پہلی فصل : شادی!ایک مشکل مسئلہ
۱ ۔ شریک حیات کے انتخاب میں مشکلات کا سامنا ۔
سبھی جوان ان مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ان آخری سالوں میں شادیوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔اور مقابلہ میں شادی کرنے کے سن و سال میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے ،خصوصا بڑے شہر اور متمدن شہر وں میں رہنے والے افراد اس بلا کازیادہ شکار ہیں ۔یہاں تک کہ شادیاں اتنی زیادہ عمر میں ہوتی ہیں کہ جوان اپنے تمام جوش و خروش اور تازگی کو گواں بیٹھتا ہے اور شادی کا مناسب و بہتر ین وقت جاچکا ہوتا ہے ۔
شادی کی تاخیرکے بہت سے اسباب وعلل ہیں، مندرجہ ذیل چار اسباب خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔
۱ ۔ پڑھائی کی مدت کا طولانی ہونا ۔
۲ ۔ناجائز تعلقات یا روابط کا آسانی سے فراہم ہو جانا ۔
۳ ۔ دلخواہ ضرورتوں اور شادی کے سنگین اخراجات کا فراہم نہ ہونا ۔
۴ ۔ لڑکے لڑکیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہونا ۔
ہم اس مقام پر ابتدائی دو قسمیں جو زیادہ اہمیت رکھتی ہیںانہیں زیر بحث لائیں گے ۔
معاشرے کے بعض بزرگ افراد نے ان خطیر اسباب پر غور و فکر کرنے اور ایسے خطرناک اسباب سے مقابلہ کرنے کی بجائے جبری طور پر شادی کی پیشکس کی ہے ۔گویا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ایک مالی جرمانہ رکھا جائے اور جوانوں کو زبردستی شادی کرکے ان کو لباس خانوادگی پہنے پر مجبورکر دیا جائے ۔یا مختلف اداروں میں جوانوں کوایک خاص عمر کی شرط کے ساتھ نوکری دی جائے اور انہیں اس مشکل سے نجات دلائی جائے ۔ یا کوئی سنگین سرزنش اور سزا ایسے جوانوں کے لیے مقرر کی جائے ۔
بعض جوانوں نے ہم سے یہ سوال کیا ہے کہ کیا آپ کی رائے میں اس طرح کے اقدامات اور کوششیں صحیح ہیں؟۔
ہماری رائے کے مطابق ” زبردستی شادی “ سے مراد اگر جوانوں کو اداروں میں ملازمت نہ دینے وغیرہ کے ذریعہ مجبور کیا جائے تو شاید یہ عمل وقتی طور پر تو کسی حد تک اثر انداز، لیکن یہ طریقہ اس مسئلہ کا بنیادی راہ حل نہیں ہو سکتا کہ شادی میں کمی جو ایک خطرناک مصیبت معاشرہ کو لاحق ہو رہی ہے اسکا خاتمہ کرسکے ۔ بلکہ بہت ممکن ہے غیر مطلوب عکس العمل کا سامنا کرنا پڑ جائے ۔
اصل میں ” شادی اور ” اجبار “ یہ دو کلمہ ایک دوسرے کے لیے متضاد ہیں ۔ اور یہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ، ازدواج اجباری کی مثال زبردستی والی دوستی اور محبت کی ہے ( جو ناممکن ہے )۔
ازدواج (کے حقیقی معنی) جسم و روح کا ایک ایسا رابطہ ہے جو ایک مشترک زندگی کو سعادت و سکون کے ساتھ ایک اٹوٹ بندھن میں باندھتا ہے ۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ازدواج ایسے حالات میں ہو کہ جہاں کاملا آزادی کا ماحول اور کسی قسم کی زوروز بردستی نہ پائی جاتی ہو ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر اس شادی یا نکاح کا مردود و باطل قراردیا ہے جو طرفین کی رضایت کے بغیر وجود میں آئے ۔
شادی فوجی ملازمت کی طرح نہیں ہے کہ مثلا کسی کو قانون کے حکم سے فوجی کیمپ میں لے جا کر اسے خاص کنٹرول کے ساتھ نظامی فنون سیکھنے کی ترغیب دلائی جائے ۔
تعجب کا مقام یہ ہے کہ اہل فن حضرات موجودہ مشکلات کی اساس و بنیاد کی معرفت کے بغیر کوشش کرتے ہیں کہ ان تمام مشکلات کو جو معاشرتی برائیوں کا نتیجہ ہے دور کریں ۔
میری نظر میں ان بحثوں کے بجائے اگرچہ قابل عمل بھی ہوں ہمیں چاہےے کہ ان فروع کی جڑوں تک پہنچیں اور انہیں اس طرح جلا دیا جائے کہ ایسی غیر طبیعی و غیر منطقی مشکلات معاشرے میں کبھی جنم لیں ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں مسائل پر گفتگو کی جائے جو ہمارے معاشرے میںیقینا اور مطلقا ازدواج کی کمی کے سبب بنتے ہیں ۔
جوانوں کی شادی میں پہلی اوربڑی مشکل پڑھائی کی مدت کا طویل ہونا ہے :
اگرچہ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ ہر آدمی فقط تحصیل علم ہی کی وجہ سے شادی شدہ زندگی سے فرارکرتاہے، بلکہ بہت سے جوان ایسے بھی ہیں کہ جو تحصیل علم سے فارغ ہو چکے ہیں ، پھر بھی غیر شادی شدہ ہیں یا پڑھائی چھوڑ ے ہوئے زمانہ گزر گیا مگر شادی نہیں کی ہے ۔
لیکن اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پڑھائی کی طویل مدت بھی بہت سے جوانوں کے لیے شادی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔
پڑھائی کی مدت ہر فن میں تقریبا ۱۸ سال یا کچھ کم ہوتی ہے لہذا اس دور میں ایک جوان کو پڑھائی سے آزاد ہونے کے لیے تقریبا ۲۵ سال کی عمر درکار ہے (فارسی کا محاورہ ہے جوانی مفید جستجو و تلاش کا نام ہے ) اس وقت اگر ہم لفظ جوانی کا صحیح اور واقعی معنی اسکے لیے استعمال کریں تو
( صحیح نہ ہوگا)گویا وہ جوانی کا بہترین حصہ چھوڑ چکا ہے اور اب جو اسکے پاس ( عمر کا حصہ )بچا ہے اسکی حیثیت ایسی ہے جیسے ایک صفحہ میں حاشیہ کی حیثیت ہوتی ہے ۔ اور ابھی آگے چل کر اس طالب علم کو اگر پڑھائی کی تکمیل کے لیے تخصص کرناہے تو اسکی عمر تقریبا ۳۵ سال ہو جائیگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا شادی کو پڑھائی کے مکمل ہونے تک موقوف کیا جائے (خواہ پڑھائی کی تکمیل میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے )
یا اس رابطہ( کہ جب تک پڑھائی مکمل نہ ہو شادی نہیں کرنا چاہےے) کو ختم کردیا جائے اور جوانوں کو اس ناقبل برداشت شرط سے آزاد کر دیا جائے ؟
(اور شادی کر دی جائے ) جیسا کہ بعض دانشوروں کا کہنا ہے ۔
دوسری جہت سے اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر جوان طالب علم کے اخراجات ہوتے ہیںوہ صرف خرچ کرنا جانتا ہے اور اخراجات کی اسے ضرورت بھی ہوتی ہے جبکہ ابھی وہ کمانے کی حالت میں نہیں اور نہ ہی اسکی کوئی آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے بھلا ایسے عالم میں وہ شادی کیسے کر سکتا ہے اور اس سنگین کمر شکن بار کو کیسے اٹھا سکتاہے ۔؟
میری نظر میں اگر ہم ایک لمحے کے لیے آزادانہ تفکر کریں تو اس مسئلہ کا حل اس قدر مشکل نہیں ہے اس پر روشنی ڈالی جا سکتی اسکا حل یہ ہے کہ
: جوانوں کو چاہےے کہ پڑھائی کے دوران جب ایک مناسب عمر کو پہنچ جائیں تو اپنے والدین ، دوستوں اور ہمدرد افراد کے مشورے کے ساتھ اپنے لیے شریک حیات منتخب کریں اور ابتداء میں ایک جائز رشتہ قائم کرلیں (عقد نکاح اور مذہبی و قانونی مراسم کے ساتھ )کہ جسکے لیے بہت زیادہ تشریفات اور انتظامات کی ضرورت نہ ہو اور غیر معمولی اخراجات نہ کرنے پڑیں ۔ تاکہ لڑکا اور لڑکی یہ بات جان لیں کہ انکا ایک دوسرے سے جائز رشتہ ہے اور وہ آئندہ ایک دوسرے کے شریک حیات ہونے والے ہیں ۔ اور امکانات کے فراہم ہوتے ہی پہلی فرصت میں شادی و رخصتی کے بقیہ مراسم سادگی اور عزت و احترام کے ساتھ مکمل کرلےے جائیں ۔ اس طریقہ کار کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ جوانوں کو روحانی سکون و اطمئنان حاصل ہوجائیگا ۔ اس کے نتیجہ میں ان کی زندگی میں ایک خاص روشنی پیدا ہوجائیگی۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ عمل ان کی وحشتناک شیطانی وسوسوں سے جو ایک غیر شادی شدہ جوان کوآئندہ کی زندگی کے حوالے سے نقصان پہنچاتے ہیں نجات دہندہ ثابت ہوگا ۔
ٍ اور یہ طریقہ جوانوں کو بہت سی اخلاقی کجرویوں سے محفوظ رکھ سکتاہے اور شادی کے امکانات فراہم ہونے کے بعد جو وقت ہم سفر کی تلاش میں صرف ہوتا ہے اسکی بچت کرتاہے ۔ نجات اور آزادگی کے ساتھ انکی زندگی کو ایک فطری مسیر پر گامزن ہونے میں مددگار ثابت ہوگا ۔اس طرح کا عمل اکثر جوانوں کے لیے ممکن ہے اگرجوانوں کے ساتھ انکے والدین فکر و تامل سے کا م لیں اور خود جوان بھی فکر سلیم کے ساتھ عمل کریں ۔ اگر یہ طریقہ معاشرے اور مجتمع میں صحیح طریقے سے عملی دنیا میں قدم رکھلے تو دیگر بہت سے مسائل جو جوانوں سے تعلق رکھتے ہیں خودبخود آسان ہو جائیںگے ۔
مختصر یہ کہ اس شرعی نطریقے (عقد نکاح) اور لڑکی لڑکے کے اس جائز رشتہ کی برقراری سے نوجوانوں کو اپنی کچھ جنسی ضرورتوں کے پورا کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے ۔اس لیے کہ یہ نام زد کا زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ جو شادی شدہ زندگی کی بہت سی خصوصیات کو اپنے دامن میں لےئے ہوئے ہے ۔ اور کسی حد تک جوانوں کی جنسی ضرورتوں کا بھی جبران کرتاہے ۔( اسبات کی شرح محتاح بیان نہیں ہے )
اور اس طریقے سے جوانوں کو جنسی کجرویوں اور فحاشیت کی گندگی سے بچایا جا سکتاہے جبکہ اس عمل سے لڑکے اور لڑکی کے اہل خانہ زیادہ اضافی اخراجات سے بھی بچے رہتے ہیں، بچے پیداہونے اور اسکے سبب اثر انداز ہونے والی مشکلات سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔
دوسرا راستہ جوانوں کی پڑھائی کے ایام میں وہی راستہ ہے کہ شادی کے اقدامات رخصتی سمیت مکمل ہو جائیں، لیکن خاص روش کو اختیار کیا جائے جو آج کے دور میں بہت عام ہے ( اوربہت سے طریقے اسمیں شرعی اعتبار سے جائز بھی ہیں) وہ یہ کہ نطفے کے انعقاد سے پرہیز کیا جائے ( اگرچہ شادی کا ہدف اور ثمر بچہ ہی ہوتاہے )کیونکہ ان ایام میں اس طرح کے اخراجات ایک جوان طالب علم برداشت نہیں کر سکتا جو کہ اسکی پڑھائی کی تکمیل میں مشکل ایجاد کرتے ہیں ۔ لیکن یہ تمام بحث اس صورت میں نفغ بخش ہوگی کہ جب شادی کی رسم و رسومات بے ہودہ ،احمقانہ اور کمرتوڑدینے والے اخراجات سے خالی اور سادگی سے انجام دی جائیں ۔
در حقیقت اگر والدین اور خود جوان سعادت مندی و خوش بختی کے طلبگار ہیں تو انکے لیے یہ بہترین راستہ ہے ۔ پڑھائی کی تکمیل کا انتظار اور اسکے بعد اچھی ملازمت یا کاروبار کا انتظام،گاڑی کا بندوبست، دوسرے وسائل خانہ اور شادی کے نا قابل برداشت اخراجات کا انتظام وغیرہ ان تمام چیزوں کے انتظار کا نتیجہ جوانوں کی آلودگی اور ہزار وں انحرافات کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا جب تک جوان کی عمر ۳۵ یا ۴۰ برس کے قریب ہو جاتی ہے جو سرکاری اعتبار سے انسان کی ریٹائرمینٹ عمر ہوتی ہے اس طرح کی شادیاں سو فی صد روحانی اور حقیقی معنی میں ناکام اور غیر طبیعی ہوجاتی ہیں ۔اسلئے کہ اس طرح کی شادی انسانیت اور اسکی ضرورتوں کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں رکھتی ہیں،اور نہ ہی شادی کے اصلی اور معین ہدف کو پورا کرتی ہیں ۔