باب دُوُم
تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ
یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی اور بالخصوص اُس کی آخری چند دہائیوں میں حاصل کی ہیں قرآنِ مجید اُنہیں آج سے۱,۴۰۰سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے قرآنی اُصولوں میں سے ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ اِبتدائے خلق کے وقت کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی کی صورت میں موجود تھا، جسے بعد ازاں پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اِس سے کائنات میں توسیع کا عمل شروع ہوا جو ہنوز مسلسل جاری و ساری ہے۔
قرآنِ مجید اِس حقیقت کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے:
(
أَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقاً فَفَتَقنَاهُمَا
)
۔ (الانبیاء،۲۱:۳۰)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی ( singularity ) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ "رَتق" اور "فَتق" خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ’رَتق‘ کے معنی کسی شے کو ہم جنس مواد پیدا کرنے کے لئے ملانے اور باندھنے کے ہیں۔ ’فَتق‘ متضاد ہے ’رَتق‘ کا، جس کا معنی توڑنے، جدا کرنے اور الگ الگ کرنے کا عمل ہے۔ قرآنِ مجید نے آج سے ۱۴ صدیاں قبل تخلیقِ کائنات کی یہ حقیقت عرب کے ایک جاہل معاشرے میں بیان کر دی تھی اور لوگوں کو یہ دعوتِ فکر دی تھی کہ وہ اِس حقیقت کے بارے میں سوچیں۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد بیسویں صدی کے وسط میں جدید علمِ تخلیقیات ( cosmology )، علمِ فلکیات ( astronomy ) اور علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) کے ماہرین نے بالکل وُہی نظریہ منظرِ عام پر پیش کیا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک ’صفر درجہ جسامت کی اِکائیت‘ سے ہوئی۔ ’عظیم دھماکے کا نظریہ‘ ( Big Bang Theory ) اسی کی معقول تشریح و توضیح ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنسی معاشرے کی نشو و نما کی تمام تاریخ حقیقت تک رسائی کی ایسی مرحلہ وار جستجو پر مشتمل ہے جس میں حوادثِ عالم خود بخود انجام نہیں پاتے بلکہ ایک ایسے حقیقی اَمر کی عکاسی کرتے ہیں جو یکے بعد دیگرے امرِ ربّانی سے تخلیق پاتا اور متحرک رہتا ہے۔
تاریخِ علومِ اِنسانی میں تخلیق و وُجودِ کائنات سے متعلق بے شمار نظریات پائے جاتے ہیں، جو اُس کے آغاز کی مختلف اِبتدائی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام نظریات ’لا محدُود کثافت‘ ( infinite density ) اور ’صفر درجہ جسامت کی اِکائی‘ ( zero volume singularity ) کی اِبتدائی حالت کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، مثلاً:
۱ فرائیڈمین کا خاکہ ( Friedmann Model )
۲ عظیم دھماکے کا خاکہ ( Big Bang Model )
۳ ایڈوِن ہبل کا خاکہ ( Edwin Hubble's Model )
۴ پنزیاس اور وِلسن کا خاکہ ( Penzias / Wilson's Model )
۵ نئے پھیلاؤ کا خاکہ ( New Inflationary Model )
۶ بدنظم پھیلاؤ کا خاکہ ( Chaotic Inflationary Model )
یا
اِکائیت کی تحویل کا خاکہ ( Singularity Theorem Model )
عظیم دھماکے کا نظریہ ( Big Bang theory )
کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت اُس کا تمام مادّہ ایک اِکائی ( minute cosmic egg ) کی صورت میں موجود تھا، پھر ﷲ ربّ العزت نے اُس اِکائی کو پھوڑا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائناتِ پست و بالا کو وُجود ملا۔ قرآنِ مجید کے ’نظریۂ تخلیقِ کائنات‘ کے مطالعہ سے پہلے ہم کائنات کی تخلیق سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے اِرتقاء کی طویل جدوجہد کا مختصر ذِکر ضروری سمجھیں گے تاکہ قارئین کو اِسلامی اِعتقادات کی حقّانیت کو سمجھنے میں آسانی ہو:
ز ۱۶۸۷ء میں مشہور و معروف برطانوی سائنسدان ’آئزک نیوٹن‘ ( Isaac Newton ) نے تجاذُب کا کائناتی تصوّر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کائنات جامد اور غیر مُتغیّر ہے۔ یہ بات بیسویں صدی تک ایک مصدقہ حقیقت کے رُوپ میں تسلیم کی جاتی رہی۔
۱۹۱۵ء میں ’البرٹ آئن سٹائن‘ ( Albert Einstein ) نے ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) پیش کیا۔ اُس نظریئے میں اُس نے مادّے، توانائی، کشش، مکان اور زمان میں باہمی نسبت کی وضاحت کی۔ اُس نے ’نیوٹن‘ کا جمودِ کائنات کا تصوّر تو کسی حد تک ردّ کر دیا لیکن وہ خود کائنات کی اصلیت کے بارے میں کوئی نیا نظریہ دینے سے قاصر رہا کیونکہ نیوٹن کے نظریات کو اُس وقت تک دُنیا بھر میں غیر متبدّل سمجھا جا رہا تھا۔
۱۹۲۹ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ ( Edwin Hubble ) نے پہلی بار یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات جامد اور غیر متغیر نہیں ہے، بلکہ حرکت پذیر ہونے کے علاوہ شاید وہ مسلسل وسیع بھی ہو رہی ہے۔ اُس کی تحقیق نے ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ ( Big Bang Theory )کو جنم دیا۔ عظیم دھماکے کے نظریئے کو اِبتدائی طور پر ’مارٹن ریلے‘ ( Martin Ryle ) اور ’ایلن آر سنڈیج‘ ( Allan R. Sandage ) نے پروان چڑھایا۔
۱۹۶۵ء میں دو امریکی سائنسدانوں ’آرنوپنزیاس‘ ( Arno Penzias ) اور ’رابرٹ وِلسن‘ ( Robert Wilson ) نے اپنے معمول کے تجربات کے دوران اِتفاقاً ’کائناتی پس منظر کی شعاع ریزی‘ ( cosmic background radiation ) دریافت کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ مادّی کائنات کا آغاز ایک اِکائی سے ہوا تھا۔ اُس اِکائی کو اُنہوں نے ’مختصر ترین کائناتی انڈے‘ ( minute cosmic egg ) کے نام سے موسوم کیا، جو اپنے اندر بے پناہ توانائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ اچانک پھٹا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائنات کا مختلفُ الاقسام مادّہ تخلیق پایا اور اُسی سے بعد اَزاں مختلف کلسٹرز اور کہکشائیں تخلیق پائیں۔
چار ایسی بنیادی طاقتیں جو مختلف اَجرامِ فلکی کے اپنے اپنے کروں میں موجود ہوتی ہیں، وہ بھی اُس دھماکے کے ساتھ ہی معرضِ وُجود میں آ گئیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں:
کششِ ثقل ( gravity )
برقی مقناطیسیت ( electromagnetism )
طاقتور نیوکلیائی طاقتیں ( strong nuclear forces )
کمزور نیوکلیائی طاقتیں ( weak nuclear forces )
موجودہ سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازوں کے مطابق اَب تک اِس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش ۱۵ارب سال گزر چکے ہیں۔ آج سے ۱۵ ارب سال پہلے پائی جانے والی اُس اِبتدائی کمیّتی اِکائی سے پہلے وہ کیا شے تھی جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق کی گئی؟ سائنس اِس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس مُعمّے کا حل قرآنِ مجید کے اِس فرمان پر اِیمان لانے سے ہی ممکن ہے:
(
إِذَا قَضٰی أَمراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَه کُن فَیَکُونُ
)
(مریم،۱۹:۳۵)
جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے: "ہو جا"، بس وہ ہو جاتا ہےقرآنی اِصطلاح "رَتق" کی سائنسی تفسیر ہمیں اِس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ بے پناہ توانائی نے کائنات کو اُس وقت ’اِبتدائی کمیتی اِکائی‘ کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ تصوّر حد تک کثیف اور گرم مقام تھا جسے ’اِکائیت‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اُس وقت کائنات کی کثافت اور خلائی وقت کا اِنحناء ( curvature ) دونوں لامحدُود تھے اور کائنات کی جسامت صفر تھی۔ اِکائیت کی اُس حالت اور صفر درجہ جسامت ( zero volume ) کی طرف قرآنِ مجید یوں اِشارہ کرتا ہے:
(
أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقاً
)
۔ الانبیاء،۲۱:۳۰)
جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی ( singularity ) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے۔
اِن الفاظ میں بگ بینگ سے پہلے کا ذِکر کیا گیا ہے۔ پھر اُس کے بعد پھُوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا، جسے کلامِ مجید نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے:
(
فَفَتَقنَاهُمَا
)
۔ الانبیاء،۲۱:۳۰)
پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
عظیم دھماکے ( Big Bang ) سے رُو پذیر ہونے والے عملِ اِنشقاق (پھٹنے کے عمل) کے آغاز کے ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے سوویں حصے ( hundredth part ) میں وہ ’اِکائیت‘ پھیل کر اِبتدائی آگ کا گولا ( primordial fireball ) بن گئی اور دھماکے کے فوری بعد اُس کا درجۂ حرارت ایک کھرب سے ایک کھرب ۸۰ارب سینٹی گریڈ کے درمیان جا پہنچا۔ تاہم عظیم دھماکے سے ایک منٹ بعد ہی کائنات کا درجۂ حرارت تیزی سے گرتے ہوئے دس گنا کم ہو کر ۱۰ارب سے ۱۸ارب سینٹی گریڈ کے درمیان آن پہنچا۔ یہ سورج کے مرکز کے موجودہ درجۂ حرارت سے تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ حرارت تھی۔ اُس وقت کائنات زیادہ تر فوٹان، اِلیکٹران، نیوٹریناس اور اُس کے مخالف ذرّات کے ساتھ ساتھ کسی حد تک پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل تھی۔
کائنات کے اُس اوّلین مرحلے کی تصویر کشی سب سے پہلے ’جارج گیمو‘ ( George Gamow ) نامی سائنسدان نے ۱۹۴۸ء میں تصنیف کردہ اپنی مشہور تحریر میں پیش کی۔ اُس نے کہا کہ ’عظیم دھماکے‘ ( Big Bang ) کے معاً بعد کائنات اِتنی شدید گرم تھی کہ ہر طرف ’نیوکلیائی حرارتی تعاملات‘ ( thermonuclear radiations ) شروع ہو سکیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِبتدائی کائنات زیادہ توانائی کے حامل خُورد موجی ( short-wave ) فوٹانز سے معمور تھی۔ اُس نے ایک قابلِ قدر پیشین گوئی کی کہ کائنات کی اِبتدائی بے حد گرم حالتوں میں فوٹانز کی صورت میں پائی جانے والی شعاع ریزی ( radiation ) کو اَب بھی اپنے نسبتاً کم درجۂ حرارت کے ساتھ جاری ہونا چاہیئے، جو مطلق صفر ( o -۲۷۳سینٹی گریڈ) سے محض چند درجے زیادہ ہو۔ اسی شعاع ریزی کو بعد اَزاں ۱۹۶۵ء میں ’آرنوپنزیاس‘ اور ’رابرٹ وِلسن‘ نے دریافت کیا۔ جوں جوں کائنات میں وُسعت کا عمل جاری ہے اُس کا درجۂ حرارت گِرتا چلا جا رہا ہے۔ فی الحال کائنات کا اَوسط درجۂ حرارت -۷۰ o سینٹی گریڈ تک کم ہو چکا ہے، جو مطلق صفر سے محض ۳ درجہ اُوپر ہے۔ مطلق صفر (یعنی -۲۷۳.۱۶۰) وہ درجۂ حرارت ہے جہاں مالیکیولز کی ہر طرح کی حرکت منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔
’جارج لویٹر‘ ( George Lawaitre ) نے ۱۹۳۱ء میں اِس بات کی طرف اِشارہ کیا کہ اگر تمام کہکشاؤں کے باہر کی سمت پھیلاؤ کا تعاقب کیا جائے اور اُس میں چھپے حقائق پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ وہ سب دوبارہ اُسی نقطے پر آن ملیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا ۔ مادّے کا وہ بڑا قطرہ جو اِبتدائی ایٹم ( primeval atom ) کے نام سے جانا جاتا ہے، یقیناً ماضی بعید میں طبیعی کائنات کے طور پر پایا جانے والا کائناتی انڈہ ( cosmic egg ) تھا۔ ’لویٹر‘ نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ مادّے کا وہ بڑا قطرہ کسی وجہ سے پھٹ گیا اور ایک بم کی طرح باہر کی طرف ہر سُو اُڑ نکلا۔ یہی کائنات کی اوّلین تخلیق قرار پائی۔ ’لویٹر‘ کا یہ خیال بعد اَزاں عظیم دھماکے کے نظریئے کی صورت میں متعارف ہوا۔ یہاں ایک چیز میں اِختلاف ہے کہ صفر درجہ جسامت کی اِکائیت پر مُشتمل وہ مادّہ کس طرح تقسیم ہوا، مادّے نے کس طرح بیرونی اَطراف میں سفر شروع کیا اور علیحدگی، اِنشقاق اور دھماکہ کس طرح شروع ہوا؟ ہم اِن تفصیلات میں جانے سے اِحتراز کریں گے۔
اصل حقیقت ہر صورت وُہی ہے کہ آج ہمیں نظر آنے والی کہکشائیں اُس اِکائی مادّے سے اِنشقاق شدہ اور علیحدہ شدہ ہیں، جس کا قرآنِ حکیم میں یوں ذِکر آتا ہے:
(
کَانَتَا رَتقاً فَفَتَقنَاهُمَا
)
۔ (الانبیاء،۲۱:۳۰)
(سب) ایک اِکائی ( singularity ) کی شکل میں جُڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
اِبتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ
جوں جوں بگ بینگ تھیوری کی صداقت ثابت ہو رہی ہے قرآنِ مجید کی حقانیّت بھی اَظہر من الشمس ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تخلیقِ کائنات کے زُمرے میں قرآنِ مجید ایک قدم مزید آگے بڑھاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ کائنات میں صفر درجہ جسامت کی اِکائیت سے اِنشقاق اور وُسعت پذیری کا عمل کس طرح شروع ہوا؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں ہے۔ مندرجہ ذیل دو آیاتِ مبارکہ اِس موضوع پر بڑی معنی خیز ہیں:
(
قُل أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ
)
O (الفلق،۱۱۳:۱،۲)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں O ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےہمارے موضوع کی مناسبت سے اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ "فَلَق" اور "خَلَق" بطورِ خاص قابلِ توجہ ہیں۔ لفظِ ’خَلَق‘ اپنے مفہوم کا مکمل آئینہ دار ہے اور واضح طور پر عملِ تخلیق کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی توجہ طلب ہے کہ لفظِ ’فَلَق‘ عملِ تخلیق کے ساتھ ایک گہرا اور قریبی تعلق رکھتا ہے۔ آیئے اب ہم پہلی آیتِ کریمہ میں وارِد ہونے والے لفظ ’فَلَق‘ کے معانی اور اہمیت کو سمجھیں۔
’ڈاکٹر ہلوک نور باقی‘ نے عربی گرامر کی رُو سے لفظِ "فَلَق" کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ تاہم اِس لفظ کا بنیادی معنی کسی چیز کا اچانک پھٹنا اور شدید دھماکہ کرنا ہے۔ یہ "فَلَقٌ" سے مشتق ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق اِس میں پھٹی ہوئی شے کا تصوّر بھی پایا جاتا ہے اور یہ وہ تصوّر ہے جو مذکورہ مظہر کو عیاں کرتا ہے۔ "فَلَق" ایک شدید دھماکے کا نتیجہ ہے، جو اپنے اندر اِنتہائی غیر معمولی رفتار کا تصوّر بھی رکھتا ہے۔ مِثال کے طور پر "تَفَلُّق" کا معنی حد درجہ رفتار کے ساتھ بھاگنا ہے۔
قرآنِ مجید صفاتِ باری تعالیٰ کے ذِکر میں فرماتا ہے:
(
فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی
)
۔ (الانعام،۶:۹۵)
دانے اور گُٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا۔
صَرفی پس منظر کی اِس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم "فَلَق" کے لُغوی معانی پر غور کرتے ہیں۔ لُغوی اِعتبار سے "فَلَق" کے معانی کو یوں ترتیب دیا جا سکتا ہے:
* ایک ایسی مخلوق جو عدم کے پھٹنے کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ ظاہر ہو۔
*بیج کے پھٹنے سے ظاہر ہونے والا پودا۔
٭ روزانہ کا وہ عمل جس کے معنی اِس تمثیل سے لئے گئے ہیں کہ روشنی پھٹے اور اندھیرے میں ظاہر ہو، جسے پَو پھٹنا کہتے ہیں تب صبحِ صادِق اور بعد اَزاں طلوعِ آفتاب ہوتا ہے۔
اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیرو توضیح میں بہت سے مفسّرین نے عام معانی کو ترجیح دی ہے۔ تاہم کچھ مفسّرین نے تمثیلی معانی صبحِ صادِق اور طلوعِ شمس وغیرہ بھی اَخذ کئے ہیں۔ بعض مفسّرین نے اِس سے مُراد جہنّم میں واقع شدید دھماکوں کا علاقہ بھی بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظِ "فَلَق" ایسے نتیجے یا اَشیاء کا معنی دیتا ہے جو اچانک اور شدید دھماکے سے وُقوع پذیر ہوں۔ اِس لفظ کے دُوسرے مفاہیم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جو تمثیلی اَنداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اِس انداز کو اپنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سے ۱۴صدیاں قبل علمِ طبیعیات ( physics ) اور علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) کے بارے میں اِنسانی شعور کی واقفیت اِس قدر نہ تھی کہ وہ ان سائنسی مفاہیم کو بعینہ اَخذ کر سکتا۔
جدید سائنسی تحقیقات کی رُو سے کائنات کا آغاز جس بڑے حادثے سے ہوا وہ ایک عظیم دھماکہ تھا۔ یہاں ہم عظیم دھماکے کے نظریئے ( Big Bang theory ) کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنا مناسب خیال کریں گے:
۱۹۵۰ء کے عشرے میں ’آئن سٹائن‘ کے پھیلتی ہوئی کائنات کے تصور سے متاثر ہو کر ’ریلف الفر‘ ( Ralph Alpher )، ’ہینس بیتھے‘( Hans Bethe ) اور ’جارج گیمو‘ ( George Gamow ) نے پہلی بار عظیم دھماکے کے نظرئیے کو غور و خوض کے لئے منظرِ عام پر پیش کیا۔ یہ نظریہ سالہا سال گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا رہا۔ دو اہم دریافتوں نے عظیم دھماکے کے نظریئے کو ثابت ہونے میں مدد دی۔
پہلی ایڈوِن ہبل کی’ کائناتی سرخ ہٹاؤ‘ ( cosmic red shift ) کی دریافت تھی، جو دُور ہٹتی ہوئی کہکشاں کے طِیف ( spectrum ) سے حاصل ہوئی۔ تاہم سب سے حتمی اور دو ٹوک فیصلہ کن دریافت ۱۹۶۵ء میں ہونے والی ۳درجہ کیلون کی مائیکرو ویو پس منظر کی شعاع ریزی تھی۔ یہ شعاع ریزی اِبتدائی دھماکے کے باقی ماندہ اَثرات کی صورت میں ابھی تک پوری کائنات میں سرایت کئے ہوئے ہے اور اُس کی لہروں کا شور ریڈیائی دُور بینوں کی مدد سے بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
طبیعیات کی ایک اور اہم دریافت جس نے سائنسدانوں کو ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ کی صداقت تک پہنچنے میں مدد دی وہ ’آزاد خلا کی تباہی‘ کی دریافت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ بھی پایا نہیں جاتا، مگر تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خلاء میں بھی مادّے کی کوئی نہ کوئی شکل موجود ہے۔
کائنات میں نئے مادّے کا ظہور
فلکی طبیعیات کا یہ مُشاہدہ ’ہیسنبرگ‘ ( Heisenberg ) کے ’غیریقینی حالت کے قانون‘ ( uncertainty principle ) کا نتیجہ ہے۔ اِتنے عظیم واقعات کی غیریقینی حالت کی کیفیات میں سے گزر کر جب اِلیکٹران میں سے اُس کی ساری توانائی خارِج ہو گئی تو وہ بے قاعدگی کے ساتھ بکھرتی ہی چلی گئی اور یوں اُس کا اِطلاق خلاء کے مقام پر ہونے لگا۔ اگر اُن صفر مقام کے حامل تغیّرات ( zero-point fluctuations ) کا تعاقب کیا جائے تو وہ توانائی کی دیو قامت مِقدار کی غمازی کرتے ملیں گے، جسے ممکن ہے کہ کائنات کے دُوسرے مقامات سے اُدھار لی گئی توانائی تصوّر کیا جائے۔ نتیجۃً اُس مُستعار توانائی کے ذریعے بعض اَوقات کوئی ذرّہ پیدا بھی ہو سکتا ہے اور بعد اَزاں فوری طور پر تباہ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس تصوّر کو پہلی بار ۱۹۴۸ء میں ڈچ ماہرِ طبیعیات ’ہینڈرک کیسیمر‘ ( Hendrick Casimir ) نے پیش کیا اور بعد ازاں اُن ذرّات کی موجودگی کا اِنکشاف بھی اُسی سال ۱۹۴۸ء ہی میں ایک امریکی ماہرِ طبیعیات ’وِلس لیمب‘ ( Willis Lamb ) نے کیا۔
حال ہی میں طبیعیات کے پروفیسر ’پال ڈیویز‘ ( Paul Davies ) نے دلیرانہ انداز میں یہ اِعلان کیا ہے کہ نئے مادّے کا عدم سے وُجود میں آنا ﷲ ربُّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا ایک اہم ثبوت ہے۔ یہ جدید تصوّرات ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ ( Big Bang Theory ) اور ﷲ تعالیٰ کی غیبی قدرت کے بارے میں ہمارے فہم و اِدراک میں اِضافہ کرتے ہیں۔ تاہم ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محیّر العقول دھماکہ کائنات کی پیدائش کا ایک بنیادی سبب تھا اور اُسی کے مطابق کائنات کی طبیعی ساخت اور سِتاروں اور کہکشاؤں کا وُجود عمل میں آیا۔ جدید ترین اَعداد و شمار کے مطابق اُس دیو قامت دھماکے کا پہلا مرحلہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے ( one billionth second ) میں مکمل ہو گیا تھا، جب کہکشاؤں اور سِتاروں کو جنم دینے والا مادّہ آپس میں جڑا ہوا تھا۔ اَوّلیں جدائی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے ( one thousandth second ) میں وُقوع پذیر ہوئی تھی۔
آیئے اب ہم علمِ فلکی طبیعیات اور علمِ تخلیقیات کی معلومات کی رَوشنی میں آیتِ مبارکہ کا از سرِ نو مطالعہ کرتے ہیں:
(
قُل أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ
)
O (الفلق ۱۱۳:۱.۲)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں O ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہے’عدم سے حاصل ہونے والے وُجود‘ اور ’پہلے سے موجود مواد سے پیدا ہونے والی مخلوق‘ کے ذِکر میں قرآنِ مجید "فَلَق" کی اِصطلاح اِستعمال کر رہا ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اُن کا وُجود میں آنا ایک اِبتدائی دھماکے کا مرہونِ منّت ہے۔ اِن آیاتِ مبارکہ کا سب سے اہم رُخ یہ ہے کہ یہاں صفتِ ربوبیّت کے بیان میں "رَبُّ الفَلَقِ" کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔ بہت سے مفسّرین نے اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ آیت ﷲ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیّت کی شان بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے ( billionth second۱۰ ) میں دس سنکھ (۱۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰) سِتارے ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ یہ سب ﷲ ربّ العزّت کی ربوبیّت کی طاقت سے ہی ممکن ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے مادّی کائنات کی تشکیل کا اِرادہ فرمایا اور "کُن فَیَکُونُ" کے حکم کے ساتھ ایک دھماکہ پیدا کیا۔ "فَلَق" جو اُسی دھماکے کا نتیجہ ہے، اُس وقت ربوبیّتِ بارِی تعالیٰ کی طاقت سے ایک محیّرالعقول کمپیوٹری حکم کے ذریعے منظم ہو گیا تھا۔ آیتِ کریمہ میں لفظِ "رَبّ" اور لفظِ "فَلَق" کو ذِکر کرنے کی یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات کو اِنشقاق اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا کیا گیا۔ تاہم اِس سے پہلے کہ کوئی چیز ظہور پذیر ہونے کے لئے ضروری خصوصیات کی حامل ہو سکے اُسے ﷲ ربّ العزت کی ربوبیّت کی صفات ہی کا فیض حاصل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ طبیعی کائنات اور حیاتیاتی کمپیوٹری نظام کے قابل ہو سکے۔ یہ دَرحقیقت خالقِ کائنات کی بصیرت کا کمال ہے جو تمام کائنات پر حاوی ہے۔ گویا ﷲ ربّ العزّت نے فرمایا کہ میری قدرتِ کاملہ میں ہر اُس مخلوق چیز کے شر سے پناہ حاصل کرو کہ جس کی تشکیل میری صفتِ ربوبیت کے فیضان سے ایک دھماکے کے نتیجے میں وُقوع پذیر ہوئی۔ میں تمہارا ربّ اور اِن کہکشاؤں کا حکمران ہوں جنہیں میں نے ایک عظیم دھماکے کے ساتھ خلا کی لا مُتناہی وُسعتوں میں بکھیر رکھا ہے۔ ایسا دھماکہ جو ایک اِکائی سے شروع ہوا اور اُس کے ذریعے بہت سی ایسی طاقتیں، قوتیں، شعاع ریزیاں اور ردِعمل معرضِ وُجود میں آئے، جو زِندگی کے لئے مہلک ہو سکتے ہیں۔ پس اُن ضَرَر رساں لہروں سے میری پناہ حاصل کرو، کیونکہ جو کوئی میری پناہ لیتا ہے وہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
عظیم دھماکے کا پیش منظر
عظیم ماہرِ طبیعیات ’سٹیفن ہاکنگ‘( Stephen Hawking ) کی تحقیق کے مطابق عظیم دھماکے سے فقط چند گھنٹے بعد ہیلئم اور دُوسرے عناصر کی افزائش تھم گئی اور اُس کے بعد اگلے کئی لاکھ سال تک کائنات کسی قابلِ ذِکر حادثے کے بغیر سکون کے ساتھ مسلسل پھیلتی ہی چلی گئی۔ پھر جب رفتہ رفتہ (کائنات کا اَوسط) درجۂ حرارت چند ہزار درجے تک گِر گیا تو اِلیکٹران اور مرکزے ( nuclei ) کے پاس اِتنی توانائی برقرار نہ رہ سکی کہ وہ اپنے درمیان موجود برقی مقناطیسی کشش پر غالب آ سکتے،
ز ’سٹیفن ہاکنگ‘ دُوربین کے مُوجد ’گیلیلیو گیلیلی‘ کی وفات کے ٹھیک ۳۰۰ سال بعد ۱۹۴۲ء میں برطانیہ کے علمی شہر ’آکسفورڈ‘ میں پیدا ہوا۔ اُس نے فزکس کی اِبتدائی تعلیم ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ سے حاصل کی اور اُس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے کیمبرج چلا گیا۔ نوجوانی کی عمر میں ہی وہ ’موٹرنیورون‘ ( motor neuron ) نامی بیماری میں مبتلا ہو گیا مگر اُس کے باوُجود تحقیق و جستجو کے دروازے اُس نے کبھی بند نہ ہونے دیئے۔ یہ اُسی محنت کا صلہ تھا کہ وہ ’کیمبرج یونیورسٹی‘ میں ریاضی کا پروفیسر بنا اور ’نیوٹن کی تاریخی کرسی‘ کا حقدار قرار پایا۔ اُس کا مرتبہ ایک عظیم سائنسدان کے طور پر نیوٹن اور آئن سٹائن کے ہم پلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی معروف کتاب A Brief History of Time میں نہ صرف کائنات کی تخلیق و توسیع اور قیامت کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کے متعلق جدید نظریات اِنتہائی آسان پیرائے میں بیان کئے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ زمان-مکان پر بھی گفتگو کی ہے۔
اِس لئے اُنہیں مجبوراً باہم مل کر ایٹم تشکیل دینا پڑے اور مادّے کا بنیادی تعمیری ذرّہ ایٹم وُجود میں آیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر پوری کائنات پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم وہ علاقے جو نسبتاً زیادہ کثیف ہیں وہاں وُسعت پذیری کا عمل زیادہ کششِ ثقل کی وجہ سے آہستہ ہو گیا ہے۔ یہی چیز آخرکار کائنات کے پھیلاؤ کو کچھ علاقوں میں روکنے کا باعث بنے گی، جس کے بعد کائنات اندر کی جانب واپسی کا سفر شروع کر دے گی۔ اندر کی طرف ہونے والے اِنہدام کے دَوران جن مخصوص حلقوں سے اِنہدام شروع ہو گا اُن سے باہر موجود مادّے کی کششِ ثقل شاید اُنہیں آہستہ سے گھمانا شروع کر دے۔ جوں جوں مُنہدم ہونے والے حلقے چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے، اُن کے گھومنے میں اُسی قدر تیزی آتی چلی جائے گی۔ بالآخر جب کوئی حلقہ بہت چھوٹا رہ جائے گا تو وہ اِتنی تیزی سے گھومے گا کہ کششِ ثقل کا توازُن برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ گھومتی ہوئی چکر دار کہکشائیں ( spiral galaxies ) بھی اِسی انداز میں پیدا ہوئی تھیں جبکہ دیگر کہکشائیں جن میں محوری گردِش کا یہ عمل ظاہر نہیں ہوا وہ بیضوی شکل اِختیار کرتی چلی گئیں جس کی وجہ سے اُنہیں بیضوی کہکشائیں ( elliptical galaxies )کہا جاتا ہے۔
قرآن اور نظریۂ اِضافیت( Theory of Relativity )
قرآنِ مجید میں تخلیقِ کائنات سے متعلق بے شمار آیات موجود ہیں جن کے مطالعہ سے خالقِ کائنات کی شانِ خلّاقیت عیاں ہوتی ہے۔ ﷲ ربّ العزت نے اِس کائنات کی تخلیق میں ایک خاص حُسنِ نظم سے کام لیا ہے، جسے ہم اپنی اِستعداد کے سانچوں میں ڈھالتے ہوئے مختلف علوم و فنون کی اِصطلاحات کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا سائنسی مطالعہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے حوالے سے علمِ تخلیقیات ( cosmology ) اور علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) کے مندرجہ ذیل اُصول مہیا کرتا ہے:
-۱ رَتق اور فَتق کے تصوّر کے تحت قرآنِ مجید یہ بتاتا ہے کہ مادّہ اور توانائی اِبتداءً ایک ہی چیز تھے۔ مادّہ سمٹی ہوئی توانائی ہے اور توانائی مادّے کی آزاد شدہ شکل۔ اِسی طرح زمان و مکان ( time / space ) کو بھی ایک دُوسرے سے جدا کرنا ناممکن ہے، دونوں ہمیشہ مسلسل متصل حالت میں پائے جاتے ہیں۔ ﷲ ربُّ العزت نے اپنی ربوبیّت کی طاقت اور دباؤ کے عمل سے تمام اَجرامِ سماوی کو ایک وحدت ( singularity ) سے پھاڑ کر جدا جدا کر دیا اور یوں تمام سماوی کائنات کو وُجود ملا۔ یہ قرآنی راز ’آئن سٹائن‘ کے ’نظریۂ اِضافیت‘ کے ذریعے بیسویں صدی کے اَوائل میں منظرِ عام پر آیا۔
-۲(
وَ السَّمَآءَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ
)
(الذاریات،۵۱:۴۷) کے تحت کائنات کو طاقت کے ذریعے پیدا کئے جانے سے حاصل ہونے والا قرآنی تصوّر اِس سائنسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ ( Big Bang ) سے شروع ہونے والی کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے پھیلاؤ اور موجودہ حالت تک، ایک ایٹم کے نظام سے لے کر عظیم نظامِ سیارگان اور کہکشاؤں کے بڑے بڑے گروہوں تک ہر چیز کی بقا کا اِنحصار کھنچاؤ اور توانائی کے برقرار رہنے اور اُن کے مابین توازُن پر مبنی ہے۔
یہ کھنچاؤ مرکز مائل ( centripetal ) اور مرکز گریز ( centrifugal ) قوّتوں کی صورت میں کائنات کے ہر مقام اور ہر شے میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ’مرکز مائل قوّت‘ اور ’مرکز گریز قوّت‘ کا ہر جگہ برابر پایا جانا ایک ایسے توازُن کی نشاندہی کرتا ہے جو نظامِ سیارگان کے وُجود کی ضمانت ہے۔ اُن دونوں طاقتوں کے اِعتدال ہی سے ساری کائنات کا نظام قائم و دائم ہے اور ذرا سی بے اِعتدالی تمام نظامِ عالم کو نیست و نابود کر سکتی ہے۔ جیسے بجلی میں مخالف بار ایک دُوسرے کو کھینچتی اور موافق بار دفع کرتی ہیں، اِسی طرح کائنات میں موجود تمام اشیاء کو۔ ۔ ۔ خواہ وہ سورج اور دُوسرے ستاروں کے گرد محوِ گردِش سیارے ہوں یا نیوکلیئس کے گرد گھومنے والے اِلیکٹران۔ ۔ ۔ ’مرکز گریز قوّت‘ ہی اُنہیں ’کششِ ثقل‘ کے زیرِ اثر مرکز میں گرنے اور مُنہدم ہونے سے بچائے ہوئے ہے۔ گویا کائنات کا تمام توازُن ﷲ ربّ العزت کے نظامِ ربوبیت کے پیدا کردہ کھنچاؤ اور توانائی ہی سے منظم ہے۔
-۳ ’آئن سٹائن‘ کے ’خصوصی نظریۂ اِضافیت‘ ( Special Theory of Relativity ) کے ذریعے قرآنِ مجید کے اِس تصوّر۔ ۔ ۔ کہ کائنات کو طاقت (توانائی) کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ کی واضح توثیق میسر آ چکی ہے۔ اِس نظریئے کی بنیاد E=mc۲ مساوات ہے، یعنی توانائی ایسے مادّے پر مشتمل ہوتی ہے جسے روشنی کی سمتی رفتار ( velocity ) کے مربّع کے ساتھ ضرب دی گئی ہو۔ یہ تعلق اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مادّہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے اور روشنی کی سمتی رفتار کے تناظر میں مادّے کے ہر ایٹم کے اندر توانائی کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ یہی وہ مساوات ہے جس نے سورج اور دُوسرے ستاروں میں توانائی کے ذرائع کی وضاحت کی اور اُسی کے ذریعے بعد ازاں ایٹمی توانائی اور ایٹم بم کی بنیادیں بھی فراہم ہوئیں۔
آئن سٹائن کی یہ دریافت اِس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ایٹم کی ساخت طاقت یعنی توانائی ( E=mc۲ ) کے ذریعے وُجود میں لائی گئی ہے۔ یہ حقیقت اِن آیاتِ قرآنیہ سے کس قدر ہم آہنگ ہے:
(
وَ السَّمَآئَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَ
)
(الذّاریات،۵۱:۴۷)
اور ہم نے کائنات کے سماوی طبقات کو طاقت (توانائی) کے ذریعے پیدا کیا اور ہم ہی اُسے وُسعت پذیر رکھتے ہیں(
وَ خَلَقَ کُلَّ شَئِ فَقَدَّرَه تَقدیراً
)
(الفرقان،۲۵:۲)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اُس (کی بقاء و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت، اَلغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےاِن آیاتِ کریمہ میں ہر شے کی توانائی کے ذریعے تخلیق، اور ہر چیز میں اور مادّے کے ہر ایٹم میں توانائی کے متناسب تسویہ کا تصوّر پایا جاتا ہے۔
(
إِنَّا کُلَّ شَئ خَلَقنَاهُ بِقَدَرٍ وَّ مَا أَمرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمحٍم بِالبَصَرِ
)
(القمر،۵۴:۴۹،۵۰)
ہم نے ہر شے ایک مقرّر اَندازے سے بنائی ہے O اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنایہ آیاتِ مبارکہ ظاہر کرتی ہیں کہ تخلیق کا عمل ایک حکم کی تعمیل میں ہونے والا دھماکہ تھا، جس نے عمل درآمد کے لئے پلک جھپکنے سے بھی کم، ایک سیکنڈ کا بہت تھوڑا عرصہ صرف کیا اور کائنات کا ہر ذرّہ توانائی اور خصوصیات میں مکمل تناسب رکھتا تھا۔
-۴ قرآنِ مجید اِس سائنسی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ کائنات کا تمام سماوی مواد اِبتداءً گیسی بادلوں کی صورت میں موجود تھا۔ سورۂ حم السجدہ کی آیت نمبر۱۱ میں وَھِیَ دُخَانٌ (اور وہ اُس وقت گیس کے بادل تھے) کے اَلفاظ غیر مبہم طور پر دُخانی حالت کی موجودگی کو ثابت کرتے ہیں۔ پھر اُن گیسی بادلوں کے اند ﷲ ربّ العزت نے متوازن فلکیاتی نظام ترتیب دیا، جس کے تحت اربوں کہکشائیں اور اُن کے اندر واقع کھربوں اِنفرادی نظاموں کو وُجود ملا۔ تمام کہکشائیں کائنات کے مرکز سے باہر کی جانب بیک وقت وُسعت پذیر ہیں اور ابھی تک اُن میں اِجتماعی طور پر کوئی ٹکراؤ یا عدم توازُن پیدا نہیں ہوا، جس روز اُن میں اِجتماعی سطح کا ٹکراؤ پیدا ہوا وہ اِس کائنات کے لئے قیامت کا دن ہو گا۔ (کہکشاؤں کی رجعتِ قہقری اور قیامت کے سائنسی اَسباب کے مطالعہ کے لئے باب دہم کی طرف رُجوع کریں)