دوسری فصل :اسلام اور عقیدہ انتظار :
اسلام میں انتظار سے مراد مصلح اعظم منجی عالم قائم آل محمد موعود موجود فرزند زہرا حجت خدا ولی عصر کے آخری زمانہ میں آفاقی امامت اور ولایت کے ساتھ ظہور کرنے اور دنیا کوظلم وجور سے خاتمہ کرکے عدل و انصاف سے پُر کرنے پر عقیدہ اور ایمان ہے انتظار یعنی تیاری اور آمادگی ہے ،تیاری پاک ہونے ،پاک زندگی گزارنے، بدیون زیشتیون سے دور رہنے، اور تزکیہ نفس کا ،تیّاری خودسازی دیگر سازی سماج سازی اور معاشرہ سازی کی ،آمادگی تمام فردی اجتماغی جسمی اور معنوی طاقتون اور قوتون کو کے یکجا اور اکہٹا کر کے اس عظیم آفاقی اور آسمانی انقلاب میں برپور حصہ لینے کی
ہم یہاں مختصر طور پر عقیدہ انتظار اہمیت انتظار اور مفہوم انتظار کو کتاب وسنت کی روشنی میں مزید واضحت دینے کی کوشش کریںگۓ
ا: قرآن اور عقیدہ انتظار:
تمام مسلمانوں کا اور خصوصیت کے ساتھ مذہب حقّہ کا مستحم وراسخ عقیدہ ہے کہ حق حق ہمشہ ثابت اور دائمی ہوتا ہے تاہے اسکے مقابلے میں باطل عرضی اور وقتی ہوتا ہے ،اور ہر شئی عارضی زود یا دیر زائل ہو جانے والا ہے اور باطل کے جگہ حق لے گا
ہر جگہ حق کا چرچا اور حکومت ہو گی ،قرآن کریم نے بھی متعدد آیات کے زریعے مختلف مقامات پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ آخری زمانہ میں (وجاء الحق وزہق الباطل انّالباطل کان زہوقا )کا اعلان کیا ہے اور انتظار فرج کو نقالب تغیر مسائل میں سے گنا ہے اور دین مبین اسلام کے دوسرے تمام آسمانی وغیرآسمانی مکاتب فکر پر غالب آنے کل حتمی وعدہ دیا ہے
چناچہ پروردگار عالم اپنی لا ریب کتاب میں ارشاد فرماتا ہے(
هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی وَ دِینِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
)
وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار کیوں نہ ہو -
اسی طرح اسی سورہ مبارکہ کے ۳۲ ایت میگ ارشاد ہوتا ہے(
يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُون
)
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور حدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے -
اسی طرح کسی تیسرے مقام پر اس عہد الہی کے حتمی ہونے کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتا ہے(
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون
)
اور ہم نے ذکر کے بعد بھی زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے -
(
وَ نُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلىَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُواْ فىِ الْأَرْضِ وَ نجَْعَلَهُمْ أَئمَّةً وَ نجَْعَلَهُمُ الْوَارِثِین
)
“اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگون کو زمین پر کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انھین لوگوں کا پیشوا و اما م اور زمین کا وارث قرار دیدیں -
ان قرآنی آیات اور انھیں آیات کے علاوہ اور بھی دوسرے بہہت سی آیات سے یہ قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ ایک دن پوری دنیا کے حکومت اور قدرت اہل ایمان اورنیک بندون کے ہاتھ آۓ گی اور ہر جگہ اسلام کا چرچا ہوگا اور سارے دنیا واے ایک ہی پرچم یعنی پر چم توحید کے ساۓمیں جمع ہوں گے اور یہ وہ دور ہوگا جس میں منجی عالم مہد موعود ظہور فرما یئں گے اور وہ آخری زمانہ کا دور ہو گا
ان قرآنی آیات سے مجموعی طور پر جو اہم مطالب اخذ ہوتے ہیں بطور خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے
۱: موعود قرآنی کی امامت اور رہبری میں توحید اور عدل کے اصولوں پر بنیاد رکھی گی آفاقی حکومت اور نظام کے چلانے کے لیے اﷲکے نیک بندوں اور اہل ایمان کے ہاتھون دیا جاۓ گا
۲: آیئں اسلام دوسرے تمام آدیان اور فکری مکاتب پر غالب آجاۓ گا اور دستور اسلام کو عملی جامہ پہنا جاے گا
۳: پوری دنیا میں عدالت ،امنیت ،صداقت ،محبت والفت پھیل جاے گی اور ہر طرح اطمینان وسکوں اورصفا کا سما ں ہو گا ،اور ہر طرح کی اختلافات جو طبقاتئیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتون میں پھیلے ہو ے ہیں اور ہر قسم کی خود پرستی دنیا پرستی اور منیت جو ظلم وبربریت اور وحشیت کی شکل میں اُبھری ہوئی ہے ان سب کا خاتمہ کر کے اس طرح عدل وانصاف سے بھر دۓ گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا ہو گا -
۴: ر ہر قسم کے شرک ، بت پرستی ، غلامی اور بردگی کا قلعہ قمع ہو کے توحید اور یکتا پرستی کا عالم ہوگا
ب: روایات اھل بیت اور عقیدہ انتظار فرج :
اھل بیت اطہار سے امام زمانہ عج کے متعلق سینکڑوں روایات اور احادیث ہم تک پہنچی ہیں ان میں خصوصی طور پر انتظار کی اہمیت ،ضرورت بیان ہوئی ہے
ان روایات سے جو اہم مطالب اخذ ہوتے ہیں ان میں سے چند کا بطور خلاصہ تحریر میں لاتے ہیں
۱: انتظار افضل ترین عبادت ہے :
اہل بیت اطہار نے واضح طور پر نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسانی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ فریقین کے جانب منقول ہے رسول خدا نے فرمایا افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ
-میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے یاکسی اور مقام پر آپ یوں فرماتے ہیں -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل
فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف مے فرج وکشائش کا انتظار ہے اور مضمون میں ائمہ معصومین سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہے جیسا کہ امیر المؤمنیں علی فرماتے ہیںانتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فانّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا کالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه
آسائش اور رہائی کا انتظار کرو خدا کی رحمتون سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ اسلئے کہ پروردگا کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کے مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کے مانند ہے جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان ہوا ہو -
۲: انتظار واجب اورظہور خدا کا حتمی وعدہ :
کلمات معصومین سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حجت خدا کا ظہور حتمی ہو جبکہ اسکا انتظار فرض اور واجب یعنی ضروری ہے
جیسا کہ معصومیں کا جملہ ہے :أنّ قائم منّا هو المهدی الذّی یجب ان ینتظر فی غیبته ،ویطاع فی ظهوره
ہم میں سے جو قائم ہونگے وہ مہدی ہیں زمانہ غیبت میں انکا انتظار اور ظہور کے بعد انکی اطاعت سب پر واجب ہے-
اسی طرح ابی داود اور ترمذی دونون نے اپنے سند کے ساتھ پیغامبر اعظم سے نقل کیا ہے ،کہ آنحضرت نے فرمایاولو لم یبق من الدهر الاّ یوم واحد لبعث اﷲ رجلاَ من أهل بیتی یملؤ ها عدلاً کما ملئت جوراً وظلماً
“اگر دنیا کے عمر میں ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے تو پھر بھی پروردگار عالم میرے اہل بیت میں یےایک شخص کو بیجھا جاۓ گا اورزمیں کو ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد عدلو انصاف سے بھر دے گا ”
کسی اور روایت میں جناب طبرانی اور احمد حنبل وغیرہ نے رسول خدا سے نقل کی ہے آنحضرت فرماتے ہیںولو لم یبق من الدنیا الاّ یوم لطوّل اللّه ذلک الیوم حتی یبعث رجلاً منّی –أو من أهل بیتی – یواطیئ اسمه اسمی یملأ الأرض قسطاً وعدلأً کما ملئت ظاماً وجوراً
اگر عمر دنیا یے ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہی تو پروردکار عالم اس دن کو اس طرح طول دے گا کہ مجھ سے یا میرے اہل بیت سے ایک شخص جو میرا ہم نام ہو گا ظہور کرۓ گا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دۓ گا جس ظرح ظلم و جور سے بھر چکا ہو گا ----
پس ان روایات کے علاوہ سینکڑون روایات جسے فریقین نے تاریخی تفسیری اور حدیثی کتب میں نقل کی ہے جو دلالت کرتی ہے کہ جس ہستی کے تما عالم منتظر ہیں وہ فرزند رسول اور ہم نام رسول مہدی منتظرہوں گے کہ جنکےانتظار ضروری اور واجب ہے جبکہ انکے ظہور کا اﷲ تعالی حتمی وعدہ دیاہے
۳: انتظاریعنی امام غائب پر عقیدہ :
ایک طرف تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی موعود روۓزمین پر خدا کا نمائیدہ اور بندون پر حجت ہو ں گۓ تو دوسری طرف زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی تاہم حجت خدا کی معرفت اور اور شناخت واجب اور ضروری ہے
چنانچہ رسالت کآب فرماتے ہیںمن مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة
جو شخص اس حالت میں مرے جبکہ وہ اپنے امام زمان کونہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مراہے -کسی دوسرےحدیث میں آپ فرماتے ہیں:قَالَ قلتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَ تَبْقَی الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ قَالَ لَوْ بَقِيَتِ الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ لَسَاخَتْ
”اگر ایک لحظہ بھی حجت خدا سے خالی ہو جاۓ تو زمین ہر چند کو نگل لے گئی اسی طرح کسی اور مقام پر آپ اما م غائب پر عقیدہ رکھنے اور انکے ظہور کا انتظار کرنے والون کی توصیف میں فرماتے ہیں:
طوبی للصابرین فی غیبته ! طوبی للمقیمین علی محبته ! اُولئک الذّین وصفهم اﷲ فی کتابه وقال:”هدی للمتقین الذّین یومنون بالغیب
“
-” ان صبر کرنے والوں کے لیے خوش بختی ہے جو انکے غیبت کے دوران صبر کرۓ ! اورخوشابحال ہے وہ لوگ جو انکی محبت پر پابر جا رہے ! یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق پروردگار عالم نے اپنی کتاب میں کہا ہے ”ہدایت ہے ان صاحبان تقوی اور پرہیزگار لوگوں کے لۓ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں”-اور انکے امامت پر ایمان نہ رکھنے والے اور انکے خروج کے انکار کرنے والوں کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں ”من انکر خروج المهدی فقد کفر بما اُنزل علی محمّد
حضرت مہدی عجل کے ظہور کا انکار کُل اسلام کے انکار کرنے کا برابر ہے
پس ہر فرد مسلمان کی ذمداری ہے کہ وہ امام زمانہ کے غیبت پر ایمان لاۓ انکی معرفت خدا ورسول کی معرفت انکی غیبت پر ایمان عالم غیب پرایمان اور انکے وجود مقدس پر ایمان خدا ورسول پر ایمان اور انکےاور انکے خروج کا انکار اسلام کے انکار کے برابر ہے
۴: انتظار یعنی اہل بیت اطہار کے تقرب کیلۓ جدوجہد :
انتظار کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ امام زمانہ کی محبت اور تقرب کو ہاتھ میں لانے اور انکے مورد غضب اور نارضگی واقع ہونے کی فکر میں رہیں لہذا ایسا کام انجام نہ دیں جو ان سے دوری اور انکے خاص عنایتوں محروم ہونے کا سبب بنے بلکہ ہمیشہ اسیے عمل انجام دینے کی کوشش میں ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ آنحضرت سے نزدیک ہونے اور انکے رضایت کو جلب کرنے میں زیاوہ مؤثر واقع ہوتا ہو چناچہ خود امام زمان جناب شیخ مفید کو ارسار کۓ گے ایک خط میں فرماتے ہیں “فلیعمل کلّ امرء منکم بما یقرب به من محبّتنا ویتجنب ما یدنیه من کراهتنا وسخطنا
”
تم میں سے ہر شخص کو ایسا کام کرنا چاہیے جو ہماری محبت اور دوستی سے نزدیک کرنے کا سبب بنے اور جو چیزین ہمیں نا پسند ہیں اور ہماری کراہت وناراضگی سے نزدیک کرنے کا باعث بنتی ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے -
انتظار کا صحیح مفہوم
لغت کے لحاظ سے انتظار ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ھاتھوں جلوہ گرھونے کا
انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے
انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں ،یہ ہے حقیت انتظار اسلامی نقط نگاہ میں انشاء اﷲ بعد میں تفصیلی وضاحت دین گے
انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج
ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے درست اور اصلی مفہہوم میں نہ سمجھنےبلکہ کج فہمی اور غلط مراد لینے کی وجہ سے یھی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگی کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے -
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو سینکڑون ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروپوں تنظیموں کی شکل میں نظر ایئین گے جنہون نے عقیدہ انتظار کو الٹ سمجھنے اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریںگے
ہم یہاں پر ان گروپوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچانے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے
پہلاگروہ
لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت کیں ہماری ذمداری صرف اور صرف حضرت حجت کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ہم کوئی ربط نہیں امام زمانہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھک کرے گریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں
اما م خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کے عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں
(کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں گا منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرنا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمداری ہے کہ انکیامد کے لیے زمینہ فراہم یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گئے
اگر ہماری بس میں ہوتی تو پوری دنیا سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمداری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمداری کو انجام نہ دے
بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمداری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے صورت میں دفاع کر سکھے اور انھوں روک سکھے ہم ان سے یہ سوال کر تے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال ظاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا ؟کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کے عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زنادہ بدتر ہے ، کوئی شخص نہ نہیں کہہ سکھتا کہاب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود و باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ اور خراج نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات قصاص سب تعطیل ہے
دوسرا اور بدتریں گروہ-
اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمداری نہیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کہ طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکھے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ میں بعض خود غرض افراد بھی ہوتے ہیں جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے ہیں اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کے زد میں ا کر منحرف ہوتے ہیں
انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں پھلاے تاکہ حضرت حجت جلدی ظہور کریں ،....حضرت حجت ظہور کریں گے تو کس لیے ظہور کریں گے ؟اسیلیے ظہور کریں گنے کہ دنیا میں عدالت کو گسترش دیں ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،لیکن ہم قرانی ایات کے خلاف امر بالمعروف اور منکر سے نہی کرنے سے ہاتھ اُٹھا لیں اور گناہوں کو پھیلانے کی فکر میں رہیں تاکہ حضرت جلدی ظہور کریں ،کیا انحضرت جب ظہور کریں گے تو یہی کام انجام دیں گئے ؟
ابھی دنیا ظلم وجور سے بھرا ہوا ہے ...اگر ظلم وجور کے روک سکھتے ہیں تو ہماری ذمداری اور تکلیف ہے ضرورت اسلام اور قران نے ہماری ذمداری ڈال دی ہے کہ باید قیام کرے اورہر کام کو انجام دے -
یقیناً اس قسم کا انتظار جس میں ایک قسم حدود قوانین اور اسلامی مقررات کا تعطیل ہونا لازم آتا ہو اور منتظرین کو گناہوں کی طرف دعوت دے تخریب اور جود کا شکار ہو جاے یقیناً اسیے انتظار خود امام زمانہ کے ارشاد کے مطابق طہور کی راہ میں سب سے بڑا مانع اور سد راہ ہے چنانچہ اپ فرماتے ہیں :و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم الا ما یتصل بنا مما نکرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوکیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم
“اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے
پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت واطاعت ہے
اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے
____________________