ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 22%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108143 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

فنون لطیفہ

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا

*

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

*

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا ، وہ گہر کیا

*

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

*

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!

***

۱۰۱

صبح چمن

پھول

شاید تو سمجھتی تھی وطن دور ہے میرا

اے قاصد افلاک! نہیں ، دور نہیں ہے

***

شبنم

ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن

یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے

***

صبح

مانند سحر صحن گلستاں میں قدم رکھ

آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے

*

ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش ، و لیکن

ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے!

***

۱۰۲

خاقانی

وہ صاحب 'تحفۃ العراقین،

ارباب نظر کا قرۃالعین

*

ہے پردہ شگاف اس کا ادراک

پردے ہیں تمام چاک در چاک

*

خاموش ہے عالم معانی

کہتا نہیں حرف 'لن ترانی'!

*

پوچھ اس سے یہ خاک داں ہے کیا چیز

ہنگامۂ این و آں ہے کیا چیز

*

وہ محرم عالم مکافات

اک بات میں کہہ گیا ہے سو بات

*

''خود بوے چنیں جہاں تواں برد

کابلیس بماند و بوالبشر مرد!''

***

۱۰۳

رومی

غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک

ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک

*

ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک

کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک

*

گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک

کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک!

***

جدت

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے

*

خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے

ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے

*

دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

*

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

***

۱۰۴

مرزا بیدل

ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد

یہ زمیں، یہ دشت ، یہ کہسار ، یہ چرخ کبود

*

کوئی کہتا ہے نہیں ہے ، کوئی کہتاہے کہ ہے

کیا خبر ، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!

*

میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ

اہل حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!

*

''دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن

رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود''

***

جلال و جمال

مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی

ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک

*

مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی

کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

*

نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر

نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

*

مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک!

***

۱۰۵

مصور

کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل

ہندی بھی فرنگی کا مقلد ، عجمی بھی !

*

مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد

کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی

*

معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات

صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی ، نئی بھی

*

فطرت کو دکھایا بھی ہے ، دیکھا بھی ہے تو نے

آئینۂ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی!

***

سرود حلال

کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل

نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود!

*

ہے ابھی سینۂ افلاک میں پنہاں وہ نوا

جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود

*

۱۰۶

جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک

اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود

*

مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے

تو رہے اور ترا زمزمۂ لا موجود

*

جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی

منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود!

***

سرود حرام

نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور

نہ میرا فکر ہے پیمانۂ ثواب و عذاب

*

خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے

فقیہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب

*

اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام

حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب!

***

۱۰۷

فوارہ

یہ آبجو کی روانی ، یہ ہمکناری خاک

مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ

*

ادھر نہ دیکھ ، ادھر دیکھ اے جوان عزیز

بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ

***

شاعر

مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے

شاعر ! ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے

*

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم

اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے

*

شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو

شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے

*

ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے

بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے

*

ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلۂشوق نہ ہو طے!

***

۱۰۸

شعر عجم

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز

اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز

*

افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں

بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

*

وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے

جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز

*

اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

'از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز'

***

ہنروران ہند

عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا

ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار

*

موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں

زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار

*

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند

کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار

*

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!

***

۱۰۹

مرد بزرگ

اس کی نفرت بھی عمیق ، اس کی محبت بھی عمیق

قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

*

پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں

ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

*

انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو

شمع محفل کی طرح سب سے جدا ، سب کا رفیق

*

مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں

بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق

*

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا

اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق

***

عالم نو

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر

خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر

*

اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے

کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

*

بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کف خاک

روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر

***

۱۱۰

ایجاد معانی

ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد

کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد!

*

خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر

میخانۂ حافظ ہو کہ بتخانۂ بہزاد

*

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شرر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد!

***

موسیقی

وہ نغمہ سردی خون غزل سرا کی دلیل

کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تاب ناک نہیں

*

نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود

وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

*

پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں

کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں

***

۱۱۱

ذوق نظر

خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی

کہا غریب نے جلاد سے دم تعزیر

*

ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر

ذرا میں دیکھ تو لوں تاب ناکی شمشیر!

***

شعر

میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن

یہ نکتہ ہے ، تاریخ امم جس کی ہے تفصیل

*

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے

یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل

***

رقص و موسیقی

شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن

*

فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن

شعر گویا روح موسیقی ہے ، رقص اس کا بدن

***

۱۱۲

ضبط

طریق اہل دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا

نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شان درویشی

*

یہ نکتہ پیر دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا

کہ ہے ضبط فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی!

***

رقص

چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے خم و پیچ

روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی!

*

صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن

صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی

***

۱۱۳

سیاسیاست مشرق و مغرب

اشتراکیت

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار

*

اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار

*

انساں کی ہوس نے جنھیں رکھا تھا چھپا کر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

*

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

*

جو حرف 'قل العفو' میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

***

۱۱۴

کارل مارکس کی آواز

یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمائش

نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

*

تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمائش

*

جہان مغرب کے بت کدوں میں ، کلیسیاؤں میں ، مدرسوں میں

ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش

***

۱۱۵

انقلاب

نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات

خودی کی موت ہے یہ ، اور وہ ضمیر کی موت

*

دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا

قریب آگئی شاید جہان پیر کی موت!

***

خوشامد

میں کار جہاں سے نہیں آگاہ ، ولیکن

ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز

*

کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد

دستور نیا ، اور نئے دور کا آغاز

*

معلوم نہیں ، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت

کہہ دے کوئی الو کو اگر 'رات کا شہباز

***

۱۱۶

مناصب

ہوا ہے بندۂ مومن فسونی افرنگ

اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک

*

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب

کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک

*

مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی

سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعت چالاک

*

شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک!

***

یورپ اور یہود

یہ عیش فراواں ، یہ حکومت ، یہ تجارت

دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی

*

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے

یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی

*

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ

شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی!

***

۱۱۷

نفسیات غلامی

شاعر بھی ہیں پیدا ، علما بھی ، حکما بھی

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

*

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک

ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ

*

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ،

*

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

***

غلاموں کے لیے

حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے

ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر

*

دین ہو ، فلسفہ ہو ، فقر ہو ، سلطانی ہو

ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر

*

حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں

ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!

***

۱۱۸

اہل مصر سے

خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو

وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم

*

دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم

ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم

*

ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی

کبھی شمشیر محمد ہے ، کبھی چوب کلیم!

***

ابی سینیا

(۱۸اگست۱۹۳۵)

یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر

ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش

*

ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش!

تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال

*

غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش

ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش!

*

اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ

روما نے کر دیا سر بازار پاش پاش

*

پیر کلیسیا ! یہ حقیقت ہے دلخراش!

***

۱۱۹

جمعیت اقوام مشرق

پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر

کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے

*

دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب

ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

*

طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

***

____________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۰

سلطانی جاوید

غواص تو فطرت نے بنایا ہے مجھے بھی

لیکن مجھے اعماق سیاست سے ہے پرہیز

*

فطرت کو گوارا نہیں سلطانی جاوید

ہر چند کہ یہ شعبدہ بازی ہے دل آویز

*

فرہاد کی خارا شکنی زندہ ہے اب تک

باقی نہیں دنیا میں ملوکیت پرویز

***

جمہوریت

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

*

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

***

__________________

استاں دال

۱۲۱

یورپ اور سوریا

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا

نبی عفت و غم خواری و کم آزاری

*

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری

***

مسولینی

(اپنےمشرقی.اورمغربی.حریفوں.سے)

کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم!

بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج

*

میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں

ہیں سبھی تہذیب کے اوزار ! تو چھلنی ، میں چھاج

*

میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم

تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟

*

یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں

راجدھانی ہے ، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

*

۱۲۲

آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے

اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!

*

تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام

تم نے لوٹی کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج

*

پردۂ تہذیب میں غارت گری ، آدم کشی

کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج

***

___________________

ــ ۲۲ اگست ۱۹۳۵ ء کو بھوپال (شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۳

گلہ

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک

بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے

*

دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے

*

جاں بھی گرو غیر ، بدن بھی گرو غیر

افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے

*

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

***

۱۲۴

انتداب

کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے

نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری

*

جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں

جہاں حرام بتاتے ہیں شغل مے خواری

*

بدن میں گرچہ ہے اک روح ناشکیب و عمیق

طریقۂ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری

*

جسور و زیرک و پردم ہے بچۂ بدوی

نہیں ہے فیض مکاتب کا چشمۂ جاری

*

نظروران فرنگی کا ہے یہی فتوی

وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری

***

۱۲۵

لادین سیاست

جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر

*

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں

کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر

*

ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر

*

متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی

تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر

***

دام تہذیب

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار

*

یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

*

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

*

ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

***

۱۲۶

نصیحت

اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

*

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم

برے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر

*

سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

*

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

*

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

***

۱۲۷

ایک بحری قزاق اور سکندر

سکندر

صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری

کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی

***

قزاق

سکندر ! حیف ، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے

گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟

*

ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی

کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی

***

جمعیت اقوام

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

*

تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن

پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

*

ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک افرنگ

ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

***

۱۲۸

شام و فلسطین

رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت

پر ہے مۓ گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا

*

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

*

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

***

سیاسی پیشوا

امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے

یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند

*

ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی

جہاں میں صفت عنکبوت ان کی کمند

*

خوشا وہ قافلہ ، جس کے امیر کی ہے متاع

تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند

***

۱۲۹

نفسیات غلامی

سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب

کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی

*

دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ روباہی

*

ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی

***

۱۳۰

نفسیات غلامی

(ترکی.وفدہلال.احمرلاہورمیں)

کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز

طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام

*

وہ سادہ مرد مجاہد ، وہ مومن آزاد

خبر نہ تھی اسے کیا چیز ہے نماز غلام

*

ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں

انھی کے ذوق عمل سے ہیں امتوں کے نظام

*

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم

کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام

*

طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے

ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام

*

خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو

وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام

***

۱۳۱

فلسطینی عرب سے

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

*

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

*

سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

***

مشرق و مغرب

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

*

نہ مشرق اس سے بری ہے ، نہ مغرب اس سے بری

جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

***

۱۳۲

نفسیات حاکمی

(اصلاحات)

یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ

آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری

*

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں

شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری

***

۱۳۳

محراب.گل.افغان.کے.افکار

(۱)

میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

*

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ

لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک

*

تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں

خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک

*

باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام

حفظ بدن کے لیے روح کو کر دوں ہلاک!

*

اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا

خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!

(۲)

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام

نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو

*

خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو

کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

*

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'

***

۱۳۴

(۳)

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

*

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

*

وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی

طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

*

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

***

۱۳۵

(۴)

کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ

سب راہرو ہیں واماندۂ راہ

*

کڑکا سکندر بجلی کی مانند

تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ

*

نادر نے لوٹی دلی کی دولت

اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ

*

افغان باقی ، کہسار باقی

الحکم للہ ! الملک للہ !

*

حاجت سے مجبور مردان آزاد

کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ

*

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر

تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!

*

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش

جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

***

۱۳۶

(۵)

یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارو

اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو

*

وہ علم نہیں ، زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

*

ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے

اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو

*

فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند

شام اس کی ہے مانند سحر صاحب پرتو

*

وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے

ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو!

***

۱۳۷

(۶)

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد

ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

*

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

*

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!

ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ

*

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید

مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

***

۱۳۸

(۷)

رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان

تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا

جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

*

۱۳۹

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

***

(۸)

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر

شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر

*

لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت

ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

*

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام

روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!

***

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164