ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 22%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108396 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جہاد

فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

*

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

*

تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں

ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

*

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر

*

تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

*

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

*

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

*

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

***

۲۱

قوت اور دین

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

*

تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے

'صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک،

*

اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے

عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک

*

لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

***

۲۲

فقر و ملوکیت

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے

ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم

*

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

*

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور

کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زروسیم

*

عشق و مستی نے کیا ضبط نفس مجھ پہ حرام

کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم

***

اسلام

روح اسلام کی ہے نور خودی ، نار خودی

زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور

*

یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصل نمود

گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور

*

لفظ 'اسلام، سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر

دوسرا نام اسی دین کا ہے 'فقر غیور

***

۲۳

حیات ابدی

زندگانی ہے صدف، قرۂ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

*

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

***

۲۴

سلطانی

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

*

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

*

یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار

اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی

*

یہ جبر و قہر نہیں ہے ، یہ عشق و مستی ہے

کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی

*

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی

*

مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود

خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی

*

ہوا حریف مہ و آفتاب تو جس سے

رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی

***

__________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۲۵

صوفی سے

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

*

تخیلات کی دنیا غریب ہے، لیکن

غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا

*

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

***

افرنگ زدہ

(۱)

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

*

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر!

***

۲۶

(۲)

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

*

وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

***

تصوف

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی

حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار

شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الہ' تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری

فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

***

۲۷

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

ہندی اسلام

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

*

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد

*

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

*

مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

*

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

***

۲۸

غزل

دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

*

ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟

نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ!

*

تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے

نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ

*

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے

مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ

*

نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا

جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ

***

۲۹

دنیا

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی

وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے

*

دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتوی

وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے

*

حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا

تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!

***

نماز

بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں

اگرچہ پیر ہیں آدم، جواں ہیں لات و منات

*

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

***

۳۰

وحی

عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات

*

فکر بے نور ترا، جذب عمل بے بنیاد

سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تار حیات

*

خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر

گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات!

***

شکست

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں

بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست

*

فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور

کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست

*

گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی

اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!

***

_________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۳۱

عقل و دل

ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی

باہر نہیں کچھ عقل خدا داد کی زد سے

*

عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی کا

اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے

***

مستی کردار

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال

ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

*

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق

افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

*

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو

ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

***

۳۲

قبر

مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا

آرام قلندر کو تہ خاک نہیں ہے

*

خاموشی افلاک تو ہے قبر میں لیکن

بے قیدی و پہنائی افلاک نہیں ہے

***

قلندر کی پہچان

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد

جاتا ہے جدھر بندۂ حق، تو بھی ادھر جا!

*

ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ

بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا

*

میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا

چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا

*

توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟

ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!

*

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

***

۳۳

فلسفہ

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

پوشیدہ نہیں مرد قلندر کی نظر سے

*

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی

مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے

*

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!

*

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

*

جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے

*

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے

***

۳۴

مردان خدا

وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری

نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری

*

ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش

قلندری و قبا پوشی و کلہ داری

*

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے

انھی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

*

وجود انھی کا طواف بتاں سے ہے آزاد

یہ تیرے مومن و کافر ، تمام زناری!

***

۳۵

کافر و مومن

کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے

تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا تریاق؟

*

اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند

برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق

*

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

***

مہدی برحق

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار

*

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار

*

ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار

*

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار

***

۳۶

مومن

(دنیامیں)

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

*

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

*

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن

***

(جنت.میں)

کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

***

_________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۳۷

محمد علی باب

تھی خوب حضور علما باب کی تقریر

بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعراب سموات

*

اس کی غلطی پر علما تھے متبسم

بولا ، تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات

*

اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد

محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات!

***

۳۸

تقدیر

(ابلیس.و.یزداں)

ابلیس

اے خدائے کن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر

آہ ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود

*

حرف 'استکبار' تیرے سامنے ممکن نہ تھا

ہاں، مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود

***

یزداں

کب کھلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

***

ابلیس

بعد ! اے تیری تجلی سے کمالات وجود!

***

یزداں

(فرشتوں کی طرف دیکھ کر)

پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے

کہتا ہے 'تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود،

*

دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام

ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!

***

۳۹

(ماخوذ از محی الدین ابن عربی)

اے روح محمد

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!

*

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

*

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

*

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد

آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!

***

۴۰

مدنیت اسلام

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں

*

طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب

یگانہ اور مثال زمانہ گو نا گوں!

*

نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری

نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں

*

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں!

*

عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال

عجم کا حسن طبیعت ، عرب کا سوز دروں!

***

۴۱

امامت

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

*

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

*

موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست

زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے

*

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

*

فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

***

۴۲

فقر و راہبی

کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی

تری نگاہ میں ہے ایک ، فقر و رہبانی

*

سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار

فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

*

پسند روح و بدن کی ہے وا نمود اس کو

کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی

*

وجود صیرفی کائنات ہے اس کا

اسے خبر ہے، یہ باقی ہے اور وہ فانی

*

اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ

جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی

*

یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے

رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی

***

۴۳

غزل

تیری متاع حیات، علم و ہنر کا سرور

میری متاع حیات ایک دل ناصبور!

*

معجزۂ اہل فکر، فلسفۂ پیچ پیچ

معجزۂ اہل ذکر، موسی و فرعون و طور

*

مصلحتاً کہہ دیا میں نے مسلماں تجھے

تیرے نفس میں نہیں، گرمی یوم النشور

*

ایک زمانے سے ہے چاک گریباں مرا

تو ہے ابھی ہوش میں، میرے جنوں کا قصور

*

فیض نظر کے لیے ضبط سخن چاہیے

حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور

*

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم

عشق ہو جس کا جسور ، فقر ہو جس کا غیور

***

۴۴

تسلیم و رضا

ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا

پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا

*

ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا

ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشوونما کا

*

فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند

مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا

*

جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے

اے مرد خدا، ملک خدا تنگ نہیں ہے

***

۴۵

نکتۂ توحید

بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

*

وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے

طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے

*

سرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے

تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

*

جہاں میں بندۂ حر کے مشاہدات ہیں کیا

تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

*

مقام فقر ہے کتنا بلند شاہی سے

روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے!

***

۴۶

الہام اور آزادیِ جان و تن

عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی

روح کس جوہر سے، خاک تیرہ کس جوہر سے ہے

*

میری مشکل، مستی و شور و سرور و درد و داغ

تیری مشکل، مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے

*

ارتباط حرف و معنی، اختلاط جان و تن

جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے!

***

لاہور و کراچی

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر

*

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

*

آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں

حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'

***

۴۷

نبوت

میں نہ عارف ، نہ مجدد، نہ محدث ،نہ فقیہ

مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام

*

ہاں، مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر

فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک نیلی فام

*

عصر حاضر کی شب تار میں دیکھی میں نے

یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ماہ تمام

*

''وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش

جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام''

***

آدم

طلسم بود و عدم، جس کا نام ہے آدم

خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن

*

زمانہ صبح ازل سے رہا ہے محو سفر

مگر یہ اس کی تگ و دو سے ہو سکا نہ کہن

*

اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں

'وجود حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن،!

***

۴۸

مکہ اور جنیوا

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام

پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم

*

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

*

مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام

جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم!

***

۴۹

اے پیر حرم

اے پیر حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ

مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

*

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا

*

تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے

مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا

*

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

*

کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار

مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا!

***

۵۰

مہدی

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو

*

مجذوب فرنگی نے بہ انداز فرنگی

مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو

*

اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار

نومیدۂ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو

*

ہو زندہ کفن پوش تو میت اسے سمجھیں

یا چاک کریں مردک ناداں کے کفن کو؟

***

۵۱

مرد مسلمان

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!

*

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

*

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

*

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!

*

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

*

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

*

فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن

*

بنتے ہیں مری کار گہ فکر میں انجم

لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان

***

۵۲

پنجابی مسلمان

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

*

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

*

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

***

آزادی

ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے

حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد

*

چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس

چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد

*

قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد

*

ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا

اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد

***

۵۳

اشاعت اسلام فرنگستان میں

ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی

فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام

*

بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں

قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام

*

اگر قبول کرے، دین مصطفی ، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

***

لا و الا

فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا

سفر خاکی شبستاں سے نہ کر سکتا اگر دانہ

*

نہاد زندگی میں ابتدا 'لا' ، انتہا 'الا'

پیام موت ہے جب 'لا ہوا الا' سے بیگانہ

*

وہ ملت روح جس کی 'لا 'سے آگے بڑھ نہیں سکتی

یقیں جانو، ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ

***

۵۴

امرائے عرب سے

کرے یہ کافر ہندی بھی جرأت گفتار

اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!

*

یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس امت کو؟

وصال مصطفوی ، افتراق بولہبی!

*

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمد عربی سے ہے عالم عربی

***

___________________

بھوپال شیش محل میں لکھے گئے

۵۵

احکام الہی

پابندی تقدیر کہ پابندی احکام!

یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند

*

اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر

ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ، ابھی خورسند

*

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

***

موت

لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے

اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے

*

مہ و ستارہ ، مثال شرارہ یک دو نفس

مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے

*

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے!

***

۵۶

قم باذن اللہ

جہاں اگرچہ دگر گوں ہے ، قم باذن اللہ

وہی زمیں ، وہی گردوں ہے ، قم باذن اللہ

*

کیا نوائے 'انا الحق' کو آتشیں جس نے

تری رگوں میں وہی خوں ہے ، قم باذن اللہ

*

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا

فرنگیوں کا یہ افسوں ہے ، قم باذن اللہ

***

تعلیم و تربیت

مقصود

(سپنوزا)

نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات کیا ہے ، حضور و سرور و نور و وجود

(فلاطوں)

نگاہ موت پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود

*

حیات و موت نہیں التفات کے لائق

فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

***

__________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۵۷

زمانۂ حاضر کا انسان

'عشق ناپید و خرد میگزدش صورت مار'

عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا

*

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

*

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

*

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!

***

اقوام مشرق

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو

آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

*

زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر

یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور!

***

۵۸

آگاہی

نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس

نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ

*

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا

وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ

*

وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم

وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ

***

مصلحین مشرق

میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے

کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی

*

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں

پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی!

***

مغربی تہذیب

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

*

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف

***

۵۹

اسرار پیدا

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

*

ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے

وہ عالم مجبور ہے ، تو عالم آزاد

*

موجوں کی تپش کیا ہے ، فقط ذوق طلب ہے

پنہاں جو صدف میں ہے ، وہ دولت ہے خدا داد

*

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرۂ افتاد

***

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164