إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ 0%

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مؤلف: شیخ فداحسین حلیمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12422
ڈاؤنلوڈ: 4147

تبصرے:

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12422 / ڈاؤنلوڈ: 4147
سائز سائز سائز
إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے البتہ اس میں موجود مطالب کی یا دیگر غلطیوں کے ذمہ دار ادارہ نہیں ہے

کتاب :انتظار کیا اور منتظر کون ؟

مصنف:شیخ فداحسین حلیمی

پشکش-

اسلامی تعلیمات میں ایک بہت ہی اہم موضوع جس کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کرتے ہوے دسویں قرآنی آیات اور سینکڑوں کی تعدات میں احادیث اہل بیت اطہار مختلف قسم کی حدیثی ،تفسیری ،تاریخی اور دیگر کتابوں میں ملنے میں اتئیں ہیں وہ ہے عقیدہ انتظار یعنی آخری زمانہ میں منجی عالم بشریت ،فرزند ختم نبوت ،نور چسم خاتوں جنت سلسلہ امامت کی بارہویں کڑی حضرت حجت ابن حسن العسکری کے ظہور کرنے اور بساط ظلم وبربریت کو جڑ سے اکھاڑ کر ہر جگہ عدل و انصاف کو فروغ دینے پر عقیدہ اور اسے تحقق بخشنے کے لیے زمینہ فراہم کرنا ہے

لیکن ان تمام تر دینی سفارشات اور تاکیدات کے باوجود افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کن کن وجوہات کی بنا پر مسلمانوں نے اس قرآنی اور الہی نظریے کو بالاۓ طاق رکھتے ہوے آج تک اس راہ میں کوئی قابل تقدیر قدم نہیں اٹھائیں ہیں جسکے نتجے میں آج مؤ منین اور اہل تحقبیق حضرات کے ایک بڑی تعداد کی جانب سے فرھنگ انتظار اور عقیدہ انتظارسے اشنائی اور اسکے شناخت کے لیے انتہائی اشتیاق او ر تشنہگی کے اظہار کرنے کے باوجود مستقل طور پر کوئی قابل قبول کتاب عربی ،فارسی ُاردو اور دیگر زبانوں میں کہ جس میں عقیدہ انتظار کو مختلف زاویوں سے زیر بحث لایا ہو اور اس پر مستدل اور مستندل انداز میں روشنی ڈالی ہو نظر نہیں آتی تاکہ مؤمنین کی روحی اور قلبی تشنگی سیراب ہے جاے ،لہذا علماو فضلاء اور ہر ذمدار افرادکی ذمداری ہے کہ ہر ایک اپنی اپنی ظرفیت اور استطاعت کے مطابق اس حیاتی اور نوید بخش عقیدے پر کام کریں تاکہ نسل آیندہ کےلیے اسکی اہمیت ضردرت اور فردی واجتماعی آثار ونتائج سےگاہی اور آشنائی حاصل کرنے کا زمینہ فراہم ہو جاے-

کتاب حاضر اس راہ میں فقدان اور مؤمنین کے دلی خوہشات کے کو مد نظر رکھتے ہوۓ نظریے انتظار کے متعلق اہم سوالات کے جواب میں پیش کیا ہے،جس کے پہلی فصل میں ضرورت انتظار و دوسری فصل میں مفہوم انتظار اور تیسری و چوتھی فصل میں منتظرین کے اہم ذمداریان اور نتائج انتظار پر گفتگو کی ہے تاکہ مؤمنین اور اہل تحقیق حضرات کے لیے اس موضوع پر مختلف زاویون سے شناخت حاصل کرنے کا موقع کل سکھے آخر میں اُمید ہے یہ ناچیز ہدیہ حضرت بقیۃ اعظم ارواحنا لہ الفداء کے مورد قبول قرار پاۓ“( یا أَيُّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنا وَ أَهْلَنَا الضُّر وَ جِئْنا بِبِضاعَةٍ مُزْجاة فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَيْنا إِنَّ اللَّهَ يَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ )

“الہی عجل فرج مولانا امام الزمان آمین !

مقدمہ

کسی بھی موضوع کے متعلق قلم اٹھانے اور ریسرج کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس موضوع کا انسانی زندگی سے کیا رابطہ ہے اور کس حد تک مؤثر واقع ہوتا ہےـ تاکہ پوری توجہ اور توانائی کے ساتھ اس موضوع کے متعلق بحث کرسکھےـ

لہذا سب سے یہ سوالات ذہن میں آجاتی ہیں ہے کہ

۱ انتظار کیا ہے اور منتظر کون ہے ؟

۲ عقیدہ انتظار انسان کے فردی اور اجتماعی زندگی پر کیا اثر رکھتا ہے؟

۳ نظریۃ انتظار اپنے حقیقی مفہوم میں ایک مسلم فرد کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیان لا سکہتا ہے ؟

بے شک مسئلہ انتظار کوئ ایسا مسئلہ نہیں جسے لوگوں نے مظلومون اور ستمدیدہ افراد کے دلوں کی تسکین کے خاطر انکے اذہان میں ڈالا گیا ہو،بلکہ قرآنی آیات وروایات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بخوبی واضح ہوجتا ہے کہ بنی نوع انسان اپنے طول وعریض تاریخ میں خواہ فردی زندگی میں ہو یا سماجی زندگی میں ہمیشہ نعمت انتظار کا مرہون رہا ہے ،چناچہ اگر کوئی انسان انتظار کی حالت سے باہر اے اور مستقبل سے امیدیں کھو دے تو پھر اسکا جینا مشکل ہو جاے گا اور اسکے دل میں زندگی کے لیے ذرہ برابر جگہ باقی نہیں رہے گی بلکہ الٹا خود زندگی اس کے لیے رنج و مشقت کا باعث بنے گی

پس جس عامل نے اس انسان کو ہر قسم کے مصیبتون سختیون اور پریشانیوں ڈھڈ جانے اور جینے کا قابل اور مزید زندگی کی انجن کو آگے بڑانے کا امیدوار بنایا ہے وہ صرف اور صرف انتظار اور مستقبل سے امید کے علاوہ کچھ ہو ہی نھیں سکتا

انتظار فرج اور اُمید کی معجزۃ آسا جادو ہے کہ اس انساں کو زندگی کے پر طلاطم اور گٹھا ٹھوب طوفان سے پار کر کے لے جا رہی ہے انشاء ﷲ عن قریب اسے ساحل نجات تک پھنجا دے گی اس طرح اس انسان کے درینہ آرزو اور پرانی امید پوری ہو جاے گی (انھم یرونہ بعیدا ونراہ قریبا ً )خدا کرے اس دن کو دیکھنے کی توفیق نصیب ہو-

لھذا ہم ضرورت انتظار و منتظرین کی اہم زمداریا ں اور فوائد انتظار کو الک الک باب کی شکل میں مختلف زاویوں سے زیر بحث لاتے ہیں

تاکہ یہ معلوم ہو جاۓ کہ مسئلہ انتظار کا انسانی زندگی کے ساتھ کیا رابطۃ ہے اوراس پر کتنا مؤثر واقع ہوتا ہے

پہلی فصل :انتظار کیوں ضروری ہے -

سب سے پہلے نظریہ انتظار کے انسانی زندگی میں ضروری ہونے کو مختلف لحاظ سے زیر بحث لاتے ہیں تاکہ یہ بخوبی معلوم ہو جاۓ کہ انتار کیون کر ضروری ہے-

۱: عقیدہ اور انتظارکی ضرورت:

عقیدۃ اساس حیاۃ اور زندگی کی بنیاد ہۓ عقیدۃ اور معرفت انسان کے اندر ایک ایسی حالت اور انگیزہ پیدا کردیتی ہیں جو خود بخود عمل اور کردار کے وجود میں آنے کا سبب بنتی ہیں ، چنانچہ جتنا عقیدہ مستحکم اور معرفت وسیع ہو گی اتنا ہی عمل پکا اور عملی میدان پائیدار ثابت ہو گا اور مختلف قسم کے لغزشون اور کج فہمیوں سے بچ جاےگا

اور صحیح عقیدے کا حصول صرف اور صرف صحیح معرفت اور شناخت کے ساۓ میں ممکن ہے،لھذا حقیقی منتظر وہ شخص ہو گا جسنے فکری سطح پر یہ پہچان لیا ہو کہ جس ہستی کے وہ منتطر ہے وہ ذات مظھر آسماۓ الھی ،واسطہ فیض ربانی اور خاتم اوصیاء ہیں انکی صحیح معرفت اور شناخت اﷲ تعالی کی معرفت اور شناخت ہے -

اور یہ بھی جان لے کہ انتظار اس نفسانی حالت کا نام نہیں جس طرح لغت میں آیا ہے بلکہ انتظار عمل ہے نہ صرف عمل نہیں بلکہ عقیدۃ ہے عقیدۃ حجت خدا کے اس روۓ زمیں پر ظہور کرنے کا اور زمیں کو عدل و انصاف سے پر کرنے اور ہر جگہ دستور الہی نافذ کرنے کا عقیدۃ پرچم توحید کو ہر قطعۃ زمیں پر لہرانے کا اگر اس عقیدۓ نے کسی شخص اور مومن کے دل و دماغ میں ریشہ ڈال دیا اور اپنا جڑ مضبوط کردیا تو یہ عقیدۃ اسے انسانیت کے دشمن استعمار کے جارحانہ حربون کے مقابلے پہاڑ کے مانند ڈہت جانے اور انکے نپاک عزائم کو خاک میں ملانے میں کامیاب بناے گا، اور اسے معاشرے میں حقوق ﷲ اور حقوق الناس کے رعایت کرنے ساتھ ایک عدلانہ الہی نظام کے وجود میں لانے استعماری ایجنڈوں کے خلاف قیام کرنے اور ظلم و بربیت کے خلاف مقاومت اور جان نثاری کرنے پر آمادۃ و تیّار کردے گا

اور انسان کے فکر ودماغ اور کردار پر عقیدۃ انتظار کے معجزہ آسا اثر کو مد نظر رکھتے ہوۓ اسلام نے انتظار کو عبادت کا مقام دیا ہے تو اہل بیت اطہار نے اسے افضل العبادۃ کہا ہے چناچہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں(انتظار الفرج عبادة ) اسی طرح کسی اور حدیث میں فرماتے ہیں (أفضل اعمال اُمتی انتظار الفرج )(۱) کسی اور حدیث چھٹے امام فرماتے ہیںاعلموا أنّ المنتظر لهذا الآمر له مثل أجر الصائم القائم -

جان لو ہمارے قائم کے انتظار کرنے والے کیلیے صائم النہار اور قائم اللیل کا ثواب حاصل ہے---

۲: سماج اور انتظار کی ضرورت :

بشر فطری طور پر ایک سعادت مند اجتماعی زندگی گزارنے کی آرزو رکھتے ہیں اگر یہ آرزو اور خواہش ایک نہ ایک دن پوری نہ ہونے والی نہ ہوتی تو اسکے فطرت اور خلقت میں خواہش اور تمنّا رکھی نہ جاتی جس طرح آب وغذا نہ ہوتے تو بہوک اور پاس اسکے وجود کا حصہ نہ ہوتا اسی طرح اگر یہ فطری خواہش قابل تحقق نہ ہوتی تو اسے اسکے فطرت میں رکھے ہی نہ جاتے- اور آرزو صرف اور صرف ایک جامع اورکامل اجتماعی نظام کے زیر ساۓ میں قبل تحقق ہے جو اس آدمی ذات کی تمام مشروع خواہشات کا جواب گو ہو اور اسکی بنیاد عدل و انصاف پر رکھا گیا ہو،اور اسلامی تعلیمات کی رےشنی مبں ہم مسمانون کا عقیدہ ہے اور اس پر قطعی طور پر یقین رکہتے ہیں کہ وہ اجتماعی نظام بشر کے تمام مشروع خواہشات کا جواب گو ہوں جسکی بنیاد عد و انصاف پر رکھی گی ہو جسکا معیار حق وحقیقت ہو اور انسانی معاشرے کو یآس و ناامیدی جسے مہلک بیماربون سے نجات دلاۓ وہ نظام سواۓ اسلامی نظام کے علاوہ کو اور نظام نہیں ہو سکتا ہے اور یہ مقدس نظام اپنی کامل ترین شکل وصورت میں امام زمانہ عجل اﷲ تعالی فرجہ کے دور میں تحقق پاۓگا

یہ نظریۃ اسلامی تعلیمات کے روشنی میں اس قدر روشن اور واضح ہے کہ جسکے بعض مستشرقین (غیر مسلم محققین جو اسلام کے متعلق سرچ کرتے ہیں )نے بہی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے جسا کہ جرمن کا مشہور فلاسفر ماربین اس حقیقت کی تصریح کرتے ہوے کہتا ہے (( من جملہ اجتماعی مسائل میں سے ایک بہت ہی اہم مسئلۃ جو شیعون کے کامیابی کامرانی اور مستقبل سے امید کا باعث بنا ہے وہ ہے امام حجت کے وجود اور انکے ظہور کے انتظار پر عقیدہ ہے کیونکہ یہ عقیدہ دلون میں امید کی روح پھونگ دیتی ہے اور کبہی اسے یآس و نا امیدی جیسے مہلک بیماریون کا شکار ہونے نہیں دیتا اور برابر حرکت اور جنبش پیدا کر دیتا ہے چونکہ انکے سامنے روشن مستقبل ہے اپ وہ اس روشنائی تک اپنےآپ کو پھنچانے کیلیے مسلسل جدو جہجد اور کوشش کرتے رہیں گئیں کسی قسم کے مشکلات سختیان انکو اس ہدف تک پہنچنے سے روک نیں سکھتی اس طرح بہت بڑے بڑے اجتماعی اور سماجی کامیابیاں انتظار کے اس مستحکم عقیدے کے نتیجہے میں حاصل ہوگے(۲)

۳: عالمی سیاست اور انتظار کی ضرورت :

تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ زمین پر مختلف قسم کے فکری مکاتب مختلف انداز کے سیاسیی اور اجتماعی نظام کے ساتھ وارد میدان ہوۓ لیکن عرصہ نہ گزرا صفحات تاریخ کے زینت بنی مثال کے طور پر سوینالستی نظام اپنی تمام دوم دام کے ساتھ آۓ لیکن بہت ہی کم مدت میں پاش پاش ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گیا آج لبرال دیمو کراسی اور نظام سرمایہ داری آزادی دیموکراسی جیسے خلاب نعرون کے سات وارد عرصہ ہوا ہے اور اپنی ایٹمی وعسکری طاقتوں کے بل بوتے ہر غریب اور کمزور کو جینا حرام کر دیا ہے لیکن زمانہ گزدنے کےساتھ ساتھ دوست ودشمن کو اسکی جارحیت اور بربریت کا شکوا ہے اور سب کا یہ اعتراف ہے کہ موجودہ عالمی نظام ظالم ترین عالمی نظام ہونے سایھ بہران زدہ اور شکست خوردہ نظام میں شمار ہوتا ہے اور ہر طرف بشر اخلاقی اقتصادی سیاسی و---- بہران کے شکار ہے ہر طرف پریشانی اضطراب نے گیر لیا ہے چنانچہ اس ہمہ گیر عالمی بہران سے نجاب اور رہائی صرف اور صرف ایک ایسے آفاقی نظام میں دیکہتے ہیں جس کی بنیاد عدل و انصاف اور انسانی اقدار پر رکہی گی ہو اور ہمارا عقیدہ ہے کہ ایسے علم گیر آفاقی سیاسی نظام کا تحقق منجی عالم بشریت امام منتظر کے الہی قیادت میں امکان پزیر ہے

آیئں یہود اور مسیحی دنیا میں ۱۹ اور ۲۰ صدی میں یہود او ر مسیحی دونو اپنے درینہ دشمنی کے باوجود اس نتیجھے پر پونھچے کہ منجی “مسیحا ”کے ظہور کے لیۓ سیاسی سطح پر زمینہ فراہم کرنے اور سیاسی پشتبانی کے طور پر ایک مشترکہ حکومت جو صھونیزم کے بنیاد پر قائم ہو وجود میں لایا جاۓ اور اس سیاسی طرز فکر کے نتیجھے میں اسرائیلی غاصب حکومت فلسطینیون کے آبائی سر زمین پر وجود میں لائیں اور اسی نظرے کے پیچھے آمریکا و یورپین ممالک کے سینکڑون کنیسا اور مسیحی تنظیمون نے اسرائیل کے جارحانہ اور غاصب حکومت کی پشپناہی کیں

اور ۱۹۸۰ ء میں انانٹرنشنل ام بی سی اف کرچچن قدس میں تاسیس ہوئی جسکا اصلی ہدف یون بتایا گیا “ہم اسرائیلیون سے زیادہ صھونیزیم کے پابند ہیں اور قدس ہو شھر ہے جس پر اﷲ تعالی نے اپنا خاص کرم کیا ہے اور اسے تا ابد اسرائیلیون کے لیے دیا ہے

اور اس کرچچن سفارت کے اراکین کا یہ عقیدہ ہے ،اگر اسرائیل نہ ہے تو جناب مسیح کے بازگشت کا کوئی امکان ہنیں ہے چناچہ اسرائیل کا وجود مسیح منجی عالم کےلیے ضروری ہے(۳)

تو جب یھود اور نصاری عقیدہ انتظار کے سیاسی پہلو کے پرتو میں اپنے درینہ دشمنیون کو بھول کر اسلام اور مسلمین کے خلاف ایک غاصب حکومت وجود میں لا سکھتے ہیں

تو کیاہم مسلمانوں کو نہیں چاہیے خود ساختہ اور بناوٹی اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر ایک پلٹ فارم پر جمع ہو کر اس افاقی الہی نظام کے لیے زمینہ فراہم کریں،اور

ایسے نظام کو عالمی سطح پر وجود لانے کیلیے انتظار کے سیاسی پہلو پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ خود بخود اصلاحی حرکت شروع ہو جاۓ اور رفتہ رفتہ پورے جہان کو اپنے لپیٹ میں لے لیں، انقلاب اسلامی جمہوری ایران اس حقیقت پر گو یا دلیل ہے کہ جسے امام خمینے نایب امام زمان اور ایرانی قوم نے انتظار کے سیاسی پہلو پر عمل کرتے ہوۓ اُس آفاقی الہی نظام کے مقدمے کے طور پر اسلامی قوانین پر مبتنی اسلامی جمہوریت کو وجود میں لایے ہیں اور اُمید ہے کہ دنیا کے دوسرے مسلمان بہی بیدار ہو جائیں اور اس بابرکت اصلاحی قدم پر قدم رکھتے ہوے عصر ظھور کیلیے زمینہ فراہم کرنے میں شریک بنئیں انشاء اﷲ وعد الہی کا تحقق نزدیک ہو گا

۴: ثقافتی یلغار اور انتظار کی ضرورت :

بے شک عسکری اور بازو کی طاقت سے دنیا کو تسخیر کرنے کا دور گزر گیا ہے لیکن عالمی سطح پر ثقافت اور تہزیب وتمدن کا جنگ اپنے اوج پر ہے تمام مسلم دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ کے اس دور میں اسلامی کلچر اور تہذیب کے خلاف استکبار جہانی نے جو جنگ سرد لڑی ہے وہ اپنی جگہ بے سابقہ ہے کہ جس میں اپنی تمام تر شیطانی اور انسانَ طاقتون کو کام میں لایا ہے اور اسلامی تہذیب وتمدن کو ختم کرنے کے نا پاک عزائم کے ساتھ میدان عمل میں اُترے ہیں،اپ اس حالت میں ہم سب کہ سب سے اہم زمداری دینی ثقافت اور اسلامی تہذب و تمدن کے تحفظ اور بقاء کیلیے جد وجہد اور قربانی دینا ہے،اور یہ ہدف اس وقت قابل تحقق ہے کہ جب انسان زندگی کے مختلف شعبون میں ایک منظم انداز میں ایک ہمہ گیر تحرک کی ضرورت ہے جو عصر ظہور کےاس روشن مستقبل کے ساتھ ہمآہنگ ہو اور اسلامی معاشرے کو ان ثقافتی یلغار اور تہذیبی جنگ سے بچانے اور ایک ہمہ گیر ثقافتی تحریک کے وجود میں لانے کے لیے نظریۃ انتظار کو اپنے صحیح مفہوم میں سمہجنے اور ثقافت انتظار کو سماج میں عام کرنے کی ضرورت ہے

۵: وحدت اور انتظار کی ضرورت :

قرآن کریم کی نگاہ میں آسمانی کتابون نبیون اور الہی نمایندے کے اس ورۓ زمین پر بہیجنے کا ایک اہم مقصد متفرق پراکندہ ،منتشر اور تقسیم شدہ انسانیت کے اندر وحدت برقرار کرنا ہے-ہر نبی نے آکر اپنے زمانے میں اُمت و متحد کیا اور ان اختلافات کی نفی کی جو طبقائیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتون میں پھیل گئی تہین

اس حقیقت پر سب سے بڑی مستند پیامبر اکرم کا عمل اور آپکی سیرت ہے آنحضرت ایک طبقاتی وتقسیم شدہ معاشرے میں مبعوث ہوۓ لیکن آپ نے اپنی نبوت کا آغاز وحدت سے کیا اور (تآخوا فی اﷲ ) کی بنیاد پر تمام مسلمانون کو آپس یں بھائی بھائی بنایا اور بابرکت زندگی کے آخری خطبےمیں بھی جو کہ خطبئہ حجۃ الوداع یا الغدیریۃ کے نام سے مشہور ہے اسی وحدت کے موضوع پر زور دیا گیا ، اور مسلمانون کو در پیش مشکلات وخطرات کو پیش نظر رکہتے ہوۓ ثقلین کو اس وحدت کا محور اور میزان قرار دیتےہوۓ یہ واضح کر دیا کہ ہر قسم کے اختلافات وانحرافات و نژادیت اور فرقہ وارانیت سے بہچنے کا واحد ذریعہ قرآن وعترت سے تمسک اور پیروی ہے:

پیغمبر اعظم کی فرمائشات ارشادات اور عملی سیرت ہمارے سامنے ہونے کے باوجود امت مسلمۃکو جس چیز نے سب سے ذیادہ نقصتان پہنچائی اور اب سخت نقصان دۓ رہی ہے تفرقہ انتشار اور ناچاکی ہے ،انتشار اور ناچاکی ایک ایسی بٹہیہے جسے متحدہ دشمن نے دین وثقافت کے خلاف حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اپ جسکا ایندہن بہی مسلمان ہیں اور جلانے والے بہی مسلمان ہیں یعنی مسلمان ہی کے وجود سے یہ شعلہ نکلتاہے اور مسلمان ہی کو جلاتا ہے ،لیکن ہمارا دشمن تفرقہ ختم کرکے جعرافیائی سرحدین،قومی سرحدیناور ثقافتی سرحین مٹا کر ایک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک آفاقی نظام کو وجود میں لانے طرف جارہا ہے،تو عالم اسلام کو بہی چاہےاسلامی تعلیمات کی روشنی مین ہر طرح کی تفرقہ بازیاختلافات اور ناچکیون کے بناوٹی سرحدون کو ٹور کر ایک ایسے آفاقی الھی نظام کے وجود میں لانے کے لئے متحد ہو جاے جسکا وعدہ اﷲ تعالی نے اپنی لا ریب کتاب دیا ہے ، اور یہ وحدت صرف اور صرف فکر آنتظار اور فلسفہ انتظار کے سائے میں وجود میں آسکتا ہے

۶: تاریخ انسانیت اور انتظار کی ضرورت :

تاریخی سررچ سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں منجی کا انتظار اور موجودہ حالت سے عالم بشریت کو نجات دینا اسلام اور آسمانی مکاتب فکر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر آسمانی اور مادی وفلسفی مکاتب فکر بھی ای نظریۃ کا عقیدۃ رکہتے ہیں

جیسا کہ راسل(۳) کہتا ہے {آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بہی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں }

اسی ظرح کتاب مقدس (توریت ار انجیل ) میں بہت ساری نصوص اسیے ہیں جو عقیدۃ انتضار پر پروی طرح روشنی ڈالتی ہیں ،اور آخر زمانہ کیں مسیحا یا منجی بشریت کی آمد اور اس کائنات کو عدل و انصاف سے بھر دینے اور بشریت کو ظلے وجور سے نجات دینے کی بشا رت دی ہے ،اسی لیے امریکا کا مسیحی شہرت یافہ مؤلف اپنی کتاب قاموس المقدس میں یہودیون کے انتظار پر عیقدے کے متعلق یون لکھتا ہے {یھودی نسل در نسل عہد قدیم توارت - کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی پر مشقت طویل تاریخ میں ہر قسسم کی ذلتون اذیتون رسویون اورشکنجون کو صرف اس اُمید کے ساتھ تحمل کیا کہ ایک دن مسیحا مجنی یہودیت آیں گے اور انہیں ذلت وخورای و رنج و مصیبتون کے گرداب سے نجات دلایئں گے ، اور ہمیں پورے کائنات کا حاکم بنایں گے(۴) لیکن اس انتظار سوزان کے بعد جب جناب مسیح اس دنیا میں اۓ تو انہون ان میں کچھ وہ صفتیں نہیں پایۓ جنکے مسیحا میں ہونا ضروری سمجہتے تھے چنانچہ انہون انکی مخالفت شروع کی یہان تک انکو سولی پر چہڑایا اور قتل کیا ،پہر کہتا ہے انجیل میں بہی منجی عالم بشریت کو فرزند انسان کے نام سے ۸۰ جگہون پر پکارا ہے ان میں سے صفر ۳۰ مورد حصرت مسیح پر صدق آتا ہے باقی ۵۰ مورد ان پر صدق نہین اتا بلکہ یہاں ایک ایسے مصلح اور منجی جہانی کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو آخری زمانہ میں ظھور کریں گے-(۵)

چناچہ تورات میں ہم مطالعہ کرتے ہیں :اشرار اور ظالمون کے وجود سے کبھہی نا امید نہ ہو اس لیۓ کہ ظالمون کی نسل زمین سے مٹادی جاۓگا،اور عدل الہی کا انتظار کرنے والے زمین کا وارث بنین گے جو افراد جن پر خدا نے لعنت کی ہے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گا اور صالح افراد وہ ہونگے جو زمیں کے وارث بن چکے ہونگے اور تاریخ کے اختتام تک زمین پر زندگی بسر کریں گیے(۶)

اسی طرح انجیل یوحنا میں حضرت عیسی مسیح کا قول نقل ہوا ہے ”اور عنقریب جنگون اور اسکی افواہون کو سنیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ اسکی وجہ سے بے صبری کا اظہار کریں،اس لیے کہ اسکے علاوہ کو اور چارہ نہیں ہے، لیکن وہ دن وقت تاریخ کا اختتامی زمانہ نہیں “(۷)

۷: عقل اور انتظار کی ضرورت :

جب ہم موجودہ عالمی حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور بہڑتی ہوئی فتنہ وفساد وہرج ومرج وظلم وجور قتل وغارت لوٹ مار وخونریزی نا انصافی تجاوز قومی اور ملکی سطح پر باہمی کشمکش واجتماعی سطح پر اخلاقی وجنسی اور اجتماعی فسادات کا مشاھدہ کرتے ہیں تو یہ سوال خود بخود ذہن میں آجاتا ہے کہ کیا دنیا اپنی موجودہ حالت پر باقی رہے گیی ؟کیا ظلم وستم سلطہ طلبی میں کما کان اضافہ ہوتا رہے گا ؟یا یہ کہ بشر اس دن کو بہی دیکھے گا جس دن ان تمام فسادات کو جڑ سے اُکاڑ کر ستمگرون ظالمون اور جلاّدون کاخاتمہ کر چکا ہو گا اور ایک ہمہ گیر تحریک کے زریعے ہر طرح عدل وانصاف برادری محبت و الفت کی سنہری خوشبو پھیل چکی ہو گی ؟

یہاں پر آکر عقل حکم کرتی ہے بشر سر انجام قانون عدالت اور فطرت کے کہ جسکی بنیاد پر ساری کائینات کی پیدائش ہوئی ہے سر تسلیم خم ہونے پر مجبور ہے ، چونکہ پروردگار عالم نے اس جہان کو اس قدر منظم اور قانون مند خلق کیا ہے کہ ایک منظم قانون پوری کائینات کے چہوٹے سے چہوٹے ذرات سےلے کر بڑے سے بڑ ے کہکشانون اور شمسی نظاموں پر حاکم ہے اور تمام اجزاۓ ہستی ایک ہی دقبق معین اور یک سان نطام کے تابع ہیں اور اسی نظام کے ما تحت حرکت کرتے ہیں کہ انسان بہی اُسی کائینات کا ایک حصہ اور اسی کل کا ایک کجزء ہے ہو نہیں سکتا کہ جزء کل کے خلاف سمت نا منطم انداز میں حرکت کرتا رہے چونکہ بہ تمام اجتماعی سماجی اور فردی فسادات ہر ایک اپنی جگہ نظام پیدائش کے متضاد حرکت ہے ،

پس نظام پیدائش کا تقاضی یہ ہے کہ انسان نظام فطرت کہ طرف پلٹ آینں اور اپنی حرکت کا روخ بدل دین ورنہ زوال اور فنا حتمی ہوگا

تو دوسری طرف الہی حکمت کا تقاضی ہے کہ اس انسان کو زوال و فنا سے بچانے اورسعادت مند زندگی گزارنے کے لیے ایک الہی نمائندہ بیجھ دین کہ جس کا رابطہ عالم غیب سے ہو اور ہر لحاظ سے معصوم ہو تاکہ انسان اس آیڈیل ہستی کے پیروی اور اقتداء میں دوبارہ اپنا درست رآستہ انتخاب کرسکہے اور اجتماعی عدالت قائم کر سکہے اور ایک کامل اور دقیق نظام صرف اور صرف ایک کامل اور عالم ہستی کی محتاج ہے جو ان تمام قوانیں کا علم رکہتی ہو خارق عات قدرت کا مالک ہو ہر لحاظ سے معصوم اور منزہ ہو ایک ایسی ہستی کے ہاتھون قابل تحقق ہے کہ جسکے پوری دنیا انتظار کر رہی ہے

اور ضروت عقلی کہ طرف اشارہ کرتے ہوے امیر المؤمنین ع فرماتے“بلی،لا تخلوا الآرض من قائم للّه بحجّة اماّ ظاهراً مشهودا ، وامّا خائفا مغموراٌ ،لئلاٌ تبطل حجج اللّه وبيّناته “بے شک زمین اسیے شخص سے خالی نہیں ہوتا جو حجت خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ تاکہ پروردگا کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں -

پس عقل اور نظام پیدائش کا تقاضا ہے کہ انسان ایک روشن مستقبل کے بارے میں سوچیں اور اسے سنوارنے کیلیے سب مل کر اصلاح قدم اٹہایں اور اسی روشن مستقبل کے انتظار اور اسےسنوارنے کیلیے قدم اُٹہانے کا نام ہے انتظار

۸: تقاضاۓ فطرت اور انتظار کی ضرورت :

مختلف دینی اور غیر دینی مکاتب فکر کی نگاہ میں انتظار ان فطری مسائل میں سے ہیں جسے اس انسان کے سرشت اور خلقت میں رکھّا گیا ہے ،اس بات پر بہترین دلیل خود ان مختلف مکاتب اور مذاہب کا مختلف عقیدۓ مختلف طرز فکر سے تعلق رکھنے اور مختلف آداب ورسوم کے پابند ہونے کے باوجود سب کا اس بات پر مقفق ہونا اور سب کا اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرنا ہے کگر چی نفس پروری اور دنیا پرستی کی وجہ سے یہ حقیقت ہر فرد کیلیے واضح نہ ہو اور شخص اپنے اندر منجی بشریت کے ظہور کا احساس نہ کرۓ لیکن جب مصائب تنگدستی ضعف و---میں مبتلا ہو نے پر فطرت بیدار اور صداے فطرت نا خواستہ طور پر نکل آتی ہے اور ظہور منجی کا اشتیاق دل میں شعلہ ور ہو جاتا ہے

۹: جہان سازی اور انتظار کہ ضرورت :

اگر چہ نظریۃ مہدویت اور انتظار ایک آفاقی نظریۃ ہے تمام آسمانی ادیان اور غیر آسمانی مکاتب فکر اس عقیدہ میں مشترک ہیں لیکن اس شخصیت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ شخص کون ہو گا کہ جسکے ہاتھون آفاقی انقلاب اور تبدیلی وجود میں آۓگا

یہودی قوم کا نظریۃ ہے کہ وہ شخص جناب اسحاق کے نسل سے ہوگا ابھی دنیا میں نہیں آیا بعد میں آے گا

چنانچہ تورات کا یہودی مفسر “حنان ایل ”سفر تکوین نمبر ۱۷ اصحاح نمبر ۲۰ کے ذیل کیں لکھتا ہے اس آیت کے پشنگویی سے ۲۳۳۷ سال گزر گیا یہان تک عرب اسماعیل کے نسل سے ایک عظیم امت کہ شکل میں پورے عالم پر غالب آیا ہے کہ جسکے جناب اسماعیل مدّتون سے منتظر تھے لیکن زریہ اسحاق میں ہماری گناہون کہ وجہ سے خدائی وعدہ اب تک تحقق نہیں پایا ہے پہر بہی ہمیں اس حتمی وعد کے تحقق پانے میں نا اُمید نہیں ہونا چاہیے -

مسیحیون کا عقییدہ ہۓ کہ جس شخص کے سب منتظر ہیں وہ جناب مسیح ہیں یہودیون نے قتل کرنے کے بعد اﷲ تعالی نے انہیں دوبارہ زندگی دی اور آسمان پر لے گیا تاکہ آخری زمانہ میں انہیں دوبارہ زمین پر بیجھ دیا جاے اور انکے ذریعے ہی وعد الہی تحقق پاۓ

لیکن ہے مسلمانون کا مشترکہ عقبدہ ہے انکی ذات آقدس جناب اسماعیل کے نسئل فرزند خاتم المرسلین ذریہ سیّدہ کو ننین اولاد امام حسیں ہیں،بلکہ بعض اہل سنت علماء کے نزدیک بھی آپ امام حسن العسکری ع کے بلا فصل فرزند ارجمند ہیں ، چنانچہ ابی داود نسائی وابن حنبل وطبرانی وحاکم اور دیگر شیعہ سنی اکثر علماء نے پیغامبر اکرم سے نقل کیا ہے آنحضرت فرماتے ہیں “اگر دنیا کی عمر میں سے صرف ایک دن باقی ہو تو اﷲ تعالی اس دنیا میں ایک شخص کو منتخب کرۓگا جسکا نام میرے نام پر ہوگا،اس کا اخلاق میرے اخلاق جیسا ہے گا اور اس کی کنیت ابو عبداﷲ ہے رکن ومقام کے درمیان اس کے ساتھ بیعت ہو گی اﷲ تعالی اس کے ذریعہ دین کو اس کے اّپنی اصلی حالت کی طرف پلٹا دے گا اور اس کے لیے کامیابیان حاصل ہون گی ،زمیں پر صرف خدا پرست اور لا اللہ الاﷲ کہنے والے باقی رہ جائیں گے اس وقت سلمان نے آنحضرت سے عرض کیا :یا رسول اﷲ آپ کے فرزندوں میں سے کوں سا فرزند ہو گا ؟ آنحضرت نے اس وقت اپنا دست مبارک امام حسین پر رکھ کر فرمایا :میرے اس بیٹے کی نسل سے ہو گا اسی طرح امام علی رسول اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا :دنیا ختم نہیں ہوگی مگر یہ کی ہماری امت میں نسل حسین سے ایک شخص قیام کرے گا ----

اسی طرح سبط ابن جوزی فرماتے ہیں :محمد ابن حسن ابن علی ابن محمد ----آپ کی کنیت ابو عبداﷲ اور ابوالقاسم ہے---- آپ خلیفہ،حجت ،صاحب الزمان ،قائم اور منتظر ہیں

۱۰: دشمن کے تسلط سے مانع اور انتظار کی ضرورت :

عقیدہ انتظار کی ضرورت اور اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے ،کہ اسلام کا قسم خوردہ دشمن اس نظریۓ کو مسلمانوں پر اپنا سلطہ جمانے میں سب سے بڑا مانع اور رکاوٹ شمار کرتے ہیں ،میشل فوکر ،کلربریر ،عقیدہ انتظار کی فکر سے مبارزہ کرنے کی بحث میں ابتداً امام حسین اور پھر امام زمانہ کا ذکر کرتا ہے ، اور انہی دونوں نکات کو شیعوں کی پائیداری کا عنصر شمار کرتا ہے “نگاہ سرخ اورنگاہ سبز ” تلابیب کی کانفرنس میں بھی “برنارڈیئس”مائیکل ام جی ،جنشر ،بروبزگ ،اورمارٹیم کو امر ”جیسے افراد نے اس نکتہ پر بہت زیادہ تاکید کی ہے انھون نے اسلامی جمہوری ایران کے اسلامی انقلاب کے جائزہ میں شیعوں کی نگاہ سرخ یعنی عاشورا اور انکی نگاہ سبز یعنی انتظار تک بحث کرتے ہوۓ اس مشہور جملہ کو نتیجہ کے طور پر یوں پیش کیا یہ لوگ امام حسین کے نام سے قیام کرتے ہیں اور امام زمانہ کے نام سے اس قیام کی حفاظت کرتے ہیں -

اسی طرح جرمن محقق “ماربین ”کہتا ہے منجملہ اجتماعی اہم ترین مسائل میں سے جو شیعوں کی امیدواری اور کامیابی کا باعث بنا ہے وہ حضرت حجت کے وجود کا اعتقاد اور انکے ظہور کا انتظار ہے -

اسی طرح فرانس کے مشہور شرق شناس اور زبان دان “جمیز دار مستر ”اپنی کتاب “مہدی صدر اسلام سے ۱۳ ہجری تک ”میں لکھتا ہے وہ قوم جنکی پرورش ایسی فکر کے ساتھ ہوئی ہو ان سے قیام کا توقع رکھا جاسکتا ہے لیکن کبھی کوئی انھیں اپنا مطیع نیں بنا سکتا

بے شک دشمن نے عقیدہ انتظار کی اہمیت وہ بھی اس زمانے میں جب انکا امام غائب ہے اندازہ لگا لیا ہے ،اور اسی وجہ سے چند اقدامات سیاسی اجتماعی اور ثقافتی میدان میں اس نظریے کے متعلّق انجام دیا ہے

مثال کے طور پر امریکہ میں خالورد ہر سال ۷۸۰ فلیم بناتے ہیں ان میں ۲۵۰ فلمیں صرف اما م زمانہ کی شخصیت پر بناتے ہیں اور ان فلیموں کا اہم تریں مقصد لوگوں کو یہ باور کرانا اور یقین دلنا ہوتا ہے کہ جس شخص کے آنے کے تمام مکاتب فکر کے پیرواں منتظر ہیں وہ ایک غربی شخص ہیں ،اور وہ غربی ثقافت کی بنیاد پر قیام کرۓگا ،اور ان میں بعض فلمین مثال کے طور پر “ہرئلیس ”و ۲ ہزار ۱۲ اور “ہری پوٹر” کڑورون کی تعداد میں دنیا میں بھیگ چکے ہیں اور نا محسوس طور پر ہر گھر گھر میں گھس چکے ہیں -اب ہمیں بھی اس ثقافتی جنگ کے خلاف مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ،اور اسکے معکوس ہر ایک کو اپنے گھر ،فیملی، اجتماعی اور سماجی سطح پر حقیقی اما م منتظر کو - کہ جسکے آنے کا خالق کائنات نے وعدہ دیا ہے پہچانوانے اور انے ظہور کے لیے زمینہ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے -

____________________

(۱) بحار انوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ ج ۲ ص ۳

(۲) سیاست اسلام ،ماربین ،صل ہفتم ،فلسفہ مذہب شیعہ ،ص ۴۹ - ۵۰ -

(۳) (الصہونیۃفی امریکا ) صھونیزیم امریکا میں :حسن حداد ،مجلہ شؤون فلسطینیّہ ش ۹۲- -۹۳ ،۱۹۹۰ ء -

(۴) قاموس مقدس : مسٹر ہاکس ، ص۸۰۶

(۵) قاموس مقدس :ص ۲۱۹ :وہ آجاے گا ،والی کتا سے نقل کیا ہے ،ص ۳۳

(۶) کتاب مقدس: سفر مزامیر داود، نمبر ۳۷

(۷) کتاب مقدس :یوحنا اصحاح ۲۴ نمیر ۶

(۸) نہج بلاغة کلمات قصار: نمبر ۱۳۹

(۹) The stone edtion the chvmash by, r. hosson scherman r.meiv .ziotowird,third edtion first impressin :۱۹۹۴ p.۷۶

(۱۰) عقدالدرر: ص ۵۶ باب دوم -

(۱۱) عقد الدرر: باب نہم ص ۲۸۲ والفتن ص ۲۲۹-

(۱۲) سیاست اسلام ماربین ،فصل ہفتم ، فلسفہ مذہب شیعہ،ص ۴۹ ۵۰ نقل از کتاب امامت اور غیبت اور ہماری ذمداریان ص ۳۴۹ ،اردو ترجمہ -

(۱۳) مہدی صدر اسلام سے ۱۳ ہجری تک :ترجمہ فارسی میںمترجم محسن جھان سوز،ص ۳۸ - -۳۹