گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری 0%

گریہ اور عزاداری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

گریہ اور عزاداری

مؤلف: ناظم حسین اکبر
زمرہ جات:

مشاہدے: 7730
ڈاؤنلوڈ: 3060

تبصرے:

گریہ اور عزاداری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7730 / ڈاؤنلوڈ: 3060
سائز سائز سائز
گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

گریہ اور عزاداری

مصنف: ناظم حسین اکبر

بسم الله الرّحمن الرّحیم..

انتساب

عزاداری نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، سیّد الشہداء ،مظلوم کربلا ، امام حسین علیہ السّلام کی ترویج کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے اور دیگر تمام ماتمی عزاداروں کے نام جنہوں نے اپنی ساری زندگی عزاداری کے دفاع اور عزاداروں کی خدمت پر صرف کردی

سخن مؤلف

الحمد لله ربّ العالمین والشّکر لله ربّ الشّهداء والصّدیقین الّذی جعل فی ذریّة الحسین علیه السّلام الآ ئمّة النجباء وفی تربته الشفاء وتحت قبته استجابة الدّعا وصلیّ اللّه علی محمّد وآله الطاهرین ۔

نواسہ رسول ،جگر گوشہ علی وبتول ، نو جوانان جنّت کے سردار امام حسین علیہ السّلام کے غم میں مجالس عزا کا قیام دین مبین اسلام کی بقا ء کی خاطر اس انقلاب کا تسلسل ہے جسے امام حسین علیہ السّلام نے کربلا کے میدان میں باطل کے خلاف برپا کیا ۔

امام حسین علیہ السّلام کے قیام کا مقصد دین خدا کو تحریف اور باطل افکار سے بچانا تھا جس کی واضح مثال تاریخ اسلام میں خلفاء کا عمل ہے کہ واقعہ کربلا سے پہلے ہر خلیفہ کا عمل شریعت نظر آتا ہے لیکن کربلا کے انقلاب نے وہ اثر چھوڑا کہ اس کے بعد شریعت اور خلفاء کے عمل کو جدا کردیا اس کے بعد کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ کسی خلیفہ وقت کے عمل کو شریعت میں داخل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد امام حسین علیہ السّلام دین کی پہچان بن گئے جیسا خواجہ اجمیری لکھتے ہیں:

شاہ ا ست حسین بادشاہ است حسین ****** دین است حسین دیں پناہ است حسین

سر داد نداد دست در دست یزید ******** حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین

خواجہ اجمیری نے امام حسین علیہ السّلام کو بانی اسلام کہہ کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی تائید کردی کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں گویا ا س نے حسین کورسول پاکصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ سے دیکھا ہے رسول خدا وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مستقبل بیں نگاہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ ایک ایسا دور آئے گا کہ کلمہ گوؤں کی تلوار سے اسلام قتل کردیا جائے گا لہذا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ چاہا کہ جب اسلام کا خون بہا دیا جائے تو خون حسین اس کی رگوں میں دوڑا دیاجائے اسی لئے اُمّت اسلامیہ کو آگاہ کردیاکہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تعارف کرواکر بتا دیا کہ اے مسلمانو! اس کا خون نہ بہانااس لئے کہ اس کی رگوں میں میرا خون ہے یہ آواز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آج بھی گونج رہی ہے لیکن خود پرستوں نے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات بھی سنی ان سنی کردی اور اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند اور ان کے یارو انصارکو تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا ،ان کی لاشوں کو پامال کیا اورسول زادیوں کو قیدی بنا کردرباروں اور بازاروں میں پھرایا گیا،یہی وہ غم تھا جس پر تمام انبیا ء علیہم السّلام نے گریہ وعزاداری کی اور پھر آئمہ معصومین علیہم السّلام نے خود مجالس عزابرپا کر کے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا اس لئے کہ مظلوم کربلا ، امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کو زندہ رکھنا در حقیقت اسلام کو زندہ رکھنا ہے ۔

عزیزو اقارب کی موت پر گریہ کرنے کے جواز پر تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے(الفقہ علی المذاہب الأربعہ١:٥٠٢. )اور امام حسین علیہ السّلام پر گریہ و عزاداری اور ان کے غم میں ماتم ،عام غم و ماتم سے مکمل طور پر فرق رکھتا ہے اس لئے کہ یہ فرزند مصطفٰیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ماتم ہے ، نواسہ خاتم الانبیا ء کا ماتم ہے ، جگر گوشہ زہراء و مرتضٰی کا ماتم ہے ،اس غریب کا ماتم ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کا کٹا ہوا سر اس کی بیٹیوں اور بہنوں کی آنکھوں کے سامنے شہر بہ شہر پھرایا گیا، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کے بدن پر لبا س بھی باقی نہ رہنے دیا گیا ، ا س بے کس کا ماتم ہے جس کے چھ ماہ کے شیرخوار پر بھی ترس نہ کھایا گیا ، اس شہید کا ماتم ہے جس کی بہنوں اور بیٹیوں کو ننگے سر درباروں اور بازاروں میں پھرایا جاتا رہا ، اس امام معصوم کا ماتم ہے جس کا بدن تین دن تک بے گور و کفن کربلا کی جلتی ہوئی زمین پر پڑا رہا ، اس بے نوا کا ماتم ہے جس کی مظلومیت پر خود دشمن نے بھی گریہ کیا ، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کی بے کسی پر انبیاء و ملائکہ اور جنّ و انس نے ماتم کیا ، اس بے وطن کا ماتم ہے جس پر آسمان نے خون برسای

لہٰذ ا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلمہ پڑھنے والے ہرعاشق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہے کہ وہ نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مظلومیت کا غم منائے اور دوسروں کو بھی اس میں شرکت کرنے کی دعوت دے تاکہ اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کا اظہار کر سکے ۔کتاب حاضر میں ہم قرآن وسنّت اور سیرت صحابہ کرام سے امام حسین علیہ السّلام پر گریہ وعزاداری کے جواز کو اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فضیلت اوراجرو ثواب کے متعلق چند احادیث نقل کریں گے تاکہ ہماری بخشش کا سبب بن سکے۔

والسّلام علی من اتّبع الهدٰی

اللّهمّ اجعلنا من الباکین علی الحسین الشهید المظلوم علیه السّلام

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر )

ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور پاکستان

٤دسمبر ٢٠٠٩ء بمطابق ١٦ذی الحجہ ١٤٣٠ہجری

١۔حکم قرآن

قرآن مجید نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیں چاہے وہ جس جگہ ،جس زمانہ اور جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ظلم کی سرکوبی اور ظالم کے خلاف قیام اسلام کا اوّلین فریضہ ہے اس لئے کہ ظلم کیخلاف آواز بلند نہ کرنا ظالم کی حوصلہ افزائی ہے اوراس سے دنیا میں ظلم کو فروغ حاصل ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ دین مبین اسلام میں کسی کی برائی بیان کرنا اور اس کی غیبت کرنا بدترین جرم ہے جسے قرآن مجید کی زبان میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قراردیا گیا ہے لیکن اس مسئلہ میں بہت سے مواقع کو مستثنٰی قرار دیا گیا ،جن میں سے ایک مظلوم کی ظالم کیخلاف فریاد بلند کرنا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کی وجہ سے ظالم کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرسکتاہے چاہے وہ ظلم انفرادی ہو یا اجتماعی ۔

قرآن مجید نے اسی بات کو سورہ مبارکہ نساء میں یوں بیان فرمایا:

( لا یحبّ الله الجهر بالسّوء من القول الاّ من ظلم ) ( ۱ )

ترجمہ: اللہ مظلوم کے علاوہ کسی کی طرف سے بھی علی الاعلان برا کہنے کو پسند نہیں کرتا ...۔

اس آیت مجیدہ سے یہ پتہ چلتاہے کہ مظلوم کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم پر علی الاعلان تنقید بھی کرسکتا ہے اور اسکے خلا ف احتجاج بھی ۔اور اسی احتجاج کا ایک مصداق ماتم امام حسین علیہ السّلام ہے جس میں عاشقان رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف احتجاج اور ظالم یزیدیوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تا کہ یوں روز قیامت اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شفاعت حاصل کرسکیں۔اس لئے کہ ماتم اور عزاداری در حقیقت محمد وآل محمد علیہم السلام سے اظہار محبّت کا مصداق ہے ۔ جس کا حکم خود خداوند متعال نے دیا اور فرمایا:

( قل لا أسئلکم علیه أجرا الاّ المودّة فی القربٰی ومن یقترن حسنة نزد له حسنة فیها حسنا انّ الله غفور شکور ) ( ۲ )

ترجمہ : تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباسے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا تو ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بے شک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اورقدرداں ہے ۔

علاّمہ ذیشان حید ر جوادی اعلی اللہ مقامہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :اس نیکی سے جو بھی مراد ہو اس کا محبت اہلبیت کے مطالبہ کے بعد ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ محبت اہلبیت کے بعد جو نیکی بھی کی جاتی ہے خدائے کریم اس میں اضافہ کر دیتا ہے اور محبت کے بغیر جو نیکی انجام دی جاتی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

اسی محبّت اہلبیت کا اظہار کرنے کی خاطر شیعہ و سنی مسلمان سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر آل محمد علیہم السّلام سے حمایت اور یزید اور اس کے پیروکاروں سے برائت کااعلان کرتے ہیں اور ایسے جلسے و جلوس نہ توقرآن کے مخالف ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا اور نہ ہی عقل و عرف عام کے ۔جس کی دلیل ہر دور میں حکومتوں اور ظالموں کیخلاف ہونے والے جلسے جلوس اور بھوک ہڑتالیں ہیں اور کبھی کبھار سیاہ پٹیاں بھی باندھ لی جاتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہی لوگ جو اپنے کو مظلوم اور حکمرانوں کو ظالم ثابت کرنے کے لئے احتجاج بھی کرتے ہیں سیاہ پٹیاں بھی باندھتے ہیں اور بھوک ہڑتال کر کے اپنے بدن کو اذیت بھی پہنچاتے ہیں اس وقت نہ تو بدن کو اذیت پہنچانا ان کے نزدیک بدعت اور حرام قرار پاتا ہے اور نہ سیاہ پٹیاں باندھنا گناہ نظر آتا ہے مگر جیسے ہی نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، جوانان جنّت کے سردار امام حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور یزید کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے تو وہی لو گ اس احتجاج ااور اس ماتم و عزاداری کو بدن کو ا ذیت پہنچانے کا بہانا بنا کر اس پر بدعت کا فتوٰی لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ نہ تو قرآن نے ماتم و احتجاج کی نفی کی ہے اور نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے جیساکہ بیان کیا گیا کہ قرآن تو مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف فریاد بلند کرنے کو جائز قرار دے رہا ہے او ر سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اس کی تائید کررہا ہے جسے آگے چل کر ذکر کیا جائے گا ۔

بقائے دین وشریعت غم حسین سے ہے ***** کھڑی یہ دیں کی عمارت غم حسین سے ہے

عزا سے واسطہ ہی کیا ہے شرک و بدعت کا ***** یہ دین اپنا سلامت غم حسین سے ہے

عزائے سید الشہدائ بھی اک عبادت ہے ***** عبادتوں کی حفاظت غم حسین سے ہے

جہاں میں غم تو سبھی کے منائے جاتے ہیں ***** نہ جانے کون سی آفت غم حسین سے ہے

نماز و روزہ وحج و زکات وخمس وجہاد ***** عبادتوں کی حفاظت غم حسین سے ہے

حسینیت سے ہی زندہ ہے حق اب تک ***** یزیدیت پہ قیامت غم حسین سے ہے

پہونچ نہ پائے گا جنّت میں وہ کبھی اختر***** کہ جس کسی کو عداوت غم حسین سے ہے( ۳ )

٢۔ سنّت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ا ورتابعین مرنے والوں اورشہداء و... پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات پر اپنے منہ اور سینہ پر پیٹا( ۴ ) ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و... کی موت پر گریہ کیا، جس کے چند نمونے یہاں پر ذکرکررہے ہیں:

١) حضرت عبد المطلب پر گریہ :

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جدّ بزرگوار حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے فراق میں گریہ کیا ۔حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

أنا رأیت رسول الله یمشی تحت سریره وهویبکی ( ۵ )

میں نے رسول اللہ (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کو دیکھا وہ ان کے جنازے کے ہمراہ روتے ہوئے چل رہے تھے ۔

٢) حضرت ابو طالب پر گریہ :

حامی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مومن آل قریش ،سردار عرب حضرت ابوطالب کی وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سخت ناگوار گذری اس لئے کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے علاوہ بھی ہر مقام پر ان کی مدد و نصرت کی جس سے دین اسلام کا بول بالا ہو ااور مشرکین مکّہ کو ان کی زندگی میں یہ جرأت نہ ہوسکی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقصان پہنچا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایسے شفیق چچا کی وفات کی خبر ملی تو حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:

اذهب فاغسله و کفّنه وواره غفرالله له ورحمه ( ۶ )

جاؤ انہیں غسل و کفن دو اور ان کے دفن کا اہتمام کرو ،خداان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے ۔

٣) حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ :

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کیلئے ابواء کے مقام پر پہنچے جیسے ہی ماں کی قبر کے پاس گئے اس قدر روئے کہ ساتھیوں نے بھی گریہ کرنا شروع کردیا( ۷ ) ۔

٤) اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ :

خدا وند متعال نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جس کا نام ابراہیم رکھا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے شدید محبت کرتے لیکن ایک سال کی عمر میں اس کی وفات ہوگئی جس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو انتہائی صدمہ پہنچا اور اس کے فراق میں گریہ کرنا شروع کیا تو صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا:تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الربّ ( ۸ )

آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خد ا وند متعال کی ناراضگی کا باعث بنے ۔

٥) حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ :

حضرت فاطمہ بنت اسد ،حضرت علی علیہ السّلام کی ماں اور حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاں بہت مقام رکھتی تھیں یہاں تک کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے جب تیسری ہجری میں ان کی وفات ہوئی توآپ سخت اندوہناک ہوئے اور گریہ کیا ۔مؤرخین لکھتے ہیں :

صلّی علیها وتمرغ فی قبرها وبکٰی ( ۹ )

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان پر نماز پڑھی، ان کی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا.

٦)حضرت حمزہ پر گریہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبہت صدمہ ہو ا اور ان پر گریہ کیا ۔سیرہ حلبیہ میں لکھا ہے :

لمّا رأی النبّی حمزة قتیلا بکٰی ، فلمّا رأی مامثّل به شهق ( ۱۰ )

جب پیغمبر (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کو حضرت حمزہ شہید دیکھا تو ان پر گریہ کیا اور جب ان کے بدن کے اعضاء کو کٹا ہوا دیکھا تو دھاڑیں مار کر روئے ۔

امام احمدبن حنبل نقل کرتے ہیں:

جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے شوہروں پر گریہ کرنے والی انصار کی عورتوں سے فرمایا:

ولکن حمزة لا بواکی له

لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔

روای کہتاہے : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تھوڑی دیر آرام کے بعد دیکھا توعورتیں حضرت حمزہ پر گریہ کررہی تھیں۔

ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں( ۱۱ ) ۔

٧) اپنے نواسے پر گریہ :

اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی(منہ بولی ) بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ کہہ کررہے تھے( ۱۲ ) ۔

٨)حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض صحابہ کرام کا اس دنیا سے جانا بھی آپ پر سخت ناگوار گذرا اور آپ سے صبر نہ ہوسکا ،انہیں اصحاب باوفا میں سے ایک عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیںان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :

انّ النبّی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبّل عثمان بن مظعون وهو میّت وهویبکی ( ۱۳ )

حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

یا عمر دعهن فان العین دامعة والنفس مصابة والعهد قریب ( ۱۴ )

اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔

٣۔ صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت

صحابہ کرام اور تابعین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر گریہ کیا کرتے تھے ۔جس کے عملی نمونے بیا ن کر رہے ہیں:

١) حضرت علی علیہ السّلام :

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب امیر المومنین کو مالک اشتر کی شہا دت کی خبر ملی تو گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

علی مثله فلتبک البواکی ( ۱۵ )

گریہ کرنے والوں کیلئے شائستہ یہ ہے کہ اس جیسے پر آنسوبہائیں۔

٢) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا :

عباد کہتے ہیں : حضرت عائشہ فرمایا کرتیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت میں نے ان کا سر تکیے پر رکھاوقمت التدم)اضرب صدری(مع النساء واضرب وجهی ( ۱۶ ) اور دوسری عورتوں کے ہمراہ سینے اور منہ پر پیٹا۔

٣) حضرت عمر:

عن أبی عثمان:أتیت عمر بنعی النعمان بن مقرن، فجعل یده علی رأسه و جعل یبکی ( ۱۷ )

ابوعثمان کہتے ہیں : جب میں نے حضرت عمر کو نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر دی تو انہوں نے اپنے سر پرہاتھ رکھااور گریہ کیا ۔

جب محمد بن یحییٰ ذہلی نیشاپوری نے احمد ابن حنبل کی وفات کی خبر سنی توکہا : مناسب ہے کہ تما م اہل بغداد اپنے اپنے گھروں میں نوحہ خوانی کی مجالس برپا کریں ۔

٤)عبداللہ بن رواحہ :

عبد اللہ بن رواحہ نے جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو ان کی شان میں اشعار پڑھتے ہوئے گریہ کیا( ۱۸ ) ۔

٥)عبداللہ بن مسعود :

نقل کیا گیا ہے کہ جب حضرت عمر کی وفات ہوئی تو ابن مسعودنے ان پر گریہ کیا :

فوقف ابن مسعود علی قبره یبکی ( ۱۹ )

ابن مسعودنے ان کی قبر پر کھڑے ہوکر گریہ کیا۔

٦)امام شافعی :

اہل سنّت کے امام ،شافعی امام حسین علیہ السّلام کی شان میں نوحہ پڑھتے ہوئے کہتے ہیں :

تاوب عنّی والفؤاد کئیب

وأرقّ عینی فالرقاد غریب

وممّا نفٰی جسمی وشیّب لُمّتی

تصاریف ایّام لهنّ خطوب

فمن مبلغ عنّی حسین رسالة

وان کرهتها أنفس وقلوب

قتیلا بلا جرم کأنّ قمیصه

صبیغ بماء الأرجون خضیب

فللسّیف اعوال وللرّمح رنّة

وللخیل من بعدالصّهیل نحیب

تزلزلت الدّنیا لآل محمد

وکاد لهم صمّ الجبال تذوب

وغارت نجوم واقشعرّت کوکب

وهتّک أستار وشقّ جیوب

یُصلّی علی المبعوث من آل هاشم

ویُعزی بنوه انّ ذا لعجیب

لئن کان ذنبی حبّ آل محمّد

فذلک ذنب لست منه أتوب

هم شفعائی یوم حشری وموقفی

اذا ما بدت للناظرین خطوب( ۲۰ )

گلی کوچوں میں عزاداری

گلی کوچوں او رسڑکوں پر عزاداری اور نوحہ خوانی ان امورمیں سے ہے جو صدر اسلام سے لے کر آج تک شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان رائج ہیںاور بڑے بڑے علمائے اہل سنّت اسے انجام دیتے چلے آئے

ہیں ۔جب تک اسلام کی سربلندی وسرفرازی کا کلمہ پڑھنے والے موجود ہیں تب تک امام حسین کے پیغام کو اسی عزاداری کے ذریعے دنیا والوں تک پہنچاتے رہیں گے ۔یہ وہ غم ہے جس کی حفاظت وپاسداری خود خدانے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ورنہ بنو امیہ اور بنو عباس نے اس غم کو مٹانے کے لئے کون سی کوشش نہ کی لیکن اس غم ، مجلس وماتم اوراس عزاداری مظلو م کربلا کونہ مٹاسکے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چاہنے والے بھی آج تک اسی ماتم وعزاداری کی صورت میں نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت اور یزید سے بیزاری کا اعلان کر تے چلے آرہے ہیں۔

یا حسین بن علی ماتم تیرا ہم کرتے رہیں گے

دم تیرا ہم اللہ کی قسم بھرتے رہیں گے

لاکھ چھپے پردوں میں تو اے روح یزیدی

لعنت تیری تصویر پہ ہم کرتے رہیں گے

آج بھی عزادار ی کی مخالفت کرنے والے خود حکومت اور حکمرانوں کے خلاف سڑکوںاورروڈوں پر جلوس نکالتے رہتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ جب نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مظلومیت اور یزید کے ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عاشقان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سڑکوں پر نکلتے ہیں تو انہی لوگوں کے اندر بغض رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل رسول ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور فوراان جلوسوں کا راستہ روکنے پر تیار ہوجاتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جلوس ان کے عقیدہ کی نفی کررہے ہیں لہذا جیسے کیسے ہو ان کا راستہ روکا جائے ورنہ کون سا ایسا دن ہے جس میں دنیا کے گوش وکنار میں ظلم کے خلاف احتجاج نہ ہوا ہو، لیکن وہاں نہ تو راستہ روکا جاتا ہے اور نہ بدعت کا فتوٰی لگایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم علمائے اہل سنّت کے ماتم کے چند ایک نمونے پیش کر رہے تا کہ جو لوگ حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں ان پر اتمام حجت ہو جائے ۔

١۔طبری :

انہوں نے اپنی کتاب تاریخ الطبری میں لکھا ہے :

فلم أسمع والله واعیة مثل واعیة نساء بنی هاشم فی دورهنّ علی الحسین ( ۲۱ )

خدا کی قسم ! میں نے بنو ہاشم کی خواتین کے حسین پر گریہ و فریاد کے مانند کوئی گریہ نہیں سنا.

٢۔ نسفی :

وہ کہتے ہیں : میںاہل سنت کے حافظ بزرگ ابو یعلی عبدالمومن بن خلف (ت ٣٤٦ھ) کے جنازے میں شریک تھا کہ اچانک چار سو طبلوںکی آواز گونجنے لگی( ۲۲ ) ۔

٣۔ذہبی:

اہل سنّت کے بہت بڑے عالم دین اور علم رجال کے ماہر ذہبی کہتے ہیں : جوینی نے ٢٥ ربیع الثانی ٤٧٨ھ میں وفات پائی ۔ لوگ اسکے منبر کوتوڑ کر تبرک کے طور پر لے گئے ، اس کے سوگ میں دکانوں کو بند کردیا اور مرثیے پڑھے ۔ اس کے چار سو شاگرد تھے جنہوں نے اس کے فراق میں قلم ودوات توڑ ڈالے اور ا س کے لئے عزا برپا کی ۔ انہوں نے ایک سال کے لئے عمامے اتار دیئے اور کسی کی جرأت نہ تھی کہ سر کوڈھانپے ۔ طلاب شہر میں پھرتے ہوئے نوحہ وفریاد اور گریہ وزاری میں مشغول رہتے( ۲۳ ) ۔

٤۔سبط بن جوزی :

ابن کثیر (البدایة والنہایة ) میں لکھتے ہیں ؛

ملک ناصر (حاکم حلب) کے زمانے میں یہ درخواست کی گئی کہ روز عاشوراء کربلا کے مصائب بیان کئے جائیں ۔ سبط بن جوزی منبر پر گئے ، کافی دیر سکوت کے بعد عمامہ سر سے اتارا اورشدید گریہ کیا۔ اور پھر یہ اشعار پڑھے :

ویل لمن شفعائه خصمائه

والصور فی نشر الخلائق ینفخ

لا بد ان ترد القیامة فاطم

وقمیصها بدم الحسین ملطخ

افسوس ہے ان پر جن کی شفاعت کرنے والے جب میدان محشر میں صور پھونکاجائیگا تو ان کے دشمن ہونگے ۔ اورفاطمہ روز قیامت ضروراپنے فرزند حسین کے خون میں لتھڑی ہوئی قمیص لے کر میدان محشر میں وارد ہونگی۔

یہ کہہ کرمنبر سے اترے اور اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے( ۲۴ ) ۔

٥۔عمر بن عبدلعزیز :

خالد ربعی عمر بن عبدالعزیز کی عزاداری کے بارے میں کہتاہے :

تورات میں بیان ہوا ہے کہ عمربن عبد العزیز کی موت پر چالیس دن تک زمین وآسمان گریہ کریں گے( ۲۵ ) .

واضح روایات او رتاریخی شواہد کی روشنی میں مجالس ، ماتم وسوگواری ، نوحہ خوانی ، گریہ وعزاداری ، عزیزوں کے فراق میں بے تابی ، منہ اور سینے پر پیٹنا ، دکانوں کا بند رکھنا او رغم مناتے ہوئے سڑکوں پر نکلنا طول تاریخ مسلمین میں رائج رہا ہے اور علماء نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔