ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 11%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108166 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سلطان ٹیپو کی وصیت

تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

*

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

*

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول

*

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول

*

باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

***

۶۱

غزل

نہ میں اعجمی نہ ہندی ، نہ عراقی و حجازی

کہ خودی سے میں نے سیکھی دوجہاں سے بے نیازی

*

تو مری نظر میں کافر ، میں تری نظر میں کافر

ترا دیں نفس شماری ، مرا دیں نفس گدازی

*

تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت

کہ موافق تدرواں نہیں دین شاہبازی

*

ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا

کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسم کارسازی

*

نہ جدا رہے نوا گر تب و تاب زندگی سے

کہ ہلاکی امم ہے یہ طریق نے نوازی

***

۶۲

بیداری

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار

شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق

*

اس کی نگہ شوخ پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق

*

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندۂ آفاق ہے ، وہ صاحب آفاق

*

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکی فطرت سے ہوا محرم اعماق

***

۶۳

خودی کی تربیت

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف

کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

*

یہی ہے سر کلیمی ہر اک زمانے میں

ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز!

***

آزادی فکر

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

*

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!

***

۶۴

خودی کی زندگی

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر

*

خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب

خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیان و حریر

*

نہنگ زندہ ہے اپنے محیط میں آزاد

نہنگ مردہ کو موج سراب بھی زنجیر!

***

حکومت

ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن

شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات

*

قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار

بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات

*

گرچہ اس دیر کہن کا ہے یہ دستور قدیم

کہ نہیں مے کدہ و ساقی و مینا کو ثبات

*

قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا

انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حیات!

****

___________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۶۵

ہندی مکتب

اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا

موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات

*

بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے

پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات

*

آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال

کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات!

*

آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت

محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات

*

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات

*

محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا

ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات

*

محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی

موسیقی و صورت گری و علم نباتات

***

۶۶

تربیت

زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوز دماغ

*

علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

*

اہل دانش عام ہیں ، کم یاب ہیں اہل نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!

*

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!

***

خوب و زشت

ستارگان فضا ہائے نیلگوں کی طرح

تخیلات بھی ہیں تابع طلوع و غروب

*

جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب

یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے ناخوب

*

نمود جس کی فراز خودی سے ہو ، وہ جمیل

جو ہو نشیب میں پیدا ، قبیح و نا محبوب!

***

۶۷

مرگ خودی

خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور

خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام

*

خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب

بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام

*

خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر

قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

*

خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور

کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامۂ احرام!

***

مہمان عزیز

پر ہے افکار سے ان مدرسے والوں کا ضمیر

خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز!

*

چاہیے خانۂ دل کی کوئی منزل خالی

شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز

***

۶۸

عصر حاضر

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی

اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

*

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر

چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

*

مردہ ، 'لا دینی افکار سے افرنگ میں عشق

عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام!

***

طالب علم

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

*

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

***

۶۹

امتحان

کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے

فتادگی و سر افگندگی تری معراج!

*

ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو

مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج

*

جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا

کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارہ یا کہ زجاج

***

مدرسہ

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا ، جس نے

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش

*

دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا

زندگی موت ہے، کھو دیتی ہے جب ذوق خراش

*

اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا

جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش

*

فیض فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا

جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

*

مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو

خلوت کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش

***

۷۰

حکیم نطشہ

حریف نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم

نگاہ چاہیے اسرار 'لا الہ' کے لیے

*

خدنگ سینۂ گردوں ہے اس کا فکر بلند

کمند اس کا تخیل ہے مہرو مہ کے لیے

*

اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی

ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے

***

اساتذہ

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں

بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو

*

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار

کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!

*

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

***

۷۱

غزل

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

*

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ

*

فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے

تری نظر کا نگہباں ہو صاحب 'مازاغ'

*

وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس

چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ

*

کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

***

۷۲

دین و تعلیم

مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز

ہو نہ اخلاص تو دعوئے نظر لاف و گزاف

*

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

*

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

*

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

***

۷۳

جاوید سے

(۱)

غارت گر دیں ہے یہ زمانہ

ہے اس کی نہاد کافرانہ

*

دربار شہنشہی سے خوشتر

مردان خدا کا آستانہ

*

لیکن یہ دور ساحری ہے

انداز ہیں سب کے جاودانہ

*

سرچشمۂ زندگی ہوا خشک

باقی ہے کہاں م ے شبانہ!

*

خالی ان سے ہوا دبستاں

تھی جن کی نگاہ تازیانہ

*

جس گھر کا مگر چراغ ہے تو

ہے اس کا مذاق عارفانہ

*

جوہر میں ہو 'لاالہ' تو کیا خوف

تعلیم ہو گو فرنگیانہ

*

۷۴

شاخ گل پر چہک ولیکن

کر اپنی خودی میں آشیانہ!

*

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا

ہر قطرہ ہے بحر بیکرانہ

*

دہقان اگر نہ ہو تن آساں

ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ

*

''غافل منشیں نہ وقت بازی ست

وقت ہنر است و کارسازی ست''

***

۷۵

(۲)

سینے میں اگر نہ ہو دل گرم

رہ جاتی ہے زندگی میں خامی

*

نخچیر اگر ہو زیرک و چست

آتی نہیں کام کہنہ دامی

*

ہے آب حیات اسی جہاں میں

شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی

*

غیرت ہے طریقت حقیقی

غیرت سے ہے فقر کی تمامی

*

اے جان پدر! نہیں ہے ممکن

شاہیں سے تدرو کی غلامی

*

نایاب نہیں متاع گفتار

صد انوری و ہزار جامی!

*

ہے میری بساط کیا جہاں میں

بس ایک فغان زیر بامی

*

۷۶

اک صدق مقال ہے کہ جس سے

میں چشم جہاں میں ہوں گرامی

*

اللہ کی دین ہے ، جسے دے

میراث نہیں بلند نامی

*

اپنے نور نظر سے کیا خوب

فرماتے ہیں حضرت نظامی

*

''جاے کہ بزرگ بایدت بود

فرزندی من نداردت سود''

***

۷۷

(۳)

مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز

دین و دولت ، قمار بازی!

*

ناپید ہے بندۂ عمل مست

باقی ہے فقط نفس درازی

*

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر

جس فقر کی اصل ہے حجازی

*

اس فقر سے آدمی میں پیدا

اللہ کی شان بے نیازی

*

کنجشک و حمام کے لیے موت

ہے اس کا مقام شاہبازی

*

روشن اس سے خرد کی آنکھیں

بے سرمۂ بو علی و رازی

*

حاصل اس کا شکوۂ محمود

فطرت میں اگر نہ ہو ایازی

*

۷۸

تیری دنیا کا یہ سرافیل

رکھتا نہیں ذوق نے نوازی

*

ہے اس کی نگاہ عالم آشوب

درپردہ تمام کارسازی

*

یہ فقر غیور جس نے پایا

بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

*

مومن کی اسی میں ہے امیری

اللہ سے مانگ یہ فقیری

***

مرد فرنگ

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا

مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں

*

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں

گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

*

فساد کا ہے فرنگی معاشرت پہ ظہور

کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

***

۷۹

ایک سوال

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

*

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بے کار و زن تہی آغوش!

***

پردہ

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے

خدایا یہ دنیا جہاں تھی ، وہیں ہے

*

تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے

وہ خلوت نشیں ہے ، یہ خلوت نشیں ہے

*

ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم

کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

***

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164