کے ساتھ مہربانی کے ساتھ پیش آتا ہے یااپنی زوجہ کو تکلیف نہیں پہنچاتا ہے

۳۲

یا اپنی روزانہ کی مالا مال آمد کی کثرت سے مست ہوجاتا ہے، یا اپنے عزیزوں سے ملاقات کے شوق وولولہ کی خاطر ناگزیر ہوکر خودسے متعلق دوسروں کی بداعمالیوں کو معاف کردیتا ہے اور بذل وبخشش سے کام لیتاہے۔اس طرح کا جبر نفسیاتی آزادی اور اختیار کے مقابلہ میں ہے۔ علم نفسیات میں، جبر واختیار کا اس طرح سے معنی کرنا زیادہ رائج ہے۔

٥۔سماجی جبر:

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی اور سماجی حالات، آداب وتہذیب اس کی رسموں اور طور طریقوں کی وجہ سے انسان خود سے ایک خاص فعل کو ظاہر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور مجبوراً بعض اعمال کو ترک کردے۔ جیسے ہمارے سماج میں ایک بازاری دوکاندار پر یہ سماجی دبائو رہتا ہے کہ عاشور کے دن وہ اپنے کار وبار کو بند کردیتا ہے ، اگرچہ اس کی مرضی نہ بھی ہو۔ یا اجتماعی تحولات وتعمیرات کے موقع پر جو صنعتی ترقی کی بنا پر ہوتے ہیں، انسان مجبور ہے مٹرو سے اُترتے وقت تکلفات کونظر انداز کردے اور اس کے دروازوں کے بند ہونے سے پہلے مختصر وقت میں ہی اس سے باہر آجائے۔ سماجی آزادی اور اختیار، اس طرح کے جبر کے مقابلہ میں ہے۔ اجتماعی اور سماجی علوم میں جبر کا یہ مفہوم وسیع پیمانہ پر مستعمل ہے۔

کلمۂ جبر و اختیار کے مشہور طریقۂ استعمالات کی اجمالی شرح کے بعد اب ہم جبر واختیار کے نوعی مفہوم کو جو اخلاقی عمل کارکن ہے، آسانی سے جان اور سمجھ سکتے ہیں۔ کسی عمل کوجو چیزعلم اخلاق کی عدالت میں حاضر کرتی ہے وہ فلسفی مفہوم میں عمل کا اختیاراورآزادہونا ہے۔ فلسفی وتکوینی آزادی اور اختیار، اعتباری جبر جیسے حقوقی واخلاقی جبر سے مغایرت وبے گانگی نہیں رکھتا ہے اور اخلاقی یا حقوقی دستوروں کی موجودگی کسی خاص فعل سے متعلق انسان کی تکوینی آزادی اور اختیار کو سلب نہیں کرتی ہے۔ اُسی طرح جیسے اکراہ واجبار واضطرار، فاعل کی تکوینی آزادی اور اختیار سے ٹکرائو نہیں رکھتے ہیں۔(١)

اس طرح وہ چیزیں جو کبھی نفسیاتی یا سماجی جبر کے نام سے جانی جاتی ہیں، ہرگزتکوینی وفلسفی آزادی سے مغایرت نہیں رکھتی ہیں۔ ہاں، سبھی اخلاقی یاحقوقی اوامر ونواہی اور نفسانی اور سماجی عوامل کسی عمل کے انجام یا ترک سے متعلق، انسان کے عزم وارادہ کے پیدا ہونے میں اثرانداز ہوسکتے ہیں اوربہت سی جگہوں پر ایسا ہوتابھی ہے لیکن یہ دخالت وہیں سے گذرتی ہے جہاں انسان کی تکوینی آزادی اور ارادہ وجود میں آتاہے اور یہ کبھی انسان کو حقیقی لحاظ سے مجبور اور مسلوب الاختیار نہیں کرتی ہے۔

____________________

١۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی المیزان، ج١، ص١٠٧۔

۳۳

دو: فاعل کی نیت اورمقصد

بہت سے دوسرے اخلاقی مکاتب کے برخلاف، مکتب اخلاق اسلامی، اخلاقی عمل کوانجام دینے کے لئے فاعل کی نیت اور مقصد پر بہت زیادہ زور دیتاہے۔ اصولی طور پر فلسفی لحاظ سے ایک آزاد اور مختار فاعل کے ذریعہ صادر ہونے والا فعل ان چار علتوں (فاعلی، مادی، صوری، غائی) کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہاں نیت اور مقصد سے مراد وہی علت غائی ہے جو فاعل کو کسی عمل پر مجبور کرتی ہے۔ اس بنا پر اختیاری عمل کے محقق ہونے میں مقصد کے موجود ہونے کی اصل ضرورت ایک ایسی بات ہے جس سے انکار نہیں کیا سکتا۔ لیکن بات اصل یہ ہے کہ عمل کو انجام دیتے وقت فاعل کے کسی خاص مقصد کی موجودگی آیااخلاقی عمل کے قابل قدر ہونے کے لئے ایک لازم شرط ہے؟ بہت سے اخلاقی مکاتب نے اس سوال کا جواب منفی دیاہے(١) ، اسلامی اخلاقی مکتب کے نظریہ کے مطابق فاعل میں نیت ومقصد کا ہونا، اخلاقی اقدار کے لئے ایک ضروری شرط ہے۔

یہاں پر اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ مخصوص نیت اورمقصد کے تحقق کے لئے دواساسی رکن کی موجودگی ضروری ہے، پہلا: فاعل کسی فعل کو انجام دینے کے لئے ارادہ اور توجہ رکھتاہو، دوسرا: فعل کو انجام دینے سے اس کا مقصدفقط خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو جسے اخلاص کہا جاتا ہے۔ اس طرح اخلاقی عمل کا فاعلی عنصر یا اس کی شرط اُس صورت میں مخدوش ہوتی ہے جب فاعل کسی کام کو غفلت اورسہوکی وجہ سے انجام دے یاخوشنودی پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد رکھتا ہو۔ البتہ پہلے رکن کا فقدان ہمیشہ دوسرے رکن کے نہ ہونے کے برابر ماناجائے گا۔ لیکن دوسرارکن، پہلے رکن کے تابع نہیں ہے۔(٢)

اخلاق اسلامی کے فلسفہ میں کسی عمل کی اس وقت اخلاقی قدر وقیمت ہوتی ہے اور اس وقت نیک بدلہ اور اجر کا مستحق ہوتا ہے جب دوسری شرطوں کے محقق ہونے کے علاوہ فاعل کا مقصد خداکی مرضی حاصل کرنا ہو اورعمل کے انجام دینے کو کمال الٰہی اور اس کے جمال وجلال وصفات سے معنوی طور پر نزدیک ہونے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ قراردے۔ بس جب بھی کوئی مجنون یااحمق فاعل، پروردگار کی خوشنودی کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے کوئی کام انجام دے تو اس کا عمل اخلاقی قدر و قیمت طے کرنے کے لئے ضروری نصاب سے محروم رہے گا۔

____________________

١۔ کانٹ کانظریہ یہ نہیں ہے وہ معتقد ہے کہ اخلاقی عمل کو انجام دینے کے لئے انجام فریضہ کے لئے ضروری مصداق ہونا چاہئے اس کے علاوہ انجام فریضہ کی نیت بھی اخلاقی عمل کے لئے شرط ہے۔ ر۔ک: ایمانوئل کانٹ: بنیاد مابعد الطبیعة اخلاق ترجمۂ (فارسی) حمید عنایت وعلی قیصری، ص٢٣،٢٤۔

٢۔رجوع کیجئے مطہری، مرتضیٰ، تعلیم وتربیت در اسلام(اسلام میں تعلیم وتربیت) ص١٩٥۔١٩٦۔

۳۴

اس کے علاوہ فاعل کا مقصد یگانہ اورخالص ہونا چاہئے۔ یعنی فاعل کی نیت بہترین مقصدکے تحت اور خالص ہو۔ کبھی اس شرط کوضرورت کے تحت حسن فاعلی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہ حسن فعلی کے مقابلہ میں ہے جوآگے بیان ہو گا۔

اخلاقی عمل کی قدروقیمت کو طے کرنے میںنیت کی اہمیت اور اس کی تاثیر کو عقل وفلسفہ کی نظرسے اوراسلام کی مقدس کتابوں کی زبان سے بھی بیان کیاجاسکتا ہے:

١۔مقصدکی عقلی اہمیت:

فلسفۂ اخلاق اسلامی کی نظرمیں انسان کا سب سے بلند و جودی مرتبہ اس کا روحانی مرتبہ ہے۔اس مرتبہ میں انسان کا حقیقی کمال خدا کے صفات کمالیہ زیادہ سے زیادہ معنوی تقرب حاصل کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کا سب سے بلند روحی مرتبہ اس چیز میں ہے کہ روح جو انسان کا جوہر ہے، الہی اسماء وصفات جمال وجلال کی جلوہ گاہ بن چائے۔ یہ چیز علم اخلاق کے کلامی شرائط اوراس کے مقصد ورسالت سے مربوط ہے۔ یہ عظیم کام اس صورت میں ممکن ہے جب انسان اپنے اختیاری عمل میں، جو روح کی ترقی وتنز لی میں وجودی تاثیر رکھتا ہے، خدا وند متعا ل سے نزدیک ہو نے کے لئے مقصداور نیت کے ساتھ حرکت کرے۔ نیت اور اخلاقی قدروں کے درمیان یہ تاثیر اور رابطہ ایک تکوینی اور حقیقی رابطہ ہے نہ کہ جعلی اور قرارداری۔

٢۔وحی کے مطابق مقصدکی اہمیت: اسلام کی مقدس کتابوں میں، خواہ وہ قرآن سے مربوط ہویا سنت سے اخلاقی عمل کے لئے خدائی مقصد کے موجود رہنے کی ضرورت پرواضح طریقہ سے تاکید کی گئی ہے۔ان کی چند مشہور مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

''یہ غنائم یا بلند درجہ اُن فقیرمہا جرین کے لئے ہے جن کو اپنے وطن اور مال سے محروم کردیا گیا۔ جبکہ وہ خوشنودی خدااور فضل الہی حاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے امورمیں مدد کرتے ہیں۔ یہ سچے اور حقیقت پسند لوگ ہیں۔''(١)

''وہ لوگ خداسے دوستی کی بناپرمسکین ویتیم واسیرکو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ) ہم خوشنودی خداکے لئے کھانا کھلاتے ہیں اورتم سے کوئی بدلہ اورشکریہ نہیں چاہتے ہیں۔''(٢)

____________________

١۔ سورۂ حشرآیت ٨۔

٢۔ سورۂ انسان۔آیت ٨و٩۔

۳۵

''اور جن لوگوں نے اپنے خداکی خوشنودی کے لئے صبروشکیبائی سے کام لیا اور نمازکو قائم کیا اور ہم نے اُن کو جو روزی دی ہے اس میں سے پوشیدہ وآشکارطریقہ سے انفاق کیا اور بدی کو نیکی کے ذریعہ دفع کرتے ہیں آخرت کا گھر اِنھیں کے لئے ہے ''۔(١)

یہ بات واضح ہے کہ الٰہی مقصد پر قرآن کی یہ تاکید صرف مذکورہ موارد اور مقامات سے مخصوص نہیں ہے، اور مخصوص اعمال کا ذکر بعنوان مثال اورشاید الٰہی مقصد کی حفاظت میں انسان کے ذریعہ ہونے والی لغزشوں کے سب سے مشہور اور بنیادی مقامات کے ذکر کے عنوان سے ہے۔

پیغمبر اکرم سے یہ نقل ہواہے کہ فرمایا:

''بیشک اعمال کی اہمیت انہیں انجام دینے کی نیت پر منحصر ہے اورانسان کے لئے وہی چیزیں رہیں گی جن کی نیت کی ہے(٢) ، مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے''(٣)

نیت کے مراتب:

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حتیٰ وہ افراد جو خدا کے وجود کو قبول کرتے ہیںاور قیامت اور پیغمبروں کی بعثت پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی اپنے اعمال کو ثواب حاصل کرنے وبہشت میں جانے، اس کی لازوال نعمتوں سے بہرہ مندہونے اور دوزخ وجہنم کے کیفر اور سزائوں سے نجات کی غرض سے انجام دیتے ہیں، نہ کہ خداکی مرضی حاصل کرنے کے لئے۔مقدس اسلامی کتابیں خاص طور سے قرآن بہشت کی زیبائیوں اور خصوصیتوں سے نیز اخروی سزائوں کی شدت اور ان کے قطعی ہونے سے خبردار وہوشیا رکرکے ایک طرح سے کیفر سے ڈرنے اورجزاو ثواب کی امید کی نیت سے عمل کرنے کو صحیح مانتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس طرح کے اخلاقی اعمال کی قبولیت بیان شدہ اخلاقی عمل کی قیمتی شرطوں سے سازگار ہے؟ اس بنیادپرکہ فاعل کو اپنے عمل میں فقط خداکی مرضی کا حصول مدّنظر رکھنا چاہئے۔

____________________

١۔ سورۂ رعد، آیت ٢٢، اسی طرح سورۂ مائدہ آیت نمبر١٥۔١٦، سورۂ بقرہ آیت ٢٠٧، ٢٢٥، ٢٦٤، ٢٧٢، ٢٨٤، سورۂ ممتحنہ آیت نمبر١، سورۂ نساء آیت نمبر٣٨، سورۂ روم آیت ٣٨۔٣٩ کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج٧٠، ص٢١٢، ح٣٨۔

٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٨٤۔

۳۶

اس سوال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ خدا کی مرضی کے متعدد مراتب ہیں اور انسان انہیں حاصل کرنے کے لئے مختلف طریقہ اختیار کرتاہے۔کبھی خدا کی مرضی کواس وجہ سے اختیار کرتا ہے کہ وہ اخروی بدلہ وثواب کا باعث یا قیامت کے دن کیفر وسزا سے نجات کا ذریعہ وسبب ہے لہٰذا وہ اخلاقی عمل کے انجام میں انسان کے لئے توجہ کا مرکزقرار پاتی ہے اور کبھی صرف خدا کی مرضی کو حاصل کرنا صرف مقصد کے تحریک کرنے اور آگے بڑھانے کے لئے ہوتاہے(١) یعنی خدا کے نزدیک عمل کی محبوبیت ہے جوعمل کی انجام دہی میں انسان کی اس سے محبت اور اس کی طرف مائل ہونے کا سبب بنتی ہے لہٰذا خدا کے نزدیک بھی فاعل کی محبوبیت وجود میں آئے گی اورخدا اس سے محبت کرے گا۔ البتہ اس طرح کے اخلاقی عمل کی انجام دہی، خدا کے صرف خاص بندوں کے ذریعہ ہی میسر ہے۔

اس بناپر پہلی صورت میں بھی فاعل کا مقصد، خدا کی مرضی کا حصول ہے اس وجہ سے کہ وہ بدلہ دینے کا باعث اور کیفر وسزا سے بچنے کا سبب ہے۔

مقصد اور ایمان کارشتہ:

یہ بات ذکر ہوچکی ہے کہ اسلام کے اخلاقی نظام میں، اخلاقی عمل اس وقت اہمیت اورقیمت رکھتا ہے جب فاعل اسے انجام دینے میں معبود کی مرضی کاسودا کرے۔ چاہے خدا کی مرضی ذاتی طور پر مطلوب ہو اور چاہے پروردگار کی خوشنودی اس وجہ سے کہ وہ ثواب کا باعث اور عذاب سے بچنے کاسبب ہے، اس وجہ سے اسے اپنا مقصد قرار دیدے۔ (دونوں صورتوں میں اہمیت رکھتا ہے) عقلی طور پر اس امر کا محقق ہونااس صورت میں ممکن ہے جب فاعل خدا کے وجود روز قیامت اور جزا و سزا کی حقّانیت، انبیاء کی بعثت اور ان کی تعلیمات پر یقین اور عقیدہ رکھتا ہو۔ البتہ خدا پر ایمان رکھنے میں، معاد ونبوت سے متعلق ایمان بھی اس کے شامل حال ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہماری دینی کتابوں میں ایمان پر اخلاقی قدروں کے لئے ضروری شرط کے عنوان سے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے کچھ نمونے مندرجہ ذیل ہیں:

''عورت اورمرد میں سے جوکوئی نیک اور شائستہ کام انجام دے اورمؤمن ہو، قطعی طور پر ہم اسے ایسی زندگی عطا کریں گے جو حیات طیبہ اور پاکیزہ ہے اور مسلّم طور پر جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس سے بہتر ان کے کئے ہوئے کا بدلہ دیں گے''۔(٢)

____________________

١۔رجوع کیجئے مصبا ح یزدی، محمد نقی، اخلاق درقرآن، ص٩٦۔

٢۔ سورۂ نحل، آیت٩٧۔

۳۷

''نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ اپنے چہرہ کو مشرق ومغرب کی طرف کرلیں بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی خدا، قیامت، فرشتوں، آسمانی کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور(١)

''خدا کے پیغمبر اُن چیزوں پرجو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہیں ایمان لائے ہیں اور مؤمنین بھی سب خدا، فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں میں کسی کے سلسلہ میں فرق نہیں کرتے ہیں اور وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اے پروردگار! ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور ہم تیری طرف پلٹ کے آنے والے ہیں''۔(٢)

ایمان کی حقیقت اور علم کے درمیان کے متعلق ایک طرف اوردوسری طرف اس کے اور اسلام کے درمیان فرق کے بارے میں یہ کہا جاچکا ہے کہ ایمان ایک قلبی بات ہے، اسی کے ساتھ اختیاری بھی ہے۔ جبکہ علم وعقیدہ انسان کے لئے ممکن ہے غیراختیاری صورت میں بھی حاصل ہوجائے، اس لئے علم اورایمان کے درمیان وجودی حقیقت کے لحاظ سے کوئی ملازمہ اور اُن میں وابستگی ضروری نہیں ہے۔ یعنی ممکن ہے کوئی انسان کسی حقیقت کے سلسلہ میں عالم ہو لیکن اسی سلسلہ میں کفر کا اظہار کرے''(٣)

قرآن کریم ایمان سے علم کے جداہونے کے بارے میں فرماتاہے:

''اس کے باوجود کہ ان کے دل اس کے سلسلہ میں یقین کرچکے تھے، لیکن ظلم وزیادتی اورتکبر کی بناپر اس سے انکار کردیا۔ بس دیکھ لو فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوتاہے''(٤)

البتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ایمان کا عام راستہ علم سے ہوکر گذرتا ہے۔ لیکن علم انفرادی طور پر ایمان کے محقق ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔

____________________

١۔ سورۂ بقرہ، آیت١٧٧۔

٢۔ سورۂ بقرہ، آیت ٢٨٥۔

٣۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی ، المیزان، ج١٨، ص٢٥٩۔

٤۔ سورۂ نحل، آیت ١٤۔

۳۸

ایمان اور اسلام کے فرق کے بارے میں قرآن کی آیۂ شریفہ اس طرح بیان کرتی ہے:

اِنّ الْمُسلمینَ والمسلمات والمؤمنین والمؤمنات (١)

اوراسی طرح دوسری آیتیں بھی(٢) اسلام کو ایمان کے مقابلہ میں قراردیتی ہیں۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اسلام دین کے سامنے عملی طور پر تسلیم ہوجانے کے معنی میں ہے اور تسلیم عملی بدن کے ظاہری اعضاء وجوارح کے ذریعہ محقق ہوتی ہے۔ لیکن ایمان ایک قلبی، اعتقادی اور باطنی چیز ہے اور یہ چیز اس طرح ہے کہ اس کے آثار بدنی اور ظاہری اعمال میںبھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس بناپر ہر مؤمن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مؤمن نہیں ہے(٣) جیسے منافق، جودین کے دستور وں پر عمل کرتاہے لیکن ایمان نہیں رکھتا۔

ایمان اورعمل کا رشتہ :

قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو قیمتی، موجب سعادت اور صالح عمل کے ساتھ شمارکیاگیا ہے۔ اُن میں سے اس مثال کو ملاخطہ فرمائیے:

''جولوگ ایمان لائے ہیں اورعمل صالح انجام دیتے ہیں ہم ان کو بہت جلدان باغ ہائے جنت میں داخل کریں گے جن کے درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہو نگی اوروہ ہمیشہ اس میں زندگی گزاریں گے .....۔''(٤)

بعض دوسری آیتوں میں صرف ایمان کو انسان کی سعاتمند ی اورکامیابی اوربہشت میں داخل ہو نے کے لئے ایک شرط کے طورپرپیش کیا گیا ہے۔

''خدا نے مومنین ومومنات سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جہاں درختوں کے نیچے نہریں جاری ہو ں گی اور وہ اُن میں سے ہمیشہ زندگی گزاریں گے، ان جنّات عدنٍ میں پاکیزہ جگہ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے اور خدا کی خوشنودی سب چیزوں سے بڑی ہے اوریہ سب سے بڑی کا میا بی ہے۔''(٥)

____________________

١۔ سورۂ احزاب ۔آیت: ٣٥۔

٢۔ جیسے سورۂ حجرات کی چودہویں اور پندرہویں آیت۔

٣۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی المیزان، ج١٦، ص٣١٣۔٣١٤۔

٤۔ سورۂ نساء آیت٥٧، ١٢٢، اورسورۂ بقرہ کی آیت ١٠٣، سورۂ نساء کی آیت١٢٤، اورسورۂ کہف کی آیت٣٠ کی طرف رجوع کیاجائے۔

٥۔ سورۂ توبہ، آیت٧٢۔

۳۹

اس آیت میں واضح طریقہ سے خدا کی بڑی نعمتوں مثلاً ایمان کے ساتھ اس کی مرضی کی بشارت دی گئی ہے اور اس کے ساتھ کسی عمل کے موجود ہونے اور اس کی ضرورت پرکوئی گفتگونہیں کی گئی ہے۔ کیا اس طرح کی آیتیں، گزری ہوئی یاآگے آنے والی آیتوں سے، اس بناپر کہ اخلاقی قدروں کے محقق ہونے کے لئے عمل صالح کا موجود ہونا ضروری ہے، اختلاف نہیں رکھتیں؟ کیا اسلام کے اخلاقی نظام میں صرف ایمان، اخلاقی قدروں اور تعریف وجزا کے مستحق ہونے کا سبب بن سکتاہے؟ اس سوال کا جواب دینے اور ان دو طرح کی آیتوں کے مفہوم کے درمیان مناسب رابطہ برقرار کرنے کے لئے یہ کہاگیاہے:

'' ایمان کی حقیقت اور اسلام وعمل سے اس کی نسبت کے بارے میں جوکچھ بیان ہواہے اس پر توجہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ آیتیں جو ایمان کے ساتھ عمل کا ذکر کرتی ہیں، وہ عام حالات پر نظر رکھتی ہیں، یعنی ان لوگوں سے مربوط ہیں جن کے لئے کام کرنے کی شرطیں جیسے قدرت، فرصت وغیرہ فراہم ہیں اور وہ ان حالات میں عمل کرتے ہیں اور وہ آیتیں جو صرف ایمان کو ہی کامیابی کا سبب قرار دیتی ہیں، ان حالات سے مربوط ہیں جن میں انسان ایمان لاتاہے لیکن عمل کو انجام دینے کے لئے حالات جیسے قدرت، فرصت وغیرہ اس کے لئے فراہم نہیں ہیں۔ ''(١)

کافروں کے نیک اعمال:

آخری سوال جو مقصداور نیت کے بارے میں جواب کا مستحق ہے یہ ہے: جو کافرین اور غیر مؤمن افراد مبدأ، معاد اور نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں لہٰذا اپنے اعمال کی انجام دہی میں (اگر چہ ذاتی طور پر وہ عمل پسندیدہ ہیں) خداکی مرضی حاصل کرنے کی نیت نہیں رکھتے ہیں، کیا وہ لوگ اسلام کے اخلاقی اصول کی رو سے کسی طرح کی تعریف اور جزا کے مستحق نہیں ہیں؟ کیا ان کے نیک اعمال کی کوئی اہمیت وقیمت نہیں ہے اور کیاپروردگار کی جانب سے انہیں بدلہ نہیں ملے گا؟

اس سوال کے جواب میں یہ کہا گیاہے:

''وہ اعمال جو مذکورہ خصوصیت نہیں رکھتے ہیں لیکن شارع کے معین کردہ طریقوں کے مخالف بھی نہیں ہیں اور

____________________

١ ۔ر۔ک مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق درقرآن، ص١١٢،١١٣۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296