تہذیبی اہمیت
آج بھی لکھنؤ دبستان کا ذکر آتا ہے تو وہاں کے عیش و عشرت، طوائف بازی، مرغ بازی، کبوتر بازی ، کھیل کود میلے ٹھیلوں کا تذکرہ اس طرح آتا ہے جیسے لکھنؤ میں اور کچھ نہیں تھا سوائے بازار عیش کے۔ اسی اعتبار سے لکھنؤ کے شعری سرمایہ کو خارجیت سے مملو ہونے کا بہتان تراشا گیا ہے۔ پاکیزگی، درد مندی، دل سوزی جیسے وہاں کی شاعری میں عنقا ہوا۔ لکھنؤ کا مذہبی ماحول مجلس عزا کی کثرت اور اس کے ساتھ عوام و خواص کی قدردانی بھی لکھنؤ کی تہذیب میں شامل ہے۔ مرثیہ نگاروں نے لکھنوی تہذیب کی بہترین عکاسی کی ہے۔ وہاں آداب، اخلاق، رہن سہن، طور طریق خواتین کے لباس، ان کی زبان، زیورات، لباس وغیرہ کی دلنشیں اور دلچسپ تصویریں پیش کر دی ہیں ، مثال کے طور پر دبیر کے مرثیے سے ایک بند پیش ہے جس میں بی بی کی سواری کا منظر کھینچا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسی پوشاک تھی، کیسے زیور تھے اور کیسی سواری تھی۔
مری بی بی کی امیرانہ سواری ہو گی
ناقے پر عرش کے مانند عماری ہو گی
مسند نور پہ کسریٰ کی وہ پیاری ہو گی
گہنا سب تحفہ تو پوشاک بھی بھاری ہو گی
بیرقیں نور کی ہاتھوں میں کشادہ ہوں گی
فوجیں حوروں کی سواری میں پیادہ ہوں گی
تصویر کی اسی لطافت نے عملی صورت بھی اختیار کر لی۔ استقبال کسی عظیم ہستی کا کس طرح ہوتا ہے دیکھئے :
مسند آراستہ کی سبط پیمبر کے لئے
کشتیاں لا کے رکھیں عزت حیدر کے لئے
جھولا دالان میں ڈالا علی اصغر کے لئے
لا کے گلدستے برابر رکھے اکبر کے لئے
جام شربت کے بھرے ابن حسن کی خاطر
گہنا پھولوں کا منگا رکھا دلہن کی خاطر
اسی طرح اس زمانے میں استعمال ہونے والے ساز، باجے، نوبت، نقارے، طبل، بوق، کوس، دف، قرنا، جلاجل وغیرہ کا ذکر آتا ہے جن کے نام بھی آج ہم نہیں جانتے مثلاً
قرنا میں نہ دم ہے نہ جلا جل میں صدا ہے
بوق و دہل و کوس کی بھی سانس ہوا ہے
ہر دل کے دھڑکنے کا مگر شور بپا ہے
باجا جو سلامی کا اسے کہئے بجا ہے
سکتے ہیں جو آواز ہے نقارہ و دف کی
نوبت ہے درود خلف شاہ نجف کی
ان اشعار کے مطالعے سے اوزار و ہتھیار، آداب جنگ، فنون حرب سے ہم اچھی طرح متعارف ہوتے ہیں۔
ان سب سے بڑھ کر مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری کا احساس ہوتا ہے جس کی ہر زمانے میں بڑی اہمیت رہی ہے۔
مرثیوں میں رشتوں کی تہذیبی اہمیت
مرثیہ انسانی رشتوں کی شاعری ہے۔ جب انسانی رشتے وجود میں آتے ہیں تو وہ کسی سماج یا سوسائٹی کی ہیئت اجتماعی کا پتہ دیتے ہیں اور کسی بھی سماج میں جتنے زیادہ رشتے ہوں گے، ان رشتوں کے درمیان حفظ مراتب کا جتنا تصور رہے گا اتنا ہی وہ سماج مہذب اور ترقی یافتہ کہلائے گا۔ اس کی وضاحت کے لئے یہ پہلو قابل غور ہے کہ مغرب میں اتنے رشتے نہیں ہوتے جتنے رشتے مشرق میں ہوتے ہیں۔ مغرب میں خاندان کا تصور محدود ہے ان کے پاس رشتوں کے لئے الفاظ بھی نہیں ہیں۔ ایک لفظ انکل، چچا، ماموں ، پھوپھا، خالو سب کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اردو مدیں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہر رشتہ کا بیان بھی ہے اس کی الگ معنویت بھی ہے اور رشتے کے اعتبار سے اس کا مرتبہ اور اس کی قدر کا تعین بھی ہے۔
شعر و ادب میں صرف ایک رشتہ جو یقیناً بہت اہم ہے بار بار آتا ہے یا مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور وہ رشتہ عورت اور مرد کے درمیان جذبات کی بنیادوں پر مادی خواہشات کا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ رشتہ عشق ہے، عاشقی ہے، محبوب ہے، محبوبہ ہے لیکن اس سے قطع نظر دوسرے رشتے مشکل سے نظر آتے ہیں۔ عالمی ادب کے شاہکاروں میں بھی فردوسی اپنے شاہنامہ و بہادری کے قصے بیان کر کے، صرف باپ بیٹے کے رشتے تک محدود رہ گیا۔ یہ فخر و امتیاز ہندوستان کی دو عظیم رزمیہ شاعری کے شاہکاروں ’’رامائن’‘ اور ’’مہابھارت’‘ کو حاصل ہوا۔ بھائی کی بھائی سے محبت (رام، لکشمن، بھرت) (یدھشٹر، ارجن، بھیم) پھر ماں کی اطاعت، باپ کی اطاعت، سوتیلی ماں کے جذبات اور لڑکے کی فرمانبرداری کے واقعات ملتے ہیں۔
ان دونوں عظیم کارناموں میں بھی ہر سن و سال کے افراد نہیں ملتے۔ ان میں بچے نہیں ہیں ، کوئی چھوٹی لڑکی نہیں ہے اوراسی کے ساتھ بہت سارے رشتے جیسے پھوپھی، چچی، ان کا کوئی تصور ان عظیم کارناموں میں بھی نہیں ملتا۔ دوستی اور دوستی کی بنیاد پر رشتے کی استواری کا کوئی تصور تفصیل سے اور واقعات کی نزاکت کے ساتھ کم ملتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کچھ کردار ہیں لیکن یہ اپنے رشتوں کی تمام تر عظمتوں عقیدتوں اور وابستگیوں کو سامنے نہیں لاتے۔
اردو مرثیوں میں یہ تمام رشتے موجود ہیں۔ ایک خاندان ہے جس میں بیمار بیٹی سے بچھڑنے کی کیفیت بھی ملتی ہے۔ تقاضائے بشریت کے مطابق اس کا ساتھ چلنے پر اصرار بھی اس طرح نظر آتا ہے کہ
میں یہ نہیں کہتی کہ عماری میں بٹھا دو
بابا مجھے فضہ کی سواری میں بٹھا دو
رشتوں کی نزاکت اور سن وسال کے اعتبار سے ان کا رابطہ، وابستگی، تعلق خاطر اور ان کی باہمی محبتیں، ان کا انفرادی تشخص، انیس ہی کے مرثیہ ’’جب کربلا میں داخلہ شاہ دیں ہوا’‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ رشتوں میں نازک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب وہ چاہنے والے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ا ن میں تصادم بھی نہ ہو اور مراتب کا لحاظ بھی ہو۔ اس لئے کہ عام طور پر لوگ یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ اس میں تصادم کیسے نہیں ہو گا۔ لیکن مرثیوں کی دنیا کچھ اور کہتی ہے۔ حضرت علی اکبر کی پھوپھی نے پالا ہے اور پالنے والی کا مرتبہ ماں کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان کی والدہ گرامی کا حق ہے! لیکن پھوپھی اور ماں دونوں کے رشتوں کا توازن برقرار رکھا گیا ہے۔
ایک موقع اور ہے۔ ماں کم عمری میں بچوں کی نفسیات سے باخبر ہے۔ بچے جوش ،ولولہ، حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں وہ خاندانی شرف اور امتیاز کی بناء پر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی شجاعت و بہادری کے اعتراف میں انہیں اپنے نانا اور دادا کا منصب ملے۔
لیکن بہادر ماں انہیں دل شکستہ بھی نہیں ہونے دینا چاہتی اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کو سمجھاتی بھی ہے۔ بھائی کے استحقاق کا خیال بھی ہے، موقع وہ ہے کہ حضرت عباس کو منصف علمداری عطا ہو چکا ہے اور حضرت عون و محمد کو اس کا ملال ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں علم ملنا چاہئے۔ صرف ایک بند درج کیا جاتا ہے :
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکال قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
یاں اپنے ہمسوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے، غور کرے، پیش و پس کرے
جو ہوس کے نا ،کیوں بشر اس کی ہوس کرے
یہ جو مثالیں پیش کی گئیں اور جن انسانی رشتوں کا ذکر کیا گیا، وہ سارے رشتے عالمی ادب کی کسی صنف میں ایک جگہ نہیں ملتے۔ اردو میں بھی مرثیہ کے علاوہ رشتوں کی یہ تفصیلات اور کسی صنف میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ غزل کا عاشقانہ مزاج، قصیدہ کی دربار داری اور مثنوی کا داستانی رنگ، سماجیات کے اس نازک پہلو کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر مرثیے میں وہ سارے انسانی اقدار موجود ہیں جو کاروان تہذیب کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کیا مجال کہ مرثیہ ن گار کے قلم کو ہلکی سی لغزش بھی ہو جائے۔ مرثیے کی اہمیت اور انفرادیت کے اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہے کہ مرثیہ نگار اپنے اوپر خوبصورت تہذیبی پابندیاں عائد ک رلیتا ہے اور پھر ان کے حصار سے باہر قدم نہیں نکالتا۔
جمالیاتی اقدار
عام طور سے مرثیوں کی مقدس المناک فضا میں ان جمالیاتی قدروں کی گنجائش نہیں ہوتی جو غزل یا عشقیہ مثنویوں میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن مرثیہ نگاروں نے جناب قاسم اور حضرت کبریٰ کی شادی کے واقعہ کا سہارا لیتے ہوئے اتنی صحت مند بالیدہ اور خوبصورت تصویریں پیش کی ہیں کہ جن سے تزکیۂ نفس اور قلب کی منزلیں طئے ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مرثیے ہیں بالخصوص :
پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح
شہرت رکھتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لئے ایک بند بھی درج کیا جاتا ہے۔ جناب قاسم میدان جنگ میں جانے کے لئے اپنی زوجہ فاطمہ کبریٰ کے پاس رخصت ہونے آتے ہیں۔ فرماتے ہیں :
گھونگھٹ ہٹا کے ہم کو دکھا دو تو رخ کا نور
پاس اب نہ آسکیں گے کہ ہوتے ہیں تم سے دور
آنکھوں پہ ہیں ہتھیلیاں رقت کا ہے وفور
نرگس کے پھول ہاتھوں سے ملنا یہ کیا ضرور
جینے کی اب خوشی چمن دل سے فوت ہے
بلبل جو گل کی شکل نہ دیکھے تو موت ہے
اعلیٰ اخلاقی اقدار
مرثیوں کی دنیا میں ایک خاندان اور وسیع تر سماج کی تشکیل کرنے والے انسانی رشتوں کے ان تصورات سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ اے تہذیب اور مہذب سوسائٹی اس باہمی ارتباط اور رشتوں کی نزاکت کی بنیاد پر جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل اور امین ہوتی ہے دراصل وہی اخلاقیات کا روشن ترین باب ہیں۔ ان رشتوں میں جو کردار سامنے آتے ہیں ان میں جناب حبیب ابن مظاہر، حضرت زہیر ابن قین اور وہ گمنام مسافر جو مرثیے
جب نوجواں پسر شہ دیں سے جدا ہوا
میں نظر آتا ہے، رشتوں کی اخلاقی فضا کو بلندیاں عطا کرتا ہے۔
مرثیے کی اہمیت اور مقبولیت میں جہاں انسانی رشتہ اہم ترین حیثیت رکھتا ہے وہیں مرثیوں میں اخلاقی مضامین اور بلندیاں اس طرح سامنے آتی ہیں کہ رہتی دنیا تک وہ کسی بھی مہذب سماج کے لئے مشعل راہ ہوسکتی ہیں۔ یہ اخلاقیات ایک طرف تو شاعر کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے مثلاً میر انیس لکھتے ہیں :
نیک و بد عالم میں تامل نہیں کرتے
عارف کبھی بھی تجاہل نہیں کرتے
خاروں کے لئے رخ گل نہیں کرتے
تعریف خوش الحانی بلبل نہیں کرتے
خاموش ہیں گو شیشۂ دل چور ہوئے ہیں
اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں
کہیں کہیں براہ راست اخلاقیات کا بیان ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل مرثیے جن کے مطلعے یہ ہیں :
جب خاتمہ بخیر ہوا، فوج شاہ کا
جب زل کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے
دیکھے جاسکتے ہیں۔ خصوصیت سے ایک بند، امام عالی مقام کے رجز سے پیش کیا جاتا ہے :
خوشبو کا اپنی گل نے کیا ہے کبھی بیاں
شیریں لبوں میں شکر کبھی ہوتی ہے عیاں
کھلتی ہے آپ مشک کی بو وقت امتحاں
کتنا جھکا ہے اتنی بلندی سے آسماں
سایہ بڑا ہے تجھ سے بگولا دراز ہے
البتہ خاکسار جو ہے سرفراز ہے
اخلاقیات کے سلسلے میں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ انحراف پسندی یا آج کی سیاسی اصطلاح میں ’’دل بدلو’‘ ہونا یا اپنی جماعت کو چھوڑ کر دوسرے کی جماعت میں شامل ہونا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ مرثیے نے بتایا کہ جب عرفان حق ہو جائے تو باطل سے منھ پھیر لینا اور حق کی طرف آنا ہی بڑا کارنامہ ہے۔
چنانچہ حضرت حُر کا کردار اور ان پر لکھے گئے مرثیے اس کے بہترین ترجمان ہیں۔ چنانچہ مونس کا مرثیہ :
’’مجلس افروز ہے مذکورہ وفاداری حر’‘
یا انیس کا مرثیہ :
’’بخدا فارس میدان تہور تھا حر’‘
دیکھے جاسکتے ہیں۔
عام طور سے مرثیوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ان میں صرف رونے رلانے کا تصور ہے۔ حزن و ملال کی فضا ہے۔ آنسوؤں کے چراغ روشن ہیں۔ اس فضا میں نہ صلابت کا اماکن ہے، نہ مقاومت کا موقع ہے اور نہ لڑنے اور شکست دینے کی جرأت ہے، لیکن یہ سارے خیالات غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ بے شک اردو مرثیے کی پانچ سو برس کی تاریخ میں واقعات کربلا کی اثر پذیری اور اس کا اعلان کہ ہم اس معرکہ عشق و باطل میں حق کے طرفدار ہیں ، مختلف انداز سے نواسۂ رسول کی شہادت پر اظہار رنج و غم کرنا اور مقامی عناصر کے پس منظر میں یہ ہندوستانیت کے شعور کے ساتھ واقعات کربلا کو مذہبی اقدار کے ساتھ سامنے لانا، مرثیہ نگاروں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرثیہ میں صلابت، عزم و ہمت اور شجاعت کی وادی خاردار میں اپنی آبلہ پائی سے کانٹوں کو سرخرو کرنے کا جذبہ نہیں رہا ہے۔ انیسویں صدی تک کے مرثیہ نگاروں نے بالخصوص انیس و دبیر، مونس وحید نے رجز، گھوڑے کی تعریف، تلوار کی تعریف، فنون جنگ کے اظہار، معرکہ آرائی کی تفصیلات پیش کر کے مرثیے کو صرف رونے رلانے کی حد تک محدود نہیں رکھا۔
لیکن دور حاضر میں جوش ملیح آبادی، آل رضا، جمیل مظہری، امید فاضلی، وحید اختر، یہ کچھ نام ہیں جنہوں نے مرثیہ کو باطل کے سر پر چمکتی ہوئی شمشیر بنا دیا۔ اب آج کا شاعر یہ لکھتا ہے کہ امام عالی مقام کے پیغام حق کو اس لئے کوئی نہیں روک سکتا کہ ایسی زنجیر ایجاد ہی نہیں ہوئی جو پھولوں کی خوشبو کو اسیر کرسکے اور ایسی کوئی شمشیر نہیں ہے جو بجلی کی تڑپ کو کاٹ سکے۔ جوش ملیح آبادی کے کچھ اور اشعار درج کئے جاتے ہیں :
تھیں بہتر خونچکاں تیغیں حسینی فوج کی
اور صرف اک سید سجاد کی زنجیر تھی
اتنی تیغوں کی رہی دل میں نہ تیرے یاد بھی
حافظے میں صرف ایک زنجیر باقی رہ گئی
ہے دنیا تیری نظیر شہادت لئے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے
نظیر اے زندگی! جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزِ حسین دے
مولانا محمد علی جوہر کا بھی زبان زد خاص و عام ایک شعر ملاحظہ ہو :
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دراصل یہ اقبال کا فیضان ہے جنہوں نے کربلا کے اس رخ کی طرف بہت پہلے اشارہ کیا تھا۔
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
دور حاضر کے تمام مرثیہ لکھنے والے کربلا کو عزم و عمل اور جبر کے مقابلے میں صبر کا استعارہ سمجھتے ہیں اور حق و باطل کی آویزش میں راہ حق کی طرف بڑھنے کے لئے کربلا سے سبق حاصل کرتے ہیں۔
یہاں صرف دو نکات کی طرف توجہ دلانا ہے جن سے مرثیہ کی اہمیت اور مقبولیت روشن ہوتی ہے۔ ان میں سے پہلا نکتہ ہے عالمی ادب میں فطرت کا تصور مغرب میں فطرت خدا ہے ( Wordsworth ) اور یا پھر فطرت بے رحم ہے۔ کچھ بھی ہوا کرے وہ بے نیاز ہے۔ Mathew Arnold لکھتا ہے :
'' Men may come and men may go, but I go on forever ''
لیکن مرثیوں کی دنیا میں فطرت ایسے انسانوں کی محکوم ہے جو ا للہ کے منتخب بندے ہیں۔ صرف تین شعر ملاحظہ ہوں :
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی
دریا جو دور، پیاس میں تھا شہ کی فوج سے
منہ پر طمانچے مارتا تھا ضرب موج سے
خولہاں تھے نخل گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دئیے تھے کٹورے گلاب کے
یہاں طرز بے رحم نہیں ہے وہ اعلیٰ ترین انسانوں کی عظمت کا اعلان کرتی نظر آتی ہے۔
پیکر تراشی
مرثیوں کی دنیا میں جہاں پیکر تراشی بھی ہے صورت گری بھی ہے، بلندی تخیل بھی ہے اور اس کا اعلان بھی ہے کہ لفظ کا جادو بے جان اشیاء کو پیکر عطا کرتا ہے اور انہیں متحرک بنا دیتا ہے۔ صناعی، خیال کو حُسن عطا کرتی ہے اور وہ مذہب کلامی، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور تجینس کے تمام اقسام اور مروجہ لفظی اور معنوی صنعتیں مراثی میں ملتی ہیں جو ان کی تخلیق و تزئین میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
آخری پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ عالمی ادب میں واحد صنف ہے جہاں موضوعات مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں مگر دوسرے مذہب کے ماننے والے صنف مرثیہ سے نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی بھی کرتے ہیں۔
اور وہ لوگ جو مذہباً، عقیدتاً مسلمان نہ تھے انہوں نے بھی مرثیے لکھے اور بڑی شان سے لکھے۔ تقریباً پانچ سو مرثیہ نگاروں میں سو مرثیہ نگار غیرمسلم ہیں۔ ان میں سیوا، کشن پرشاد شاد، الفت رائے الفت، کنورسین مضطر، مہاراجہ کلیان سنگھ، مکھن لال مکھن، راجہ بلوان سنگھ والی بنارس، روپ کماری، یا منی لال جوان، چھنولال دلگیر اور ڈاکٹر بتھونی لال وحشی مظفر پوری کے نام نامی ہیں۔ صر ف کچھ مثالیں اشارتاً پیش کی جاری ہیں۔ ان کے مرثیوں میں بھی وہ سارے اجزاء موجود ہیں جنہوں نے مرثیہ کو انفرادیت عطا کی ہے مثلاً روپ کماری کہتی ہیں :
ملا ہے پوت کب ایسا جگت میں ماؤں کو
غلامی فخر کرے جن کی سورماؤں کو
خوشی سے جھیلا زمانہ کی سب بلاؤں کو
پسند حق نے کیا آپ کی اداؤں کو
حضور راکب دوش نبی جبھی تو ہوئے
کئے کلام جو اعلیٰ علی جبھی تو ہوئے
منی لال جوان کا ایک شعر ملاحظہ ہو :
نظر سے آگ برستی ہے لو نکلتی ہے
ہوا بھی ساتھ ہے لیکن ادب سے چلتی ہے
والی بنارس کا شعر ملاحظہ ہو :
پست است حب حسین و حسن بسینۂ من
ہمیں زمرد و لعل است در خزینۂ من
اس طرح بے شمار غیرمسلم شعراء نے مرثیے لکھے اور وہ مقبول بھی ہوئے۔ صنف مرثیہ نے جہاں فنی اعتبار سے اس پہلو کو نمایاں کیا کہ مرثیہ ناظرین بھی چاہتا تھا، سامعین بھی چاہتا تھا اور قارئین بھی چاہتا تھا۔ یہ واحد صنف تھی جسے لحن سے بھی پڑھتے تھے۔ جسے منبر سے اس طرح سے ادا کرتے تھے کہ نظروں کے سامنے نقشہ کھینچ جاتا تھا اور اسے یوں بھی پڑھا جاسکتا تھا۔ یہ اس کا فنی معجزہ تھا کہ اس عظیم مہم میں ہندوستان کے دانشور طبقہ کے ہر مذہب و ملت کے افراد شریک تھے۔
مرثیے کا شمار نہ صرف ہماری شاعری کی مقبول اصناف میں ہوتا ہے بلکہ عالمی ادب میں بھی اس صنف کا جواب نہیں مل سکتا۔ ابتدا میں مرثیے کے لئے کوئی ہیئت مخصوص نہیں تھی، سودا نے اسے مسدس کی شکل عطا کی تو میر ضمیر نے اس کے اجزائے ترکیبی منطقی ترتیب متعین کی۔ میر وسودا کے زمانے سے لے کر آج تک دیگر ہیئتوں میں بھی مرثیے لکھے گئے اور ا جزائے ترکیبی کی بھی پابندی میں تھوڑی بہت چھوٹ اختیار کی۔
مرثیے کی مقبولیت کے اسباب میں سب سے زیادہ اہمیت مذہبی جذبات کو حاصل ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لئے اعلیٰ و ارفع مرثیے لکھے گئے۔ ان مرثیوں میں مذہب کا سہارا لے کر تہذیبی، جمالیاتی، اخلاقی اور ادبی قدروں کو بھی مرثیہ میں شامل کر لیا گیا۔ مرثیوں میں رشتوں کی پاسداری میں تہذیب کے متنوع عوامل شعوری اور غیر شعوری طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ مرثیے کو پر اثر مقبول بنانے میں زبان و بیان کی جادوگری تشبیہ و استعارے، صنائع و بدائع کے خزانے لٹا دئیے گئے ہیں۔ مرثیہ نگاروں کی فہرست میں ہزاروں شاعروں کے نام آتے ہیں لیکن جو مقبولیت میر انیس اور مرزا دبیر کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ان شاعروں کا مشاہدہ تیز ہے، لفظوں کے انتخاب و ترتیب کا ان میں سلیقہ ہے، کلام میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ، جذبات اور مناظر قدرت کی عکاسی میں وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ مرثیوں کی مقبولیت کا اہم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نفسیات انسانی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ کائنات کا مطالعہ مرثیہ کو وقعت عطا کرتا ہے۔ سیرت و پیکر تراشی سے مرثیوں میں جان پڑ گئی ہے۔ مرثیہ کہنے کو ایک صنف سخن ہے مگر اس میں دیگر اصناف کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں گویا وحدت میں کثرت کے جلوے نظر آتے ہیں۔