اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق26%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178009 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

حضرت علی ـ ایمان کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''کچھ ایمان دل کے اندر ثابت ہوتے ہیں اور کچھ، دل اور سینہ کے درمیان، مرتے وقت تک بطور عاریت اور ناپائدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے بیزار ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اس کی موت آجائے۔ اس وقت میں اس سے بیزار ہونا بر محل ہوگا۔(١)

ثانیاً:

ایمان کی حقیقت کے مراتب اور درجات ہیں اور اس میں نقصان اورکمی کا بھی امکان ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نے اس حقیقت پر تاکید کرنے کے علاوہ ایمان کو زیادہ کرنے یا اس کے کم ہونے کے اسباب کو بھی کثرت سے بیان کیا ہے، منجملہ ان کے قرآن کریم میں آیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیں جن کے دل اس وقت ڈرنے اور لرزنے لگتے ہیں جب خدا کا ذکر ہوتا ہے اور جب اُن پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تواُن کاایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـنے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا: ''اے عبدالعزیز! حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں سیڑھی کی طرح کہ اسے زینہ بہ زینہ طے کرنا چاہئے اور بلندی پر پہنچنا چاہئے۔ لہٰذا جس کا ایمان دوسرے درجہ پر ہے اسے پہلے درجہ والے مومن سے نہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے پاس ایمان نہیں ہے اور اسی طرح تیسرے درجہ والا دوسرے درجہ والے کو یہاں تک کہ دسویں درجہ والے تک کو بھی یہی چاہئے کہ ایسا نہ کہے اور جس کا ایمان تم سے کم ہے اسے ایمان سے جدا (بغیر ایمان کے) نہ سمجھو اگر ایسا ہواتو جس کا ایمان تم سے بڑھ کر ہوگا اسے چاہئے کہ وہ تم کو ایمان سے جدا سمجھے۔ بلکہ اگر کسی کو اپنے سے کم دیکھو تو تمہیں چاہئے کہ اسے مہر ومحبت کے ساتھ اپنے درجہ تک لے آئو اور جو کچھ اس سے ممکن نہ ہو اسے اس پر بار نہ کرو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور حق کی قسم اگر کوئی کسی مومن کی دل شکنی کر ے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا جبران کرے اور اس کی دلجوئی کرے۔(٣) شیخ صدوق کتاب خصال میں اس روایت کے تما م ہونے پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقداد ایمان کے آٹھویں درجہ پر، ابوذر نویں درجہ پر اور سلمان دسویں درجہ پر فائز تھے۔ البتہ اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ اس روایت میں ایمان کے دس درجہ کو معین کرنا صرف دس مرتبہ تک منحصر کردینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف ایمان کے درجات کی کثرت کو بیان کرنا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری روایتوںمیں ایمان کے لئے کمتر یا بیشتر درجات بھی بیان کئے گئے ہیں۔(۴)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خ١٨٩ چاپ انصاریان ص: ٣٦٨۔٢۔ سورۂ انفال آیت٢ ۔ سورۂ توبہ آیت ١٢٤۔ مدثر٣١، آل عمران ١٧١تا١٧٣۔ احزاب ٢٢کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ کلینی: کافی، ج: ٢ص٤٥، ح٢؛ صدوق، خصال، ص٤٤٧، ح٤٨۔۴۔ رجوع کیجئے: صدوق: خصال، ص٣٥٢، ح٣١، کلینی: کافی، ج٢، ص٤٢، ح١، جن میں ایمان کے لئے سات درجہ بیان کئے گئے ہیں۔ تفسیر عیاشی، ج١، ص٢٠٥، ح١٠٥، درجات کو زمین وآسمان کے درمیان کے فاصلہ سے بیان کیا ہے۔

۶۱

٤ ۔ ایمان کے متعلقات

اسلام کے اخلاقی نظام میں، ایمان کس چیز کے ذریعہ سے ہدایت، اخلاقی فضائل کی آراستگی اور معنوی رفتار کا سبب بنتا ہے ؟ قرآن کریم اورمعصومین (ع) کی سیرت میں ایمان کے اصلی ترین متعلقات کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ عالم غیب پر ایمان :

قرآن کریم نے غیب اورغیبی طاقتوں یعنی ملائکہ (وغیرہ) پر ایمان کو کتاب الٰہی سے بہرہ مند ہونے اور ہدایت پانے کی شرطوں میں سے شمار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہورہاہے:

''یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شک نہیں اور یہ ان متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں .....''(۱)

عالم غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جنہیں ظاہری حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلی سیر اور باطنی شہود کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکتی ہے، اصولی طور پر ایمان سے مشرف ہونے اور کفر والحاد دومادہ پرستی کی غلاظت و گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے غیب اور غیبی حقیقتوں، قوتوں اورامدادوںپر اعتقاد رکھنا ایک شرط ہے۔(۲)

صرف اسی شرط کے تحت حصول کے ذریعہ کتاب ہدایت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے نور کے پرتو میں کامیابی کی منزلوں کو طے کیا جاسکتا ہے۔

____________________

۱۔ سورۂ بقرہ، آیت٢۔

۲۔ سورۂ بقرہ، آیت: ١٧٧ ، ٢٨٥۔

۶۲

دو۔ خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان:

قرآن کریم متعدد آیتوں میں خدا وند متعال پر ایمان کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے: ''بس خدا اور اس کے پیغمبر اور اس نور پرجسے ہم نے نازل کیا ہے ایمان لائو اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔،،(١)

رسول خدا نے ایمان کی علامتوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:

'' ایمان کی نشانیاں چار ہیں: خدا کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کی کتاب پر ایمان اور خدا کے پیغمبروں پر ایمان۔، ،(٢)

تین۔ قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان:

قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان اخلاق اسلامی کی افادیت اور اس کے اجرا ہونے کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم نے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قیامت اور اس کی کیفیت پر کی ہے۔ جیسے قبر میں ہونے والے سوالات، عذاب قبر، قیامت کا دن اور قیامت کا حساب و کتاب، اعمال کو پرکھنے کے لئے میزان کا وجود، پل صراط سے عبور اور جنت و جہنم پر اعتقاد و ایمان۔ ذیل میں بعض آیتوں اور روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:

'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو لوگ یہودی ، صائبی اور عیسائی ہیں ان میں جو خدا و قیامت پر واقعاً ایمان لائے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔(٣)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

'' ایمان یہ ہے کہ انسان دین حق کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعضاء بدن سے اس کے فرائض کو انجام دے اور عذاب قبر، منکر و نکیر، موت کے بعد زندہ ہونے، حساب و کتاب، صراط اور میزان کو قبول کرے اور اگر خدا کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو تو ایمان موجو د نہیں ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ تغابن، آیت: ٨۔ اسی طرح سورئہ اخلاص آیت: ١، سورئہ بقرہ، آیات ١٣٦ ، ٢٨٥۔ سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤۔ سورئہ مائدہ، آیات ٦٩، ١١١۔ سورئہ نساء آیت: ١٣٦، ١٦٢۔ سورئہ انعام، آیت: ٩٢۔ سورئہ شوریٰ، آیت: ١٥ کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص: ١٩۔

٣۔ سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ اسی طرح سورئہ بقرہ، آیت: ٤، کی طرف رجوع کیجئے۔

٤۔ صدوق: خصال، ص: ٦٠٩ ، ح٩۔

۶۳

دوسری حدیث میں پیغمبر خدا کی فرمائش کے مطابق جنت وجہنم پر ایمان بھی معاد کے دو اہم رکن ہیں۔(١)

اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں معاد اور اس کے اساسی ارکان پر ایمان، رہنمائی کرنے والے دو اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چار۔ انبیاء (ع) کی رسالت اور آسمانی کتابوں پر ایمان:

دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے اور دین بالخصوص اخلاق اسلامی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے انسان کا یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنے صحیح کمال اور سعادت کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لئے مناسب وسیلوں اور طریقوں کو انتخاب کرنے میں عاجز اور قاصر ہے، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ قطعی طور پر جسے بھی اس حقیقت میں شک ہے وہ انبیاء کی رسالت اور ان کی دعوت کے مطالب پر ایمان و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا اور اسی کے ساتھ اعتماد اور اطمینان کے بغیر کسی کی خیر خواہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔

اس وجہ سے اخلاق اسلامی میں رسولوں کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سبھی انبیاء صرف ایک رسالت اور ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے تھے لہٰذا ان تمام انبیاء پر ایمان رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''خدا کے پیغمبر اُن کے پرور دگارکی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا اور فرشتے اور کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کریں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے پرورد گار! ہم تیری بخشش کے محتاج ہیں اور ہم کو تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے، ،۔(٢)

پانچ۔ امامت اور ائمہ (ع) پر ایمان:

شیعوں کے اصول عقائد کے مطابق امامت پر ایمان رکھنا اخلاق اسلامی کی بنیادوں اور کامیابی کی شرطوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ حدیثی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں۔

____________________

١۔رجوع کیجئے: بیہقی: شعب الایمان، ج: ١، ص: ٢٥٧، ح: ٢٧٨۔

٢۔ سورئہ بقرہ، آیت: ٢٨٥، ١٣٦۔ اور اسی طرح سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤ کی طرف رجوع کیجئے۔

۶۴

ان روایتوں کے علاوہ یہ بات قرآن کے ذریعہ اور اس کی تفسیر کے سلسلہ میں مسلّم الثّبوت تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے:

الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِسْلاَمَ دِینًا (١)

''آج کفّار تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیںلہٰذا ان سے خوف نہ کھاؤ۔ اور مجھ سے خوف کھاؤ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے ۔ ''

اس آیت کے سلسلہ میں دو سوال قابل غور ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ خاص دن کون سا دن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ واقعہ جو اس دن رونما ہوا اور اکمال دین اور بندوں پر خدا کی نعمت کے تمام ہونے کا سبب بنا، کیا تھا؟ نا قابل انکار تاریخی شواہد اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک وہ ١٨ ذی الحجہ ١٠ ہجری کا دن تھا اور وہ واقعہ اس دن غدیر میں پیش آیا وہ پیغمبر کی طرف سے حضرت علی ـ کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کر نا اور سلسلۂ امامت کا شروع ہونا تھا۔(٢)

ہم انبیاء (ع) کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان کی ضرورت کو اصطلاح میں دین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی روشنی میں امامت کا سلسلہ دین کی تکمیل کے لئے ہے اور اس کے بغیر دین ناقص رہے گا لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں امامت پر ایمان بھی ایک لازمی بات ہے اور اخلاق اسلامی کے مستحکم اور مضبوط پایوں میں شمار ہوتا ہے۔

٥۔ایمان کی شرط

قرآن و راویات کے مطابق نیک عمل کا انجام دینا ایمان کی بہترین شرط ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو نیک عمل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اکثر آیتوں میں ایمان کے بعد بلا فاصلہ پسندیدہ اور صالح عمل کی گفتگو ہوئی ہے۔اگر چہ نیک عمل ایمان کے بنیادی عناصر میں سے نہیں ہے لیکن نیک عمل کے بغیر ایمان سے مطلوب اور مناسب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس بنا پر شائستہ اور نیک عمل کو ایمان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے شرط کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔

____________________

١۔سورہ ٔ، مائدہ، آیت: ٣۔

٢۔ مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی کتاب '' الغدیر، ، کی طرف رجوع کریں۔

۶۵

قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے:

'' اور جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کو انجام دے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور ہم بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہیں گے''(١) قرآن مجیدنے نیک عمل کے بغیر، مومن ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے:

''اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے پیغمبر پر ایما ن لائے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض لوگ منھ پھیر لیتے ہیں اور وہ لوگ واقعاً مومن نہیں ہیں۔، ،(٢) حضرت علی ـنے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:

'' جو خدا کے احکام پر عمل کرتا ہے فقط وہی مومن ہے۔، ،(٣) اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں خدا کے احکام کی پابندی کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا جھوٹ اور فریب ہے مگر یہ کہ مومن شخص عمل کرنے کی قدرت اور موقع نہ رکھتا ہو۔

٦۔ ایمان کے اسباب

دینی کتابوں میں ایمان کے وجود میں آنے، اور اس کے ثبات و کمال کے لئے مختلف عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض معرفت وشناخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم، عقل اور دین میں غور و فکر کرنا۔یہ سب ایمان کے نظری مقدمات کو فراہم کرتے ہیں اور وہ عوامل علم کلام میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے عوامل ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے نفسیانی صفت اور ملکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے تقویٰ، راہ خدا میں دوستی اور دشمنی، صبر، توکل، رضا وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں جو انسان کے عمل سے مربوط ہیں۔ جیسے انفاق، نماز کے لئے اہتمام کرنا، دوسروں کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ۔

خاص نظری معارف جیسے دین میں غور وفکر، انسان کی مختلف نفسیانی صفتیں اور اعمال، ایمان کی آفرینش اور اس کے ثبات و کمال میں مؤثر ہوسکتے ہیں اور یہ بات اس حقیقت سے نہیں ٹکراتی ہے کہ ایمان اپنے لحاظ سے عمل صالح کی انجام دہی کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور بہت سے نفسانی ملکات اور صفات کے وجود میں لانے کا موجب قرار پاتا ہے اور یہاں تک کہ انسان میں بعض نظری معارف کی پیدائش کے لئے باعث بنتا ہے۔ کیونکہ انسانی وجود کے تینوں شعبوں کے درمیان آپس میں تثیر اور تثر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایمان ایک واضح نفسانی حالت کی حیثیت سے دوسرے شعبوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے تثیر بھی قبول کرتا ہے۔

____________________

١۔ سورئہ کہف، آیت: ٨٨۔ اسی طرح سورئہ طہٰ، آیت: ٨٢۔ سورئہ فرقان، آیت: ٧٠۔ سورئہ قصص، آیت: ٦٧۔ سورئہ انفال، آیت: ٣ ،٤۔ سورئہ نسائ، آیت: ٦٥۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧ کی طرف رجوع کریں۔ ٢۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج: ٢، ص: ٣٨ ،ح: ٤۔

۶۶

٧۔ایمان کے فوائد

یہ آثار اور فوائدایمان کے اسباب اور موجبات کی طرح علمی ماہیت بھی رکھتے ہیں۔ اور نفسانی حالات بھی اور بعض اعمال و عادات سے بھی متعلق ہیں۔ یہاں ان میں سے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

ایک۔ روحی تسکین:

انسان کے لئے اہم لذتوں میں سے ایک نفسانی تسکین اور اس کا آرام پانا ہے۔ بنی آدم کے لئے پریشانی اور اضطراب، سب سے بڑی تکلیف اور بہت سی گمراہیوں اور نا کامیوں کاسبب ہے۔ انسانی کوششیں اس جانکاہ درد سے نجات پانے کے لئے اس بارے میں تلخ تجربہ کی نشاندہی کررہی ہیں۔ خداوند متعال کی نظر میں انسان کو ایمان کے سایہ میں آرام و سکون میسّر ہوگا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

''وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب کو سکون دیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ( ایمان کا ) اضافہ کریں، ،۔(١)

''باخبر رہو کہ خدا کے دوستوں کے لئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور پرہیز گاری سے کام لیتے ہیں۔(٢)

خدا نے اس سے زیادہ واضح انداز میں قلبی سکون واطمینان کو اپنے ذکر اور یاد کے ذریعہ قابل تحصیل بتایا ہے اور اس سلسلہ میں وہ فرماتا ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے قلوب یاد خدا سے سکون حاصل کرتے ہیں آگاہ رہو کہ یاد خدا سے ہی دلوں کو آرام ملتا ہے۔، ،(٣)

____________________

١۔ سورئہ فتح، آیت: ٤۔

٢۔سورئہ یونس، آیت: ٦٢ ،٦٣۔ اور اسی طرح سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ سورئہ رعد، آیت: ٢٨۔

۶۷

دو۔ بصیرت:

قرآن کی نظر میںایمان، حق وباطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے انسان کو بصیرت اور سمجھداری عطا کرتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہورہا ہے: '' اے ایمان لانے والو! اگر خوف خدا رکھو گے تو خدا تم کو (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کی قدرت وقوت عطا کرے گا۔، ،(١) دوسری طرف ایمان نہ رکھنے والوں کو نابینا قرار دیتا ہے:

'' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کرداروں اور کارناموں کو ان کی نظر میں خوبصورت اور آراستہ بنا دیا ہے تا کہ وہ اسی طرح گمراہ وسرگرداں رہیں۔، ،(٢) ان دو آیتوں کا مقایسہ کر نے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ایمان اور تقویٰ ایک طرف خود خواہی اور خود پسندی کو ختم کرنے کا سبب ہے تو دوسری طرف خدائی نور اور الٰہی ہدایت سے متصل ہونے کی وجہ سے بصیرت اور سمجھداری عطا کرتے ہیں۔(٣)

تین۔ خدا پر بھروسہ:

خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنا کامیاب اور مفید زندگی کے ارکان میں سے ایک نادر اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس حالت کے ذریعہ انسان کی بہت سی الجھنیں اپنا بستر لپیٹ لیتی ہیں۔ اور حوادث کے ہولناک طوفان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: '' بندہ کا ایمان اس وقت تک سچّا نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدائی خزانہ پر خود اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتماد نہیں رکھتا ہے۔، ،(٤)

چار۔ دنیوی برکتیں :

قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: '' اور اگر شہروں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم قطعی طور پر ان کے لئے آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے۔، ،(٥)

یعنی ایمان نہ صرف اخروی مثبت آثار و فوائد کا حامل ہے بلکہ دنیاوی نعمتیںاور برکتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے دنیاوی نعمتوں کی تلاش میں ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان کی جستجو کرے۔

____________________

١۔ سورئہ انفال، آیت: ٢٩۔ ٢۔ سورئہ نمل، آیت: ٤۔٣۔ علامہ طبا طبائی: المیزان، ج: ١٥، ص: ٣٤۔ ناصر مکارم شیرازی: تفسیر نمونہ، ج: ٧، ص: ٤٠ کی طرف رجوع کریں۔

٤۔ نہج البلاغہ، حکمت: ٣١٠۔٥۔وَ لَو اَنَّ اَهلَ القریٰ آمَنُوا وَالتَّقُوَا لفَتَحنا عَلَیهِم بَرکات مِنَ السّمائِ وَ الاَرضِ ( سورئہ اعراف، آیت: ٩٦)۔

۶۸

پانچ۔نیک اعمال کی انجام دہی:

اس بات کے علاوہ کہ عمل صالح کی انجام دہی ایمان کی بنیادی شرط ہے، خود ایمان کے فوائد میں سے بھی ہے۔ کیونکہ ایمان، عمل کے لئے ظرف اور نیک عمل باطنی ایمان کا پھل اور نتیجہ ہے۔ علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:

ایمان عمل کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے لازمی شرط ہے اور عمل صالح کی سہولت یا دشواری انسان کے ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے پر منحصر ہے اور اسی کے مقابلہ میں عمل صالح اور اس کی تکرار، ایمان کے عمیق اور زیادہ ہونے میں مفید اور مدد گار ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں اپنے اپنے لحاظ سے ان اخلاقی ملکات کے وجود میں آنے کے لئے ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں جو بے شک انسان سے صادر ہونے والے اعمال صالحہ کے انجام پانے کا سبب ہیں۔(١)

چھ۔ عوام میں محبوبیت:

ایمان کا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ ایماندار انسان لوگوں کے دلوں میں محبوب ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان قلبی لحاظ سے محبوب ہونا سبھی پسند کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور لوگ اپنے لئے محبت کے آثار کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے دوسروں کے اظہار محبت کی لذّت کو اتنا زیادہ شیرین پاتے ہیں کہ کسی چیز کے مقابلہ میں اس کا سودا کرنے پر تےّار نہیں ہوتے۔ بیشک محبت ایک ایسی دنیاوی نعمت ہے کہ یہ ہرمشکل کو آسان اور ہر تلخی کو شیرین اور ہر کانٹے کو پھول میں تبدیل کر دیتی ہے۔

خدا وند عالم فرماتا ہے: اگرخالص محبت کی تلاش میں ہو تو مومنین کی وادی میں داخل ہوجاؤ۔

''جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیتے ہیں، جلد ہی(وہ) خدا( جو رحمن ہے) ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت قرار دے دے گا۔(٢)

سات۔ اُخروی فلاح اور کامیابی :

ایمان کے فوائد کی انتہا مومنین کی اُخروی کامیابی پر ہوتی ہے اس سے بہتر انجام اور کیا ہوسکتا ہے؟

____________________

١۔ علامہ طبا طبائی، فرازہا ئی از اسلام، ص٢٣٨۔

٢۔ سورئہ مریم، آیت: ٩٦۔

۶۹

خدا وند متعال مومنین سے ایک معنی دار سوال کرتے ہوئے فرماتا ہے:

''اے ایمان لانے والو !کیا تمہیں ایک ایسی تجارت کی راہ دکھاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلائے گی ؟ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤاور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو۔اس فداکاری کو اگر تم جان لو گے اور سمجھ لو گے تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔، ،(١)

حکیم لقمان اپنے فرزند کی خیرخواہانہ نصیحت میں فرماتے ہیں:

''اے میرے بیٹے !سچ ہے کہ یہ دنیا گہرے سمندر کی طرح ہے جس میں بہت سے علماء اور دانشور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بس اس میں اپنی نجات کی کشتی، خدا پر ایمان ہونے کو قرار دو۔ ''(٢)

٨۔ ایمان کے موانع

ایمان کے وجود میں آنے کے اسباب اور عوامل کے سلسلہ میںجو کچھ بیان کیا گیا اس کے پیش نظر ایمان پر تاثیر ڈالنے والے عوامل بہت ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا ایمان کے لئے رکاوٹ کاباعث ہوگا۔لیکن یہاں پر ایمان کے موانع سے مراد تنہا وہ عوامل ہیں جو ایمان کے ہادیانہ جوہر سے ٹکراتے ہیں اور مشہور اسلامی کتابوں میں عقلی قوت سے مربوط صفتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔اس طرح کی مشہور موانع مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ جہل:

جہل چاہے بسیط ہو یا مرکب، ایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جہل بسیط سے مراد یہ ہے کہ انسان علم نہ رکھتا ہواور اسے اپنے عالم نہ ہونے اور نہ جاننے کا یقین بھی ہو۔اس طرح کی جہالت شروع میں مذموم اور قابل مذمت نہیں ہے۔کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کے لئے مقدمہ ہے اور جب تک انسان خود کو جاہل نہ جانے اس وقت تک علم حاصل کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔لیکن اس جہالت پر باقی رہنا اخلاقی لحاظ سے برا اور قابل مذمت ہے۔(٣)

____________________

١۔ سورئہ صف، آیت: ١٠ ، ١١۔ ٢۔ شیخ صدوق: فقیہ، ج: ٢، ص: ٢٨٢، ح: ٢٤٥٧۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ١٠٠۔

۷۰

لیکن جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان عالم نہیں ہے اور اس کے ذہن میں واقعیت اور حقیقت سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کا خیال یہ ہے کہ وہ واقاً حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ (یعنی وہ اپنے جاہل ہونے سے بھی بے خبر ہے)۔ اس طرح وہ دو امر میں جاہل ہے۔ اسی وجہ سے اسے جہل مرکب کہا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت کو اخلاقی لحاظ سے سب سے بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں انسان اصلاً اپنی بیماری کے بارے میں نہیں جانتا بلکہ وہ خود کو صحیح وسالم تصور کرتا ہے۔ حالانکہ اصلاح کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم فساد اور خرابی کا یقین ہونا ہے ۔(١)

اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا ہے: ''بے شک میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کا علاج کرنے سے عاجز نہیں ہوں لیکن احمق انسان کا علاج کرنے سے عاجز ہوں''۔(٢)

دو۔ شک وتردید:

ابتدائی شک، علم ویقین تک پہنچنے کے لئے ایک مبارک قدم ہو سکتا ہے۔انسان جب تک کسی چیز کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ کسی بھی گوشہ کو پنہان اور پوشیدہ نہیں سمجھتا اس کی کوئی خاص جستجو نہیں کرتا ہے۔ بہت سی گرانقدر حقیقتیں صرف ایک ابتدائی شک وتردید کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر شک، علم و یقین اور ایمان تک پہنچنے کے لئے ایک با اہمیت اور بے مثال پل کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح یہ اخلاقی لحاظ سے برا نہیں ہے۔ لیکن شک وتردید، کسی بھی حالت میں منزل نہیں ہے۔ شک 'مقصد اور منزل کے عنوان سے قطعی طور پر ایک اخلاقی برائی ہے اور یقین وایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کرنے اور حق وباطل کو جدا کرنے کے لئے کمزور انسان کا نفس حیران وسرگرداں ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـ نے سختی کے ساتھ شک وتردید سے منع فرمایا ہے اور اسے ایمان کے خلاف اور کفر کا سبب قرار دیا ہے۔مولائے متقیان حضرت علی ـارشاد فرماتے ہیں:

''لا ترتابوا فتشکّوا 'ولا تشکّوا فتکفّروا'' (٣)

(یعنی شک و تردید کو اپنے پاس جگہ نہ دو کہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ گے۔)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات ، ج: ١، ص: ١١٦۔

٢۔ مفید: اختصاص'ص: ٢٢١۔

٣۔ کلینی: کافی'ج: ١'ص: ٤٨' ح: ٦۔

۷۱

تین۔ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ:

خیالات سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے قلب پر عارض ہوتی ہے اور اگر وہ انسان کو شر کی طرف دعوت دے تو وسوسہ ہے اوراگر وہ خیر کی طرف ہدایت کرے تو اسے الہام کہا جاتا ہے۔ شیطانی وسوسہ جو ایمان کی رکاوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کی مختلف قسمیں اور متعدد اسباب ہیں اور ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے متعلق گفتگو اخلاق علمی یا تربیت اخلاقی کے ذیل میں ہونی چاہئے۔(١)

قرآن کریم، شیطانی وسوسہ کے بارے میں خود شیطان کی زبانی ارشاد فرما رہا ہے:

'' میں تیرے بندوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کروں گا اس وقت ان کے سامنے سے 'پیچھے سے' داہنی طرف سے اور بائیں طرف سے پہنچ جائوں گا''(٢)

چار۔ علمی وسواس:

یہ دقت' جستجو، تحقیق اور عقلانیت میں افراط کی ایک قسم ہے جو ایمان کے لئے آفت اور اسے برباد کر دینے کاسبب ہے۔ یہ بات کبھی عقلی دقت کے عنوان سے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ سب سے ابتدائی بدیہیات وواضحات میں بھی خدشہ وارد ہوجائے یہاں تک کہ انسان کو سفسطہ اور واقعیات وحقائق سے انکار کے گڑھے میں بھی گرا دیتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کا وسوسہ ہلاکت اور نابودی کو ہمراہ لاتا ہے اور ہر طرح کے ایما ن اور اطمینان سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔(٣)

پانچ۔ کفر اور شرک:

یہ دونوں ایمان وتوحید کے مقابلہ میںہیں اور ایمان میں رکاوٹ کا باعث شمار کئے جاتے ہیں۔ کفر اور شرک کی ماہیت اور ان کے دوسرے ابعاد و جوانب کے متعلق بہت زیادہ بحثیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کو عقائد وکلام کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے، ان سبھی کے بارے میں گفتگو کرنا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ١٤٢، ١٥٨۔

٢۔ سورئہ 'اعراف' آیت: ١٦،١٧۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص ١٠٠ کی طرف رجوع کریں۔

۷۲

دوسری فصل: مؤثر نفسانی صفات

گزشتہ بحث میں ان نفسانی صفات کے بارے میں جو انسان کی ہدایت کی ذمہ دارہیںنیزاخلاق اسلامی کے معروف مآخذمیں قوۂ عاقلہ سے متعلق قوت کے عنوان سے ان کا تذکرہ ہواہے، ہم نے اختصار سے گفتگو کی ہے۔ اس حصہ نیزبعد کے دوحصوں کی گفتگو میں صفات نفسانی کے دوسرے گروہ کے بارے میں جو انسانی نفس میں مؤثر قوت کے عنوان سے اپنا کردارادا کرتی ہیں ہم ان کے بارے میں گفتگو کریںگے۔ اس طرح کے نفسانی صفات اخلاق اسلامی کے معتبر مآخذ اور مشہور کتابوں میں قوت غضبیہ اور قوت شہویہ سے متعلق صفات کے عنوان سے ذکر ہوتے ہیں۔ یہاںسب سے پہلے اس نکتہ کی تاکید کی جاتی ہے کہ نفسانی صفات ان موارد میں جن کو ہم شمار کریں گے منحصر نہیں ہیں۔مؤثر نفسانی صفات کی طبقہ بندی: مؤثر نفسانی صفات کی بھی مختلف گروہوں میںطبقہ بندی کی جاسکتی ہے، ایک تقسیم بندی میں ان میں سے ہر ایک کے رجحان پر نظر کرتے ہوئے ان کو درج ذیل گروہوں میں جگہ دی جاسکتی ہے:

١۔وہ صفات جو خدا وندعالم اور مبدأہستی کی نسبت انسان کے باطنی رجحان پر ناظر ہیں جیسے توکل، تسلیم، اور رضا و....۔

٢۔وہ صفات جو معاد اور انسانی زندگی کے انجام کی نسبت اس کے باطنی رجحان کی طرف ناظر ہیں جیسے خوف، امید و رجائ، مایوسی اور ناامیدی.......۔

٣۔ وہ صفات اور ملکات جو ہمارے رجحان کا تعلق خود ہماری ہی نسبت بتاتے ہیں ؛جیسے عجب، خود پسندی، افتخار، عزت نفس، عصبیت، تعصب وغیرہ ۔

٤۔ وہ صفات جو کل اور آئندہ کی نسبت ہمارے رجحان کو بتاتے ہیں؛ جیسے امیدیں، جلد بازی، ہمت، تسویف (ٹال مٹول) وغیرہ.....۔

٥۔ وہ صفات جو دنیوی مواہب پر ناظر ہوتے ہیں؛ جیسے زہد، حرص، حسرت اور قناعت وغیرہ.....۔

٦۔ وہ صفات جو دوسروں کی نسبت انسان کا رجحان کو بتاتے ہیں ؛ جیسے خیر خواہی، حسد کرنا، کینہ، انصاف وغیرہ..... ۔

٧۔وہ صفات جو نفس کی طبیعی اور متعادل آرایش کو بیان کرنے والے اور اس کے تحفّظ میں کرداراداکرتے ہیں جیسے سکون، وقار، عفت، حیا وغیرہ وغیرہ۔

اخلاق اسلامی میںان گروہوں میں سے ہر ایک کی حیثیت سے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے مبدأ و معاد سے متعلق رجحان کا سرچشمہ اس کا ایمان ہے اور تمام نفسانی رجحانات خود اس کی نسبت، دوسروں کی نسبت، طبیعی مواہب کی نسبت، آئندہ کی نسبت اور نفس کی مطلوب حالت کی نسبت، عالم کے آغاز و انجام کی نسبت نفس کے رجحان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

۷۳

ہدایت کرنے والے نفسانی صفات اور اثر کرنے والے نفسانی صفات کا خاکہ

الف۔ خداکی طرف نفس کا مائل ہونا

بعض وہ نفسانی صفات جو خداوند متعال سے متعلق انسان کے باطنی رجحان اور مطلوب رابطہ کا کام کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

١۔ خداوندعالم کی محبت

بغیر کسی شک و تردید انسان کی قوت جاذبہ (جذب کرنے والی قوت) اور دافعہ (دفع کرنے والی قوت) محبتوں اور نفرتوں کے زیر اثر وجود میںآتے ہیں۔ جب انسان محبت وعشق کرتا ہے، تو لذت اور نیک بختی کا احساس کرتا ہے اور جب کراہت و نفرت کے عالم میں ہوتا ہے تو پریشانی، رنج و الم، دردوغم، کااحساس کرتا ہے۔ شاید اسی بنا پر اخلاق کے بعض بڑے حکماء اور فلاسفر نے انسان کی غایت اور اخلاق کا مقصد سعادت وخوش بختی یعنی لذت بخش حیات اور رنج والم سے دور زندگی کو جانا ہے۔ اس ہدف کی تکمیل صرف اور صرف محبت آمیز زندگی کے سایہ میںبالخصوص اس کے عالی مرحلہ یعنی عاشقانہ زندگی میںمیسر اور ممکن تصور کرتے ہیں، ان تمام فضیلتوں کا راز '' محبت ''اور'' عشق''کے الفاظ کے لئے اسی حقیقت میںتلاش کرنا چاہیے لیکن جو چیز اصل عشق و محبت سے بھی زیادہ اہم ہے محبوب اور معشوق کی شان و منزلت ہے۔ انسان کی سعادت کا معیار اس کے درجہ محبت سے وابستہ ہے اور محبت و عشق کے درجہ کو محبوب کے کمال و جما ل کے اندازوں میںتلاش کرنا چاہیے نیز اس کے دوام وبقا کو بھی جمالِ محبوب کا ظہور اور غروب معین کرتا ہے۔اب اصلی سوال یہ ہے کہ سر و جان کا سودا کس حقیقت جمال و جلال کے عشق میں کرنا چاہیے تاکہ ابدی محبت اور بلند وبالا عشق مثمر ثمر ہو اور پایدار لذت اور دائمی نیک بختی حاصل ہو ؟

خدا پر اعتماد رکھنے والوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ اس سوال کا جواب خود اپنے خدا سے طلب کریں۔اخلاق اسلامی کے نقطۂ نظر سے وہ وجود جو ایسی محبت کا حقدار ہے خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس کی محبت تخلیق عالم کی توجیہ کرنے والی اور عالم وبنی آدم کے اہداف و مقاصد کو پورا کرنے والی نیز ان کی آرزؤں کی تکمیل کرنے و الی ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم فرماتا ہے: ''والذین آمنوا اشدّ حبا ﷲ''!(١) ''جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ خدا سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں'' اور یہ اعلان کرتا ہے '' یحبھم و یحبونہ''(٢) ''خدا انہیں دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ (بھی) خدا کو دوست رکھتے ہیں''۔

____________________

١۔ سورئہ بقرہ ١٦٥۔

٢۔ سورئہ مائدہ آیت ٥٤۔

۷۴

دوسری طرف، خداکی محبت ایک ایسی جزا ہے کہ خدا وند عالم قرآن میں اپنے خاص بندوں کو جس کی بشارت دیتا ہے، جیسے مجاہدین جو اس کے لئے اپنے سرا ورجان کو فدا کردیتے ہیں:

''ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیله صفاً کانهم بنیان مرصوص'' (١) ۔

''بے شک اﷲ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں جس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواریں''۔ اور جس طرح محسنین، توابین، مطھرین، مقسطین، صابرین اور متوکلین (احسا ن کرنے والے، توبہ کرنے والے، پاکیزہ افراد، عدل وانصاف کے خو گر، خدا پر توکل و بھروسہ کرنے والے) قرآن کریم میں خداکے محبوب قرار دئیے گئے ہیں یہاںپر ہماری گفتگوکا موضوع انسان کا خدا وند سبحان سے محبت کرنا ہے، لیکن چونکہ درحقیقت بندوں کی اپنے پروردگار سے محبت اور خدا کی ان سے، محبت کے درمیان ایک قسم کا ملازمہ پایاجاتا ہے لہٰذا ناگزیر دونوں ہی نظر سے موضوع کو دیکھنا چاہئے۔

پہلی نظر: بندوں کی خدا سے محبت

الف۔ صرف خدا حقیقی محبوب ہے: در حقیقت صرف خدا ہے جو حقیقی محبت اور واقعی عشق کرنے کا سزاوار ہے دیگر اشیاء اور اشخاص اپنے اس رابطہ کے اعتبار سے جو اس سے رکھتے ہیںمحبوب واقع ہوتے ہیں۔

الف: محبت کی پیدائش کے اسباب:

علماء اخلاق کا نظریہ ہے کہ محبت اور اس کے شدید مراتب یعنی عشق درج ذیل اسباب ووجوہ کی بنا پر وجود میںآتے ہیں:

١۔ جو چیزیں انسان کی بقاء اور کمال کا سبب ہوتی ہیں:

اسی بنیاد پر، انسان اپنے وجود کو عزیز اور دوست رکھتا ہے اور اس کی بقا ء اور دوام کا خواہاں ہوتا ہے اور جو چیز بھی اسے اس بات میںمعاون و مدد گا رثابت ہوتی ہے وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے، اور وہ موت کے اسباب سے کراہت رکھتا ہے۔( ٢)

٢۔ لذت:

لذت مادی ہو یا معنوی محبت کا سبب ہوتی ہے یعنی انسان جو کچھ لذت کا سبب ہوتا ہے اس کے لذت آور ہونے کی وجہ سے اسے دوست رکھتا ہے نہ کہ خود اس لذت مادی کی وجہ سے ؛ جیسے انسان کی لذت کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق نیز وہ تمام چیزیں جو اس کے تمام غرائز وخواہشات پورا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اس طرح کی محبت آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتی ہے لیکن تیزی سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔

____________________

١۔ سورئہ صف آیت٤۔٢۔ فیض کاشانی، محسن ؛المحجة البیضائ، ج٨، ص٩تا ١١۔ نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٤، ١٣٥۔

۷۵

اس طرح کی محبتیں پست مادی اور سریع الزوال ہونے کی وجہ سے محبت کا سب سے ادنی درجہ شمار ہوتی ہیں(١) اور معنوی لذت ؛ جیسے انسان کا ایک فدا کار مجاہد سے محبت کرنا، اس لذت کی بنا ء پر جو اس کی دلاوری اور اس کے مظاہرہ جنگ سے محسوس کرتا ہے اور ایک فنکار اور ورزش کرنے والے انسان سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو ہنر نمائی کے میدان میں محسوس کرتا ہے اور امانت و پاکدامنی سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو انسان امانت داری اور پاکیزگی سے محسوس کرتا ہے نیز خداوندعالم کی یاد اوراس سے راز و نیاز اس بناپر کہ وہ اس بات سے سرشار لذت محسوس کرتا ہے، اس طرح کی لذتو ں کی ان لوگوں کے لئے محبت آفرینی جو اس کے ایک گھونٹ سے سیراب ہوئے ہیں ایک واضح اور استدلال و برہان سے بے نیاز امر ہے، اس طرح کی لذتیں دراز عمر ہوتی ہیں، اگر چہ اس اعتبار سے خود مختلف درجات اور مراتب کی حامل ہیں، لیکن باقی اور دائم محبت کے خواہاں افراد اس کے پانے کی تمنا میں مادی لذتوں اور فانی محبتوں کا یکسر سودا کرتے ہیں۔

٣۔احسان:

انسان احسان اور نیکی کا اسیراور بندہ ہے اور فطری طور سے جو بھی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے وہ اسے دوست رکھتا ہے اور جو انسان اس کے ساتھ برائی کرتا ہے وہ اس سے رنجیدہ خاطراور بیزارہوتا ہے اس بناء پر نیکی، منفعت اور احسان انسان سے

۷۶

محبت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔(٢)

٤۔ ظاہری و باطنی حسن و جمال:

خوبصورتی اور حسن و جمال کا ادراک محبت کا باعث ہو تا ہے ؛ یعنی انسان خواہ مادی خوبصورتی ہو یا معنوی اسے دوست رکھتا ہے اور اس کی یہ محبت خوبصورتی اور حسن کی ذات سے تعلق رکھتی ہے، نہ یہ کہ اس کے علائم اور لوازم سے اوروہ فطری اور باطنی سرچشمہ رکھتی ہے۔

٥۔باطنی اور روحی توافق ومناسب:

کبھی انسان دوسروں سے محبت کرتا ہے، لیکن نہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور نہ ہی اس کے مال ومرتبہ سے امید اور لالچ رکھنے کے سبب بلکہ صرف اورصرف اس باطنی اور روحی تناسب اور توافق کے لحاظ سے جو اس کی روح و جان کے ساتھ رکھتا ہے۔

٦۔ الفت واجتماع:

افراد کا اجتماع اور آپس میں معاشرت رکھنا اور ایک ساتھ زندگی گذارنا آپسی میل جول، اتحاد و الفت اور انس و محبت کا باعث بنتا ہے۔ انس و محبت کا سرچشمہ انسان کی طبیعت اور سرشت میں ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لفظ''انسان'' اُنس سے ماخوذ ہے نہ کلمۂ'' نسیان ''سے ۔(٣)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

٣۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص٩٤ ملاحظہ ہو۔

۷۷

٧۔ ظاہری اوصاف میں شباہت:

ایک یا چند ظاہری خصوصیات میں اشتراک محبت کے پیدا ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ بچوں کا ایک دوسروں سے لگاؤ اور بوڑھوں کا آپس میں تعلق نیز ہم پیشہ اور ہم صنعت افراد کا ایک دوسرے سے محبت رکھنا اسی وجہ سے ہے۔

٨۔ علیت کا رابطہ:

چونکہ معلول کا سرچشمہ علت ہے اور ا س سے تناسب اورسنخیت اور جنسیت رکھتا ہے، لہٰذا علت محبوب واقع ہوتی ہے کیونکہ علت کے بعض اجزاء اور اس کے بعض ٹکڑوں کے مانند ہے، معلول بھی علت کو اس لئے دوست رکھتا ہے کہ درحقیقت علت اس کی اصل و اساس ہے، اس بنا پر ان میں سبھی ایک دوسرے سے محبت کرنے میں درواقع اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں(١)

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ محبت ایجاد کرنے کے تمام اسباب وعلل مذکورہ موارد میں خلاصہ ہوسکتے ہیں یا نہیں ، اور مذکورہ اسباب میں سے ہرایک کے استقلال یا تداخل سے چشم پوشی کرتے ہوئے حقیقی طور پرمحبت آفرین تمام اسباب و علل صرف خدا وند سبحان میں پائے جاتے ہیں اور اس کے علاو ہ میں ان کا تصور کرنا ایک وہم اور خیال سے زیادہ نہیں ہے، اس حقیقت کے بیان میںکہاجاسکتاہے: ہرانسان کاوجود خداوند سبحان کے وجود کی فرع وشاخ ہے اور خداوندعالم کے وجود سے جداکوئی ہستی اور وجود نہیں رکھتا، اور اس کے وجود کاکمال اس کے ذریعہ اور اس کی طرف سے ہے نیز لذت و احسان کا سرچشمہ خداوندعالم ہی کی ذات ہے، احسان کاخالق وہ ہے اور ہر احسان اس کے قدرت اور فعل کی خوبیوں میں سے ایک خوبی و حسن کا بیان کرنے و الا ہے۔ بے شک کمال وجمال بالذات کامالک صرف ا ور صرف وہ ہے اوریہ صرف اسی میں پایا جاتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بصیرت کے لئے معنوی جمال زیادہ دوست رکھنے کے لائق اور خوبصورت ترین شئی ہے۔ اسی طرح انسان کی روح وجان اپنے پروردگار سے ایک مخفی اور باطنی راز و رمز کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے، اور شاید آیۂ ''قل الروح من امر ربی'' (٢) (''کہو، روح ہمارے ربّ کے امر سے ہے '') اسی باطنی رابطہ کی طرف اشارہ ہو۔ خدا اور انسان کے درمیان رابطۂ علیت کا وجود آشکار اور توضیح سے بے نیاز ہے۔ لیکن دو دیگر اسباب یعنی '' مادی اجتماع '' اور ''ظاہری اوصاف میں اشتراک '' پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں اسباب محبت آفرینی میں معمولی کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کا خدا وند سبحان کی طرف نسبت دینا نقص کا باعث ہے، اور درحقیقت محال ہے لہٰذا حقیقی طور پر اور عالی ترین درجات میں محبت کے تمام اسباب خدا وند عالم میںپائے جاتے ہیں اور چونکہ اس کے اوصاف میں کوئی شریک نہیں ہے لہٰذا کسی قسم کا شریک اس کی محبت میںبھی وجود نہیں رکھتا۔(۳)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات،، ج٣، ص١٣٩۔٢۔ سورئہ اسرائ، آیت ٨٥۔۳۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٨ ص ١٦، ؛نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص ١٤٢، اور ١٤٦ ملاحظہ ہو۔

۷۸

ب۔ خدا وند عالم سے محبت کی نشانیاں:

بلند و بالا، مقدس و پاکیزہ فضائل ہمیشہ جھوٹے دعویداروں سے روبرو رہے ہیں، یہ غیر واقعی خیالات اور دعوے کبھی کبھی اس طرح پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ حقیقت امر خود اشخاص پر بھی پوشیدہ ہوگئی، بہت سے طفل صفت ایسے ہیں جنہوں نے ابھی محبت خداوندی کا الفباء بھی نہیں سیکھا ہے، لیکن خود کو اللہ کے دوستوںمیں شمار کرتے اور اس سے عشق و محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

خدا وند عالم کے دوستوں کی ظاہری اور ملموس نشانیوں کا بیان خود شناسی اور دیگر شناسی کے لئے ایک مناسب راستہ اور خدا کی محبت ودوستی کے جھوٹے اور سچے دعوؤں کا ایک معیار ہے۔ ان علامتوں میںاہم ترین علامتیں اخلاق اسلامی کی اوّلین کتابوں کی روایت کے اعتبار سے درج ذیل ہیں:

١۔ موت کو دوست رکھنا:

سچا چاہنے والا اور حقیقی دوست اپنے محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے۔ اگر چہ موت خداوندعالم سے ملاقات کرنے اور اس کے جمال کے دیدار کی تنہا راہ نہیں ہے، لیکن عام طور پر اس ہدف کا تحقق اس راہ مرگ سے گذرے بغیر ممکن و میسر نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان کسی مقصد سے عشق کرے، تو جو کچھ اس راہ میں راہنما واقع ہوگا وہ اس کا محبوب بنتا چلاجائے گا، قرآ ن کریم اس سلسلہ میںفرماتا ہے: '' کہو: اے وہ لوگوں جو یہودی ہوگئے ہو اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم لوگ خدا کے دوست ہو اور دوسرے لوگ دوست نہیں ہیںتو اگر اپنے قول میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو '' ۔(۱) البتہ جیسا کہ خدا وند سبحان کی محبت کے درجات ومراتب ہیں، موت کا چاہنا یا نہ چاہنا بھی افراد کی نظر میں درجات و مراتب رکھتا ہے۔

موت کو ناپسند کرنا خدا وند عالم کی محبت سے اس وقت سازگار نہیں ہے جب اس محبت کا سرچشمہ دنیاوی مظاہر جیسے اموال، اولاد، خاندا ن اور مقام و منصب ہو، لیکن جب دنیا میں باقی رہنے کا تعلق و لگاؤ پروردگار عالم سے ملاقات کے لئے آمادگی کا حصول اور نیک اعمال انجام دینا ہو تو خدا وندعالم کی دوستی سے منافات نہیں رکھتا۔(۲)

____________________

۱۔ سورئہ جمعہ، آیت ٦۔

۲۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ١٧٤ ،١٧٥۔

۷۹

٢۔ خداوندعالم کی خواہش کو مقدم کرنا:

خداوندعالم کاحقیقی دوست اس کے ارادہ کواپنے ارادہ پر مقد م رکھتا ہے حتی کہ اگر محبوب فراق اور جدائی کاارادہ کرے تووہ اسے وصال پر ترجیح دے۔ اللہ کی محبت اس کے دستور اور قوانین کی پیروی کی طالب ہے اور محبوب کی رضایت کاحاصل کرنااس کے لوازمات میںسے ہے ۔ ''کہو: اگر خداکو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تاکہ خداتمہیں دوست رکھے اور تمہارے گنا ہوںکو بخش دے خدا وند بخشنے والا مہربا ن ہے''۔(١)

٣۔ یاد خدا وندی سے غافل نہ ہونا:

محبوب کا ذکر، اس کی یاد اور جو کچھ اس سے مربوط و متعلق ہے اس کا تذکرہ ہمیشہ محب کے لئے لذت بخش اور دوست رکھنے کے قابل ہے، خدا کے دوست ہمیشہ اس کی اور اس کے دوستوں کی بات کرتے ہیں اور اس کی یاد کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اور اس کے کلام کی تلاوت سے لذت حاصل کرتے ہیں اور خلوت میں اس سے مناجات اور راز و نیاز کر کے انس حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا نے موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے عمران کے فرزند ! جھوٹ بولتا ہے وہ انسان جو خیال کرتا ہے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے لیکن جب رات ہوتی ہے تو میری عبادت سے چشم پوشی کرتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر عاشق و دلدادہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ وہ اپنے دلدار و عاشق سے خلوت کرے ؟(٢)

٤۔خوشی و غم خدا کے لئے:

خدا کے چاہنے والے محزون ومغموم نہیں ہوتے مگر اس چیز کے لئے جو انھیںمحبوب سے دور کردے اور خوشحال و مسرور نہیں ہوتے جز اس چیز سے جو انھیںان کی مراد اور مقصد سے نزدیک کردے۔ وہ لوگ اطاعت سے شاد و مسرور اور معصیت سے محزون وغمزدہ ہوتے ہیں اور دنیا کا ہونا اور نہ ہونا ان کے لئے خوشی اور غم کا باعث نہیں ہوتا۔'' جوکچھ تمہارے ہاتھ سے ضائع ہو گیاہے اس پررنجیدہ خاطر نہ ہو اور جو تمہیں دیا گیا ہے اس کی (وجہ) سے شاد و مسرور نہ ہو''(٣)

٥۔خداکے دوستوںسے دوستی اور اس کے دشمنوںسے دشمنی:

''محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم'' ''محمد'' خدا کے پیغمبر ہیں اور وہ لوگ کہ جو ا ن کے ساتھ ہیں کافروں کے ساتھ سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہیں(٤)

____________________

١۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣١۔ ٢۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٣٣٨، ح ٥٧٧۔ دیلمی، حسن ابی الحسن: اعلام الدین، ص٢٦٣۔ ارشاد القلوب، ص٩٣۔٣۔ سورئہ حدید، آیت ٢٣۔ ٤۔سورئہ فتح، آیت ٢٩۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296