تیسری فصل :جنسی مشکلات میں ایک بڑی غلط فہمی
” میں چاہتا ہوں کہ خون کے آنسوں روؤں چونکہ انکھوں میں اشک خشک ہو گئے؟
میں چاہتا ہوں کہ فریاد کروں لیکن سینے سے آہ نہیں نکلتی !
چاہتا ہوں کہ غور و فکر کروں، مگر کس چیز کے بارے میں ؟ کون سی بدبختی کے بارے میں؟کس بیہودگی کے بارے میں؟
کیا سوچنے سمجھنے والا دماغ ان سختیوں کے مقابلے میں اپنی جگہ باقی رہ سکتا ہے ۔
لاچارو اکیلا، سرگرداں، پریشان، اپنے حال ومستقبل سے ڈرا ہواہوں،ہر آدمی اور ہر چیز سے نفرت کرنے والا، اور اس بدنام اور نجس ماحول سے آلودہ !!
اکیس سالہ جوان ہوں ،حساس ترین دس سال صرف اکیلے گذار چکا ہوں، زندگی کی سختیاں اور معاشرے کا بد نما چہرا مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتا ہے...
مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا،چند سال قبل جب میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اچانک بغیر کسی ارادے کے ایک خراب جنسی عادت سے آشنا ہوگیا ، وہ وقت تو گذر گیا مگر کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ جوانی کا وقت کس قدر حساس اور خطر ناک ہوتا ہے؟ برہنہ عورتوں اور لڑکیوں کی تصویریںجو شہوت اور ہوس کی آگ میں جل رہی ہوتی تھیں میرے اند ر کے ہیجان سے دامن گیر ہوتی تھیں ۔
جی ہاں میں اس کا عادی ہوچکا ہوں، جسمانی اور روحانی طور پر بیمار ہوگیاہوں ، اور جنون کی منزلوں میں قدم رکھ چکا ہوں ، اس قدر پریشان ہوں جسکا تصور بھی نہیں تھا ۔
ٓآپ سے معذرت خواہ ہوں کہ خط کو طول دے رہا ہوں،یہ فریاد و نالے جو آپ کے کانوں تک پہنچ رہے ہیں تنہا میرے نہیں ہیں بلکہ مجھ جیسے بہت سے جوان ہیں جو اس منزل سے گذر رہے ہیں، اور میری طرح بے یار و مددگار ہیں ۔
یہ بات بھی ذکر کر دوں کہ جوانی کے سولہویں اور سترہویں سال کے درمیان میں دو بار خود کشی کرنے کی کوشش کر چکا ہوں،لیکن مجھ بے سہارا کو مرنے بھی نہیں دیا جاتا ،! اس وقت میں بہت زیادہ ناتواں ہو چکا ہوں، بہت معذرت کے ساتھ یہ بیان کررہاہوں کہ کچھ دنوں سے غیر ارادی طور پر مجھ سے کچھ قطرات.... نکلتے ہیں ...--؟ اس وقت میں ہلاکت کے طوفان میں ادھر ادھر سرگرداں ہوں شایداس کا ایک پہلو مجھے نابودی کی طرف لے جارہا ہے ! ....۔
میری آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس سے نجات دیدیجئے، امیدہے کہ جلداز جلد جواب مرحمت فرمائیں گے،اگر چاہیں تو پوسٹ کے ذریعہ یا اپنے مجلہ ”نسل جوان“ میں اس کا جواب دے سکتے ہیں ،ہم آپ جیسے پاکدل راہنمااور اس مجلہ میں کام کرنے والوں کی ترقی کے لئے دعا کرتے ہیں جو میری اور مجھ جیسے دوسرے آلودہ افراد کی حفاظت کیلئے اس مجلہ کو نشر کررہے ہیں ۔
س ۔ ب ۔ مشہد
اہم مسئلہ یہاں ہے
رنج و غم سے بھرا ہوا ایک دوسرا خط جوایک جوان کی پریشانی اور معاشرے کے غمگین پہلو سے متعلق تھاآپ کے سامنے ذکر کیا جس میں لکھنے والے کے نام کی صرحت سے گریز کیا گیا ۔
اب ہم ”استمناء“ یا ( Masturdation )کے خطرناک اور ناہنجار عادت کے بارے میں گفتگواور اس سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کو بتاتے ہیں، ممکن ہے ہم اس خطرناک سیلاب کو کسی حد تک روکنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
اس حساس مسئلے میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بعض ڈاکٹران متخصص افراد کے مقابلے میں جنہوں نے اپنی زندگی کے کافی سال اس کے مطالعہ میں صرف کر ڈالے ہیں اور اس گندی عادت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی کچھ تحریر کیا (جسکی مثالیں گذشتہ بحثوں میں قاری عزیز ملاحظہ فرماچکے ہیں) اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ :” ہمیں میڈیکل میں اس عمل کا کوئی نقصان نہیں ملا،لیکن اس کے غلط اور مہلک آثار سے اگر ڈرایا جائے تو ممکن ہے اس میں کچھ نامطلوب آثار پیدا ہو جائیں!“
کبھی کہتے ہیں : اس عمل میں اور جنسی معاشرت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔
بغیر مطالعہ کے سبب وجود میں آنے والے نظریات ہی ہیں جنکی وجہ سے بہت سے جوان اس نجس عادت کا شکار ہو گئے ہیں ۔
اس نظریہ کا جواب دوسرے با خبر ڈاکٹر اس طرح دیتے ہیں:
یہ افراد اس مسئلہ کے بنیادی نکتہ سے بے خبر ہوتے ہیں: بے شمار مشاہدات کی گواہی اور اس بیماری میں مبتلا افراد کے اعترافات کی بناء پر یہ عمل انسان کی عادت میں داخل ہوجاتاہے ، جس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے ، جس سے آسانی سے دامن نہیں بچایا جا سکتا ۔
ممکن ہے کوئی نشہ آور مادہ ایک بار استعمال کرنے سے نقصان نہ پہنچائے لیکن اس کی عادت ہونے کا خطرہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے، ایسی عادت کہ جو انسان کی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔
جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس موضوع کے ماہرین افراد کی تحریروں کے مطابق یہ منحوس عمل انسان کو اس کا عادی بنا دیتا ہے، جس سے جوانوں کوپرہیز کرنا چاہیے ۔ (توجہ کریں)
دوسرنکتہ : اس موضوع میں اس بات کا اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ اس عمل میں آلودہ ہونے کے لئے وسائل کی فراہمی بہت آسان ہے ، در حقیقت وسائل کی ضرورت ہی نہیں ہے ،ہر حال میں اس کو انجام دیا جا سکتا ہے، اور اس کی کوئی حد بھی معین نہیں ہے ۔المیہ یہ ہے کہ یہ بیماری ۱۶ سے ۲۰ سال (جنسی تحریک کے طوفان کا زمانہ) تک کے جوانوں کو بہت جلد اپنی زد میں لے لیتی ہے،اور ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتی ہے، حالانکہ جنسی مباشرت اس کی طرح سادہ نہیں ہوتی ہے، چونکہ شوہر اور بیوی خاص امکانات کے بغیر اس کو انجام نہیں دے سکتے ۔
جو افراد اس بیماری کے نقصانات کو کم شمار کرتے ہیں وہ یقینا ” اس بیماری کے عادی ہونے “ ااور اس مسئلے کے دوسرے حالات و جوانب سے آشنا نہیں ہیں ۔
ورنہ اس قدر حساس حقیقت کا انکار کیونکر ممکن ہے،جبکہ اس بیماری میں مبتلا جوان ہلاکت ،جنون ، کلی طور پر مفلوج اور ناتوانی ، کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور اپنی ہر چیز اس کی وجہ سے گنواں دی ہے ۔کیا ان حساس مشاہدات کاانکار کیا جا سکتا ہے ؟!
حالانکہ اکثر مریضوں کاکہنا ہے کہ ہم اس عادت کے نقصانات، اور ضررسے ہر گز آشنا نہ تھے ، اس لئے ان کونصیحت کرنے کا مسئلہ بھی منتفی ہے ۔
اس بیماری سے بچنے کے دستورات اور طریقے ۔
ان حقائق کی وضاحت کے بعد، اب ہم تمام جوانوں کی توجہات کو مندرجہ ذیل نکات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیںکہ کس طرح اس عادت میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا جائے ۔اور اگر خدا نخواستہ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں تو کس ا طرح سے اس کا علاج کیا جائے ۔
پہلا قدم:
اس بیماری میں مبتلا افراد پہلے مرحلہ میں اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ یہ بیماری اپنے تمام مہلک آثار کے باوجود علاج کے قابل ہے، ڈاکٹروں اور اس میں مبتلا افراد کے بقول ،اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو تمام غلط عادتوں کی طرح اس کو بھی یقینی طور پر چھوڑا جا سکتا ہے ۔
اس بات کی طرف توجہ رہے کہ اس کی وجہ سے جو برے آثار پیدا ہوجاتے ہیں وہ بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جوانوں کی طاقت اور نشاط ، گذشتہ پریشانیوں کو ختم کردیتی ہے ( میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ سب کو ختم کردیتی ہیں لیکن اکثر مشکلات کو ختم کردیتی ہے) اور جس طرح سے بچوں اور جوانوں کے جسم کے زخم بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں اسی طرح اس برے عمل کے اثرات بھی بیدار ہونے کے بعد ختم ہوجائیں گے ۔
اس بیماری میں مبتلا جوان اگر اپنی کامیابی کے بارے میں مایوسی یا تردید کا شکار ہیں تویقینا وہ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں چونکہ مایوسی اور تردید ان کی کامیابی کی راہ میں ایک عظیم سد راہ ہے ۔
اس بنا پر سب سے پہلا اور ضروری مسئلہ یہ ہے کہ جوان اس بات پر یقین اور بھروسہ رکھیں کہ اس بری عادت کا ترک کرنا ممکن ہے اور اس کے تمام خطرناک نتائج سے رہائی پانا محال نہیں ہے ۔
اب جبکہ آپ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور کامل ایمان اور امید کے ساتھ اس کاعلاج کرنے کی طرف بڑھ گئے ہیں تو پھر پہلے علاج اور قانون پرعمل کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔
اس قدر مہم جس کا تصور نا ممکن ہے
۲ ۔ تمام ڈاکٹر اس بات کے قائل ہیں کہ ہر عادت کے ترک کرنے سے پہلے محکم ارادہ در کارہوتا ہے ،یعنی بہت ہی مضبوط ،یقینی اور محکم ارادہ ۔
ممکن ہے آپ اس موضوع کو سادہ اور معمولی موضوع شمار کریں ، حالانکہ ہماری نظر میں یہ اس درجہ مہم اور موثر ہے جسکا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
اس عمل کے ترک کرنے کا محکم ارادہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس عمل کے تمام نقصانات اور خطر ناک نتائج اور ضرر جنہیں ہم نے گذشتہ بحث میں ذکر کیا ہے،کئی بار دہرائیں،اور اس عمل کے تمام خطیرنتائج جو مبتلااورعادی افراد کے منتظر ہیں ان کو اپنی نظر میں مجسم بنا ئیں ، اورغیر معمولی انسانی قدرت ”جو ہر انسان میں پوشیدہ ہے“ کو مد نظر رکھتے ہوئے صمیمانہ اور مستحکم ارادہ کریں ۔
ہم جانتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا بعض جوان اعتراض کریں گے کہ ” ہم میں محکم ارادے کی توانائی نہیں ہے ارادے کی قدرت ہم سے سلب ہو چکی ہے، اورہم نے اس کو ترک کرنے کے لئے بارہا ارادہ کیا مگر پھر بھی ارادے چکنا چور ہو گئے “ !
ہم آپ کے اعتراض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن آپ ہمارے جواب کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔
ہم اعتراض کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں :” کیا تم نے کبھی اپنے والدین ، بھائی بہن یا کسی دوسرے محترم شخص کے رو برو اس عمل کو انجام دینے کی جرئت کی ہے ؟؟۔۔
حتما تمہارا جواب منفی ہوگا ۔
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیوں ؟
آپ کہیں گے :چونکہ یہ عمل شرمناک ہے!
گویا آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ صمیمانہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس شرمناک عمل کو ان کے سامنے انجام نہیں دیں گے !۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح آپ خود کو اس عمل کے مقابلے میں بے ارادہ اور بے اختیار سمجھتے ہیں ویسے نہیں ہیں، اگر آپ بے اختیار اورفاقد الارادہ ہوتے تو ان کے سامنے اس عمل کو انجام دینے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے !۔
جوانوں کو چاہیے کہ اپنے اس عظیم ارادہ اور اختیار کو جس طرح اس مقام پر استعمال کرتے ہیں ہر موقع پر استعمال کریں ۔ یہ سرمایہ تمہارے وجود میں پایا جاتاہے اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟۔
اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور تمہارے تمام کامو ں پر اس کی نظر رہتی ہے ، تم ہر جگہ اس کے حضور میں ہو ، کیا یہ مناسب ہے کہ ایسے پروردگار کے سامنے اس زشت عمل کو انجام دیاجائے ؟!
دلچسپ بات یہ کہ اسلام کے عظیم راہنما امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں ایک شخص عرض کرتاہے: فلاں شخص بیچارہ ایک جنسی کجروی کا شکار ہوگیا ہے(اس عادت کے علاوہ کسی دوسری کجروی ) اور اس میں اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہے !
آپ نے غصہ کے عالم میں فرمایا: کیسی بات کرتے ہو ؟ کیا وہ شخص اس عمل کو لوگوں کے سامنے انجام دے سکتا ہے ؟!
اس نے عرض کیا : نہیں ۔
آپ نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ اس کے اپنے ارادے اور اختیار سے ہے ۔
جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے : ”ہم نے بارہا صمیمانہ ارادہ کیا مگر وہ ٹوٹ جاتا ہے“ ہم ان لوگوں سے صاف طور پر کہتے ہیں ارادہ کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارادے کے تمام اثرات ، انسان کے وجودسے ختم ہو چکے ہیں ،بلکہ یہی ٹوٹا ہو ارادہ انسان کے دل اور روح کی گہرائیوں میں ایک ایسا اثر چھوڑتا ہے جو آخری پختہ ارادے کو گزشتہ ارادے سے محکم بنا تا ہے ( غور کریں ) ۔
آپ کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں:
بسا اوقات انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنے پیروں کے سہارے ایک پہاڑ پر چڑھ جائے یا گاڑی کے ذریعے کسی اونچائی سے گذر جائے ممکن ہے پہلی یا دوسری مرتبہ میں کبھی کبھی دسویں مرتبہ میںبھی کامیاب نہیں ہو پاتا ، لیکن اخری بار میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور اس سے گذر جاتاہے ، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلی بار میں اس نے کچھ نہیں کیا بلکہ ہر دفعہ اس کے عبور کرنے میں اس نے دشوار قدم اٹھائے اور پیچھے رہ گیا لیکن اس نے جانے ان جانے میں ایک حد تک آمادگی کو سیکھا اور اس کو محفوظ کیا ،جس کے نتیجہ میں وہ باالآخر کامیاب ہو گیا ۔
دانشمند حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شعر یا نثر کے کچھ حصے کے حفظ کرنے میںممکن ہے پہلی بار اس کو ۵ مرتبہ دہرانا ضروری ہو ، اور ممکن ہے کچھ وقفہ کے بعد اس کوبھول جائے ،لیکن اب دوبارہ یاد کرنے کے لئے ۵ بار دہرانا ضروری نہیں ہے ،ممکن ہے ۳ مرتبہ دہرانا کافی ہو ۔یعنی یاد کرنے کے گذشتہ کچھ اثرات انسان کی روح میں باقی رہ گئے تھے، جسکی وجہ سے دوسری مرتبہ یاد کرنا آسان ہوگیا تھا ۔ لہذا انسانی روح سے مربوط تمام مسائل اسی طرح ہیں ۔
اس لئے اگر آپ نے اب تک دس بار بھی ارادہ کرکے اس کو توڑ ڈالا ہے پھر بھی اس عادت کو ترک کرنے کے لئے ایک قوی ،پختہ اور مستحکم ارادہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنی تمام معنوی توانائی (مخصوصا ایمان کی طاقت) کو جمع کرکے اس کامیابی کو حاصل کر لیں ،اور اپنے عظیم الشان راہنما علی(ع) کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ” صاحبان ایمان ایک پہاڑ کی مانندمستحکم اور ارادے میں استقامت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔“
اب جب کہ آپ پختہ ارادہ کر چکے ہیں آنے والے بقیہ دستورات پر دقت کے ساتھ عمل کریں ۔