ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 0%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 164
مشاہدے: 98485
ڈاؤنلوڈ: 2265

تبصرے:

ضربِ کلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98485 / ڈاؤنلوڈ: 2265
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

جہاد

فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

*

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

*

تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں

ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

*

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر

*

تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

*

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

*

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

*

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

***

۲۱

قوت اور دین

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

*

تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے

'صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک،

*

اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے

عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک

*

لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

***

۲۲

فقر و ملوکیت

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے

ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم

*

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

*

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور

کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زروسیم

*

عشق و مستی نے کیا ضبط نفس مجھ پہ حرام

کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم

***

اسلام

روح اسلام کی ہے نور خودی ، نار خودی

زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور

*

یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصل نمود

گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور

*

لفظ 'اسلام، سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر

دوسرا نام اسی دین کا ہے 'فقر غیور

***

۲۳

حیات ابدی

زندگانی ہے صدف، قرۂ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

*

ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

***

۲۴

سلطانی

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

*

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

*

یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار

اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی

*

یہ جبر و قہر نہیں ہے ، یہ عشق و مستی ہے

کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی

*

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی

*

مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود

خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی

*

ہوا حریف مہ و آفتاب تو جس سے

رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی

***

__________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۲۵

صوفی سے

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

*

تخیلات کی دنیا غریب ہے، لیکن

غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا

*

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

***

افرنگ زدہ

(۱)

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

*

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر!

***

۲۶

(۲)

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

*

وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

***

تصوف

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی

حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار

شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الہ' تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

*

عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری

فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

***

۲۷

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

ہندی اسلام

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

*

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد

*

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

*

مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

*

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

***

۲۸

غزل

دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

*

ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟

نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ!

*

تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے

نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ

*

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے

مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ

*

نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا

جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ

***

۲۹

دنیا

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی

وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے

*

دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتوی

وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے

*

حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا

تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!

***

نماز

بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں

اگرچہ پیر ہیں آدم، جواں ہیں لات و منات

*

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

***

۳۰

وحی

عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات

*

فکر بے نور ترا، جذب عمل بے بنیاد

سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تار حیات

*

خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر

گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات!

***

شکست

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں

بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست

*

فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور

کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست

*

گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی

اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!

***

_________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۳۱

عقل و دل

ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی

باہر نہیں کچھ عقل خدا داد کی زد سے

*

عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی کا

اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے

***

مستی کردار

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال

ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

*

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق

افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

*

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو

ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

***

۳۲

قبر

مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا

آرام قلندر کو تہ خاک نہیں ہے

*

خاموشی افلاک تو ہے قبر میں لیکن

بے قیدی و پہنائی افلاک نہیں ہے

***

قلندر کی پہچان

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد

جاتا ہے جدھر بندۂ حق، تو بھی ادھر جا!

*

ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ

بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا

*

میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا

چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا

*

توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟

ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!

*

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

***

۳۳

فلسفہ

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

پوشیدہ نہیں مرد قلندر کی نظر سے

*

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی

مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے

*

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!

*

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

*

جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے

*

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے

***

۳۴

مردان خدا

وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری

نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری

*

ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش

قلندری و قبا پوشی و کلہ داری

*

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے

انھی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

*

وجود انھی کا طواف بتاں سے ہے آزاد

یہ تیرے مومن و کافر ، تمام زناری!

***

۳۵

کافر و مومن

کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے

تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا تریاق؟

*

اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند

برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق

*

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

***

مہدی برحق

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار

*

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار

*

ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار

*

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار

***

۳۶

مومن

(دنیامیں)

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

*

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

*

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن

***

(جنت.میں)

کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

***

_________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۳۷

محمد علی باب

تھی خوب حضور علما باب کی تقریر

بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعراب سموات

*

اس کی غلطی پر علما تھے متبسم

بولا ، تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات

*

اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد

محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات!

***

۳۸

تقدیر

(ابلیس.و.یزداں)

ابلیس

اے خدائے کن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر

آہ ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود

*

حرف 'استکبار' تیرے سامنے ممکن نہ تھا

ہاں، مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود

***

یزداں

کب کھلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

***

ابلیس

بعد ! اے تیری تجلی سے کمالات وجود!

***

یزداں

(فرشتوں کی طرف دیکھ کر)

پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے

کہتا ہے 'تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود،

*

دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام

ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!

***

۳۹

(ماخوذ از محی الدین ابن عربی)

اے روح محمد

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!

*

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

*

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

*

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد

آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!

***

۴۰