جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل 0%

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22557
ڈاؤنلوڈ: 4245

تبصرے:

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22557 / ڈاؤنلوڈ: 4245
سائز سائز سائز
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

كتاب:جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مصنف آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی

مقدمہ :

گھروالوں کو بیدار کرنے کے لیے چند ضروری ہدایات:

والدین غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ،اور جوان بچے جنکے لیے زندگی کے سانحات یقینی اور مسلم ہیں، بے اعتنائی اور لا پرواہی کا شکار ہیں، یا یوں کہا جائے مشکلات کی وحشت کو دور کرنے کی بجائے اسے بھلا دینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ اوریا ڈپلومیٹک سیاست کی اصطلاح میں مشکلات کے مقابلہ میں صبر و اننظار کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔

ایسے حالات میں ہزاروں بے گناہ نو جوان اس لا پرواہی ، بے اعتنائی اور جہالت کی بلی چڑھ جاتے ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں پورے سال ہزاروں ادارے ، سیمینار ، کانفرنس اور ان جیسے اجتماع منعقدکرتے ہیں تاکہ سمندروں کی تہوںمیں موجود معادن کا پتہ لگاسکیں ۔ مختلف جانوروں ، سمندروں، ہواؤں ، طوفانوں کے رخ ، رات کے وقت تابیدہ ہونے والےے کیڑے مکوڑے اور ان جیسی چیزوں پر تو غور و فکر کی جاتی ہے اور دنیا بھر کے دانشور حضرات جمع ہو کر اسطرح کے موضوعات پر تو بحث و مباحثہ کرتے ہیں لیکن جس موضوع پر گفتگو ہونی چاہےے وہ بہت ہی کم اور معمولی ہے ۔ جبکہ جوانوں سے متعلق مسائل پر بحثیں جو کہ اس وقت بہت مبتلا بہ اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں اور دنیا والوں کے لیے قیمتی ذخیرہ کی حیثیت رکھتی ہیں زیر بحث نہیں لائی جاتیں ۔

اسکا راہ حل کیا ہو سکتا ہے؟

ہماری اج کی دنیا پر عقل و منطق کا حکم کار فرما نہیں ہوتاہے، حقیقت اور اساس کو شمار میں نہیں لایا جاتا ۔شاید سانحات کے راستوں اور مشکلات کو سرے سے ذاتی ،جذباتی ، دل بہلاؤ اور محض ایک سطحی ظاہری اور معاشرتی اسباب قرار دیا جاتا ہے ۔ورنہ اس اہم بحث کو اس درجہ نظر انداز نہ کیا جاتا اورصاحبان علم کی لاپرواہی ،والدین کی اہم ذمہ داری کے آڑے نہیں آتی ، انہیں چاہےے کہ وہ اپنے اس فریضہ کو فراموش نہ کریں ، فارسی کی مثل ہے کہ اگر بچہ پر دائی کو رحم نہیں آتا اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماںکو بھی رحم نہ آئے ۔

آج کے جوانوں کے لیے مشکلات کی بھرمار میں جو اہمیت جنسی مسائل کی ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے ۔ اور نہایت ہی افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ زندگی کی اس تیز رفتاری ، علم اور خصوصی دورات کی تحصیل میں وقت کی طوالت ، خاندانوں کی ترقی، جوان لڑکے لڑکیوں کے قدم کی لغزشیں، ایسے حالات میں یہ مسائل مزید پیچیدہ اور سخت ہو گئے ہیں ۔

ہم نے ا س کتاب میں صریحی اور واضح طور پر ان مشکلات کو بیان کیا ہے اور راہ حل کی نشاندہی بھی کی ہے ۔ جبکہ بغض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس طرح کے مسائل زیر بحث نہیںلا نا چاہےے( جنکا کوئی حل نہیں ہے ) لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ ایسا ہزگز نہیں اور اگر سبھی والدین اور جوان ان مسائل کے حل کرنے پر کمربستہ ہوجائیں تو منزل دور نہیں ہے ۔

ہم نے اس کتاب میں ضمنی طور پر ” جنسی کج رویوں “ اور اسکے علاج اور رکاوٹ کے بارے میں مستقل بحثیں پیش کی ہیں ۔ جسکے مطالعہ سے یقینا تمام جوان افراد وافرمقدار میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں ، اور اس مشکل و بلا سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بحثیں رسالہ ” نسل جوان “ میں طبع ہوچکی ہیں ۔ لیکن بعض لوگوں کی درخواست اور اصرار پر ( وہ خطوط جو طباعت کے دفتر میں بھیجے گئے ) تجدید نظر اور تکملہ کے ساتھ اس کتاب میں ذکر کی گئی ہیں ۔ ہم خدا وند کریم کی بارگاہ میںدعا گو ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ سبھی جوان اس کتاب کے دستور ات اور اصول سے فائدہ حاصل کرکے زندگی کے ان حساس مسائل کو حل کریں ۔

پہلی فصل : شادی!ایک مشکل مسئلہ

۱ ۔ شریک حیات کے انتخاب میں مشکلات کا سامنا ۔

سبھی جوان ان مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ان آخری سالوں میں شادیوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔اور مقابلہ میں شادی کرنے کے سن و سال میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے ،خصوصا بڑے شہر اور متمدن شہر وں میں رہنے والے افراد اس بلا کازیادہ شکار ہیں ۔یہاں تک کہ شادیاں اتنی زیادہ عمر میں ہوتی ہیں کہ جوان اپنے تمام جوش و خروش اور تازگی کو گواں بیٹھتا ہے اور شادی کا مناسب و بہتر ین وقت جاچکا ہوتا ہے ۔

شادی کی تاخیرکے بہت سے اسباب وعلل ہیں، مندرجہ ذیل چار اسباب خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔

۱ ۔ پڑھائی کی مدت کا طولانی ہونا ۔

۲ ۔ناجائز تعلقات یا روابط کا آسانی سے فراہم ہو جانا ۔

۳ ۔ دلخواہ ضرورتوں اور شادی کے سنگین اخراجات کا فراہم نہ ہونا ۔

۴ ۔ لڑکے لڑکیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہونا ۔

ہم اس مقام پر ابتدائی دو قسمیں جو زیادہ اہمیت رکھتی ہیںانہیں زیر بحث لائیں گے ۔

معاشرے کے بعض بزرگ افراد نے ان خطیر اسباب پر غور و فکر کرنے اور ایسے خطرناک اسباب سے مقابلہ کرنے کی بجائے جبری طور پر شادی کی پیشکس کی ہے ۔گویا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ایک مالی جرمانہ رکھا جائے اور جوانوں کو زبردستی شادی کرکے ان کو لباس خانوادگی پہنے پر مجبورکر دیا جائے ۔یا مختلف اداروں میں جوانوں کوایک خاص عمر کی شرط کے ساتھ نوکری دی جائے اور انہیں اس مشکل سے نجات دلائی جائے ۔ یا کوئی سنگین سرزنش اور سزا ایسے جوانوں کے لیے مقرر کی جائے ۔

بعض جوانوں نے ہم سے یہ سوال کیا ہے کہ کیا آپ کی رائے میں اس طرح کے اقدامات اور کوششیں صحیح ہیں؟۔

ہماری رائے کے مطابق ” زبردستی شادی “ سے مراد اگر جوانوں کو اداروں میں ملازمت نہ دینے وغیرہ کے ذریعہ مجبور کیا جائے تو شاید یہ عمل وقتی طور پر تو کسی حد تک اثر انداز، لیکن یہ طریقہ اس مسئلہ کا بنیادی راہ حل نہیں ہو سکتا کہ شادی میں کمی جو ایک خطرناک مصیبت معاشرہ کو لاحق ہو رہی ہے اسکا خاتمہ کرسکے ۔ بلکہ بہت ممکن ہے غیر مطلوب عکس العمل کا سامنا کرنا پڑ جائے ۔

اصل میں ” شادی اور ” اجبار “ یہ دو کلمہ ایک دوسرے کے لیے متضاد ہیں ۔ اور یہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ، ازدواج اجباری کی مثال زبردستی والی دوستی اور محبت کی ہے ( جو ناممکن ہے )۔

ازدواج (کے حقیقی معنی) جسم و روح کا ایک ایسا رابطہ ہے جو ایک مشترک زندگی کو سعادت و سکون کے ساتھ ایک اٹوٹ بندھن میں باندھتا ہے ۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ازدواج ایسے حالات میں ہو کہ جہاں کاملا آزادی کا ماحول اور کسی قسم کی زوروز بردستی نہ پائی جاتی ہو ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر اس شادی یا نکاح کا مردود و باطل قراردیا ہے جو طرفین کی رضایت کے بغیر وجود میں آئے ۔

شادی فوجی ملازمت کی طرح نہیں ہے کہ مثلا کسی کو قانون کے حکم سے فوجی کیمپ میں لے جا کر اسے خاص کنٹرول کے ساتھ نظامی فنون سیکھنے کی ترغیب دلائی جائے ۔

تعجب کا مقام یہ ہے کہ اہل فن حضرات موجودہ مشکلات کی اساس و بنیاد کی معرفت کے بغیر کوشش کرتے ہیں کہ ان تمام مشکلات کو جو معاشرتی برائیوں کا نتیجہ ہے دور کریں ۔

میری نظر میں ان بحثوں کے بجائے اگرچہ قابل عمل بھی ہوں ہمیں چاہےے کہ ان فروع کی جڑوں تک پہنچیں اور انہیں اس طرح جلا دیا جائے کہ ایسی غیر طبیعی و غیر منطقی مشکلات معاشرے میں کبھی جنم لیں ۔

اس لیے ضروری ہے کہ ان چاروں مسائل پر گفتگو کی جائے جو ہمارے معاشرے میںیقینا اور مطلقا ازدواج کی کمی کے سبب بنتے ہیں ۔

جوانوں کی شادی میں پہلی اوربڑی مشکل پڑھائی کی مدت کا طویل ہونا ہے :

اگرچہ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ ہر آدمی فقط تحصیل علم ہی کی وجہ سے شادی شدہ زندگی سے فرارکرتاہے، بلکہ بہت سے جوان ایسے بھی ہیں کہ جو تحصیل علم سے فارغ ہو چکے ہیں ، پھر بھی غیر شادی شدہ ہیں یا پڑھائی چھوڑ ے ہوئے زمانہ گزر گیا مگر شادی نہیں کی ہے ۔

لیکن اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پڑھائی کی طویل مدت بھی بہت سے جوانوں کے لیے شادی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔

پڑھائی کی مدت ہر فن میں تقریبا ۱۸ سال یا کچھ کم ہوتی ہے لہذا اس دور میں ایک جوان کو پڑھائی سے آزاد ہونے کے لیے تقریبا ۲۵ سال کی عمر درکار ہے (فارسی کا محاورہ ہے جوانی مفید جستجو و تلاش کا نام ہے ) اس وقت اگر ہم لفظ جوانی کا صحیح اور واقعی معنی اسکے لیے استعمال کریں تو

( صحیح نہ ہوگا)گویا وہ جوانی کا بہترین حصہ چھوڑ چکا ہے اور اب جو اسکے پاس ( عمر کا حصہ )بچا ہے اسکی حیثیت ایسی ہے جیسے ایک صفحہ میں حاشیہ کی حیثیت ہوتی ہے ۔ اور ابھی آگے چل کر اس طالب علم کو اگر پڑھائی کی تکمیل کے لیے تخصص کرناہے تو اسکی عمر تقریبا ۳۵ سال ہو جائیگی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا شادی کو پڑھائی کے مکمل ہونے تک موقوف کیا جائے (خواہ پڑھائی کی تکمیل میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے )

یا اس رابطہ( کہ جب تک پڑھائی مکمل نہ ہو شادی نہیں کرنا چاہےے) کو ختم کردیا جائے اور جوانوں کو اس ناقبل برداشت شرط سے آزاد کر دیا جائے ؟

(اور شادی کر دی جائے ) جیسا کہ بعض دانشوروں کا کہنا ہے ۔

دوسری جہت سے اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر جوان طالب علم کے اخراجات ہوتے ہیںوہ صرف خرچ کرنا جانتا ہے اور اخراجات کی اسے ضرورت بھی ہوتی ہے جبکہ ابھی وہ کمانے کی حالت میں نہیں اور نہ ہی اسکی کوئی آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے بھلا ایسے عالم میں وہ شادی کیسے کر سکتا ہے اور اس سنگین کمر شکن بار کو کیسے اٹھا سکتاہے ۔؟

میری نظر میں اگر ہم ایک لمحے کے لیے آزادانہ تفکر کریں تو اس مسئلہ کا حل اس قدر مشکل نہیں ہے اس پر روشنی ڈالی جا سکتی اسکا حل یہ ہے کہ

: جوانوں کو چاہےے کہ پڑھائی کے دوران جب ایک مناسب عمر کو پہنچ جائیں تو اپنے والدین ، دوستوں اور ہمدرد افراد کے مشورے کے ساتھ اپنے لیے شریک حیات منتخب کریں اور ابتداء میں ایک جائز رشتہ قائم کرلیں (عقد نکاح اور مذہبی و قانونی مراسم کے ساتھ )کہ جسکے لیے بہت زیادہ تشریفات اور انتظامات کی ضرورت نہ ہو اور غیر معمولی اخراجات نہ کرنے پڑیں ۔ تاکہ لڑکا اور لڑکی یہ بات جان لیں کہ انکا ایک دوسرے سے جائز رشتہ ہے اور وہ آئندہ ایک دوسرے کے شریک حیات ہونے والے ہیں ۔ اور امکانات کے فراہم ہوتے ہی پہلی فرصت میں شادی و رخصتی کے بقیہ مراسم سادگی اور عزت و احترام کے ساتھ مکمل کرلےے جائیں ۔ اس طریقہ کار کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ جوانوں کو روحانی سکون و اطمئنان حاصل ہوجائیگا ۔ اس کے نتیجہ میں ان کی زندگی میں ایک خاص روشنی پیدا ہوجائیگی۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ عمل ان کی وحشتناک شیطانی وسوسوں سے جو ایک غیر شادی شدہ جوان کوآئندہ کی زندگی کے حوالے سے نقصان پہنچاتے ہیں نجات دہندہ ثابت ہوگا ۔

ٍ اور یہ طریقہ جوانوں کو بہت سی اخلاقی کجرویوں سے محفوظ رکھ سکتاہے اور شادی کے امکانات فراہم ہونے کے بعد جو وقت ہم سفر کی تلاش میں صرف ہوتا ہے اسکی بچت کرتاہے ۔ نجات اور آزادگی کے ساتھ انکی زندگی کو ایک فطری مسیر پر گامزن ہونے میں مددگار ثابت ہوگا ۔اس طرح کا عمل اکثر جوانوں کے لیے ممکن ہے اگرجوانوں کے ساتھ انکے والدین فکر و تامل سے کا م لیں اور خود جوان بھی فکر سلیم کے ساتھ عمل کریں ۔ اگر یہ طریقہ معاشرے اور مجتمع میں صحیح طریقے سے عملی دنیا میں قدم رکھلے تو دیگر بہت سے مسائل جو جوانوں سے تعلق رکھتے ہیں خودبخود آسان ہو جائیںگے ۔

مختصر یہ کہ اس شرعی نطریقے (عقد نکاح) اور لڑکی لڑکے کے اس جائز رشتہ کی برقراری سے نوجوانوں کو اپنی کچھ جنسی ضرورتوں کے پورا کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے ۔اس لیے کہ یہ نام زد کا زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ جو شادی شدہ زندگی کی بہت سی خصوصیات کو اپنے دامن میں لےئے ہوئے ہے ۔ اور کسی حد تک جوانوں کی جنسی ضرورتوں کا بھی جبران کرتاہے ۔( اسبات کی شرح محتاح بیان نہیں ہے )

اور اس طریقے سے جوانوں کو جنسی کجرویوں اور فحاشیت کی گندگی سے بچایا جا سکتاہے جبکہ اس عمل سے لڑکے اور لڑکی کے اہل خانہ زیادہ اضافی اخراجات سے بھی بچے رہتے ہیں، بچے پیداہونے اور اسکے سبب اثر انداز ہونے والی مشکلات سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

دوسرا راستہ جوانوں کی پڑھائی کے ایام میں وہی راستہ ہے کہ شادی کے اقدامات رخصتی سمیت مکمل ہو جائیں، لیکن خاص روش کو اختیار کیا جائے جو آج کے دور میں بہت عام ہے ( اوربہت سے طریقے اسمیں شرعی اعتبار سے جائز بھی ہیں) وہ یہ کہ نطفے کے انعقاد سے پرہیز کیا جائے ( اگرچہ شادی کا ہدف اور ثمر بچہ ہی ہوتاہے )کیونکہ ان ایام میں اس طرح کے اخراجات ایک جوان طالب علم برداشت نہیں کر سکتا جو کہ اسکی پڑھائی کی تکمیل میں مشکل ایجاد کرتے ہیں ۔ لیکن یہ تمام بحث اس صورت میں نفغ بخش ہوگی کہ جب شادی کی رسم و رسومات بے ہودہ ،احمقانہ اور کمرتوڑدینے والے اخراجات سے خالی اور سادگی سے انجام دی جائیں ۔

در حقیقت اگر والدین اور خود جوان سعادت مندی و خوش بختی کے طلبگار ہیں تو انکے لیے یہ بہترین راستہ ہے ۔ پڑھائی کی تکمیل کا انتظار اور اسکے بعد اچھی ملازمت یا کاروبار کا انتظام،گاڑی کا بندوبست، دوسرے وسائل خانہ اور شادی کے نا قابل برداشت اخراجات کا انتظام وغیرہ ان تمام چیزوں کے انتظار کا نتیجہ جوانوں کی آلودگی اور ہزار وں انحرافات کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا جب تک جوان کی عمر ۳۵ یا ۴۰ برس کے قریب ہو جاتی ہے جو سرکاری اعتبار سے انسان کی ریٹائرمینٹ عمر ہوتی ہے اس طرح کی شادیاں سو فی صد روحانی اور حقیقی معنی میں ناکام اور غیر طبیعی ہوجاتی ہیں ۔اسلئے کہ اس طرح کی شادی انسانیت اور اسکی ضرورتوں کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں رکھتی ہیں،اور نہ ہی شادی کے اصلی اور معین ہدف کو پورا کرتی ہیں ۔

فصل دوم : شادیوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا انسانی معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے ۔

شادی کی قلت اور جوانوں کا شادی شدہ زندگی کی طرف رغبت نہ کرنا اسکے مقابلہ میں مجرد زندگی کو ترجیح دینا، جبکہ ایسی شئی کو زندگی کا نام دینا مناسب نہیں ہے ۔ یہ عالم انسانیت کے لیے ایک بڑا المیہ ہے جبکہ اس کے علاوہ بہت سے منقی آثار اس تیز رفتار زندگی کے ساتھ اس صدی کے انسانوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔

شادی کی قلت ففط اس لیے المیہ نہیں ہے کہ یہ نسل یا کثرت اولاد پر کنٹرول کاسبب ہے اور حال حاضر میں دنیا کثرت جمعیت کی شکارہے ۔اور آنے والے چند سالوں میں دنیا اقلیت کی شکار ہو جائیگی۔( جبکہ کثرت جمعیت غیر صنعتی ممالک میں مکمل طور پر کنٹرول ہو چکی ہے) اس لیے قلت ازدواج پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے ۔ بلکہ برائی کا بدتر مقام یہ ہے کہ مجرد افراد اجتماعی یا معاشرتی ذمہ داریوں میں بہت پیچھے ہو گئے ہیں ۔ انکا رابطہ تمام معاشروں سے منقطع ہوگیا ہے اور انکا حال ایسا ہوگیا کہ جیسے بے کراں فضا میں کوئی غیر وزنی شئے سرگرداں پھرتی ہے ۔اس طرح کے افراد ممکن ہے کہ ایک معمولی چیز مٹی یا پانی سے اپنے رابطہ کو توڑ ڈالیں اور فوری طور پر کسی دوسرے نقطہ کی طرف پرواز کر جائیں یا یوں کہا جائے کہ غصہ و غضب کے عالم میںاپنی زندگی کو خیرباد کہ دیںاور زندگی سے چشم پوشی اختیار کرلیں ۔

خودکشی کی کثرت اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیتی ہے کہ خودکشی کرنے والے میں غیر شادی شدہ افراد کی نسبت شادی شدہ افراد سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے ۔ اگر آپ غور و فکر کریں تو دنیا میں جرائم کو انجام دینے والے افراداکثر و بیشتر یا تو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں یا اسکے مثل ہوتے ہیں در اصل شادی شدہ زندگی انسان کو اپنی ذات کو ترجیح دینے اور نفسا نفسی کی بیماری سے چھٹکارا دلاتی ہے اور اسکے اپنے ایک چھوٹے معاشرے (فیملی ) کی وجہ سے ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے ۔ اس طرح اسکو ہر خطرناک و غلط ارادوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔

ذمہ داری کا احساس اور معاشرے سے مربوط نہ ہونا یہ بھی برائی کا ایک دوسرا رخ ہے،جس میں سب سے اہم انسان کا اپنی تمام قوت و طاقت کو استعمال اور انہیں جمع نہیں کر پانا ہے جسکے نتیجے میںوہ اپنی زندگی کی ترقی سے محروم رہ جاتاہے ۔

یہ ہی وہ موضوع ہے جو کنوارے یا غیر شادی شدہ افراد کی زندگی کو سست بناتی ہے اور بے اعتنائی کے ساتھ ساتھ اسکی زندگی کے وسائل کی فراہمی اور اپنی سمجھ بوجھ کے استعمال سے فراہم شدہ امکانات کی حفاظت سے روکتی ہے ۔چنانچہ زندگی چلانے کے لیے وہ بھی ایک فرد کی جسکی زندگی جس طرح بھی گزرے اسے سختی کا احساس نہیں ہوتا نہ ہی اس کے تمام قوا کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے ۔

یہ ہی سبب ہے کہ بہت سے جوان جو مجردی کے زمانے میں اپنی زندگی تک نہیں چلا پاتے اور ہمیشہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں اور معاشرے میں انہیں سست اور معذور شمار کیا جاتا ہے لیکن شادی شدہ زندگی کے شروع ہوتے ہی انکا شمار مستقل مزاج ،قوت مند، حوصلہ مند ، اوربافہم افراد میں ہونے لگتاہے ۔ یہ سب ذمہ داری کے احساس کا نتیجہ ہے ۔

اسلامی روایات میں بھی اس بات کی طرف زور دیا گیا ہے اور ( رزق شریک حیات کے ساتھ ہوتا ہے )شاید اسی فکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔لہذا ایسے غیر شادی شدہ جوانوں کواگر خانہ بدوش ( ، خیموں میں رہنے والے ) سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ لوگ کسی بھی سر زمیں کو آ باد نہیں کرتے کیونکہ انہیں بہت ہی جلدی کسی دوسری جگہ کوچ کر جانا ہوتا ہے ۔اور یہ اپنی کوئی پہچان نہیں چھوڑتے ہیں ۔ اس حوال-ے سے یہ لوگ بہت ہی لا پرواہی سے کا م لیتے ہیں ۔

اخلاقی نقطہ نظر سے غیر شادی شدہ شخص انسان کامل نہیں کہلایا جا سکتاہے، کیونکہ بہت سے اخلاقی صفات جیسے وفاداری،درگزر،جوانمردی ا، محبت ،قربانی ، حق شناسی، ایک گھریلو اور شوہرو بیوی بچوںکے ساتھ مشترک زندگی کے علاوہ بڑی تعداد میں مشاہدے میں نہیں آسکتے ہیں ۔ لہذا جو افراد ایسی زندگی سے دور ہیں وہ ان صفات کے مکمل معانی و مفہوم نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔

یہ بات درست ہے کہ ایک شادی شدہ مشترک زندگی کے قبول کرنے کا مطلب بہت سی ذمہ داریوں اور مشکلات کو دعوت دینا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے مقابلہ کیئے بغیر کامل ہو سکتاہے ؟

انسانی جسم و روح کی طبیعی و فطری ضرورت اور تقاضوں پر مشتمل مسائل کی جواب دہی اور ان کی عدم جواب دہی کی صورت میں پیش آنے والے فکری و جسمانی نا رسائی ایک مستقل باب کی حامل ہے ۔ ان واقعی اور غیر قابل انکار باتوں کے مد نظر اگر شادی نہ کرنے کا رواج بڑھتا رہے تو اسے ایک عظیم سماجی بحران اور فاجعہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسی تغبیر مےںکوئی مبالغہ نہیں ہے ۔

لیکن اس راہ میں ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسی تاریک راہوں اور عظیم مشکلات کی موجودگی میں ہمارے جوانوں کو اس فطری اور معاشرتی فریضہ کو پورا کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ اس تیز رفتار زندگی ، اس کی تمام مشکلات ، زندگی کی بیجا امیدیں، والدین اور جوانوں کا اختلاف نظر ، تعلیم کی بڑھتی ہوئی مدت ، رستم کی سات رکاوٹوں کی مانند بہت سی رکاوٹیں،روزگار کی پریشانیاں اور لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسے کا ختم ہو جانا ،کیا ان حالات میں جوان اس مقدس اور عظیم فریضے کو سر وقت انجام دے سکتاہیں؟

یہی وہ مسائل ہیں جن کو دقیق طریقے سے زیر بحث لانا چاہےے، اس لیے کہ اس کے بغیر معاشرے کی اس عظیم مشکل کا بنیادی حل نا ممکن ہے---۔

قابل غور نکتہ جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے یہ ہیکہ شادی اور اسکے سبب پیدا ہونے والی پریشانیوں کے موجد خود ہم اور ہمارا معاشرہ ہے جبکہ اس معاشرے کے معنی سوائے ہمارے وجود کے کچھ اور نہیں ہے ۔

یہ مشکلات آسمان سے نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی بطن زمین سے آشکار ہوئی ہیں بلکہ یہ ہم ہی جن کے سبب یہ وجوج میں آئی ہیں، ہمارے غلط فیصلے ،غلط محاسبات اور ہمارا غلط رسوم و آداب کا شکار ہونا ،اندھی تقلید کرنا اس کا باعث بنتی ہیں ۔

لہذا اگر ہم محکم ارادے کے ساتھ مقابلہ کریں تو ان مشکلات کا خاتمہ کرسکتے ہیں ، اور نئے سرے سے پلاننگ کریں جواوہام و خیالات اور غلط پےروی سے ہٹ کر حقیقت و واقعیت اور زندگی کے اصلی اور اساسی مفہوم پر مبنی ہو ۔اور اس کام کے لیے ایسا نہیں ہے کہ راستے بند ہو آج بھی راستے کھلے ہوئے ہیں، اور ایسا کرنا نا ممکن بھی نہیں ہے ۔

فصل سوم: ناجائز تعلقات کی فراہمی شادیوں میں قلت کی ایک اہم علت ہے ۔

در حقیقت موجودہ زندگی ایک فطری اور حقیقی زندگی سے بالکل الگ ہو چکی ہے جسکی ایک مثال شادیوں میں شدت کے ساتھ کمی کا واقع ہونا ہے ۔اور جوانوں کا غیر شادی شدہ زندگی کو ترجیح دینا ہے ۔

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں شادیوں کی کمی اور مجرد زندگی کی زیادتی بشری نسل پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ا زندگی کو ایک عجیب رخ دیتی ہے جہاں انسان کسی ذمہ داری کا احساس نہیںکر تاہے ، سماج سے قطع تعلق ہو جاتا ہے ،اور مجتمع و ماحول سے لا پرواہ ہوجاتاہے ۔ یہ بشری معاشرے کے لیے ایک عظیم المیہ ہے ۔

اگر ہم ان اخلاقی فسادات اور برائیوں کو جو اکثر غیر شادی شدہ افراد کو لاحق ہوتی ہیں اس بحث میں شامل کرتے ہیں تو اس مسئلہ کی شکل مزید واضح ہوجاتی ہے ۔

فی الحال قاری کتاب کی توجہ کو اس مسئلہ کے بنیادی اسباب کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس خطرناک اجتماعی وبال کا سبب بنتے ہیں ۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ یہ حالات اور مشکلات کسی ایک یا دو علت کی ایجاد نہیں ہیں لیکن بہت سی حقیقی علتیں ایسی ہیں جنکی اہمیت دوسری علتوں کہیں زیادہ ہیں، جنمیں ایک علت جوانوں نا جائز تعلقات کی فراہمی ہے ۔

اس لیے ایک طرف جوانوں کو ایسے تعلقات کا آسانی سے فراہم ہو جانا ، اور عورتوں کا آسانی سے فراہم ہو جانا ہے جسکی وجہ سے عورت جوانوں کی نظر میں ایک ذلیل و خوار اور کم قیمت یا کبھی کبھی مفت شئی سمجھی جاتی ہے جسکو وہ بڑی آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں ۔

اس طرح عورت کی جو قیمت و عزت اور وقار سابق معاشرے میں پایا جاتا تھا جو جوانوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا اور جوانوں کو اس کے حاصل کرنے میں غیر معمولی کوشش اور قربانی درکار ہوتی تھی وہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے ۔

عورتوں کی بڑھتی ہوئی برہنگی نے موجودہ دور میں ابتذال اور فحاشی کو بڑھا دیا ہے اگر یہ عمل ابتداء میں ہوسبازوں کی توجہ جذب کرنے کی خاطر رہا ہو تو آخر میں یہ ان کی فحاشی اور ان کی قدر و قیمت میں کمی کا سبب بنی ہے اور یہ ان کے ہدف اور توقع کے منافی ثابت ہوتاہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے پاک ،مقدس عشق پرانے زمانے میں دیکھے جاتے تھے جو نکاح و عقد کے مقدمے کا محکم رشتہ بنتے تھے آج کے زمانے میں اس کے کوئی اثرات باقی نہیں رہ گئے ،اسلےے کہ انسان ہمیشہ اس چیز سے عشق کرتاہے کہ جو آسانی سے اسکی دسترس میں نہ آسکتی ہو ۔اور ایک سستی اور بیکار چیز سے انسان کا عشق کرنا کوئی معنی نہیں رکھتاہے ۔

ایک طرف بہت سے گستاخ و بے لگام افراد یہ کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے کہ ایک عورت کے حصول کے لیے مرد ہزاروں شرائط اور شادی جیسی ذمہ داریوں کے بار کے نیچے آئے جبکہ بغیر کسی شرائط و ذمہ داریوں کے بہت سی عورتیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔!

چونکہ ای-سے لوگ ان غلط نتائج سے ناواقف ہیں جو جنسی و اخلاقی کجرویوں کے سبب حاصل ہوتے ہیں ، شادی اور عورت انکی نگاہ میں ایک جنسی خواہش پورا کرنے کا آلہ ہے شادی اور ایسے تمام شرائط و ذمہ داریوںکو ایک احمقانہ عمل تصور کرتے ہیں اس لیے ایسے افراد اپنی پوری زندگی یا زندگی کا بہترین حصہ بغیر شادی کے گزار دیتے ہیں ۔

مندجہ بالا حقائق (ناجائز تعلقات کا آسانی سے فراہم ہوجانا)کی بنیاد پر شادیوں میں قلت کی وجوہات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہیں ۔یہی سبب ہے چونکہ مغربی معاشرے میں کوئی قید و بند نہیں ہے ، اور اس طرح کی آزادی زیادہ پائی جاتی ہے لہذا شادیوں کی قلت بھی زیادہ ہو گئی ہے ۔ اگر کوئی شادی ہوتی بھی ہے تو عمردراز ہوجانے کے بعد جبکہ زیادہ عمر میں کی ہوئی شادی بے لطف ہوتی ہے اور زیادہ دنوں تک نہیں چل پاتی ہے، اور غالبا معمولی سے بہانے اور ہنسی ہنسی میں ٹوٹ جاتی ہے ۔

فحاشی اور بدنام اڈوں کے نتائج

مذکورہ بیان کے علاوہ یہ حقیقت بھی قابل بیان ہے کہ اس طرح کا ہر معاشرہ جو مجرد زندگی کو شادی شدہ زندگی پر ترجیح دیتاہے اپنے پہلو میں ایک گندہ اور سڑا ہو ا زخم لیے ہوئے ہے( جسے ہم زنا و فحاشی کا اڈہ نام دے سکتے ہیں )، جو شادیوں میں قلت کی ایک اہم علت ہے اور ساتھ ساتھ (شریف )خاندانوں کی عزت و آبرو خاک میں ملا دیتی ہے ۔

اس طرح کے گندے اور گھناونے اڈے آج ہر غیر سالم معاشرے کے پہلو میں پائے جاتے ہیں جوثابت کرتے ہیں کہ معاشرے کا مزاج سالم نہیں ہے ۔

زناکاری کے یہ بدنام اڈے فقط اس حوالے سے قابل مذمت نہیں ہیں کہ یہاں سے فساد اور ظاہری و باطنی بیماریاں پھیلتی ہیں یا یہ اڈے شادیوں میں قلت اور جوانوں کے غیر شادی شدہ ہنے کا سبب بنتے ہیں، بلکہ ہر مسئلہ اپنے مقام پر مستقل بحث اور غور و فکر چاہتاہے ۔

وہ عورتیں جو ان اڈوں پر جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں ایسی عورتیں اس بحث کا ایک اہم و دقیق موضوع ہیں ۔

جن حضرات نے اس موضوع کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور اپنی وسیع تحقیق کے ساتھ کتابیں لکھی ہیں وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایس جسم فروش خواتین قرون وسطی کی ایک دردناک و وحشتناک غلامی کی مجسم مثال ہیں ۔

ایسی مطرود و پست ماندہ اور بے چارہ عورتیں جو ہمیشہ سر سے پیر تک ادھار اور قرض میں گرفتار رہتی ہیں اور دن و رات ایک شمع کی مانند سلگتی رہتی ہیں تاکہ غیر مردوں کی ھوا و ہوس و لذت کو پورا کرسکیںاور دنیا والوں کے چھوڑے ہوئے معاشرے کے حوالے اپنے آپ کو سونپ دیتی ہیں جبکہ انکے مرنے کے بعد انھیں کوئی سپرد خاک کرنے والا بھی نہیں ملتاہے ۔

کون سی عقل و منطق اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے کہ جس عصرمیں غلامی کے خاتمہ کا دعوی کیا جاتاہے اسی زمانے میں معاشرے کے پہلو میں بہت سے بے چارہ غلام پائے جاتے ہیں اور کوئی انکی آزادی کے لیے قدم نہ بڑھائے ۔؟

لیکن افسوس کا مقام یہ ہیکہ اس دلسوز غلامی کو آج کے بہت سے بدبخت معاشرے نے عملا رسمی بنا دیا ہے، اس لیے کہ وہ عورتیں جو اس معاشرے کی گندی دلدل میں پہنسی ہیں ہوسکتاہے وہ اسی غیر شرعی اور ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہوں جو درجہ بدرجہ ان بدنام اڈوں تک لائی گئی ہوں ۔ایسی بعض عوتوں کی کہانیاں جو کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں یقینا بہت ہی دردناک ووحشتناک حادثات کا سبب ہیں، جو معاشرے کی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہے مقام تاسف یہ ہیکہ ان مسائل کو بہت کمی سے زیر بحث لایا جاتا ہے ۔

لہذا خاندانوں کو پامال اور بربادہونے سے بچانے کے لیے! شادیوں میں قلت کی تیزی کو روکنے کے لیے! اور ان بے نوا غلاموں کی آزادی کے لیے ہمیں چاہےے کہ اس بے لگام جنسی آزادی اور ناجائز تعلقات کی فراہمی پرروک لگائیں اور کنٹرول کریں ، اس عمل کے لیے ایک صحیح اور منظم سسٹم تیار کریں ورنہ یہ کام نا ممکن ہے ۔

پیارے جوانوں ! مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں خود اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت میں دقت سے کام لیں اور گمراہی اور فریب دینے والے افراد جواس طرح کی نا پاک آزادی کی طرف کھینچتے ہیں، ان سے اجتناب کریں ۔

وہ لوگ جو ان حالات ،بدنام اور برائی کے اڈوں کو معاشرے کی ضرورت سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعے برائی کو ختم کرنا چاہتے ہیںاور ایسے نا مناسب عمل کو خاندانوں کی حفاظت اور جوانوں کی سلامتی کا نام دیتے ہیں وہ یقینا بڑی بھول کا شکار ہیں ۔

کیا ایسی بدبودار کیچڑ کا وجود جو بہت سے اخلاقی فساد کومعاشرے میں پھیلا رہی ہے اور ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کو بھی پھیلا رہا ہے اور اسی وجہ سے اسکو معاشرے سے الگ بھی رکھا جاتا ہے ۔ اور اس قید خانے کے گرد بلند چاردیواری بنا دینا کیا اس برائی کو گھرانوں میں پھیلنے اور سرایت کرنے سے روک سکتاہے؟ آیا ایسا گندا ماحول کسی سماج