مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)

مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)0%

مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)

مؤلف: مجاور حسین رضوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17504
ڈاؤنلوڈ: 4608

تبصرے:

مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17504 / ڈاؤنلوڈ: 4608
سائز سائز سائز
مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)

مرثیہ (’اردو مرثیہ اور صوفیائے کرام‘ کا اہم مقالہ اور دوسرے مضامین)

مؤلف:
اردو

اردو مرثیہ کا آغاز و ارتقا

اردو میں مرثیے کی صنف بہت مقبول صنف رہی ہے۔ اردو میں مرثیہ دکن کے صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ اشرف بیابانی کی نو سربار (۱۵۰۳ء) کو مرثیہ کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد شاہ برہان الدین جانم اور شاہ راجو نے بھی مرثیے لکھے۔ محمد قلی قطب شاہ، غواصی اور وجہی کے یہاں بھی مرثیے ملتے ہیں۔ شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی کے ’’عاشور نامے’‘ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد فضل علی کی ’’کربل کتھا’‘ کا نام آتا ہے جو نثر میں ہے۔ شمالی ہند کے مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب ،یکرنگ اور قائم وغیرہ نے بھی مرثیے لکھے۔ محمد رفیع سودا نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہیئت عطا کی۔ اٹھارویں صدی میں لکھے جانے والے مرثیے اپنے ارتقاء کے ابتدائی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کا آغاز مرثیے کی ترقی کی نوید لاتا ہے، اس زمانے میں جن لوگوں نے مرثیے لکھے ان میں دلگیر، فصیح، خلیق اور ضمیر کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ ضمیر کے شاگرد، دبیر اور خلیق کے لڑکے انیس نے اردو مرثیے کو بام عروج پر پہنچایا۔

رثاء عربی لفظ ہے جس کے معنی میت پر رونے کے ہیں۔ اسی سے لفظ مرثیہ بنا ہے چنانچہ مرثیہ کا اطلاق ایسی ہی نظموں پر ہوتا تھا جن میں رثائی وصف ہو، لیکن اب بالخصوص اردو میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس کا موضوع واقعات کربلا ہوں۔ مرثیہ میں اگر کسی شخصِ خاص یا اشخاص کا تذکرہ ہو اور وہ واقعات کربلا یا محمد یا آل محمد سے متعلق نہ ہو ں تو اس کو تعزیتی نظم کہیں گے۔

واقعۂ کربلا ۶۱ھ میں ہوا جس میں امام حسین کی شہادت ہوئی۔ اس واقعہ کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے چنانچہ عربی میں بھی واقعہ کربلا سے متعلق رثائی نظمیں لکھی گئیں۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ امام عالی مقام کی ہمشیرہ معظمہ نے سب سے پہلا مرثیہ لکھا تھا جس کا پہلا مصرع یہ تھا :

مدینۃ جدنا لاتقبلینا

اس کے با وصف کہ بنو امیہ اور بنوعباس کے دور حکومت میں عزا داری کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی پھر بھی عربی میں سدیف، کمیت اسدی، سید حمیدی کے نام ملتے ہیں جنہوں نے ائمہ اہلبیت کے حضور میں ان کے جد کا مرثیہ پڑھا۔ ان میں دعبل خزاعی بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے حضرت امام رضا کے سامنے کئی بار مرثیہ پڑھا۔

عربی سے مرثیے کا فارسی تک کا سفر بہت زیادہ وسعت نہیں رکھتا۔ فارسی کے پہلے مرثیہ نگار شیخ آذری کہے جاتے ہیں اور ان کا مندرجہ ذیل شعر نقل کیا جاتا ہے جو انہوں نے ہندوستان کے مقام بیدر میں لکھا تھا :

سوراخ می شود دل ماچوں گلِحسین

ہر جا کہ ذ۔ کر و واقعۂ کربلا بود

شیخ آذری کے بعد فارسی میں جن شعراء کا نام آتا ہے ان میں مقبل، محتشم، قا انی، حبیب کردستانی وغیرہ معروف ہیں۔ خاص طور سے شبلی نے محتشم کا ذکر کیا ہے اور مثال بھی دی ہے۔

مرثیہ نگاری کی روایت عربی اور فارسی میں بھی تھی۔ اردو میں مرثیہ دکن میں موجود صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ اس کا نقطہ آغاز حضرت شاہ اشرف بیابانی ہیں۔ ان کی نوسرہار ۹۰۹م ۱۵۰۳ء میں لکھی گئی۔ وہ مجلسوں میں اپنے تصنیف کیے ہوئے مرثیے پڑھا کرتے تھے۔ ان کے بعد حضرت شاہ برہان الدین جانم کا مشہور مرثیہ ملتا ہے۔

حضرت شاہ برہان الدین جانم، حضرت شاہ راجو، غواصی اور وجہی نے دکنی میں مرثیے لکھے۔ ڈاکٹر چراغ علی نے حسینی اور سید شاہ ندیم اللہ ندیم اور سفارش حسین نے عزلت کا تذکرہ کیا ہے۔ دکنی میں جن اہم مرثیہ نگاروں کے نام ملتے ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ، شاہی اور مرزا کے نام شامل ہیں۔ خاص طور سے مرزا کے سلسلہ میں مباحث بھی ہیں کہ گولکنڈہ اور بیجا پور دونوں جگہوں پر اس کا نام ملتا ہے البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ایک ہی شخصیت ہے یا دو الگ شخصیتیں ہیں۔ دکنی میں ابتدائی عہد کے تقریباً ہر قابل ذکر شاعر نے مرثیہ لکھا ہے۔

مغلوں کی آمد سے پہلے تک کے مرثیہ نگاروں کے یہاں نصیر الدین ہاشمی کے مطابق مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد حضرت امام حسین اور اہل بیتِ رسالت کا غم و الم تازہ کرنا اور ان کی یاد میں آنسو بہانا تھا۔ فرضی روایات اور افسانوں کو مرثیوں کا جز و اعظم قرار نہیں دیا گیا۔ مرثیوں میں ادبی شان بھی پائی جاتی ہے اور واقعہ نگاری کا اور مرقع نگاری کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

مغلوں کے بعد والے دور کے مرثیہ نگاروں میں ہاشم علی برہان پوری اور درگاہ قلی خاں کو ڈاکٹر مسیح الزماں نے خصوصیت سے قابل ذکر سمجھا ہے۔ سفارش حسین نے کاظم اور غلام علی خاں لطیف، محمد افضل افضل، برہان، مظفر، قاضی محمود بحری وغیرہ کے مراثی کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے خیال میں محمد صدیق قیس حیدر آبادی اگر صرف مرثیہ میں ہی طبع آزمائی کرتے تو دکن میں بھی میرانیس پیدا ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے بالاجی ترمیک جی ذرہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :دکنی مراثی ایک ایسا بحرِ ذخار ہے جس کی ہر بوند گوہر ِآبدار ہے

دکنی میں مرثیہ کی بہت ساری ذیلی اصناف بھی ملتی ہیں جن میں زاری، سواری، واویلا، ہائے ہائے، نوحہ، ماتم وغیرہ ہیں۔ مرثیہ بالخصوص دکنی مراثی کے تفصیلی مطالعے کے لیے دکن میں اردو۔ نصیرالدین ہاشمی، تاریخ ادب اردو۔ جمیل جالبی، اردو مرثیہ۔ سفارش حسین اور اردو مرثیے کا ارتقا۔ ڈاکٹر مسیح الزماں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اکثر روا روی میں یہ بھی لکھا ہوا ملتا ہے کہ مرثیے کے فروغ کا سبب کسی مخصوص مسلک کے افراد کی بادشاہت اور ان کا اقتدار میں رہنا تھا۔ یہ پورا تصور غیر منطقی ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو اس مسلک کے شعرا کی اکثریت ہوتی اور جب اس مسلک کے لوگ اقتدار سے ہٹتے تو مرثیے کی ترقی اور اس کے ارتقا میں رکاوٹ آ جاتی۔

شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز روشن علی سے ہوتا ہے۔ اس کا عاشور نامہ ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے شائع کر دیا ہے۔ اس کا تذکرہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی تاریخ ادب اردو میں اور سفارش حسین نے بھی اپنی کتاب ’’اردو میں مرثیہ’‘ میں کیا ہے۔ روشن علی کا عاشور نامہ ۱۶۸۸ء میں لکھا گیا۔ اس عہد کے مرثیہ نگاروں میں ڈاکٹر مسیح الزماں نے سب سے پہلے فضل علی فضلی کی ’’کربل کتھا’‘ کا ذکر کیا ہے۔ کربل کتھا میں فضلی نے مختلف شہداء کے حال کی مجلسوں میں چسپاں کرنے کے لئے اشعار لکھے تھے ورنہ کربل کتھا کی حیثیت نثر میں ایسے کارنامے کی ہے جس سے شمال میں اردو نثر کے ارتقاء پر روشنی پڑتی ہے۔

اس عہد کے ممتاز مرثیہ نگاروں میں مسکین، محب، یکرنگ، قائم وغیرہ ہیں۔ لیکن سب سے اہم نام مرزا محمد رفیع سودا کا ہے جنہوں نے اردو مرثیہ کو مسدس کی ہیئت میں لکھا۔ سودا نے اپنے مرثیوں میں ان تمام رسومات کا تذکرہ کیا ہے جو ہندوستان میں عموماً شادی بیاہ کے موقع پر انجام دی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر مسیح الزماں کے مطابقسودا کے کلیات میں ان کے مرثیوں کی تعداد ۷۲ ہے جن میں چھ چھ مفرد، مسدس اور مخمس ہیں ، چھ متفرق شکلوں میں ہیں اور ۴۸مربع۔ ان کے علاوہ ۱۲سلام ہیں۔ انہوں نے ہیئت اور مواد میں بہت سے تجربے کیے۔ سماج کے تانے بانے میں اس کی جڑیں تلاش کیں اور ایک ہوشیار صناع کے مانند اسے طرح طرح کے سانچوں میں ڈھالا۔ موضوع کے اعتبار سے جناب قاسم کی شادی سب سے زیادہ ان کی توجہ کا مرکز بنی۔

ان کے چند مرثیوں کے مطلعوں کے پہلے مصرعے درج کئے جاتے ہیں :

(۱ ) میں ایک نصاری سے پوچھا زراہ ناداں

(۲ ) یارو ستمِ نو یہ سنو چرخ کہن کا

(۳) کہا اساڑھ نے یہ جیٹھ کے مہینے سے

(۴) سن لو محباں نس دن جگ کے خون نین سے جاری ہے۔

سودا کے ساتھ ہی میر تقی میر کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ میر نے اپنے مرثیوں میں اپنے عہد کے رسوم اور معاشرت کے عناصر بھی داخل کئے ہیں۔

محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال قیامت رہیں گے دلوں کو ملال

جن کو دیکھنے سے اس عہد کی عزا داری اور محرم میں لوگوں کے شغف کا بہت کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔

میر صاحب سے کچھ پہلے اور ان کے معاصرین میں میر عبداللہ مسکین، میر ضاحک، میر حسن، پھلواری شریف کے شاہ محمد ہدایت اللہ، مہربان خان رند، مرزا ظہور علی خلیق دہلوی، شاہ نورالحق پتاں عظیم آبادی، قلندر بخش جرأت، غلام ہمدانی مصحفی، میر شیر علی افسوس اور عظیم آباد کے صوفیا سے متعلق مرثیہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے۔

مرثیہ نگاری کے اس سرسری جائزے میں سب سے اہم نام میر اور سود کے بعد میاں سکندر کا ہے جن کا مرثیہ؂

ہے روایت شتر اسوار کسی کا تھا رسول

آج بھی مجالس میں پڑھا جاتا ہے اور اکثر محققین کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے مسدس کی ہیئت میں مرثیے لکھے اور چوں کہ یہی زمانہ متین برہانپوری اور سودا کا ہے اس لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ روایت کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے۔

اس عہد کے مرثیہ نگاروں نے جہاں ہیئت کے تجربے کیے وہیں اس پر بھی زور دیا کہ مرثیے کو ادبی حیثیت حاصل ہو۔

دکنی میں جو رثائیت تھی وہ شمال میں آ کر فارسی اثرات اور معاشرے اور تہذیبی اقدار و عناصر سے ہم آہنگی کی بناء پر تدریجاً تغیر پذیر رہی اور رثائیت کم ہوتی گئی، شعراء کو صناعی اور روایت نظم کرنے کا زیادہ شوق رہا۔ ان مرثیوں میں لمبی بحریں بھی ہیں۔ انہیں منبر پر پڑھنے کا رواج بھی اس زمانہ کے کچھ عرصہ کے بعد ہی ہوا۔ اب عموماً ایسے واقعات اور پہلو نظم کیے جانے لگے جن سے متاثر ہو کر سامعین گریہ کریں۔ بیٹے کی لاش پر ماں کا بین، امام حسین کی بہن یا اہل حرم سے رخصت وغیرہ، جناب فاطمہ کی روح کا جنت سے میدان کربلا میں آنا، وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر گریہ و بکا کرنا، بہت سے مرثیوں میں ملتا ہے۔ ان مرثیوں میں سماجی زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں اور واقعہ نگاری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔

دکن کے علاوہ اودھ میں بھی مرثیے پر خصوصی توجہ کی گئی۔ اس سے پہلے کہ اودھ میں مرثیے کے عروج و ارتقاء پر روشنی ڈالی جائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب اودھ میں مرثیہ دورِ عروج کی طرف بڑھ رہا تھا تو اس وقت دہلی یا دکن میں مرثیہ کی روایت کی تابانی میں کس طرح کی کمی نہیں ہوئی۔ اودھ میں مرثیہ کی روایت کو ارتقاء کی طرف لے جانے والوں پر ڈاکٹر مسیح الزماں نے تفصیلی بحث کی ہے اور بہت سے نام تحریر کئے ہیں۔ جن میں مرزا ظہور علی، راجہ کلیان سنگھ خلف، راجہ شتاب رائے، مولانا محمد حسین محزوں (جو الہ آباد آ کر دائرہ شاہ اجمل کے ایک کمرہ میں رہا کرتے تھے اور درس دیتے تھے) شامل ہیں۔ اسی طرح آیۃ اللہ جوہری (پھلواری شریف) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان لوگوں نے ان روایات کی پابندی کی جو انہیں ملی تھیں ،کوئی روایت سازی نہیں کی، کوئی ایسا پہلو بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر انہیں منفرد سمجھا جائے۔ لکھنؤ سے پہلے مختلف جگہوں پر مرثیہ گوئی کی روایت فروغ پا رہی تھی۔ ان مرثیہ نگاروں میں اہم نام مرزا پناہ علی بیگ، افسر دہ حیدرآبادی کا ہے۔ کریم الدین نے ان کی مرثیہ گوئی کے بارے میں لکھا ہے کہ افسردہ اپنے کمال فن کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مرثیہ میں رقت خیز مضامین شامل کئے۔ سفارش حسین نے افسردہ کو مقصد اور فن دونوں کے اعتبار سے کامیاب شاعر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر مسیح ا لزماں بھی افسردہ کے معترف ہیں اور لکھتے ہیں کہ بعض مرثیوں میں تمہید کا التزام کیا ہے۔ اس تمہید میں کنایوں اور اشاروں کی مدد سے شاعرانہ محاسن پیدا کئے ہیں اور پیرائے بیان کو جدت و ندرت دی ہے۔

لکھنؤ کے مرثیہ گوئی کے پہلے دور میں افسردہ ’’گدا’‘ احسان کے ساتھ حیدری کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ گدا یا احسان کے مرثیوں میں بھی مقامی رسوم اور اودھ کی معاشرت ملتی ہے لیکن ان مرثیوں میں اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور مقصد شہادت کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں لیکن مرثیہ گویوں کی خاص توجہ جذبات کی عکاسی کی طرف نظر آتی ہے۔

انیسویں صدی کا آغاز مرثیہ کا دور تعمیر ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب فیض آباد اپنے شباب کے ساتھ لکھنؤ کو حیات نو دے رہا تھا۔ امام باڑے، عزا خانے سج رہے تھے اور ا پنے دور آغاز سے ہی لکھنؤ کی فضاء میں یا حسین کی گونج سنائی دینے لگی تھی۔ اس دور کو ڈاکٹر مسیح الزماں نے دور تعمیر سے تعبیر کیا ہے لیکن اس دور میں جو تجربے کئے گئے ہیں اور جس طرح زبان کی تراش و خراش پر زور دیا گیا، وہ اپنی جگہ پر ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ان مرثیہ نگاروں میں چھنو لعل دلگیر، مرزا جعفر علی فصیح، میر مستحسن خلیق، میر مظفر حسین ضمیر کے نام بہت اہم ہیں۔ ان میں دلگیر کے مراثی اس عہد کی معاشرت کی سماجی دستاویز ہیں خاص طور پر اعلیٰ طبقے کی خواتین کی بول چال، مزاج اور رسوم کا تذکرہ غم انگیز کنائیوں کے ساتھ ان کے یہاں ملتا ہے۔

جعفر علی فصیح نے بھی ضمیر کے معاصر کی حیثیت سے مرثیہ گوئی میں نام پیدا کیا مگر اس عہد کے مایہ ناز مرثیہ نگار مظفر حسین ضمیر ہیں۔ وہ روایت ساز بھی ہیں۔ اگر انہیں تاریخ مرثیہ گوئی کا مجتہد کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مصحفی نے ریاض الفصحاء میں انہیں نئی راہیں ، نئے رستے پیدا کرنے والا لکھا ہے۔ جعفر علی نے سب سے پہلے مرثیہ کا نیا کینڈا تیار کیا، جس میں چہرہ کو سب سے پہلے جگہ ملی، پھر سراپا آیا اس کے بعد گھوڑے اور ہتھیاروں کی تعریف، ان کا سراپا بھی لکھا، رزمیہ انداز میں واقعہ نگاری کی۔ ان کے مرثیہ کا ایک مطلع ملاحظہ ہو۔

کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے

یہ مرثیہ ۱۲۴۹م ۱۸۳۳ء میں کہا گیا۔ فنون جنگ سے واقفیت کو مرثیہ جیسی غم انگیز صنف میں داخل کر کے جوش و ولولے کے ساتھ اس صنف کو ایک نئی سمت عطا کی گئی۔ انہوں نے مرثیے کو سراپا اور جنگ کے مناظر سے وسعت دی۔ جنگ کے بیانات کا جس طرح اضافہ کیا اس نے مرثیہ کی دنیا ہی بدل دی۔ اس طرح ضمیر ہی وہ پہلے مرثیہ گو ہیں جنہوں نے اردو مرثیے کو ہیئت کے اعتبار سے ایک با ضابطہ صنف بنایا۔ اگر ضمیر نہ ہوتے تو اردو مرثیہ انیس و دبیر سے محروم رہ جاتا۔

۱۸۰۳ء میں مرزا سلامت علی دبیر دہلی کے مشہور محلہ بلیماران میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے بگڑے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے شرفا اور شعراء و ہنر مند دلی چھوڑ کر جا رہے تھے۔ دبیر بھی سعادت علی خان کے زمانے میں لکھنؤ پہنچے۔ اس زمانے میں لکھنؤ میں مرثیہ گوئی کا اچھا خاصا رواج تھا۔ مرزا دبیر نے لکھنؤ پہنچ کر تعلیمی مدارج طئے کئے اور اسی شہر کے نامور علماء سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، صرف و نحو، منطق، ادب و حکمت کی درسی کتابیں پڑھیں ، حدیث، تفسیر قرآن و اصول حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا۔ شاعری کا ذوق بچپن سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں ضمیر کی شاگردی اختیار کی۔ ضمیر نے خود انہیں دبیر تخلص عطا کیا۔ یہ ۱۸۱۴ء کی بات ہے۔ اس وقت لکھنؤ میں ناسخ و آتش کے چرچے تھے۔ مرزا دبیر نے مرثیہ نگاری میں بلند مقام حاصل کیا۔ ابھی تک مرزا کے مرثیوں کی صحیح تعداد متعین نہیں ہوسکی ہے۔ پھر بھی دفتر ماتم کی تمام جلدوں کے مراثی اگر شمار کر لئے جائیں تو یہ تعداد چار سو سے اوپر پہنچتی ہے۔ ان کے بعض مرثیوں کے مطلعے درج کئے جاتے ہیں :

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

قید خانہ میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

جب حرم قلعہ شیریں کے برابر آئے

بانو کے شیر خوار کو ہفتم سے پیاس ہے

ذرہ ہے، آفتاب در بو تراب کا

ہم ہیں سفر میں اور طبیعت وطن میں ہے

دبیر بڑے پرگو مشاق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ جذبات نگاری اور شوکت الفاظ کو دبیر کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ سراپا نگاری اور رزم نگاری کے اعلا نمونے دبیر کے یہاں ملتے ہیں۔ دبیر کے مرثیوں میں ضائع و بدائع، لفظی و معنوی خوبیوں کا استعمال فیاضی سے ملتا ہے۔ بعض مرثیوں میں تو دبیر نے تمام صنعتیں ایک ساتھ نظم کر دی ہیں۔ دبیر کے یہاں مرثیوں میں علمیت، فنی پختگی اور زبان و بیان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ ان کی تعلیم اور عالمانہ ژرف نگاہی کی وجہ سے مرثیوں میں وزن و وقار آگیا ہے لیکن کبھی کبھی یہی محاسن کھٹکنے بھی لگتے ہیں۔

دبیر کے یہاں خیال آفرینی، مضمون سے مضمون نکالنا اور مذہب کلامی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ موازنہ انیس و دبیر میں شبلی نے خیال بندی اور دقت پسندی کو مرزا صاحب کے تاج کمال کا طرہ ثابت کیا ہے۔ مرزا صاحب نے بے نقطہ مرثیہ بھی لکھا ہے اس میں اپنا تخلص دبیر کے بجائے عطارد رکھا ہے۔ ان کی ایک کتاب ابواب المصائب بھی ہے۔ یوں تو ان کے ہزاروں شعر مثال میں پیش کئے جاسکتے ہیں ، مگر میر انیس کی وفات پر ان کا بے نظیر قطعہ تاریخ اور اس کا آخری شعر معجزہ فن کا نمونہ ہے۔

آسماں بے ماہ کامل سدرہ بے روح الامیں

طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس

میر انیس ۱۸۰۳ء میں پیدا ہوئے اور مرزا دبیر سے صرف تین مہینے قبل ان کا انتقال ہوا۔ ان کی سوانح پروفیسر نیر مسعود نے لکھی ہے اور ان کی شاعری کو جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم انیس اعظم میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

انیس فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ میر حسن کے پوتے، خلیق کے لڑکے تھے۔ انیس نے میر نجف علی اور حیدر علی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ نیر مسود لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستانی روایت اور اودھی بھاکا سے بھی باخبر تھے۔ ’‘

پہلے حزیں تخلص کرتے تھے اور غزلیں بھی لکھتے تھے۔ ناسخ نے انیس تخلص تجویز کیا۔ پہلا مرثیہ لکھنؤ میں علامہ تفضل حسین کے چچا زاد بھائی، اکرام اللہ خاں کے امام باڑے میں پڑھا۔ مرثیے کا مطلع درج کیا جاتا ہے :

جب حرم، مقتل سرور سے وطن میں آئے

انیس نے بھی سینکڑوں مرثیے لکھے۔ انہوں نے عظیم آباد (پٹنہ) اور حیدرآباد کا سفر بھی کیا۔ ۱۸۷۱ء میں حیدرآباد آئے تھے اور یہاں انہوں نے اپنا معرکہ خیز مرثیہ

ع حب خاتمہ بخیر ہوا فوج شاہ کا

تہور جنگ کے عزا خانے یعنی عنایت جنگ کی دیوڑھی میں پڑھا تھا۔ انیس کے کچھ مشہور مرثیوں کے مطلعے درج کئے جاتے ہیں :

بخدا فارس میدان تہور تھا حر

جاتی ہے کس شکوہ سے رن میں خدا کی فوج

جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے

جب غازیان فوج خدا نام کر گئے

طئے کر چکے حسین جو راہ ثواب کو

جب نو جواں پسر شہ دیں سے جدا ہوا

آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے

v میر انیس مرزا دبیر کے ہمعصر تھے۔ زبان کی سلاست و فصاحت کی وجہ سے ا نیس کے مرثیے عوام میں بہت مقبول ہوئے۔ محرم کی مجالس میں آج بھی ان کے مرثیے پڑھے جاتے ہیں۔ ا پنی قادر الکلامی اور اثر آفرینی سے انیس نے مرثیہ کی زمین کو آسمان بنا دیا۔ میر انیس زبان کی صفائی، بندش کی چستی اور مناظر قدرت کی عکاسی میں اپنی مثل آپ ہیں۔ انیس کو فن حرب میں بڑا درک تھا۔ اس لئے جب جنگ کا منظر کھینچتے ہیں تو بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

انیس اپنے مرثیوں میں کردار نگاری میں بھی کمال دکھا جاتے ہیں۔ جذبات نگاری پر انہیں بے پناہ قدرت حاصل ہے۔ وہ جب چاہیں اپنے قاری کو رلاسکتے ہیں۔ میر انیس کی شاعری اور کمال فن کے سبھی قائل ہیں۔

انیس نے خود بھی شاعری کے تعارف میں کئی بند لکھے ہیں۔

قلم فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ

شمع تصویر پہ گرنے لگے آ آ کے پتنگ

صاف حیرت زدہ مانی ہو تو بہزاد ہو دنگ

خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں میں جنگ

رزم ایسی ہو کہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی

بجلیاں خوں بھری تیغوں کی چمک جائیں ابھی

ضمیر کے دور سے ایک طرح سے مرثیہ کی ہیئت مسدس طئے پا گئی تھی اور اس کے اجزاء میں چہرہ، ماجرا، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت، بین اور دعا شامل ہو گئے تھے۔ چنانچہ انیس کے بعد ان کے خانوادے کے میر خورشید علی، میر نفیس، میر مونس اور ایک واسطے سے میر وحید انیس کی روایات کی پیروی کرتے رہے۔

میر عشق، تعشق اور پیارے صاحب رشید، دبستان عشق کے ممتاز مرثیہ نگار تھے، جن کے کمال فن اور دبستان عشق کی مرثیہ گوئی پر جعفر رضا نے خوبصورت انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے بعض شاندار مراثی سے متعارف کرایا جن میں میر عشق کا

عروج اے میرے پروردگار دے مجھ کو

تعشق کا سچ ہے دنیا میں شب ہجر بلا ہوتی ہے اور

کھینچ اے قلم مرقع صحرائے کربلا

شامل ہیں۔

ان کے مطابق مراثی میں تغزل کی آمیزش اس خاندان کی سب سے بڑی خدمت ہے جو بعد میں بہار اور ساقی نامہ کے بیانات میں اور نمایاں ہوتی ہے۔ انیس کے خانوادوں نے مرثیہ کو اس بلندی تک پہنچا دیا کہ مرثیہ ’’ادبی تاریخ’‘ کا سب سے زیادہ روشن اور تابناک باب ثابت ہو گیا۔ اس طرح مرثیہ گوئی ارتقائی منازل طئے کرتے ہوئے بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک پہنچی تو ملک جنگ آزادی میں برطانوی سامراج سے ٹکر لے رہا تھا۔ اس وقت شاد عظیم آبادی اصلاحی رنگ کا مرثیہ لکھ چکے تھے۔

۱۹۱۸ء میں جوش نے ’’آواز حق’‘ کے عنوان سے جدید مرثیے کی داغ بیل ڈالی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اپنے مفرد اشعار میں ’’حسین’‘ اور ’’شبیری’‘ کے استعارے کے ذریعہ سے شہادت کے اثرات و رموز اور معنویت کی طرف متوجہ کر چکے تھے۔ فارسی تصنیف رموز بیخودی میں ان کی نظم

آں امام عاشقاں پور بتول

کربلا کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کر چکی تھی۔ مگر جوش نے آوازہ حق کے بعد ’’ذاکر سے خطاب’‘ میں بھی ایک نیا رنگ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے مرثیے ’’حسین اور انقلاب’‘ سے جدید مرثیہ گوئی کا آغاز ہوتا ہے۔

اب مرثیے کے اجزائے ترکیبی اور رثائیت سے زیادہ پیغام حسینی کی معنویت پر زور دیا جانے لگا۔ جوش نے کل ۹ مرثیے لکھے ہیں۔ ان کے ایک مرثیے سے ایک بند پیش کیا جاتا ہے جس سے ان کے انداز مرثیہ گوئی کا پتہ چل سکتا ہے :

یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو

یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو

یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو

در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو

حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو

یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو

جوش کی شاعری کے پورے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا مندرجہ ذیل شعر پڑھیں تو ان کے مرثیوں کے شعری آہنگ اور شعری مزاج کو سمجھنا آسان ہو گا :

زندگی ہے سر بسر آتش فشانی ! یا حسین

آگ دنیا میں لگی ہے، آگ ! پانی ! یا حسین

جوش کے بعد یا جوش کے لفظوں میں جدید مرثیے کے بانی کے طور پر آل رضا کا نام آتا ہے۔

اردو مرثیہ جس کا نقطہ آغاز سولہویں صدی میں حضرت شاہ اشرف تھے، ارتقائی منازل طئے کرتے ہوئے جب بیسویں صدی میں داخل ہوا تو اسے جوش ملیح آبادی جیسے قدر آور شاعر کی تعمیر کردہ روایات ملی تھیں۔ انہیں روایات کی بنیاد پر دور حاضر میں بھی مرثیے لکھے جا رہے ہیں۔ اس عہد میں بھی (یعنی جوش کے فوراً بعد کے زمانے میں ) سب سے اہم نام آل رضا کا ہے۔ جوش نے انہیں جدید مرثیے کا بانی قرار دیا ہے۔ انہوں نے تقریباً بیس مراثی لکھے ہیں۔ ان کا پہلا مرثیہ ہے ع ’’کلمہ حق کی ہے تحریر دل فطرت میں ‘‘۔ ان کے مجموعے میں آخری مرثیہ ع ’’قافلہ آل محمد کا سوے شام چلا’‘ ہے۔

پہلے مرثیے سے ایک بند ملاحظہ ہو :

ابر بے فصل نے اب کے یہ سماں دکھلایا

آسماں سوگ میں تھا جب کہ محرم آیا

رندھ گئی جتنی فضا اتنا ہی غم بھی چھایا

بوندیں پڑنے جو لگیں یاد نے دل تڑپایا

کتنا پانی ہے جو بے وقت برس جاتا ہے

اور کبھی قافلہ پیاسوں کا ترس جاتا ہے

آل رضا کے ساتھ علامہ جمیل مظہری کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ ان کا شاہکار مرثیہ ’’شام غریباں ‘‘ ہے۔ ایک بند دیکھئے :

تیرگی تجھ کو مبارک ہو یہ عاشور کی شام

عہد ظلمت کی سحر، خاتمہ’ نور کی شام

شفق افروز ہے خون دل مہجور کی شام

آج کی شام تو ہے زینت رنجور کی شام

آفریں اس پہ بہتر کی عزا دار ہے جو

اک نئے قافلہ کی قافلہ سالار ہے جو

اس میں یہ فنی معجزہ بھی ملتا ہے کہ مرثیہ میں صرف ’’شام’‘ کا بیان ہے ’’شب’‘ نہیں ہوپاتی۔

دور حاضر کے مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی اہم ہیں۔ حالانکہ ان کی اہمیت نوحہ و سلام کی وجہ سے زیادہ ہے۔ پھر بھی ان کا ایک مرثیہ بہت مشہور ہوا جس کا آخری شعر درج کیا جاتا ہے۔

عباس نامور کا علم لے کے جائیں گے

ہم چاند پہ حسین کا غم لے کے جائیں گے

ڈاکٹر وحید اختر نے انقلابی انداز میں کئی مرثیے لکھے۔ ان کے مجموعہ کا نام ’’کربلا تا کربلا’‘ ہے۔ ایک مرثیہ اسیران کربلا پر ہے اور ایک مرثیہ لفظ ’’قلم’‘ سے شروع ہوتا ہے۔

امید فاضلی کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’سرنینوا’‘ دوسرا مجموعہ ’’تب و تاب جاودانہ’‘ ہے۔ دونوں مجموعوں میں کل بارہ مرثیے ہیں۔ سب سے اچھا مرثیہ علم و عمل ہے۔ جس کا ایک بند دیکھئے :

مرحبا صل علیٰ علم کا در کھلتا ہے

مصحف نور سر رحل نظر کھلتا ہے

لب جو کھولوں تو یہاں عجز ہنر کھلتا ہے

منزل آتی ہے تو سامان سفر کھلتا ہے

علم کے در سے اگر میری سفارش ہو جائے

کشت تخئیل پر الفاظ کی بارش ہو جائے

ایک اور بند پیش ہے :

علم آیات الہی کی حرا میں تنزیل

اس کی آواز ہے داؤد تو لہجہ ہے خلیل

یہی قرآن کا دعویٰ، یہی دعوے کی دلیل

یہ وہ اجمال ہے، ممکن نہیں جس کی تفصیل

یہ رگ حرف میں خوں بن کے رواں ہوتا ہے

اس کی آغوش میں وجدان جواں ہوتا ہے

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اردو شاعری میں غزل کے بعد مرثیہ ہی کو عوام میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ یہی وہ صنف ہے جو اپنے آغاز سے آج تک زندہ ہے اور مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ ۱۵۰۳ء میں اشرف بیابانی کے نو سرہار سے ادب میں ہمیں مرثیے کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ دکن میں برہان الدین جانم، محمد قلی قطب شاہ، غواصی، وجہی، شاہی اور مرزا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ شمالی ہند میں روشن علی، فضل علی فضلی، مسکین، محب، یکرنگ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مرزا رفیع سودا نے مرثیے کو مسدس کی ہیئت میں لکھا۔ سودا کے ہم عصروں میں مسکین، ضاحک، میر حسن، خلیق اور مصحفی جیسے شاعروں کے نام آتے ہیں۔ اردو میں جب بھی مرثیہ کا تذکرہ آتا ہے، مرزا دبیر اور میر انیس کے نام صفحۂ ذہن پر روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ شاعر ہیں جنہوں نے مرثیہ کو بام عروج پر پہنچادیا۔ ان کے بعد میر انیس کے خانوادوں نے اس فن کی آبیاری کی۔ دور جدید میں جوش، آل رضا، جمیل مظہری، نجم آفندی اور ڈاکٹر وحید اختر نے مرثیہ کا مقام بلند کیا اور مرثیہ کو صرف رونے رلانے کی صنف سے آگے بڑھا کر فکرو آگہی کے زاویے عطا کیے۔ اس دور میں رثائیت پر اتنا زور نہیں ہے جتنا زور پیغام حسین کی عظمت کی وضاحت پر ہے۔ اب مرثیہ رونے رلانے کی چیز نہیں رہا بلکہ قلب و نظر اور فکر و عمل کو حوصلہ و عزم بخشنے اور جہاد زندگانی میں کربلا کی عطا کردہ شمشیر سے کام لینے کا نام ہے۔