ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 11%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108146 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جہاد

فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

*

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

*

تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں

ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

*

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر

*

تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

*

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

*

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

*

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

***

۲۱

قوت اور دین

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

*

تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے

'صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک،

*

اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے

عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک

*

لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

***

۲۲

فقر و ملوکیت

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے

ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم

*

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

*

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور

کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زروسیم

*

عشق و مستی نے کیا ضبط نفس مجھ پہ حرام

کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم

***

اسلام

روح اسلام کی ہے نور خودی ، نار خودی

زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور

*

یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصل نمود

گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور

*

لفظ 'اسلام، سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر

دوسرا نام اسی دین کا ہے 'فقر غیور

***

۲۳

حیات ابدی

زندگانی ہے صدف، قرۂ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

*

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

***

۲۴

سلطانی

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

*

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

*

یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار

اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی

*

یہ جبر و قہر نہیں ہے ، یہ عشق و مستی ہے

کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی

*

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی

*

مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود

خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی

*

ہوا حریف مہ و آفتاب تو جس سے

رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی

***

__________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۲۵

صوفی سے

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

*

تخیلات کی دنیا غریب ہے، لیکن

غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا

*

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

***

افرنگ زدہ

(۱)

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

*

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر!

***

۲۶

(۲)

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

*

وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

***

تصوف

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی

حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار

شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الہ' تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری

فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

***

۲۷

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

ہندی اسلام

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

*

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد

*

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

*

مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

*

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

***

۲۸

غزل

دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

*

ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟

نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ!

*

تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے

نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ

*

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے

مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ

*

نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا

جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ

***

۲۹

دنیا

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی

وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے

*

دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتوی

وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے

*

حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا

تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!

***

نماز

بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں

اگرچہ پیر ہیں آدم، جواں ہیں لات و منات

*

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

***

۳۰

وحی

عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات

*

فکر بے نور ترا، جذب عمل بے بنیاد

سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تار حیات

*

خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر

گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات!

***

شکست

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں

بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست

*

فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور

کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست

*

گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی

اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!

***

_________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۳۱

عقل و دل

ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی

باہر نہیں کچھ عقل خدا داد کی زد سے

*

عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی کا

اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے

***

مستی کردار

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال

ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

*

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق

افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

*

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو

ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

***

۳۲

قبر

مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا

آرام قلندر کو تہ خاک نہیں ہے

*

خاموشی افلاک تو ہے قبر میں لیکن

بے قیدی و پہنائی افلاک نہیں ہے

***

قلندر کی پہچان

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد

جاتا ہے جدھر بندۂ حق، تو بھی ادھر جا!

*

ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ

بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا

*

میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا

چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا

*

توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟

ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!

*

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

***

۳۳

فلسفہ

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

پوشیدہ نہیں مرد قلندر کی نظر سے

*

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی

مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے

*

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!

*

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

*

جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے

*

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے

***

۳۴

مردان خدا

وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری

نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری

*

ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش

قلندری و قبا پوشی و کلہ داری

*

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے

انھی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

*

وجود انھی کا طواف بتاں سے ہے آزاد

یہ تیرے مومن و کافر ، تمام زناری!

***

۳۵

کافر و مومن

کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے

تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا تریاق؟

*

اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند

برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق

*

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

***

مہدی برحق

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار

*

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار

*

ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار

*

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار

***

۳۶

مومن

(دنیامیں)

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

*

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

*

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن

***

(جنت.میں)

کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

***

_________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۳۷

محمد علی باب

تھی خوب حضور علما باب کی تقریر

بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعراب سموات

*

اس کی غلطی پر علما تھے متبسم

بولا ، تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات

*

اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد

محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات!

***

۳۸

تقدیر

(ابلیس.و.یزداں)

ابلیس

اے خدائے کن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر

آہ ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود

*

حرف 'استکبار' تیرے سامنے ممکن نہ تھا

ہاں، مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود

***

یزداں

کب کھلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

***

ابلیس

بعد ! اے تیری تجلی سے کمالات وجود!

***

یزداں

(فرشتوں کی طرف دیکھ کر)

پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے

کہتا ہے 'تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود،

*

دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام

ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!

***

۳۹

(ماخوذ از محی الدین ابن عربی)

اے روح محمد

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!

*

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

*

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

*

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد

آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!

***

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164