٢۔ سنّت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ا ورتابعین مرنے والوں اورشہداء و... پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی وفات پر اپنے منہ اور سینہ پر پیٹا
۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و... کی موت پر گریہ کیا، جس کے چند نمونے یہاں پر ذکرکررہے ہیں:
١) حضرت عبد المطلب پر گریہ :
جب آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جدّ بزرگوار حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی تو آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان کے فراق میں گریہ کیا ۔حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
أنا رأیت رسول الله یمشی تحت سریره وهویبکی
میں نے رسول اللہ (صلىاللهعليهوآلهوسلم
) کو دیکھا وہ ان کے جنازے کے ہمراہ روتے ہوئے چل رہے تھے ۔
٢) حضرت ابو طالب پر گریہ :
حامی پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
، مومن آل قریش ،سردار عرب حضرت ابوطالب کی وفات پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر سخت ناگوار گذری اس لئے کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی پرورش کے علاوہ بھی ہر مقام پر ان کی مدد و نصرت کی جس سے دین اسلام کا بول بالا ہو ااور مشرکین مکّہ کو ان کی زندگی میں یہ جرأت نہ ہوسکی کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو نقصان پہنچا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایسے شفیق چچا کی وفات کی خبر ملی تو حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:
اذهب فاغسله و کفّنه وواره غفرالله له ورحمه
جاؤ انہیں غسل و کفن دو اور ان کے دفن کا اہتمام کرو ،خداان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے ۔
٣) حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ :
مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسالت مآبصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کیلئے ابواء کے مقام پر پہنچے جیسے ہی ماں کی قبر کے پاس گئے اس قدر روئے کہ ساتھیوں نے بھی گریہ کرنا شروع کردیا
۔
٤) اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ :
خدا وند متعال نے رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جس کا نام ابراہیم رکھا ۔آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس سے شدید محبت کرتے لیکن ایک سال کی عمر میں اس کی وفات ہوگئی جس سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو انتہائی صدمہ پہنچا اور اس کے فراق میں گریہ کرنا شروع کیا تو صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا:تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الربّ
آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خد ا وند متعال کی ناراضگی کا باعث بنے ۔
٥) حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ :
حضرت فاطمہ بنت اسد ،حضرت علی علیہ السّلام کی ماں اور حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ ،رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ہاں بہت مقام رکھتی تھیں یہاں تک کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے جب تیسری ہجری میں ان کی وفات ہوئی توآپ سخت اندوہناک ہوئے اور گریہ کیا ۔مؤرخین لکھتے ہیں :
صلّی علیها وتمرغ فی قبرها وبکٰی
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان پر نماز پڑھی، ان کی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا.
٦)حضرت حمزہ پر گریہ :
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے جس سے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کوبہت صدمہ ہو ا اور ان پر گریہ کیا ۔سیرہ حلبیہ میں لکھا ہے :
لمّا رأی النبّی حمزة قتیلا بکٰی ، فلمّا رأی مامثّل به شهق
جب پیغمبر (صلىاللهعليهوآلهوسلم
) کو حضرت حمزہ شہید دیکھا تو ان پر گریہ کیا اور جب ان کے بدن کے اعضاء کو کٹا ہوا دیکھا تو دھاڑیں مار کر روئے ۔
امام احمدبن حنبل نقل کرتے ہیں:
جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے شوہروں پر گریہ کرنے والی انصار کی عورتوں سے فرمایا:
ولکن حمزة لا بواکی له
لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔
روای کہتاہے : پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے تھوڑی دیر آرام کے بعد دیکھا توعورتیں حضرت حمزہ پر گریہ کررہی تھیں۔
ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں
۔
٧) اپنے نواسے پر گریہ :
اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی(منہ بولی ) بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ کہہ کررہے تھے
۔
٨)حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ :
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعض صحابہ کرام کا اس دنیا سے جانا بھی آپ پر سخت ناگوار گذرا اور آپ سے صبر نہ ہوسکا ،انہیں اصحاب باوفا میں سے ایک عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیںان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :
انّ النبّی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
قبّل عثمان بن مظعون وهو میّت وهویبکی
حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛
ایک دن رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:
یا عمر دعهن فان العین دامعة والنفس مصابة والعهد قریب
اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔