جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل 0%

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22561
ڈاؤنلوڈ: 4246

تبصرے:

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22561 / ڈاؤنلوڈ: 4246
سائز سائز سائز
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف:
اردو

آٹھویں فصل : شعلہ ور عشق

جوانوں کی زندگی میں ایک پر خطر اور نہایت سخت راستہ

عشق کی عظمت ومنزلت یا عشق کے جنون اوراس کی بیماری کے متعلق بہت زیادہ بحثیں ہوئی ہیںاور شاید بہت کم ایسے الفاظ ہیں جن کے متعلق اتنی کثرت سے مختلف و متناقض ، تعبیرات بیان ہوئی ہیں ۔

چنانچہ بعض مصفین اس کی اہمیت کو بہت بلند و بالا سمجھتے ہوئے کہتے ہیں : عشق زندگی کا تاج اور دائمی خوش نصیبی کا نام ہے ۔(جرمن دانشمندگوئٹا )

” ہزیہ “ کے بقول : عشق معمار عالم ہے ۔

”توماس “نے عشق کی معجز نمائی کے اثر کو بیان کیا ہے اور اس کا عقیدہ ہے : عشق روح کو قوی اورانسان کو زدہ دل رکھتا ہے ۔

مشرقی فلاسفہ کا ایک گروہ اس سے بھی آگے بڑھ گیااور ان کا عقیدہ ہے: دنیا کی ہر حرکات و سکنات کے پیچھے ایک قسم کا عشق کار فرماہے ۔ حتیٰ اجرام فلکی کی حرکات بھی اسی عشق کا سبب ہیں ۔

لیکن اگر اس لفظ کے معنی کو مزید وسیع کر دیا جائے یعنی اگر اس سے ہر قسم کی کشش اور غیر معمولی جاذبیت مراد لی جائے تو ان کے اقوال کی تائید ضروری ہو جاتی ہے ۔

ان بہترین تعبیرات اور توضیحات کے مقابلے میں دوسرے مصنفین اور فلاسفہ نے عشق پر سخت حملے کئے ہیں اورعشق پر بہت سی تہمتیں لگا دی ہیں ۔اور عشق کو ایک بیماری اور نفرت انگیز حقیر شی شمارکیا ہے ۔

ایک معروف مشرقی مورخ کا بیان ہے : عشق کی مثال دق ، کینسر اوربائے گٹھیا جیسی طولانی بیماری کی طرح ہے، جس سے عاقل انسان کوفرار کرنا چاہئے!

کسی زبان کا محاورہ ہے : عشق کی مثال شیمپین شراب کی ہے ۔

دوسرے دانشمند افراد جیسے” کوپرنیک“ جوفلکیات میں بہت معروف ہے اس نے عشق کے حوالے سے خود کو تحقیر کرتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ کہا : عشق اگر ایک قسم کا جنون نہیں ہے تو حد اقل ایک ناتواں مغز کا نچوڑ ضرور ہے ۔

آخر کار بعض افراد جیسے کارلایل نے بھی عشق پر اس طرح حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عشق فقط ایک قسم کا جنون نہیں ہے بلکہ کئی قسم کے جنون کا مرکب ہے ۔

اس طرح کی متناقض تفسیر کو کسی ایک واقعہ پر حمل نہیں کرنا چاہیے در حقیقت یہ اختلاف یا تناقض تبصرہ کرنے والوں کے زاویہ نظر کا اختلاف ہے ۔

اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر لکھنے والا عشق کے بہت سے چہروں میں فقط ایک چہرے کو اپنی زندگی میں زیادہ دیکھتا ہے اور اسی کو زیر بحث لاتا ہے لہذا اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا : اگر عشق سے مراد دو انسانوں یا کلی طور پر دو موجود کے درمیان ایک غیر معمولی قوی کشش اور جاذبیت ہو جو ایک عظیم ہدف کے لیے ہو ، تواس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟!

کیونکہ اس ابتکار کی قوت اس قدر ہوتی ہے کہ اسکی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو وہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، اور اپنے ہدف کے راستے میں آنے والی تمام مشکلات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔

عشق کی جو اتنی مدح سرائی کی گئی ہے وہ اسکی خلاقیت اور بے نظیر قوت و قدرت کی وجہ سے ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ادبی، معماری اورفنی شاہکا ر اسی کشش اور جاذبیت کی قوت کا نتیجہ ہیں ۔

لیکن اگر عشق سے مراد ایسی کشش اور جاذبیت کی قوت ہو جو دو انسانوں کو گناہ ، آلودگی اور فحشاء کی طرف لے جائے ، تو اس حالت میں عشق کی مذمت میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کم ہے، کیونکہ کہ اسکے بدنما داغ اس قدر رنگین ہیں جنکا صاف کرنا آسان نہیں ہے ۔

اگر اس کشش و جاذبیت سے مراد دیوانہ کرنے والا ہو جس کے ذریعہ کلی طور پرعقل خراب اور بے کار ہوجائے اور اسکی وجہ سے انسان ہر طرح کے جنون آمیز کام کرنے لگے،تو عشق کی جتنی بھی تحقیر کی جائے بجا ہے ۔

فرانسیسی دانشمند ”اسٹینڈل“ کے بقول : ” عشق سے مربوط مسائل میں اچھائی اور برائی کے درمیان صرف ایک بوسہ (چومنے)کا فاصل ہے !

مختلف نظریوں کے مطابق عشق کا خلاصہ یہ ہے کہ عشق کے مختلف چہرے ہیں اس بنیاد پر اس کی تعریف اور برائی دونوں بجا ہیں ۔

عشق کے شاعرانہ پردے میں:

اس مقام پر قابل توجہ موضوع جو پاکیزہ جوانوں کے لئے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں کون سا جرم اور تباہ کاری ایسی نہیں ہے جومقدس عشق کے نام پر انجام نہیں دی جاتی، آج ہر عیب کرنے والا، ہوا و ہوس کا پرستار خود کو سچا عاشق کہتا ہوا نظر آتا ہے ۔

ہر دھوکے باز دیو صفت جنکا ہدف صرف اپنی حیوانی شہوتوں کا پورا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ لوگ عشق کے پردے میں شاعرانہ انداز کی مدد سے اپنے اس شیطانی رذیل مقصد کو عملی جامہ پہناتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جب اپنے اس شیطانی مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب انکے چہرے سے گویا پردہ اٹھتا ہے اور تمام کئے وعدے اور وعید کو بھول جاتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی قطرہ باقی نہیں رہ جاتا ، اسی طرح انکا دل محبت و عاطفت اور ہزاروں محبت کے کئے ہوئے وعدوں سے خالی ہو جاتا ہے ۔

ایسی صورت میں معشوق، دل شکستہ اور پشیمان ہو جاتا ہے اور اسکی دنیا میں غم و اندوہ چھا جاتا ہے ۔

جوانوں کو چاہیے بڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ ایسے جھوٹے عشق کے دعویداروں سے آگاہ رہیں، اس لئے کہ اس طرح کے فریب کاروں کے پاس جھوٹ اور دھوکے کے علاوہ کوئی سرمایا نہیں ہوتا ، اورظاہری عشق سے بھرے ہوئے دل ایک وقت میں کئی جگہ گروی ڈال دیتے ہیں ، اور دھوکا دھڑی اورفریب کاری کے ذریعے اپنے کو سچا عاشق ثابت کرتے ہیں ۔

توجہ رہے آج کے دور میں بہت سے لوگ اس لباس میں نظر آتے ہیں یہ ہی وہ لوگ ہیں جو بے حیائی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ ایک جھوٹ و فریب سے بھرے خط کو قل کرکے کئی لڑکیوں کو ایک ساتھ بھیجتے ہیں اور ہر جگہ عشق کے پاکیزہ لباس کو زیب تن کرکے دھوکا دیتے ہیں ۔ اور اس عشق کے نام پر ہزاروں جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

نہ فقط لڑکیوں کو آگاہ رہنا چاہیے بلکہ لڑکے بھی ہوشیاری سے کام لیں ، اس زمانے میں مختلف قسم کے جال عشق کے نام سے بچھے ہوئے ہیں ایسے جال کہ جس میں پھنسنے کے بعد اس سے رہا ئی بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔

اس لئے کہ ایک لمحے کی غفلت یا بیجا خوش بینی کا جبران ممکن ہے تمام عمر ادا نہ ہو سکے ۔

خصوصا ایسے افراد جو محبت کی کمی کا شکار رہے ہیں اور محرومیت کے ساتھ زندگی بسر کی ہے وہ بہت جلدان عشق و محبت کے اظہار میں تسلیم ہوجاتے ہیں،اور یہی محرومیت فریب اور دھوکا کھانے کا سبب بن جاتی ہے، اس طرح کے افراد کو دوسروں کی نسبت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔

آنے والی بحث ”میں عشق کے خطرے“ کے عنوان سے ضروری اور مہم مطالب پیش کئے جائیں گے جو اس بحث کا تکملہ ہونگے ۔

نویں فصل: عشق کے خطرے

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں ” عشق “ کے معنی ” غیر معمولی طاقتور کشش اور جاذبیت کے ہیںجو ایک پاکیزہ ہدف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے ۔ ساتھ ساتھ روح انسانی کی بلندترین تجلی اور خلقت کا ایک عظیم شاہکار ہے ۔

یقینا اگر شادی کی بنیاد پاکیزہ محبت اور عشق پر رکھی جائے تو وہ ہمیشہ محکم ، مستحکم ، نقائص سے خالی ، ثمرات سے پر ، قابل اطمئنان اور آرام دہ ثابت ہوتی ہے ۔

لیکن یہ سب جھوٹے اور دھوکے باز عشق سے بالکل مختلف ہے ۔جو غیر معمولی طور پر ظاہرا آتشیں اور جلانے والا ہوتا ہے! یہ زود گزر ہوس اور نا جائز شہوت کے برخلاف ہے جس میں انسان دوسری تمام چیزوں کو بھلا دیتا ہے اور پاک و مقدس عشق کے بجائے دوسری چیزوں میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔

حلانکہ ان پاک اور واقعی عشق و محبت میں بھی عظیم خطرات کا سامنا ہوتا ہے جس سے ہر گز بے توجہ نہیں ہونا چاہیے ۔

عشق کا پہلا خطرہ:

عام طور پر ایک عام محبت شدید وابستگی کے علاوہ عیوب اور نقائص پر پردہ ڈالنے کا کام بھی کرتی ہے، مثال کے طور پر ہر انسان اپنی دو آنکھوں میں ایک رضا اور دوسری نفرت کی نظر رکھتا ہے، عشق کرنے کے بعد انسان کلی طور پر نفرت کی نظر کو بالکل بند کر لیتا ہے یہاں تک کہ معشوق کے بد ترین عیوب کو عجیب و غریب توضیح اور حسن کی بہترین تعجب آور باتوں سے تعبیر کرتا ہے ۔

یہاں تک کہ اگر کوئی ایسے عاشقوں کو نصیحت بھی کرنا چاہے تو اسکا شدید عکس العمل سامنے آتا ہے اور اسکی طرف سے دل میں کینہ پیدا کر لیتے ہیں اور خود یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ نصیحت کرنے والا انکے ساتھ دشمنی ، حسد اور تنگ نظری سے کام لے رہا ہے لہذا اس کے ساتھ لڑائی اور جھگڑے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔

اس طرح کے افراد جو عشق کی سخت تاریکی میں سر گرداں ہو گئے ہیں وہ معمولا خود میں یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے اس عشق کے سائے میں ایسی چیز کو درک کر لیا ہے ، جس سے دنیا کے تمام انسان محروم ہیں ، اگر کوئی انہیں نصیحت کرتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نصیحت اسکی لاعلمی اور صحیح ادراک نہ ہونے کا نتیجہ ہے ، فارسی کا مقولہ ہے ”اگر مجنوں کی آنکھ سے دیکھا جائے تو لیلی میں کوئی برائی نہیں مل سکتی“۔

ایسے عاشق کو نصیحت کرنا بے سود ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خود نصیحت ایک خطرہ بن جاتی ہے ۔

لیکن عام طور پر اس طرح کے عشق جنسی آمیزش کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں اور اچانک تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور عاشق کی حقیقت شناس نظر کام کرنا شروع کر دیتی ہے اس وقت گویا یہ بے قرار عاشق ایک عمیق لذت اور طویل نیند سے بیدار ہوتا ہے اس وقت وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اب خیالی دنیا سے نکل کر عالم حقیقی میں قدم رکھا ہے ۔

اسکی نظر میں عشق کی تمام اہمیت اور قیمت ختم ہو جاتی ہے اور ہر چیز نئے رنگ میں نظر آتی ہے، ہر وہ چیز جو سابق میں اس کو بدنما اور داغ دار معلوم ہوتی تھی اچھی لگتی ہے ۔

ایسے موقع پر شرمندگی اور ندامت کے نا قابل بیان سائے اسے گھیر لیتے ہیں اور تاریکی کی مانند پریشانیاں اس کی روح کو بے چین اور وحشت زدہ کر دیتی ہیں ۔

کبھی کبھی ان دو حالتوں کے درمیان ، فاصلہ اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ اسکی تمام زندگی اسی میںدفن ہو جاتی ہے اور آخر کار وہ پریشانی اور وحشت سے تنگ آکر خود کشی اختیار کر لیتا ہے ۔

اگر چہ ایسے حالات اورمشکلات سے دامن چھڑانا آسان کام نہیں ہے، اور بے قرار عاشق اور اسکے جیسے دوسرے تمام دوست، عشق کے تمام صفحات کو محو کر دیتے ہیں تاکہ انکی زندگی کے دفتر میں عشق کا کوئی گذر تک نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عقلی اور منطقی دلیل انکے لئے کار مند ثابت نہیں ہوتی ہیں، چہ جائیکہ یہ لوگ ان حالات میںتمام لوگوں سے الگ سوچتے ہیں لہذا اس بنا پر انکی اور دوسروں کی دنیا میں فاصلہ اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر جو زبان ان کے اور دوسروں کے درمیان افہام و تفہیم کے لئے مشترک ہوتی ہے اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔

اس قدر فاصلہ اس لئے ہوتا ہے کہ کہ ایسے افراد صرف عشق کی زبان سمجھتے ہیں اوربقیہ لوگ عقل اور منطق کی زبان سنتے اور بولتے ہیں ۔

ایسے افراد سے وابسطہ دوست و احباب جن کو اپنے دوست کی خطا اور غلطی کاعلم ہے ،کو نفسیاتی طریقہ اور بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ ان کے اندر نفوذ کرنا چاہئے اور غیر مستقیم طریقہ سے مسائل کو ان کے سامنے واضح کرنا چاہئے،اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ ان کو احساس نہ ہوسکے اور ان کے زخم مزید تازہ نہ ہوں ۔ان کی حقیقت ، اعتراضات اوران کی غلط فہمیوں کو سوالیہ انداز میں سمجھائیں ،اور ایسا کام کریں جس سے یہ دیوانہ عاشق جو خودسے عشق کی غلطی میں مبتلا ہواہے ، آہستہ آہستہ اپنے پیروں اس گمراہ وادی سے واپس آجائے ، اور اس طرح تصور کرے کہ اس نے کسی کی مدد کے بغیر حقیقت کو درک کیا ہے اور اپنی مرضی سے اس راستے سے پلٹا ہے ،اورکسی نے اسکی راہ نمائی نہیںکی ہے ۔

تمام جوانوں کو چاہیے عام حالات میں بھی خود کو اس خطرے سے محفوظ رکھیںتاکہ ان کا شکار نہ ہو سکیں کیوںکہ اس کا شکار ہونے کے بعد انسان کا ذہن بند ہوجاتاہے اور عقل و منطق اپنا اثر کھو دیتی ہے لہذا ایسے مواقع پر ان کی مدد کر کے انہیں اس سے نجات دلانا چاہیے ۔

جوانوں کو چاہےے کہ خود تلقین کرتے رہیں، اور ہمیشہ دانشمند افراد اور صاحبان عقل و فہم اور تجربہ کار لوگوں کی نصیحتوں پر عمل پیرا رہیںاور مشکلات سے نپٹنے کے لئے ان افراد کا سہارا لیں ۔

ایسی منزل پر پہونچے ہوئے عاشقوں کے ساتھ معمولی ہمدردی ، ان کے محبوب کی تعریف اور ان کایہ اعتراف کہ انہوں نے انتخاب میں مکمل خطا نہیں کی ہے انہیں اپنی طرف جذب کر سکتا ہے ایسے میں جوان اس نصیحت کرنے والے کی بات پر توجہ دے سکتا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایسے افراد کی تحقیر اور سرزنش کرنا منفی اثرات کا سبب بنتا ہے لہذا اس عمل سے شدت سے اجتناب کیا جائے ، اسکے علاوہ یہ بات انصاف کے خلاف بھی ہے کہ ایسے لوگ جو پہلے ہی سے گمراہی اور خطرے میں ہیں انہیں مزید ملامت اور سرزنش کی سزا دی جائے ۔

دسویں فصل : باغی عشق :

عشق ابتداء ہی سے باغی اور خونی رہا ہے ۔

عشق کی بغاوت ہمیشہ مورخین اور شعراء کے درمیان مشہور رہی ہے ۔

عشق (خصوصا اگر دیوانگی کے ساتھ ہو (اگرچہ عشق میں شدت نہ ہو تو شاید اسکو عشق کانام نہ دیاجائے)کی کوئی حد اور قید نہیں ہے ۔

عشق ،معاشرے کی حدیں توڑ دیتا ہے ۔

اخلاقی مسائل کا کھلواڑ بنا دیتا ہے ۔

مصلحت کے تقاضوں اور وعظ و نصیحت کی کبھی موافقت نہیں کرتا ۔

شاید اسی وجہ سے کہا جاتاہے : ”جب عشق ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو عقل دوسرے دروازے سے نکل جاتی ہے“۔

”عشق “ اور ”عقل“ کی گفتگو اور ان دونوں کا ایک دوسرے کی ضد ہونا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر ادبی آثار میں بھی ملتاہے ۔

اگر ہم مشاہدہ کریں تو اسی رہگذر کا مسافر انگلینڈکا معروف فلسفی بھی عشق پر حملہ کرتا ہے اور اسکو ایک قسم کا جنون یا کئی قسم کے جنون کا مرکب شمار کرتا ہے ۔

اگر عشق کو صحیح اور جائز ہدف کے لئے ایک طاقتور عامل اور اخلاق کی صورت میں دیکھا جائے تواس کی عظمت اور کمال قابل انکار نہیں ہے ۔

اسی راستے پر چلتے ہوئے قدماء نے عشق کو رسوائی سے تعبیر کیا ہے، شکستہ دل عاشقوں کی لا تعداد کہانیاں انکی رسوائی کو بیان کرتی ہیں، جو آج بھی اور پرانے زمانے کے لوگوں کی زبانوں پر موجود رہی ہیں ۔

یہاں تک کہ شیریں زبان شاعر فروغی بسطامی نے اس کو اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:

رسوای عالمی شدم از شور عاشقی !

ترسم خدا نہ کردہ کہ رسوا کنم تورا!

عشق کے شوق میں پوری دنیا میں رسوا ہو گیا خدا سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تجھے رسوا نہ کردوں

اس مقام پر ہم اس موضوع کے کچھ خاص نفسیاتی اسباب اور عوامل کی طرف اشارہ کریںگے اور عشق کی نفسیاتی حالت کے سرچشمہ کو تلاش کریں گے:

عشق آگ کی مانند سلگانے والا ہوتا ہے اور عاشق کے مکمل وجود کو ایک شعلہ بنا دیتا ہے اور اسکے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے گویا اس کے وجود کی تمام تر قوتوں کو ایک قوت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس قوت کا نام عشق ہے ۔

حقیقت میں عشق کی قدرت نمائی کا راز یہی ہے کہ ایک تو خود اسکی عمومی قوت ، دوسرے ان تمام قوتوں کا متمرکز ہوجانا ہے ۔انسان کی مختلف قوتیں جیسے قوت عقلائی ،قوت عاطفی، قوت غریزی جوانسان کے وجود میں ہوتی ہیں، ایک بڑی نہر سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح ہے اور ضرورت کے مطابق مختلف زمینوں سے انکو بہایا جاتا ہے ، یہ بات بدیہی ہے کہ اگر ہم ان تمام چھوٹی نہروں کو ایک ساتھ ایک نہر میں چلادیں تو بقیہ ساری زمینیں خشک ہو جائیں گی اور ایک نہر میں پانی کی زیادتی سے طغیانی پیدا ہو جائے گی ۔

اسی طرح ایک دل شکستہ عاشق کو سوائے اپنے محبوب کے کسی چیز کا احساس اور فکر نہیں ہوتی ہے ۔ اسکی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہر نشست ، ہر محفل میں اس کے محبوب کا تذکرہ رہے وہ اپنے وجود کے ہر ذرے میں اپنے محبوب کا متلاشی رہتا ہے اور ہر حادثے کی ہر ایک معمولی مناسبت بھی عشق کی قوت سے اس کو اس کے محبوب سے مرتبط کرتی ہے ۔ ہوا کا ہر جھونکا، باد نسیم کا چلنا، نہر کی لہریں، درختوں کے پتوں کی حرکت ، پرندوں کا پھڑ پھڑانا، لوگوں کی رفت و آمد وغیرہ ان سب میں وہ اپنے معشوق کو دیکھتا اور سنتا ہے ۔

ایک عاشق کے خطرناک مراحل یہاں سے شروع ہوتے ہیں اس لئے کہ عشق اس منزل پر کسی بھی کنٹرول یا قید و بند کو قبول نہیں کرتا ، اور عاشق کا وجود ایک ایسے شہر کی مانند ہوجاتا ہے جسکے سامنے شہر کو تباہ و برباد کرنے والے دشمن کے سپاہی ہوں اور اس کے اپنے پاس دفاع کا کوئی سامان نہ ہو ، اور وہ شہر خود کو انکے سامنے تسلیم کر دے ۔ اسی طرح عاشق اپنے پورے وجود کو عشق کے سامنے تسلیم کر دیتا ہے ۔

ایسے موقع پر اس کی گردن میں پھندا ڈالتا ہے اوراس کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے، چاہے وہ جگہ کعبہ ہویا دیر ہو ۔

اس موقع پر اگر اس کا کوئی ہم درد دوست نہ ہو اورکوئی اس کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی نہ کرے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، کیونکہ اس کے لئے وصال معشوق کے علاوہ دنیا کی ہرچیز ہیچ ہے ۔بدنامی ،خوش نامی ، گناہ، پاکیزگی سب اس کے لئے برابر ہے ۔ نہ وہ اپنے کل کے بارے میں سوچتا ہے اور نہ ہی اپنی اور اپنے دوست و احباب کی عزت و آبرو کی پروا کرتا ہے، اور نہ ہی کسی رسوم و قیود کا خیال کرتا ہے چاہے وہ معاشرتی ہوں یا اخلاقی۔

اگر چہ وہ اس عالم میں غلط ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آپ سے بے خبر ہوکرسر گرداں ادھر ادھر کشاں کشاں رہتا ہے ۔ اور اپنی زندگی کا تمام سرمایہ اس معاملہ میں گنوا دیتا ہے ۔

اور جب اس کو ہوش آتا ہے (اور ہوس سے لپٹے ہوئے عشق میں ہمبستری کے بعد یہ ہوش آتا ہے) تو سب کچھ کھو جانے اور غلطیاں انجام دینے کی وجہ سے رنج و غم کا ایک طوفان اس کے اندربپا ہو جاتا ہے ۔

ماضی کی وحشتناک ندامت اس کے دل و دماغ پر بوجھ بن جاتی ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔

ممکن ہے کوئی جرم انجام دینے کے بعدکسی قید خانہ میں یہ ندامت اور بیداری آئے ،یا معاشرے سے رابطہ منقطع ، یا گھر اور والدین کی زندگی سے فرار ہونے کے بعد دور کسی گوشہ تنہائی میں وقوع پذیر ہو ، ےا فساد ، گناہ کے مراکز سے نکلنے کے بعد کسی برائی اور نشے وغیرہ کا شکار ہونے کے بعد سمجھ میں آئے ۔

جوانوں کو چاہیے کہ ان خطروں سے ہمیشہ آگاہ رہیں جنکے مقدمات ظاہرا بہت سادہ ہوتے ہیں اور ممکن ہے ایک معمولی نظر سے یہ مقدمات شروع ہو جائیں اس لئے پہلے ہی مرحلے سے آگاہ ہونا چاہیے،کیونکہ ابتدا میں اس کو کنٹرول کرنا آسان ہے اور خود کو بچایا جا سکتا ہے ورنہ دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔

بہترین کاموں کا انتخاب کریں ، اپنے وقت کو تعلیم اور ورزش جیسے کاموں میں مصروف رکھیں، اور مورد نظر فرد کو بھول جائیں، غافل اور منحرف دوست و احباب سے جو اس طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں کنارہ کشی کرلیں، ان مسائل کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں ۔

جوانوں کو چاہیے جو خلا ایک پاک اور مقدس عشق کے لئے ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے اسے اپنے آنے والے شریک حیات کے لیے محفوظ رکھیں ۔اور ہوا و ہوس سے آلودہ عشق جو ظاہرا مقدس صورت میں رونمائی کرتا ہے اس سے شدت سے اجتناب کریں ۔

دوستوں کا فریضہ بھی ایسے حالات میں مزید سنگین ہو جاتا ہے، انہیں چاہیے کہ اپنے دوستوں کو بہترین طریقے سے دوستانہ انداز میں اس غفلت سے بیدار کریں قبل اس کے کہ نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت انہیں خیرباد کہہ کر چلی جائے ۔

گیارہویں فصل: عشق اور خواب و خیالات

بہت سے لوگوں کے فرار، ایک دوسرے سے جدائی اور خود کشی کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے گذشتہ عاشقانہ خیالات ، ان کی حقیقی زندگی سے مطابقت نہیں کرتے ۔

ہر جوان ہمیشہ اس خطرے کی زد پر رہتا ہے کہ کہیں غیر مقدس عشق میں گرفتار نہ ہو جائے،اوراس کے نہ چاہتے ہوئے تمام چیزیں حتی وہ خود اور شاید اس کے بعض قریب اور دور کے رشتہ دار بھی اس خطرے میں پڑ جاتے ہیں

اس بنیاد پر ہر جوان اور والدین کو اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنے کا انتظام کیا جاسکے ۔

تمام پودوں کے بر خلاف عشق بہت تیزی سے نشو و نما کرتا ہے منٹوں میں سالوں کا کام کرتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ کبھی کبھی ان کے اندر ایک نظر ایسا بیج بو دیتی ہے جو بہت طاقتور درخت کی صورت میں رونما ہوتا ہے خصوصا ان افراد کے لئے جو اس موضوع میں خاص استعدکے مالک ہیں ۔جی ہاں صرف ایک لمحہ اور ایک نظر میں یہ سب کام ہوجاتا ہے ۔

عشق کی یہ خاص کیفیت، نفسیاتی واقعہ کو وجود میں لانے کا سبب بنتی ہے کہ اس موضوع کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے اور اسکے خطروں کو مکمل طور پر اہمیت دی جائے ۔ اب ہم گزشتہ بحث کو جو عشق کے خطروں کے بارے میں تھی آگے بڑھاتے ہوئے عشق کے دیگر خطروں کو زیر بحث لائیں گے ۔

عشق اور تخیلات :

عشق خیالات کوبہت تیزی سے بھڑکاتاہے

تاریخ کے حوالہ سے عشق اور تخیلات کے درمیان رابطہ بہت قدیمی ہے، اس کے جال میں گرفتار لوگ ہمیشہ ایک خواب کے عالم میں زندگی بسر کرتے ہیں جسکی ہر شئی اس دنیا سے مختلف ہے ۔

اس دنیا کے پیمانے ہماری دنیا سے الگ ہیںاس عالم کے شاہکار اس طرح کے ہیں جو خود ان کے بقول فقط دیکھے جاسکتے ہیں بیان نہیں کئے جا سکتے ۔ بہر حال جو الفاظ اس معمولی زندگی کے لئے بنائے گئے ہیں ان سے عاشقوں کی زندگی کی توصیف نہیں کی جا سکتی۔

غزلیہ شاعروں کے حیرت انگیز تخیلات اور ان کے دلچسپ اشعار کی لطافت غالبا اسی عشق حقیقی یا مجازی تخیلات کی مرہون منت ہیں ۔ اس لئے جب خستہ دل عاشق اس تخیلاتی دنیا میں اتر جاتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ وہ لمحہ کتنا حسین ہوگا جب وصال یار نصیب ہوگا ؟ اسکی آمد پر زمین و آسمان اور ستارے جھوم اٹھیں گے ، اس وقت انکے نزدیک ایک خوشی ، مسرت اور نشاط کا عالم اور ناقابل وصف لذت کا سما آشکار ہوجاتا ہے ۔

لیکن جب انکا وصال اپنے محبوب سے ہو جاتا ہے اور وہ اپنے خواب وخیالات کی بانسبت بہت کم اثرات کا مشاہدہ کرتے ہیں یعنی ہر چیز فطری یا حد واقعی سے کچھ بلند ہوتی ہے ۔

اس وقت وہ سراپا وحشت زدہ ہو جاتے ہیں اور رنج و غم کا عالم عشق کی دیوانگی کے بجائے ان کے دل میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے ۔ ایسے عالم میں وہ اپنے آپ کو فردی طور پر نا کام محسوس کرتے ہیں ۔کبھی وہ سمجھتے ہیں کہ انکو فریب دیا گیا ہے ، یا خیال کرتے ہیں کہ مخفیانہ طور پر انکے رقیبوں اور حاسدوں نے ان کے ساتھ دشمنی کی ہے ۔

بھلا جس چیز کا تصور اس قدر دل انگیز ہو اس کا حقیقی وجود اس قدر بے روح، کم قیمت اور کم رنگ کیسے ہو سکتاہے ؟

اس کی حالت ایسی ہی ہے جیسے لوگ کسی بورڈ پردور سے خوبصورت نقاشی دیکھیں اور وہ نہایت ہی خوبصورت اور دل کش معلوم ہو لیکن جب اس کے قریب پہنچیں تو ایک سادہ تحریر اور کچھ معمولی رنگوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔

یہی وہ مقام ہے جہاں عشق کا رد عمل اپنی شدت کی نشان دہی کرتاہے، ان کے تخیلات اور واقعیت میں کتنا بڑا فاصلہ ہوتا ہے، جسکا نتیجہ فرار ، جدائی ، خود کشی ےا کوئی دوسرا شدید عمل ہوتا ہے ۔

عشق اور توقعات :

دل جلے عاشق عام طور پر اپنے محبوب کے معاملے میں بے حد عفو و بخشش سے کام لیتے ہیں یا اگر زیادہ معاف کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتاپھر اس کے لیے آمادہ رہتے ہیں ۔

جب عشق کی گرمی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے تو عاشق محبوب کی طرف سے عجیب و غریب توقعات کا منتظر ہو جاتا ہے، جب یہ انتظار کسی منزل تک پہنچنے والا نہیں ہوتا تو شکوے اور شکایتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔

عشق اور بدلہ :

عشق کے خطروں میں ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے ،جب عاشق وصال محبوب اور مقصد کی رسائی سے مایوس ہو جاتا ہے تو اسکے ما فی الضمیر میں انتقام کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے ۔

گزشتہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عاشقوں کے ہاتھوں بے پناہ درد ناک قتل سرزد ہوئے ہیںاور مقتول کوئی دوسرا نہیں ہوتا بلکہ انکا کل کا محبوب ہی ہوتا ہے ۔

نفسیاتی اعتبار سے اس کی وجہ روشن ہے :

یہ سرکش عشق اپنی عظیم طاقت و قوت کے باوجود جب تک اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کی ذرا بھی امید ہوتی ہے یہ عاشق کو اسکے محبوب کا غلام بنائے رکھتا ہے ۔لیکن جب مکمل مایوسی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو یہ عظیم طاقت خاموش نہیں بیٹھ پاتی اور شدید انتقام میں تبدیل ہوجاتی ہے (بعینہ جیسے ایک توپ اگر اسکے سامنے کوئی مانع آجائے تو پیچھے کی طرف پھٹ جاتی ہے ) اور جس طرح وصال کی امید میں اپنے اور محبوب کے درمیان آنے والی ہر چیز کو ہیچ شمار کرتا تھا ہر مشکل کا مقابلہ کرتا تھا ٹھیک اسی طرح ناامیدی کی صورت میں انتقام کی راہ میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا ۔وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتا جب تک اپنے کام کا عکس العمل نہ دیکھ لے،اور اگر خود میں کسی قدرت کا احساس نہیں کرتاتو خود کشی کرنے کی سوچ میں پڑ جاتا ہے ،جسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اور اس طرح وہ یا اپنے محبوب سے یا پھر خود سے انتقام لینے کی سوچ میں پڑجاتا ہے ۔

یہ تمام باتیں عشق کی دیوانگی اور اس کی ہوس آلودہ خواہشات کے نمونے ہیں جنکا انجام صرف ناکامی ہوتاہے ۔

بارہویں فصل : تجارتی شادیاں:

اس دور کے جوانوں کے لئے شادی سخت ترین اورنہایت ہی پیچیدہ مسئلہ بن گیاہے ، عشق اور اس کے خطروں کے بارے میں ہم بیان کرچکے ہیں ، اب گزشتہ اہم بحث کی طرف پلٹتے ہیں ۔

اگر تعجب نہ کریں تو شادی کی بہت سی قسمیں ہیںجیسے تجارتی شادی، ہوا و ہوس کی شادی ، کاغذی شادی اور دیگر بہت سی اقسام وغیرہ۔

ان میں سے ہر قسم کی کچھ علامتیں ہیں جسکی بنیاد پر اسکی پہچان کی جا سکتی ہے ۔

تجارتی شادیوں کی علامت ،مہر اور جہیز کی زیادتی ،گھر ،زمین اورجائداد وغیرہ کی شرطیں، اور شیربہا کے نام پربے شماررقم کا مطالبہ (جبکہ شریعت اسلامی میں شیر بہا کی کوئی سند نہیں ہے، ےا دوسرے عنوان کے تحت پیسوں کا مطالبہ ، گویا تجارتی شادیوں میں ثروت اور سرمایہ کاتبادلہ معیار ہوتا ہے ۔

۱ ۔ ثروت مرئی

۲ ۔ ثروت نامرئی

ثروت مرئی: یعنی مرد اور عورت کے مال کا دقیق حساب ،اوران لوگوں کاسرمایہ جواس سے وابستہ ہیں جیسے والدین یابھائی یعنی اگر ان کا انتقال ہوجائے گا تو ان کاسارا مال یاکچھ حصہ دلہن یا داماد کو ملے گا !

تجارتی شادیوں میں اس پوری ثروت کا حساب و کتاب ہوتا ہے ، جس کے نتیجہ میں داماد اور دلہن میراث کے انتظار میں اپنے رشتہ داروں کے مرنے کے دن گنتے رہتے ہیں ۔

نا مرئی ثروت ، دولہا یا دلہن کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے عہدویں ہوتے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنا معاشرتی راستہ ہموار کرتے ہیں اور اس طرح وہ ان کے عہدوں کو پارٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کو معاشرہ میں اپنی ترقی سمجھتے ہیں ۔

اس نامرئی ثروت کے ذریعہ دونوں طرف سے کسی ایک رستہ دار کو کوئی عہدہ یا کام وغیرہ مل جاتا ہے جس کی اہمیت کبھی کبھی ظاہری سرمایہ سے زیادہ ہوتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ معاملہ کے بعد دلہن اور داماد اس طرح کے رشتہ داروں کی زندگی کی دعاء کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ آنے والے خطرات سے محفوظ رہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی طرقی کے لئے زمینہ فراہم ہو جائے ۔

شاید یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قسم کی شادیوں کا معیاریہ نہیں ہوتا ہے کہ طرفین میں انسانی صفات پائے جاتے ہیں یا نہیں، یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں یا نہیں بلکہ ان کی تمام بحث مرئی اور نا مرئی سرمایہ داری اور پیسہ پر ہوتی ہے خصوصا دلہن کے پیسہ پر ان کی نظر لگی رہتی ہے ۔

تجارتی شادی میں عورت کی شخصیت اس قدر پامال ہوتی ہے کہ اس کو سامان اور پیسہ کے معاملہ کی طرح بیچ دیا جاتا ہے ۔ افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ا س طرح کی شادیاںہمارے آج کے معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہیں ۔اور بہت سے والدین ،جوان اوران کے وفادار رشتہ دار اس طرح کی شادیوں کی حمایت کرتے ہیں ۔

اس طرح کی شادی میں صرف ایک دو برائی نہیں ہے بلکہ یہ سرا پابرائی بد،بختی اور پریشانی ہے ،اس لئے کہ اس طرح کی شادیاںس وقت تک قائم رہتی ہیںجب تک وہ اسباب موجود رہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ رشتہ قائم ہوا ہے ، اگر مرد اور عورت ایک دوسرے سے بے نیاز ہو جائیں یا مال کے لین دین کے مسئلہ میں بات بگڑ جائے فور یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ۔اس طرح کی مثالیں بہت دیکھنے میں آتی ہیں اس طرح کے مرد اپنی بیویوں کو اس طرح چھوڑ دیتے ہیں جس طرح پھل کو رس نکالنے کے بعد پھینک دیتے ہیں

کیونکہ پاکیزہ عشق، ازدواجی زندگی کی بقا کا سبب ہوتا ہے وہ ان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتا ،وہ جب بھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے ایک مہنگی کار یا ڈیلکس فلیٹ کی طرف دیکھا جاتا ہے ۔

ایسی عورتوں کی توقعات اپنے جہیزاور گھر والوںاور رشتہ داروں کے مال ،دولت امکانات اور ثروت کی طرح حد سے سوا ہوتی ہیں، اور اس طرح کی توقعات اس رشتہ کی بقا کی سخت دشمن ہوتی ہیں ۔

اس طرح کی شادیوں کے عام ہونے کی وجہ سے بہت سے جوان لڑکے، لڑکیوںاور انکے گھر والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جھوٹ اور حیرت انگیز دھوکے،جیسے عمدہ گاڑی اور گھرکا مالک ہونے کے کا سہارا لینا پڑتا ہے ، لہذا شادی ہو نے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ساتوں آسمان میں ایک ستارہ بھی نہیں ہے ، اور اس وقت لڑائی جھگڑے اور مارپیٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

ہمارے مذہب کی تعلیمات میں اس طرح کی شادیوں کی شدت سے مخالفت کی گئی ہے، ہمارے مذہب کے راہنماؤ ں نے اس مال کی خاطر شادی کرنے والوں کی سخت مذمت کی ہے ۔اسی طرح مہر کی زیادتی کو شادی کی بد بختی سے تعبیر کیا ہے، اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیاں بہت ہی معمولی مہر کے ساتھ ان افراد کے ساتھ کی ہیں جنکے پاس مادی سرامایہ کم اور معنوی سرمایہ زیادہ تھا،تاکہ ان کا یہ عمل دنیا والوں کے لئے عبرت بن جائے ۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : ” جو لوگ حسن کے لئے شادی کرتے ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے ،اور جوافراد مال کے لئے شادی کرتے ہیں خدا ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ( اوراس سے اپنے لطف وکرم کا سلسلہ منقطع کرلیتا ہے) ۔ لہذ شادی کا معیار پاکیزگی اور ایمان کو قرار دیں ، صاحب ایمان اور پاکیزہ عورتوں سے شادی کریں ۔(وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحة ۶) ۔

تیرہویں فصل : ہوا وہوس کی شادیاں

اس دور میں ”ہوا وہوس“ کی شادی ایک خطرناک عنصر بن گئی ہیں ۔

ہوا و ہو س کو جائز جنسی لذتوں سے مخلوط نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جائز لذات ، فطری شادیوں کاپیش خیمہ ہوتی ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام جوان شادی میں جنسی لذت کو تلاش کرتے ہیں ، فطرت اور خلقت کے تقاضوں کو مد نظررکھتے ہوئے انسان میں یہ فطرت عطا کی گئی ہے اور یہ انسان کا حق بھی ہے ۔

لیکن ہو او ہواس سے بالاتر شی ہے ۔

خام خیالات، غلط محاسبات اور غیر عاقلانہ سلسلہ کانام ”ہوا و ہوس“ ہے جس میں بے ہودہ عادت ، غلط مقصد اور شیطان و حیوان کی شیطنت مخلوط ہوتی ہے ۔

ہوس کی اساس زودگزر قیمت ، بچکانہ یا نا معقول چیز پر ہوتی ہے ۔

جو شادیاں ہوس کی بنیاد پرقائم ہوتی ہیں ان میں جدائی بہت جلدی ہوتی ہے، اس لئے کہ انکی بقا کی ضامن نہایت کمزور چیز ہوتی ہے جیسے پانی پر ایک حباب یا اسمان کی بجلی !

ہوا و ہوس کی شادیوں کی بہت سی علامتیں ہیں ۔

ہوا و ہوس کے مجلے اس سے بھرے ہوئے ہیں ۔

اس طرح کی شادیوں کے نمونے کبھی سینیما کی فلمیںہوتی ہیں، کبھی شادیاں اور طلاق پڑھنے والے توکبھی پیشہ ور لوگ۔

یہ لوگ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ یہ تاجر لوگ اپنی تجارت اور کام کو چمکانے کے لئے روزانہ ایک نیا کام انجام دیتے ہیں تاکہ اس کا نام سب کی زبان پر آجائے ، اسی وجہ سے وہ لوگ مجبور ہیں کہ ایک روز شادی کریں اور دوسرے روز طلاق دیدیںتاکہ اس جدائی کی تصویریں اور تفصیلات بازار کے اخباروں اور مجلوں کی زینت بن جائیںاور ان کے کام اور تجارت میں رونق پیدا ہوجائے ۔

اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ سینیما کے چہرے اصلی چہرے نہیں بلکہ یہ کریم وغےرہ سے میکپ کئے ہوئے بناوٹی چہرے ہیں، ان چہروں میں دوسری قسم کے چہرے ہیں ۔

لیکن ہوا و ہوس کے پرستار نادان افراد ان تمام چہروں کو اصلی سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنی زندگی کی بنیاد کو اس طرح کے سراب اور پانی کے حباب پر رکھتے ہیں اور ان اپنی زود گذر ہوس کو پورا کرنے کے لئے ان کے حصول میں خود کو اور دوسروں کو ہزاروں مشکلات میں ڈالتے ہیں، خود بھی در بدر ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی دربدرکرتے ہیں ۔

ہوا وہوس کے لئے ہونے والی شادیوں کی دوسری مثال بعض و ہ مواقع ہوتے ہیں جہاں پر کوئی کسی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے مثلا کسی ورزش کو دیکھتے ہوئے ایک طرح کے احساس کا اظہار کرنا وغیرہ۔