جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل 0%

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22562
ڈاؤنلوڈ: 4246

تبصرے:

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22562 / ڈاؤنلوڈ: 4246
سائز سائز سائز
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف:
اردو

کتاب کا دوسراحصہ: جنسی انحرفات

پہلی فصل : جوان اور جنسی کجروی

ہر طرف دردناک فریاد بلند ہیں! ہم جانتے ہیں کہ جوانی آشفتگی کے زمانے میں جنسی طبیعت سے مخصوص ہوتی ہے،

جنسی سرشت کی اگر صحیح طریقے سے راہنمائی نہ کی جائے توجوانوں کی خوش نصیبی اور سعادت مندی کو اپنی شدید ضربت سے منہدم کر دیتی ہے، اور ان کے مقدر کوچور چورکر دیتی ہے ۔

ان کی خدا دصلاحیتوں کو جو ابھی ابھی کلی کی مانند ہیںنیست و نابود کردیتی ہے، ان کے ابتکار اورنبوغ کوجو ممکن ہے آنے والے وقت میں ان کے لئے یا معاشرے کے لئے سر چشمہ افتخاربن جائے،بے کار بنا دیتی ہے ۔

اس راہ میں قربان ہونے والے جوانوں کی تعداد کم نہیں ہے ۔اسی طرح جو افراد اس خواب سے بیدار ہونے کے بعد اپنی روح میں دردناک افسوس و ندامت کا احساس لئے ہیں، بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو عدم رہنمائی کے سبب آنے والے نقصانات کا جبران زندگی بھر نہیں کر سکیں گے ۔

اب تک اس راہ میں قربان ہونے والے افراد کے بے شمار خطوط ہم تک پہنچے ہیں جن کے ذریعے اس وحشتناک راز سے پردہ اٹھ گیا ہے ، اور اسی وجہ سے ہم بھی اس خطرناک موضوع کو زیر بحث لا رہے ہیں ۔

ان خطوط میں لکھنے والوں نے نا قابل بیان اسرار اور دردناک واقعیت کا پردہ فاش کیاہے، اور اپنی نجات اور راہ حل کا مطالبہ کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اس قدر اس خطرے کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھے ،لیکن معلومات کی وجہ سے مجبور ہو گئے کہ اپنی توان اورکوشش بھر جوانوں کو اس خطرے سے آگاہ کریں، اور ان کو اس خطرے کے اصلی اسباب کی طرف متوجہ کریں ۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور جوانوں کو اس امر میں اپنی مدد سے محروم نہ رکھے ۔

ابتداء میں ان خطوط کو آپ کے سامنے بعینہ پیش کرتے ہیں :

پہلا خط

” ...چونکہ جناب عالی نے اپنے بیان میں جوانوں کو یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی مختلف مشکلات کی تشریح کریں، لہذا میں اس خط کو بھیجنے میں عجلت کر رہا ہوں:

...جس پریشانی کی وجہ سے میںہمیشہ غم زدہ رہتا ہوں در حقیقت وہ جنسی اور شہوات کے حوالے سے ہیں ،ممکن ہے یہ مجھے جلدی ہی ہلاک کر ڈالیں ۔ میں اپنی مشکلات کی وضاحت پیش کرتاہوں :

میری عمر ۲۳ سال ہے اور میں ایک جوان طالب علم ہوں ، جب سے میں نے بلوغ کی منزل میں قدم رکھا ہے ، صحیح تربیت کے نہ ہونے اور لا علمی کی وجہ سے ایک قسم کی جنسی کج روی کا شکار ہوگیا ہوں ، اور سات سال سے اس کو مسلسل انجام دے رہا ہوں!

اور ابھی تک اس خانہ خراب بلا میں گرفتار ہوں اس کو ترک کرنے کی ہرچند کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔اس کے نقصانات جو میںنے کتابوں میں پڑھے ہیں اس کے علاوہ اپنے جسم میں بھی محسوس کر رہا ہوں ، میری آنکھیں ضعیف ہوچکی ہیں ، اعصاب کی کمزوری ، خون کی کمی ِ ، جسم میںکمزوری و لرزہ ، اور افسردگی نے مجھے بے چارہ بنا دیا ہے!

ایک زمانے میں مجھ میں کافی قابلیت پائی جاتی تھی، پڑھائی کرتا تھا ، لیکن اس وقت میری قابلیت کم ہو چکی ہے، مطالب کو صحیح طریقے سے درک نہیں کر پاتا ہوں ، لیکن زور زبردستی سے پڑھائی کو جاری رکھے ہوئے ہوں...

جس وقت میں قلم اٹھاتا ہوں لکھنے کی طاقت نہیں ہوتی آخر کار قلم کو رکھ دیتا ہوں یہاں تک کہ جب ہاتھوں میں کچھ طاقت آتی ہے تو دوبارہ لکھتا ہوں!

مجھ میں ایمان کا ضعف بھی بڑھ گیاہے میرا وجدان ہمیشہ مجھے سرزنش کرتاہے ۔

بے بس ہو کرکسی گوشہ میں بیٹھ جاتا ہوں دیرتک روتا ہوں آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، لیکن مجھ بیچارہ اور بدبخت کوکوئی مددگار نہیں ملتا !!!

شاید آپ یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ جب میں اس کے نقصانات کا مشاہدہ کر رہا ہوں تو اس کو ترک کیوں نہیں کرتا ؟

اس کا جواب بھی میرے پاس ہے !آج اس کا چھوڑنا میرے لئے( تقریبا)محال ہو گیا ہے، اس لئے کہ جب اس شہوت میں تحریک ہوتی ہے تو قوت ارادہ مجھ سے سلب ہو جاتی ہے،اور جب سب کچھ ہوچکا ہوتا ہے تو پھر صرف رونا اور آنسو بہانا ہوتاہے!...

کبھی میں خدا سے دعا کرتا ہوں اور ائمہ (علیہم السلام) کی درگاہ میں توسل کرتا ہوں لیکن جس قدر بھی التماس اور دعا کرتا ہوں اتنا ہی اس کا نتیجہ کم ہوتا ہے ۔

کبھی میں سوچتا ہوں خدا اور ائمہ اطہار مجھ جیسے ناپاک افراد کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے ؟! مجھ جیسے بے سہارا لوگ اس قدر بے چارہ ہیں کہ اپنا درد دل اپنے کسی عزیز سے بھی بیان نہیں کر سکتے ، آخر ہم کس کا دامن پکڑیں! ؟

میرے صبر کا جام لبریز ہو چکا ہے ، جان لبوں پر آچکی ہے ۔خدا را مجھ پر رحم فرمائیں، راہ نجات کی ہدایت فرمائیں،اگر طبی طریقے آپ کی نظر میں ہیں تو بھی مجھے مطلع فرمائیں،یقینا آپ جانتے ہیں کہ اگر میں آپ کی قدر دانی کروں تو آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے ، معاشرہ کو آپ کی قدردانی کرنا چاہئے ،بے شک خدا آپ کو اجر دینے والا ہے ۔“

دوسرا خط :

” جوانوں کی راہنمائی کے لئے جس مقدس جہاد کا جناب عالی نے آغاز کیا ہے اس کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں... جیسا کہ میرے لئے واضح ہے کہ بہت سی لکھنے والوں (اگر ان کو لکھنے والا کہا جائے)کے برخلاف جناب عالی کے نوشتہ جات، جوانوں کے لئے خوش بختی کا ایک عظیم سامان ہیں ۔

بہر حال میری عمر ۱۷ سال ہے اور میں ایک جوان طالب علم ہوں ،پڑھائی کے دوران میرا شمار کلاس کے ممتازشاگردوں میں ہوتا تھا، لیکن جیسے ہی میں بلوغ کی منزل تک پہنچا کچھ خاص اسباب کی وجہ سے پر آشوب جال میں پھنس گیاجنہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔

اگرچہ یہ مشکل تنہا میری نہیں ہے میرے بہت سے ہم عمر بھی اس مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں ۔

ہائی اسکول کے پہلے سال میں اس کجروی کا شکار ہو گیا اور ان چار سالوں میں میری تمام فکری صلاحیتیں ختم ہو گئیں ، میں بارہا اس عمل سے توبہ کرچکا ہوں لیکن روز بروز میرے نفس کا ضعف بڑھتا رہا ۔اور اب میں خود محسوس کرتا ہوں کہ میرے جسم کے بہترین حصے جیسے دل ، اور میرے اعصاب ایک خلل سے دوچار ہو گئے ہیں ، یہاں تک کہ میری قوت ارادی بھی حد سے زیادہ خیر باد کہہ چکی ہے،مجھے اپنے آپ میں حقارت کا احساس ہمیشہ رہتاہے،میں نے بات چیت کرنا بہت کم کر دیا ہے، ورزش بھی نہیں کرسکتا،یہاں تک کہ رشتہ داروں کے یہاں مہمانداری میں بھی نہیں جاتا ہوں!--

میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ میراآیندہ بہت اچھا نہیں ہوگ...اس قدر قوت ارادی کھو چکا ہوں کہ اس عمل کا ترک کرنا میرے لئے مشکل ہو گیا ہے ۔

اس کی وجہ کیا ہے ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ برہنہ عورتوں کی تصویریں میرے ہم عمر ساتھیوں کے پاس بہت زیادہ ہیں ۔

مفسد اور سیکسی فلمیں دیکھنا ہمارا کام ہے ،اور فضول کتابیںبہت کم قیمت میں ہمیں مل جاتی ہیں ۔

خدا کے واسطے ہماری راہنمائی فرمائیے کہ کس طرح ہم اس دردناک بلا سے آزاد ی حاصل کریں؟!...

تیسرا خط

” ...کیا آپ جوانوں کے حالات اور ہمارے درد دل سے واقف ہیں؟...

کیا آپ جانتے ہیں کہ بہت سے جوان بہت بڑی مجرمانہ حرکت انجام دیتے ہیں اور خاص قسم کی کجروی کا شکار ہیں؟...۔

کچھ دن پہلے میں یزد شہر کے ثریای نامی سڑک سے گذر رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک جوان پر پڑی جس کی عمر تقریبا ۲۵ سال تھی ، اس کا جسم بے حس اوروہ انکھوں سے اندھا تھا، اس کے ہاتھ اس کے چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں تھااور سڑک پر جا رہا تھا،۔

میں اپنی سائیکل سے اترا اور اس کے بھائی سے میں نے اس کے متعلق سوال کیا کیونکہ میں اس کے بھائی سے پہلے سے آشنا تھا ، میں نے سوال کیا یہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی ہے، یہ سن کر میں حیرت میں پڑگی...۔

میںنے اس سے سوال کیا آپ کے بھائی کی یہ حالت کیسے ہوئی ؟ اس نے کہا کہ بیس سال تک اس میں کوئی برائی نہیں تھی، لیکن ایک جنسی برائی کی عادت سے چند سال پہلے اس کی آنکھوں کی روشنی تک چلی گئی ، مگر اب بھی یہ اپنی اس عادت سے باز نہیں اتا

جناب عالی کی خدمت میں گزارش ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو جوانوں کو اس نقصان سے بچنے کا راہ حل بیان کریں ۔اور ہمیں اس نجاست سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے ۔

مختلف شہروںسے آنے والے یہ چند خطوط تھے جن سے ہم نے لکھنے والوں کے نام اور کچھ غیر ضروری مطالب کو حذف کرکے آپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔

یہ خطوط اور ان کے جیسے دوسرے خطوط ہمارے جوانوں کے حالات اور ان کے مستقبل کی”زندہ نشانیاں“اور آئینہ ہیں ۔ یقینا اس کاان کار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکیزہ افرادجو کسی بھی غیر اخلاقی بیماری یا کجروی کا شکار نہیں ہیں بہت زیادہ ہیں لیکن ساتھ ساتھ قربان ہونے والے جوانوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے ۔

اگر ہم اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کا تماشا دیکھتے رہے تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ پاکیزہ افراد بھی اس نجاست میں ملوث ہوجائیں اور جو لوگ اس میں ملوث ہو چکے ہیں وہ بھی کلی طور پر ہاتھ سے نکل جائیں اور اسی طرح ناتواں ، قابل رحم ، شکست خوردہ ،اور بے نواں افراد ایک مجرم کی صورت اختیار کرلیں ۔

لیکن ہمیں امید ہے اگر جوان چاہیں تو اس بلا سے نجات پیدا کرسکتے ہیں ، اور پاکیزہ افراد مزید مراقبت کے ذریعہ خود کو ہر قسم کی جنسی کجروی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔

ہمارا دل ان قربان ہونے والے افرادکی فریاد سے لرز تاہے اور ان کے قلم کی نوک جو گریہ وزاری کے ساتھ مدد کی فریادکرتی ہے اس سے ہر انسان کے دل میں ایک خراش پیداہوجاتی ہے ۔

ہمارے زمانے کی بد بختی یہی ہے کہ آج کی غلط تربیت نے فساد سے بھری ہوئی کتابوں، سیکسی فلموں ،شہوت انگیز تصاویر اور اس طرح کے دوسرے وسائل کے ذریعہ جوانوں کے جنسی مسئلہ کو بڑے خطرناک مرحلے تک پہنچا دیا ہے ۔آزادی کے نام کو غلط استعمال کرکے اس مسئلے کو زیادہ عام کردیا ہے،اگر اس کے مقابلہ میں باقاعدہ جہاد نہ کیا گیا تویقینا جوانوں کا مستقبل بد بختی اور موت سے دوچار ہوجائے ہوجائے گا ۔

اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس راہ میں قربان ہونے والے افراد جن کا ذکر اوپرخطوط میں کیا جا چکا ہے ، (اگرچہ اس کو ابھی قربانی نہیں کہا جاسکتاہے)اور اس کے علاوہ جن کو آپ خود دیکھ چکے ہیں یہ خود ایک معلم کی مانند ہیں جو بہت چیزیں دوسروں کو سکھا سکتے ہیں ۔

لیکن اس موضوع کی اہمیت کے سبب ضروری ہے کہ اس بارے میں گفتگو کی جائے ،اور جوانوںکی زندگی میں اس راستے کے کانٹوں سے سب کو آگاہ اور راہ حل کی وضاحت کی جائے ۔

ہم آپ سب دوستوں کو اس سلسلے میں دقیق مطالعہ اور بحث کی دعوت دیتے ہیں ، اوراطمنان دلاتے ہیں کہ اگر اپنے دل کو ہمارے سپرد کریں اور جوکچھ ہم آپ کے سپرد کریں ، فوراس کو عمل میں لائیںتو یقینا ہر طرح کے خطروں سے رہائی مل جائیگی ۔

دوسری فصل:جنسی انحرفات کے مہلک نتائج

جن مسائل سے جوان روبر ہوتے ہیں ان میں سے یہ ایک اہم مسئلہ ہے ۔

غیر آلودہ افراد کے لئے محفوظ رہنے کا راستہ اور آلودہ افراد کا علاج

گزشتہ بحث میں کچھ زندہ مثالوں سے واضح ہوگیا کہ کس طرح جنسی انحرفات اور غلط عادتیںجوانوںکو ناتوان ،پس ماندہ اور بیمار بنادیتی ہے اوران کو جنون اور ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیتی ہے ۔

افسو س ہمارے دورمیں بعض لوگ اس کو”زمانے کے سیکسی مسائل“سے تعبیر کرتے ہیں ، اور بہت سے بے ہدف لکھنے والے کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو ایک معمولی اور غیر مہم مسئلہ شمار کریں اورکبھی کبھی بعض منحرف افراد کو خوش کرنے کے لئے اس کو جوانی کی ایک ضرورت شمار کرتے ہیں!!

جیسا کہ ہم اورآپ جانتے ہیں کہ بعض افراد اس کو اپنانے اور ناجائز پیسہ حاصل کرنے کاذریعہ بنا تے ہیں، اور ایک دلچپ جنسی موضوع اور ہیجان آور تصویریں تیار کرنے کے لئے زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں اور کسی چیز کی پروا نہیں کرتے ہیں ۔

مثال کے طور پر ایک رسالہ جو ”زنان“ (خواتین ) کے نام سے نشرہوتاہے، لکھنے والے کے بقول ایک خبر جس نے پورے یوروپ میں ہل چل پیدا کر دی تھی(اور ممکن ہے اس کے اثرات جلد ہی دوسرے بر اعظم تک پہنچ جائیں)اس میں لکھا تھا کہ ایک خاتون نے کسی رسالے میں اعلان کیا کہ وہ اپنے شوہر کے لئے ایک معشوقہ کی تلاش میں ہے!!

یہ افراد اس طرح کی خبرکو(جو خود ان کی یا ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی بنائی ہوئی ہوتی ہیں ) اپنے رسالے کی تبلیغ اوراس کو شہرت دینے کے لئے نشر کرتے ہیں ۔اس طرح کی خبرکے نشر ہونے سے معاشرے کو سوائے ننگ و عار اور فساد کے کچھ نہیں ملتا ہے ۔

یہ بد بختی صرف اسی میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض ماہر نفسیات، ماہر سماجیات اور اطباء بھی اس جنسی سیلاب کو فطری اور بے ضرر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اور بعض لوگ جو اس کے غلط اور خطرناک نتائج کے تو قائل ہیں لیکن اس کی وضاحت اس طریقہ سے کرتے ہیں جس سے مسئلہ کے حل اور مبتلا افراد کی مدد کے بجائے گمراہی میں اضافہ ہو جاتاہے ۔

ان تمام اسباب و علل نے جنسی بے راہ روی کو اس قدر پیچیدہ ، دردناک اور وحشتناک بنادیا ہے کہ اس کی جڑوں کو اکھاڑنا اتنا آسان نہیں ہے اس کے لئے وقت ، بجٹ اور دقیق پلاننگ کی ضرورت ہے ۔

استمناء کے نقصانات:

جوانوں کو چاہیے کہ اپنے ہوش وہواس اور عقل و خرد کے ذریعہ جہالت اور گمراہی کے پردوں کوجو ان کے حساس حقائق پر پڑے ہوئے ہیں، اتار ڈالیں ۔ حقائق ، اور وہ مطالب جو انسان کو گمراہ اوراس کی فکر کو بے کار بنادیتے ہیں، درک کرنے سے فرار نہ کریں ، بلکہ غور و فکر سے کام لیں،حساس حقائق کو سمجھیں اور دو دو چار کی طرح والے مسائل کو درک کریں اور اس بے راہ روی کے مہلک انجام کو خود اپنی انکھوں سے مشاہدہ کریں ۔

ہم اس مقام پر سب سے پہلے ڈاکٹر، محققین اوران افراد کے کے ثبوت پیش کریں گے جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس طرح کے مسائل کی تحقیق میں صرف کیا ہے ۔ اس کے بعد جنسی کجروی کے نفسیاتی اور معاشرتی اسباب کا تجزیہ و تحلیل ،پھر اس عادت سے مقابلے کی راہ بیان کریں گے ۔

ایک معروف ڈاکٹر اپنی کتاب میں اس مہلک عادت ”استمناء“ کے نقصانات کے بارے میں کچھ دوسرے ڈاکٹروںکے بیانات کی تحریروں کی تشریح کرتے ہوئے نقل کرتا ہے : ”ہوفمان“کا کہنا ہے کہ میںنے ایک جوان کو دیکھا جو پندرہ سال کی عمر سے اس بری عادت کا شکار ہوگیا تھا اور ۲۳ سال کی عمر تک وہ اس پر باقی رہا ۔

وہ جسمانی ضعف کا اس درجہ دو چار ہوا کہ جب بھی وہ کتاب پڑھنا چاہتا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا اور سر میں درد ہو جاتا تھا،اور اس کی حالت ایک سرسام والے مریض جیسی ہوجاتی تھی ،جس طرح ایک مست آدمی سرگرداں رہتا ہے،اس کی آنکھوں کی پتلی غیر معمولی پھیل گئی تھی،اس کی آنکھوں میں شدید درد ہوتا تھا ۔

ڈاکٹر ہوچین سن ( Huotchinson ) کے مشاہدے بھی اس بات کو ثابت کرتے ہیں ” عام طور سے تناسلی سیسٹم سے مربوط بیماریاں استمناء کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں ، اور آنکھ کے اندورنی سیاہ اور دوسرے پردوں کی بیماریاں بھی اسی کا نتیجہ ہوتی ہیں“۔(غور کریں)

مذکورہ ڈاکٹر مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتاہے:

اس بری عادت کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ آنکھوں کی قوت شفافیت کو ختم اور ان کے اصلی رنگ کو زایل کردیتی ہے اور اس طرح وہ مرجھاجاتی ہیں، اس کے عادی لوگوںکے یہاں ابتدا میںذکاوت نابود ہو جاتی ہے ان کی صورت سے گرفتاری کی حالت ظاہر ہوتی ہے،آنکھوں میں نیلے رنگ کے حلقے پڑجاتے ہیں ۔ اس کے بعد ان کے اعضاء میں سستی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔

حافظہ کا کم ہونا، اشتہا کا نہ ہونا ، قوت ہاضمہ خراب ہوجانا، سانس لینے میں تنگی ہونا، ناقابل بیان مزاج اور اخلاق میں تغیر اورکینہ پیدا ہونا،رنج اور کدورت پیدا ہونا، ہمیشہ گوشہ نشینی اور تنہائی کی فکر یہ سب پریشانیاں جنسی کجروی میں مبتلا ہونے کا نتیجہ ہیں ۔

یہ ڈاکٹر اپنی کتاب میں دوسرے مقام پر اس بات کا اضافہ کرتا ہے کہ یہ عمل خون کی کمی ،جسمانی اور نفسانی قوتوں کے ضایع ہونے،سرمیںدرد،کانوں کی بیماری،کمر کا درد ،سانس لینے میں مشکلات،قوت حافظہ کی کمی ، جسم کے نحیف ہونے،کمزوری اور سستی مختصر یہ کہ بدن میں کلی طور پر قدرت کے نہ ہونے کا سبب بنتا ہے ۔اور حواس خمسہ سے نزدیکی رابطہ ہونے کی وجہ سے خصوصا آنکھ اور کان پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔

اس جنسی غلط عادت سے جسم کی قوت ، بیماری کے مقابلے میں ضعیف ہوجاتی ہے جیساکہ مذکورہ ڈاکٹر اس بات کی تائید کرتاہے:

” جو افراد اس مذموم عادت کا شکار ہیں اگر کسی بڑی بیماری کا شکار ہوجائیں تو پھر وہ آسانی سے اپنے آپ کو موت کے چنگل سے نہیں بچا پاتے ہیں ۔“

اس کے بعد ایک لکھنے والے کے قول کو نقل کرتاہے:

” ایک جوان اس عادت میں گرفتارہوگیا تھا ، اس کو بخار کی ایک بیماری لاحق ہوگئی تھی، بیمارہونے کے بعد چھٹے دن جبکہ وہ مکمل طریقہ سے کمزور ہوگیا تھا،لیکن اپنی اس عادت سے باز نہیں آیا اور آخر کار وحشتناک موت نے اس کو گلے لگا لیا“!

اور وہ اس واقعہ کو بھی نقل کرتا ہے :” ایک شخص جو اس منحوس عمل کا عادی تھا اور مسلسل اس کو انجا م دے رہا تھا ،وہ آہستہ آہستہ اپنے حواس میں شدید ضعف محسوس کرنے لگا یہاں تک کہ اس عمل نے اس کو اس قدر نحیف ولاغر بنا دیا کہ اس کی پنڈلیوں اور رانوں کا تمام گوشت ختم ہو گیا ،اور کمر درد سے ہمیشہ تڑپتا تھا لیکن وہ اپنے اس عمل سے باز نہیں آیایہاں تک کہ اس کے جسم پر فالج کا اثر ہو گیا اور چھ مہینے بستر پر اپنی موت سے لڑتا رہا اور آخر کار موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لئے سو گیا“ !

اس عمل کی عادت خصوصا ان فراد کے لئے جن کے جسم میں کو ئی زخم، یا ان کا کوئی اوپریشن ہوا ہو بہت ہی خطرناک ہوتی ہے ۔

مختصر یہ کہ اسی ماہرڈاکٹر کے بقول ،اس طرح کے جنسی انحرفات، میڈیکل اور مذہبی نقطہ نظر سے قابل نفرین ہیں اور انسان کے وجود کی بربادی اور نابودی کا موجب ہے اور ساتھ ساتھ روح کو بھی متزلزل بنا دیتی ہے ۔

استمناء پر قابو نہیں پایا جاسکتا

بہر حال اس جنسی بے راہ روی کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں بیان کیا گیا ہے ۔

اس کا ایک ہولناک خطرہ یہ ہے کہ اس عمل کی عادت پرکسی بھی طرح کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس کی زیادتی انسا ن کے ارادے کوہر روز ضعیف تر بنادےتی ہے، اور افراط کی عجیب و غریب صورت پیدا ہو جاتی ہے تمام حدیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔

یہ بات صحیح ہے کہ جنسی امور میں ہر قسم کی زیادتی چاہے وہ جایز طریقہ (شادی کے ذریعے) ہی سے کیوں نہ ہوبہت سے خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے ۔لیکن اس کو فطری اور غیر فطری طریقہ سے حاصل کرنے میں بہت بڑافرق ہے (جس کا بیان بعد میں آئیگا) اس لئے کہ اس کو جایز اور فطری طریقہ سے حاصل کرنے کے لئے کچھ شرائط درکار ہوتے ہیں اوروہ ہر حال میں ممکن نہیں ہوتے ، لیکن اس منحوس عادت کو کسی خاص شرائط کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لہذا اس عادت میں مبتلا افراد کی زندگی میں ایک خطرناک شگاف ڈال دیتی ہے اوراس میں اپنی جڑیں جما دیتی ہے ۔

مذکورہ بالا حقائق اور اس مسئلہ کی عظیم اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جوانوں کے جسمانی ، فکری ،اخلاقی ،اجتماعی ، اور مذہبی اقدار کی حفاظت کی خاطر دقت کے ساتھ ان طریقوں کو اپنایا جائے جو ہم اس خطرناک عمل سے محفوظ رہنے کے لئے ذکر کر رہے ہیں ۔

اس عمل میں مبتلا افراد بھی اس با ت کو یاد رکھیں کہ اس عادت کو ترک کرنے کے لئے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ، بلکہ ہر چیز سے پہلے س کے ترک کا مصمم ارادہ کر لیں اس کے بعد غورسے ہمارے بتائے ہوئے دستورات (جن کا ذکر آنے والے صفحات میں کریں گے) پر عمل پیرا ہوجائیں ، اور یقینا ان دستورات پر عمل کرنے سے اس عادت کا ترک کرنا مشکل نہیں ہوگا ۔

تیسری فصل :جنسی مشکلات میں ایک بڑی غلط فہمی

” میں چاہتا ہوں کہ خون کے آنسوں روؤں چونکہ انکھوں میں اشک خشک ہو گئے؟

میں چاہتا ہوں کہ فریاد کروں لیکن سینے سے آہ نہیں نکلتی !

چاہتا ہوں کہ غور و فکر کروں، مگر کس چیز کے بارے میں ؟ کون سی بدبختی کے بارے میں؟کس بیہودگی کے بارے میں؟

کیا سوچنے سمجھنے والا دماغ ان سختیوں کے مقابلے میں اپنی جگہ باقی رہ سکتا ہے ۔

لاچارو اکیلا، سرگرداں، پریشان، اپنے حال ومستقبل سے ڈرا ہواہوں،ہر آدمی اور ہر چیز سے نفرت کرنے والا، اور اس بدنام اور نجس ماحول سے آلودہ !!

اکیس سالہ جوان ہوں ،حساس ترین دس سال صرف اکیلے گذار چکا ہوں، زندگی کی سختیاں اور معاشرے کا بد نما چہرا مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتا ہے...

مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا،چند سال قبل جب میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اچانک بغیر کسی ارادے کے ایک خراب جنسی عادت سے آشنا ہوگیا ، وہ وقت تو گذر گیا مگر کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ جوانی کا وقت کس قدر حساس اور خطر ناک ہوتا ہے؟ برہنہ عورتوں اور لڑکیوں کی تصویریںجو شہوت اور ہوس کی آگ میں جل رہی ہوتی تھیں میرے اند ر کے ہیجان سے دامن گیر ہوتی تھیں ۔

جی ہاں میں اس کا عادی ہوچکا ہوں، جسمانی اور روحانی طور پر بیمار ہوگیاہوں ، اور جنون کی منزلوں میں قدم رکھ چکا ہوں ، اس قدر پریشان ہوں جسکا تصور بھی نہیں تھا ۔

ٓآپ سے معذرت خواہ ہوں کہ خط کو طول دے رہا ہوں،یہ فریاد و نالے جو آپ کے کانوں تک پہنچ رہے ہیں تنہا میرے نہیں ہیں بلکہ مجھ جیسے بہت سے جوان ہیں جو اس منزل سے گذر رہے ہیں، اور میری طرح بے یار و مددگار ہیں ۔

یہ بات بھی ذکر کر دوں کہ جوانی کے سولہویں اور سترہویں سال کے درمیان میں دو بار خود کشی کرنے کی کوشش کر چکا ہوں،لیکن مجھ بے سہارا کو مرنے بھی نہیں دیا جاتا ،! اس وقت میں بہت زیادہ ناتواں ہو چکا ہوں، بہت معذرت کے ساتھ یہ بیان کررہاہوں کہ کچھ دنوں سے غیر ارادی طور پر مجھ سے کچھ قطرات.... نکلتے ہیں ...--؟ اس وقت میں ہلاکت کے طوفان میں ادھر ادھر سرگرداں ہوں شایداس کا ایک پہلو مجھے نابودی کی طرف لے جارہا ہے ! ....۔

میری آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس سے نجات دیدیجئے، امیدہے کہ جلداز جلد جواب مرحمت فرمائیں گے،اگر چاہیں تو پوسٹ کے ذریعہ یا اپنے مجلہ ”نسل جوان“ میں اس کا جواب دے سکتے ہیں ،ہم آپ جیسے پاکدل راہنمااور اس مجلہ میں کام کرنے والوں کی ترقی کے لئے دعا کرتے ہیں جو میری اور مجھ جیسے دوسرے آلودہ افراد کی حفاظت کیلئے اس مجلہ کو نشر کررہے ہیں ۔

س ۔ ب ۔ مشہد

اہم مسئلہ یہاں ہے

رنج و غم سے بھرا ہوا ایک دوسرا خط جوایک جوان کی پریشانی اور معاشرے کے غمگین پہلو سے متعلق تھاآپ کے سامنے ذکر کیا جس میں لکھنے والے کے نام کی صرحت سے گریز کیا گیا ۔

اب ہم ”استمناء“ یا ( Masturdation )کے خطرناک اور ناہنجار عادت کے بارے میں گفتگواور اس سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کو بتاتے ہیں، ممکن ہے ہم اس خطرناک سیلاب کو کسی حد تک روکنے میں کامیاب ہو جائیں ۔

اس حساس مسئلے میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بعض ڈاکٹران متخصص افراد کے مقابلے میں جنہوں نے اپنی زندگی کے کافی سال اس کے مطالعہ میں صرف کر ڈالے ہیں اور اس گندی عادت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی کچھ تحریر کیا (جسکی مثالیں گذشتہ بحثوں میں قاری عزیز ملاحظہ فرماچکے ہیں) اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ :” ہمیں میڈیکل میں اس عمل کا کوئی نقصان نہیں ملا،لیکن اس کے غلط اور مہلک آثار سے اگر ڈرایا جائے تو ممکن ہے اس میں کچھ نامطلوب آثار پیدا ہو جائیں!“

کبھی کہتے ہیں : اس عمل میں اور جنسی معاشرت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔

بغیر مطالعہ کے سبب وجود میں آنے والے نظریات ہی ہیں جنکی وجہ سے بہت سے جوان اس نجس عادت کا شکار ہو گئے ہیں ۔

اس نظریہ کا جواب دوسرے با خبر ڈاکٹر اس طرح دیتے ہیں:

یہ افراد اس مسئلہ کے بنیادی نکتہ سے بے خبر ہوتے ہیں: بے شمار مشاہدات کی گواہی اور اس بیماری میں مبتلا افراد کے اعترافات کی بناء پر یہ عمل انسان کی عادت میں داخل ہوجاتاہے ، جس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے ، جس سے آسانی سے دامن نہیں بچایا جا سکتا ۔

ممکن ہے کوئی نشہ آور مادہ ایک بار استعمال کرنے سے نقصان نہ پہنچائے لیکن اس کی عادت ہونے کا خطرہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے، ایسی عادت کہ جو انسان کی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس موضوع کے ماہرین افراد کی تحریروں کے مطابق یہ منحوس عمل انسان کو اس کا عادی بنا دیتا ہے، جس سے جوانوں کوپرہیز کرنا چاہیے ۔ (توجہ کریں)

دوسرنکتہ : اس موضوع میں اس بات کا اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ اس عمل میں آلودہ ہونے کے لئے وسائل کی فراہمی بہت آسان ہے ، در حقیقت وسائل کی ضرورت ہی نہیں ہے ،ہر حال میں اس کو انجام دیا جا سکتا ہے، اور اس کی کوئی حد بھی معین نہیں ہے ۔المیہ یہ ہے کہ یہ بیماری ۱۶ سے ۲۰ سال (جنسی تحریک کے طوفان کا زمانہ) تک کے جوانوں کو بہت جلد اپنی زد میں لے لیتی ہے،اور ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتی ہے، حالانکہ جنسی مباشرت اس کی طرح سادہ نہیں ہوتی ہے، چونکہ شوہر اور بیوی خاص امکانات کے بغیر اس کو انجام نہیں دے سکتے ۔

جو افراد اس بیماری کے نقصانات کو کم شمار کرتے ہیں وہ یقینا ” اس بیماری کے عادی ہونے “ ااور اس مسئلے کے دوسرے حالات و جوانب سے آشنا نہیں ہیں ۔

ورنہ اس قدر حساس حقیقت کا انکار کیونکر ممکن ہے،جبکہ اس بیماری میں مبتلا جوان ہلاکت ،جنون ، کلی طور پر مفلوج اور ناتوانی ، کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور اپنی ہر چیز اس کی وجہ سے گنواں دی ہے ۔کیا ان حساس مشاہدات کاانکار کیا جا سکتا ہے ؟!

حالانکہ اکثر مریضوں کاکہنا ہے کہ ہم اس عادت کے نقصانات، اور ضررسے ہر گز آشنا نہ تھے ، اس لئے ان کونصیحت کرنے کا مسئلہ بھی منتفی ہے ۔

اس بیماری سے بچنے کے دستورات اور طریقے ۔

ان حقائق کی وضاحت کے بعد، اب ہم تمام جوانوں کی توجہات کو مندرجہ ذیل نکات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیںکہ کس طرح اس عادت میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا جائے ۔اور اگر خدا نخواستہ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں تو کس ا طرح سے اس کا علاج کیا جائے ۔

پہلا قدم:

اس بیماری میں مبتلا افراد پہلے مرحلہ میں اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ یہ بیماری اپنے تمام مہلک آثار کے باوجود علاج کے قابل ہے، ڈاکٹروں اور اس میں مبتلا افراد کے بقول ،اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو تمام غلط عادتوں کی طرح اس کو بھی یقینی طور پر چھوڑا جا سکتا ہے ۔

اس بات کی طرف توجہ رہے کہ اس کی وجہ سے جو برے آثار پیدا ہوجاتے ہیں وہ بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جوانوں کی طاقت اور نشاط ، گذشتہ پریشانیوں کو ختم کردیتی ہے ( میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ سب کو ختم کردیتی ہیں لیکن اکثر مشکلات کو ختم کردیتی ہے) اور جس طرح سے بچوں اور جوانوں کے جسم کے زخم بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں اسی طرح اس برے عمل کے اثرات بھی بیدار ہونے کے بعد ختم ہوجائیں گے ۔

اس بیماری میں مبتلا جوان اگر اپنی کامیابی کے بارے میں مایوسی یا تردید کا شکار ہیں تویقینا وہ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں چونکہ مایوسی اور تردید ان کی کامیابی کی راہ میں ایک عظیم سد راہ ہے ۔

اس بنا پر سب سے پہلا اور ضروری مسئلہ یہ ہے کہ جوان اس بات پر یقین اور بھروسہ رکھیں کہ اس بری عادت کا ترک کرنا ممکن ہے اور اس کے تمام خطرناک نتائج سے رہائی پانا محال نہیں ہے ۔

اب جبکہ آپ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور کامل ایمان اور امید کے ساتھ اس کاعلاج کرنے کی طرف بڑھ گئے ہیں تو پھر پہلے علاج اور قانون پرعمل کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔

اس قدر مہم جس کا تصور نا ممکن ہے

۲ ۔ تمام ڈاکٹر اس بات کے قائل ہیں کہ ہر عادت کے ترک کرنے سے پہلے محکم ارادہ در کارہوتا ہے ،یعنی بہت ہی مضبوط ،یقینی اور محکم ارادہ ۔

ممکن ہے آپ اس موضوع کو سادہ اور معمولی موضوع شمار کریں ، حالانکہ ہماری نظر میں یہ اس درجہ مہم اور موثر ہے جسکا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

اس عمل کے ترک کرنے کا محکم ارادہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس عمل کے تمام نقصانات اور خطر ناک نتائج اور ضرر جنہیں ہم نے گذشتہ بحث میں ذکر کیا ہے،کئی بار دہرائیں،اور اس عمل کے تمام خطیرنتائج جو مبتلااورعادی افراد کے منتظر ہیں ان کو اپنی نظر میں مجسم بنا ئیں ، اورغیر معمولی انسانی قدرت ”جو ہر انسان میں پوشیدہ ہے“ کو مد نظر رکھتے ہوئے صمیمانہ اور مستحکم ارادہ کریں ۔

ہم جانتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا بعض جوان اعتراض کریں گے کہ ” ہم میں محکم ارادے کی توانائی نہیں ہے ارادے کی قدرت ہم سے سلب ہو چکی ہے، اورہم نے اس کو ترک کرنے کے لئے بارہا ارادہ کیا مگر پھر بھی ارادے چکنا چور ہو گئے “ !

ہم آپ کے اعتراض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن آپ ہمارے جواب کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔

ہم اعتراض کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں :” کیا تم نے کبھی اپنے والدین ، بھائی بہن یا کسی دوسرے محترم شخص کے رو برو اس عمل کو انجام دینے کی جرئت کی ہے ؟؟۔۔

حتما تمہارا جواب منفی ہوگا ۔

میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیوں ؟

آپ کہیں گے :چونکہ یہ عمل شرمناک ہے!

گویا آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ صمیمانہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس شرمناک عمل کو ان کے سامنے انجام نہیں دیں گے !۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح آپ خود کو اس عمل کے مقابلے میں بے ارادہ اور بے اختیار سمجھتے ہیں ویسے نہیں ہیں، اگر آپ بے اختیار اورفاقد الارادہ ہوتے تو ان کے سامنے اس عمل کو انجام دینے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے !۔

جوانوں کو چاہیے کہ اپنے اس عظیم ارادہ اور اختیار کو جس طرح اس مقام پر استعمال کرتے ہیں ہر موقع پر استعمال کریں ۔ یہ سرمایہ تمہارے وجود میں پایا جاتاہے اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟۔

اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور تمہارے تمام کامو ں پر اس کی نظر رہتی ہے ، تم ہر جگہ اس کے حضور میں ہو ، کیا یہ مناسب ہے کہ ایسے پروردگار کے سامنے اس زشت عمل کو انجام دیاجائے ؟!

دلچسپ بات یہ کہ اسلام کے عظیم راہنما امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں ایک شخص عرض کرتاہے: فلاں شخص بیچارہ ایک جنسی کجروی کا شکار ہوگیا ہے(اس عادت کے علاوہ کسی دوسری کجروی ) اور اس میں اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہے !

آپ نے غصہ کے عالم میں فرمایا: کیسی بات کرتے ہو ؟ کیا وہ شخص اس عمل کو لوگوں کے سامنے انجام دے سکتا ہے ؟!

اس نے عرض کیا : نہیں ۔

آپ نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ اس کے اپنے ارادے اور اختیار سے ہے ۔

جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے : ”ہم نے بارہا صمیمانہ ارادہ کیا مگر وہ ٹوٹ جاتا ہے“ ہم ان لوگوں سے صاف طور پر کہتے ہیں ارادہ کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارادے کے تمام اثرات ، انسان کے وجودسے ختم ہو چکے ہیں ،بلکہ یہی ٹوٹا ہو ارادہ انسان کے دل اور روح کی گہرائیوں میں ایک ایسا اثر چھوڑتا ہے جو آخری پختہ ارادے کو گزشتہ ارادے سے محکم بنا تا ہے ( غور کریں ) ۔

آپ کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں:

بسا اوقات انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنے پیروں کے سہارے ایک پہاڑ پر چڑھ جائے یا گاڑی کے ذریعے کسی اونچائی سے گذر جائے ممکن ہے پہلی یا دوسری مرتبہ میں کبھی کبھی دسویں مرتبہ میںبھی کامیاب نہیں ہو پاتا ، لیکن اخری بار میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور اس سے گذر جاتاہے ، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلی بار میں اس نے کچھ نہیں کیا بلکہ ہر دفعہ اس کے عبور کرنے میں اس نے دشوار قدم اٹھائے اور پیچھے رہ گیا لیکن اس نے جانے ان جانے میں ایک حد تک آمادگی کو سیکھا اور اس کو محفوظ کیا ،جس کے نتیجہ میں وہ باالآخر کامیاب ہو گیا ۔

دانشمند حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شعر یا نثر کے کچھ حصے کے حفظ کرنے میںممکن ہے پہلی بار اس کو ۵ مرتبہ دہرانا ضروری ہو ، اور ممکن ہے کچھ وقفہ کے بعد اس کوبھول جائے ،لیکن اب دوبارہ یاد کرنے کے لئے ۵ بار دہرانا ضروری نہیں ہے ،ممکن ہے ۳ مرتبہ دہرانا کافی ہو ۔یعنی یاد کرنے کے گذشتہ کچھ اثرات انسان کی روح میں باقی رہ گئے تھے، جسکی وجہ سے دوسری مرتبہ یاد کرنا آسان ہوگیا تھا ۔ لہذا انسانی روح سے مربوط تمام مسائل اسی طرح ہیں ۔

اس لئے اگر آپ نے اب تک دس بار بھی ارادہ کرکے اس کو توڑ ڈالا ہے پھر بھی اس عادت کو ترک کرنے کے لئے ایک قوی ،پختہ اور مستحکم ارادہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنی تمام معنوی توانائی (مخصوصا ایمان کی طاقت) کو جمع کرکے اس کامیابی کو حاصل کر لیں ،اور اپنے عظیم الشان راہنما علی(ع) کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ” صاحبان ایمان ایک پہاڑ کی مانندمستحکم اور ارادے میں استقامت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔“

اب جب کہ آپ پختہ ارادہ کر چکے ہیں آنے والے بقیہ دستورات پر دقت کے ساتھ عمل کریں ۔