ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 0%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 164
مشاہدے: 98389
ڈاؤنلوڈ: 2263

تبصرے:

ضربِ کلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98389 / ڈاؤنلوڈ: 2263
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

فنون لطیفہ

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا

*

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

*

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا ، وہ گہر کیا

*

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

*

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!

***

۱۰۱

صبح چمن

پھول

شاید تو سمجھتی تھی وطن دور ہے میرا

اے قاصد افلاک! نہیں ، دور نہیں ہے

***

شبنم

ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن

یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے

***

صبح

مانند سحر صحن گلستاں میں قدم رکھ

آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے

*

ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش ، و لیکن

ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے!

***

۱۰۲

خاقانی

وہ صاحب 'تحفۃ العراقین،

ارباب نظر کا قرۃالعین

*

ہے پردہ شگاف اس کا ادراک

پردے ہیں تمام چاک در چاک

*

خاموش ہے عالم معانی

کہتا نہیں حرف 'لن ترانی'!

*

پوچھ اس سے یہ خاک داں ہے کیا چیز

ہنگامۂ این و آں ہے کیا چیز

*

وہ محرم عالم مکافات

اک بات میں کہہ گیا ہے سو بات

*

''خود بوے چنیں جہاں تواں برد

کابلیس بماند و بوالبشر مرد!''

***

۱۰۳

رومی

غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک

ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک

*

ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک

کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک

*

گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک

کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک!

***

جدت

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے

*

خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے

ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے

*

دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

*

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

***

۱۰۴

مرزا بیدل

ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد

یہ زمیں، یہ دشت ، یہ کہسار ، یہ چرخ کبود

*

کوئی کہتا ہے نہیں ہے ، کوئی کہتاہے کہ ہے

کیا خبر ، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!

*

میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ

اہل حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!

*

''دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن

رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود''

***

جلال و جمال

مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی

ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک

*

مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی

کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

*

نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر

نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

*

مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک!

***

۱۰۵

مصور

کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل

ہندی بھی فرنگی کا مقلد ، عجمی بھی !

*

مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد

کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی

*

معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات

صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی ، نئی بھی

*

فطرت کو دکھایا بھی ہے ، دیکھا بھی ہے تو نے

آئینۂ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی!

***

سرود حلال

کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل

نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود!

*

ہے ابھی سینۂ افلاک میں پنہاں وہ نوا

جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود

*

۱۰۶

جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک

اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود

*

مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے

تو رہے اور ترا زمزمۂ لا موجود

*

جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی

منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود!

***

سرود حرام

نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور

نہ میرا فکر ہے پیمانۂ ثواب و عذاب

*

خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے

فقیہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب

*

اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام

حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب!

***

۱۰۷

فوارہ

یہ آبجو کی روانی ، یہ ہمکناری خاک

مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ

*

ادھر نہ دیکھ ، ادھر دیکھ اے جوان عزیز

بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ

***

شاعر

مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے

شاعر ! ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے

*

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم

اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے

*

شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو

شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے

*

ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے

بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے

*

ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلۂشوق نہ ہو طے!

***

۱۰۸

شعر عجم

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز

اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز

*

افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں

بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

*

وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے

جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز

*

اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

'از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز'

***

ہنروران ہند

عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا

ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار

*

موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں

زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار

*

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند

کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار

*

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!

***

۱۰۹

مرد بزرگ

اس کی نفرت بھی عمیق ، اس کی محبت بھی عمیق

قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

*

پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں

ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

*

انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو

شمع محفل کی طرح سب سے جدا ، سب کا رفیق

*

مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں

بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق

*

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا

اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق

***

عالم نو

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر

خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر

*

اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے

کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

*

بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کف خاک

روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر

***

۱۱۰

ایجاد معانی

ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد

کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد!

*

خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر

میخانۂ حافظ ہو کہ بتخانۂ بہزاد

*

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شرر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد!

***

موسیقی

وہ نغمہ سردی خون غزل سرا کی دلیل

کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تاب ناک نہیں

*

نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود

وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

*

پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں

کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں

***

۱۱۱

ذوق نظر

خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی

کہا غریب نے جلاد سے دم تعزیر

*

ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر

ذرا میں دیکھ تو لوں تاب ناکی شمشیر!

***

شعر

میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن

یہ نکتہ ہے ، تاریخ امم جس کی ہے تفصیل

*

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے

یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل

***

رقص و موسیقی

شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن

*

فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن

شعر گویا روح موسیقی ہے ، رقص اس کا بدن

***

۱۱۲

ضبط

طریق اہل دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا

نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شان درویشی

*

یہ نکتہ پیر دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا

کہ ہے ضبط فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی!

***

رقص

چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے خم و پیچ

روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی!

*

صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن

صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی

***

۱۱۳

سیاسیاست مشرق و مغرب

اشتراکیت

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار

*

اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار

*

انساں کی ہوس نے جنھیں رکھا تھا چھپا کر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

*

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

*

جو حرف 'قل العفو' میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

***

۱۱۴

کارل مارکس کی آواز

یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمائش

نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

*

تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمائش

*

جہان مغرب کے بت کدوں میں ، کلیسیاؤں میں ، مدرسوں میں

ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش

***

۱۱۵

انقلاب

نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات

خودی کی موت ہے یہ ، اور وہ ضمیر کی موت

*

دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا

قریب آگئی شاید جہان پیر کی موت!

***

خوشامد

میں کار جہاں سے نہیں آگاہ ، ولیکن

ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز

*

کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد

دستور نیا ، اور نئے دور کا آغاز

*

معلوم نہیں ، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت

کہہ دے کوئی الو کو اگر 'رات کا شہباز

***

۱۱۶

مناصب

ہوا ہے بندۂ مومن فسونی افرنگ

اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک

*

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب

کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک

*

مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی

سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعت چالاک

*

شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک!

***

یورپ اور یہود

یہ عیش فراواں ، یہ حکومت ، یہ تجارت

دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی

*

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے

یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی

*

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ

شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی!

***

۱۱۷

نفسیات غلامی

شاعر بھی ہیں پیدا ، علما بھی ، حکما بھی

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

*

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک

ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ

*

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ،

*

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

***

غلاموں کے لیے

حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے

ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر

*

دین ہو ، فلسفہ ہو ، فقر ہو ، سلطانی ہو

ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر

*

حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں

ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!

***

۱۱۸

اہل مصر سے

خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو

وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم

*

دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم

ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم

*

ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی

کبھی شمشیر محمد ہے ، کبھی چوب کلیم!

***

ابی سینیا

(۱۸اگست۱۹۳۵)

یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر

ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش

*

ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش!

تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال

*

غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش

ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش!

*

اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ

روما نے کر دیا سر بازار پاش پاش

*

پیر کلیسیا ! یہ حقیقت ہے دلخراش!

***

۱۱۹

جمعیت اقوام مشرق

پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر

کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے

*

دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب

ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

*

طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

***

____________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۰