اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177982 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

حضرت علی ـ ایمان کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''کچھ ایمان دل کے اندر ثابت ہوتے ہیں اور کچھ، دل اور سینہ کے درمیان، مرتے وقت تک بطور عاریت اور ناپائدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے بیزار ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اس کی موت آجائے۔ اس وقت میں اس سے بیزار ہونا بر محل ہوگا۔(١)

ثانیاً:

ایمان کی حقیقت کے مراتب اور درجات ہیں اور اس میں نقصان اورکمی کا بھی امکان ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نے اس حقیقت پر تاکید کرنے کے علاوہ ایمان کو زیادہ کرنے یا اس کے کم ہونے کے اسباب کو بھی کثرت سے بیان کیا ہے، منجملہ ان کے قرآن کریم میں آیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیں جن کے دل اس وقت ڈرنے اور لرزنے لگتے ہیں جب خدا کا ذکر ہوتا ہے اور جب اُن پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تواُن کاایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـنے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا: ''اے عبدالعزیز! حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں سیڑھی کی طرح کہ اسے زینہ بہ زینہ طے کرنا چاہئے اور بلندی پر پہنچنا چاہئے۔ لہٰذا جس کا ایمان دوسرے درجہ پر ہے اسے پہلے درجہ والے مومن سے نہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے پاس ایمان نہیں ہے اور اسی طرح تیسرے درجہ والا دوسرے درجہ والے کو یہاں تک کہ دسویں درجہ والے تک کو بھی یہی چاہئے کہ ایسا نہ کہے اور جس کا ایمان تم سے کم ہے اسے ایمان سے جدا (بغیر ایمان کے) نہ سمجھو اگر ایسا ہواتو جس کا ایمان تم سے بڑھ کر ہوگا اسے چاہئے کہ وہ تم کو ایمان سے جدا سمجھے۔ بلکہ اگر کسی کو اپنے سے کم دیکھو تو تمہیں چاہئے کہ اسے مہر ومحبت کے ساتھ اپنے درجہ تک لے آئو اور جو کچھ اس سے ممکن نہ ہو اسے اس پر بار نہ کرو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور حق کی قسم اگر کوئی کسی مومن کی دل شکنی کر ے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا جبران کرے اور اس کی دلجوئی کرے۔(٣) شیخ صدوق کتاب خصال میں اس روایت کے تما م ہونے پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقداد ایمان کے آٹھویں درجہ پر، ابوذر نویں درجہ پر اور سلمان دسویں درجہ پر فائز تھے۔ البتہ اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ اس روایت میں ایمان کے دس درجہ کو معین کرنا صرف دس مرتبہ تک منحصر کردینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف ایمان کے درجات کی کثرت کو بیان کرنا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری روایتوںمیں ایمان کے لئے کمتر یا بیشتر درجات بھی بیان کئے گئے ہیں۔(۴)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خ١٨٩ چاپ انصاریان ص: ٣٦٨۔٢۔ سورۂ انفال آیت٢ ۔ سورۂ توبہ آیت ١٢٤۔ مدثر٣١، آل عمران ١٧١تا١٧٣۔ احزاب ٢٢کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ کلینی: کافی، ج: ٢ص٤٥، ح٢؛ صدوق، خصال، ص٤٤٧، ح٤٨۔۴۔ رجوع کیجئے: صدوق: خصال، ص٣٥٢، ح٣١، کلینی: کافی، ج٢، ص٤٢، ح١، جن میں ایمان کے لئے سات درجہ بیان کئے گئے ہیں۔ تفسیر عیاشی، ج١، ص٢٠٥، ح١٠٥، درجات کو زمین وآسمان کے درمیان کے فاصلہ سے بیان کیا ہے۔

۶۱

٤ ۔ ایمان کے متعلقات

اسلام کے اخلاقی نظام میں، ایمان کس چیز کے ذریعہ سے ہدایت، اخلاقی فضائل کی آراستگی اور معنوی رفتار کا سبب بنتا ہے ؟ قرآن کریم اورمعصومین (ع) کی سیرت میں ایمان کے اصلی ترین متعلقات کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ عالم غیب پر ایمان :

قرآن کریم نے غیب اورغیبی طاقتوں یعنی ملائکہ (وغیرہ) پر ایمان کو کتاب الٰہی سے بہرہ مند ہونے اور ہدایت پانے کی شرطوں میں سے شمار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہورہاہے:

''یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شک نہیں اور یہ ان متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں .....''(۱)

عالم غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جنہیں ظاہری حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلی سیر اور باطنی شہود کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکتی ہے، اصولی طور پر ایمان سے مشرف ہونے اور کفر والحاد دومادہ پرستی کی غلاظت و گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے غیب اور غیبی حقیقتوں، قوتوں اورامدادوںپر اعتقاد رکھنا ایک شرط ہے۔(۲)

صرف اسی شرط کے تحت حصول کے ذریعہ کتاب ہدایت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے نور کے پرتو میں کامیابی کی منزلوں کو طے کیا جاسکتا ہے۔

____________________

۱۔ سورۂ بقرہ، آیت٢۔

۲۔ سورۂ بقرہ، آیت: ١٧٧ ، ٢٨٥۔

۶۲

دو۔ خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان:

قرآن کریم متعدد آیتوں میں خدا وند متعال پر ایمان کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے: ''بس خدا اور اس کے پیغمبر اور اس نور پرجسے ہم نے نازل کیا ہے ایمان لائو اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔،،(١)

رسول خدا نے ایمان کی علامتوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:

'' ایمان کی نشانیاں چار ہیں: خدا کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کی کتاب پر ایمان اور خدا کے پیغمبروں پر ایمان۔، ،(٢)

تین۔ قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان:

قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان اخلاق اسلامی کی افادیت اور اس کے اجرا ہونے کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم نے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قیامت اور اس کی کیفیت پر کی ہے۔ جیسے قبر میں ہونے والے سوالات، عذاب قبر، قیامت کا دن اور قیامت کا حساب و کتاب، اعمال کو پرکھنے کے لئے میزان کا وجود، پل صراط سے عبور اور جنت و جہنم پر اعتقاد و ایمان۔ ذیل میں بعض آیتوں اور روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:

'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو لوگ یہودی ، صائبی اور عیسائی ہیں ان میں جو خدا و قیامت پر واقعاً ایمان لائے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔(٣)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

'' ایمان یہ ہے کہ انسان دین حق کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعضاء بدن سے اس کے فرائض کو انجام دے اور عذاب قبر، منکر و نکیر، موت کے بعد زندہ ہونے، حساب و کتاب، صراط اور میزان کو قبول کرے اور اگر خدا کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو تو ایمان موجو د نہیں ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ تغابن، آیت: ٨۔ اسی طرح سورئہ اخلاص آیت: ١، سورئہ بقرہ، آیات ١٣٦ ، ٢٨٥۔ سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤۔ سورئہ مائدہ، آیات ٦٩، ١١١۔ سورئہ نساء آیت: ١٣٦، ١٦٢۔ سورئہ انعام، آیت: ٩٢۔ سورئہ شوریٰ، آیت: ١٥ کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص: ١٩۔

٣۔ سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ اسی طرح سورئہ بقرہ، آیت: ٤، کی طرف رجوع کیجئے۔

٤۔ صدوق: خصال، ص: ٦٠٩ ، ح٩۔

۶۳

دوسری حدیث میں پیغمبر خدا کی فرمائش کے مطابق جنت وجہنم پر ایمان بھی معاد کے دو اہم رکن ہیں۔(١)

اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں معاد اور اس کے اساسی ارکان پر ایمان، رہنمائی کرنے والے دو اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چار۔ انبیاء (ع) کی رسالت اور آسمانی کتابوں پر ایمان:

دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے اور دین بالخصوص اخلاق اسلامی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے انسان کا یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنے صحیح کمال اور سعادت کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لئے مناسب وسیلوں اور طریقوں کو انتخاب کرنے میں عاجز اور قاصر ہے، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ قطعی طور پر جسے بھی اس حقیقت میں شک ہے وہ انبیاء کی رسالت اور ان کی دعوت کے مطالب پر ایمان و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا اور اسی کے ساتھ اعتماد اور اطمینان کے بغیر کسی کی خیر خواہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔

اس وجہ سے اخلاق اسلامی میں رسولوں کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سبھی انبیاء صرف ایک رسالت اور ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے تھے لہٰذا ان تمام انبیاء پر ایمان رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''خدا کے پیغمبر اُن کے پرور دگارکی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا اور فرشتے اور کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کریں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے پرورد گار! ہم تیری بخشش کے محتاج ہیں اور ہم کو تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے، ،۔(٢)

پانچ۔ امامت اور ائمہ (ع) پر ایمان:

شیعوں کے اصول عقائد کے مطابق امامت پر ایمان رکھنا اخلاق اسلامی کی بنیادوں اور کامیابی کی شرطوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ حدیثی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں۔

____________________

١۔رجوع کیجئے: بیہقی: شعب الایمان، ج: ١، ص: ٢٥٧، ح: ٢٧٨۔

٢۔ سورئہ بقرہ، آیت: ٢٨٥، ١٣٦۔ اور اسی طرح سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤ کی طرف رجوع کیجئے۔

۶۴

ان روایتوں کے علاوہ یہ بات قرآن کے ذریعہ اور اس کی تفسیر کے سلسلہ میں مسلّم الثّبوت تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے:

الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِسْلاَمَ دِینًا (١)

''آج کفّار تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیںلہٰذا ان سے خوف نہ کھاؤ۔ اور مجھ سے خوف کھاؤ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے ۔ ''

اس آیت کے سلسلہ میں دو سوال قابل غور ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ خاص دن کون سا دن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ واقعہ جو اس دن رونما ہوا اور اکمال دین اور بندوں پر خدا کی نعمت کے تمام ہونے کا سبب بنا، کیا تھا؟ نا قابل انکار تاریخی شواہد اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک وہ ١٨ ذی الحجہ ١٠ ہجری کا دن تھا اور وہ واقعہ اس دن غدیر میں پیش آیا وہ پیغمبر کی طرف سے حضرت علی ـ کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کر نا اور سلسلۂ امامت کا شروع ہونا تھا۔(٢)

ہم انبیاء (ع) کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان کی ضرورت کو اصطلاح میں دین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی روشنی میں امامت کا سلسلہ دین کی تکمیل کے لئے ہے اور اس کے بغیر دین ناقص رہے گا لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں امامت پر ایمان بھی ایک لازمی بات ہے اور اخلاق اسلامی کے مستحکم اور مضبوط پایوں میں شمار ہوتا ہے۔

٥۔ایمان کی شرط

قرآن و راویات کے مطابق نیک عمل کا انجام دینا ایمان کی بہترین شرط ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو نیک عمل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اکثر آیتوں میں ایمان کے بعد بلا فاصلہ پسندیدہ اور صالح عمل کی گفتگو ہوئی ہے۔اگر چہ نیک عمل ایمان کے بنیادی عناصر میں سے نہیں ہے لیکن نیک عمل کے بغیر ایمان سے مطلوب اور مناسب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس بنا پر شائستہ اور نیک عمل کو ایمان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے شرط کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔

____________________

١۔سورہ ٔ، مائدہ، آیت: ٣۔

٢۔ مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی کتاب '' الغدیر، ، کی طرف رجوع کریں۔

۶۵

قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے:

'' اور جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کو انجام دے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور ہم بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہیں گے''(١) قرآن مجیدنے نیک عمل کے بغیر، مومن ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے:

''اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے پیغمبر پر ایما ن لائے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض لوگ منھ پھیر لیتے ہیں اور وہ لوگ واقعاً مومن نہیں ہیں۔، ،(٢) حضرت علی ـنے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:

'' جو خدا کے احکام پر عمل کرتا ہے فقط وہی مومن ہے۔، ،(٣) اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں خدا کے احکام کی پابندی کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا جھوٹ اور فریب ہے مگر یہ کہ مومن شخص عمل کرنے کی قدرت اور موقع نہ رکھتا ہو۔

٦۔ ایمان کے اسباب

دینی کتابوں میں ایمان کے وجود میں آنے، اور اس کے ثبات و کمال کے لئے مختلف عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض معرفت وشناخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم، عقل اور دین میں غور و فکر کرنا۔یہ سب ایمان کے نظری مقدمات کو فراہم کرتے ہیں اور وہ عوامل علم کلام میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے عوامل ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے نفسیانی صفت اور ملکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے تقویٰ، راہ خدا میں دوستی اور دشمنی، صبر، توکل، رضا وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں جو انسان کے عمل سے مربوط ہیں۔ جیسے انفاق، نماز کے لئے اہتمام کرنا، دوسروں کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ۔

خاص نظری معارف جیسے دین میں غور وفکر، انسان کی مختلف نفسیانی صفتیں اور اعمال، ایمان کی آفرینش اور اس کے ثبات و کمال میں مؤثر ہوسکتے ہیں اور یہ بات اس حقیقت سے نہیں ٹکراتی ہے کہ ایمان اپنے لحاظ سے عمل صالح کی انجام دہی کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور بہت سے نفسانی ملکات اور صفات کے وجود میں لانے کا موجب قرار پاتا ہے اور یہاں تک کہ انسان میں بعض نظری معارف کی پیدائش کے لئے باعث بنتا ہے۔ کیونکہ انسانی وجود کے تینوں شعبوں کے درمیان آپس میں تثیر اور تثر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایمان ایک واضح نفسانی حالت کی حیثیت سے دوسرے شعبوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے تثیر بھی قبول کرتا ہے۔

____________________

١۔ سورئہ کہف، آیت: ٨٨۔ اسی طرح سورئہ طہٰ، آیت: ٨٢۔ سورئہ فرقان، آیت: ٧٠۔ سورئہ قصص، آیت: ٦٧۔ سورئہ انفال، آیت: ٣ ،٤۔ سورئہ نسائ، آیت: ٦٥۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧ کی طرف رجوع کریں۔ ٢۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج: ٢، ص: ٣٨ ،ح: ٤۔

۶۶

٧۔ایمان کے فوائد

یہ آثار اور فوائدایمان کے اسباب اور موجبات کی طرح علمی ماہیت بھی رکھتے ہیں۔ اور نفسانی حالات بھی اور بعض اعمال و عادات سے بھی متعلق ہیں۔ یہاں ان میں سے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

ایک۔ روحی تسکین:

انسان کے لئے اہم لذتوں میں سے ایک نفسانی تسکین اور اس کا آرام پانا ہے۔ بنی آدم کے لئے پریشانی اور اضطراب، سب سے بڑی تکلیف اور بہت سی گمراہیوں اور نا کامیوں کاسبب ہے۔ انسانی کوششیں اس جانکاہ درد سے نجات پانے کے لئے اس بارے میں تلخ تجربہ کی نشاندہی کررہی ہیں۔ خداوند متعال کی نظر میں انسان کو ایمان کے سایہ میں آرام و سکون میسّر ہوگا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

''وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب کو سکون دیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ( ایمان کا ) اضافہ کریں، ،۔(١)

''باخبر رہو کہ خدا کے دوستوں کے لئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور پرہیز گاری سے کام لیتے ہیں۔(٢)

خدا نے اس سے زیادہ واضح انداز میں قلبی سکون واطمینان کو اپنے ذکر اور یاد کے ذریعہ قابل تحصیل بتایا ہے اور اس سلسلہ میں وہ فرماتا ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے قلوب یاد خدا سے سکون حاصل کرتے ہیں آگاہ رہو کہ یاد خدا سے ہی دلوں کو آرام ملتا ہے۔، ،(٣)

____________________

١۔ سورئہ فتح، آیت: ٤۔

٢۔سورئہ یونس، آیت: ٦٢ ،٦٣۔ اور اسی طرح سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ سورئہ رعد، آیت: ٢٨۔

۶۷

دو۔ بصیرت:

قرآن کی نظر میںایمان، حق وباطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے انسان کو بصیرت اور سمجھداری عطا کرتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہورہا ہے: '' اے ایمان لانے والو! اگر خوف خدا رکھو گے تو خدا تم کو (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کی قدرت وقوت عطا کرے گا۔، ،(١) دوسری طرف ایمان نہ رکھنے والوں کو نابینا قرار دیتا ہے:

'' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کرداروں اور کارناموں کو ان کی نظر میں خوبصورت اور آراستہ بنا دیا ہے تا کہ وہ اسی طرح گمراہ وسرگرداں رہیں۔، ،(٢) ان دو آیتوں کا مقایسہ کر نے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ایمان اور تقویٰ ایک طرف خود خواہی اور خود پسندی کو ختم کرنے کا سبب ہے تو دوسری طرف خدائی نور اور الٰہی ہدایت سے متصل ہونے کی وجہ سے بصیرت اور سمجھداری عطا کرتے ہیں۔(٣)

تین۔ خدا پر بھروسہ:

خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنا کامیاب اور مفید زندگی کے ارکان میں سے ایک نادر اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس حالت کے ذریعہ انسان کی بہت سی الجھنیں اپنا بستر لپیٹ لیتی ہیں۔ اور حوادث کے ہولناک طوفان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: '' بندہ کا ایمان اس وقت تک سچّا نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدائی خزانہ پر خود اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتماد نہیں رکھتا ہے۔، ،(٤)

چار۔ دنیوی برکتیں :

قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: '' اور اگر شہروں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم قطعی طور پر ان کے لئے آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے۔، ،(٥)

یعنی ایمان نہ صرف اخروی مثبت آثار و فوائد کا حامل ہے بلکہ دنیاوی نعمتیںاور برکتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے دنیاوی نعمتوں کی تلاش میں ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان کی جستجو کرے۔

____________________

١۔ سورئہ انفال، آیت: ٢٩۔ ٢۔ سورئہ نمل، آیت: ٤۔٣۔ علامہ طبا طبائی: المیزان، ج: ١٥، ص: ٣٤۔ ناصر مکارم شیرازی: تفسیر نمونہ، ج: ٧، ص: ٤٠ کی طرف رجوع کریں۔

٤۔ نہج البلاغہ، حکمت: ٣١٠۔٥۔وَ لَو اَنَّ اَهلَ القریٰ آمَنُوا وَالتَّقُوَا لفَتَحنا عَلَیهِم بَرکات مِنَ السّمائِ وَ الاَرضِ ( سورئہ اعراف، آیت: ٩٦)۔

۶۸

پانچ۔نیک اعمال کی انجام دہی:

اس بات کے علاوہ کہ عمل صالح کی انجام دہی ایمان کی بنیادی شرط ہے، خود ایمان کے فوائد میں سے بھی ہے۔ کیونکہ ایمان، عمل کے لئے ظرف اور نیک عمل باطنی ایمان کا پھل اور نتیجہ ہے۔ علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:

ایمان عمل کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے لازمی شرط ہے اور عمل صالح کی سہولت یا دشواری انسان کے ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے پر منحصر ہے اور اسی کے مقابلہ میں عمل صالح اور اس کی تکرار، ایمان کے عمیق اور زیادہ ہونے میں مفید اور مدد گار ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں اپنے اپنے لحاظ سے ان اخلاقی ملکات کے وجود میں آنے کے لئے ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں جو بے شک انسان سے صادر ہونے والے اعمال صالحہ کے انجام پانے کا سبب ہیں۔(١)

چھ۔ عوام میں محبوبیت:

ایمان کا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ ایماندار انسان لوگوں کے دلوں میں محبوب ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان قلبی لحاظ سے محبوب ہونا سبھی پسند کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور لوگ اپنے لئے محبت کے آثار کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے دوسروں کے اظہار محبت کی لذّت کو اتنا زیادہ شیرین پاتے ہیں کہ کسی چیز کے مقابلہ میں اس کا سودا کرنے پر تےّار نہیں ہوتے۔ بیشک محبت ایک ایسی دنیاوی نعمت ہے کہ یہ ہرمشکل کو آسان اور ہر تلخی کو شیرین اور ہر کانٹے کو پھول میں تبدیل کر دیتی ہے۔

خدا وند عالم فرماتا ہے: اگرخالص محبت کی تلاش میں ہو تو مومنین کی وادی میں داخل ہوجاؤ۔

''جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیتے ہیں، جلد ہی(وہ) خدا( جو رحمن ہے) ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت قرار دے دے گا۔(٢)

سات۔ اُخروی فلاح اور کامیابی :

ایمان کے فوائد کی انتہا مومنین کی اُخروی کامیابی پر ہوتی ہے اس سے بہتر انجام اور کیا ہوسکتا ہے؟

____________________

١۔ علامہ طبا طبائی، فرازہا ئی از اسلام، ص٢٣٨۔

٢۔ سورئہ مریم، آیت: ٩٦۔

۶۹

خدا وند متعال مومنین سے ایک معنی دار سوال کرتے ہوئے فرماتا ہے:

''اے ایمان لانے والو !کیا تمہیں ایک ایسی تجارت کی راہ دکھاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلائے گی ؟ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤاور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو۔اس فداکاری کو اگر تم جان لو گے اور سمجھ لو گے تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔، ،(١)

حکیم لقمان اپنے فرزند کی خیرخواہانہ نصیحت میں فرماتے ہیں:

''اے میرے بیٹے !سچ ہے کہ یہ دنیا گہرے سمندر کی طرح ہے جس میں بہت سے علماء اور دانشور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بس اس میں اپنی نجات کی کشتی، خدا پر ایمان ہونے کو قرار دو۔ ''(٢)

٨۔ ایمان کے موانع

ایمان کے وجود میں آنے کے اسباب اور عوامل کے سلسلہ میںجو کچھ بیان کیا گیا اس کے پیش نظر ایمان پر تاثیر ڈالنے والے عوامل بہت ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا ایمان کے لئے رکاوٹ کاباعث ہوگا۔لیکن یہاں پر ایمان کے موانع سے مراد تنہا وہ عوامل ہیں جو ایمان کے ہادیانہ جوہر سے ٹکراتے ہیں اور مشہور اسلامی کتابوں میں عقلی قوت سے مربوط صفتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔اس طرح کی مشہور موانع مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ جہل:

جہل چاہے بسیط ہو یا مرکب، ایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جہل بسیط سے مراد یہ ہے کہ انسان علم نہ رکھتا ہواور اسے اپنے عالم نہ ہونے اور نہ جاننے کا یقین بھی ہو۔اس طرح کی جہالت شروع میں مذموم اور قابل مذمت نہیں ہے۔کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کے لئے مقدمہ ہے اور جب تک انسان خود کو جاہل نہ جانے اس وقت تک علم حاصل کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔لیکن اس جہالت پر باقی رہنا اخلاقی لحاظ سے برا اور قابل مذمت ہے۔(٣)

____________________

١۔ سورئہ صف، آیت: ١٠ ، ١١۔ ٢۔ شیخ صدوق: فقیہ، ج: ٢، ص: ٢٨٢، ح: ٢٤٥٧۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ١٠٠۔

۷۰

لیکن جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان عالم نہیں ہے اور اس کے ذہن میں واقعیت اور حقیقت سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کا خیال یہ ہے کہ وہ واقاً حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ (یعنی وہ اپنے جاہل ہونے سے بھی بے خبر ہے)۔ اس طرح وہ دو امر میں جاہل ہے۔ اسی وجہ سے اسے جہل مرکب کہا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت کو اخلاقی لحاظ سے سب سے بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں انسان اصلاً اپنی بیماری کے بارے میں نہیں جانتا بلکہ وہ خود کو صحیح وسالم تصور کرتا ہے۔ حالانکہ اصلاح کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم فساد اور خرابی کا یقین ہونا ہے ۔(١)

اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا ہے: ''بے شک میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کا علاج کرنے سے عاجز نہیں ہوں لیکن احمق انسان کا علاج کرنے سے عاجز ہوں''۔(٢)

دو۔ شک وتردید:

ابتدائی شک، علم ویقین تک پہنچنے کے لئے ایک مبارک قدم ہو سکتا ہے۔انسان جب تک کسی چیز کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ کسی بھی گوشہ کو پنہان اور پوشیدہ نہیں سمجھتا اس کی کوئی خاص جستجو نہیں کرتا ہے۔ بہت سی گرانقدر حقیقتیں صرف ایک ابتدائی شک وتردید کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر شک، علم و یقین اور ایمان تک پہنچنے کے لئے ایک با اہمیت اور بے مثال پل کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح یہ اخلاقی لحاظ سے برا نہیں ہے۔ لیکن شک وتردید، کسی بھی حالت میں منزل نہیں ہے۔ شک 'مقصد اور منزل کے عنوان سے قطعی طور پر ایک اخلاقی برائی ہے اور یقین وایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کرنے اور حق وباطل کو جدا کرنے کے لئے کمزور انسان کا نفس حیران وسرگرداں ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـ نے سختی کے ساتھ شک وتردید سے منع فرمایا ہے اور اسے ایمان کے خلاف اور کفر کا سبب قرار دیا ہے۔مولائے متقیان حضرت علی ـارشاد فرماتے ہیں:

''لا ترتابوا فتشکّوا 'ولا تشکّوا فتکفّروا'' (٣)

(یعنی شک و تردید کو اپنے پاس جگہ نہ دو کہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ گے۔)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات ، ج: ١، ص: ١١٦۔

٢۔ مفید: اختصاص'ص: ٢٢١۔

٣۔ کلینی: کافی'ج: ١'ص: ٤٨' ح: ٦۔

۷۱

تین۔ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ:

خیالات سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے قلب پر عارض ہوتی ہے اور اگر وہ انسان کو شر کی طرف دعوت دے تو وسوسہ ہے اوراگر وہ خیر کی طرف ہدایت کرے تو اسے الہام کہا جاتا ہے۔ شیطانی وسوسہ جو ایمان کی رکاوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کی مختلف قسمیں اور متعدد اسباب ہیں اور ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے متعلق گفتگو اخلاق علمی یا تربیت اخلاقی کے ذیل میں ہونی چاہئے۔(١)

قرآن کریم، شیطانی وسوسہ کے بارے میں خود شیطان کی زبانی ارشاد فرما رہا ہے:

'' میں تیرے بندوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کروں گا اس وقت ان کے سامنے سے 'پیچھے سے' داہنی طرف سے اور بائیں طرف سے پہنچ جائوں گا''(٢)

چار۔ علمی وسواس:

یہ دقت' جستجو، تحقیق اور عقلانیت میں افراط کی ایک قسم ہے جو ایمان کے لئے آفت اور اسے برباد کر دینے کاسبب ہے۔ یہ بات کبھی عقلی دقت کے عنوان سے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ سب سے ابتدائی بدیہیات وواضحات میں بھی خدشہ وارد ہوجائے یہاں تک کہ انسان کو سفسطہ اور واقعیات وحقائق سے انکار کے گڑھے میں بھی گرا دیتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کا وسوسہ ہلاکت اور نابودی کو ہمراہ لاتا ہے اور ہر طرح کے ایما ن اور اطمینان سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔(٣)

پانچ۔ کفر اور شرک:

یہ دونوں ایمان وتوحید کے مقابلہ میںہیں اور ایمان میں رکاوٹ کا باعث شمار کئے جاتے ہیں۔ کفر اور شرک کی ماہیت اور ان کے دوسرے ابعاد و جوانب کے متعلق بہت زیادہ بحثیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کو عقائد وکلام کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے، ان سبھی کے بارے میں گفتگو کرنا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ١٤٢، ١٥٨۔

٢۔ سورئہ 'اعراف' آیت: ١٦،١٧۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص ١٠٠ کی طرف رجوع کریں۔

۷۲

دوسری فصل: مؤثر نفسانی صفات

گزشتہ بحث میں ان نفسانی صفات کے بارے میں جو انسان کی ہدایت کی ذمہ دارہیںنیزاخلاق اسلامی کے معروف مآخذمیں قوۂ عاقلہ سے متعلق قوت کے عنوان سے ان کا تذکرہ ہواہے، ہم نے اختصار سے گفتگو کی ہے۔ اس حصہ نیزبعد کے دوحصوں کی گفتگو میں صفات نفسانی کے دوسرے گروہ کے بارے میں جو انسانی نفس میں مؤثر قوت کے عنوان سے اپنا کردارادا کرتی ہیں ہم ان کے بارے میں گفتگو کریںگے۔ اس طرح کے نفسانی صفات اخلاق اسلامی کے معتبر مآخذ اور مشہور کتابوں میں قوت غضبیہ اور قوت شہویہ سے متعلق صفات کے عنوان سے ذکر ہوتے ہیں۔ یہاںسب سے پہلے اس نکتہ کی تاکید کی جاتی ہے کہ نفسانی صفات ان موارد میں جن کو ہم شمار کریں گے منحصر نہیں ہیں۔مؤثر نفسانی صفات کی طبقہ بندی: مؤثر نفسانی صفات کی بھی مختلف گروہوں میںطبقہ بندی کی جاسکتی ہے، ایک تقسیم بندی میں ان میں سے ہر ایک کے رجحان پر نظر کرتے ہوئے ان کو درج ذیل گروہوں میں جگہ دی جاسکتی ہے:

١۔وہ صفات جو خدا وندعالم اور مبدأہستی کی نسبت انسان کے باطنی رجحان پر ناظر ہیں جیسے توکل، تسلیم، اور رضا و....۔

٢۔وہ صفات جو معاد اور انسانی زندگی کے انجام کی نسبت اس کے باطنی رجحان کی طرف ناظر ہیں جیسے خوف، امید و رجائ، مایوسی اور ناامیدی.......۔

٣۔ وہ صفات اور ملکات جو ہمارے رجحان کا تعلق خود ہماری ہی نسبت بتاتے ہیں ؛جیسے عجب، خود پسندی، افتخار، عزت نفس، عصبیت، تعصب وغیرہ ۔

٤۔ وہ صفات جو کل اور آئندہ کی نسبت ہمارے رجحان کو بتاتے ہیں؛ جیسے امیدیں، جلد بازی، ہمت، تسویف (ٹال مٹول) وغیرہ.....۔

٥۔ وہ صفات جو دنیوی مواہب پر ناظر ہوتے ہیں؛ جیسے زہد، حرص، حسرت اور قناعت وغیرہ.....۔

٦۔ وہ صفات جو دوسروں کی نسبت انسان کا رجحان کو بتاتے ہیں ؛ جیسے خیر خواہی، حسد کرنا، کینہ، انصاف وغیرہ..... ۔

٧۔وہ صفات جو نفس کی طبیعی اور متعادل آرایش کو بیان کرنے والے اور اس کے تحفّظ میں کرداراداکرتے ہیں جیسے سکون، وقار، عفت، حیا وغیرہ وغیرہ۔

اخلاق اسلامی میںان گروہوں میں سے ہر ایک کی حیثیت سے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے مبدأ و معاد سے متعلق رجحان کا سرچشمہ اس کا ایمان ہے اور تمام نفسانی رجحانات خود اس کی نسبت، دوسروں کی نسبت، طبیعی مواہب کی نسبت، آئندہ کی نسبت اور نفس کی مطلوب حالت کی نسبت، عالم کے آغاز و انجام کی نسبت نفس کے رجحان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

۷۳

ہدایت کرنے والے نفسانی صفات اور اثر کرنے والے نفسانی صفات کا خاکہ

الف۔ خداکی طرف نفس کا مائل ہونا

بعض وہ نفسانی صفات جو خداوند متعال سے متعلق انسان کے باطنی رجحان اور مطلوب رابطہ کا کام کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

١۔ خداوندعالم کی محبت

بغیر کسی شک و تردید انسان کی قوت جاذبہ (جذب کرنے والی قوت) اور دافعہ (دفع کرنے والی قوت) محبتوں اور نفرتوں کے زیر اثر وجود میںآتے ہیں۔ جب انسان محبت وعشق کرتا ہے، تو لذت اور نیک بختی کا احساس کرتا ہے اور جب کراہت و نفرت کے عالم میں ہوتا ہے تو پریشانی، رنج و الم، دردوغم، کااحساس کرتا ہے۔ شاید اسی بنا پر اخلاق کے بعض بڑے حکماء اور فلاسفر نے انسان کی غایت اور اخلاق کا مقصد سعادت وخوش بختی یعنی لذت بخش حیات اور رنج والم سے دور زندگی کو جانا ہے۔ اس ہدف کی تکمیل صرف اور صرف محبت آمیز زندگی کے سایہ میںبالخصوص اس کے عالی مرحلہ یعنی عاشقانہ زندگی میںمیسر اور ممکن تصور کرتے ہیں، ان تمام فضیلتوں کا راز '' محبت ''اور'' عشق''کے الفاظ کے لئے اسی حقیقت میںتلاش کرنا چاہیے لیکن جو چیز اصل عشق و محبت سے بھی زیادہ اہم ہے محبوب اور معشوق کی شان و منزلت ہے۔ انسان کی سعادت کا معیار اس کے درجہ محبت سے وابستہ ہے اور محبت و عشق کے درجہ کو محبوب کے کمال و جما ل کے اندازوں میںتلاش کرنا چاہیے نیز اس کے دوام وبقا کو بھی جمالِ محبوب کا ظہور اور غروب معین کرتا ہے۔اب اصلی سوال یہ ہے کہ سر و جان کا سودا کس حقیقت جمال و جلال کے عشق میں کرنا چاہیے تاکہ ابدی محبت اور بلند وبالا عشق مثمر ثمر ہو اور پایدار لذت اور دائمی نیک بختی حاصل ہو ؟

خدا پر اعتماد رکھنے والوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ اس سوال کا جواب خود اپنے خدا سے طلب کریں۔اخلاق اسلامی کے نقطۂ نظر سے وہ وجود جو ایسی محبت کا حقدار ہے خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس کی محبت تخلیق عالم کی توجیہ کرنے والی اور عالم وبنی آدم کے اہداف و مقاصد کو پورا کرنے والی نیز ان کی آرزؤں کی تکمیل کرنے و الی ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم فرماتا ہے: ''والذین آمنوا اشدّ حبا ﷲ''!(١) ''جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ خدا سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں'' اور یہ اعلان کرتا ہے '' یحبھم و یحبونہ''(٢) ''خدا انہیں دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ (بھی) خدا کو دوست رکھتے ہیں''۔

____________________

١۔ سورئہ بقرہ ١٦٥۔

٢۔ سورئہ مائدہ آیت ٥٤۔

۷۴

دوسری طرف، خداکی محبت ایک ایسی جزا ہے کہ خدا وند عالم قرآن میں اپنے خاص بندوں کو جس کی بشارت دیتا ہے، جیسے مجاہدین جو اس کے لئے اپنے سرا ورجان کو فدا کردیتے ہیں:

''ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیله صفاً کانهم بنیان مرصوص'' (١) ۔

''بے شک اﷲ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں جس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواریں''۔ اور جس طرح محسنین، توابین، مطھرین، مقسطین، صابرین اور متوکلین (احسا ن کرنے والے، توبہ کرنے والے، پاکیزہ افراد، عدل وانصاف کے خو گر، خدا پر توکل و بھروسہ کرنے والے) قرآن کریم میں خداکے محبوب قرار دئیے گئے ہیں یہاںپر ہماری گفتگوکا موضوع انسان کا خدا وند سبحان سے محبت کرنا ہے، لیکن چونکہ درحقیقت بندوں کی اپنے پروردگار سے محبت اور خدا کی ان سے، محبت کے درمیان ایک قسم کا ملازمہ پایاجاتا ہے لہٰذا ناگزیر دونوں ہی نظر سے موضوع کو دیکھنا چاہئے۔

پہلی نظر: بندوں کی خدا سے محبت

الف۔ صرف خدا حقیقی محبوب ہے: در حقیقت صرف خدا ہے جو حقیقی محبت اور واقعی عشق کرنے کا سزاوار ہے دیگر اشیاء اور اشخاص اپنے اس رابطہ کے اعتبار سے جو اس سے رکھتے ہیںمحبوب واقع ہوتے ہیں۔

الف: محبت کی پیدائش کے اسباب:

علماء اخلاق کا نظریہ ہے کہ محبت اور اس کے شدید مراتب یعنی عشق درج ذیل اسباب ووجوہ کی بنا پر وجود میںآتے ہیں:

١۔ جو چیزیں انسان کی بقاء اور کمال کا سبب ہوتی ہیں:

اسی بنیاد پر، انسان اپنے وجود کو عزیز اور دوست رکھتا ہے اور اس کی بقا ء اور دوام کا خواہاں ہوتا ہے اور جو چیز بھی اسے اس بات میںمعاون و مدد گا رثابت ہوتی ہے وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے، اور وہ موت کے اسباب سے کراہت رکھتا ہے۔( ٢)

٢۔ لذت:

لذت مادی ہو یا معنوی محبت کا سبب ہوتی ہے یعنی انسان جو کچھ لذت کا سبب ہوتا ہے اس کے لذت آور ہونے کی وجہ سے اسے دوست رکھتا ہے نہ کہ خود اس لذت مادی کی وجہ سے ؛ جیسے انسان کی لذت کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق نیز وہ تمام چیزیں جو اس کے تمام غرائز وخواہشات پورا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اس طرح کی محبت آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتی ہے لیکن تیزی سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔

____________________

١۔ سورئہ صف آیت٤۔٢۔ فیض کاشانی، محسن ؛المحجة البیضائ، ج٨، ص٩تا ١١۔ نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٤، ١٣٥۔

۷۵

اس طرح کی محبتیں پست مادی اور سریع الزوال ہونے کی وجہ سے محبت کا سب سے ادنی درجہ شمار ہوتی ہیں(١) اور معنوی لذت ؛ جیسے انسان کا ایک فدا کار مجاہد سے محبت کرنا، اس لذت کی بنا ء پر جو اس کی دلاوری اور اس کے مظاہرہ جنگ سے محسوس کرتا ہے اور ایک فنکار اور ورزش کرنے والے انسان سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو ہنر نمائی کے میدان میں محسوس کرتا ہے اور امانت و پاکدامنی سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو انسان امانت داری اور پاکیزگی سے محسوس کرتا ہے نیز خداوندعالم کی یاد اوراس سے راز و نیاز اس بناپر کہ وہ اس بات سے سرشار لذت محسوس کرتا ہے، اس طرح کی لذتو ں کی ان لوگوں کے لئے محبت آفرینی جو اس کے ایک گھونٹ سے سیراب ہوئے ہیں ایک واضح اور استدلال و برہان سے بے نیاز امر ہے، اس طرح کی لذتیں دراز عمر ہوتی ہیں، اگر چہ اس اعتبار سے خود مختلف درجات اور مراتب کی حامل ہیں، لیکن باقی اور دائم محبت کے خواہاں افراد اس کے پانے کی تمنا میں مادی لذتوں اور فانی محبتوں کا یکسر سودا کرتے ہیں۔

٣۔احسان:

انسان احسان اور نیکی کا اسیراور بندہ ہے اور فطری طور سے جو بھی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے وہ اسے دوست رکھتا ہے اور جو انسان اس کے ساتھ برائی کرتا ہے وہ اس سے رنجیدہ خاطراور بیزارہوتا ہے اس بناء پر نیکی، منفعت اور احسان انسان سے

۷۶

محبت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔(٢)

٤۔ ظاہری و باطنی حسن و جمال:

خوبصورتی اور حسن و جمال کا ادراک محبت کا باعث ہو تا ہے ؛ یعنی انسان خواہ مادی خوبصورتی ہو یا معنوی اسے دوست رکھتا ہے اور اس کی یہ محبت خوبصورتی اور حسن کی ذات سے تعلق رکھتی ہے، نہ یہ کہ اس کے علائم اور لوازم سے اوروہ فطری اور باطنی سرچشمہ رکھتی ہے۔

٥۔باطنی اور روحی توافق ومناسب:

کبھی انسان دوسروں سے محبت کرتا ہے، لیکن نہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور نہ ہی اس کے مال ومرتبہ سے امید اور لالچ رکھنے کے سبب بلکہ صرف اورصرف اس باطنی اور روحی تناسب اور توافق کے لحاظ سے جو اس کی روح و جان کے ساتھ رکھتا ہے۔

٦۔ الفت واجتماع:

افراد کا اجتماع اور آپس میں معاشرت رکھنا اور ایک ساتھ زندگی گذارنا آپسی میل جول، اتحاد و الفت اور انس و محبت کا باعث بنتا ہے۔ انس و محبت کا سرچشمہ انسان کی طبیعت اور سرشت میں ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لفظ''انسان'' اُنس سے ماخوذ ہے نہ کلمۂ'' نسیان ''سے ۔(٣)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

٣۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص٩٤ ملاحظہ ہو۔

۷۷

٧۔ ظاہری اوصاف میں شباہت:

ایک یا چند ظاہری خصوصیات میں اشتراک محبت کے پیدا ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ بچوں کا ایک دوسروں سے لگاؤ اور بوڑھوں کا آپس میں تعلق نیز ہم پیشہ اور ہم صنعت افراد کا ایک دوسرے سے محبت رکھنا اسی وجہ سے ہے۔

٨۔ علیت کا رابطہ:

چونکہ معلول کا سرچشمہ علت ہے اور ا س سے تناسب اورسنخیت اور جنسیت رکھتا ہے، لہٰذا علت محبوب واقع ہوتی ہے کیونکہ علت کے بعض اجزاء اور اس کے بعض ٹکڑوں کے مانند ہے، معلول بھی علت کو اس لئے دوست رکھتا ہے کہ درحقیقت علت اس کی اصل و اساس ہے، اس بنا پر ان میں سبھی ایک دوسرے سے محبت کرنے میں درواقع اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں(١)

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ محبت ایجاد کرنے کے تمام اسباب وعلل مذکورہ موارد میں خلاصہ ہوسکتے ہیں یا نہیں ، اور مذکورہ اسباب میں سے ہرایک کے استقلال یا تداخل سے چشم پوشی کرتے ہوئے حقیقی طور پرمحبت آفرین تمام اسباب و علل صرف خدا وند سبحان میں پائے جاتے ہیں اور اس کے علاو ہ میں ان کا تصور کرنا ایک وہم اور خیال سے زیادہ نہیں ہے، اس حقیقت کے بیان میںکہاجاسکتاہے: ہرانسان کاوجود خداوند سبحان کے وجود کی فرع وشاخ ہے اور خداوندعالم کے وجود سے جداکوئی ہستی اور وجود نہیں رکھتا، اور اس کے وجود کاکمال اس کے ذریعہ اور اس کی طرف سے ہے نیز لذت و احسان کا سرچشمہ خداوندعالم ہی کی ذات ہے، احسان کاخالق وہ ہے اور ہر احسان اس کے قدرت اور فعل کی خوبیوں میں سے ایک خوبی و حسن کا بیان کرنے و الا ہے۔ بے شک کمال وجمال بالذات کامالک صرف ا ور صرف وہ ہے اوریہ صرف اسی میں پایا جاتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بصیرت کے لئے معنوی جمال زیادہ دوست رکھنے کے لائق اور خوبصورت ترین شئی ہے۔ اسی طرح انسان کی روح وجان اپنے پروردگار سے ایک مخفی اور باطنی راز و رمز کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے، اور شاید آیۂ ''قل الروح من امر ربی'' (٢) (''کہو، روح ہمارے ربّ کے امر سے ہے '') اسی باطنی رابطہ کی طرف اشارہ ہو۔ خدا اور انسان کے درمیان رابطۂ علیت کا وجود آشکار اور توضیح سے بے نیاز ہے۔ لیکن دو دیگر اسباب یعنی '' مادی اجتماع '' اور ''ظاہری اوصاف میں اشتراک '' پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں اسباب محبت آفرینی میں معمولی کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کا خدا وند سبحان کی طرف نسبت دینا نقص کا باعث ہے، اور درحقیقت محال ہے لہٰذا حقیقی طور پر اور عالی ترین درجات میں محبت کے تمام اسباب خدا وند عالم میںپائے جاتے ہیں اور چونکہ اس کے اوصاف میں کوئی شریک نہیں ہے لہٰذا کسی قسم کا شریک اس کی محبت میںبھی وجود نہیں رکھتا۔(۳)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات،، ج٣، ص١٣٩۔٢۔ سورئہ اسرائ، آیت ٨٥۔۳۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٨ ص ١٦، ؛نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص ١٤٢، اور ١٤٦ ملاحظہ ہو۔

۷۸

ب۔ خدا وند عالم سے محبت کی نشانیاں:

بلند و بالا، مقدس و پاکیزہ فضائل ہمیشہ جھوٹے دعویداروں سے روبرو رہے ہیں، یہ غیر واقعی خیالات اور دعوے کبھی کبھی اس طرح پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ حقیقت امر خود اشخاص پر بھی پوشیدہ ہوگئی، بہت سے طفل صفت ایسے ہیں جنہوں نے ابھی محبت خداوندی کا الفباء بھی نہیں سیکھا ہے، لیکن خود کو اللہ کے دوستوںمیں شمار کرتے اور اس سے عشق و محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

خدا وند عالم کے دوستوں کی ظاہری اور ملموس نشانیوں کا بیان خود شناسی اور دیگر شناسی کے لئے ایک مناسب راستہ اور خدا کی محبت ودوستی کے جھوٹے اور سچے دعوؤں کا ایک معیار ہے۔ ان علامتوں میںاہم ترین علامتیں اخلاق اسلامی کی اوّلین کتابوں کی روایت کے اعتبار سے درج ذیل ہیں:

١۔ موت کو دوست رکھنا:

سچا چاہنے والا اور حقیقی دوست اپنے محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے۔ اگر چہ موت خداوندعالم سے ملاقات کرنے اور اس کے جمال کے دیدار کی تنہا راہ نہیں ہے، لیکن عام طور پر اس ہدف کا تحقق اس راہ مرگ سے گذرے بغیر ممکن و میسر نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان کسی مقصد سے عشق کرے، تو جو کچھ اس راہ میں راہنما واقع ہوگا وہ اس کا محبوب بنتا چلاجائے گا، قرآ ن کریم اس سلسلہ میںفرماتا ہے: '' کہو: اے وہ لوگوں جو یہودی ہوگئے ہو اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم لوگ خدا کے دوست ہو اور دوسرے لوگ دوست نہیں ہیںتو اگر اپنے قول میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو '' ۔(۱) البتہ جیسا کہ خدا وند سبحان کی محبت کے درجات ومراتب ہیں، موت کا چاہنا یا نہ چاہنا بھی افراد کی نظر میں درجات و مراتب رکھتا ہے۔

موت کو ناپسند کرنا خدا وند عالم کی محبت سے اس وقت سازگار نہیں ہے جب اس محبت کا سرچشمہ دنیاوی مظاہر جیسے اموال، اولاد، خاندا ن اور مقام و منصب ہو، لیکن جب دنیا میں باقی رہنے کا تعلق و لگاؤ پروردگار عالم سے ملاقات کے لئے آمادگی کا حصول اور نیک اعمال انجام دینا ہو تو خدا وندعالم کی دوستی سے منافات نہیں رکھتا۔(۲)

____________________

۱۔ سورئہ جمعہ، آیت ٦۔

۲۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ١٧٤ ،١٧٥۔

۷۹

٢۔ خداوندعالم کی خواہش کو مقدم کرنا:

خداوندعالم کاحقیقی دوست اس کے ارادہ کواپنے ارادہ پر مقد م رکھتا ہے حتی کہ اگر محبوب فراق اور جدائی کاارادہ کرے تووہ اسے وصال پر ترجیح دے۔ اللہ کی محبت اس کے دستور اور قوانین کی پیروی کی طالب ہے اور محبوب کی رضایت کاحاصل کرنااس کے لوازمات میںسے ہے ۔ ''کہو: اگر خداکو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تاکہ خداتمہیں دوست رکھے اور تمہارے گنا ہوںکو بخش دے خدا وند بخشنے والا مہربا ن ہے''۔(١)

٣۔ یاد خدا وندی سے غافل نہ ہونا:

محبوب کا ذکر، اس کی یاد اور جو کچھ اس سے مربوط و متعلق ہے اس کا تذکرہ ہمیشہ محب کے لئے لذت بخش اور دوست رکھنے کے قابل ہے، خدا کے دوست ہمیشہ اس کی اور اس کے دوستوں کی بات کرتے ہیں اور اس کی یاد کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اور اس کے کلام کی تلاوت سے لذت حاصل کرتے ہیں اور خلوت میں اس سے مناجات اور راز و نیاز کر کے انس حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا نے موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے عمران کے فرزند ! جھوٹ بولتا ہے وہ انسان جو خیال کرتا ہے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے لیکن جب رات ہوتی ہے تو میری عبادت سے چشم پوشی کرتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر عاشق و دلدادہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ وہ اپنے دلدار و عاشق سے خلوت کرے ؟(٢)

٤۔خوشی و غم خدا کے لئے:

خدا کے چاہنے والے محزون ومغموم نہیں ہوتے مگر اس چیز کے لئے جو انھیںمحبوب سے دور کردے اور خوشحال و مسرور نہیں ہوتے جز اس چیز سے جو انھیںان کی مراد اور مقصد سے نزدیک کردے۔ وہ لوگ اطاعت سے شاد و مسرور اور معصیت سے محزون وغمزدہ ہوتے ہیں اور دنیا کا ہونا اور نہ ہونا ان کے لئے خوشی اور غم کا باعث نہیں ہوتا۔'' جوکچھ تمہارے ہاتھ سے ضائع ہو گیاہے اس پررنجیدہ خاطر نہ ہو اور جو تمہیں دیا گیا ہے اس کی (وجہ) سے شاد و مسرور نہ ہو''(٣)

٥۔خداکے دوستوںسے دوستی اور اس کے دشمنوںسے دشمنی:

''محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم'' ''محمد'' خدا کے پیغمبر ہیں اور وہ لوگ کہ جو ا ن کے ساتھ ہیں کافروں کے ساتھ سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہیں(٤)

____________________

١۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣١۔ ٢۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٣٣٨، ح ٥٧٧۔ دیلمی، حسن ابی الحسن: اعلام الدین، ص٢٦٣۔ ارشاد القلوب، ص٩٣۔٣۔ سورئہ حدید، آیت ٢٣۔ ٤۔سورئہ فتح، آیت ٢٩۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

آیت ۳۷

( قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ )

جواب ملا كہ تجھع مہلت ديدى گئي ہے _

۱_روز قيامت تك اپنى حيات كے جارى رہنے كے بارے ميں ابليس كى درخواست، خداوندمتعال كى جانب سے قبول كر لى گئي_قال فانك من المنظرين

۲_ابليس كے علاوہ دوسرى مخلوقات كا بھى قيامت تك طولانى حيات كا حامل ہونا _فانك من المنظرين

يہ كہ خدا وند متعال، ابليس كى درخواست كے جواب ميں فرماتا ہے كہ''تو مہلت پانے والوں ميں سے ہے''اس سے مذكورہ بالا نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۳_خداوند متعال كے ساتھ ابليس كابغير كسى واسطے كے براہ راست گفتگو كرنا_

قال ربّ فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين

۴_كسى بھى شخص كو حتى بارگاہ الہى سے نكالے گئے اشخاص اور لعنت شدہ لوگوں كو بھى رحمت خدا وند متعال سے مايوس نہيں ہونا چاہيے بلكہ اُنہيں اُس سے اپنى حاجات طلب كرنى چاہيں _

وان عليك اللعنة الى يوم الدين _قال ربّ فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين

۵_بار گاہ الہى كے مردود اور لعنت شدہ لوگوں كى دعا كے قبول ہونے كا ممكن ہونا _

فاخرج منها ...وان عليك اللعنة ...قال ربّ فا نظرني ...قال فانك من المنظرين

۶_''ومن خطبة له عليه‌السلام سبحانه:اسجدوا لا دم فسجدوا الّا ابليس ...فا عطاه الله النظرة استحقاقاً للسخطة واستتماماً للبلية و انجازاً للعدة فقال:''انك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' ...;(۱) حضرت

۲۲۱

امير المؤمنين على عليہ السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے ايك خطبے كے دوران فرمايا:خداوند سبحان نے فرمايا:ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدہ كرو پس ابليس كے سوا سب ملائكہ نے سجد ہ كيا ...پس خدا نے اُسے مہلت دى تاكہ وہ عذاب كا زيادہ سے زيادہ مستحق ہو جائے اور اُس كى ازمائش كامل ہو جائے او ر خدا اپنے وعدے كو پورا كرے _لہذاخدا وند متعال نے فرمايا:''انك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' _

۷_''قال ا بوعبدالله عليه‌السلام : ان على بن الحسين عليه‌السلام قال: ...يامن استجاب لا بغض خلقه اليه اذ قال ا نظرنى الى يوم يبعثون، استجب لي ... ;(۲) امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ امام على بن حسينعليه‌السلام نے فرمايا:اے وہ كہ جس نے اپنى مبغوض ترين مخلوق كى درخواست كو قبول كيا كہ جب اُس نے كہا:''ا نظرنى الى يوم يبعثون'' ميرى درخواست كو بھى قبول فرما_

ابليس :ابليس كو مہلت دينے كا فلسفہ ۶;ابليس كى خدا كے ساتھ گفتگو۳;ابليس كى دعا كا قبول ہونا ۷;ابليس

كى طولانى عمر ۲;ابليس كى مہلت كى دعا كا قبول ہونا ۱

اُميدوارى :رحمت سے اُميدوارى ۴

دعا:دعا كے اداب ۷

روايت :۶،۷

لعن :لعن كے مستحقين كى دعا كى قبوليت ۵

خدا كے مردود لوگ:خدا كے مردود لوگوں كى دعا كى قبوليت ۵

موجودات :موجودات كى طولانى عمر ۲

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى كى ممنوعيت ۴

____________________

۱)نہج البلاغہ ،خطبہ ۱;نور الثقلين ،ج۳،ص۱۳،ح۴۱_

۲)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۴۱،ح ۱۲;نور الثقلين ،ج۳، ص۱۴ ، ح۴۸ _

۲۲۲

آیت ۳۸

( إِلَى يَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ )

ايك معلوم اور معين وقت كے لئے _

۱_ابليس كى جانب سے روزحشر تك زندگى كى مہلت كى درخواست فقط ايك معين اور مشخص دن تك قبول كى گئي ہے_

فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم

۲_قيامت كا دن اور اُس كے برپا ہونے كا دقيق وقت خداوند متعال كے نزديك مشخص و معين ہے_

فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين_الى يوم الوقت المعلوم

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب '' الى يوم الوقت المعلوم ''سے مراد روز حشر اور قيامت ہو اور اس دن كو ''وقت معلوم '' كے نام سے اس لئے ياد كيا جاتا ہے كہ فقط خدا وند متعال ہى اس كے دقيق وقت كو جانتا ہے_

۳_ابليس كى زندگى محدود ہے اور دنيا كى عمر ختم ہو نے سے پہلے اُس كى عمر ختم ہو جائے گي_

قال فانك من المنظرين_الى يوم الوقت المعلوم

ابليس نے خدا وند متعال سے اپنى زندگى كے طولانى ہونے كى درخواست كى تا كہ وہ قيامت تك باقى رہے _خدا نے اُس كى يہ درخواست قبول كر لى ليكن جملہ''الى يوم الوقت المعلوم'' لا كر اُس كى عمر كے قيامت تك طولانى ہونے كو رد كر ديا _بنا بريں ابليس كى زندگى قيامت سے پہلے ختم ہو جائے گي_

۴_''يحيى بن ا بى العلائ ...ان رجلاً دخل على ا بى عبدالله عليه‌السلام فقال: ا خبرنى عن قول الله عزّوجلّ لا بليس '' فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' قال: ...ويوم الوقت المعلوم يوم ينفخ فى الصور نفخة واحدة فيموت ابليس ما بين النفخة الا ولى والثانية; (۱) يحيى بن ابى العلاء نے روايت كى ہے كہ ايك شخص اما م صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں ايا اور عرض كى :مجھے خداوند

۲۲۳

عزوجل كے اس قول كے بارے ميں بتايئے كہ جس ميں خدا نے ابليس سے فرمايا:''فانك من المنظرين_الى يوم الوقت المعلوم'' _امام عليہ السلام نے فرمايا:''روز وقت معلوم سے وہ دن مراد ہے كہ (جس ميں ابھى فقط) ايك بار صور پھونكا گيا ہے پس ابليس پہلے اور دوسرے صور پھونكے جانے كے درميان مرے گا___''

۵_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله تبارك وتعالى ''فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم''قال: يوم الوقت المعلوم يذبحه رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم على الصخرة التى فى بيت المقدس ;(۲) امام صادق عليہ السلام سے خداوند تبارك وتعالى كے فرمان:''فا نظرنى الى يوم يبعثون_قال فانك من المنظرين الى يوم الوقت المعلوم'' كے بارے ميں منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:وقت معين كا دن ،وہ دن ہے كہ جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابليس كو بيت المقدس ميں موجود ايك چٹان پر ذبح كريں گے_

۶_''عن الحسن بن عطية قال: سمعت ا با عبدالله عليه‌السلام يقول: ان ابليس عبدالله فى السّماء الرابعة فى ركعتين ستة ا لاف سنة وكان من انظار الله ايّاه الى يوم الوقت المعلوم بماسبق من تلك العبادة; (۳) حسن بن عطيہ كا كہنا ہے ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:بتحقيق ابليس نے اسمان چہارم ميں دو ركعت (نماز )كے ذريعے خدا كى چھ ہزار سال تك عبادت كى ہے اور اسى عبادت كى وجہ سے خدا نے اُسے وقت معين كے دن تك مہلت دى ہے_

ابليس :ابليس كى درخواست مہلت كا قبول ہونا ۱;ابليس كى عمر كا خاتمہ ۳;ابليس كى موت ۴،۵;ابليس كى مہلت كا فلسفہ ۶

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۲

روايت :۴،۵،۶

قيامت :قيامت كے دن صور كا پھونكا جانا ۴;قيامت كا وقت۲

____________________

۱)_علل الشرائع ،ج۲،ص۴۰۲،ح۲;نور الثقلين ،ج۳، ص۱۳ ،ح۴۵_

۲)تفسير قمى ،ج۲،ص۲۴۵;تفسير برہان ،ج۲،ص ۳۴۳، ح۲، ۸_

۳)_تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۴۱،ح۱۳;نور الثقلين ،ج۳ ، ص۱۴، ح۴۷ _

۲۲۴

آیت ۳۹

( قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ )

اس نے كہا كہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ كياہے ميں ان بندوں كے لئے زمين ميں ساز و سامان آراستہ كروں گا اور سب كو اكٹھاگمراہ كروں گا_

۱_ابليس ،خدا وند متعال كى جانب سے اپنے گمراہ ہونے كو تمام انسانوں كو گمراہى كى طرف لے جانے اور بُرائيوں كو اچھا بنا كر دكھانے كا سبب قرار ديتا ہے_قال ربّ بما ا غويتنى لأ زيننّ لهم فى الا رض و لا غوينّهم ا جمعين

''بما '' ميں ''با'' بائے سببيہ ہے_

۲_ابليس، خدا وند متعال كى ربوبيت كا معتقد تھا اور اپنے اپ كو اُس كى ربوبيت كے تحت جانتا تھا_قال ربّ

۳_ابليس ،اپنى گمراہى كا اعتراف كرتاتھا_قال ربّ بما ا غويتني

۴_ابليس ،خدا وند متعال كى جانب سے ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدے كے حكم كو اپنى گمراہى كا سبب قرار ديتا تھا_

فسجد الملئكة كلّهم ...الّا ابليس ا بي ...قال فاخرج منها فانك رجيم ...قال ربّ بما ا غويتني

خدا وند متعال كے ذريعے اپنے گمراہ ہونے سے ابليس كى كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں چند نظريات ہيں :اُن ميں سے ايك يہ كہ چونكہ خدا نے ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدے كا حكم ديكر ابليس كا امتحان ليا تھا اور وہ اس امتحان ميں كامياب نہيں ہو سكا اور اُس كا كامياب نہ ہونا ،اُسكے مردود اور قابل لعن ہونے كا موجب بنا ہے لہذا يہى مردوديت اور لعنت ،ابليس كى نظر ميں ايك قسم كى گمراہى شمار ہوتى ہے_

۵_خداوند متعال كى جانب سے ابليس كا گمراہ ہون

۲۲۵

،فرمان الہى كے سامنے اُس كى نافرمانى كى سزا تھي_قال ربّ بما ا غويتني

بلا شك وترديد،ادمعليه‌السلام كے سامنے سجدہ نہ كرنے كے بعد، خدا كى جانب سے ابليس گمراہ ہوا تھا _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اُس كى يہ گمراہى سزا كى حيثيت ركھتى ہے_

۶_ابليس ،ناپسنديدہ كاموں كو اچھا بنا كر اور اُنہيں زينت ديكر لوگوں كو گمراہى كى طرف لے جاتا ہے_

قال ربّ بما ا غويتنى لأ زيننّ لهم فى الا رض و لا غوينّهم ا جمعين

۷_زمين ،ابليس كى سر گرميوں اور اُس كے بہكانے كا ميدان و مركز ہے_لأ زيننّ لهم فى الا رض

۸_انسانى ميلانات ميں سے ايك اُس كا زيبائي اور خوبصورتى كى طرف ميلان ہے_لأ زيننّ لهم

يہ كہ ابليس اعمال كو زينت ديكر لوگوں كو گمراہى كى جانب لے جاتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ انسان زيبائي اور زينت كو پسند كرتاہے اور انسانوں كى يہ پسنداور ميلان اُن كى رفتار و كردار پر اثر انداز ہوتى ہے_

۹_ابليس،انسانوں كى طرف سے اچھائيوں اور بُرائيوں كى صحيح پہچان كرنے ميں نانع بنتا ہے_لأ زيننّ لهم

۱۰_انسان ،(ہر وقت )ابليس كے بہكاوے كے خطرے سے دوچار رہتے ہيں _لا غوينّهم ا جمعين

۱۱_انسان ،القائات اور پروپيگنڈے سے متاثر ہونے والى مخلوق ہے_لا غوينّهم ا جمعين

ادمعليه‌السلام :ادم كے سامنے سجدہ نہ كرنے كے اثرات ۴

ابليس :ابليس كا اقرار ۳;ابليس كا بہكانا۱۰;ابليس كا عقيدہ ۲; ابليس كا كردار ۹;ابليس كى گمراہى كا پيش خيمہ ۴ ; ابليس كى سزا ۵;ابليس كى گمراہى ۱،۳;ابليس كى گمراہى كے اسباب ۵;ابليس كے بہكانے كا مكان ۷;ابليس كى فكر ۱، ۴; ابليس كے بہكانے كا طريقہ ۶;ابليس كے بہكانے كے اسباب ۱; ابليس كے سجدہ نہ كرنے كے اثرات ۴

اقرار :گمراہى كا اقرار ۳

الله تعالى :الله تعالى كى جانب سے گمراہى كے اثرات ۱،۵

۲۲۶

انسان :انسان كاتاثيرپذير ہونا ۱۱;انسان كا قابل گمراہ ہونا ۱۱; انسانوں كے ميلانات ۸;انسانوں كى خصوصيات ۱۱; انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۱۰; انسانوں كى گمراہى كے عوامل ۱

برائياں :برائيوں كو زينت دينے كے اسباب ۱

شناخت :شناخت كے موانع ۹

عصيان :خدا كے سامنے عصيان كى سزا ۵

عقيدہ :ربوبيت خدا كا عقيدہ ۲

عمل :ناپسنديدہ عمل كى تزئين كے اثرات ۶

گمراہي:گمراہى كے عوامل ۶

ميلانات :زيبائي كى جانب ميلان۸

آیت ۴۰

( إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ )

علاوہ تيرے ان بندوں كے جنھيں تو نے خالص بنا لياہے _

۱_ابليس نے اُن بندوں كو اپنى گمراہى واضلال سے مستثنى قرار ديا ہے كہ جن كو خداوند متعال نے ہر قسم كى الودگى سے پاك كيا ہوا ہے_لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين

مندرجہ مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''منھم'' عباد كے لئے حال ہو _مخلص صيغہ مفعول ہے اور ايسے شخص كو كہا جاتا ہے كہ جو ہر قسم كى الودگى سے پاك اور منزہ ہو چكا ہو_

۲_ہر قسم كى الودگى سے پاك ہونا اور خدا وند متعال كى بندگى اختيار كرنا ابليس كے بہكاوے سے بچنے كى شرط ہے_

الّا عبادك منهم المخلصين

۳_تمام انسان، حتى خد اكے خالص بندے بھى ابليس كے ذريعے بُرائيوں كى ارائش سے بہك جانے

۲۲۷

اور اُس كے فريب كے خطرے سے دوچارہيں _لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين

جملہ ''لا غوينّهم ا جمعين '' سے جملہ ''الّا عبادك منهم المخلصين '' مستثنى ہوا ہے نہ كہ جملہ ''لأ زيننّ لهم '' يعنى ابليس خدا كے خالص بندوں كو گمراہ كرنے سے عاجز ہے ليكن وہ سب كے پيچھے جاتا ہے اور سب كے دلوں ميں وسوسہ ڈالنے كى كوشش كرتا ہے _قابل ذكر ہے كہ سورہ اعراف كى آيت ۲۰۰ بھى اسى مطلب كى تائيد كر تى ہے كہ جو شيطان كى جانب سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بہكانے كے بارے ميں ہے (واما ينزغنّك من الشيطان نزغ فاستعذ بالله )_

۴_ابليس ،خلقت انسان كے اغاز سے ہى ادمعليه‌السلام و حوا كى نسل كے زيادہ ہونے اور اُن ميں سے اكثر كے اپنے بہكاوے ميں اجانے اور خدا كے خالص بندوں كے اپنے ورغلانے سے متاثر نہ ہونے سے اگا ہ تھا_

لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين

۵_خدا وند متعال كے خالص بندے اقليت ميں ہيں _الّا عبادك منهم المخلصين

چونكہ قاعدے كے مطابق مستثنى ،مستثنى منہ سے كمتر ہوتا ہے ورنہ استثنا ء غلط ہو گا _اس سے مذكورہ نكتہ اخذ ہوتا ہے_

ادمعليه‌السلام :نسل ادمعليه‌السلام كا زيادہ ہونا ۴

ابليس :ابليس كا علم ۴;ابليس كا ورغلانا ۳;ابليس كے ور غلانے سے بچنے كى شرائط ۲;ابليس كے ورغلانے كى حدود ۱

اخلاص:اخلاص كے اثرات ۲

اكثريت :اكثريت كا بہك جانا ۴

الله تعالى كے بندے :الله تعالى كے بندوں كا بہكاوے ميں نہ انا۱، ۲;الله تعالى كے بندوں كى كمى ۵

انسان :انسان كا بہكاوے ميں انا ۴;انسانوں كى گمراہى ۳;انسانوں كى لغزشيں ۴

عبوديت :عبوديت كے اثرات ۲

مخلصين :مخلصين كا بہكاوے ميں نہ انا ۱،۴;مخلصين كا كم ہونا ۵;مخلصين كا محفوظ ہونا ۱;مخلصين كے فضائل ۱

۲۲۸

آیت ۴۱

( قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ )

ارشادہوا كہ يہى ميرا سيدھا راستہ ہے _

۱_عبوديت اور ہر قسم كى الودگى سے پاك ہونا ہى خدا كاسيدھا راستہ ہے_

الّا عبادك منهم المخلصين_قال هذا صرط على مستقيم

۲_ابليس كا لوگوں كى اكثر يت كو بہكانے پر قادر ہونا اور خداوند متعال كے خالص بندوں كو گمراہ كرنے سے عاجز ہونا ،الہى قانون اور سنت ہے_الّا عبادك منهم المخلصين_قال هذا صرط على مستقيم

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''ھذا '' كا مشار اليہ ابليس كى جانب سے لوگوں كى اكثريت كا بہكاوے ميں انا اور خالص بندوں كا بہكاوے سے محفوظ رہنا ہواوركلمہ ''علّي'' ضمانت اور ذمہ دارى كا معنى ديتا ہے _اور مستقيم وہ چيز ہے كہ جس ميں كجى و انحراف پيدا نہيں ہوتا لہذا ''ھذا صرط عليّ مستقيم '' كا معنى يہ ہو گا: خدا كى جانب سے ايسا امر ايك ناقابل تغيير حكم ہے جسے اصطلاح ميں ''سنت '' كہا جاتا ہے_

۳_ لوگوں كو بہكانے كے لئے ابليس كى تمام كوشش اور قدرت ، خداوند متعال كى حاكميت اور قدرت كے تابع ہے_

هذا صرط عليّ مستقيم

جملہ '' ھذا صرط عليّ مستقيم ''ہو سكتا ہے ابليس كے جواب ميں كہا گيا ہو كہ جو اپنى انانيت كى وجہ سے لوگوں كو بہكانے كے عمل كو اپنے ساتھ منسوب كر رہا ہے ليكن خدا اس كے جواب ميں فرماتا ہے :ايسا نہيں بلكہ اُس كى يہ قدرت، قدرت الہى كے تابع ہے_

۴_''عن سلّام بن المستنير الجعفى قال: دخلت على ا بى جعفر عليه‌السلام ...قال: قلت:ما قول الله عزّوجلّ فى كتابه:''قال هذا صراط عليّ مستقيم'' قال:صراط على بن ا بى طالب عليه‌السلام .. . ;(۱) سلام بن مستنير جعفى سے منقول ہے كہ ميں امام باقرعليه‌السلام كي

____________________

۱)تفسير فرات ،ص۲۲۵، ح۱ ،مسلسل۲ ،۳; بحارالانوار ،ج۳۵، ص۳۷۲، ح۱۸_

۲۲۹

خدمت ميں حاضر ہوا اور ميں نے اما معليه‌السلام سے پوچھا : خداوند عزوجل نے اپنى كتاب ميں يہ جو فرمايا ہےكه''قال هذا صراط على مستقيم'' ،اس سے كيا مراد ہے؟اپعليه‌السلام نے فرمايا:يہ ،على ابن ابى طالبعليه‌السلام كا راستہ ہے ...''

ابليس :ابليس كا بہكانا ۲،۳

اخلاص:اخلاص كى اہميت ۱

اكثريت :اكثريت كا بہكاوے ميں اجانا۲

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت ۳;الله تعالى كى سنن ۲;الله تعالى كى قدرت ۳

الله تعالى كے بندے:الله تعالى كے بندوں كا بہكاوے ميں اجانا۲

امير المؤمنين :عليه‌السلام امير المؤمنينعليه‌السلام كے فضائل ۴

انسان:انسان كا بہكاوے ميں اجانا ۲

روايت :۴

صراط مستقيم :۱صراط مستقيم سے مراد ۴

عبوديت :عبوديت كى اہميت ۱

مخلصين:مخلصين كا بہكاوے ميں نہ انا ۲

آیت ۴۲

( إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ )

ميرے بندوں پر تيرا كوئي اختيار نہيں ہے علاوہ ان كے جو گمراہوں ميں سے تيرى پيروى كرنے لگيں _

۱_خداوند متعال، ابليس كے لوگوں كى اكثريت كو گمراہ كرنے پر مبنى دعوى كے جواب ميں اُس كے تسلط كى حدود كو فقط گمراہى كى پيروى كرنے والوں تك محدود قرار ديتا ہے_

لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك منهم المخلصين ...ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

۲۳۰

۲_ابليس ،خداوند متعال كے بندوں پر كسى قسم كا تسلط نہيں ركھتا اور نہ ہى اُن كو گمراہى پر مجبور كر سكتا ہے_

ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

اجبار اور زبر دستى كے ذريعے كسى چيز كے حصول كو''سلطان''كہتے ہيں _

۳_ ابليس كے ورغلانے اور تسلط پانے كے مقابلے ميں انسا ن كا ازاد،مختار اور اُس كى مخالفت كرنے پر قادر ہونا_

ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

۴_عبوديت اور بندگي،خداوندمتعال كے تقرب كاموجب اور ابليس كے تسلط سے نجات پانے كا سبب بنتى ہے_

ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

ممكن ہے يائے متكلم كى طرف ''عباد'' كے اضافہ ہونے سے بندگان خاص كاذكر مراد ہو_ لہذا مراد كو بيان كرنے والے ہر دوسرے كلمے كى جگہ كلمہ ''عباد'' كا ذكر مذكورہ حقيقت كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے_

۵_ابليس ،خدا كے مقرب اور خالص بندوں پر غلبہ پانے سے عاجز ہے_

الّا عبادك منهم المخلصين ...ان عبادى ليس لك عليهم سلطان

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''عبادي'' سے مراد ''عباد مخلص''ہو كہ جو''الّا عبادك منهم المخلصين '' ميں ايا ہے_جس كے مطابق خدا وند متعال ابليس كے خالص بندوں كو گمراہ نہ كرنے كے دعوى كے جواب ميں فرماتا ہے:''تم ميں اس قسم كا كام كرنے كى طاقت ہى نہيں ''_

۶_ابليس، فقط اُن لوگوں پر تسلط حاصل كر سكتا ہے جو اُس كى پيروى كرتے ہيں اور گمراہى كے قابل ہيں _

ليس لك عليهم سلطان الّامن اتبعك من الغاوين

۷_ابليس كے بہكاوے ميں انا ،اُس كے تسلط كو قبول كرنے كا پيش خيمہ بنتا ہے_

لا غوينّهم ا جمعين_الّا عبادك ليس لك عليهم سلطان الّامن اتبعك

۸_ ابليس كے پيروكار،گمراہ لوگ ہيں _الّامن اتبعك من الغاوين

''من الغاوين '' ،''اتبع'' كى فاعلى ضمير كے لئے حال ہے اور''الغاوين '' ،''غيّ'' ( فاسد عقيدے) كے مصدر سے ہے جو ايسے لوگوں كو كہ

۲۳۱

جاتا ہے جوفاسدعقيدہ ركھتے ہوں _

۹_انسان، خود ابليس كے تسلط اور بہكاوے كا سبب فراہم كرتا ہے_الّامن اتبعك من الغاوين

۱۰_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام فى قوله عزّوجلّ:''ان عبادى ليس لك عليهم سلطان'' ...ليس له على هذه العصابة خاصة سلطان،قال:قلت:وكيف جعلت فداك وفيهم مافيهم؟قال:ليس حيث تذهب،انما قوله:'' ليس لك عليهم سلطان''ا ن يحبب اليهم الكفر ويبغض اليهم الايمان ;(۱) حضرت امام صادق عليہ السلام سے خداوند عزوجل كے كلام ''ان عبادى ليس لك عليھم سلطن''كے بارے ميں منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:ابليس كو فقط اس خاص گروہ (شيعہ) پر كسى قسم كا تسلط حاصل نہيں _راوى كہتا ہے ،ميں نے امامعليه‌السلام سے عرض كى :ابليس كيسے شيعوں پر تسلط نہيں ركھتا جبكہ شيعوں ميں بھى گناہگار پائے جاتے ہيں ؟امامعليه‌السلام نے فرمايا:ايسا نہيں كہ جيسا تم سوچ رہے ہو بلكہ خدا كے فرمان ''ليس لك عليھم سلطن''سے مراد يہ ہے كہ ابليس، كفر كو اُن كى نظروں ميں پسنديدہ اور ايمان كو ناپسنديدہ نہيں بنا سكتا _

۱۱_''عن جابر عن ا بى جعفر عليه‌السلام قال:قلت ا را يت قول الله :''ان عبادى ليس لك عليهم سلطان''ماتفسيرهذا؟قال:قال الله :انك لاتملك ا ن تدخلهم جنة ولاناراً ;(۲) جابر كہتے ہيں ميں نے امام باقر عليہ السلام سے عرض كى :مجھے خدا كے كلام''ان عبادى ليس لك عليهم سلطان'' كے بارے ميں بتايئے كہ اس كى تفسير كيا ہے؟امامعليه‌السلام نے فرمايا:خدا فرماتاہے :بتحقيق تو اُنہيں نہ بہشت ميں داخل كرسكتا ہے نہ جہنم ميں _

ابليس :ابليس سے نجات كے عوامل ۴;ابليس كا ادعا۱ ; ابليس كابہكانا۱;ابليس كاتسلط جن كے شامل حال ہے ۱،۶ ;ابليس كاناتوان ہونا ۲،۵;ابليس كے بہكاوے ميں انے كے اثرات ۷; ابليس كے پيروكا ر ۱; ابليس كے ورغلانے كا پيش خيمہ ۹; ابليس كے پيروكاروں كى گمراہى ۸; ابليس كے تسلط سے محفوظ رہنا۵;ابليس كے تسلط كاپيش خيمہ ۷،۹; ابليس كے تسلط كى نفى ۲،۱۰،۱۱;ابليس كے تسلط كى حدود ۳

الله تعالى كے بندے:اُن كا محفوظ رہنا ۲

____________________

۱)معانى الاخبار ،ص۱۵۸،ح۱;نورالثقلين ،ج۳،ص ۱۵ ، ح۵۴_

۲)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۴۲،ح۱۶ ; نور الثقلين ،ج۲، ص ۱۶،ح۵۶_

۲۳۲

انسان:انسان كااختيار ۲،۳;انسان كا كردار ۹;انسان كى قدرت ۳

تقرب:خدا كے تقرب كے عوامل ۴

جبر واختيار :۲

روايت :۱۰،۱۱

شيعہ :شيعوں كے فضائل ۱۰

عبوديت :عبوديت كے اثرات ۴

گمراہ لوگ :۸

مخلصين :مخلصين كا محفوظ ہونا ۵;مخلصين كا ناقابل گمراہ ہونا ۵

مقربين :مقربين كامحفوظ ہونا۵;مقربين كاناقابل گمراہ ہونا ۵

آیت ۴۳

( وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ )

اور جہنّم ايسے تمام لوگوں كى آخرى وعدہ گاہ ہے _

۱_جہنم ،ابليس كے تمام گمراہ پيروكاروں كى وعدہ گا ہ ہے_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين

۲_ابليس كے گمراہ پيروكاروں كو خداوندمتعال كادھمكى اميز طور پر خبردار كرنا_

الّامن اتبعك من الغاوين وان جهنّم لموعدهم ا جمعين

۳_ جہنم ميں گرفتار ہونے كے اسباب ميں سے ابليس كى پيروى كرنا اور گمراہ ہونا ہے_الّامن اتبعك ...وان جهنّم لموعدهم

۴_''عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله:''ان جهنّم لموعدهم ا جمعين''فوقوفهم على الصراط (۱) حضرت امام باقر سے خداوند عزوجل كے فرمان:''ان جهنّم لموعدهم اجمعين''

____________________

۱)_تفسير قمى ،ج۱،ص۳۷۶،;نورالثقلين ،ج۳، ص۱۷، ح۶۰_

۲۳۳

كے بارے ميں منقول ہے كہ اس سے مراداُن كا صراط پر توقف كرنا ہے_

ابليس :ابليس كى پيروى كے اثرات۳;ابليس كے پيروكار جہنم ميں ۱;ابليس كے پيروكاروں كى وعدہ گاہ ۱،۴;ابليس كے پيروكاروں كے لئے وعيد ۲

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے وعيد۲

جہنم :جہنم كے موجبات ۳جہنمى لوگ :۱

روايت :۴

گمراہى :گمراہى كے اثرات ۳

آیت ۴۴

( لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ )

اس كے سات دروازے ہيں اور ہر دروازے كے لئے ايك حصّہ تقسيم كرديا گياہے _

۱_جہنم كے سات دروازے ہيں _لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۲_گمراہوں كے ہر گروہ كے جہنم ميں داخل ہونے كے لئے ايك مخصوص دروازہ ہے_

من الغاوين_وان جهنّم لموعدهم ...لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۳_سات دروازوں والى جہنم كہ جس كے نچلے طبقات ہيں اور گمراہوں كا ہر گروہ ايك مخصوص طبقے اور مشخص حصے ميں ہوگا_لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''ابواب '' سے اُن كا كنائي معنى مراد ہو ;چونكہ ہر دروازہ عام طور پر ايك خاص مكان كى طرف كھلتا ہے اور كسى مستقل جگہ تك لے جاتا ہے _اس مطلب كى تائيد بعد والى عبارت سے بھى ہوتى ہے كہ جس ميں ہر دروازہ گمراہوں كے ايك گروہ كے لئے معين كيا گيا ہے_

۲۳۴

۴_دنيا ميں سات ايسے غلط راستے اور جرائم ہيں كہ جو جہنم تك لے جاتے ہيں _

ان جهنّم ...لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۵_جہنم ميں مختلف درجات (طبقات)اورشديد وخفيف قسم كے گوناگوں عذاب موجود ہيں _

لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ايت ميں ''سبعہ '' سے كثرت كے لئے كنايہ مراد ہو اور جہنم كے عذابوں كے مختلف اور شديد وخفيف ہونے كى طرف اشارہ ہونہ كہ ايك مشخص عدد مراد ہو_

۶_ہر گناہ، اپنى متناسب سزااور عذا ب كا حامل ہے_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين _لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

يہ جو كہا گيا ہے كہ :''گمراہوں كے ہر گروہ كے لئے جہنم ميں ايك مخصوص دروازہ يا طبقہ ہوتا ہے_''اس سے معلوم ہوتا ہے كہ گناہ بھى مختلف اور اپنى متناسب سزا ركھتے ہيں _

۷_انسان كى عاقبت ميں اُس كا عقيدہ اور عمل اہم كردار ادا كرتے ہيں _

الّامن اتبعك من الغاوين_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين _لها سبعة ا بوب لكلّ باب منهم جزء مقسوم

۸_''عن ا ميرالمو منين عليه‌السلام :ان جهنّم لها سبعة ا بواب ا طباق بعضها فوق بعض او وضع احدي، يديه على الاُخرى فقال:هكذا وان الله وضع النيران بعضها فوق بعض فا سفلها جهنّم وفوقها لظى وفوقها الحطمة وفوقها سقر وفوقها الجحيم وفوقها السعير وفوقها الهاوية; (۱) حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جہنم كے سات دروازے اور طبقے ہيں _اُن ميں سے ہر ايك دوسرے كے اوپر قائم ہے_ امامعليه‌السلام نے ان طبقات كى كيفيت بتاتے ہوئے اپنا ايك ہاتھ دوسرے ہاتھ پر ركھا اور فرمايا:ايسے اور پھرمزيد فرمايا :بتحقيق خدا نے ...اگ كواگ پر قرار ديا ہے اُس كا نچلا طبقہ'' جہنم ''اوراُس سے اوپر والا طبقہ ''لظى ''اور اسكے بعد والا''حطمہ''اور اس سے بھى اوپر ''سقر'' اسكے بعد ''جحيم''اور اس كے بعد ''سعير'' اور اخر ميں ''ھاويہ '' ہے_

۹_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام عن ا بيه،عن جدّه عليه‌السلام قال:للنار ...باب يدخل منه فرعون وهامان وقارون وباب يدخل منه المشركون والكفار ...وباب يدخل منه بنواّميّه ...وباب يدخل منه مبغضونا ومحاربونا وخاذلونا وانه لا عظم الا بواب وا شدها حرّاً ;(۲) امام سجادعليه‌السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:اگ ...كا ايك دروازہ ہے كہ جس سے فرعون ،ھامان اور قارون داخل ہوں گے اور ايك دوسرا دروازہ ہے كہ جس سے مشركين اور

۲۳۵

كفارداخل ہوں گے_اسى طرح ايك دروازے سے بنى اُميہ داخل ہوں گے ايك دروازے سے وہ لوگ داخل ہوں گے جواپنے دل ميں ہمارا بغض ركھتے ہيں اور ہمارے ساتھ جنگ كرتے ہيں اور ہمارى مدد نہيں كرتے اور يہ سب سے بڑا اور سب سے زيادہ جلانے والا دروازہ ہو گا_

۱۰_''عن النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى قوله''لكلّ باب منهم جزء مقسوم''قال:ان من ا هل النار من تا خذه النارالى كعبيه،وان منهم من تا خذه النارالى حجزته، ومنهم من تا خذه الى تراقيه منازل با عمالهم،فذلك قوله:'' ...لكلّ باب منهم جزء مقسوم'' ;(۳) حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خدا كے كلام :''لكلّ باب منهم جزء مقسوم'' كے بارے ميں منقول ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:بعض اہل اتش وہ لوگ ہيں كہ جنہيں ٹخنوں تك اگ جلائے گى _بعض كوكمر تك اور بعض كو گلے تك _يہ وہ منازل اور مراتب ہيں كہ جو اہل اتش كے مختلف اعمال سے تعلق ركھتے ہيں اسى لئے خدا وندمتعال نے فرماياہے:لكلّ باب منهم جزء مقسوم ...'' _

۱۱_''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى قوله تعالى :''لكلّ باب منهم جزء مقسوم'': جزء ا شركوابالله ،وجزء شكّوا فى الله وجزء غفلوا عن الله ;(۴) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خداوند متعال كے فرمان :''لكلّ باب منهم جزء مقسوم'' كے بارے ميں فرمايا:ايك گروہ نے خدا سے شرك كيا ،ايك گروہ نے خدا ميں شك كيا ہے اور ايك گروہ خدا سے غافل رہا ہے(يہى جہنم كے دروازوں كے لئے تقسيم شدہ گروہ ہيں )_

اعداد:سات كا عدد ۱،۳،۴

جرم :جرم كا انجام ۴;جرم كى اقسام ۴

جہنم :جہنم كى اگ ۱۰;جہنم كے دروازوں كى تعداد ۱ ; جہنم كے عذاب كى مختلف اقسام ۵;جہنم كے دركات ۳،۵، ۸ ;جہنم كے دروازے ۲،۸ ، ۹ ; عذاب جہنم كے مراتب ۵

جہنمى لوگ:ان كى اقسام ۱۰،۱۱;ان كے داخل ہونے كى كيفيت ۹

____________________

۱)مجمع البيان ،ج۶،ص ۵۱۹;نورالثقلين ،ج۳،ص ۱۹، ح۶۴_

۲)خصال صدوق ،ج۲،ص۳۶۱ ،ح۵۱; نور الثقلين ،ج۳، ص۱۸،ح۶۳_

۳)الدرالمنثور ،ج۵،ص۸۲_۴)الدرالمنثور ،ج۵،ص۸۳_

۲۳۶

خطا:خطا كا انجام ۴;خطا كى اقسام ۴

روايت :۸،۹،۱۰،۱۱

سزا:سزا كا گناہ كے ساتھ تناسب ۶;سزا و جزا كا نظام ۶

عاقبت:عاقبت ميں موثر عوامل ۷

عقيدہ :عقيدہ كے اثرات ۷

عمل :عمل كے اثرات ۷

گمراہ لوگ :ان كا جہنم ميں ہونا۳;ان كے جہنم ميں داخل ہونے كى كيفيت ۲

آیت ۴۵

( إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ )

بيشك صاحبان تقوى باغات اور چشموں كے درميان رہيں گے_

۱_بہشت كے باغات اور چشموں سے بھرے مقامات متقين كا ٹھكانہ ہيں _ان المتقين فى جنت وعيون

۲_بہشت كى نعمتوں سے بہرہ مند ى كا سبب، تقوى ہے_ان المتقين فى جنت وعيون

۳_متقين كى بہشت ،مختلف باغات اور گوناگوں چشموں كى حامل ہوگي_ان المتقين فى جنت وعيون

۴_متقين ،خدا كے خالص بندے اور ابليس كے وسواس اور تسلط سے نجات يافتہ(لوگ) ہيں _

ان المتقين فى جنت وعيون

گذشتہ ايات ميں لوگوں كو دو گروہوں ميں تقسيم كيا گيا ہے:۱_ابليس كے گمراہ پيروكار ;۲_خدا كے خالص بندے _اس كے بعد پہلے گروہ كا قيامت ميں مقام واضح كياگياہے _اس ايت ميں دوسرے گروہ كا انجام بيان كيا گيا ہے اور اُن كے

۲۳۷

لئے ''مخلصين ''كے بجائے ''متقين '' كى تعبير استعمال ہوئي ہے جس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۵_متقين كے سعادت مندانہ انجام كے ساتھ ساتھ گمراہوں كے بُرے انجام كا تذكرہ ،قران كے ہدايت كرنے كے اسلوب ميں سے ايك طريقہ ہے_الغاوين_وان جهنّم لموعدهم ا جمعين___ان المتقين فى جنت وعيون

الله تعالى كے بندے:۴

اہل بہشت :۱

بہشت:بہشت كے باغات ۱;بہشت كے باغات ميں تنوع ۳;بہشت كے چشموں ميں تنوع ۳;بہشتى چشمے ۱;موجبات بہشت۲;نعمات بہشت۲،۳

تقوى :تقوى كے اثرات ۲

قران :قرانى تعليمات كا طريقہ ۵;قرانى ہدايت كا طريقہ ۵

گمراہ لوگ :ان كے انجام كا بيان ۵

متقين :متقين كى بہشت كى خصوصيات ۳;متقين كا اخلاص ۴;متقين بہشت ميں ۱;متقين كا محفوظ ہونا ۴ ;متقين كے انجام كا بيان ۵; متقين كے فضائل ۴

مخلصين :۴

ہدايت:ہدايت كا طريقہ۵

آیت ۴۶

( ادْخُلُوهَا بِسَلاَمٍ آمِنِينَ )

انھيں حكم ہوگا كہ تم ان باغات ميں سلامتى اور حفاظت كے ساتھ داخل ہوجائو _

۱_متقين كوسلامتى ،مكمل امنيت اور ہر قسم كے دكھ درد اور ناامنى و ناراحتى كے بغير بہشت ميں داخل ہوجانے كى دعوت_

ادخلوها بسلم ء امنين

''بسلام'' ميں ''با'' بمعنى ''مصاحبت ''استعمال ہوئي ہے_

۲_متقين كوبہشتى باغات كے ہر حصے ميں داخل ہونے كى اجازت ہے_ادخلوها بسلم ء امنين

۲۳۸

يہ كہنے كے بعد كہ ''متقين بہشت ميں رہيں گے '' جملہ ''ادخلوھا''كو شايد اس لئے ذكر كيا گيا ہے كہ وہ بہشت كے مختلف حصوں ميں ازادى كے ساتھ رہنے كے بارے ميں شك وترديد ميں مبتلا ہوں گے لہذا اُنہيں كہا جائے گا كہ ''تم سلامتى اور امنيت كے ساتھ بہشت كے ہر حصے ميں داخل ہو سكتے ہو''_

۳_متقين ،سلام و تحيت اور خوش امديد كے ساتھ بہشت ميں داخل ہوں گے_ادخلوها بسلم ء امنين

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''سلام '' سے وہى سلام اور درود مراد ہو كہ جو عام طور پر مسلمانوں كى ثقافت كا حصہ ہے_

۴_تقوى ،اخرت ميں مكمل سلامتى اور امنيت كے ساتھ سعادتمندانہ انجام كا پيغام ديتا ہے_

ان المتقين فى جنت ...ادخلوها بسلم ء امنين

۵_انسانوں كے نزديك سلامتى اور امنيت كى بہت زيادہ اہميت اور قدرو منزلت ہے_يہ كہ خداوند عالم نے متقين كى بہشت ميں پہلى پاداش سلامتى اور امن كو قرار ديا ہے او انسانوں كو اس كى نويد دى ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_ادخلوها بسلم ء امنين

۶_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام :ان ا ميرالمو منين عليه‌السلام لمّابويع ...صعد المنبر فقال: ا يّها الناس ا لا وان التقوى مطاياذلل حمل عليهاا هلهاواعطوا ا زمتّها فا وردتهم الجنة وفتحت لهم ا بوابها و وجدوا ريحها و طيبها وقيل لهم:''ادخلوهابسلام امنين'' ;(۱) امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جب امير المؤمنينعليه‌السلام كى بيعت ہو گئي تو اس كے بعد اپعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا:اے لوگو اگاہ رہو كہ تقوى ايسى مطيع سواريوں كى مانند ہے جن پر اُن كے اہل انسان سوار ہو جاتے ہيں اور اُن كى زمام اُن كے ہاتھ ميں ہوتى ہے اور وہ سوارياں اپنے سواروں كو بہشت ميں داخل كر ديتى ہيں اور اُس كے دروازے اُن سواروں كے لئے كھول ديئے جاتے ہيں اوروہ بہشت كى ٹھنڈى ہوائوں اور خوشبو ئوں كے جھونكے محسوس كرنے لگتے ہيں اور اُن سے كہا جاتا ہے:ادخلوهابسلام امنين ''

امنيت :

____________________

۱_كافى ،ج۸،ص۶۷،ح۲۳;نور الثقلين ،ج۳ ، ص۱۹ ،ح۶۷_

۲۳۹

اُخروى امنيت كے عوامل ۴;امنيت كى اہميت ۵

بہشت :بہشت كى طرف دعوت ۱

بہشتى لوگ :۱

تقوى :تقوى كے اثرات ۴،۶

روايت :۶

سعادت :اُخروى سعادت كے عوامل ۴

سلامتى :اُخروى سلامتى كے عوامل ۴;سلامتى كى اہميت ۵

متقين :بہشت ميں متقين پر سلام ۳;بہشت ميں متقين كى ازادى ۲;متقين كو دعوت ۱;بہشت ميں متقين كى سلامت ۱;متقين كى بہشت ميں امنيت ۱;متقين كے بہشت ميں داخل ہونے كى كيفيت ۳،۶

آیت ۴۷

( وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ )

اور ہم نے ان كے سينوں سے ہر طرح كى كدورت نكال لى ہے اور وہ بھائيوں كى طرح آمنے سامنے تخت پر بيٹھے ہوں گے _

۱_خداوند متعال، بہشت ميں متقين كے دلوں سے ہر قسم كا كينہ اور عداوت نكال دے گا _

ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ ''غل'' كا لغوى معنى دشمني، عداوت اور كينہ ہے

۲_متقين، بہشت ميں دوستا نہ اور ہر قسم كى ملاوٹ سے پاك تعلقات ركھيں گے_

ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ ''غل '' كاايك لغوى معنى ملاوٹ اور ناخالصى ہے_

۳_انسان ميں دشمنى اور كينے كا مقام اُس كا سينہ ہے_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

۴_بہشت ميں انسان ،جسمانى حيثيت سے حاضر ہونگے_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونًاعلى سرر متقبلين

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296