ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 11%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108325 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خلوت

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ ، آئنۂ دل ہے مکدر

*

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

*

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

*

خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ، و لیکن

خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

***

عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

*

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

*

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

***

۸۱

آزادیِ نسواں

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند

*

کیا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

*

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردان خرد مند

*

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلو بند!

***

عورت کی حفاظت

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

*

نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

*

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

***

۸۲

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

۸۳

دین و ہنر

سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر

گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

*

ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی

بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ

*

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ

*

ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی

خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

***

۸۴

تخلیق

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

*

خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اس آبجو سے کیے بحر بے کراں پیدا

*

وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے

جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا

*

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

*

ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے

عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا

***

۸۵

جنوں

زجاج گر کی دکاں شاعری و ملائی

ستم ہے ، خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ!

*

کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں

کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ

*

ہجوم مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو

کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ

***

اپنے شعر سے

ہے گلہ مجھ کو تری لذت پیدائی کا

تو ہوا فاش تو ہیں اب مرے اسرار بھی فاش

*

شعلے سے ٹوٹ کے مثل شرر آوارہ نہ رہ

کر کسی سینۂ پر سوز میں خلوت کی تلاش!

***

۸۶

پیرس کی مسجد

مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

*

حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

*

یہ بت کدہ انھی غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

***

ادبیات

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے

*

کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے

یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے

***

۸۷

نگاہ

بہار و قافلۂ لالہ ہائے صحرائی

شباب و مستی و ذوق و سرود و رعنائی!

*

اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی

یہ بحر ، یہ فلک نیلگوں کی پہنائی!

*

سفر عروس قمر کا عماری شب میں

طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی!

*

نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں

کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی

***

___________________

ریاض منزل(دولت کدۂ سرراس مسعود ) بھوپال میں لکھے گئے

۸۸

مسجد قوت الاسلام

ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی

'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود

*

چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو

کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود

*

کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے

کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود

*

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز

جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود

*

اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت ، وہ گداز

بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود

*

ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی ، نہ شکوہ

کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟

***

۸۹

تیاتر

تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود

حیات کیا ہے ، اسی کا سرور و سوز و ثبات

*

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

*

حریم تیرا ، خودی غیر کی ! معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

*

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی ، نہ ساز حیات

***

۹۰

شعاع امید

(۱)

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام

دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام

*

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام

*

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت

نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

*

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ

چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

(۲)

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں

بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش

*

اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن

افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

*

مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم

لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش

*

پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے

اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

***

۹۱

(۳)

اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور

آرام سے فارغ ، صفت جوہر سیماب

*

بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو

جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

*

چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو

جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب

*

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

*

چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن

یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزۂ درناب

*

اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی

جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب

*

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں

محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

*

۹۲

بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن

تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب

*

مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

***

۹۳

امید

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں

اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نے امیر جنود

*

مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور

عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود

*

جبین بندۂ حق میں نمود ہے جس کی

اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود

*

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں

کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود

*

غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی

نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود

***

___________________

ریاض منزل (دولت کدئہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۹۴

نگاہ شوق

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی

*

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی

*

اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند

ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی

*

اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری

اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

*

اسی نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں میرا

سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی

*

نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

***

۹۵

اہل ہنر سے

مہر و مہ و مشتری ، چند نفس کا فروغ

عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود

*

تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک

ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود

*

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر

تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود

*

روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار

تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود

*

اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو

تیری سپہ انس و جن ، تو ہے امیر جنود

***

۹۶

غزل

دریا میں موتی ، اے موج بے باک

ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک

*

میرے شرر میں بجلی کے جوہر

لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک

*

تیرا زمانہ ، تاثیر تیری

ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک

*

ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے

جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

*

کامل وہی ہے رندی کے فن میں

مستی ہے جس کی بے منت تاک

*

رکھتا ہے اب تک میخانۂ شرق

وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

*

اہل نظر ہیں یورپ سے نومید

ان امتوں کے باطن نہیں پاک

***

۹۷

وجود

اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود

کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود!

*

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!

*

مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند

بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود

***

سرود

آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرود مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے

*

دل کیا ہے ، اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے

کیوں اس کی اک نگاہ الٹتی ہے تخت کے

*

کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات

کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے

*

کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں

جچتی نہیں ہے سلطنت روم و شام و رے

*

جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

***

۹۸

نسیم و شبنم

نسیم

انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی

کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک

*

مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر

بے ذوق ہیں بلبل کی نوا ہائے طرب ناک

*

دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم

خاک چمن اچھی کہ سرا پردۂ افلاک!

***

شبنم

کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک

گلشن بھی ہے اک سر سرا پردۂ افلاک

اہرام مصر

اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں

فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

*

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک

کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر!

*

فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو

صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر

***

۹۹

مخلوقات ہنر

ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر

فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانۂ ذات

*

نہ خودی ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور

زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات

*

آہ ، وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم

عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات!

*

تو ہے میت ، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام

نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات!

***

اقبال

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی

مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش

*

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش!

***

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164