گریہ و ماتم سے منع کرنے والی روایات
جو لوگ مردوں پر رونے کو حرام سمجھتے ہیں وہ اس حکم پر چند دلیلیں پیش کرتے ہیں :
پہلی دلیل:
وہ احادیث جو حضرت عمر، عبداللہ بن عمر او ردیگر سے نقل ہوئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے ۔
المیّت یعذّب فی قبره بما نیح علیه
یایہ حدیث :انّ المیّت یعذب ببکاء اهله علیه
عزیزواقربا کے گریہ کی وجہ سے مردے پر عذاب نازل ہوتاہے ۔
اسی طرح سعید بن مسیّب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنے باپ کی وفات پر مجلس عزاکا پروگرام رکھا تو حضرت عمر نے ا س سے روکا،لیکن حضرت عائشہ نے ان کی بات نہ مانی، جس پر حضرت عمر نے ہشام بن ولید کو بھیجا کہ وہ انہیں زبردستی اس کا م سے روکے ۔جب عورتوں کو اس کی خبر ملی تو مجلس کو چھوڑ کر چلی گئیں ،اس وقت حضرت عمر نے ان سے کہا :
تردن أن یعذب ابوبکر ببکائکنّ! انّ المیّت یعذب ببکاء أهله علیه
کیا تم اپنے گریے کی وجہ سے ابوبکر پر عذاب لانا چاہتی ہو ! بے شک میت کو اس کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے نقل کرتے وقت اشتباہ کیا ہے یا بطور کلی روایت کے متن کو بھول بیٹھا ہے ۔
ابن عباس کہتے ہیں :حضرت عمر کی وفات کے بعد جب یہ حدیث عائشہ کے سامنے پیش کی گئی توفرمایا: خداکی رحمت ہو عمر پر ، خدا کی قسم ! رسولخدا اصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:
ان الله لیزیدالکافر عذابا ببکاء اهله
بیشک خداوند متعال کافر کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے اس پر عذاب بڑھادیتاہے ۔
اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں :ولاتزر وازرة وزر اخری
ترجمہ:اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
عبدا للہ بن عمر بھی وہاں پر موجود تھے انہوں نے حضرت عائشہ کے جواب میں کچھ نہ کہا
۔
ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب عبد اللہ بن عمر کی یہ روایت حضرت عائشہ کے سامنے نقل کی گئی توفرمایا: خداوند متعال عبد اللہ بن عمر کو بخش دے ۔ اس نے جھوٹ نہیں کہا ۔بلکہ یا توبھول بیٹھا ہے یا نقل کرنے میں اشتباہ کیاہے ۔
جب رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
ایک یہود ی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا اس کے رشتہ دار اس پر رورہے ہیں توفرمایا:
انهم لیبکون علیها وانها لتعذب فی قبرها
وہ اس پر رورہے ہیں جبکہ قبر میں اس پر عذاب ہورہاہے ۔
ان روایات کی توجیہ
علمائے اہل سنت نے اس بارے میں ان روایات کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ان احادیث کا معنی یہ ہے کہ وہ گریہ کے ہمراہ ایسی صفات وخصوصیات کا ذکر کرتے کہ جو شریعت مقدّسہ میں حرام ہیں ۔ مثال کے طورپر کہا کرتے : اے گھروں کو ویران کرنے والے! اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے ...۔
ابن جریر ، قاضی عیاض اور دیگر نے ان روایات کی توجیہ میں کہا ہے کہ : رشتہ داروں کاگریہ سننے سے میت کا دل جلتاہے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے ۔
مزید ایک توجیہ حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے جو انہوں نے اس حدیث کے معنی میں بیان فرمائی ہے کہ جب رشتہ دار گریہ کرتے ہیں تو کافر یا غیر کافر پر اس کے اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتاہے نہ کہ عز یزوں کے گریہ کی وجہ سے
۔
علامہ مجلسی اس بارے میں فرماتے ہیں :
اس حدیث میں حرف (باء ) مع کے معنی میں ہے یعنی جب میت کے رشتہ دار اس پر گریہ کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوتاہے
۔
دوسری دلیل :
میت پر گریہ کرنے کی حرمت پر دوسری دلیل وہ روایت ہے جو متقی ہندی نے حضرت عائشہ سے نقل کی ہے کہ انہوںنے فرمایا :
جب پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو جعفر بن ابی طالب ، زید بن حارثہ او رعبد اللہ رواحہ کی شہادت کی خبر ملی تو چہر ہ مبارک پرغم واندوہ کے آثار طاری ہوئے ۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی اچانک ایک شخص آیا او رعرض کیا: یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
! عورتیں جعفر پر گریہ کر رہی ہیں ۔
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :
فارجع الیهن فاسکتهن ، فان أبین فاحث فی وجوههن )افواههن ( التراب
ان کے پاس جاؤ او رانہیں خاموش کراؤ۔ پس اگر وہ انکار کریں تو ان کے منہ پر خاک پھینکو۔
اس روایت کا جواب
یہ روایت چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے ۔
١۔ خودرسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
مرنے والوں اور شہداء پر گریہ کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے جیسا کہ حضرت حمزہ اورجعفر و... پر گریہ کرنے کا حکم دیا ،اور پھر جب حضرت عمر نے عورتوں کو گریہ کرنے سے منع کیا تو فرمایا : انہیں چھوڑ دو، آنکھیں گریہ کناں ہیں اور...
۔
٢ ۔ اس حدیث کے روایوں میں سے ایک محمدبن اسحاق بن یسار ہے ۔ جس کے بارے میں علمائے رجال میںاختلاف پایا جاتا ہے ۔ ابن نمیر کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور باطل احادیث کو نقل کرتاہے ۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں : ابن اسحاق احادیث میں تدلیس کیا کرتا اور ضعیف احادیث کو قوی ظاہر کرتا
.
تیسری دلیل :
مُردوںپر گریہ کے حرام ہونے پر تیسری دلیل حضرت عمر کا عمل ہے ۔ نصر بن ابی عاصم کہتے ہیں : ایک رات حضرت عمر نے مدینے میں عورتوں کے گریے کی صدا سنی تو ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک عورت کو تازیانے مارے ، یہاں تک کہ اس کے سرکے بال کھل گئے ۔ لوگوں نے کہا : اس کے بال ظاہر ہوگئے ہیں تو جواب میں کہا :
أجل ،لاحرمة لها
.
اس عورت کا کوئی احترام نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا خلیفہ کا عمل کسی مسلمان کے لئے حجت ہے۔ امام غزالی صحابہ کے عمل کے حجت ہونے کے بارے میں بیان کئے جانے نظریات کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الأصل الثانی من الأصول الموهونة :قول الصحابی ،وقد ذهب قوم الی أنّ مذهب الصحابی حجة مطلقا ، وقوم الی أنّه الحجة ان خالف القیاس ، وقوم الی أن الحجة فی قو ل أبی بکر وعمر خاصة لقوله اقتدوا باللذین بعدی ،وقوم الی أنّ الحجة فی قول الخلفاء الراشدین اذااتفقواوالکلّ باطل عندنا ،فانّ من یجوز علیه الغلط والسّهو ،ولم تثبت عصمة عنه فلا حجة فی قوله ،فکیف یحتجّ بقولهم مع جواز الخطائ
.
یہ سب اقوال باطل ہیں ۔ چونکہ جو شخص عصمت نہیں رکھتااو راس کے عمداً یا سہواً اشتباہ کرنے کا احتمال موجود ہو تواس کا قول حجت نہیں ہوسکتا،پس خطاکے جائز ہوتے ہوئے اس کے قول سے کیسے احتجاج کیا جا سکتا ہے ۔
اور پھر کتب اہل سنّت میں ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں خلیفہ کی رائے سنت وفعل رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سراسر مخالف دکھائی دیتی ہے ان میں سے ایک روایت یہ بھی ہے جسے امام احمد بن حنبل نے نقل کیا کہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت عمر سے فرمایا : اے عمر! ان عورتوں کو چھوڑ دو
۔
اور اسی طرح حضرت عائشہ کا یہ قول کہ فرمایا:
خدا رحمت کرے عمر پر یا تو فراموش کربیٹھا ہے یااس سے نقل کرنے میں اشتباہ ہواہے
۔ ()
ابن ابی ملیکہ نے ایک داستان نقل کی ہے جومُردوں پر ماتم کرنے کی حرمت کو بیان کرنے والی ان روایات کے جعلی ہونے کی تائید کررہی ہے وہ کہتے ہیں:
حضرت عثمان کی ایک بیٹی کی وفات ہوئی تو ہم عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس کے ہمراہ اس کے تشییع جنازہ میں شریک ہوئے ۔میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابن عمر نے رونے والوں پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت عثمان کے بیٹے سے کہا : انہیں روکتے کیوں نہیں ہو ؟ میں نے رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سنا ہے کہ فرمایا:
مُردے پر اس کے عزیز واقارب کے گریہ کرنے کی وجہ سے عذاب نازل ہوتا ہے ۔
اس وقت ابن عباس نے ابن عمر کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا: یہ عمر کا قول ہے اس لئے کہ جب حضرت عمر زخم کی شدت کی وجہ سے بستر پرموجود تھے تو صہیب ان کے پاس آئے اور گریہ وفریاد کرنا شروع کی تو عمر اس کے اس عمل سے ناراض ہو ئے اور کہا: کیا مجھ پر گریہ کر رہے ہو جبکہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایاہے : مردے کو اس کے اقارب کے گریے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
انہوں نے اس کے بعدفرمایا: میں نے ان (عمر ) کی وفات کے بعد ان کی یہ بات حضرت عائشہ کے سامنے پیش کی تو انہوں نے یوں فرمایا:
رحم الله عمر، والله ما حدث رسول الله ،لیعذب ...ولکن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله لیزید الکافر ببکاء أهله علیه
خدا عمر پر رحمت کرے ! پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہر گز ایسی بات نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے تو یوں فرمایا: خداوند متعال کافر کے عزیزوں کے گریے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے ۔
اور پھر (حضرت عائشہ نے یہ حکم خدابیان ) فرمایا:
حسبکم کتاب الله ولاتزر وازرة وزرأخرٰی
ترجمہ: اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گنا ہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ جملہ فرمایا: خداہی ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے ۔
راوی کہتا ہے :جب عبداللہ بن عباس نے اپنی گفتگو ختم کرلی تو اس کے بعد ابن عمر خاموش رہے اور کوئی بات نہ کہی
۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے سامنے عبداللہ بن عمر کا یہی قول نقل کیا گیا کہ وہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اس طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: میت کو عزیزو اقارب کے گریہ کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو حضرت عائشہ نے فرمایا:
ذهل ابن عمر ! انّما قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انّه لیعذب بخطیئته وذنبه وانّ أهله لیبکون علیه الآن
.
ابن عمر فراموش کر بیٹھا ہے جبکہ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے یوں فرمایاہے : مردے پر اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب نازل ہورہا ہوتا ہے جبکہ اس کے رشتہ دار اس وقت اس پرگریہ کر رہے ہوتے ہیں ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت عائشہ نے فرمایا:
انّکم لتحدّثون عن غیرکاذبین ولامکذوبین ولکن السّمع یخطی
.
عمراو ر ابن عمر نے جان بوجھ کر پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دی ہے بلکہ سننے میں اشتباہ کر بیٹھے ہیں۔
نتیجہ
جوکچھ بیان کیا گیاہے یہ ان ادلہ کا خلاصہ ہے جو وہابیوں کے اس ادّعا کو رد کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیںکہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مرنے والوں پر گریہ کرنے سے منع فرمایاہے۔جبکہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بالکل واضح طور پر ثابت ہے کہ پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہر گز میّت پر گریہ کرنے اور مجالس عزا برپا کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ وہ بعض روایات جو کتب اہل سنّت میں اس کی نفی کررہی ہیںیا تو ان کی سند ضعیف ہے جیساکہ ذکر کر چکے یا پھر راوی نے اسے بیان کرنے میں اشتباہ کیا ۔اس لئے کہ ایسی روایات حکم قرآن ،سیرت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے مخالف ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان روایات کی نفی فرمائی ہے جس سے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ یا تو ان روایات کی ابتدا ہی سے کوئی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایاکہ یہ روایات خلیفہ کا اپنا قول ہے نہ کہ حدیث پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
.(شرح صحیح مسلم ،نووی ٥:٣٠٨.) اور یہ بھی ان بعض جعلی روایات کی طرح ہیں جو اہل سنت کی معتبر کتب میں بیان ہوئی ہیں جنہیں کوئی بھی مسلمان قبول کرنے کو تیا ر نہیں یہاں تک کہ خود اہل سنّت بھی ،یا پھر راوی نے بیان کرتے وقت توجہ نہ کی اور یہ روایات کافر پر عذاب کو بیان کر رہی ہیںجیسا کہ زوجہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس کی توجیہ فرمائی ۔ اورہم اسی مقدار پر اکتفا کرتے ہیں اس لئے کہ جو لوگ حق و انصاف کی پیروی کرنے والے ہیں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔وما علینا الاّ البلاغ