ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 22%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108339 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

سلطانی جاوید

غواص تو فطرت نے بنایا ہے مجھے بھی

لیکن مجھے اعماق سیاست سے ہے پرہیز

*

فطرت کو گوارا نہیں سلطانی جاوید

ہر چند کہ یہ شعبدہ بازی ہے دل آویز

*

فرہاد کی خارا شکنی زندہ ہے اب تک

باقی نہیں دنیا میں ملوکیت پرویز

***

جمہوریت

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

*

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

***

__________________

استاں دال

۱۲۱

یورپ اور سوریا

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا

نبی عفت و غم خواری و کم آزاری

*

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری

***

مسولینی

(اپنےمشرقی.اورمغربی.حریفوں.سے)

کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم!

بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج

*

میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں

ہیں سبھی تہذیب کے اوزار ! تو چھلنی ، میں چھاج

*

میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم

تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟

*

یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں

راجدھانی ہے ، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

*

۱۲۲

آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے

اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!

*

تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام

تم نے لوٹی کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج

*

پردۂ تہذیب میں غارت گری ، آدم کشی

کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج

***

___________________

ــ ۲۲ اگست ۱۹۳۵ ء کو بھوپال (شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۳

گلہ

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک

بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے

*

دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے

*

جاں بھی گرو غیر ، بدن بھی گرو غیر

افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے

*

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

***

۱۲۴

انتداب

کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے

نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری

*

جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں

جہاں حرام بتاتے ہیں شغل مے خواری

*

بدن میں گرچہ ہے اک روح ناشکیب و عمیق

طریقۂ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری

*

جسور و زیرک و پردم ہے بچۂ بدوی

نہیں ہے فیض مکاتب کا چشمۂ جاری

*

نظروران فرنگی کا ہے یہی فتوی

وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری

***

۱۲۵

لادین سیاست

جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر

*

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں

کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر

*

ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر

*

متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی

تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر

***

دام تہذیب

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار

*

یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

*

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

*

ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

***

۱۲۶

نصیحت

اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

*

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم

برے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر

*

سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

*

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

*

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

***

۱۲۷

ایک بحری قزاق اور سکندر

سکندر

صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری

کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی

***

قزاق

سکندر ! حیف ، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے

گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟

*

ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی

کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی

***

جمعیت اقوام

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

*

تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن

پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

*

ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک افرنگ

ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

***

۱۲۸

شام و فلسطین

رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت

پر ہے مۓ گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا

*

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

*

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

***

سیاسی پیشوا

امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے

یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند

*

ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی

جہاں میں صفت عنکبوت ان کی کمند

*

خوشا وہ قافلہ ، جس کے امیر کی ہے متاع

تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند

***

۱۲۹

نفسیات غلامی

سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب

کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی

*

دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ روباہی

*

ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی

***

۱۳۰

نفسیات غلامی

(ترکی.وفدہلال.احمرلاہورمیں)

کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز

طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام

*

وہ سادہ مرد مجاہد ، وہ مومن آزاد

خبر نہ تھی اسے کیا چیز ہے نماز غلام

*

ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں

انھی کے ذوق عمل سے ہیں امتوں کے نظام

*

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم

کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام

*

طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے

ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام

*

خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو

وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام

***

۱۳۱

فلسطینی عرب سے

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

*

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

*

سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

***

مشرق و مغرب

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

*

نہ مشرق اس سے بری ہے ، نہ مغرب اس سے بری

جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

***

۱۳۲

نفسیات حاکمی

(اصلاحات)

یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ

آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری

*

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں

شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری

***

۱۳۳

محراب.گل.افغان.کے.افکار

(۱)

میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

*

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ

لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک

*

تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں

خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک

*

باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام

حفظ بدن کے لیے روح کو کر دوں ہلاک!

*

اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا

خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!

(۲)

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام

نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو

*

خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو

کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

*

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'

***

۱۳۴

(۳)

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

*

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

*

وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی

طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

*

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

***

۱۳۵

(۴)

کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ

سب راہرو ہیں واماندۂ راہ

*

کڑکا سکندر بجلی کی مانند

تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ

*

نادر نے لوٹی دلی کی دولت

اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ

*

افغان باقی ، کہسار باقی

الحکم للہ ! الملک للہ !

*

حاجت سے مجبور مردان آزاد

کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ

*

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر

تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!

*

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش

جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

***

۱۳۶

(۵)

یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارو

اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو

*

وہ علم نہیں ، زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

*

ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے

اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو

*

فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند

شام اس کی ہے مانند سحر صاحب پرتو

*

وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے

ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو!

***

۱۳۷

(۶)

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد

ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

*

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

*

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!

ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ

*

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید

مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

***

۱۳۸

(۷)

رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان

تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا

جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

*

۱۳۹

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

*

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

*

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

***

(۸)

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر

شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر

*

لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت

ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

*

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام

روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!

***

۱۴۰

(۹)

عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس

پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس

*

یوں بھی دستور گلستاں کو بدل سکتے ہیں

کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثل قفس

*

سفر آمادہ نہیں منتظر بانگ رحیل

ہے کہاں قافلۂ موج کو پروائے جرس!

*

گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے

مردہ ہے ، مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس

*

پرورش دل کی اگر مد نظر ہے تجھ کو

مرد مومن کی نگاہ غلط انداز ہے بس!

***

۱۴۱

(۱۰)

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری

*

اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر

اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری

*

عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز

کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری

*

خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی

کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری

*

نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو

یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری

***

۱۴۲

(۱۱)

جس کے پرتو سے منور رہی تیری شب دوش

پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغ خاموش

*

مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ

بندۂ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش

*

نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں

جو ہوا نالۂ مرغان سحر سے مدہوش

*

مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری

اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش!

***

۱۴۳

(۱۲)

لا دینی و لاطینی ، کس پیچ میں الجھا تو

دارو ہے ضعیفوں کا 'لاغالب الا ھو'

*

صیاد معانی کو یورپ سے ہے نومیدی

دلکش ہے فضا ، لیکن بے نافہ تمام آہو

*

بے اشک سحر گاہی تقویم خودی مشکل

یہ لالۂ پیکانی خوشتر ہے کنار جو

*

صیاد ہے کافر کا ، نخچیر ہے مومن کا

یہ دیر کہن یعنی بتخانۂ رنگ و بو

*

اے شیخ ، امیروں کو مسجد سے نکلوا دے

ہے ان کی نمازوں سے محراب ترش ابرو

***

۱۴۴

(۱۳)

مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں

معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا

*

ہر سینے میں اک صبح قیامت ہے نمودار

افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا

*

کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی

اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا

*

ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے

اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!

***

۱۴۵

(۱۴)

بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی

بازو ہے قوی جس کا ، وہ عشق ید اللہی

*

جو سختی منزل کو سامان سفر سمجھے

اے وائے تن آسانی ! ناپید ہے وہ راہی

*

وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی!

کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی

*

دنیا ہے روایاتی ، عقبی ہے مناجاتی

در باز دو عالم را ، این است شہنشاہی!

***

۱۴۶

(۱۵)

آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاہد

مشکل نہیں اے سالک رہ ! علم فقیری

*

فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق

پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری

*

خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہر الہی

ہو صاحب غیرت تو ہے تمہید امیری

*

افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ

اے بندۂ مومن ! تو بشیری ، تو نذیری!

***

۱۴۷

(۱۶)

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی

ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے ، خدائی!

*

جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند

اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

*

اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر

جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی

*

در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں یافت

اے بندۂ مومن تو کجائی ، تو کجائی

*

خورشید ! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر

پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائی

***

۱۴۸

(۱۷)

آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو

لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں

*

ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی

وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں

*

تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ

خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں

*

یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں

ہمت ہو پر کشا تو حقیقت میں کچھ نہیں

*

بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں

زیر پر آگیا تو یہی آسماں ، زمیں!

***

۱۴۹

(۱۸)

یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے

کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری

*

عزیز ہے انھیں نام وزیری و محسود

ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری

*

ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی

کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری

*

وہی حرم ہے ، وہی اعتبار لات و منات

خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری!

***

۱۵۰

(۱۹)

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے

نگاہ وہ ہے کہ محتاج مہر و ماہ نہیں

*

فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن

قدم اٹھا! یہ مقام انتہائے راہ نہیں

*

کھلے ہیں سب کے لیے غریبوں کے میخانے

علوم تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں

*

اسی سرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تری

ترے بدن میں اگر سوز 'لا الہ' نہیں

*

سنیں گے میری صدا خانزاد گان کبیر؟

گلیم پوش ہوں میں صاحب کلاہ نہیں!

***

۱۵۱

(۲۰)

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی

*

دنیا میں محاسب ہے تہذیب فسوں گر کا

ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی

*

یہ حسن و لطافت کیوں ؟ وہ قوت و شوکت کیوں

بلبل چمنستانی ، شہباز بیابانی!

*

اے شیخ ! بہت اچھی مکتب کی فضا ، لیکن

بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

*

صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا

تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی

***

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تشکّر: علاّمہ اقبال ڈاٹ کام

پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.۲۵۰free.com

۱۵۲

فہرست

اعلیٰ حضرت نواب سرحمید اللہ خاں فرمانروائے بھوپال کی خدمت میں! ۴

ناظرین سے ۴

تمہید ۵

(۱) ۵

(۲) ۶

اسلام اور مسلمان ۷

صبح ۷

(۱) ۷

(۲) ۸

لا الہ الا اللہ ۹

تن بہ تقدیر ۱۰

معراج ۱۰

ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام ۱۱

زمین و آسماں ۱۳

مسلمان کا زوال ۱۳

علم و عشق ۱۴

اجتہاد ۱۵

شکر و شکایت ۱۶

۱۵۳

ذکر و فکر ۱۶

ملائے حرم ۱۷

تقدیر ۱۷

توحید ۱۸

علم اور دین ۱۹

ہندی مسلمان ۱۹

آزادی شمشیر کے اعلان پر ۲۰

جہاد ۲۱

قوت اور دین ۲۲

فقر و ملوکیت ۲۳

اسلام ۲۳

حیات ابدی ۲۴

سلطانی ۲۵

صوفی سے ۲۶

افرنگ زدہ ۲۶

(۱) ۲۶

(۲) ۲۷

تصوف ۲۷

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے ۲۸

ہندی اسلام ۲۸

۱۵۴

غزل ۲۹

دنیا ۳۰

نماز ۳۰

وحی ۳۱

شکست ۳۱

عقل و دل ۳۲

مستی کردار ۳۲

قبر ۳۳

قلندر کی پہچان ۳۳

فلسفہ ۳۴

مردان خدا ۳۵

کافر و مومن ۳۶

مہدی برحق ۳۶

مومن ۳۷

(دنیامیں) ۳۷

(جنت.میں) ۳۷

محمد علی باب ۳۸

تقدیر ۳۹

(ابلیس.و.یزداں) ۳۹

ابلیس ۳۹

۱۵۵

یزداں ۳۹

ابلیس ۳۹

یزداں ۳۹

(فرشتوں کی طرف دیکھ کر) ۳۹

(ماخوذ از محی الدین ابن عربی) اے روح محمد ۴۰

مدنیت اسلام ۴۱

امامت ۴۲

فقر و راہبی ۴۳

غزل ۴۴

تسلیم و رضا ۴۵

نکتۂ توحید ۴۶

الہام اور آزادیِ جان و تن ۴۷

لاہور و کراچی ۴۷

نبوت ۴۸

آدم ۴۸

مکہ اور جنیوا ۴۹

اے پیر حرم ۵۰

مہدی ۵۱

مرد مسلمان ۵۲

پنجابی مسلمان ۵۳

۱۵۶

آزادی ۵۳

اشاعت اسلام فرنگستان میں ۵۴

لا و الا ۵۴

امرائے عرب سے ۵۵

احکام الہی ۵۶

موت ۵۶

قم باذن اللہ ۵۷

تعلیم و تربیت ۵۷

مقصود ۵۷

(سپنوزا) ۵۷

(فلاطوں) ۵۷

زمانۂ حاضر کا انسان ۵۸

اقوام مشرق ۵۸

آگاہی ۵۹

مصلحین مشرق ۵۹

مغربی تہذیب ۵۹

اسرار پیدا ۶۰

سلطان ٹیپو کی وصیت ۶۱

غزل ۶۲

بیداری ۶۳

۱۵۷

خودی کی تربیت ۶۴

آزادی فکر ۶۴

خودی کی زندگی ۶۵

حکومت ۶۵

ہندی مکتب ۶۶

تربیت ۶۷

خوب و زشت ۶۷

مرگ خودی ۶۸

مہمان عزیز ۶۸

عصر حاضر ۶۹

طالب علم ۶۹

امتحان ۷۰

مدرسہ ۷۰

حکیم نطشہ ۷۱

اساتذہ ۷۱

غزل ۷۲

دین و تعلیم ۷۳

جاوید سے ۷۴

(۱) ۷۴

(۲) ۷۶

۱۵۸

(۳) ۷۸

مرد فرنگ ۷۹

ایک سوال ۸۰

پردہ ۸۰

خلوت ۸۱

عورت ۸۱

آزادیِ نسواں ۸۲

عورت کی حفاظت ۸۲

عورت ۸۳

عورت ۸۳

دین و ہنر ۸۴

تخلیق ۸۵

جنوں ۸۶

اپنے شعر سے ۸۶

پیرس کی مسجد ۸۷

ادبیات ۸۷

نگاہ ۸۸

مسجد قوت الاسلام ۸۹

تیاتر ۹۰

شعاع امید ۹۱

۱۵۹

(۱) ۹۱

(۲) ۹۱

(۳) ۹۲

امید ۹۴

نگاہ شوق ۹۵

اہل ہنر سے ۹۶

غزل ۹۷

وجود ۹۸

سرود ۹۸

نسیم و شبنم ۹۹

نسیم ۹۹

شبنم ۹۹

اہرام مصر ۹۹

مخلوقات ہنر ۱۰۰

اقبال ۱۰۰

فنون لطیفہ ۱۰۱

صبح چمن ۱۰۲

پھول ۱۰۲

شبنم ۱۰۲

صبح ۱۰۲

۱۶۰

161

162

163

164