ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 22%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108507 / ڈاؤنلوڈ: 2651
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خلوت

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ ، آئنۂ دل ہے مکدر

*

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

*

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

*

خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ، و لیکن

خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

***

عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

*

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

*

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

***

۸۱

آزادیِ نسواں

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند

*

کیا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

*

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردان خرد مند

*

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلو بند!

***

عورت کی حفاظت

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

*

نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

*

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

***

۸۲

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

۸۳

دین و ہنر

سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر

گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

*

ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی

بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ

*

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ

*

ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی

خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

***

۸۴

تخلیق

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

*

خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اس آبجو سے کیے بحر بے کراں پیدا

*

وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے

جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا

*

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

*

ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے

عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا

***

۸۵

جنوں

زجاج گر کی دکاں شاعری و ملائی

ستم ہے ، خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ!

*

کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں

کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ

*

ہجوم مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو

کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ

***

اپنے شعر سے

ہے گلہ مجھ کو تری لذت پیدائی کا

تو ہوا فاش تو ہیں اب مرے اسرار بھی فاش

*

شعلے سے ٹوٹ کے مثل شرر آوارہ نہ رہ

کر کسی سینۂ پر سوز میں خلوت کی تلاش!

***

۸۶

پیرس کی مسجد

مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

*

حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

*

یہ بت کدہ انھی غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

***

ادبیات

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے

*

کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے

یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے

***

۸۷

نگاہ

بہار و قافلۂ لالہ ہائے صحرائی

شباب و مستی و ذوق و سرود و رعنائی!

*

اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی

یہ بحر ، یہ فلک نیلگوں کی پہنائی!

*

سفر عروس قمر کا عماری شب میں

طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی!

*

نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں

کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی

***

___________________

ریاض منزل(دولت کدۂ سرراس مسعود ) بھوپال میں لکھے گئے

۸۸

مسجد قوت الاسلام

ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی

'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود

*

چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو

کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود

*

کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے

کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود

*

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز

جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود

*

اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت ، وہ گداز

بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود

*

ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی ، نہ شکوہ

کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟

***

۸۹

تیاتر

تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود

حیات کیا ہے ، اسی کا سرور و سوز و ثبات

*

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

*

حریم تیرا ، خودی غیر کی ! معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

*

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی ، نہ ساز حیات

***

۹۰

شعاع امید

(۱)

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام

دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام

*

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام

*

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت

نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

*

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ

چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

(۲)

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں

بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش

*

اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن

افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

*

مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم

لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش

*

پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے

اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

***

۹۱

(۳)

اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور

آرام سے فارغ ، صفت جوہر سیماب

*

بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو

جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

*

چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو

جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب

*

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

*

چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن

یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزۂ درناب

*

اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی

جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب

*

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں

محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

*

۹۲

بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن

تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب

*

مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

***

۹۳

امید

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں

اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نے امیر جنود

*

مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور

عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود

*

جبین بندۂ حق میں نمود ہے جس کی

اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود

*

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں

کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود

*

غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی

نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود

***

___________________

ریاض منزل (دولت کدئہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۹۴

نگاہ شوق

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی

*

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی

*

اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند

ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی

*

اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری

اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

*

اسی نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں میرا

سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی

*

نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

***

۹۵

اہل ہنر سے

مہر و مہ و مشتری ، چند نفس کا فروغ

عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود

*

تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک

ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود

*

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر

تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود

*

روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار

تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود

*

اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو

تیری سپہ انس و جن ، تو ہے امیر جنود

***

۹۶

غزل

دریا میں موتی ، اے موج بے باک

ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک

*

میرے شرر میں بجلی کے جوہر

لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک

*

تیرا زمانہ ، تاثیر تیری

ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک

*

ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے

جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

*

کامل وہی ہے رندی کے فن میں

مستی ہے جس کی بے منت تاک

*

رکھتا ہے اب تک میخانۂ شرق

وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

*

اہل نظر ہیں یورپ سے نومید

ان امتوں کے باطن نہیں پاک

***

۹۷

وجود

اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود

کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود!

*

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!

*

مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند

بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود

***

سرود

آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرود مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے

*

دل کیا ہے ، اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے

کیوں اس کی اک نگاہ الٹتی ہے تخت کے

*

کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات

کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے

*

کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں

جچتی نہیں ہے سلطنت روم و شام و رے

*

جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

***

۹۸

نسیم و شبنم

نسیم

انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی

کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک

*

مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر

بے ذوق ہیں بلبل کی نوا ہائے طرب ناک

*

دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم

خاک چمن اچھی کہ سرا پردۂ افلاک!

***

شبنم

کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک

گلشن بھی ہے اک سر سرا پردۂ افلاک

اہرام مصر

اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں

فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

*

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک

کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر!

*

فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو

صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر

***

۹۹

مخلوقات ہنر

ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر

فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانۂ ذات

*

نہ خودی ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور

زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات

*

آہ ، وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم

عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات!

*

تو ہے میت ، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام

نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات!

***

اقبال

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی

مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش

*

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش!

***

۱۰۰

فنون لطیفہ

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا

*

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

*

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا ، وہ گہر کیا

*

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

*

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!

***

۱۰۱

صبح چمن

پھول

شاید تو سمجھتی تھی وطن دور ہے میرا

اے قاصد افلاک! نہیں ، دور نہیں ہے

***

شبنم

ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن

یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے

***

صبح

مانند سحر صحن گلستاں میں قدم رکھ

آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے

*

ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش ، و لیکن

ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے!

***

۱۰۲

خاقانی

وہ صاحب 'تحفۃ العراقین،

ارباب نظر کا قرۃالعین

*

ہے پردہ شگاف اس کا ادراک

پردے ہیں تمام چاک در چاک

*

خاموش ہے عالم معانی

کہتا نہیں حرف 'لن ترانی'!

*

پوچھ اس سے یہ خاک داں ہے کیا چیز

ہنگامۂ این و آں ہے کیا چیز

*

وہ محرم عالم مکافات

اک بات میں کہہ گیا ہے سو بات

*

''خود بوے چنیں جہاں تواں برد

کابلیس بماند و بوالبشر مرد!''

***

۱۰۳

رومی

غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک

ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک

*

ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک

کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک

*

گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک

کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک!

***

جدت

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے

*

خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے

ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے

*

دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

*

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

***

۱۰۴

مرزا بیدل

ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد

یہ زمیں، یہ دشت ، یہ کہسار ، یہ چرخ کبود

*

کوئی کہتا ہے نہیں ہے ، کوئی کہتاہے کہ ہے

کیا خبر ، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!

*

میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ

اہل حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!

*

''دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن

رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود''

***

جلال و جمال

مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی

ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک

*

مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی

کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

*

نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر

نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

*

مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک!

***

۱۰۵

مصور

کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل

ہندی بھی فرنگی کا مقلد ، عجمی بھی !

*

مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد

کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی

*

معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات

صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی ، نئی بھی

*

فطرت کو دکھایا بھی ہے ، دیکھا بھی ہے تو نے

آئینۂ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی!

***

سرود حلال

کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل

نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود!

*

ہے ابھی سینۂ افلاک میں پنہاں وہ نوا

جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود

*

۱۰۶

جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک

اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود

*

مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے

تو رہے اور ترا زمزمۂ لا موجود

*

جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی

منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود!

***

سرود حرام

نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور

نہ میرا فکر ہے پیمانۂ ثواب و عذاب

*

خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے

فقیہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب

*

اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام

حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب!

***

۱۰۷

فوارہ

یہ آبجو کی روانی ، یہ ہمکناری خاک

مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ

*

ادھر نہ دیکھ ، ادھر دیکھ اے جوان عزیز

بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ

***

شاعر

مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے

شاعر ! ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے

*

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم

اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے

*

شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو

شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے

*

ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے

بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے

*

ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلۂشوق نہ ہو طے!

***

۱۰۸

شعر عجم

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز

اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز

*

افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں

بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

*

وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے

جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز

*

اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

'از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز'

***

ہنروران ہند

عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا

ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار

*

موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں

زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار

*

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند

کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار

*

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!

***

۱۰۹

مرد بزرگ

اس کی نفرت بھی عمیق ، اس کی محبت بھی عمیق

قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

*

پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں

ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

*

انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو

شمع محفل کی طرح سب سے جدا ، سب کا رفیق

*

مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں

بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق

*

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا

اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق

***

عالم نو

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر

خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر

*

اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے

کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

*

بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کف خاک

روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر

***

۱۱۰

ایجاد معانی

ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد

کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد!

*

خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر

میخانۂ حافظ ہو کہ بتخانۂ بہزاد

*

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شرر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد!

***

موسیقی

وہ نغمہ سردی خون غزل سرا کی دلیل

کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تاب ناک نہیں

*

نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود

وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

*

پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں

کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں

***

۱۱۱

ذوق نظر

خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی

کہا غریب نے جلاد سے دم تعزیر

*

ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر

ذرا میں دیکھ تو لوں تاب ناکی شمشیر!

***

شعر

میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن

یہ نکتہ ہے ، تاریخ امم جس کی ہے تفصیل

*

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے

یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل

***

رقص و موسیقی

شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن

*

فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن

شعر گویا روح موسیقی ہے ، رقص اس کا بدن

***

۱۱۲

ضبط

طریق اہل دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا

نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شان درویشی

*

یہ نکتہ پیر دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا

کہ ہے ضبط فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی!

***

رقص

چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے خم و پیچ

روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی!

*

صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن

صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی

***

۱۱۳

سیاسیاست مشرق و مغرب

اشتراکیت

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار

*

اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار

*

انساں کی ہوس نے جنھیں رکھا تھا چھپا کر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

*

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

*

جو حرف 'قل العفو' میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

***

۱۱۴

کارل مارکس کی آواز

یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمائش

نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

*

تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمائش

*

جہان مغرب کے بت کدوں میں ، کلیسیاؤں میں ، مدرسوں میں

ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش

***

۱۱۵

انقلاب

نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات

خودی کی موت ہے یہ ، اور وہ ضمیر کی موت

*

دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا

قریب آگئی شاید جہان پیر کی موت!

***

خوشامد

میں کار جہاں سے نہیں آگاہ ، ولیکن

ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز

*

کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد

دستور نیا ، اور نئے دور کا آغاز

*

معلوم نہیں ، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت

کہہ دے کوئی الو کو اگر 'رات کا شہباز

***

۱۱۶

مناصب

ہوا ہے بندۂ مومن فسونی افرنگ

اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک

*

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب

کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک

*

مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی

سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعت چالاک

*

شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک!

***

یورپ اور یہود

یہ عیش فراواں ، یہ حکومت ، یہ تجارت

دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی

*

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے

یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی

*

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ

شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی!

***

۱۱۷

نفسیات غلامی

شاعر بھی ہیں پیدا ، علما بھی ، حکما بھی

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

*

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک

ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ

*

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ،

*

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

***

غلاموں کے لیے

حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے

ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر

*

دین ہو ، فلسفہ ہو ، فقر ہو ، سلطانی ہو

ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر

*

حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں

ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!

***

۱۱۸

اہل مصر سے

خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو

وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم

*

دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم

ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم

*

ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی

کبھی شمشیر محمد ہے ، کبھی چوب کلیم!

***

ابی سینیا

(۱۸اگست۱۹۳۵)

یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر

ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش

*

ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش!

تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال

*

غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش

ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش!

*

اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ

روما نے کر دیا سر بازار پاش پاش

*

پیر کلیسیا ! یہ حقیقت ہے دلخراش!

***

۱۱۹

جمعیت اقوام مشرق

پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر

کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے

*

دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب

ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

*

طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

***

____________________

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164