إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ 0%

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مؤلف: شیخ فداحسین حلیمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12424
ڈاؤنلوڈ: 4147

تبصرے:

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12424 / ڈاؤنلوڈ: 4147
سائز سائز سائز
إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مؤلف:
اردو

تیسری فصل : انتظار اور ہماری زمداریان

جن قرآنی آیات اور روایات میں مسئلہ انتظار کے متعلق گفتگو ہوئی ہے ان سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ عضر غیبت میں منتظر ین کے گردن پر بہت ہی سنگین اور بڑی زمداری ہے اور جب تک ان زمداریوں اور وظائف پر عمل نہ کریں حقیقی اور سچے منتظرین میں شمار نہیں ہوتا

لہذا واقعی اور سچے منتظر بنے کے لیۓ ان زمدایوں کو اچھی طرح جانا اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے

ہم یہاں چند اہم زمدّاریوں کو تفصیل کے ساتھ زیر تحریر لاتے ہیں تاکہ تشنئہ معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور زمداریوں کو جاننے میں آسانی ہو جائے

۱: امام منتظر کی معرفت اور شناخت :

ایک مؤمن منتظر کی سب اہم ذمداری اور پہلا وظیفہ ہر دور کے امام کی معرفت اور انے شناخت ہے ،اور فریقین کے رویات کے مطابق پیغمبر اکرم نے امام زمانہ کی معرفت کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے:من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة (۱) جو شخص اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جاۓ وہ جاہلیت کی موت مراہے ”

اسلامی تعلیمات کے روشنی میں- جسکا تذکرہ پہلے بھی ہو چکا ہے- تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس ہستی کے آمد کے ہم سب منتظر ہیں وہ ایسی شخصیت ہیں جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیرہ کیا ہے ، اس روۓ زمین پر امام زمانہ اور حجت خدا ہونگے اور انکے بابرکت وجود کے زریعۓ مقصد بعثت کامل اورخلقت کا نتیجہ حاصل ہو گا لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وہ ذات ابھی بھی ہمارے درمیاں زندگی کر رہیے ہیں اگر چہ انکی شخصیت کی زیارت سے ہم سب محروم ہیں ، آپ پردہ غیب سے ہماری مسلسل سرپرستی کررہے ہیں ،انھیں کے وسیلہ سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراہم کرتا ہے اور زمین وآسمان اپنی جگہ ثابت وبرقرار ہیں آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ں وسطہ فیض ہیں تمام انبیاء واوصیاء کے علوم اور اوصاف حمیدہ کے وارث ہیں اورآپ ہی کی ذات کو اﷲ تعالی کی ارادہ و اجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے اور حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرتی ہے

اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی و اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب وتنزّل اور حفقان کا شکار ہے ،تو یہ سب آنحضرت سے غفلت و بے توجہی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی کے وجہ سے ہے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقہ نہ پہچانتا ہو تو اسکے بارے میں وہ اپنے وظیفہ کو دلی لگاو سے انجام نہیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر کی ظہور سے پہلے سب سے بڑی اور اہم ذمداری حضرت حجت اما م منتظر کی معرفت اور شناخت ہے اوریہی سعادت و نجات کا باعث اور اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث ہے لہذا صادق ال محمد فرماتے ہیں :يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِی فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ ع (۲) تم اپنے امام کو پہچانیں جسکے تم منتظر ہے کیونکہ جب تم پہچانیں گے تو پھر وہ ظھور کرۓ یا نہ کرۓ تمھیں کچھ نقصان نہیں ہو گا یعنی تم نے اپنے ذمداری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے ہو گۓ اب انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر جاۓ تو یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ، لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے -

اسی طرح فضیل بن یسار نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ (۳) ” آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو امام زمانہ کے ظہور میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا و ہ اپنے امام کے ہمراہ جہاد میں انکے خیمے میں ہے -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الایمان صحیحا ً الاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، کما قال اللّه تبارک وتعالی ”الاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (۴) فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به الاّ من بعدعلمهم ثم کذلک لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یکون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (۵) ”کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت نہیں رکھتا ہوں “جس طرح اﷲ تعالی فرماتا ہے الاّ من شہد بالحق وھم یعلموں مگر ان افراد کے جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی گواہی قبول نہیں ہو گی مگر علم رکھتا ہو ” اسی طرح مہدی قائم پر ایمان رکھنے والوں کے ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا (یعنی انکے ظہور اور قیام پر اجمالی ایمان اور انکے ظہور کے انتظار اسے فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران انکے متعلق اور انکے شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جاننے بغیر کس امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو گی

الف: آپ کائنات کے اولین مخلوق ہیں :

صحیح روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ ورسول اکرم اور دیگر بارہ معصومین کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی کائنات کے تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم ای بارے میں فرماتے ہیں “لما اسری بی الی السماء (۶) جس رات مجھے آسمان کا سیر کرایا میری نظری پڑی عرش پر تو لکھا ہوا تھا “لا اله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ أیده بعلی ....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمد اسکا رسول ہیں اور علی کے زریعے ہم نے انکی تایئد کیا ،اور میں نے عرش پر علی وفاطمہ اور باقی گیارہ معصومین کے مقدس انواردیکھا جنکے درمیان حضرت حجت کا نور کوکب درّی کے مانند درخشان اور چمک رہا تھا میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومین کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بہر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا ہو گا اسی طرح امیر المومنین فرماتے ہیں رسول خدا نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی الی السماء....... فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءک المکتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی الی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی کل نور سطر أخضر مکتوب علیه اسم کل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (۷) “جب مجھے آسمان کا سیر کرایا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہے میرےاوصیا ، ندا آئی یا محمد تمھارے وصیون کے نام ساق عرش پر لکھا گیا ہے میں نے عرش کی طرف نظر کیا تو گیارہ نور اسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز رنگ ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسماۓ گرامی لکھا گیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالب کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کے مہدی کا نام تھا -

اسی طرح جناب شیخ صدوق امام صادق سے نقل کرتے ہیں آپنے فرمایا:

الله تبارک و تعالی خلق أربعة عشر نورا قبل خلق الخلق بأربعة عشر ألف عام فهی أرواحنا فقیل له یا ابن رسول الله و من الأربعة عشر فقال محمد و علی و فاطمة و الحسن و الحسین و الأئمة من ولد الحسین آخرهم القائم الذی یقوم بعد غیبته فیقتل الدجال و یطهر الأرض من کل جور و ظلم ....(۸) “پرودگار عالم نے تمام مخلوقات کے آفرینش سے چھودہ ہزار سال پہلے چھودہ نورخلق کئے تھے اور وہ ہماری پاکیزہ ارواح تھیں ان میں سے آخری قائم علیہ السلام ہے جو غیبت کے بعد قیام کرے گا ، دجال کو قتل کرے گا ،اور زمین کو ہر طرح کے ظلم وستم سے پاک کر دے گا -

پس ان احادیث اور انکے علاوہ اور دسویں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے قائم آل محمد جس کے ہم اور آپ سب منتظر ہیں جنکے نور کو پروردگار عالم نے کائنات تمام مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور انہیں دوسرے مخلوقات پر شاہد اور گواہ بنا کر پیش کیا ہے یہ انے مقام ومنزلت خدا کے نزدیک

ب :آ پ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں :

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ،

جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذکر الله عز و جل عبادة و ذکری عبادة و ذکر علی عبادة و ذکر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة ان وصیی لأفضل الأوصیاء و انه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسک السماء أن تقع علی الأرض الا باذنه و بهم یمسک الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئک أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا .....(۹) “ آنحضرت نے فرمایا :اﷲکا ذکر اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علی کا ذکر وانکے فرزاندان ائمہ کے ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کے جسنے مجھے نبوّت کے ساتھ بیجھا ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالب کے فرزاندان ائمہ ھداء ہونگے انھین کے واسطے اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا اور انھیں کے برکت سے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کے خاطر پہاڑون کے بکھر جانے نہیں دے گا اور انھین کے طفیل سے اپنے مخلوق کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین

اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انے فرزند حجت خدا وجانشین واما مقائم منتظر مہدی جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے انکے وجود سے دنیا باقی ہے اور انکے برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قاظم ہیں اور انھیں کے ذزیعے خدا زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہے گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں

ج: آپ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے -

امام حسین سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچہا گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل کلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته (۱۰) ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت کو لوگوں پر واجب کی گی ہے -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّه عزوجل ویعبده من عرف اللّه وعرف امامه منّا أهل البیت(۱۱) ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جسنے اﷲ اور ہم اہل بیت میں سے اپنے اما م کو پہچان لیا ہو یا اہل بیت اطہار کی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار ) اگر چہ وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو -جیسا کہ چھٹے امام سے روایت ہے آپ فرماتے :“من عرفنا کان مومنا ومن انکرنا کان کا فراً (۱۲) جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں ہے -

د: آپ تمام انبیاء کے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہیں اور آپ میں تمام انیباء کے کمالات پائی جاتی ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کے حامل تھے سلمان فارسی نے آنحضرت سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :الائمة بعدی اثنا عشر عدد شهور الحول ،ومنّا مهد ی هذه الاُمة (۱۳) میرے بعد بارہ امام سال کے بارہ مہینون کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدی بھی ہم سے ہی ہونگے جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب سمیٹ لاۓ ہو گا

اسی طرح چھٹے اما مفرماتے ہیں :انّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام (۱۴) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ تو اپنے جد علی علیہ السلا مکے لباس زیب تن کریں گۓ اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا انکے مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للامام‏ علامات یکون أعلم الناس و أحکم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (۱۵) “ حضرت ولی عصر لوگوں میں سب سے زیادۃ دانا حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہیں وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والے عابد اور عبادت گزار ہیں ”

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کے اُمیدوں کو زند ہ کریںگۓ-

قرآن مجید نے نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و پاکدامنی کو رواج دینا تھا -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے مبارک ہاتھوں سے انکے آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشوق ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل می تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف کیا ہے اور وہ آیہ مبارکہ یہ ہے :( يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ ) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور حدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے-( هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون ) وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار کیوں نہ ہو

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپی شخصیت تنہا وہ ذاتہیں جو انبیاط وائمہ کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گۓ اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدون کو تحقق بخشین گۓ اسی لیۓ روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ کی اطاعب اور معرفت ہے اور انکے ظہور کا انکار نبی اکرم کی رسالت کا انکار ہے اگر چہ وہ شخص ایک مسلمان ہو نے کی بنا پر انکے نبوّت کا اعتراف ہی کیون نہ کرے ،چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و کنیته کنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم الی کتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنکر غیبته فقد أنکرنی و من کذبه فقد کذبنی و من صدقه فقد صدقنی الی الله أشکو المکذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (۱۶) . قائم میرا فرزند ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشکائل میرے شکل وشمائل جیسی ہوگی اور انکی سنت میری سنی پر ہوگی لوگوں میرے دین اور شریعت پر پلٹا دین گۓ انھین میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گۓ جو انکی اطاعت کرۓ اسنے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اسنے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اسنے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلالے اسنے مجھے جھٹلایا ہے اور جسنے انکی امامت اور غیبت کا تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....- اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب کی معرفت اور اطاعت ہے اور ہی انکا انکار نہ صرف آنحضرت کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے -

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامن کے دن میں ہمیں اپنی حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا (یا حسرتا !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنے اندر پیدا کریں

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمداری اپنے وقت کی امام و حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها(۱۷) اور بھی بہت روایا ہر زمان میں امام کی ضرورت پر دلالت کرتی ہیں -

۲: امام منتظَر کی محبت -

معرفت کا لازمہ محبت ہے یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کو نہ پہچانتا ہو اور اسکی خاصیت کو نہ جانتا ہو اسکی عظمت وفضائل اسکے مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس سے محبت نہیں کر سکتا لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی کی عظمت اور فضائل سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتا ہے ،اور اسکی ظرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے -

اور خدا ورسول اور ائمہ اطہار کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں وبرائیوں سے نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہون سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے

اور روایات معصومین میں امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص طور پر توجہ دی گئی ہے چناچہ رسول اکرم فرماتے ہیں :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا اےمحمد ! زمین پر کس کو اپنے امت پر اپنا جانشین بنایا ہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتا تھا ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب کو اچانک میں نے علی ابی طالب اور حجت قائم کو ایک درخشان ستارے کے مانند انکے درمیان تھے دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیرے دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں پس اگر چہ تمام معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے اسیلۓ آٹھوین امام نے اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے ، آپ نے فرمایا :قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد کمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر (۱۸) ”مجھ سے میرے بھاظی رسول خدل نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالیسے اپنے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ.......-

لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمداری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھنا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں

الف: امام منتظَر کی اطاعت اور تجدید بیعت -

امام زمانہ کی محبت کے منجملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک حضرت کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا ہے چاہے کہ اسکا امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں پرمطلع اوراسکے رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں، اچھے اور نیک کامون کو یکھ کر انکے دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے برے اور ناشائستہ کامون کو دیکھ کر انکو دکھ ہو جاتاہے ،اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا و رسول کی رضا ہے اور انکے کسی پر ناراضگی خدا و رسول کی ناراضگی اسکے درپے ہے ،اور میرا ہر نیک عمل ہر اچھا کردار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کے نسبت میرا احساس مسؤلیت انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا اور یہ بھی جاننا چاہے کہ اما م زمانہ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کے مکمل پیروی میں حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت یا معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھ سکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عرتون کا ضرت المثل ہے (وانت عاصیُ ُ انّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ )یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جب جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی اطاعت گزار ہوتا ہے

اسلئے صادق آل محمد فرماتے ہیں :مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ (۱۹)

جو شخص چاہتے ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں یے ہو جاۓ تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات ہقل ہوۓ ہیں :“اللهم انّی اُجدد له فی صبیحة یوم هذا وما عشت فی أیامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں میں سے قرار دۓ

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہار کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومین کی اطاعت حمایت اور انسے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زنانہ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم الا ما یتصل بنا مما نکرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوکیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم (۲۰) “اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت اطاعت حمایت اورمحبت ہے

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین فرماتے ہیں : “اعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولکنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم واسرافهم علی انفسهم (۲۱) جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگون کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں انکی زیارت سے محروم کر دۓ گا -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ایک اوراہم ذمداری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے اوریہی شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی

ب: امام منتظر کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فجرہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں ایجاد کرنے اور اسے رشد دینے کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طدف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور پر یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح کو ایک چیز کی طرف متوجہ کریں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو سکے

اسی طرح اگر آپ نے اما زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ روحی کشش کو ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد ظرف کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ اور جب شرائط پائی جاتی ہیں تو اسکا اثر خواہ نخواہ ہو گا اور رایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتا ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھون کیں دو وقت ایک صبح اور دوسرے رات کے وقت حضرت بقیۃ اﷲ اعظم کی طرف توجہ کریں معصومین نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہد کے پڑہنے دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑہنے کا حکم دیا ہےالسلام علیک فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی (۲۲) سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا اُجالا پھیل جاۓ اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص ان طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام کی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکیا جاۓ گا(۲۳) اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین کے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام منتظر کے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد یہاں ذکر کرتے ہیں -

الف :امام منتظر کے نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم زریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا ہے-

ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہے جس طرح خدا و رسول اور خود امام زمانہ اور انکے اجداد طاہرین ہم سے چاہتۓ ہیں ہمیں جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو آنجناب کی حاجتون کو اپنے حاجتون پر مقدم اور انکی طرفسے صدقہ دینے کو اپنے اوپر اور اپنے عزیزون کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کریں ،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(۲۴) اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات فرماتے ہیں : “....... کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں چاہتے ہے ، اسی طرح اسکے نزدیک اپنے عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو - اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومین کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو اپنے امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑیسے بھی سنگین ہےيَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (۲۵) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے پر تاکید کیا گیا ہے

یقینا ان کامون کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ انسان ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ

ج: انکے فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا -

بعض معصومین بھی امام زمانہ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے یہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر مؤ منین حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشنیا ں یون بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه

مثل السقیم وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه

مستوحشاَ من کل ما هو مشاغل ٌ

ومن الدلآئل ضحکه بین الوری

والقلب مخزون کقلب الثاکل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھوٹ رہا ہوتا ہے

انکی دوسیری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اسے بھاگ جاتے ہیں

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ ملنے میں خندان نظر آئیں گۓ لیکن انکا دل غم و اندوہ سے بیٹھا مرا شخص کی طرح محزون ہوتا ہے

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصر کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر رہی ہے انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بھانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ (۲۶) ” اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام سالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان ما شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے.......

کسی دوسرے حدیث میں جسے جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی ہے ،کہتے ہیں :ایک دن میں مفضل بن عمیر و ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق کے خدمت میں شرفیاب ہوۓ تو آپکو اس حالت میں دیکھے کہ آپ زمین پر تشریف فرماں ہیں ، جُبہ خیبری زیب تن کیۓ ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کے مانندبے تابی سے گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹھا مرا ہو ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران اور انکے شوق دیدار میں بے تاب تھے

____________________

(۱) شرح مقاصد: ج ۲ ص ۲۷۵-

(۲)مرآۃ العقول :ج۴ ص ۱۸۶ - اور اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ -

(۳) کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲

(۴) زخرف :۸۶ -

(۵) صدوق :کمال الدین اتمام النعمة :ج ۱ ص ۱۹ -

(۶) سید ہاشم بحرینی :منیت المعاجز ص ۱۵۳ -

(۷) کمال الدین ج : ۱ ص : ۲۵۶

(۸) صدوق :اکمال الدین ج ۲ ص ۳۳۵ باب ۳۳ -

(۹) شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ ۲۲

(۱۰) مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(۱۱) کلینی: کافی ،ج ۱ ، ۱۸۱ -

(۱۲) کلینی :کافی ،ج۱ ،ص ۱۸۱ -

(۱۳) صافی گلپائی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -

(۱۴)مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ -

(۱۵) محقق طبرسی :الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۳۷

(۱۶) صدوق : کمال الدین ج : ۲ ص : ۴۱۱-: اعلام الوری ۴۲۵ -

(۱۷) کافی :ج۱ ،ص۱۷۹ اور الغیبة ،نعمانی ص ۱۴۱ اور کفایة الاثر ص ۱۶۲ -

(۱۸) الصراطالمستقیم ج : ۲ ص : ۱۴۹

(۱۹) مجلسی بحار انوار ،ج۵۲ ،ص ۱۴۰ -

(۲۰) طبرسی - الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۹۹ -

(۲۱) نعمانی :الغیبة ،باب ۱۰ ،ص ۱۴۱ -

(۲۲) پیام اما زمانہ :ص ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہ کے متعلق تقریر کا ایک حصہ -

(۲۳) مجلسی :ج ۱۰۲ ،ص ۱۱۱ -مصباح الزائر ص ۲۳۵ -

(۲۴) کشف المحجہ : فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ -

(۲۵) کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ - اور،ج ۱ ص ۵۳۸ -

(۲۶) کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶ باب غیبت -