اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق26%

اسلامی اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 296

اسلامی اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178029 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
اسلامی اخلاق

اسلامی اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۵_تقوى ،انسانوں ميں بھائي چارے كى روح پيدا كرنے اور دلوں سے كينہ و دشمنى ختم كرنے كا سبب بنتا ہے_

ان المتقين ...ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونً

۶_متقين بہشت ميں تختوں پر ايك دوسرے كے روبرو بيٹھے ارام كر رہے ہونگے_ان المتقين فى جنت ...على سرر متقبلين

۷_متقين ،بہشت ميں صفا وصميميت كى محفل جمائے ہونگے_

ان المتقين فى جنت ...ونزعنا مافى صدورهم من غلّ اخونًاعلى سرر متقبلين

۸_متقين كے دلوں ميں كينہ اور دشمنى داخل ہونے كاامكان_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

يہ جو خدا وند متعال نے فرمايا ہے : ''ہم نے متقين كے دل سے كينہ و دشمنى ختم كر دى ہے ''يہ اس نكتے كى جانب اشارہ ہے كہ متقين كے دل ميں بھى كينہ داخل ہو سكتا ہے_

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۱

بدن :بدن كا بہشت ميں ہونا۴

بھائي چارہ :بھائي چارے كے عوامل ۵

بہشت :بہشت كے تخت ۶;بہشت ميں كينہ كا ختم ہو جانا ۱

بہشتى لوگ:اُن كى اسائش ۶;اُن كى محفل ۷;بہشتى اور كينہ ۱

تقوى :تقوى كے اثرات ۵

دشمنى :دشمنى ختم ہونے كا سبب ۵;دشمنى كا مقام ۳

قلب :قلب كا كردار ۳

كينہ :كينے كا مقام ۳;كينہ ختم ہونے كا سبب ۵

متقين :بہشت ميں متقين كى دوستى ۲;بہشت ميں متقين كے تعلقات ۲;متقين اور دشمنى ۱،۸;متقين اور كينہ ۱،۸;متقين بہشت ميں ۱،۶،۷

معاد :جسمانى معاد ۴

۲۴۱

آیت ۴۸

( لاَ يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ )

نہ انھيں كوئي تكليف چھو سكے گى اور نہ وہاں سے نكالے جائيں گے _

۱_بہشت ميں متقين كو كسى قسم كى تكليف اور پريشانى نہيں ہو گي_لايمسّهم فيها نصب

''نصب '' لغت ميں سختى اور تكليف كو كہتے ہيں _

۲_متقين كو بہشت سے نكالا نہيں جائے گا اور وہ اُس ميں ہميشہ رہيں گے_وماهم منهابمخرجين

۳_متقين كى بہشت ،معنوى اور مادى نعمتوں كى حامل ہو گي_

ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين ...على سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

۴_رنج اور سختى سے دورى اختيار كرنا، دائمى و ابد ى اور امن وسلامتى كى زندگى گذارنا،انسان كے بہت ہى پسنديدہ اُمور ہيں _لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

بہشت ميں متقين كى حالت بيان كرنے كا مقصد انسانوں كو اہل تقوى كى صف ميں داخل ہونے كى تشويق كرنا ہے لہذا طبيعى ہے كہ يہ حالت ايسى ہونى چاہيے كہ جو انسانوں كى پسنديدہ اور مطلوبہ ہو_

۵_متقين كو بہشت ميں مادى رفاہ و اسائش اور مكمل فكرى اسودگى حاصل ہو گي_

ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين ...على سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

۶_بہشت ميں انسان كى خواہشات كے پورا ہونے كى ياد دلانا ،انسانوں كى ہدايت اور اُنہيں دين كى طرف راغب كرنے كا ايك طريقہ ہے_ان المتقين فى جنت وعيون _ادخلوها بسلم ء امنين_ونزعنا مافى صدورهم من غلّ

۲۴۲

اخونًاعلى سرر متقبلين_لايمسّهم فيها نصب وماهم منهابمخرجين

انسان :انسان كے پسنديدہ اُمور۴

بہشت :بہشت كى مادى نعمتيں ۳;بہشت كى معنوى نعمتيں ۳;بہشت ميں ابدى زندگى ۲

بہشتى لوگ:اُن كى اسائش ۱،۵;اُن كى رفاہ ۵

پسنديدہ اُمور :ابديت كو پسند كرنا ۴;امن كو پسند كرنا ۴;سلامتى كو پسند كرنا ۴

ياددہانى :بہشت ميں خواہشات پورا ہونے كى ياد دہانى ۶

دين :دين كى طرف دعوت كا طريقہ ۶

متقين :متقين بہشت ميں ۱،۲،۵;متقين كيبہشت كى خصوصيات ۴

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۶

آیت ۴۹

( نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )

ميرے بندوں كو خبر كردو كہ ميں بہت بخشنے والا اور مہربان ہو_

۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو خداوندمتعال كى مغفرت،رحمت اور مہربانى كے بارے ميں خبر ديں _نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

۲_خطا كار اور گناہگار بندوں كو خداوند متعال كى رحمت اور مغفرت سے اگاہ كرنا ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

''غفران''اور ''مغفرت '' كا استعمال اصولاًوہاں ہوتا ہے كہ جہاں خطا اور لغزش ہواس لئے ممكن ہے كہ ''عبادى '' سے و ہ بندے

۲۴۳

مراد ہوں جو گناہ اور خطا كے مرتكب ہو ئے ہيں _

۳_خداوند متعال غفور (بخشنے والا) اور رحيم (مہربان ) ہے_ا نا الغفور الرحيم

۴_خداوند متعال كى مغفرت ،اُس كى رحمت و مہربانى كے ہمراہ ہے _ا نا الغفور الرحيم

مندرجہ بالا مطلب اس نكتے كى بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''الرحيم ''،''الغفور '' كے لئے صفت ہو_

۵_بندوں كو خداوند متعال كى مغفرت اور رحمت سے اگاہ كرنا اور اس كے بارے ميں اگاہى ركھنا ، انتہائي اہم ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم

لغت كى كتابوں ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے مطابق ''نبائ'' فعل ''نبى '' سے اسم مصدر ہے جس كا معنى '' خبر ''ہے _اور يہ لفظ ايسى خبروں كے لئے استعمال ہوتا ہے جو اہميت اور عظيم فائدے كى حامل ہوتى ہيں _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱،۲

اسما و صفات:رحيم ۳;غفور ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۴;الله تعالى كى مغفرت كا اعلان ۱;الله تعالى كى رحمت كے اعلان كى اہميت۱،۵;الله تعالى كى رحمت كا اعلان ۱;الله تعالى كى مہربانى كا اعلان ۱;الله تعالى كى مغفرتوں كے اعلان كى اہميت ۱،۵;الله تعالى كى مغفرتوں كى خصوصيات ۴

اُميدواري:رحمت خدا سے اُميد وارى كى اہميت۲;مغفرت خدا سے اُميد وارى كى اہميت ۲

گناہگار لوگ:گناہگاروں كى اُميدوارى كى اہميت ۲،۵

۲۴۴

آیت ۵۰

( وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ )

اور ميرا عذاب بھى بڑا دردناك عذاب ہے _

۱_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو خداوند متعال كے درد ناك عذاب كے بارے ميں خبر ديں _

وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

۲_قران كے ہدايت اور تربيت كے طريقوں ميں سے ايك انسان ميں خوف و رجا ء اور اُميد و بيم كى كيفيت پيدا كرنا ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

۳_تربيت اور ہدايت كے سلسلے ميں اُميدواربنانا ، ڈرانے اور خوف دلانے پر مقدم ہونا چاہيے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

مندرجہ بالاايت ميں ''عذاب اليم ''پر خداوند متعال كى دو صفات ''غفور '' اور ''رحيم '' كو مقدم كرنا ہو سكتا ہے مذكورہ نكتے كى جانب اشارہ ہو_

۴_خدا وند متعال كى مہربانى اور رحمت كا اُس كے غضب اور عذاب پر مقدم ہونا _

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

يہ جو خدا وند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نصيحت كرتے ہوئے پہلے اپنى مغفرت اور رحمت كا اور اس كے بعد اپنے عذاب كا ذكر كيا ہے_ہوسكتا ہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ خدا وند متعال كى رحمت اور مغفرت ہميشہ اُس كے غضب اور عذاب پر مقدم ہوتى ہے_

۵_خداوند متعال كى مہربانى اور غضب ،ہر قسم كى مہربانى اور غضب سے بالا تر ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

جملہ ہائے اسميہ''انّى انا___'' اور''ان عذابي__'' كے ساتھ حرف تاكيد اور ضمير فصل اور خبر ميں لام لانے سے بہت زيادہ تاكيد حاصل

۲۴۵

ہوتى ہے اور اس سے يہ نكتہ اخذ ہوتا ہے كہ خداوند متعال كى مغفرت و رحمت (مہرباني)اور عذاب اس طرح وقوع پذير ہوتے ہيں كہ كسى قسم كى ركاوٹ ان كو نہيں روك سكتى اور جس قسم كا بھى لطف و مہربانى اور عذاب و غضب تصور كياجائے اُس كا خدا كے لطف و قہر كے ساتھ موازنہ نہيں كيا جاسكتا_

۶_دردناك الہى عذاب سے اگاہ كرنا اور اس كے بارے ميں باخبر رہنا ، بہت ہى اہم اور فائدہ مند بات ہے_

نبّي عبادى ا نى ا نا الغفور الرحيم_وا ن عذابى هوالعذاب الا ليم

''نبائ''اہم اور بہت ہى فائدہ مند چيز كو كہا جاتا ہے_ (مفردات راغب)

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انذار ۱

الله تعالى :الله تعالى كا غضب ۴;الله تعالى كى رحمت كى عظمت ۵;الله تعالى كى رحمت كا مقدم ہونا ۴;الله تعالى كے عذاب۴;الله تعالى كے عذابوں سے اگاہى ۶;الله تعالى كے عذابوں كے اعلان كى اہميت ۱;الله تعالى كے عذابوں كا غلبہ ۵

اُميد وارى :اُميدوارى كى اہميت ۳;اُميد وارى كے پيش خيمہ كى اہميت۲

تربيت :تربيت كا طريقہ ۲،۳

خوف :خوف كے پيش خيمہ كى اہميت ۲

عذاب :دردناك عذاب ۱;عذاب كے مراتب ۱،۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶

قران :تعليمات قران كا طريقہ ۲

ہدايت :ہدايت كا طريقہ ۲،۳

۲۴۶

آیت ۵۱

( وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِ بْراَهِيمَ )

اور انھيں ابراہيم كے مہمانوں كے بارے ميں اطلاع ديدو_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كافريضہ ہے كہ اپ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بندوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) كا قصہ سنائيں _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) كا قصہ اور اُس سے مطلع ہونا ايك بہت ہى اہم اور فائدہ مند بات ہے _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

''نبائ'' بہت ہى اہم اور فائدہ مند خبركو كہا جاتا ہے_(مفردات راغب)

۳_ قران كے ہدايت اور تربيت كرنے كے طريقوں ميں سے ايك، لوگوں كو بہت اہم اور فائدہ مند تاريخى حقائق سے اگاہ كرنا بھى ہے_ونبّئهم عن ضيف ابرهيم

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

ابراہيمعليه‌السلام ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى اہميت ۱;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۲;قصہ ابراہيمعليه‌السلام سے اگاہى ۱;قصہ ابراہيمعليه‌السلام كو بيان كرنے كى اہميت۱;قصہ ابراہيمعليه‌السلام كى اہميت۲ ; قصہ ابراہيمعليه‌السلام كے فوائد ۲;

تاريخ :تاريخ نقل كرنے كى اہميت ۳;تاريخ نقل كرنے كے فوائد ۳

تربيت :تربيت كا طريقہ ۳

قران كريم:تعليمات قران كا طريقہ ۳

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۳

۲۴۷

آیت ۵۲

( إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلاماً قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ )

جب وہ لوگ ابراہيم كے پاس وارد ہوئے اور سلام كيا تو انھوں نے كہا كہ ہم آپ سے خوفزدہ ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان (فرشتے) جب اُن كے پاس ائے تو اُنہوں نے اُن پر درودسلام كہا _

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمً

۲_ايك دوسرے سے ملاقات كرتے وقت سلام كرنا ، پسنديدہ اداب و اخلا ق ميں سے ہے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمً

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور اُن كے اہل خانہ اپنے پاس مہمان(فرشتوں ) كو ديكھ كر گھبرا گئے تھے_

اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

ملائكہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ائے تھے (دخلوا عليہ) ليكن حضرتعليه‌السلام نے اضطراب اور ڈر كا اظہار جمع ( انا منكم وجلون )كى صورت ميں كيا ہے اور اس سے خود اُن كااور اُن كے اہل خانہ كا خوف وڈر ظاہر ہوتا ہے _ياد رہے كہ ''وجل '' اس خوف كو كہتے ہيں جو انسان كے پورے وجود پر چھا جائے(مفردات راغب)

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے مہمانوں (فرشتوں ) كے انے سے پيدا ہونے والے خوف اور اضطراب كو اُن پر ظاہر كر ديا تھا _اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

۵_مہمان، خواہ اجنبى ہى كيوں نہ ہو ،اُسكى پذيرائي كرنا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عادت اور اخلاق ميں سے تھا_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

مہمانوں (فرشتوں ) كے انے سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خوف اور اضطراب (انا منكم وجلون ) ظاہر كرتا ہے كہ وہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے لئے اجنبى تھے _اگر حضرت اُن كو پہچانتے تو پريشان نہ ہوتے _اجنبى مہمان كو قبول كرنے سے ، مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۶_انبياءے الہى پر خوف اور اضطرا ب طارى ہونے كا

۲۴۸

امكان _قال انا منكم وجلون

۷_تمام انبياء حتى اولواالعزم انبياءے كرامعليه‌السلام كا علم بھى محدود امور ميں تھا_اذ دخلوا عليه قال انا منكم وجلون

۸_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پاس انے والے فرشتے انسانى شكل ميں تھے اور وہ مہمان كے طور پر اپعليه‌السلام كے پاس ائے تھے_ونبّئهم عن ضيف ابرهيم _اذ دخلوا عليه فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون

۹_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے براہ راست بات چيت كرنا_فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون _قالوا لاتوجل

۱۰_فرشتوں كےلئے جسمانى اور قابل رؤيت شكل ميں ظاہر ہونے كا امكان _

اذ دخلوا عليه فقالوا سلمًا قال انا منكم وجلون

۱۱_'' ...قال ا بو جعفر عليه‌السلام : بعث الله رسلًا الى ابراهيم ...فدخلوا عليه ليلاً ففزع منهم وخاف ا ن يكونوا سُرّاقًا، قال: فلمّا ا ن را ته الرسل فزعاً وجلاً''قالوا سلمًا'' ''قال انا منكم وجلون _قالوا لاتوجل ...'' ;(۱) حضرت امام باقر عليہ السلام سے منقول ہے كہ ...خداوند متعال نے فرشتوں كو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى طرف بھيجا __پس وہ رات كے وقت اُن كے پاس ائے اور وہ اُن سے ڈر گئے كہ كہيں وہ چور نہ ہوں ...(پھر ) امامعليه‌السلام نے فرمايا:پس جب فرشتوں نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو خوف زدہ اور مضطرب ديكھا تو اُن كو سلام كيا اورحضرت ابراہيمعليه‌السلام سے كہا:''قال انا منكم وجلون قالوا لاتوجل ...''

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام سے ملائكہ كى گفتگو ۹; ابراہيمعليه‌السلام كا اضطراب ۳ ; ابراہيمعليه‌السلام كا خوف ۳،۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱،۳، ۴ ، ۸، ۹،۱۱ ;ابراہيمعليه‌السلام كو سلام ۱،۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى صفات ۵ ; ابراہيمعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵;ابراہيمعليه‌السلام كے اضطراب كا سر چشمہ ۴;ابراہيمعليه‌السلام كے اہل خانہ كا خوف ۳ ; ابراہيمعليه‌السلام كے اہل خانہ كا اضطراب ۳; ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۸;ابراہيمعليه‌السلام كے خوف كا سر چشمہ ۴ ; ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۱،۳،۴ ،۱۱ ; ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى خصوصيات ۸

الله تعالى كے رسول :۱۱

انبياءعليه‌السلام :انبياء اور اضطراب ۶;انبياء اور خوف ۶

____________________

۱) تفسيرعياشى ،ج۲،ص۲۴۶،ح۲۶;نور الثقلين ،ج ۳ ،ص ۲۱ ، ح ۷۴_

۲۴۹

اولواالعزم انبياء كے علم كى حدود ۷;علم انبياء كى حدود ۷

روايت :۱۱

سلام :سلام كى اہميت ۲

صفات :پسنديدہ صفات ۲

معاشرت :معاشرت كے اداب ۲

ملائكہ :ملائكہ كا تجسم ۸;ملائكہ كا سلام ۱،۱۱;ملائكہ كى رئويت ۱۰

آیت ۵۳

( قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ )

انھوں نے كہا كہ آپ ڈريں نہيں ہم آپ كو ايك فرزند دانا كى بشارت دينے كے لئے آئے ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) نے اُنہيں تسلى دى اوراپعليه‌السلام سے كہا كہ وہ اُن كے انے سے پريشان اور مضطرب نہ ہوں _قالوا لاتوجل انا نبشّرك بغلم عليم

۲_فرشتوں كى طرف سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو ايك دانا اور عالم بيٹے كى بشارت _انا نبشّرك بغلم عليم

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو جس بيٹے كى خوشخبرى دى گئي تھى وہ عظمت اور بلند مقام ومنزلت كا حامل تھا_

نبشّرك بغلم عليم ''بغلام''ميں تنوين تنكير ،تفخيم اور تعظيم كے لئے ہے

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام صاحب اولاد ہونے اور اپنى نسل كى بقا كے خواہش مند تھے _نبشّرك بغلم

كلمہ ''بشارت''اُس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں دلى خواہش اور خوشى كا مقام ہو_

۵_عالم ا ور دانا اولاد ركھنا ،نعمات ميں سے ہے اور خوشخبرى وبشارت كے قابل ہے_نبشّرك بغلم عليم

كلمہ ''بشارت''اس جگہ استعمال ہوتا ہے كہ جہاں خير اور نعمت ہو_لہذا يہ بات قابل ذكر ہے كہ فرشتوں نے ايك دانا اور عالم بيٹے كى بشارت دى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ صاحب فرزند

۲۵۰

ہونا ايك ايسى بات ہے كہ جس كى بشارت دينى اور تبريك كہنى چاہيے_

۶_علم و دانش كا بلند ترين مقام و مرتبہ ہے اور اس كا اہم ترين اقدار ميں شمار ہوتا ہے_انا نبشّرك بغلم عليم

''غلام'' كے ليے كوئي دوسرى صفت لانے كى بجائے ''عليم''كى صفت لانا اس مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہے_

۷_حضرت ابراہيمعليه‌السلام خداوندمتعال كى خصوصى عنايت سے بہرہ مند تھے اور اُن كى نسل كى بقاء كے بارے ميں خدا كى خاص توجہ تھي_قالوا لاتوجل انا نبشّرك بغلم عليم

۸_ حضرت اسحاقعليه‌السلام ايك عالم اور دانشور شخصيت كے مالك تھے_انا نبشّرك بغلم عليم

مندرجہ بالا مطلب اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب مفسرين كے مطابق '' بغلم عليم '' سے مراد حضرت اسحاقعليه‌السلام ہوں _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام سے مطمئن رہنے كى درخواست ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو بشارت ۲،۳;ابراہيمعليه‌السلام كو تسلي۱ ; ابراہيمعليه‌السلام كى خواہش ۴;ابراہيمعليه‌السلام كى نسل كى بقا ء ۷ ;ابراہيمعليه‌السلام كے پاس ملائكہ كا انا ۱;ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۷;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمان ۱;فرزند ابراہيمعليه‌السلام كا مقام ومرتبہ ۳; نسل ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۷

اقدار:۶

اسحاقعليه‌السلام :اسحاقعليه‌السلام كا علم ۸;اسحاقعليه‌السلام كے فضائل ۸

الله تعالى :الله تعالى كى نعمتيں ۵

بشارت:عالم بيٹے كى بشارت ۲،۵

خواہشات :صاحب اولاد ہونے كى خواہش ۴;نسل كى بقاء كى خواہش ۴

علم :علم كى اہميت ۶;علم كى قدر ومنزلت ۶

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے ۷

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۱;ملائكہ كى بشارتيں ۲;ملائكہ كے تقاضے ۱

نعمت :عالم اولاد كى نعمت ۵

۲۵۱

آیت ۵۴

( قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ )

ابراہيم نے كہا كہ اب جب كہ بڑھاپا چھا گياہے تو مجھے كس چيز كى بشارت دے رہے ہو_

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے كى خبر سن كر بہت ہى حيرت زدہ ہو گئے _

قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر فبم تبشّرون

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرشتوں سے اُس وقت صاحب اولادہونے كى خبر سنى كہ جب وہ مكمل طور پر بوڑھے اور صاحب اولاد ہونے سے مايوس ہو چكے تھے_قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر فبم تبشّرون

۳_بوڑھے اور اولاد كى پيدائش سے مايوس انسان كے لئے خداوند متعال كى قدرت اور مہربانى سے صاحب اولاد ہونے كا امكان _انا نبشّرك بغلم عليم _قال ا بشّر تمونى على ا ن مسّنى الكبر

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام فرشتوں سے اپنے صاحب اولاد ہونے كى خبر سننے كے بعد اُن سے مزيد وضاحت اور اطلاعات كا تقاضا كرنے لگے_فبم تبشّرون

مندرجہ بالا مطلب اس بنا ء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''فبم'' كى ''با''ملابست كے لئے ہو اور جملہ ''فبم تبشرون'' ميں استفہام ،اس قسم كى بشارت (صاحب اولاد ہونے )كے وقوع پذير ہونے كى كيفيت كے بارے ميں ہو_نہ صاحب اولاد ہونے كے بارے ميں شك و ترديد كے لئے سوال_

۵_بڑھاپا اور كہن سالي، انسانوں ميں توليد نسل كى ركاوٹوں ميں سے ايك ہے_على ا ن مسّنى الكبر

يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنے صاحب اولاد

۲۵۲

ہونے كى خوشخبرى پر حيرت زدگى كے اظہار كى وضاحت كے لئے جملہ حاليہ'' على ا ن مسّنى الكبر '' استعمال كيا ہے ہو سكتا ہے يہ مندرجہ بالا نكتے كى وجہ سے ہو_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۴;ابراہيمعليه‌السلام كا تعجب ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا سوال ۴;ابراہيمعليه‌السلام كا صاحب اولاد ہونا ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ; ابراہيمعليه‌السلام كى بشارت ۲;ابراہيمعليه‌السلام كى خواہشات۴ ;ابراہيمعليه‌السلام كى مايوسى ۲

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت كے اثرات ۳;الله تعالى كى مہربانى كے اثرات ۳

بڑھاپا:بڑھاپے كے اثرات ۵;بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونا۲،۳;بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے پر تعجب ۱

توليد نسل -:توليد نسل كے موانع ۵

ملائكہ :بشارت دينے والے ملائكہ ۴;ملائكہ سے سوال ۴;ملائكہ كى بشارتيں ۲

آیت ۵۵

( قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ )

انھوں نے كہا كہ ہم آپ كو بالكل سچى بشارت دے رہے ہيں خبردار آپ مايوسوں ميں سے نہ ہوجائيں _

۱_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے بڑھاپے ميں صاحب فرزند ہونے كى بشارت كے وقوع پذير ہونے پر تاكيد كرنا_

قالوا بشرنك بالحق

مندرجہ بالا ايت ميں ''بالحق'' سے ياتو واقعيت كے مطابق خبر مرادہے يا اس معنى ميں ہے كہ ہمارى بشارت حقيقت پر مبنى ہے (مجمعالبيان )_ بہر حال اس سے يہ بات روشن ہوتى ہے كہ جس چيز كى بشارت دى گئي ہے وہ وقوع پذير ہونے والى ہے اور واقع ہو كر رہے گي_

۲_فرشتوں كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو زندگى ميں خداوند متعال كى رحمت اور مہربانى سے مايوس نہ ہونے كى نصيحت كرنا _

۲۵۳

قالوا فلاتكن من القنطين

''قنوط''كا معنى خير اور بھلائي سے نااُميد ہونا ہے_

۳_خداوند متعال كى رحمت اور مہربانى سے مايوسى قابل مذمت اور ناپسنديدہ ہے_فلاتكن من القنطين

۴_بڑھاپا اور كہن سالى ،صاحب اولاد ہونے سے انسان كے مايوس ہوجانے كے اسباب ميں سے ہے_

مسّنى الكبر فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين

۵_بے اولادلوگوں كو خداوند متعال كے لطف و عنايت سے صاحب فرزند ہونے كى اُميد دلانا اور بشارت دينا، پسنديدہ اور قابل قدر كام ہے_انا نبشّرك بغلم فلاتكن من القنطين ...من رحمة ربّه

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كا بڑھاپا۱;ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب اولاد ہونا ۱; ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو بشارت ۱;ابراہيمعليه‌السلام كو نصيحت ۲

اُميد وارى :خدا وند كے لطف سے اُميد وار ہونا ۵;رحمت خدا سے اُميد وار ى كى اہميت ۲;لطف خدا سے اُميدوارى كى اہميت ۲

بشارت :بے اولاد لوگوں كو بشارت ۵

بڑھاپا:بڑھاپے كے اثرات ۴

صاحب اولاد ہونا :صاحب اولاد ہونے سے مايوسى كے اسباب ۴

صفات :ناپسنديدہ صفات ۳

عمل :پسنديدہ عمل ۵

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى كى سرزنش ۳;لطف خدا سے مايوسى كى سرزنش۳

ملائكہ :خوشخبرى دينے والے ملائكہ ۱،۲;ملائكہ كى بشارتيں ۱;ملائكہ كى نصيحتيں ۲

۲۵۴

آیت ۵۶

( قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ )

ابراہيم نے كہا كہ رحمت خدا سے سوائے گمراہوں كے كون مايوس ہو سكتاہے _

۱_ ملائكہ كى طرف سے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو مايوسى سے اجتناب كرنے كے بارے ميں نصيحت كے بعد حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فقط گمراہ لوگوں كو رحمت خدا سے مايوسبتايا _

فلاتكن من القنطين_قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۲_ خداوندمتعال كى رحمت سے مايوسي، گمراہى كى علامت ہے _ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۳_حضرت ابراہيمعليه‌السلام رحمت خدا سے مايوس ہونے كى وجہ سے صاحب اولاد ہونے پر حيرت زدہ نہيں تھے بلكہ وہ كہن سالى ا و ربڑھاپے ميں صاحب فرزند ہونے كو بعيد جانتے تھے_فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين _قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے ''صاحب اولاد ہونے سے مايوس نہ ہونے ''پر مبنى فرشتوں كى نصيحت كے جواب ميں فرمايا:فقط گمراہ لوگ ہى رحمت خدا سے مايوس ہوتے ہيں _اس جواب سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب فرزند ہونے سے حير ت زدہ اور متعجب ہونا رحمت خدا سے مايوسى كى بناء پر نہيں تھا بلكہ وہ اسے فقط ايك حيرت انگيز چيز جانتے تھے_

۴_حضرت ابراہيمعليه‌السلام بڑھاپے ميں خداوند متعال كے لطف و رحمت كے سائے ميں صاحب فرزند ہونے كى اُميد لگائے ہوئے تھے_فبم تبشّرون فلاتكن من القنطين _قال ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

۵_صاحب فرزند ہونا ،ايك الہى رحمت ہے_نبشّرك بغلم ومن يقنط من رحمة ربّه

۶_خدا وند متعال كى رحمت سے مايوسى اور نااُميدي،گناہ كبيرہ اوربہت ہى قابل مذمت فعل ہے_

ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

يہ كہ خدا وند عالم نے اپنى رحمت سے مايوسى كو گمراہوں كا عمل قرار ديا ہے اور مايوس لوگوں كو گمراہوں كى صف ميں شمار كيا ہے اس سے اس كا گناہ كبيرہ ہونامعلوم ہوتا ہے_

۲۵۵

۷_پرورد گار كى معرفت اور ہدايت، اُس كى رحمت سے اُميدوار ہونے اور ہر قسم كى مايوسى و نااُميدى كے ختم ہونے كا باعث بنتى ہے_ومن يقنط من رحمة ربّه الّا الضالّون

حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے پرورد گار كى رحمت سے مايوسى كا سبب گمراہى اور خداوند متعال كى عدم معرفت كو قرار ديا ہے ،بنابريں خدا كى معرفت اور ہدايت ، اُس كى رحمت سے اُميدوار ہونے كا اور ياس و نااُميدى كے خاتمے كا موجب بن سكتى ہے _

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كا تعجب ۳; ابراہيمعليه‌السلام كا صاحب فرزند ہونا ۳ ، ۴;ابراہيمعليه‌السلام كاعقيدہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كى اُميد وارى ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے تعجب كا فلسفہ۳

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت ۵;الله تعالى كى رحمت كے اثرات ۴;الله تعالى كى معرفت كے اثرات ۷ ; الله تعالى كے لطف كے اثرات ۴

اُميد وارى :بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے كى اُميد وارى ۴; رحمت سے اُميد وارى كے اسباب۷

بڑھاپا:بڑھاپے ميں صاحب اولاد ہونے پر تعجب ۳

رحمت :رحمت سے مايوس لوگ ۱

صفات :ناپسنديدہ صفات ۶

صاحب اولاد ہونا :صاحب اولاد ہونے كارحمت ہونا ۵

گمراہ لوگ :اُن كى مايوسى ۱

گمراہى :گمراہى كى علامتيں ۲

گناہان كبيرہ :۶

مايوسى :رحمت خدا سے مايوسى ۶;رحمت خدا سے مايوسى پر سرزنش ۶;مايوسى كے موانع ۷

ہدايت :ہدايت كے اثرات ۷

۲۵۶

آیت ۵۷

( قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ )

پھر كہا كہ مگر يہ تو بتايئےہ آپ لوگوں كا مقصد كياہے _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے اپنے مہمان (فرشتوں )كو پہچاننے كے بعد اُن كے اصلى كام اور آنے كا سبب دريافت كيا_

قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

''خطب'' كا معنى ہے اہم كام_

۲_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو صاحب فرزند ہونے كى بشارت دينا ايك فرعى كام تھاجبكہ قوم لوط كاعذاب فرشتوں كا اصلى اور اہم كام تھا_انا نبشّرك بغلم ...قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

يہ كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام نے فرشتوں كو پہچاننے اور صاحب فرزند ہونے كى خوشخبرى حاصل كرنے كے بعد اُن كے اصلى كام اور مہم كے بارے ميں پوچھا (فما خطبكم)_بعد والى ايت كے مطابق يہ اصلى كام اور مہم، قوم لوط كا عذاب تھا_

۳_ فرشتوں كے قو م لوط كو عذاب كے بارے ميں اپنى مہم كے اظہار كرنے سے پہلے حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، اُن كے اصلى كام سے اگا ہ نہيں تھے_قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

۴_تمام انبياءے كرامعليه‌السلام حتى اُن ميں سے اولواالعزم انبياءعليه‌السلام كا علم بھى محدود ہے_

قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

۵_بعض ملائكہ، خداوند متعال كے پيام كو پہنچانے اور اُس كے فرمان كو اجراء كرنے والے ہيں _

فما خطبكم ا يّها المرسلون

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، جسمانى ، روحى اور نفسانى حالات كے لحاظ سے انسانوں كے درميان تعلقات كى حيثيت سے دوسرے لوگوں ہى كى مانند تھے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...قال انا منكم وجلون ...مسّنى الكبر ...قال فما خطبكم ا يّها المرسلون

ابراہيمعليه‌السلام :

۲۵۷

ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶;ابراہيمعليه‌السلام كاسوال ۱;ابراہيمعليه‌السلام كاصاحب فرزند ہونا۲;ابراہيمعليه‌السلام كاقصہ ۱،۲،۳;ابراہيمعليه‌السلام كوبشارت ۲;ابراہيمعليه‌السلام كى صفات ۶;ابراہيمعليه‌السلام كے علم كى حدود ۳;ابراہيمعليه‌السلام كے مہمانوں كى ذمہ دارى ۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كے علم كى حدود ۴;اولواالعزم انبياءعليه‌السلام كے علم كى حدود ۴

خدا كے رسول :۵خدا كے كارندے :۵

قوم لوط:قوم لوط كاعذاب ۲

ملائكہ :بشارت دينے والے ملائكہ ۲;ملائكہ كا كردار ۵ ; ملائكہ كى ذمہ دارى ۲،۳;عذاب كے ملائكہ ۲

آیت ۵۸

( قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ )

انھوں نے كہا كہ ہم ايك مجرم قوم كى طرف بھيجے گئے ہيں _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى جانب سے الہى نمائندوں (فرشتوں )كے اصلى كام كے بارے ميں پوچھنے پر ،اُنہوں نے مجرم قوم (قوم لوط) كى ہلاكت كواپنا اصلى كام بتايا_قال فما خطبكم ا يّها المرسلون_قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۲_خداوند متعال كے فرامين كوجارى كرنافرشتوں كى بنيادى ذمہ دارى اور فرائض ميں سے ہے_

قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۳_ قوم لوط ،مجرم اور جرائم پيشہ لوگوں پر مشتمل تھي_قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_ الّا آل لوط

بعد والى ايات كے قرينے سے''قوم مجرمين'' سے قوم لوط مراد ہے_

۴_جرم اور جرائم سے انسانى معاشروں كى نابودى اور ہلاكت كے اسباب فراہم ہوتے ہيں _

قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

۵_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،فرشتوں كے ذريعے پہلے سے ہى قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں اگاہ ہو گئے تھے_

۲۵۸

قال فما خطبكم ...قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۵;ابراہيمعليه‌السلام اور ملائكہ ۱; ابراہيمعليه‌السلام كا سوال ۱;ابراہيمعليه‌السلام كاعلم ۵;ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

الہى كارندے:۲

خدا كے رسول:۲

خرابى :اجتماعى خرابى كے اثرات ۴

قوم لوط:قوم لوط كا عذاب ۱;قوم لوط كا فساد پھيلانا۳;قوم لوط كا گناہ ۳

گناہ :گناہ كے معاشرتى اثرات ۴

گناہگار لوگ:۳

معاشرہ :معاشرتى افات كى شناخت ۴;معاشروں كى ہلاكت كا پيش خيمہ ۴

ملائكہ :ملائكہ كا عذاب ۱;ملائكہ كى ذمہ دارى ۲;ملائكہ كى ذمہ دارى كے بارے ميں سوال ۱

آیت ۵۹

( إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ )

علاوہ لوط كے گھر والوں كے كہ ان ميں كے ہر ايك كو نجات دينے والے ہيں _

۱_حضرت لوطعليه‌السلام كا خاندان ہر قسم كے جرم اور گناہ سے پاك ومنزہ تھا_انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۲_الہى نمائندوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كو اُن كى قوم كے اوپر نازل ہونے والے عذاب سےنجات دالائي _

انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم

۲۵۹

۳_حضرت لوطعليه‌السلام كے خاندان كى پاكيزگى اور ہر قسم كے جرم و گناہ سے دورى ،عذاب الہى سے اُن سب كى نجات كا سبب تھا_انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۴_قوم لوط كا جرم اور گناہ اُن كے عذاب اور ہلاكت كا سبب بنا_

قالوانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۵_جرم او ر گناہ سے دورى اور پاكى دنيا ميں عذاب الہى (عذاب استيصال) سے نجات كا سبب ہے_

انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم ا جمعين

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضرت لوطعليه‌السلام ايك دوسرے كے ہم عصر تھے_

ونبّئهم عن ضيف ابرهيم ...انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۷_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور حضر ت لوطعليه‌السلام دو مختلف قوموں كے درميان اورايك دوسرے سے زمينى فاصلے پررہتے تھے_قال فما خطبكم ...قالواانااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط

۸_ہر قوم كا عذاب استيصال فقط اُس قوم كے مجرموں اور گناہگاروں كو شامل ہوتا ہے نہ كہ اس قوم كے پاك و بے گناہ لوگوں كو _انااُرسلنا الى قوم مّجرمين_الّا آل لوط انا لمنجّوهم

ابراہيمعليه‌السلام :تاريخ ابراہيمعليه‌السلام ۶،۷

الہى كا رندے :۲

انبياءعليه‌السلام :حضرت ابرہيمعليه‌السلام كے ہم عصر انبياء ۶،۷

پاكيزگي:پاكيزگى كے اثرات ۲

خدا كے رسول :۵

خرابى :خرابى سے اجتناب كے اثرات ۵

عذاب :عذاب استيصال سے نجات ۵;عذاب استيصال كے مستحق لوگ ۸;عذاب سے نجات ۲;عذاب سے نجات كے اسباب ۳،۵

قوم ابراہيمعليه‌السلام

قوم لوط :۷

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296