موجِ ادراک
0%
مؤلف: محسن نقوی
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 56
مؤلف: محسن نقوی
زمرہ جات:
مشاہدے: 29388
ڈاؤنلوڈ: 2334
تبصرے:
- اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار
- موجِ صبا ، خرام ترے لطفِ عام کا
- اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار
- عاشور کا ڈھل جانا ، صُغرا کا وہ مر جانا
- یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار
- یہ موسمِ خوشبو یہ گُہَر تابیِ شبنم
- یہ نکہتِ احساس کی مقروض ہوائیں
- "شیرازہ آئینِ قِدَم" کے سبھی اِعراب
- یہ پھُول یہ کلیاں یہ چَٹکے ہوئے غُنچے
- کُہسار کے جَھرنوں سے پھسلتی ہوئی کرنیں
- غم خانۂ ظلمت ، نہ کوئی بزمِ چراغاں
- ہنگامۂ شادی ، نہ کوئی مجلسِ ماتم
- اَفلاس کا احساس ، نہ پندارِ زَر و سیم
- مقتول کی فریاد ، نہ آوازۂ قاتل
- رہبر تھے ، نہ منزل تھی ، نہ رستے ، نہ مسافر
- ہر سمت مسلط تھے تحیّر کے طلِسمات
- جیسے کسی گھر میں صَفِ ماتم کی خموشی
- ہَولے سے سِرکنے لگے ہستی کے حجابات
- پلکیں سی جھپکنے لگی دوشیزۂ کونین
- ہر سمت بکھرنے لگیں وجدان کی کرنیں
- دامانِ بیاباں میں نہاں سینہ برفاب
- پھر حِدّتِ تخلیق کی شدت سے پگھل کر
- شانوں پہ اُٹھائے ہوئے بارِ کفِ سیلاب
- بے رنگ فضاؤں کے تحیر کی کَسک میں
- پھر چشمِ تحیر نے یہ سوچا کہ فضا میں
- تزئینِ مَہ و انجمِ افلاک کا باعث
- ہے کس کے لیے عَشوہ بلقیسِ تصوّر
- پھر ریشمِ انوار کا ملبوس پہن کر
- وہ پیکرِ تقدیس ، وہ سرمایہ تخلیق
- وہ منزلِ اربابِ نظر ، فکر کی تجسیم
- وہ شعلگیِ شمعِ حرم ، تابشِ خورشید
- وہ جس کا ثنا خواں دلِ فطرت کا تکلم
- اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے ؟
- چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
- گیسُو ہیں کہ "وَاللَّیل" کے بکھرے ہوئے سائے
- قَد ہے کہ نبوت کے خدوخال کا معیار
- باتیں ہیں کہ طُوبٰی کی چٹکتی ہوئی کلیاں
- یہ دانت ، یہ شیرازہ شبنم کے تراشے
- یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
- یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
- یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل
- یہ دوشِ پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
- ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
- رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
- وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
- وہ علم کہ قرآں تِری عترت کا قصیدہ
- "اورنگِ سلیمان" تری نعلین کا خاکہ
- سَرچشمۂ کوثر ترے سینے کا پسینہ
- دنیا کے سلاطیں ترے جارُوب کشوں میں
- دھرتی کے ذوِی العدل ، تِرے حاشیہ بردار
- ظاہر ہو تو ہر برگِ گُلِ تَر تِری خوشبو
- احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج
- حیدر تری ہیبت ہے تو حَسنین ترا حُسن
- کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیے مولا ؟
- پیدا تری خاطر ہوئے اطرافِ دو عالم
- ہر پھول کی خوشبو تِرے دامن سے ہے منسوب
- دِن تیری صباحت ہے ، تو شب تیری علامت
- کہسار کے جھرنے ترے ماتھے کی شعاعیں
- ہر شہر کی رونق ترے رستے کی جمی دھول
- میداں ترے بُو ذر کی حکومت کے مضافات
- کیا ذہن میں آئے کہ تو اُترا تھا کہاں سے ؟
- سوچیں تو خدائی تِری مرہونِ تصوّر
- کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا
- کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو
- کہنے کو تو امی تھا لقب دہر میں تیرا
- کہنے کو تو فاقوں پہ بھی گزریں تری راتیں
- کہنے کو تِرے سر پہ ہے دستارِ یتیمی
- کہنے کو تو ہجرت بھی گوارا تجھے لیکن
- کہنے کو تو ایک "غارِ حرا" میں تیری مَسند
- اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم
- نسلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار
- اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق
- اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز
- اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف
- اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم
- اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور
- اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے !
- تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا
- بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی
- تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا
- تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا
- تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو
- تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا
- تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے
- تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند
- تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خِرد سے
- اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک
- صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھُوپ
- اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں
- ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش
- احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں