ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 11%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108151 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

سلطانی جاوید

غواص تو فطرت نے بنایا ہے مجھے بھی

لیکن مجھے اعماق سیاست سے ہے پرہیز

*

فطرت کو گوارا نہیں سلطانی جاوید

ہر چند کہ یہ شعبدہ بازی ہے دل آویز

*

فرہاد کی خارا شکنی زندہ ہے اب تک

باقی نہیں دنیا میں ملوکیت پرویز

***

جمہوریت

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

*

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

***

__________________

استاں دال

۱۲۱

یورپ اور سوریا

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا

نبی عفت و غم خواری و کم آزاری

*

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری

***

مسولینی

(اپنےمشرقی.اورمغربی.حریفوں.سے)

کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم!

بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج

*

میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں

ہیں سبھی تہذیب کے اوزار ! تو چھلنی ، میں چھاج

*

میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم

تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟

*

یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں

راجدھانی ہے ، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

*

۱۲۲

آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے

اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!

*

تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام

تم نے لوٹی کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج

*

پردۂ تہذیب میں غارت گری ، آدم کشی

کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج

***

___________________

ــ ۲۲ اگست ۱۹۳۵ ء کو بھوپال (شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۳

گلہ

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک

بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے

*

دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے

*

جاں بھی گرو غیر ، بدن بھی گرو غیر

افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے

*

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

***

۱۲۴

انتداب

کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے

نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری

*

جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں

جہاں حرام بتاتے ہیں شغل مے خواری

*

بدن میں گرچہ ہے اک روح ناشکیب و عمیق

طریقۂ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری

*

جسور و زیرک و پردم ہے بچۂ بدوی

نہیں ہے فیض مکاتب کا چشمۂ جاری

*

نظروران فرنگی کا ہے یہی فتوی

وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری

***

۱۲۵

لادین سیاست

جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر

*

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں

کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر

*

ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر

*

متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی

تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر

***

دام تہذیب

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار

*

یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

*

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

*

ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

***

۱۲۶

نصیحت

اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

*

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم

برے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر

*

سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

*

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

*

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

***

۱۲۷

ایک بحری قزاق اور سکندر

سکندر

صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری

کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی

***

قزاق

سکندر ! حیف ، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے

گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟

*

ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی

کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی

***

جمعیت اقوام

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

*

تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن

پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

*

ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک افرنگ

ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

***

۱۲۸

شام و فلسطین

رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت

پر ہے مۓ گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا

*

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

*

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

***

سیاسی پیشوا

امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے

یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند

*

ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی

جہاں میں صفت عنکبوت ان کی کمند

*

خوشا وہ قافلہ ، جس کے امیر کی ہے متاع

تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند

***

۱۲۹

نفسیات غلامی

سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب

کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی

*

دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ روباہی

*

ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی

***

۱۳۰

نفسیات غلامی

(ترکی.وفدہلال.احمرلاہورمیں)

کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز

طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام

*

وہ سادہ مرد مجاہد ، وہ مومن آزاد

خبر نہ تھی اسے کیا چیز ہے نماز غلام

*

ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں

انھی کے ذوق عمل سے ہیں امتوں کے نظام

*

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم

کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام

*

طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے

ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام

*

خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو

وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام

***

۱۳۱

فلسطینی عرب سے

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

*

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

*

سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

***

مشرق و مغرب

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

*

نہ مشرق اس سے بری ہے ، نہ مغرب اس سے بری

جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

***

۱۳۲

نفسیات حاکمی

(اصلاحات)

یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ

آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری

*

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں

شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری

***

۱۳۳

محراب.گل.افغان.کے.افکار

(۱)

میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

*

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ

لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک

*

تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں

خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک

*

باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام

حفظ بدن کے لیے روح کو کر دوں ہلاک!

*

اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا

خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!

(۲)

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام

نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو

*

خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو

کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

*

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'

***

۱۳۴

(۳)

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

*

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

*

وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی

طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

*

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

***

۱۳۵

(۴)

کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ

سب راہرو ہیں واماندۂ راہ

*

کڑکا سکندر بجلی کی مانند

تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ

*

نادر نے لوٹی دلی کی دولت

اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ

*

افغان باقی ، کہسار باقی

الحکم للہ ! الملک للہ !

*

حاجت سے مجبور مردان آزاد

کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ

*

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر

تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!

*

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش

جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

***

۱۳۶

(۵)

یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارو

اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو

*

وہ علم نہیں ، زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

*

ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے

اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو

*

فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند

شام اس کی ہے مانند سحر صاحب پرتو

*

وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے

ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو!

***

۱۳۷

(۶)

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد

ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

*

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

*

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!

ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ

*

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید

مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

***

۱۳۸

(۷)

رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان

تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا

جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

*

۱۳۹

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

***

(۸)

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر

شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر

*

لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت

ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

*

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام

روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!

***

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164