ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 11%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108285 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مدنیت اسلام

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں

*

طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب

یگانہ اور مثال زمانہ گو نا گوں!

*

نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری

نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں

*

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں!

*

عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال

عجم کا حسن طبیعت ، عرب کا سوز دروں!

***

۴۱

امامت

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

*

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

*

موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست

زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے

*

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

*

فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

***

۴۲

فقر و راہبی

کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی

تری نگاہ میں ہے ایک ، فقر و رہبانی

*

سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار

فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

*

پسند روح و بدن کی ہے وا نمود اس کو

کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی

*

وجود صیرفی کائنات ہے اس کا

اسے خبر ہے، یہ باقی ہے اور وہ فانی

*

اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ

جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی

*

یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے

رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی

***

۴۳

غزل

تیری متاع حیات، علم و ہنر کا سرور

میری متاع حیات ایک دل ناصبور!

*

معجزۂ اہل فکر، فلسفۂ پیچ پیچ

معجزۂ اہل ذکر، موسی و فرعون و طور

*

مصلحتاً کہہ دیا میں نے مسلماں تجھے

تیرے نفس میں نہیں، گرمی یوم النشور

*

ایک زمانے سے ہے چاک گریباں مرا

تو ہے ابھی ہوش میں، میرے جنوں کا قصور

*

فیض نظر کے لیے ضبط سخن چاہیے

حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور

*

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم

عشق ہو جس کا جسور ، فقر ہو جس کا غیور

***

۴۴

تسلیم و رضا

ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا

پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا

*

ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا

ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشوونما کا

*

فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند

مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا

*

جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے

اے مرد خدا، ملک خدا تنگ نہیں ہے

***

۴۵

نکتۂ توحید

بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

*

وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے

طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے

*

سرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے

تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

*

جہاں میں بندۂ حر کے مشاہدات ہیں کیا

تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

*

مقام فقر ہے کتنا بلند شاہی سے

روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے!

***

۴۶

الہام اور آزادیِ جان و تن

عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی

روح کس جوہر سے، خاک تیرہ کس جوہر سے ہے

*

میری مشکل، مستی و شور و سرور و درد و داغ

تیری مشکل، مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے

*

ارتباط حرف و معنی، اختلاط جان و تن

جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے!

***

لاہور و کراچی

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر

*

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

*

آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں

حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'

***

۴۷

نبوت

میں نہ عارف ، نہ مجدد، نہ محدث ،نہ فقیہ

مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام

*

ہاں، مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر

فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک نیلی فام

*

عصر حاضر کی شب تار میں دیکھی میں نے

یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ماہ تمام

*

''وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش

جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام''

***

آدم

طلسم بود و عدم، جس کا نام ہے آدم

خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن

*

زمانہ صبح ازل سے رہا ہے محو سفر

مگر یہ اس کی تگ و دو سے ہو سکا نہ کہن

*

اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں

'وجود حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن،!

***

۴۸

مکہ اور جنیوا

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام

پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم

*

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

*

مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام

جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم!

***

۴۹

اے پیر حرم

اے پیر حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ

مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

*

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا

*

تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے

مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا

*

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

*

کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار

مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا!

***

۵۰

مہدی

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو

*

مجذوب فرنگی نے بہ انداز فرنگی

مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو

*

اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار

نومیدۂ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو

*

ہو زندہ کفن پوش تو میت اسے سمجھیں

یا چاک کریں مردک ناداں کے کفن کو؟

***

۵۱

مرد مسلمان

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!

*

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

*

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

*

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!

*

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

*

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

*

فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن

*

بنتے ہیں مری کار گہ فکر میں انجم

لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان

***

۵۲

پنجابی مسلمان

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

*

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

*

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

***

آزادی

ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے

حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد

*

چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس

چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد

*

قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد

*

ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا

اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد

***

۵۳

اشاعت اسلام فرنگستان میں

ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی

فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام

*

بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں

قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام

*

اگر قبول کرے، دین مصطفی ، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

***

لا و الا

فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا

سفر خاکی شبستاں سے نہ کر سکتا اگر دانہ

*

نہاد زندگی میں ابتدا 'لا' ، انتہا 'الا'

پیام موت ہے جب 'لا ہوا الا' سے بیگانہ

*

وہ ملت روح جس کی 'لا 'سے آگے بڑھ نہیں سکتی

یقیں جانو، ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ

***

۵۴

امرائے عرب سے

کرے یہ کافر ہندی بھی جرأت گفتار

اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!

*

یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس امت کو؟

وصال مصطفوی ، افتراق بولہبی!

*

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمد عربی سے ہے عالم عربی

***

___________________

بھوپال شیش محل میں لکھے گئے

۵۵

احکام الہی

پابندی تقدیر کہ پابندی احکام!

یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند

*

اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر

ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ، ابھی خورسند

*

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

***

موت

لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے

اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے

*

مہ و ستارہ ، مثال شرارہ یک دو نفس

مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے

*

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے!

***

۵۶

قم باذن اللہ

جہاں اگرچہ دگر گوں ہے ، قم باذن اللہ

وہی زمیں ، وہی گردوں ہے ، قم باذن اللہ

*

کیا نوائے 'انا الحق' کو آتشیں جس نے

تری رگوں میں وہی خوں ہے ، قم باذن اللہ

*

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا

فرنگیوں کا یہ افسوں ہے ، قم باذن اللہ

***

تعلیم و تربیت

مقصود

(سپنوزا)

نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات کیا ہے ، حضور و سرور و نور و وجود

(فلاطوں)

نگاہ موت پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود

*

حیات و موت نہیں التفات کے لائق

فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

***

__________________

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۵۷

زمانۂ حاضر کا انسان

'عشق ناپید و خرد میگزدش صورت مار'

عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا

*

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

*

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

*

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!

***

اقوام مشرق

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو

آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

*

زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر

یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور!

***

۵۸

آگاہی

نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس

نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ

*

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا

وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ

*

وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم

وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ

***

مصلحین مشرق

میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے

کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی

*

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں

پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی!

***

مغربی تہذیب

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

*

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف

***

۵۹

اسرار پیدا

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

*

ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے

وہ عالم مجبور ہے ، تو عالم آزاد

*

موجوں کی تپش کیا ہے ، فقط ذوق طلب ہے

پنہاں جو صدف میں ہے ، وہ دولت ہے خدا داد

*

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرۂ افتاد

***

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164