موجِ ادراک

موجِ ادراک0%

موجِ ادراک مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 56

موجِ ادراک

مؤلف: محسن نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 56
مشاہدے: 29241
ڈاؤنلوڈ: 2279

تبصرے:

موجِ ادراک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 56 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29241 / ڈاؤنلوڈ: 2279
سائز سائز سائز
موجِ ادراک

موجِ ادراک

مؤلف:
اردو

اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم

اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم

اے ہادی کُل ، خَتم رُسل ، رحمت پیہم

اے واقفِ معراجِ بشر ، وارثِ کونین

اے مقصدِ تخلیقِ زماں ، حُسنِ مُجسّم

***

نسلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار

نسلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار

انبوہِ ملائک کے لیے ظلِ الٰہی

پیغمبرِ فردوسِ بریں ، ساقی کوثر

اے منزلِ ادراک ، دِل و دیدہ پناہی

***

۴۱

اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق

اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق

اے حلقۂ ارواحِ مقدس کے پیمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

اے تاجوَرِ بزمِ شریعت ، مرے آقا !

اے عارفِ معراجِ بشر ، صاحبِ منبر !

***

اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز

اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز

اے صادق و سجاد و سخی ، صاحبِ اسرار

اے فکرِ جہاں زیب و جہاں گیر و جہاں تاب

اے فقرِ جہاں سوز و جہاں ساز و جہاں دار

***

۴۲

اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف

اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف

اے سرورِ کونین و سمیع یمِ اصوات

میزان اَنا ، مکتبِ پندارِ تیقُّن

اعزازِ خود مصدرِ صد رُشد و ہدایت

***

اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم

اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم

اے ناصر و منصور و نصیرِ دلِ انسان

اے شاہد و مشہود و شہیدِ رُخِ توحید

اے ناظر و منظور و نظیرِ لبِ یزداں

***

۴۳

اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور

اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور

اے بابِ مناجاتِ دلِ یونس و ادریس

اے نوح کی کشتی کے لیے ساحلِ تسکیں

اے قبلہ حاجاتِ سلیماں شہِ بلقیس

***

اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے !

اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے !

اے وارثِ کونین میں لَب کھول رہا ہوں

زخمی ہے زباں ، خامۂ دل خون میں تر ہے

شاعر ہوں مگر دیکھ ! مَیں سچ بول رہا ہوں

***

۴۴

تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا

تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا

لیکن میں ابھی خود سے شناسا بھی نہیں ہوں

تُو نے تو عطا کی تھی مجھے دولتِ عِرفاں

لیکن میں جہالت کے اندھیروں میں گھرا ہوں

***

بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی

بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی

لیکن میں تیرا لطف و کرم بھول چکا ہوں

بکھری ہے کچھ ایسے شبِ تیرہ کی سیاہی

میں شعلگیِ شمعِ حرم بھول چکا ہوں

***

۴۵

تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا

تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا

میں پھر بھی رہا قامتِ الحاد کا پابند

تُو نے تو مرے زخم کو شبنم کی زباں دی

میں پھر بھی تڑپتا ہی رہا صورتِ اَسپند

***

تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا

تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا

میں پھر بھی رہا معتقدِ تلخ کلامی

تُو نے تو مِرا داغِ جبیں دھو بھی دیا تھا

میں پھر بھی رہا صید و ثنا خوانِ غلامی

***

۴۶

تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو

تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو

میں پھر بھی رہا خاک کے ذروں کا پجاری

تُو نے تو ستارے بھی نچھاور کیے مجھ پر

میں پھر بھی رہا تیرگیِ شب کا شکاری

***

تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا

تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا

میں پھر بھی مَن و تُو کے مراحل میں رہا ہوں

تُو نے تو جدا کر کے دکھایا حق و باطل

میں پھر بھی تمیزِ حق و باطل میں رہا ہوں

***

۴۷

تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے

تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے

میں نے کئی خطوں میں اسے بانٹ دیا ہے

تُو نے جسے ٹھوکر کے بھی قابل نہیں سمجھا

میں نے اسی کنکر کو گُہر مان لیا ہے

***

تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند

تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند

اِنساں کے خیالوں میں کبھی آ نہیں سکتا

لیکن میں جہالت کے سبب صرف یہ سمجھا

وہ کیسا خدا ؟ جس کو بشر پا نہیں سکتا

***

۴۸

تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خِرد سے

تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خِرد سے

میں نے یہی چاہا اتر آئے وہ خِرد میں

تو نے تو کہا تھا "احد" ہے وہ ازل سے

میں نے اسے ڈھونڈا ہے سدا "حِس و عدد" میں

***

اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک

اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک

سایہ غمِ دوراں کا محیطِ دل و جاں ہے

ہر لمحہ اُداسی کے تصرف میں ہے احساس

تا حدِ نظر خوفِ مسلسل کا دھواں ہے

***

۴۹

صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھُوپ

صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھُوپ

کچھ لمسِ کفِ موجِ صبا تک نہیں ملتا

بے انت سرابوں میں کہاں جادۂ منزل ؟

اپنا ہی نشانِ کفِ پا تک نہیں ملتا

***

اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں

اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں

احساسِ بہاراں ، نہ غمِ فصلِ خزاں ہے

آندھی کی ہتھیلی پہ ہے جگنو کی طرح دل

شعلوں کے تصرف میں رگِ غُنچہ جاں ہے

***

۵۰

ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش

ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش

سینے میں ہر اک سانس بھی نیزے کی انی ہے

اب آنکھ کا آئینہ سنبھالوں میں کہاں تک

جو اَشک بھی بہتا ہے وہ ہیرے کی کنی ہے

***

احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں

احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں

اب موت بھٹکتی ہے صفِ چارہ گراں میں

سنسان ہے مقتل کی طرح شہرِ تصور

سہمی ہوئی رہتی ہے فغاں خیمۂ جاں میں

***

۵۱

فہرست

اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار ۴

موجِ صبا ، خرام ترے لطفِ عام کا ۵

اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار ۶

عاشور کا ڈھل جانا ، صُغرا کا وہ مر جانا ۷

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار ۸

یہ موسمِ خوشبو یہ گُہَر تابیِ شبنم ۸

یہ نکہتِ احساس کی مقروض ہوائیں ۹

"شیرازہ آئینِ قِدَم" کے سبھی اِعراب ۹

یہ پھُول یہ کلیاں یہ چَٹکے ہوئے غُنچے ۱۰

کُہسار کے جَھرنوں سے پھسلتی ہوئی کرنیں ۱۰

غم خانۂ ظلمت ، نہ کوئی بزمِ چراغاں ۱۱

ہنگامۂ شادی ، نہ کوئی مجلسِ ماتم ۱۱

اَفلاس کا احساس ، نہ پندارِ زَر و سیم ۱۲

مقتول کی فریاد ، نہ آوازۂ قاتل ۱۲

رہبر تھے ، نہ منزل تھی ، نہ رستے ، نہ مسافر ۱۳

ہر سمت مسلط تھے تحیّر کے طلِسمات ۱۳

جیسے کسی گھر میں صَفِ ماتم کی خموشی ۱۴

ہَولے سے سِرکنے لگے ہستی کے حجابات ۱۴

۵۲

پلکیں سی جھپکنے لگی دوشیزۂ کونین ۱۵

ہر سمت بکھرنے لگیں وجدان کی کرنیں ۱۵

دامانِ بیاباں میں نہاں سینہ برفاب ۱۶

پھر حِدّتِ تخلیق کی شدت سے پگھل کر ۱۶

شانوں پہ اُٹھائے ہوئے بارِ کفِ سیلاب ۱۷

بے رنگ فضاؤں کے تحیر کی کَسک میں ۱۷

پھر چشمِ تحیر نے یہ سوچا کہ فضا میں ۱۸

تزئینِ مَہ و انجمِ افلاک کا باعث ۱۸

ہے کس کے لیے عَشوہ بلقیسِ تصوّر ۱۹

پھر ریشمِ انوار کا ملبوس پہن کر ۱۹

وہ پیکرِ تقدیس ، وہ سرمایہ تخلیق ۲۰

وہ منزلِ اربابِ نظر ، فکر کی تجسیم ۲۰

وہ شعلگیِ شمعِ حرم ، تابشِ خورشید ۲۱

وہ جس کا ثنا خواں دلِ فطرت کا تکلم ۲۲

اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے ؟ ۲۲

چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ ۲۳

گیسُو ہیں کہ "وَاللَّیل" کے بکھرے ہوئے سائے ۲۳

قَد ہے کہ نبوت کے خدوخال کا معیار ۲۴

باتیں ہیں کہ طُوبٰی کی چٹکتی ہوئی کلیاں ۲۴

یہ دانت ، یہ شیرازہ شبنم کے تراشے ۲۵

۵۳

یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے ۲۵

یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق ۲۶

یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل ۲۶

یہ دوشِ پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے ۲۷

ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے ۲۷

رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور ۲۸

وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں ۲۸

وہ علم کہ قرآں تِری عترت کا قصیدہ ۲۹

"اورنگِ سلیمان" تری نعلین کا خاکہ ۲۹

سَرچشمۂ کوثر ترے سینے کا پسینہ ۳۰

دنیا کے سلاطیں ترے جارُوب کشوں میں ۳۰

دھرتی کے ذوِی العدل ، تِرے حاشیہ بردار ۳۱

ظاہر ہو تو ہر برگِ گُلِ تَر تِری خوشبو ۳۱

احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج ۳۲

حیدر تری ہیبت ہے تو حَسنین ترا حُسن ۳۲

کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیے مولا ؟ ۳۳

پیدا تری خاطر ہوئے اطرافِ دو عالم ۳۳

ہر پھول کی خوشبو تِرے دامن سے ہے منسوب ۳۴

دِن تیری صباحت ہے ، تو شب تیری علامت ۳۴

کہسار کے جھرنے ترے ماتھے کی شعاعیں ۳۵

۵۴

ہر شہر کی رونق ترے رستے کی جمی دھول ۳۵

میداں ترے بُو ذر کی حکومت کے مضافات ۳۶

کیا ذہن میں آئے کہ تو اُترا تھا کہاں سے ؟ ۳۶

سوچیں تو خدائی تِری مرہونِ تصوّر ۳۷

کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا ۳۷

کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو ۳۸

کہنے کو تو امی تھا لقب دہر میں تیرا ۳۸

کہنے کو تو فاقوں پہ بھی گزریں تری راتیں ۳۹

کہنے کو تِرے سر پہ ہے دستارِ یتیمی ۳۹

کہنے کو تو ہجرت بھی گوارا تجھے لیکن ۴۰

کہنے کو تو ایک "غارِ حرا" میں تیری مَسند ۴۰

اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم ۴۱

نسلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار ۴۱

اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق ۴۲

اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز ۴۲

اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف ۴۳

اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم ۴۳

اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور ۴۴

اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے ! ۴۴

تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا ۴۵

۵۵

بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی ۴۵

تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا ۴۶

تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا ۴۶

تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو ۴۷

تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا ۴۷

تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے ۴۸

تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند ۴۸

تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خِرد سے ۴۹

اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک ۴۹

صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھُوپ ۵۰

اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں ۵۰

ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش ۵۱

احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں ۵۱

۵۶