ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 22%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108348 / ڈاؤنلوڈ: 2648
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سلطان ٹیپو کی وصیت

تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

*

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

*

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول

*

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول

*

باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

***

۶۱

غزل

نہ میں اعجمی نہ ہندی ، نہ عراقی و حجازی

کہ خودی سے میں نے سیکھی دوجہاں سے بے نیازی

*

تو مری نظر میں کافر ، میں تری نظر میں کافر

ترا دیں نفس شماری ، مرا دیں نفس گدازی

*

تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت

کہ موافق تدرواں نہیں دین شاہبازی

*

ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا

کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسم کارسازی

*

نہ جدا رہے نوا گر تب و تاب زندگی سے

کہ ہلاکی امم ہے یہ طریق نے نوازی

***

۶۲

بیداری

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار

شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق

*

اس کی نگہ شوخ پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق

*

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندۂ آفاق ہے ، وہ صاحب آفاق

*

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکی فطرت سے ہوا محرم اعماق

***

۶۳

خودی کی تربیت

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف

کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

*

یہی ہے سر کلیمی ہر اک زمانے میں

ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز!

***

آزادی فکر

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

*

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!

***

۶۴

خودی کی زندگی

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر

*

خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب

خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیان و حریر

*

نہنگ زندہ ہے اپنے محیط میں آزاد

نہنگ مردہ کو موج سراب بھی زنجیر!

***

حکومت

ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن

شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات

*

قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار

بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات

*

گرچہ اس دیر کہن کا ہے یہ دستور قدیم

کہ نہیں مے کدہ و ساقی و مینا کو ثبات

*

قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا

انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حیات!

****

___________________

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

۶۵

ہندی مکتب

اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا

موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات

*

بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے

پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات

*

آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال

کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات!

*

آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت

محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات

*

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات

*

محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا

ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات

*

محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی

موسیقی و صورت گری و علم نباتات

***

۶۶

تربیت

زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوز دماغ

*

علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

*

اہل دانش عام ہیں ، کم یاب ہیں اہل نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!

*

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!

***

خوب و زشت

ستارگان فضا ہائے نیلگوں کی طرح

تخیلات بھی ہیں تابع طلوع و غروب

*

جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب

یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے ناخوب

*

نمود جس کی فراز خودی سے ہو ، وہ جمیل

جو ہو نشیب میں پیدا ، قبیح و نا محبوب!

***

۶۷

مرگ خودی

خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور

خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام

*

خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب

بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام

*

خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر

قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

*

خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور

کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامۂ احرام!

***

مہمان عزیز

پر ہے افکار سے ان مدرسے والوں کا ضمیر

خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز!

*

چاہیے خانۂ دل کی کوئی منزل خالی

شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز

***

۶۸

عصر حاضر

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی

اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

*

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر

چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

*

مردہ ، 'لا دینی افکار سے افرنگ میں عشق

عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام!

***

طالب علم

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

*

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

***

۶۹

امتحان

کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے

فتادگی و سر افگندگی تری معراج!

*

ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو

مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج

*

جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا

کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارہ یا کہ زجاج

***

مدرسہ

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا ، جس نے

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش

*

دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا

زندگی موت ہے، کھو دیتی ہے جب ذوق خراش

*

اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا

جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش

*

فیض فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا

جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

*

مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو

خلوت کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش

***

۷۰

حکیم نطشہ

حریف نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم

نگاہ چاہیے اسرار 'لا الہ' کے لیے

*

خدنگ سینۂ گردوں ہے اس کا فکر بلند

کمند اس کا تخیل ہے مہرو مہ کے لیے

*

اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی

ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے

***

اساتذہ

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں

بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو

*

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار

کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!

*

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

***

۷۱

غزل

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

*

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ

*

فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے

تری نظر کا نگہباں ہو صاحب 'مازاغ'

*

وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس

چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ

*

کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

***

۷۲

دین و تعلیم

مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز

ہو نہ اخلاص تو دعوئے نظر لاف و گزاف

*

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

*

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

*

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

***

۷۳

جاوید سے

(۱)

غارت گر دیں ہے یہ زمانہ

ہے اس کی نہاد کافرانہ

*

دربار شہنشہی سے خوشتر

مردان خدا کا آستانہ

*

لیکن یہ دور ساحری ہے

انداز ہیں سب کے جاودانہ

*

سرچشمۂ زندگی ہوا خشک

باقی ہے کہاں م ے شبانہ!

*

خالی ان سے ہوا دبستاں

تھی جن کی نگاہ تازیانہ

*

جس گھر کا مگر چراغ ہے تو

ہے اس کا مذاق عارفانہ

*

جوہر میں ہو 'لاالہ' تو کیا خوف

تعلیم ہو گو فرنگیانہ

*

۷۴

شاخ گل پر چہک ولیکن

کر اپنی خودی میں آشیانہ!

*

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا

ہر قطرہ ہے بحر بیکرانہ

*

دہقان اگر نہ ہو تن آساں

ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ

*

''غافل منشیں نہ وقت بازی ست

وقت ہنر است و کارسازی ست''

***

۷۵

(۲)

سینے میں اگر نہ ہو دل گرم

رہ جاتی ہے زندگی میں خامی

*

نخچیر اگر ہو زیرک و چست

آتی نہیں کام کہنہ دامی

*

ہے آب حیات اسی جہاں میں

شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی

*

غیرت ہے طریقت حقیقی

غیرت سے ہے فقر کی تمامی

*

اے جان پدر! نہیں ہے ممکن

شاہیں سے تدرو کی غلامی

*

نایاب نہیں متاع گفتار

صد انوری و ہزار جامی!

*

ہے میری بساط کیا جہاں میں

بس ایک فغان زیر بامی

*

۷۶

اک صدق مقال ہے کہ جس سے

میں چشم جہاں میں ہوں گرامی

*

اللہ کی دین ہے ، جسے دے

میراث نہیں بلند نامی

*

اپنے نور نظر سے کیا خوب

فرماتے ہیں حضرت نظامی

*

''جاے کہ بزرگ بایدت بود

فرزندی من نداردت سود''

***

۷۷

(۳)

مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز

دین و دولت ، قمار بازی!

*

ناپید ہے بندۂ عمل مست

باقی ہے فقط نفس درازی

*

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر

جس فقر کی اصل ہے حجازی

*

اس فقر سے آدمی میں پیدا

اللہ کی شان بے نیازی

*

کنجشک و حمام کے لیے موت

ہے اس کا مقام شاہبازی

*

روشن اس سے خرد کی آنکھیں

بے سرمۂ بو علی و رازی

*

حاصل اس کا شکوۂ محمود

فطرت میں اگر نہ ہو ایازی

*

۷۸

تیری دنیا کا یہ سرافیل

رکھتا نہیں ذوق نے نوازی

*

ہے اس کی نگاہ عالم آشوب

درپردہ تمام کارسازی

*

یہ فقر غیور جس نے پایا

بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

*

مومن کی اسی میں ہے امیری

اللہ سے مانگ یہ فقیری

***

مرد فرنگ

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا

مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں

*

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں

گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

*

فساد کا ہے فرنگی معاشرت پہ ظہور

کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

***

۷۹

ایک سوال

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

*

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بے کار و زن تہی آغوش!

***

پردہ

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے

خدایا یہ دنیا جہاں تھی ، وہیں ہے

*

تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے

وہ خلوت نشیں ہے ، یہ خلوت نشیں ہے

*

ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم

کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

***

۸۰

خلوت

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ ، آئنۂ دل ہے مکدر

*

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

*

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

*

خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ، و لیکن

خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

***

عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

*

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

*

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

***

۸۱

آزادیِ نسواں

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند

*

کیا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

*

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردان خرد مند

*

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلو بند!

***

عورت کی حفاظت

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

*

نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

*

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

***

۸۲

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

۸۳

دین و ہنر

سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر

گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

*

ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی

بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ

*

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ

*

ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی

خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

***

۸۴

تخلیق

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

*

خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اس آبجو سے کیے بحر بے کراں پیدا

*

وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے

جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا

*

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

*

ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے

عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا

***

۸۵

جنوں

زجاج گر کی دکاں شاعری و ملائی

ستم ہے ، خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ!

*

کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں

کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ

*

ہجوم مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو

کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ

***

اپنے شعر سے

ہے گلہ مجھ کو تری لذت پیدائی کا

تو ہوا فاش تو ہیں اب مرے اسرار بھی فاش

*

شعلے سے ٹوٹ کے مثل شرر آوارہ نہ رہ

کر کسی سینۂ پر سوز میں خلوت کی تلاش!

***

۸۶

پیرس کی مسجد

مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

*

حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

*

یہ بت کدہ انھی غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

***

ادبیات

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے

*

کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے

یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے

***

۸۷

نگاہ

بہار و قافلۂ لالہ ہائے صحرائی

شباب و مستی و ذوق و سرود و رعنائی!

*

اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی

یہ بحر ، یہ فلک نیلگوں کی پہنائی!

*

سفر عروس قمر کا عماری شب میں

طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی!

*

نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں

کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی

***

___________________

ریاض منزل(دولت کدۂ سرراس مسعود ) بھوپال میں لکھے گئے

۸۸

مسجد قوت الاسلام

ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی

'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود

*

چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو

کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود

*

کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے

کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود

*

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز

جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود

*

اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت ، وہ گداز

بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود

*

ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی ، نہ شکوہ

کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟

***

۸۹

تیاتر

تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود

حیات کیا ہے ، اسی کا سرور و سوز و ثبات

*

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

*

حریم تیرا ، خودی غیر کی ! معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

*

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی ، نہ ساز حیات

***

۹۰

شعاع امید

(۱)

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام

دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام

*

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام

*

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت

نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

*

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ

چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

(۲)

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں

بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش

*

اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن

افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

*

مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم

لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش

*

پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے

اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

***

۹۱

(۳)

اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور

آرام سے فارغ ، صفت جوہر سیماب

*

بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو

جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

*

چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو

جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب

*

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

*

چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن

یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزۂ درناب

*

اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی

جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب

*

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں

محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

*

۹۲

بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن

تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب

*

مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

***

۹۳

امید

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں

اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نے امیر جنود

*

مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور

عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود

*

جبین بندۂ حق میں نمود ہے جس کی

اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود

*

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں

کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود

*

غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی

نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود

***

___________________

ریاض منزل (دولت کدئہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۹۴

نگاہ شوق

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی

*

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی

*

اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند

ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی

*

اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری

اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

*

اسی نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں میرا

سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی

*

نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

***

۹۵

اہل ہنر سے

مہر و مہ و مشتری ، چند نفس کا فروغ

عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود

*

تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک

ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود

*

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر

تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود

*

روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار

تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود

*

اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو

تیری سپہ انس و جن ، تو ہے امیر جنود

***

۹۶

غزل

دریا میں موتی ، اے موج بے باک

ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک

*

میرے شرر میں بجلی کے جوہر

لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک

*

تیرا زمانہ ، تاثیر تیری

ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک

*

ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے

جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

*

کامل وہی ہے رندی کے فن میں

مستی ہے جس کی بے منت تاک

*

رکھتا ہے اب تک میخانۂ شرق

وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

*

اہل نظر ہیں یورپ سے نومید

ان امتوں کے باطن نہیں پاک

***

۹۷

وجود

اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود

کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود!

*

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!

*

مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند

بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود

***

سرود

آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرود مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے

*

دل کیا ہے ، اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے

کیوں اس کی اک نگاہ الٹتی ہے تخت کے

*

کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات

کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے

*

کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں

جچتی نہیں ہے سلطنت روم و شام و رے

*

جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

***

۹۸

نسیم و شبنم

نسیم

انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی

کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک

*

مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر

بے ذوق ہیں بلبل کی نوا ہائے طرب ناک

*

دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم

خاک چمن اچھی کہ سرا پردۂ افلاک!

***

شبنم

کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک

گلشن بھی ہے اک سر سرا پردۂ افلاک

اہرام مصر

اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں

فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

*

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک

کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر!

*

فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو

صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر

***

۹۹

مخلوقات ہنر

ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر

فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانۂ ذات

*

نہ خودی ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور

زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات

*

آہ ، وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم

عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات!

*

تو ہے میت ، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام

نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات!

***

اقبال

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی

مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش

*

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش!

***

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164