اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق20%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178042 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

حضرت علی ـ ایمان کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''کچھ ایمان دل کے اندر ثابت ہوتے ہیں اور کچھ، دل اور سینہ کے درمیان، مرتے وقت تک بطور عاریت اور ناپائدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے بیزار ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اس کی موت آجائے۔ اس وقت میں اس سے بیزار ہونا بر محل ہوگا۔(١)

ثانیاً:

ایمان کی حقیقت کے مراتب اور درجات ہیں اور اس میں نقصان اورکمی کا بھی امکان ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نے اس حقیقت پر تاکید کرنے کے علاوہ ایمان کو زیادہ کرنے یا اس کے کم ہونے کے اسباب کو بھی کثرت سے بیان کیا ہے، منجملہ ان کے قرآن کریم میں آیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیں جن کے دل اس وقت ڈرنے اور لرزنے لگتے ہیں جب خدا کا ذکر ہوتا ہے اور جب اُن پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تواُن کاایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ''۔(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـنے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا: ''اے عبدالعزیز! حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں سیڑھی کی طرح کہ اسے زینہ بہ زینہ طے کرنا چاہئے اور بلندی پر پہنچنا چاہئے۔ لہٰذا جس کا ایمان دوسرے درجہ پر ہے اسے پہلے درجہ والے مومن سے نہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے پاس ایمان نہیں ہے اور اسی طرح تیسرے درجہ والا دوسرے درجہ والے کو یہاں تک کہ دسویں درجہ والے تک کو بھی یہی چاہئے کہ ایسا نہ کہے اور جس کا ایمان تم سے کم ہے اسے ایمان سے جدا (بغیر ایمان کے) نہ سمجھو اگر ایسا ہواتو جس کا ایمان تم سے بڑھ کر ہوگا اسے چاہئے کہ وہ تم کو ایمان سے جدا سمجھے۔ بلکہ اگر کسی کو اپنے سے کم دیکھو تو تمہیں چاہئے کہ اسے مہر ومحبت کے ساتھ اپنے درجہ تک لے آئو اور جو کچھ اس سے ممکن نہ ہو اسے اس پر بار نہ کرو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور حق کی قسم اگر کوئی کسی مومن کی دل شکنی کر ے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا جبران کرے اور اس کی دلجوئی کرے۔(٣) شیخ صدوق کتاب خصال میں اس روایت کے تما م ہونے پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقداد ایمان کے آٹھویں درجہ پر، ابوذر نویں درجہ پر اور سلمان دسویں درجہ پر فائز تھے۔ البتہ اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ اس روایت میں ایمان کے دس درجہ کو معین کرنا صرف دس مرتبہ تک منحصر کردینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف ایمان کے درجات کی کثرت کو بیان کرنا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری روایتوںمیں ایمان کے لئے کمتر یا بیشتر درجات بھی بیان کئے گئے ہیں۔(۴)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خ١٨٩ چاپ انصاریان ص: ٣٦٨۔٢۔ سورۂ انفال آیت٢ ۔ سورۂ توبہ آیت ١٢٤۔ مدثر٣١، آل عمران ١٧١تا١٧٣۔ احزاب ٢٢کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ کلینی: کافی، ج: ٢ص٤٥، ح٢؛ صدوق، خصال، ص٤٤٧، ح٤٨۔۴۔ رجوع کیجئے: صدوق: خصال، ص٣٥٢، ح٣١، کلینی: کافی، ج٢، ص٤٢، ح١، جن میں ایمان کے لئے سات درجہ بیان کئے گئے ہیں۔ تفسیر عیاشی، ج١، ص٢٠٥، ح١٠٥، درجات کو زمین وآسمان کے درمیان کے فاصلہ سے بیان کیا ہے۔

۶۱

٤ ۔ ایمان کے متعلقات

اسلام کے اخلاقی نظام میں، ایمان کس چیز کے ذریعہ سے ہدایت، اخلاقی فضائل کی آراستگی اور معنوی رفتار کا سبب بنتا ہے ؟ قرآن کریم اورمعصومین (ع) کی سیرت میں ایمان کے اصلی ترین متعلقات کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ عالم غیب پر ایمان :

قرآن کریم نے غیب اورغیبی طاقتوں یعنی ملائکہ (وغیرہ) پر ایمان کو کتاب الٰہی سے بہرہ مند ہونے اور ہدایت پانے کی شرطوں میں سے شمار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہورہاہے:

''یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شک نہیں اور یہ ان متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں .....''(۱)

عالم غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جنہیں ظاہری حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلی سیر اور باطنی شہود کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکتی ہے، اصولی طور پر ایمان سے مشرف ہونے اور کفر والحاد دومادہ پرستی کی غلاظت و گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے غیب اور غیبی حقیقتوں، قوتوں اورامدادوںپر اعتقاد رکھنا ایک شرط ہے۔(۲)

صرف اسی شرط کے تحت حصول کے ذریعہ کتاب ہدایت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے نور کے پرتو میں کامیابی کی منزلوں کو طے کیا جاسکتا ہے۔

____________________

۱۔ سورۂ بقرہ، آیت٢۔

۲۔ سورۂ بقرہ، آیت: ١٧٧ ، ٢٨٥۔

۶۲

دو۔ خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان:

قرآن کریم متعدد آیتوں میں خدا وند متعال پر ایمان کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے: ''بس خدا اور اس کے پیغمبر اور اس نور پرجسے ہم نے نازل کیا ہے ایمان لائو اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔،،(١)

رسول خدا نے ایمان کی علامتوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:

'' ایمان کی نشانیاں چار ہیں: خدا کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کی کتاب پر ایمان اور خدا کے پیغمبروں پر ایمان۔، ،(٢)

تین۔ قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان:

قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان اخلاق اسلامی کی افادیت اور اس کے اجرا ہونے کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم نے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قیامت اور اس کی کیفیت پر کی ہے۔ جیسے قبر میں ہونے والے سوالات، عذاب قبر، قیامت کا دن اور قیامت کا حساب و کتاب، اعمال کو پرکھنے کے لئے میزان کا وجود، پل صراط سے عبور اور جنت و جہنم پر اعتقاد و ایمان۔ ذیل میں بعض آیتوں اور روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:

'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو لوگ یہودی ، صائبی اور عیسائی ہیں ان میں جو خدا و قیامت پر واقعاً ایمان لائے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔(٣)

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:

'' ایمان یہ ہے کہ انسان دین حق کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعضاء بدن سے اس کے فرائض کو انجام دے اور عذاب قبر، منکر و نکیر، موت کے بعد زندہ ہونے، حساب و کتاب، صراط اور میزان کو قبول کرے اور اگر خدا کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو تو ایمان موجو د نہیں ہے''۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ تغابن، آیت: ٨۔ اسی طرح سورئہ اخلاص آیت: ١، سورئہ بقرہ، آیات ١٣٦ ، ٢٨٥۔ سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤۔ سورئہ مائدہ، آیات ٦٩، ١١١۔ سورئہ نساء آیت: ١٣٦، ١٦٢۔ سورئہ انعام، آیت: ٩٢۔ سورئہ شوریٰ، آیت: ١٥ کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص: ١٩۔

٣۔ سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ اسی طرح سورئہ بقرہ، آیت: ٤، کی طرف رجوع کیجئے۔

٤۔ صدوق: خصال، ص: ٦٠٩ ، ح٩۔

۶۳

دوسری حدیث میں پیغمبر خدا کی فرمائش کے مطابق جنت وجہنم پر ایمان بھی معاد کے دو اہم رکن ہیں۔(١)

اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں معاد اور اس کے اساسی ارکان پر ایمان، رہنمائی کرنے والے دو اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چار۔ انبیاء (ع) کی رسالت اور آسمانی کتابوں پر ایمان:

دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے اور دین بالخصوص اخلاق اسلامی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے انسان کا یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنے صحیح کمال اور سعادت کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لئے مناسب وسیلوں اور طریقوں کو انتخاب کرنے میں عاجز اور قاصر ہے، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ قطعی طور پر جسے بھی اس حقیقت میں شک ہے وہ انبیاء کی رسالت اور ان کی دعوت کے مطالب پر ایمان و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا اور اسی کے ساتھ اعتماد اور اطمینان کے بغیر کسی کی خیر خواہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔

اس وجہ سے اخلاق اسلامی میں رسولوں کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سبھی انبیاء صرف ایک رسالت اور ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے تھے لہٰذا ان تمام انبیاء پر ایمان رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''خدا کے پیغمبر اُن کے پرور دگارکی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا اور فرشتے اور کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کریں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے پرورد گار! ہم تیری بخشش کے محتاج ہیں اور ہم کو تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے، ،۔(٢)

پانچ۔ امامت اور ائمہ (ع) پر ایمان:

شیعوں کے اصول عقائد کے مطابق امامت پر ایمان رکھنا اخلاق اسلامی کی بنیادوں اور کامیابی کی شرطوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ حدیثی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں۔

____________________

١۔رجوع کیجئے: بیہقی: شعب الایمان، ج: ١، ص: ٢٥٧، ح: ٢٧٨۔

٢۔ سورئہ بقرہ، آیت: ٢٨٥، ١٣٦۔ اور اسی طرح سورہ ٔآل عمران، آیت: ٨٤ کی طرف رجوع کیجئے۔

۶۴

ان روایتوں کے علاوہ یہ بات قرآن کے ذریعہ اور اس کی تفسیر کے سلسلہ میں مسلّم الثّبوت تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے:

الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِسْلاَمَ دِینًا (١)

''آج کفّار تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیںلہٰذا ان سے خوف نہ کھاؤ۔ اور مجھ سے خوف کھاؤ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے ۔ ''

اس آیت کے سلسلہ میں دو سوال قابل غور ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ خاص دن کون سا دن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ واقعہ جو اس دن رونما ہوا اور اکمال دین اور بندوں پر خدا کی نعمت کے تمام ہونے کا سبب بنا، کیا تھا؟ نا قابل انکار تاریخی شواہد اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک وہ ١٨ ذی الحجہ ١٠ ہجری کا دن تھا اور وہ واقعہ اس دن غدیر میں پیش آیا وہ پیغمبر کی طرف سے حضرت علی ـ کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کر نا اور سلسلۂ امامت کا شروع ہونا تھا۔(٢)

ہم انبیاء (ع) کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان کی ضرورت کو اصطلاح میں دین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی روشنی میں امامت کا سلسلہ دین کی تکمیل کے لئے ہے اور اس کے بغیر دین ناقص رہے گا لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں امامت پر ایمان بھی ایک لازمی بات ہے اور اخلاق اسلامی کے مستحکم اور مضبوط پایوں میں شمار ہوتا ہے۔

٥۔ایمان کی شرط

قرآن و راویات کے مطابق نیک عمل کا انجام دینا ایمان کی بہترین شرط ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو نیک عمل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اکثر آیتوں میں ایمان کے بعد بلا فاصلہ پسندیدہ اور صالح عمل کی گفتگو ہوئی ہے۔اگر چہ نیک عمل ایمان کے بنیادی عناصر میں سے نہیں ہے لیکن نیک عمل کے بغیر ایمان سے مطلوب اور مناسب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس بنا پر شائستہ اور نیک عمل کو ایمان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے شرط کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔

____________________

١۔سورہ ٔ، مائدہ، آیت: ٣۔

٢۔ مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی کتاب '' الغدیر، ، کی طرف رجوع کریں۔

۶۵

قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے:

'' اور جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کو انجام دے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور ہم بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہیں گے''(١) قرآن مجیدنے نیک عمل کے بغیر، مومن ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے:

''اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے پیغمبر پر ایما ن لائے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض لوگ منھ پھیر لیتے ہیں اور وہ لوگ واقعاً مومن نہیں ہیں۔، ،(٢) حضرت علی ـنے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:

'' جو خدا کے احکام پر عمل کرتا ہے فقط وہی مومن ہے۔، ،(٣) اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں خدا کے احکام کی پابندی کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا جھوٹ اور فریب ہے مگر یہ کہ مومن شخص عمل کرنے کی قدرت اور موقع نہ رکھتا ہو۔

٦۔ ایمان کے اسباب

دینی کتابوں میں ایمان کے وجود میں آنے، اور اس کے ثبات و کمال کے لئے مختلف عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض معرفت وشناخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم، عقل اور دین میں غور و فکر کرنا۔یہ سب ایمان کے نظری مقدمات کو فراہم کرتے ہیں اور وہ عوامل علم کلام میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے عوامل ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے نفسیانی صفت اور ملکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے تقویٰ، راہ خدا میں دوستی اور دشمنی، صبر، توکل، رضا وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں جو انسان کے عمل سے مربوط ہیں۔ جیسے انفاق، نماز کے لئے اہتمام کرنا، دوسروں کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ۔

خاص نظری معارف جیسے دین میں غور وفکر، انسان کی مختلف نفسیانی صفتیں اور اعمال، ایمان کی آفرینش اور اس کے ثبات و کمال میں مؤثر ہوسکتے ہیں اور یہ بات اس حقیقت سے نہیں ٹکراتی ہے کہ ایمان اپنے لحاظ سے عمل صالح کی انجام دہی کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور بہت سے نفسانی ملکات اور صفات کے وجود میں لانے کا موجب قرار پاتا ہے اور یہاں تک کہ انسان میں بعض نظری معارف کی پیدائش کے لئے باعث بنتا ہے۔ کیونکہ انسانی وجود کے تینوں شعبوں کے درمیان آپس میں تثیر اور تثر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایمان ایک واضح نفسانی حالت کی حیثیت سے دوسرے شعبوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے تثیر بھی قبول کرتا ہے۔

____________________

١۔ سورئہ کہف، آیت: ٨٨۔ اسی طرح سورئہ طہٰ، آیت: ٨٢۔ سورئہ فرقان، آیت: ٧٠۔ سورئہ قصص، آیت: ٦٧۔ سورئہ انفال، آیت: ٣ ،٤۔ سورئہ نسائ، آیت: ٦٥۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧ کی طرف رجوع کریں۔ ٢۔ سورئہ نور، آیت: ٤٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج: ٢، ص: ٣٨ ،ح: ٤۔

۶۶

٧۔ایمان کے فوائد

یہ آثار اور فوائدایمان کے اسباب اور موجبات کی طرح علمی ماہیت بھی رکھتے ہیں۔ اور نفسانی حالات بھی اور بعض اعمال و عادات سے بھی متعلق ہیں۔ یہاں ان میں سے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

ایک۔ روحی تسکین:

انسان کے لئے اہم لذتوں میں سے ایک نفسانی تسکین اور اس کا آرام پانا ہے۔ بنی آدم کے لئے پریشانی اور اضطراب، سب سے بڑی تکلیف اور بہت سی گمراہیوں اور نا کامیوں کاسبب ہے۔ انسانی کوششیں اس جانکاہ درد سے نجات پانے کے لئے اس بارے میں تلخ تجربہ کی نشاندہی کررہی ہیں۔ خداوند متعال کی نظر میں انسان کو ایمان کے سایہ میں آرام و سکون میسّر ہوگا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

''وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب کو سکون دیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ( ایمان کا ) اضافہ کریں، ،۔(١)

''باخبر رہو کہ خدا کے دوستوں کے لئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور پرہیز گاری سے کام لیتے ہیں۔(٢)

خدا نے اس سے زیادہ واضح انداز میں قلبی سکون واطمینان کو اپنے ذکر اور یاد کے ذریعہ قابل تحصیل بتایا ہے اور اس سلسلہ میں وہ فرماتا ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے قلوب یاد خدا سے سکون حاصل کرتے ہیں آگاہ رہو کہ یاد خدا سے ہی دلوں کو آرام ملتا ہے۔، ،(٣)

____________________

١۔ سورئہ فتح، آیت: ٤۔

٢۔سورئہ یونس، آیت: ٦٢ ،٦٣۔ اور اسی طرح سورئہ مائدہ، آیت: ٦٩ کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ سورئہ رعد، آیت: ٢٨۔

۶۷

دو۔ بصیرت:

قرآن کی نظر میںایمان، حق وباطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے انسان کو بصیرت اور سمجھداری عطا کرتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہورہا ہے: '' اے ایمان لانے والو! اگر خوف خدا رکھو گے تو خدا تم کو (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کی قدرت وقوت عطا کرے گا۔، ،(١) دوسری طرف ایمان نہ رکھنے والوں کو نابینا قرار دیتا ہے:

'' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کرداروں اور کارناموں کو ان کی نظر میں خوبصورت اور آراستہ بنا دیا ہے تا کہ وہ اسی طرح گمراہ وسرگرداں رہیں۔، ،(٢) ان دو آیتوں کا مقایسہ کر نے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ایمان اور تقویٰ ایک طرف خود خواہی اور خود پسندی کو ختم کرنے کا سبب ہے تو دوسری طرف خدائی نور اور الٰہی ہدایت سے متصل ہونے کی وجہ سے بصیرت اور سمجھداری عطا کرتے ہیں۔(٣)

تین۔ خدا پر بھروسہ:

خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنا کامیاب اور مفید زندگی کے ارکان میں سے ایک نادر اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس حالت کے ذریعہ انسان کی بہت سی الجھنیں اپنا بستر لپیٹ لیتی ہیں۔ اور حوادث کے ہولناک طوفان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: '' بندہ کا ایمان اس وقت تک سچّا نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدائی خزانہ پر خود اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتماد نہیں رکھتا ہے۔، ،(٤)

چار۔ دنیوی برکتیں :

قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: '' اور اگر شہروں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم قطعی طور پر ان کے لئے آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے۔، ،(٥)

یعنی ایمان نہ صرف اخروی مثبت آثار و فوائد کا حامل ہے بلکہ دنیاوی نعمتیںاور برکتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے دنیاوی نعمتوں کی تلاش میں ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان کی جستجو کرے۔

____________________

١۔ سورئہ انفال، آیت: ٢٩۔ ٢۔ سورئہ نمل، آیت: ٤۔٣۔ علامہ طبا طبائی: المیزان، ج: ١٥، ص: ٣٤۔ ناصر مکارم شیرازی: تفسیر نمونہ، ج: ٧، ص: ٤٠ کی طرف رجوع کریں۔

٤۔ نہج البلاغہ، حکمت: ٣١٠۔٥۔وَ لَو اَنَّ اَهلَ القریٰ آمَنُوا وَالتَّقُوَا لفَتَحنا عَلَیهِم بَرکات مِنَ السّمائِ وَ الاَرضِ ( سورئہ اعراف، آیت: ٩٦)۔

۶۸

پانچ۔نیک اعمال کی انجام دہی:

اس بات کے علاوہ کہ عمل صالح کی انجام دہی ایمان کی بنیادی شرط ہے، خود ایمان کے فوائد میں سے بھی ہے۔ کیونکہ ایمان، عمل کے لئے ظرف اور نیک عمل باطنی ایمان کا پھل اور نتیجہ ہے۔ علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:

ایمان عمل کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے لازمی شرط ہے اور عمل صالح کی سہولت یا دشواری انسان کے ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے پر منحصر ہے اور اسی کے مقابلہ میں عمل صالح اور اس کی تکرار، ایمان کے عمیق اور زیادہ ہونے میں مفید اور مدد گار ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں اپنے اپنے لحاظ سے ان اخلاقی ملکات کے وجود میں آنے کے لئے ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں جو بے شک انسان سے صادر ہونے والے اعمال صالحہ کے انجام پانے کا سبب ہیں۔(١)

چھ۔ عوام میں محبوبیت:

ایمان کا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ ایماندار انسان لوگوں کے دلوں میں محبوب ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان قلبی لحاظ سے محبوب ہونا سبھی پسند کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور لوگ اپنے لئے محبت کے آثار کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے دوسروں کے اظہار محبت کی لذّت کو اتنا زیادہ شیرین پاتے ہیں کہ کسی چیز کے مقابلہ میں اس کا سودا کرنے پر تےّار نہیں ہوتے۔ بیشک محبت ایک ایسی دنیاوی نعمت ہے کہ یہ ہرمشکل کو آسان اور ہر تلخی کو شیرین اور ہر کانٹے کو پھول میں تبدیل کر دیتی ہے۔

خدا وند عالم فرماتا ہے: اگرخالص محبت کی تلاش میں ہو تو مومنین کی وادی میں داخل ہوجاؤ۔

''جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیتے ہیں، جلد ہی(وہ) خدا( جو رحمن ہے) ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت قرار دے دے گا۔(٢)

سات۔ اُخروی فلاح اور کامیابی :

ایمان کے فوائد کی انتہا مومنین کی اُخروی کامیابی پر ہوتی ہے اس سے بہتر انجام اور کیا ہوسکتا ہے؟

____________________

١۔ علامہ طبا طبائی، فرازہا ئی از اسلام، ص٢٣٨۔

٢۔ سورئہ مریم، آیت: ٩٦۔

۶۹

خدا وند متعال مومنین سے ایک معنی دار سوال کرتے ہوئے فرماتا ہے:

''اے ایمان لانے والو !کیا تمہیں ایک ایسی تجارت کی راہ دکھاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلائے گی ؟ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤاور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو۔اس فداکاری کو اگر تم جان لو گے اور سمجھ لو گے تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔، ،(١)

حکیم لقمان اپنے فرزند کی خیرخواہانہ نصیحت میں فرماتے ہیں:

''اے میرے بیٹے !سچ ہے کہ یہ دنیا گہرے سمندر کی طرح ہے جس میں بہت سے علماء اور دانشور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بس اس میں اپنی نجات کی کشتی، خدا پر ایمان ہونے کو قرار دو۔ ''(٢)

٨۔ ایمان کے موانع

ایمان کے وجود میں آنے کے اسباب اور عوامل کے سلسلہ میںجو کچھ بیان کیا گیا اس کے پیش نظر ایمان پر تاثیر ڈالنے والے عوامل بہت ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا ایمان کے لئے رکاوٹ کاباعث ہوگا۔لیکن یہاں پر ایمان کے موانع سے مراد تنہا وہ عوامل ہیں جو ایمان کے ہادیانہ جوہر سے ٹکراتے ہیں اور مشہور اسلامی کتابوں میں عقلی قوت سے مربوط صفتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔اس طرح کی مشہور موانع مندرجہ ذیل ہیں:

ایک۔ جہل:

جہل چاہے بسیط ہو یا مرکب، ایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جہل بسیط سے مراد یہ ہے کہ انسان علم نہ رکھتا ہواور اسے اپنے عالم نہ ہونے اور نہ جاننے کا یقین بھی ہو۔اس طرح کی جہالت شروع میں مذموم اور قابل مذمت نہیں ہے۔کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کے لئے مقدمہ ہے اور جب تک انسان خود کو جاہل نہ جانے اس وقت تک علم حاصل کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔لیکن اس جہالت پر باقی رہنا اخلاقی لحاظ سے برا اور قابل مذمت ہے۔(٣)

____________________

١۔ سورئہ صف، آیت: ١٠ ، ١١۔ ٢۔ شیخ صدوق: فقیہ، ج: ٢، ص: ٢٨٢، ح: ٢٤٥٧۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ١٠٠۔

۷۰

لیکن جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان عالم نہیں ہے اور اس کے ذہن میں واقعیت اور حقیقت سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کا خیال یہ ہے کہ وہ واقاً حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ (یعنی وہ اپنے جاہل ہونے سے بھی بے خبر ہے)۔ اس طرح وہ دو امر میں جاہل ہے۔ اسی وجہ سے اسے جہل مرکب کہا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت کو اخلاقی لحاظ سے سب سے بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں انسان اصلاً اپنی بیماری کے بارے میں نہیں جانتا بلکہ وہ خود کو صحیح وسالم تصور کرتا ہے۔ حالانکہ اصلاح کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم فساد اور خرابی کا یقین ہونا ہے ۔(١)

اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا ہے: ''بے شک میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کا علاج کرنے سے عاجز نہیں ہوں لیکن احمق انسان کا علاج کرنے سے عاجز ہوں''۔(٢)

دو۔ شک وتردید:

ابتدائی شک، علم ویقین تک پہنچنے کے لئے ایک مبارک قدم ہو سکتا ہے۔انسان جب تک کسی چیز کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ کسی بھی گوشہ کو پنہان اور پوشیدہ نہیں سمجھتا اس کی کوئی خاص جستجو نہیں کرتا ہے۔ بہت سی گرانقدر حقیقتیں صرف ایک ابتدائی شک وتردید کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر شک، علم و یقین اور ایمان تک پہنچنے کے لئے ایک با اہمیت اور بے مثال پل کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح یہ اخلاقی لحاظ سے برا نہیں ہے۔ لیکن شک وتردید، کسی بھی حالت میں منزل نہیں ہے۔ شک 'مقصد اور منزل کے عنوان سے قطعی طور پر ایک اخلاقی برائی ہے اور یقین وایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کرنے اور حق وباطل کو جدا کرنے کے لئے کمزور انسان کا نفس حیران وسرگرداں ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـ نے سختی کے ساتھ شک وتردید سے منع فرمایا ہے اور اسے ایمان کے خلاف اور کفر کا سبب قرار دیا ہے۔مولائے متقیان حضرت علی ـارشاد فرماتے ہیں:

''لا ترتابوا فتشکّوا 'ولا تشکّوا فتکفّروا'' (٣)

(یعنی شک و تردید کو اپنے پاس جگہ نہ دو کہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ گے۔)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات ، ج: ١، ص: ١١٦۔

٢۔ مفید: اختصاص'ص: ٢٢١۔

٣۔ کلینی: کافی'ج: ١'ص: ٤٨' ح: ٦۔

۷۱

تین۔ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ:

خیالات سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے قلب پر عارض ہوتی ہے اور اگر وہ انسان کو شر کی طرف دعوت دے تو وسوسہ ہے اوراگر وہ خیر کی طرف ہدایت کرے تو اسے الہام کہا جاتا ہے۔ شیطانی وسوسہ جو ایمان کی رکاوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کی مختلف قسمیں اور متعدد اسباب ہیں اور ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے متعلق گفتگو اخلاق علمی یا تربیت اخلاقی کے ذیل میں ہونی چاہئے۔(١)

قرآن کریم، شیطانی وسوسہ کے بارے میں خود شیطان کی زبانی ارشاد فرما رہا ہے:

'' میں تیرے بندوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کروں گا اس وقت ان کے سامنے سے 'پیچھے سے' داہنی طرف سے اور بائیں طرف سے پہنچ جائوں گا''(٢)

چار۔ علمی وسواس:

یہ دقت' جستجو، تحقیق اور عقلانیت میں افراط کی ایک قسم ہے جو ایمان کے لئے آفت اور اسے برباد کر دینے کاسبب ہے۔ یہ بات کبھی عقلی دقت کے عنوان سے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ سب سے ابتدائی بدیہیات وواضحات میں بھی خدشہ وارد ہوجائے یہاں تک کہ انسان کو سفسطہ اور واقعیات وحقائق سے انکار کے گڑھے میں بھی گرا دیتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کا وسوسہ ہلاکت اور نابودی کو ہمراہ لاتا ہے اور ہر طرح کے ایما ن اور اطمینان سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔(٣)

پانچ۔ کفر اور شرک:

یہ دونوں ایمان وتوحید کے مقابلہ میںہیں اور ایمان میں رکاوٹ کا باعث شمار کئے جاتے ہیں۔ کفر اور شرک کی ماہیت اور ان کے دوسرے ابعاد و جوانب کے متعلق بہت زیادہ بحثیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کو عقائد وکلام کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے، ان سبھی کے بارے میں گفتگو کرنا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص: ١٤٢، ١٥٨۔

٢۔ سورئہ 'اعراف' آیت: ١٦،١٧۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات، ج: ١، ص ١٠٠ کی طرف رجوع کریں۔

۷۲

دوسری فصل: مؤثر نفسانی صفات

گزشتہ بحث میں ان نفسانی صفات کے بارے میں جو انسان کی ہدایت کی ذمہ دارہیںنیزاخلاق اسلامی کے معروف مآخذمیں قوۂ عاقلہ سے متعلق قوت کے عنوان سے ان کا تذکرہ ہواہے، ہم نے اختصار سے گفتگو کی ہے۔ اس حصہ نیزبعد کے دوحصوں کی گفتگو میں صفات نفسانی کے دوسرے گروہ کے بارے میں جو انسانی نفس میں مؤثر قوت کے عنوان سے اپنا کردارادا کرتی ہیں ہم ان کے بارے میں گفتگو کریںگے۔ اس طرح کے نفسانی صفات اخلاق اسلامی کے معتبر مآخذ اور مشہور کتابوں میں قوت غضبیہ اور قوت شہویہ سے متعلق صفات کے عنوان سے ذکر ہوتے ہیں۔ یہاںسب سے پہلے اس نکتہ کی تاکید کی جاتی ہے کہ نفسانی صفات ان موارد میں جن کو ہم شمار کریں گے منحصر نہیں ہیں۔مؤثر نفسانی صفات کی طبقہ بندی: مؤثر نفسانی صفات کی بھی مختلف گروہوں میںطبقہ بندی کی جاسکتی ہے، ایک تقسیم بندی میں ان میں سے ہر ایک کے رجحان پر نظر کرتے ہوئے ان کو درج ذیل گروہوں میں جگہ دی جاسکتی ہے:

١۔وہ صفات جو خدا وندعالم اور مبدأہستی کی نسبت انسان کے باطنی رجحان پر ناظر ہیں جیسے توکل، تسلیم، اور رضا و....۔

٢۔وہ صفات جو معاد اور انسانی زندگی کے انجام کی نسبت اس کے باطنی رجحان کی طرف ناظر ہیں جیسے خوف، امید و رجائ، مایوسی اور ناامیدی.......۔

٣۔ وہ صفات اور ملکات جو ہمارے رجحان کا تعلق خود ہماری ہی نسبت بتاتے ہیں ؛جیسے عجب، خود پسندی، افتخار، عزت نفس، عصبیت، تعصب وغیرہ ۔

٤۔ وہ صفات جو کل اور آئندہ کی نسبت ہمارے رجحان کو بتاتے ہیں؛ جیسے امیدیں، جلد بازی، ہمت، تسویف (ٹال مٹول) وغیرہ.....۔

٥۔ وہ صفات جو دنیوی مواہب پر ناظر ہوتے ہیں؛ جیسے زہد، حرص، حسرت اور قناعت وغیرہ.....۔

٦۔ وہ صفات جو دوسروں کی نسبت انسان کا رجحان کو بتاتے ہیں ؛ جیسے خیر خواہی، حسد کرنا، کینہ، انصاف وغیرہ..... ۔

٧۔وہ صفات جو نفس کی طبیعی اور متعادل آرایش کو بیان کرنے والے اور اس کے تحفّظ میں کرداراداکرتے ہیں جیسے سکون، وقار، عفت، حیا وغیرہ وغیرہ۔

اخلاق اسلامی میںان گروہوں میں سے ہر ایک کی حیثیت سے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے مبدأ و معاد سے متعلق رجحان کا سرچشمہ اس کا ایمان ہے اور تمام نفسانی رجحانات خود اس کی نسبت، دوسروں کی نسبت، طبیعی مواہب کی نسبت، آئندہ کی نسبت اور نفس کی مطلوب حالت کی نسبت، عالم کے آغاز و انجام کی نسبت نفس کے رجحان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

۷۳

ہدایت کرنے والے نفسانی صفات اور اثر کرنے والے نفسانی صفات کا خاکہ

الف۔ خداکی طرف نفس کا مائل ہونا

بعض وہ نفسانی صفات جو خداوند متعال سے متعلق انسان کے باطنی رجحان اور مطلوب رابطہ کا کام کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

١۔ خداوندعالم کی محبت

بغیر کسی شک و تردید انسان کی قوت جاذبہ (جذب کرنے والی قوت) اور دافعہ (دفع کرنے والی قوت) محبتوں اور نفرتوں کے زیر اثر وجود میںآتے ہیں۔ جب انسان محبت وعشق کرتا ہے، تو لذت اور نیک بختی کا احساس کرتا ہے اور جب کراہت و نفرت کے عالم میں ہوتا ہے تو پریشانی، رنج و الم، دردوغم، کااحساس کرتا ہے۔ شاید اسی بنا پر اخلاق کے بعض بڑے حکماء اور فلاسفر نے انسان کی غایت اور اخلاق کا مقصد سعادت وخوش بختی یعنی لذت بخش حیات اور رنج والم سے دور زندگی کو جانا ہے۔ اس ہدف کی تکمیل صرف اور صرف محبت آمیز زندگی کے سایہ میںبالخصوص اس کے عالی مرحلہ یعنی عاشقانہ زندگی میںمیسر اور ممکن تصور کرتے ہیں، ان تمام فضیلتوں کا راز '' محبت ''اور'' عشق''کے الفاظ کے لئے اسی حقیقت میںتلاش کرنا چاہیے لیکن جو چیز اصل عشق و محبت سے بھی زیادہ اہم ہے محبوب اور معشوق کی شان و منزلت ہے۔ انسان کی سعادت کا معیار اس کے درجہ محبت سے وابستہ ہے اور محبت و عشق کے درجہ کو محبوب کے کمال و جما ل کے اندازوں میںتلاش کرنا چاہیے نیز اس کے دوام وبقا کو بھی جمالِ محبوب کا ظہور اور غروب معین کرتا ہے۔اب اصلی سوال یہ ہے کہ سر و جان کا سودا کس حقیقت جمال و جلال کے عشق میں کرنا چاہیے تاکہ ابدی محبت اور بلند وبالا عشق مثمر ثمر ہو اور پایدار لذت اور دائمی نیک بختی حاصل ہو ؟

خدا پر اعتماد رکھنے والوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ اس سوال کا جواب خود اپنے خدا سے طلب کریں۔اخلاق اسلامی کے نقطۂ نظر سے وہ وجود جو ایسی محبت کا حقدار ہے خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس کی محبت تخلیق عالم کی توجیہ کرنے والی اور عالم وبنی آدم کے اہداف و مقاصد کو پورا کرنے والی نیز ان کی آرزؤں کی تکمیل کرنے و الی ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم فرماتا ہے: ''والذین آمنوا اشدّ حبا ﷲ''!(١) ''جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ خدا سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں'' اور یہ اعلان کرتا ہے '' یحبھم و یحبونہ''(٢) ''خدا انہیں دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ (بھی) خدا کو دوست رکھتے ہیں''۔

____________________

١۔ سورئہ بقرہ ١٦٥۔

٢۔ سورئہ مائدہ آیت ٥٤۔

۷۴

دوسری طرف، خداکی محبت ایک ایسی جزا ہے کہ خدا وند عالم قرآن میں اپنے خاص بندوں کو جس کی بشارت دیتا ہے، جیسے مجاہدین جو اس کے لئے اپنے سرا ورجان کو فدا کردیتے ہیں:

''ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیله صفاً کانهم بنیان مرصوص'' (١) ۔

''بے شک اﷲ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں جس طرح سیسہ پلائی ہوئی دیواریں''۔ اور جس طرح محسنین، توابین، مطھرین، مقسطین، صابرین اور متوکلین (احسا ن کرنے والے، توبہ کرنے والے، پاکیزہ افراد، عدل وانصاف کے خو گر، خدا پر توکل و بھروسہ کرنے والے) قرآن کریم میں خداکے محبوب قرار دئیے گئے ہیں یہاںپر ہماری گفتگوکا موضوع انسان کا خدا وند سبحان سے محبت کرنا ہے، لیکن چونکہ درحقیقت بندوں کی اپنے پروردگار سے محبت اور خدا کی ان سے، محبت کے درمیان ایک قسم کا ملازمہ پایاجاتا ہے لہٰذا ناگزیر دونوں ہی نظر سے موضوع کو دیکھنا چاہئے۔

پہلی نظر: بندوں کی خدا سے محبت

الف۔ صرف خدا حقیقی محبوب ہے: در حقیقت صرف خدا ہے جو حقیقی محبت اور واقعی عشق کرنے کا سزاوار ہے دیگر اشیاء اور اشخاص اپنے اس رابطہ کے اعتبار سے جو اس سے رکھتے ہیںمحبوب واقع ہوتے ہیں۔

الف: محبت کی پیدائش کے اسباب:

علماء اخلاق کا نظریہ ہے کہ محبت اور اس کے شدید مراتب یعنی عشق درج ذیل اسباب ووجوہ کی بنا پر وجود میںآتے ہیں:

١۔ جو چیزیں انسان کی بقاء اور کمال کا سبب ہوتی ہیں:

اسی بنیاد پر، انسان اپنے وجود کو عزیز اور دوست رکھتا ہے اور اس کی بقا ء اور دوام کا خواہاں ہوتا ہے اور جو چیز بھی اسے اس بات میںمعاون و مدد گا رثابت ہوتی ہے وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے، اور وہ موت کے اسباب سے کراہت رکھتا ہے۔( ٢)

٢۔ لذت:

لذت مادی ہو یا معنوی محبت کا سبب ہوتی ہے یعنی انسان جو کچھ لذت کا سبب ہوتا ہے اس کے لذت آور ہونے کی وجہ سے اسے دوست رکھتا ہے نہ کہ خود اس لذت مادی کی وجہ سے ؛ جیسے انسان کی لذت کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق نیز وہ تمام چیزیں جو اس کے تمام غرائز وخواہشات پورا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اس طرح کی محبت آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتی ہے لیکن تیزی سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔

____________________

١۔ سورئہ صف آیت٤۔٢۔ فیض کاشانی، محسن ؛المحجة البیضائ، ج٨، ص٩تا ١١۔ نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٤، ١٣٥۔

۷۵

اس طرح کی محبتیں پست مادی اور سریع الزوال ہونے کی وجہ سے محبت کا سب سے ادنی درجہ شمار ہوتی ہیں(١) اور معنوی لذت ؛ جیسے انسان کا ایک فدا کار مجاہد سے محبت کرنا، اس لذت کی بنا ء پر جو اس کی دلاوری اور اس کے مظاہرہ جنگ سے محسوس کرتا ہے اور ایک فنکار اور ورزش کرنے والے انسان سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو ہنر نمائی کے میدان میں محسوس کرتا ہے اور امانت و پاکدامنی سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو انسان امانت داری اور پاکیزگی سے محسوس کرتا ہے نیز خداوندعالم کی یاد اوراس سے راز و نیاز اس بناپر کہ وہ اس بات سے سرشار لذت محسوس کرتا ہے، اس طرح کی لذتو ں کی ان لوگوں کے لئے محبت آفرینی جو اس کے ایک گھونٹ سے سیراب ہوئے ہیں ایک واضح اور استدلال و برہان سے بے نیاز امر ہے، اس طرح کی لذتیں دراز عمر ہوتی ہیں، اگر چہ اس اعتبار سے خود مختلف درجات اور مراتب کی حامل ہیں، لیکن باقی اور دائم محبت کے خواہاں افراد اس کے پانے کی تمنا میں مادی لذتوں اور فانی محبتوں کا یکسر سودا کرتے ہیں۔

٣۔احسان:

انسان احسان اور نیکی کا اسیراور بندہ ہے اور فطری طور سے جو بھی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے وہ اسے دوست رکھتا ہے اور جو انسان اس کے ساتھ برائی کرتا ہے وہ اس سے رنجیدہ خاطراور بیزارہوتا ہے اس بناء پر نیکی، منفعت اور احسان انسان سے

۷۶

محبت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔(٢)

٤۔ ظاہری و باطنی حسن و جمال:

خوبصورتی اور حسن و جمال کا ادراک محبت کا باعث ہو تا ہے ؛ یعنی انسان خواہ مادی خوبصورتی ہو یا معنوی اسے دوست رکھتا ہے اور اس کی یہ محبت خوبصورتی اور حسن کی ذات سے تعلق رکھتی ہے، نہ یہ کہ اس کے علائم اور لوازم سے اوروہ فطری اور باطنی سرچشمہ رکھتی ہے۔

٥۔باطنی اور روحی توافق ومناسب:

کبھی انسان دوسروں سے محبت کرتا ہے، لیکن نہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور نہ ہی اس کے مال ومرتبہ سے امید اور لالچ رکھنے کے سبب بلکہ صرف اورصرف اس باطنی اور روحی تناسب اور توافق کے لحاظ سے جو اس کی روح و جان کے ساتھ رکھتا ہے۔

٦۔ الفت واجتماع:

افراد کا اجتماع اور آپس میں معاشرت رکھنا اور ایک ساتھ زندگی گذارنا آپسی میل جول، اتحاد و الفت اور انس و محبت کا باعث بنتا ہے۔ انس و محبت کا سرچشمہ انسان کی طبیعت اور سرشت میں ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لفظ''انسان'' اُنس سے ماخوذ ہے نہ کلمۂ'' نسیان ''سے ۔(٣)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

٣۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص٩٤ ملاحظہ ہو۔

۷۷

٧۔ ظاہری اوصاف میں شباہت:

ایک یا چند ظاہری خصوصیات میں اشتراک محبت کے پیدا ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ بچوں کا ایک دوسروں سے لگاؤ اور بوڑھوں کا آپس میں تعلق نیز ہم پیشہ اور ہم صنعت افراد کا ایک دوسرے سے محبت رکھنا اسی وجہ سے ہے۔

٨۔ علیت کا رابطہ:

چونکہ معلول کا سرچشمہ علت ہے اور ا س سے تناسب اورسنخیت اور جنسیت رکھتا ہے، لہٰذا علت محبوب واقع ہوتی ہے کیونکہ علت کے بعض اجزاء اور اس کے بعض ٹکڑوں کے مانند ہے، معلول بھی علت کو اس لئے دوست رکھتا ہے کہ درحقیقت علت اس کی اصل و اساس ہے، اس بنا پر ان میں سبھی ایک دوسرے سے محبت کرنے میں درواقع اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں(١)

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ محبت ایجاد کرنے کے تمام اسباب وعلل مذکورہ موارد میں خلاصہ ہوسکتے ہیں یا نہیں ، اور مذکورہ اسباب میں سے ہرایک کے استقلال یا تداخل سے چشم پوشی کرتے ہوئے حقیقی طور پرمحبت آفرین تمام اسباب و علل صرف خدا وند سبحان میں پائے جاتے ہیں اور اس کے علاو ہ میں ان کا تصور کرنا ایک وہم اور خیال سے زیادہ نہیں ہے، اس حقیقت کے بیان میںکہاجاسکتاہے: ہرانسان کاوجود خداوند سبحان کے وجود کی فرع وشاخ ہے اور خداوندعالم کے وجود سے جداکوئی ہستی اور وجود نہیں رکھتا، اور اس کے وجود کاکمال اس کے ذریعہ اور اس کی طرف سے ہے نیز لذت و احسان کا سرچشمہ خداوندعالم ہی کی ذات ہے، احسان کاخالق وہ ہے اور ہر احسان اس کے قدرت اور فعل کی خوبیوں میں سے ایک خوبی و حسن کا بیان کرنے و الا ہے۔ بے شک کمال وجمال بالذات کامالک صرف ا ور صرف وہ ہے اوریہ صرف اسی میں پایا جاتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بصیرت کے لئے معنوی جمال زیادہ دوست رکھنے کے لائق اور خوبصورت ترین شئی ہے۔ اسی طرح انسان کی روح وجان اپنے پروردگار سے ایک مخفی اور باطنی راز و رمز کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے، اور شاید آیۂ ''قل الروح من امر ربی'' (٢) (''کہو، روح ہمارے ربّ کے امر سے ہے '') اسی باطنی رابطہ کی طرف اشارہ ہو۔ خدا اور انسان کے درمیان رابطۂ علیت کا وجود آشکار اور توضیح سے بے نیاز ہے۔ لیکن دو دیگر اسباب یعنی '' مادی اجتماع '' اور ''ظاہری اوصاف میں اشتراک '' پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں اسباب محبت آفرینی میں معمولی کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کا خدا وند سبحان کی طرف نسبت دینا نقص کا باعث ہے، اور درحقیقت محال ہے لہٰذا حقیقی طور پر اور عالی ترین درجات میں محبت کے تمام اسباب خدا وند عالم میںپائے جاتے ہیں اور چونکہ اس کے اوصاف میں کوئی شریک نہیں ہے لہٰذا کسی قسم کا شریک اس کی محبت میںبھی وجود نہیں رکھتا۔(۳)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی: جامع السعادات،، ج٣، ص١٣٩۔٢۔ سورئہ اسرائ، آیت ٨٥۔۳۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٨ ص ١٦، ؛نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص ١٤٢، اور ١٤٦ ملاحظہ ہو۔

۷۸

ب۔ خدا وند عالم سے محبت کی نشانیاں:

بلند و بالا، مقدس و پاکیزہ فضائل ہمیشہ جھوٹے دعویداروں سے روبرو رہے ہیں، یہ غیر واقعی خیالات اور دعوے کبھی کبھی اس طرح پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ حقیقت امر خود اشخاص پر بھی پوشیدہ ہوگئی، بہت سے طفل صفت ایسے ہیں جنہوں نے ابھی محبت خداوندی کا الفباء بھی نہیں سیکھا ہے، لیکن خود کو اللہ کے دوستوںمیں شمار کرتے اور اس سے عشق و محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

خدا وند عالم کے دوستوں کی ظاہری اور ملموس نشانیوں کا بیان خود شناسی اور دیگر شناسی کے لئے ایک مناسب راستہ اور خدا کی محبت ودوستی کے جھوٹے اور سچے دعوؤں کا ایک معیار ہے۔ ان علامتوں میںاہم ترین علامتیں اخلاق اسلامی کی اوّلین کتابوں کی روایت کے اعتبار سے درج ذیل ہیں:

١۔ موت کو دوست رکھنا:

سچا چاہنے والا اور حقیقی دوست اپنے محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے۔ اگر چہ موت خداوندعالم سے ملاقات کرنے اور اس کے جمال کے دیدار کی تنہا راہ نہیں ہے، لیکن عام طور پر اس ہدف کا تحقق اس راہ مرگ سے گذرے بغیر ممکن و میسر نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان کسی مقصد سے عشق کرے، تو جو کچھ اس راہ میں راہنما واقع ہوگا وہ اس کا محبوب بنتا چلاجائے گا، قرآ ن کریم اس سلسلہ میںفرماتا ہے: '' کہو: اے وہ لوگوں جو یہودی ہوگئے ہو اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم لوگ خدا کے دوست ہو اور دوسرے لوگ دوست نہیں ہیںتو اگر اپنے قول میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو '' ۔(۱) البتہ جیسا کہ خدا وند سبحان کی محبت کے درجات ومراتب ہیں، موت کا چاہنا یا نہ چاہنا بھی افراد کی نظر میں درجات و مراتب رکھتا ہے۔

موت کو ناپسند کرنا خدا وند عالم کی محبت سے اس وقت سازگار نہیں ہے جب اس محبت کا سرچشمہ دنیاوی مظاہر جیسے اموال، اولاد، خاندا ن اور مقام و منصب ہو، لیکن جب دنیا میں باقی رہنے کا تعلق و لگاؤ پروردگار عالم سے ملاقات کے لئے آمادگی کا حصول اور نیک اعمال انجام دینا ہو تو خدا وندعالم کی دوستی سے منافات نہیں رکھتا۔(۲)

____________________

۱۔ سورئہ جمعہ، آیت ٦۔

۲۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ١٧٤ ،١٧٥۔

۷۹

٢۔ خداوندعالم کی خواہش کو مقدم کرنا:

خداوندعالم کاحقیقی دوست اس کے ارادہ کواپنے ارادہ پر مقد م رکھتا ہے حتی کہ اگر محبوب فراق اور جدائی کاارادہ کرے تووہ اسے وصال پر ترجیح دے۔ اللہ کی محبت اس کے دستور اور قوانین کی پیروی کی طالب ہے اور محبوب کی رضایت کاحاصل کرنااس کے لوازمات میںسے ہے ۔ ''کہو: اگر خداکو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تاکہ خداتمہیں دوست رکھے اور تمہارے گنا ہوںکو بخش دے خدا وند بخشنے والا مہربا ن ہے''۔(١)

٣۔ یاد خدا وندی سے غافل نہ ہونا:

محبوب کا ذکر، اس کی یاد اور جو کچھ اس سے مربوط و متعلق ہے اس کا تذکرہ ہمیشہ محب کے لئے لذت بخش اور دوست رکھنے کے قابل ہے، خدا کے دوست ہمیشہ اس کی اور اس کے دوستوں کی بات کرتے ہیں اور اس کی یاد کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اور اس کے کلام کی تلاوت سے لذت حاصل کرتے ہیں اور خلوت میں اس سے مناجات اور راز و نیاز کر کے انس حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا نے موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے عمران کے فرزند ! جھوٹ بولتا ہے وہ انسان جو خیال کرتا ہے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے لیکن جب رات ہوتی ہے تو میری عبادت سے چشم پوشی کرتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر عاشق و دلدادہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ وہ اپنے دلدار و عاشق سے خلوت کرے ؟(٢)

٤۔خوشی و غم خدا کے لئے:

خدا کے چاہنے والے محزون ومغموم نہیں ہوتے مگر اس چیز کے لئے جو انھیںمحبوب سے دور کردے اور خوشحال و مسرور نہیں ہوتے جز اس چیز سے جو انھیںان کی مراد اور مقصد سے نزدیک کردے۔ وہ لوگ اطاعت سے شاد و مسرور اور معصیت سے محزون وغمزدہ ہوتے ہیں اور دنیا کا ہونا اور نہ ہونا ان کے لئے خوشی اور غم کا باعث نہیں ہوتا۔'' جوکچھ تمہارے ہاتھ سے ضائع ہو گیاہے اس پررنجیدہ خاطر نہ ہو اور جو تمہیں دیا گیا ہے اس کی (وجہ) سے شاد و مسرور نہ ہو''(٣)

٥۔خداکے دوستوںسے دوستی اور اس کے دشمنوںسے دشمنی:

''محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم'' ''محمد'' خدا کے پیغمبر ہیں اور وہ لوگ کہ جو ا ن کے ساتھ ہیں کافروں کے ساتھ سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہیں(٤)

____________________

١۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣١۔ ٢۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٣٣٨، ح ٥٧٧۔ دیلمی، حسن ابی الحسن: اعلام الدین، ص٢٦٣۔ ارشاد القلوب، ص٩٣۔٣۔ سورئہ حدید، آیت ٢٣۔ ٤۔سورئہ فتح، آیت ٢٩۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔(1)

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُهُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد '' (2)

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمد(ص) پر ہے۔

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت (ص) کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:311

[2]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

۲۰۱

 جھوٹی محبتیں

کچھ لوگ خاندان وحی ونبوت علیھم السلام سے محبت و دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بارے میں خود کو اتنا سچا پیش کرتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا شائہ تک نہیں پایا جاتا۔اور ان کا وجود محبت اہلبیت علیھم السلام سے سرشار ہے؛ لیکن جب ہم ان کے رفتار و کردار کے بارے میںسوچتے ہیں اور ان کے کردار کی خاندان  نبوت ورسالت علیھم السلام کے دستورات سیملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اہلبیت علیھم السلام سے دوستی و محبت کا اظہار خالصانہ اور سچانہیں ہے۔

بہت سے لوگ خود کو امام زمانہ عجل  اللہ فرجہ الشریف کا عاشق اور جاںنثار سمجھتے ہیں لیکن عملاً ان کا سہم (یعنی خمس ،جوکہ ان کے اپنے لئے خدا کی نعمتوں  کے نزول کاذریعہ ہے) ان کی آل کو ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں!

جو شخص امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف مقدس اہداف کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرے کیاوہ امام کے ظہور کے زمانے میں آپ پر اپنی جان نثار کرسکتا ہے؟

لیکن کیا حضرت امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی توقیع میں یہ نہیں فرمایا:

''لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلاٰئِکَةِ وَالنّٰاسِ أَجْمَعِیْنَ لِیْ مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ أَمْوٰالِنٰا دِرْهَماً'' (1)

اس شخص پر خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو ہمارے مال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال جانے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۱۸۳، کمال الدین: ج۲ص۲۰۱، الصحیفة المبارکة المہدیة:282

۲۰۲

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں جابر سے فرمایا:

''یٰا جٰابِرُ، أَ یَکْتَفِْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُوْلَ بِحُبِّنٰا أَهْلِ الْبَیْتِ ؟فَوَاللّٰهِ مٰا شِیْعَتُنٰا اِلاّٰ مَنِ اتَّقَی اللّٰهَ وَ أَطٰاعَهُ''(2)

اے جابر!کیا خود کو شیعہ کے طور پر دکھانا کافی ہے اور کہے کہ میں اہلبیت علیھم السلام سے محبت کرتا ہوں ۔خدا کی قسم !ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقویٰ الٰہی رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔

اس فرمان سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ:جو کوئی با تقویٰ نہیں اور خداکا مطیع نہیںاسے صرف محبت کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔

--------------

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۹۷

۲۰۳

 نتیجۂ بحث

 محبت آپ کے دردو غم کے لئے اکسیر ہے ۔محبت کی کشش و جاذبہ انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور اس کے صفات و حالات محب میں ایجاد کرتی ہے اور اسے تقویت دیتی ہے۔محبت جتنی زیادہ ہو ،محب میں محبوب کے روحانی حالات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جس سے اسے  محبوب کا تقرب حاصل ہو جائے۔یہی مودت کا معنی ہیجوہر انسان کو خاندان وحی علیھم ا لسلام سے ہونی چاہئے۔کیونکہ اجر رسالت ، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت  ہے۔

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام سے محبت و مودت کے ذریعے اپنی روح کو پروان چڑھائیں اور اس خاندان کے آستانۂ ولایت سے تقرب حاصل کریں تا کہ آپ کا وجود ولایت کے تابناک انوار سے سرشار ہو جائے اور آپ کے وجود سے برائیاں پاک ہو جائیں۔

 ان ہستیوں کے تقرب کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ان کے دشمنوں سے  برات اور دوری کی جائے۔

 یہ ہے سچی محبت جسے آپ اپنے اور اپنے نزدیکی افراد کے دل کی گہرائیوں میں ایجاد کریں۔

جمعی کہ دم از مھر و ارادت دارند

در بام شرف ،کوس سیادت دارند

چون دست بہ دامان سعادت زدہ اند

پا بر سر نام و ننگِ عادت زدہ اند

۲۰۴

آٹھواں  باب

انتظار

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ  ''

مومن کی سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے (سختی اورغم سے)  نجات کے انتظار میں رہے۔

    انتظار کی اہمیت    انتظار کے عوامل    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

    انتظار کے آثارسے واقفیت

    1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

    2۔ روحانی تکامل

    مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر    کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

    3۔ مقام ولایت کی معرفت    4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

    اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

    ظہور کے زمانے کی معرفت

    1۔ باطنی تطہیر

    2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

    3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

    نتیجۂ بحث

۲۰۵

 انتظار کی اہمیت

انتظار ان با عظمت افراد کا خاصہ ہے جو کامیابی اور کامرانی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہیں۔چونکہ غیبت کے دوران خاندان عصمت علیھم السلام کے دامن اطہر سے جاری عظیم شخصیتوں سے متعلق روایتیں نیز مستحکم اور مظبوط اقوال زریں ہو ئے ہیں ۔آنحضرت  کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہر زمانے کے انسان سے افضل ہیں ۔

اسی لئے ایک گروہ انتظار کی  سختیوں کو دنیا میں کامیابی کی اہم کلید سمجھتا ہے ۔  ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان انتظار کے اسباب اور اس کے کمال کی معرفت اور وسیلہ سے حقیقت کے بحر سے کامیابی کے جواہر حاصل کر سکتا ہے نیز سماجی مشکلوں اور مادی رکاوٹوں سے بھی نجات پا سکتا ہے ۔انتظار صحیح معنی میں دشوار گزار حالت ہوتی ہے گویا کہ اسرار کے بھنور نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے حسب دلخواہ اس کے کمال کی راہ نکالی ہے اور دشمن کی مکاریوں کی مخالفت کی ہے چونکہ انتظار اپنے آخری اور بلند ترین مرحلہ میں امام زمان  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی ملکوتی حکومت میں آسمانی نظام کے رائج کرنے اور اس کی خدمت کرنے میں آمادگی اور مدد کے معنوں میں آتا ہے کہ جسے غیر عادی اور غیر معمولی قدرت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا انتظار امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف کے خاص اصحاب میں موجود ہے ۔[1]

--------------

[1] ۔ ہ لوگ جو امام زمانہ کی یاد اور توسل کے ساتھ انتظار کے مراسم برپا کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس قسم کی مجالس و محافل الحمد للہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہی ہیں اور ہماری مراد اس طرح کی مجالس کی نفی اور اس طرح کے افراد کے اندر حالت انتظار کی عدم موجودگی نہیں ہے ۔ کیونکہ انتظار میں درجات و مراتب پائے جاتے ہیں ۔ اور وہ افراد جو اس کے کمال اور عالی ترین مراتب تک پہنچے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن انھیں افراد میں سے اٹھے ہیں ۔ اور سخت جاں فشانی اور جد و جہد اور سختیوں اور مشکلات کے تحمل کرنے کے ساتھ اس عظیم مقام کہ جس پر وہ فائز ہوئے ہیں کو حاصل کیا ہے ۔

۲۰۶

 انتظار جس مرحلے میں بھی ہو یہ عالم غیب سے غیبی مدد اور خدا سے تقرب کا راستہ  ہے  اور اگراس میں دوام ہو اوراگر یہ تکامل حاصل کرلے تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں نفس اور ضمیر سے نا آگاہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور کھنچائو کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور  انسان کے باطن میںنور اور آشنائی کے دریچے کھول دیتاہے اور اسی طرح سے انسان کے لئے تکامل کی راہ کھول دیتاہے کیونکہ انتظار تمام تر ضروری اور لازم مدارج میں آمادگی کی حالت کو کہتے ہیں ۔

 باطنی توجہ کو دنیا سے خلوص ، حقیقت اور نورانیت کی طرف جذب کرتیہے ۔ وہ جہان جس  سے تمام تر شیطانی اور طاغوتی قوتیں اور طاقتیں نابود ہو جائیں اس دنیائے انسانیت کی جان میں انوار الٰہی کی چمک جگمگا اٹھتی ہے ۔

اس حقیقت کی  طرف غور کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراحل کو طے کر سکتا ہے کہ جو غیر معمولی طاقت اور قوت کا حامل ہو ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف  کی حکومت ایکغیر معمولی حکومت ہوگی جس کا درک کرنا ہماری ہمت ، طاقت اور سوچ سے کہیں بالا تر ہے ۔ اور سب کے لئے ضروری ہے کہ مدد گار افراد حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پہلی صف میں آپ کی مدد کریں تاکہ اللہ کے نیک لوگوں میں شمار ہوں اور آپ کے فرمان اور حکم کی اطاعت کرنے کی طاقت کو حاصل کریں جس کو حاصل کرنے کے لئے غیر عادی قدرت کا ہونا ضروری ہے ۔(1)

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے اوصاف اور خواص کو بیان کرنے   والی روایات ان کے بارے میں روحانی اور غیر عادی طاقتوں کے موجود ہونے کا پتا دیتی ہیں یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں بھی ۔

--------------

[1] ۔ بے شمار روایت میں امام عصر  کی حکومت کے اندر غیر معمولی طاقتوں سے استفادہ کی تصریح کی گئی ہے ۔

۲۰۷

 انتظار کے عوامل

 ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور  اپنے اور دوسروں کے اندر بھییہ حالت پیدا کریں ۔

 حالت انتظار کو حاصل کرنے ، سیکھنے اور اسے دوسروں تک آگے پہنچانے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے ہم معاشرے میں انتظار کی حالت پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں انتظار کے بیچ کوبا ثمر بنا سکتے ہیں اور درج ذیل بعض مہم ترین راہوں کے ذریعہ سے معاشرہ ، مسئلہ انتظار کی طرف مائل ہو سکتا ہے ۔

 1۔ ولایت کے عظیم مقام سے آشنائی اور عظمت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شناخت ۔

2 ۔ انتظار کے حیران کن آثار کے ساتھ اس کے صحیح اور کامل معنی اور اس کے عظیم مراحل سے  آشنائی ۔

3۔ امام عصر کے اصحاب کے اوصاف و خصوصیات سے آشنائی جو انتظار کے عالی ترین مرتبہ تک پہنچے اور عظیم روحانی قوت سے ہمکنار ہوئے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  کے فرمان کو انجام دیتے ہیں ۔

4۔ انسان اور آئندہ زمانے کے لوگوں کی زندگی میںظہور کے زمانے میں واقع ہونے والے عظیم تحولات اور اہم ترین تغیرات سے آشنائی  ۔(1)

--------------

[1] ۔ ان کے علاوہ دوسرے راستے بھی موجود ہیں جو انسان کو انتظار کی طرف بلاتے ہیں ان میں سے بعض کی وضاحت ہم نے کتاب اسرار موفقیت میں ذکر کی ہے جیسے ۔ اخلاص ، معارف سے آشنائی محبت اہل بیت  خود سازی اور .......۔

۲۰۸

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مرتبہ کی معرفت، آپ کے محبین اور ساتھیوں کی شناخت اور عقل    اورفہم و ادراک کی تکمیل ، غیبت اور عالم نا مرئی سے ربطہ ، ناشناختہ موجودات کی شناخت ، دور دراز فضائوں اور آسمانوں کے سفر اور اسی قسم کے دوسرے مسائل لوگوں کو مسئلہ ظہور امام کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

 نیزجو آنحضرت  کی عظیم الشان ار آفاقیحکومت کے لئے آمادگی پیدا کرتے ہیں یہ تمام حقائق ، پاک طینت افراد میں علم و آگہی اور جنون و عشق کا سرور پیدا کرتے ہیں اوراس طرح یہ افراد اس عظیم الشان زمانے کے دلدادہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے اور سماج میں انتظار اور ظہور کی حالت پیدا کریں جو ہر انسان کی مسلم ذمہ داری ہے۔ اب اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

امام کا باعظمت وجود اپنی نورانی خصوصیتوں کے سبب انتظار کی کیفیت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں آپ  کے علاوہ کو ئی بھی رہبری ،امامت اور کائنات کی اصلاح کے لا ئق نہیں ہے یہ اسباب انسان کو آپ کی طرف جذب کرتے ہیں نیز آپ  خداکی آخری نشانی ہیں آپ ہی آخری راہنما اور ہادی ہیں جیسا کہ آپ سے متعلق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فر ماتے ہیں :

 ''عِلْمُ الْاَنْبِیٰاء فِی عِلْمِهِمْ وَسِرُّ الْاَوْصِیٰاء فِیْ سِرِّهِمْ وَ عَزُّالْاَوْلِیٰاءِ فِیْ عِزِّهِمْ ، کَالْقَطْرَةِ فِی الْبَحْرِ وَ الذَّرَّةِ فِی الْقَفْرِ'' (1)

--------------

[1]۔ بحار الانوار ،: ج۲۵ص۱۷۳

۲۰۹

  تمام نبیوں کا علم ،تمام اوصیاء کے راز،تمام اولیاء کی عزتیں آپ کے علم ،راز اور عزت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں ایک قطرہ یا ریگستان میں ایک ذرہ ۔

 چونکہ ہم خاندان عصمت و طہارت  علیھم السلام کے آخری فرد کے دور میںزندگی گزار  رہے ہیں اسی لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے زریں فرامین واقوال کے سائے میں رہتے ہو ئے تباہی اور بربادی کے طوفان سے بچیں اور آنحضرت  کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں نیز آپ  کی حکومت کے   انتظار میں ہرایک لمحہ شمار کرتے رہیں تا کہ آپ پرچم ہدایت وعدالت افلاک عدل و انصاف پر نصب فرما دیں ۔

 اگر کو ئی اس زمانے میں امام علیہ السلام کو پہچان لے اور زمانہ ٔغیبت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اس امداد سے آگاہی رکھتا ہو اور آپ کے ذریعے  زمانہ ٔ  ظہور میں دنیا اور انسانوں میں ایجاد ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہو تو وہ ہمیشہ آپ  کی یاد میں رہے گا اور اس طرح جیسا کہ حکم ہوا ہے(1) آفتاب ولایت کے طلوع کے انتظار میں زندگی بسر کرے گا ۔

 معرفت ؛ایسے انسان کے دل سے غلاظت اور زنگ کو پاک اور صاف کرکے اس کی جگہ پا کیزگی خلوص اور نورانیت کو جایگزین کرے گی۔ اب ایک نہا یت ہی پر کشش روایت کی طرف توجہ کریںجس سے امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔغیبت میں آپ  کی طرف سے غیبی امداد کا پتہ چلتاہے جابر جعفی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ حضور اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فر مایا :

--------------

[1]۔ بحار لانوار:ج52ص145

۲۱۰

 ''....ذٰاکَ الَّذِی یَفْتَحُ اللّٰهُ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ عَلٰی یَدَیْهِ مَشٰارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغٰارِبَهٰا ، ذٰاکَ الَّذِیْ یَغِیْبُ عَنْ شِیْعَتِهِ وَ اَوْلِیٰا ئِهِ غَیْبَةً لاٰ یَثْبُتُ فِیْهٰا عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِهِ اِلاّٰ مَنْ اِمْتَحَنَ اللّٰهُ قَلْبَهُ بِالْاِیْمٰانِ ''''قٰالَ :فَقٰالَ جٰابِرُ :یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَهَلْ یَنْتَفِعُ الشِّیْعَةُ بِهِ فِیْ غَیْبَتِهِ ؟

فَقٰالَ : ای وَالَّذِیْ بَعْثَنِیْ بِالنُّبُوَّةِ أَنَّهُمْ لَیَنْتَفِعُوْنَ بِهِ وَ یَسْتَضِیْئُونَ بِنُوْرِ وِلاٰیَتِهِ فِی غَیْبَتِهِ کَانْتِفٰاعِ النّٰاسِ بِالشَّمْسِ ،وَاِنْ جَلَّلَهَا السِّحٰابُ ، یٰا جٰابِرُ ،هٰذٰا مَکْنُوْنُ سِرِّ اللّٰهِ وَ مَخْزُوْنُ عِلْمِهِ فَاکْتُمْهُ اِلاّٰ عَنْ أَهْلِهِ ''(1)

 وہ (امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف) جن کے ذکر کو خداوند کریم زمین کے تمام گوشہ و کنار میں آپ  ہی کے ذریعہ پہنچائے گا وہ اپنے شیعوں اور محبوں  سے غائب رہیں گے اس طرح کہ بعض آپ  کی امامت کے منکر ہو جا ئیں گے سوائے ان افراد کے جن کے ایمان کا خداوند کریم نے امتحان لے رکھا ہو ۔

 جابر جعفی کہتے ہیں :جابر بن عباللہ انصاری نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسو ل(ص) اللہ! کیا شیعہ ان کی غیبت کے زمانے میں ان سے بہرہ مند ہو سکیں گے ؟

 پیغمبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا :

'' اس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا وہ افراد آپ  کے وسیلہ سے بہرہ مند ہوں گے ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ،جس طرح لوگ سورج سے بہرہ مند ہو تے ہیں اگر چہ بادل اسے ڈھانکے ہوئے ہوں۔اے جابر!وہ خدا کے مخفی رازوں اور اس کے علم کے خزانو ں میں سے ہے ۔لہٰذا اسے مخفی رکھو مگر اس کے اہل سے''.

--------------

[1]۔ کمال الدین :146اور 147، بحارالانوار:ج36ص250

۲۱۱

جیسا کہ آپ  نے ملا حظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں تاکید کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ شیعہ امام عصر ارواحناہ فداہ کے زمانہ غیبت میں آپ  کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ۔

کیست بی پردہ بہ خور شید ،نظر باز کند      چشم پوشیدۂ ما،علت پیدائی توست

از لطافت نتوان یافت ،کجا می باشی               جای رحم است بر آن کس کہ تماشایی تست

 اگر چہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس زمانے میں غائب ہیں مگر حقیقت میں پردۂ غیبت ہمارے دلوں پر ہے ور نہ امام اس شخص کے لئے چمکتا ہوا نور ہیں جس کا دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو خواہ ظاہراً نابینا ہو ۔(1)

 اس حقیقت کی طرف توجہ انسان کی منزل ولایت اور آپ  کے علم اور قدرت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوردلوں کو امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریفکی محبت سے سرشار اور آنحضرت  کی آئندہ آنے والی حکومت   کے انتظار کو ایجاد کرتی ہے ۔

--------------

[1] ۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے کتاب اسرار موفقیت ج  2 کے صفحہ نمبر 50سے ابو بصیر کی روایت میں امام باقر  علیہ السلام  کے غائب  ہونے کے واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۱۲

  انتظار کے آثارسے واقفیت

 1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

 ایسے معاشرے میں جہاںدین کا نام و نشان بھینہ ہو اور لوگ بہتر مستقبل کی فکر میں نہ ہوں تو ویاںقتل وغارت ، خوں ریزی ، خود کشی اور اسی طرح کی دوسری برائیاںوجود میں آتی ہیں ۔ چونکہ لوگ '' منفی عوامل '' جیسے فقر ، تنگدستی ، ظلم و ستم ، تجاوز ، قانون شکنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بے اعتنائی جیسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزمائی کے حربوں سے ناواقفیت کی وجہ سے گھر ، سماج اور معاشرے کی تباہی دیکھتے ہی مایوسی و ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

 چونکہ اس کی غیبی طاقت سے مایوس ہو جاتے ہیں لہٰذا ان مشکلوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔ پھر اس ظلم اور بربریت کو اختیار کرکے صرف اپنی دنیا و آخرت ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال نیز رشتہ داروں تک کوبھی اس بھیانک تباہی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

 وہ شخص جس کے دل میں انظار کی کیفیت موجزن ہے اور ہمہ وقت دنیا کے اندر نورولایت کے چمکنے کی امید میں ہے ، کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا جو ا اپنے ساتھ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے ۔

۲۱۳

 چونکہ وہ انتظار کے مسائل سے واقف ہے اور نا امیدی ومایوسی سے کنارہ کش ہے ۔یہ روایت اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے ۔

'' عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قٰالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْفَرَجِ ، فَقٰالَ : اَوَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اِنْتِظٰارِ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ ؟ قُلْتُ لاٰ اَدْرِیْ اِلاّٰ اَنْ تُعَلِّمَنِیْ  فَقٰالَ نَعَمْ ، اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ '' (1)

حسین بن جہم کہتے ہیں :  میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے فرج کے بارے میں دریافت کیا تو امام نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ فرج کا انتظار کشادگی اور وسعت میں ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ نے جتنا مجھے بتایا ہے مجھے اس کے سوا نہیں معلوم ۔ امام نے فرمایا: ہاں! فرج کا انتظار کشادگی اور آسائش سے ہے ۔

2۔ روحانی تکامل

 انسان اپنے اندر انتظار کامل کے ایجاد کرنے کے ساتھ کچھ حد تک ظہور امام  کے زمانے کے لوگوں کے جیسے حالات ( تطہیر قلب) پیدا کر کے ،امید وانتظار کے وسیلہ سے اپنے آپ کو نا امیدی و تباہی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۱۳۰

۲۱۴

 اسی سے متعلق امام صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے اور اسی طرح  حضرت امیر المومنین  علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فر مایا :

 ''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ ''  (1)

''مومن کی سب سے بہترین عبادت یہ ہے کہ وہ خدا سے فرج کا انتظار رکھتا ہو ''

اسی بنا پر انتظار کےذریعہ انسان ظہور امام عجل اللہ فرجہ الشریف  کے بعض آثار تکامل کو اپنے اندر ایجاد کرسکتا ہے ۔ ابوخالد کی اس بات کی وضاحت امام سجاد علیہ السلام کے اس فر مان سے ہو تی ہے :

 ''عَنْ اَبِیْ خٰالِدِ الْکٰابُلِی عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسِیْنِ تَمْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّهِ الثّٰانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیٰائِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدِهِ ،یٰا أَبٰاخٰالِدٍ ،اِنَّ أَهْلِ زَمٰانِ غَیْبَتِهِ ،اَلْقٰائِلُوْنَ بِاِمٰامَتِهِ ،اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُهُوْرِهِ ،أَفْضَلُ أَهْلِ کُلِّ زَمٰانٍ ،لِاَنَّ اللّٰهَ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ أَعْطٰاهُمْ مِنَ الْعُقُوْلِ وَالْاَفْهٰامِ وَالْمَعْرِفَةِ مٰا صٰارَت بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَ هُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشٰاهَدَ ِة ،وَ جَعَلَهُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمٰانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجٰاهِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِالسَّیْفِ ،اُوْلٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً،وَ شِیْعَتُنٰا صِدْقاً ،وَالدُّعٰاةُ اِلٰی دِیْنِ اللّٰهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَٰقالَ  : اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ '' (2)

ابو خالد کابلی حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فرمایا :

ولی خدا جو پیغمبر اکرم (ص) کے اوصیاء میں سے بارہویں (خلیفہ ) اور آپ  کے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے ہیں کی غیبت طولانی ہو گی اے ابو خالد!بے شک ان کے زمانۂ غیبت  کے لوگ ، ان کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے اور ان ظہور کے منتظر لوگ ہر زمانے کے لو گوں سے افضل ہیں ۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج53 ص131

[2]۔ بحار الانوار: ج ۵۲ص۱۲۲

۲۱۵

 کیونکہ خداوند کریم عقلوں کوان کا ذکراس قدر عطا کرے گا کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہد ے کی طرح ہو گی اور ان کو اس زمانے میں ان مجاہدین کی طرح قرار دیا جائے گا کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کے دور میں تلوار سے جہاد کیا ہو حقیقت میں وہی با اخلاص ہیں اور وہ ہمارے سچے شیعہ ہیں اور لوگوں کو ظاہری اور مخفی طور سے بھی دین خدا کی طرف بلاتے ہیں ۔

اس کے بعد امام سجاد  علیہ السلام نے فر مایا : ''ظہور کا  انتظار عظیم ترین فرج میں  سے ہے ۔''

دوست نزدیک تر از من ،بہ من است

وین عجیبتر کہ من از وی دورم

این سخن با کہ توان گفت کہ دوست

در کنار من و من مہجورم

 انتظار کی راہ تکامل تک پہنچنے والیسچے منتظرین اپنے آپ کو حکومت خدا کی غیبی قدرت سے پوری دنیا پر حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے اثر سے غیبت کے زمانے میں بعض زمانۂ ظہور کے فردی خواص اور خصوصیات جیسے تطہیر قلب وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اس حد تک کہ غیبت کا زمانہ ان کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے اگران کے اندر اس طرح کے اثرات نہ ہو ں تو کس طرح فرج اعظم کا انتظار فرج ہے ؟وہ حالت انتظار کے ساتھ غیبت اور زمانۂ ظہور کے در میان رابطہ قائم کرتے ہیںاور اس زمانے کے بعض حالات کوغیبت کے زمانے میں پا لیتے ہیں ۔(1)

--------------

 [1] ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ  مرحوم بحر العلوم اور مرتضی ٰ شیخ انصاری  جیسے بہت کم افراد  ایسے حالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

۲۱۶

 مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر

 دلوں کو منور کرنے والا واقعہ دنیا ئے تشیع کی اس عظیم شخصیت کا ذکر ہے جس نے ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں  پر غیبی امداد اور قوت سے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 شیخ انصار ی کے ایک شاگرد ، آپ کے امام  علیہ السلام سے تعلق اور امام  علیہ السلام کے شریعت کدہ پر شرفیابی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے کربلا پہنچا۔ انہی ایام میں ایک بار میں آدھی رات کے وقت حمام جا نے کے لئے گھر سے باہر آیا ، چونکہ گلیوں میں کیچڑ و غیرہ زیادہ تھا لہذا میں نے اپنے ساتھ ایک شمع بھی لے لی اور میں  اس کی مدہم روشنی میں چلنے لگا ۔ کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا میں نے محسوس کیا جیسے شیخ انصاری ہو ں ۔  راستہ طے کرکے جیسے ہی قریب ہوا تو یقین ہو گیا آپ ہی ہیں ۔میں نے سو چا یہ حضور اس تاریکی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں جب کہ آپ کی بینا ئی بھی کمزور ہے ۔میں نے سو چا کہیں کو ئی آپ کا تعاقب نہ کر رہا ہو کہ جو آپ کو نقصان پہنچا ئے لہٰذا خاموشی سے آپ کے پیچھے چلنے لگا ۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک پرا نی ساخت کے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو ئے اور خلو ص نیت کے ساتھ زیارت جامعہ پڑھنے لگے ۔

زیارت سے فارغ ہو تے ہی اس مکان میں داخل ہو ئے ۔پھر میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف آپ کی آواز آرہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی سے ہم کلام ہیں ۔میں وہاں سے پلٹا پھر حمام گیا اور اس کے بعد حرم مطہر گیا وہاں میں نے شیخ  کو دیکھا ۔

۲۱۷

 اس سفر سے واپس آکر میں نجف اشرف میں شیخ کی خدمت میں پہنچا اور اس رات والے واقعہ کو دہرایا اور اس کی تفصیل پو چھی ،پہلے تو شیخ نے انکار کیا لیکن مزید اصرار پر آپ  نے فر مایا :

جب امام  سے ملاقات کی خواہش ہوتی ہے تو میں اس گھر کے دروازے پر چلا جاتا ہوں ،جسے تم اب کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ،زیارت جامعہ پڑھنے کے بعد اذن طلب کرتا ہوں ۔اگر اجازت مل جاتی ہے تو آنحضرت  کی خدمت میں فیضیاب ہو تا ہوں ۔جو مسائل میری سمجھ سے بالا ہوتے ہیں آپ  اسے بطور احسن حل فر ماتے ہیں ۔

پھر شیخ  نے فرمایا:اور سنو جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کو چھپا ئے رکھنا ۔ہرگز کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ۔(1)

 اسی طرح اور دوسری بزرگ شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے امام  سے بارہا ملاقات کی ہے اور اپنے آپ کو حضرت  کے ظہور کے لئے ہمہ وقت آمادہ رکھتے تھے ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جو قرآنی آیتوں کی تأ ویل اور توجیہ کریں گے نیز آنحضرت  کے ساتھ جنگ بھی کریں گے ۔

کلید گنج سعادت فتد بہ دست کسی

کہ نخل ہستی اورا بود بَرِ ہنری

چو مستعد نظر نیستی ،وصال مجوی

کہ جام جم ندہد سود ،وقت بی بصری

--------------

[1] ۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری  : 106

۲۱۸

  کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

۲۱۹

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاهَدُوْا فِیْنٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلُنٰا ) (1)

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: 69

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296