ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 0%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 164
مشاہدے: 98437
ڈاؤنلوڈ: 2263

تبصرے:

ضربِ کلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98437 / ڈاؤنلوڈ: 2263
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

سلطانی جاوید

غواص تو فطرت نے بنایا ہے مجھے بھی

لیکن مجھے اعماق سیاست سے ہے پرہیز

*

فطرت کو گوارا نہیں سلطانی جاوید

ہر چند کہ یہ شعبدہ بازی ہے دل آویز

*

فرہاد کی خارا شکنی زندہ ہے اب تک

باقی نہیں دنیا میں ملوکیت پرویز

***

جمہوریت

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

*

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

***

__________________

استاں دال

۱۲۱

یورپ اور سوریا

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا

نبی عفت و غم خواری و کم آزاری

*

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری

***

مسولینی

(اپنےمشرقی.اورمغربی.حریفوں.سے)

کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم!

بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج

*

میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں

ہیں سبھی تہذیب کے اوزار ! تو چھلنی ، میں چھاج

*

میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم

تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟

*

یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں

راجدھانی ہے ، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

*

۱۲۲

آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے

اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!

*

تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام

تم نے لوٹی کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج

*

پردۂ تہذیب میں غارت گری ، آدم کشی

کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج

***

___________________

ــ ۲۲ اگست ۱۹۳۵ ء کو بھوپال (شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۳

گلہ

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک

بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے

*

دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے

*

جاں بھی گرو غیر ، بدن بھی گرو غیر

افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے

*

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

***

۱۲۴

انتداب

کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے

نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری

*

جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں

جہاں حرام بتاتے ہیں شغل مے خواری

*

بدن میں گرچہ ہے اک روح ناشکیب و عمیق

طریقۂ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری

*

جسور و زیرک و پردم ہے بچۂ بدوی

نہیں ہے فیض مکاتب کا چشمۂ جاری

*

نظروران فرنگی کا ہے یہی فتوی

وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری

***

۱۲۵

لادین سیاست

جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر

*

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں

کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر

*

ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر

*

متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی

تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر

***

دام تہذیب

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار

*

یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

*

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

*

ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

***

۱۲۶

نصیحت

اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

*

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم

برے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر

*

سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

*

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

*

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

***

۱۲۷

ایک بحری قزاق اور سکندر

سکندر

صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری

کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی

***

قزاق

سکندر ! حیف ، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے

گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟

*

ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی

کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی

***

جمعیت اقوام

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

*

تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن

پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

*

ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک افرنگ

ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

***

۱۲۸

شام و فلسطین

رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت

پر ہے مۓ گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا

*

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

*

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

***

سیاسی پیشوا

امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے

یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند

*

ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی

جہاں میں صفت عنکبوت ان کی کمند

*

خوشا وہ قافلہ ، جس کے امیر کی ہے متاع

تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند

***

۱۲۹

نفسیات غلامی

سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب

کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی

*

دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ روباہی

*

ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی

***

۱۳۰

نفسیات غلامی

(ترکی.وفدہلال.احمرلاہورمیں)

کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز

طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام

*

وہ سادہ مرد مجاہد ، وہ مومن آزاد

خبر نہ تھی اسے کیا چیز ہے نماز غلام

*

ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں

انھی کے ذوق عمل سے ہیں امتوں کے نظام

*

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم

کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام

*

طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے

ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام

*

خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو

وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام

***

۱۳۱

فلسطینی عرب سے

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

*

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

*

سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

***

مشرق و مغرب

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

*

نہ مشرق اس سے بری ہے ، نہ مغرب اس سے بری

جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

***

۱۳۲

نفسیات حاکمی

(اصلاحات)

یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ

آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری

*

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں

شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری

***

۱۳۳

محراب.گل.افغان.کے.افکار

(۱)

میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

*

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ

لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک

*

تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں

خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک

*

باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام

حفظ بدن کے لیے روح کو کر دوں ہلاک!

*

اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا

خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!

(۲)

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام

نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو

*

خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو

کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

*

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'

***

۱۳۴

(۳)

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

*

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

*

وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی

طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

*

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

***

۱۳۵

(۴)

کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ

سب راہرو ہیں واماندۂ راہ

*

کڑکا سکندر بجلی کی مانند

تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ

*

نادر نے لوٹی دلی کی دولت

اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ

*

افغان باقی ، کہسار باقی

الحکم للہ ! الملک للہ !

*

حاجت سے مجبور مردان آزاد

کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ

*

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر

تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!

*

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش

جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

***

۱۳۶

(۵)

یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارو

اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو

*

وہ علم نہیں ، زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

*

ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے

اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو

*

فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند

شام اس کی ہے مانند سحر صاحب پرتو

*

وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے

ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو!

***

۱۳۷

(۶)

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد

ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

*

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

*

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!

ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ

*

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید

مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

***

۱۳۸

(۷)

رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان

تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا

جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

*

۱۳۹

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

***

(۸)

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر

شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر

*

لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت

ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

*

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام

روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!

***

۱۴۰