ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 22%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108161 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

ضربِ کلیم

علاّمہ محمّد اقبال

۳

اعلیٰ حضرت نواب سرحمید اللہ خاں فرمانروائے بھوپال کی خدمت میں!

زمانہ با امم ایشیا چہ کرد و کند

کسے نہ بود کہ ایں داستاں فرو خواند

*

تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است

دل تو بیند و اندیشۂ تو می داند

*

بگیر ایں ہمہ سرمایۂ بہار از من

'کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند'

***

ناظرین سے

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر

تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ

*

یہ زور دست و ضربت کاری کا ہے مقام

میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ

*

خون دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات

فطرت ، لہو ترنگ ہے غافل! نہ ، جل ترنگ

***

۴

تمہید

(۱)

نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری

کہ خاوراں میں ہے قوموں کی روح تریاکی

*

اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے

بری ہے مستئ اندیشہ ہائے افلاکی

*

تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن

کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی

*

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا

ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

*

عطا ہوا خس و خاشاک ایشیا مجھ کو

کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی!

***

۵

(۲)

ترا گناہ ہے اقبال! مجلس آرائی

اگرچہ تو ہے مثال زمانہ کم پیوند

*

جو کوکنار کے خوگر تھے، ان غریبوں کو

تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند

*

تڑپ رہے ہیں فضاہائے نیلگوں کے لیے

وہ پر شکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند

*

تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی

مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی

***

۶

اسلام اور مسلمان

صبح

(۱)

نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری

کہ خاوراں میں ہے قوموں کی روح تریاکی

*

اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے

بری ہے مستئ اندیشہ ہائے افلاکی

*

تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن

کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی

*

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا

ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

*

عطا ہوا خس و خاشاک ایشیا مجھ کو

کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی!

***

۷

(۲)

ترا گناہ ہے اقبال! مجلس آرائی

اگرچہ تو ہے مثال زمانہ کم پیوند

*

جو کوکنار کے خوگر تھے، ان غریبوں کو

تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند

*

تڑپ رہے ہیں فضاہائے نیلگوں کے لیے

وہ پر شکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند

*

تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی

مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی

***

۸

لا الہ الا اللہ

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ

*

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ

*

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں ، لا الہ الا اللہ

*

یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ

*

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ

*

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ

*

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ

***

۹

تن بہ تقدیر

اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم

جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

*

'تن بہ تقدیر' ہے آج ان کے عمل کا انداز

تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر

*

تھا جو 'ناخوب، بتدریج وہی ' خوب' ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

***

معراج

دے ولولۂ شوق جسے لذت پرواز

کر سکتا ہے وہ ذرّہ مہ و مہر کو تاراج

*

مشکل نہیں یاران چمن ! معرکہ باز

پر سوز اگر ہو نفس سینۂ دراج

*

ناوک ہے مسلماں ، ہدف اس کا ہے ثریا

ہے سر سرا پردۂ جاں نکتہ معراج

*

تو معنیِ و النجم ، نہ سمجھا تو عجب کیا

ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج

***

۱۰

ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام

تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا

زناری برگساں نہ ہوتا

*

ہیگل کا صدف گہر سے خالی

ہے اس کا طلسم سب خیالی

*

محکم کیسے ہو زندگانی

کس طرح خودی ہو لازمانی!

*

آدم کو ثبات کی طلب ہے

دستور حیات کی طلب ہے

*

دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق

مومن کی اذاں ندائے آفاق

*

میں اصل کا خاص سومناتی

آبا مرے لاتی و مناتی

*

تو سید ہاشمی کی اولاد

میری کف خاک برہمن زاد

*

۱۱

ہے فلسفہ میرے آب و گل میں

پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں

*

اقبال اگرچہ بے ہنر ہے

اس کی رگ رگ سے باخبر ہے

*

شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز

سن مجھ سے یہ نکتۂ دل افروز

*

انجام خرد ہے بے حضوری

ہے فلسفۂ زندگی سے دوری

*

افکار کے نغمہ ہائے بے صوت

ہیں ذوق عمل کے واسطے موت

*

دیں مسلک زندگی کی تقویم

دیں سر محمد و براہیم

*

''دل در سخن محمدی بند

اے پور علی ز بو علی چند!

*

چوں دیدۂ راہ بیں نداری

قاید قرشی بہ از بخاری ''

***

___________________

فارسی اشعار حکیم خاقانی کی 'تحفۃ العراقین' سے ہیں

۱۲

زمین و آسماں

ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں

اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا

*

ہے سلسلۂ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں

اے سالک رہ! فکر نہ کر سود و زیاں کا

*

شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی

تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا!

***

مسلمان کا زوال

اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات

جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں

*

اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور

قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

*

سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے

زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

*

اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا

قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں

***

۱۳

علم و عشق

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن

عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن

*

بندۂ تخمین و ظن! کرم کتابی نہ بن

عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!

*

عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات

علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات

*

عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات

علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!

*

عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں

عشق کے ادنی غلام صاحب تاج و نگیں

*

عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں

عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح باب!

*

شرع محبت میں ہے عشرت منزل حرام

شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام

*

عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام

علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!

***

۱۴

اجتہاد

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے

نہ کہیں لذت کردار، نہ افکار عمیق

*

حلقۂ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں

آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق!

*

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!

*

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!

***

۱۵

شکر و شکایت

میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا

رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند

*

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند

*

تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں

مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند

*

لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے

جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند!

***

ذکر و فکر

یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام

وہ جس کی شان میں آیا ہے 'علم الاسما'

*

مقام ذکر، کمالات رومی و عطار

مقام فکر، مقالات بوعلیسینا

*

مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکاں

مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلی

***

۱۶

ملائے حرم

عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو

تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام

*

تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال

تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام

***

تقدیر

نااہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت

ہے خوار زمانے میں کبھی جوہر ذاتی

*

شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں

تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی

*

ہاں، ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو

تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی

*

'ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی

براں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی!'

***

۱۷

توحید

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی

آج کیا ہے، فقط اک مسئلۂ علم کلام

*

روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو

خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

*

میں نے اے میر سپہ! تیری سپہ دیکھی ہے

'قل ھو اللہ، کی شمشیر سے خالی ہیں نیام

*

آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا، نہ فقیہ

وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام

*

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام!

***

۱۸

علم اور دین

وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم

کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم

*

زمانہ ایک ، حیات ایک ، کائنات بھی ایک

دلیل کم نظری، قصۂ جدید و قدیم

*

چمن میں تربیت غنچہ ہو نہیں سکتی

نہیں ہے قطرۂ شبنم اگر شریک نسیم

*

وہ علم، کم بصری جس میں ہمکنار نہیں

تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم!

***

ہندی مسلمان

غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن

انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر

*

پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت

کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر

*

آوازۂ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے

'مسکیں ولکم ماندہ دریں کشمکش اندر'!

***

۱۹

آزادی شمشیر کے اعلان پر

سوچا بھی ہے اے مرد مسلماں کبھی تو نے

کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگر دار

*

اس بیت کا یہ مصرع اول ہے کہ جس میں

پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار

*

ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ

اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

*

قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن

یا خالد جانباز ہے یا حیدر کرار

***

۲۰

جہاد

فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

*

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

*

تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں

ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

*

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر

*

تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

*

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

*

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

*

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

***

۲۱

قوت اور دین

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

*

تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے

'صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک،

*

اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے

عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک

*

لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

***

۲۲

فقر و ملوکیت

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے

ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم

*

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

*

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور

کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زروسیم

*

عشق و مستی نے کیا ضبط نفس مجھ پہ حرام

کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم

***

اسلام

روح اسلام کی ہے نور خودی ، نار خودی

زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور

*

یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصل نمود

گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور

*

لفظ 'اسلام، سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر

دوسرا نام اسی دین کا ہے 'فقر غیور

***

۲۳

حیات ابدی

زندگانی ہے صدف، قرۂ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

*

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

***

۲۴

سلطانی

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

*

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

*

یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار

اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی

*

یہ جبر و قہر نہیں ہے ، یہ عشق و مستی ہے

کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی

*

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی

*

مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود

خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی

*

ہوا حریف مہ و آفتاب تو جس سے

رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی

***

__________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۲۵

صوفی سے

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

*

تخیلات کی دنیا غریب ہے، لیکن

غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا

*

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

***

افرنگ زدہ

(۱)

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

*

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر!

***

۲۶

(۲)

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

*

وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

***

تصوف

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی

حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار

شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الہ' تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری

فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

***

۲۷

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

ہندی اسلام

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

*

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد

*

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

*

مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

*

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

***

۲۸

غزل

دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

*

ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟

نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ!

*

تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے

نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ

*

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے

مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ

*

نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا

جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ

***

۲۹

دنیا

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی

وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے

*

دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتوی

وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے

*

حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا

تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!

***

نماز

بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں

اگرچہ پیر ہیں آدم، جواں ہیں لات و منات

*

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

***

۳۰

وحی

عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات

*

فکر بے نور ترا، جذب عمل بے بنیاد

سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تار حیات

*

خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر

گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات!

***

شکست

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں

بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست

*

فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور

کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست

*

گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی

اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!

***

_________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۳۱

عقل و دل

ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی

باہر نہیں کچھ عقل خدا داد کی زد سے

*

عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی کا

اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے

***

مستی کردار

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال

ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

*

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق

افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

*

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو

ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

***

۳۲

قبر

مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا

آرام قلندر کو تہ خاک نہیں ہے

*

خاموشی افلاک تو ہے قبر میں لیکن

بے قیدی و پہنائی افلاک نہیں ہے

***

قلندر کی پہچان

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد

جاتا ہے جدھر بندۂ حق، تو بھی ادھر جا!

*

ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ

بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا

*

میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا

چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا

*

توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟

ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!

*

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

***

۳۳

فلسفہ

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

پوشیدہ نہیں مرد قلندر کی نظر سے

*

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی

مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے

*

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!

*

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

*

جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے

*

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے

***

۳۴

مردان خدا

وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری

نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری

*

ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش

قلندری و قبا پوشی و کلہ داری

*

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے

انھی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

*

وجود انھی کا طواف بتاں سے ہے آزاد

یہ تیرے مومن و کافر ، تمام زناری!

***

۳۵

کافر و مومن

کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے

تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا تریاق؟

*

اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند

برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق

*

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

***

مہدی برحق

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار

*

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار

*

ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار

*

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار

***

۳۶

مومن

(دنیامیں)

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

*

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

*

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن

***

(جنت.میں)

کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

***

_________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۳۷

محمد علی باب

تھی خوب حضور علما باب کی تقریر

بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعراب سموات

*

اس کی غلطی پر علما تھے متبسم

بولا ، تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات

*

اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد

محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات!

***

۳۸

تقدیر

(ابلیس.و.یزداں)

ابلیس

اے خدائے کن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر

آہ ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود

*

حرف 'استکبار' تیرے سامنے ممکن نہ تھا

ہاں، مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود

***

یزداں

کب کھلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

***

ابلیس

بعد ! اے تیری تجلی سے کمالات وجود!

***

یزداں

(فرشتوں کی طرف دیکھ کر)

پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے

کہتا ہے 'تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود،

*

دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام

ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!

***

۳۹

(ماخوذ از محی الدین ابن عربی)

اے روح محمد

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!

*

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

*

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

*

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد

آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!

***

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164