اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 71640
ڈاؤنلوڈ: 5542

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71640 / ڈاؤنلوڈ: 5542
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

باب ہشتُم

پھیلتی ہوئی کائنات ( Expanding Universe ) کا قرآنی نظریہ

قرآنِ مجید نے جہاں طبیعی کائنات کی تخلیق کی نسبت چند اہم حقائق بیان کئے ہیں وہاں اُس کے اِختتام کی بعض خصوصی علامات کا بھی ذکر کیا ہے جن کی تائید و تصدیق مکمل طور پر جدید سائنس کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ہم پہلے جدید سائنس کی تحقیقات و اکتشافات کا خلاصہ درج کریں گے تاکہ اصل تصور واضح ہو جائے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ دورِ حاضر کے سائنس دانوں کی رائے میں اِس مادّی اور طبیعی کائنات ( physical universe ) کا آغاز اَجرامِ سماوی کی تخلیق و تقسیم کے جس عمل سے ہوا وہ آج سے تقریباً ۱۵ ارب برس پہلے رونما ہوا اور اُس کا اِختتام آج سے تقریباً ۶۵ارب برس بعد ہو گا۔

تخلیقِ کائنات کے بعد اُس کی مسلسل توسیع و اِرتقاء اور بالآخر اُس کے انجام کے بارے میں موجودہ سائنسی تحقیق Oscillating Universe Theory کی شکل میں سامنے آئی ہے۔

کائنات کی بیکرانی

آئیے اَب اِس وسیع و عریض کائنات کی ساخت، اِرتقاء و عمل اور پھیلاؤ کے بارے میں ذرا غور و فکر کریں۔ تمام اَجرامِ فلکی سمیت زمین، سورج، سِتارے اور سیارے کائنات میں محض چھوٹے چھوٹے نقطوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسی کہکشاں کا سِتارہ ہے جو اِس جیسے اور اِس سے بڑے ایک کھرب سِتاروں پر مشتمل ہے اوراِس کائنات میں اُس جیسی اربوں کہکشائیں مزید بھی پائی جاتی ہیں۔ اَب تک کی جستجو سے معلوم کردہ دُوسری کہکشاؤں کے بعید ترین اَجسام ہم سے تقریباً۱۶ارب نوری سال (تقریباً ۹۳,۹۱,۲۸,۴۶,۳۳,۶۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ میل) کی مسافت پر واقع ہیں۔ اُن کی شعاع ریزی ( radiation ) نہ صرف زمین بلکہ شاید ہماری کہکشاں کی تخلیق سے بھی پہلے اپنا سفر شروع کر چکی تھی۔ اِس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری کہکشاں کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت ہی پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ اُس کی پیدائش کائنات کی تخلیق سے کافی عرصہ بعد عمل میں آئی اور دُوسری بہت سی کہکشائیں اُس سے عمر میں بڑی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں دُوسری یا تیسری نسل کی نمائندہ ہو۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آج یہ جس مادّہ پر مبنی ہے اُسی مادّہ پر ایک یا زائد کہکشائیں اِس سے قبل بھی مشتمل رہ چکی ہیں۔ جن میں واقع لاکھوں کروڑوں سورجوں کے گرد گردِش کناں سیاروں کی مخلوقات اپنے دَور کی قیامت کے بعد فنا ہو چکی ہیں۔جب وہ اپنی زِندگی پوری کر چکیں تو اُنہی کے متروکہ مادّے سے ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ ( Milky Way )نے جنم لیا۔

سورج کے بعد ہم سے قریب ترین سِتارہ ’پروگزیما سنچری‘ ( Proxima Centauri ) ہے، جو ہم سے تقریباً ۴.۲نوری سال کی مسافت پر واقع ہے، جو تقریباً ۲۴.۶۸ کھرب میل کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں ۴سال سے زیادہ عرصہ صرف کرتی ہے۔) ہمارا سورج ہم سے ۸.۳ نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے،جو تقریباً ۹,۲۷,۷۲,۹۳۴.۵۸ میل یعنی ۱۴,۹۲,۹۶,۶۴۴ کلومیٹر کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں ۸.۳ منٹ کا وقت صرف کرتی ہے۔) اکثر سِتارے جو ہمیں نارمل آنکھ سے دِکھائی دے جاتے ہیں وہ کئی سو نوری سال کی دُوری پر واقع ہیں۔

توسیعِ کائنات ۔ ۔ ۔ ایک سائنسی دریافت

کائنات کے مسلسل وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بارے میں ہماری تحقیقات ۱۹۲۴ء سے زیادہ قدیم نہیں، جب ایک ماہرِ فلکیات ایڈوِن ہبل ( Edwin Hubble ) نے یہ اِنکشاف کیا کہ ہماری کہکشاں اِکلوتی نہیں ہے۔ کائنات میں دُوسری بہت سی کہکشائیں بھی اپنے مابین وسیع و عریض علاقے خالی چھوڑے ہوئے موجود ہیں، جو ایک دُوسرے کی مخالف سمت میں یوں حرکت کر رہی ہیں کہ آپس میں فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی رفتار میں بھی اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ کہکشاؤں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ پوری کائنات بھی پھیلتی چلی گئی ہے اور کہکشاؤں کے مابین پایا جانے والا فاصلہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔

ڈاکٹر ہبل نے کائنات کی وُسعت پذیری کا یہ راز رَوشنی کے ’سرخ ہٹاؤ‘ ( red shift ) کے کہکشاؤں کے ساتھ موازنے کے ذریعے دریافت کیا۔ اُس نے مسلسل بڑھنے والے فاصلوں کی درُستگی کو ’قانونِ ہبل‘ ( Hubble's Law ) اور پھیلاؤ کی حقیقی شرح کے ذریعے ثابت کیا، جسے ہبل کے غیر متغیر اُصول ( Hubble's Constant ) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دریافت بیسویں صدی کے عظیم شعوری اِنقلابات میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اَب ہم اِس قابل ہو چکے ہیں کہ ’ڈاپلر اثر‘ ( Doppler Effect ) کے ذریعے کائنات اور کہکشاؤں کے پھیلاؤ کی موجودہ شرح کو متعین کر سکیں۔ اَب ہم سب اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کائنات ہر ایک ارب سال میں ۵سے ۱۰ فیصد کی شرح کے ساتھ پھیل رہی ہے۔

ڈاپلر اثر ( Doppler Effect )کی ایک عام فہم مثال

کسی جرمِ فلکی کی روشنی یا برقی مقناطیسی لہروں کا اُس جسم کے ناظر سے دُور بھاگنا یا کائنات کے ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ ( Big Bang ) کی وجہ سے طویل الموج ہونا ’ریڈشفٹ‘ یا ’سرخ ہٹاؤ‘ کہلاتا ہے۔ ایسا ’ڈاپلر اثر‘ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اِس کی سادہ مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جیسے کسی گاڑی کے آگے پیچھے ہر طرف سپرنگ باندھ کر اُسے تیزی سے دوڑایا جائے تو اُس کی تیز رفتاری کے باعث اگلے سپرنگ دب کر سکڑے ہوئے جبکہ پچھلی طرف بندھے سپرنگ کھنچ کر لمبے ہوتے نظر آئیں گے۔ بالکل اِسی طرح جب کوئی ستارہ، کہکشاں یا کوئی اور جِرمِ فلکی اپنے چاروں طرف بیک وقت ایک سی شعاع ریزی کرتے ہوئے ہم سے دُور بھاگا چلا جا رہا ہو تو اُس کی پچھلی سمت سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے لمبی دِکھائی دیں گی اور ہماری طرف آنے والے اَجرام سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے سکڑی ہوئی نظر آئیں گی۔ ہم سے دُور بھاگنے والی کہکشاؤں کی لہریں ’طویل الموج‘ ہو کر رنگت میں ’سرخی مائل‘ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری سمت آنے والے اَجرامِ فلکی کی روشنی کی لہریں ’قصیرالموج‘ ہو کر رنگت میں ’بنفشی مائل‘ ہو جاتی ہیں۔ اِسی کو ’ڈاپلر اثر‘ ( doppler effect ) کہتے ہیں۔

یہ تحقیق سب سے پہلے آسٹریلوی ماہرِ طبیعیات ’کرسچین ڈاپلر‘ (۱۸۰۳-۱۸۵۳) نے منظرِ عام پر لائی۔ کسی خاص عنصر کے حامل سیارے سے نکلنے والی روشنی کا رنگ اُس عنصر کے حقیقی رنگ کی نسبت مائل بہ سرخ ہونے کے تناسب سے اِس بات کا بخوبی اَندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ستارہ ہم سے کس رفتار سے کس سمت دُور جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر تمام کہکشائیں ’بگ بینگ‘ کے اثر سے ایک دُوسرے سے دُور بھاگ رہی ہیں جس کا اندازہ ’ایڈوِن ہبل‘ نے ۱۹۲۴ء میں تقریباً تمام کہکشاؤں کی روشنی میں پائے جانے والے ’سرخ ہٹاؤ‘ ( Red Shift ) ہی کے ذریعے لگایا تھا۔

وُسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ

یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی، بالخصوص اُس کی چند آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں، قرآنِ مجید اُنہیں آج سے ۱,۴۰۰ سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ قرآنِ مجید نے کائنات کی وُسعت پذیری کا اُصول سورۂ فاطر میں کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے:

( اَلحَمدُ ِللهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ یَزِیدُ فِی الخَلقِ مَا یَشآء إِنَّ ﷲ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (فاطر،۳۵:۱)

تمام تعریف ﷲ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے اِبتداءً) بنانے والا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک ﷲ ہر شے پر قادِر ہےاِسی سائنسی حقیقت کو قرآنِ حکیم نے سورۃُ الذّاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں ذِکر کیا ہے:

( وَ السَّمَآءَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذّاریات،۵۱:۴۷)

اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیںاِس آیتِ کریمہ نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ کائنات، جسے ﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ "لَمُوسِعُون" کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر واضح دلالت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا:

( وَ یَخلُقُ مَا لاَ تَعلَمُونَ ) (النّحل،۱۶:۸)

اور وہ پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم نہیں جانتےمغربی دُنیا کے سائنسدانوں اور سائنس کے طلباء کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ آج سے ۱۴صدیاں قبل۔ ۔ ۔ جب کائنات کے مجرّد اور غیر متحرک ہونے کا نظریہ تمام دُنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) اور علمِ تخلیقیات ( cosmology ) کے اِس جدید نظریہ سے قرآنِ مجید نے کس طرح اِنسانیت کو آگاہ کیا! جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ اِس قدر مستحکم تھا کہ وہ بیسویں صدی کے اَوائل تک دُنیا بھر میں ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ’نیوٹن‘ کا قانونِ تجاذُب حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ ’آئن سٹائن‘ نے بھی ۱۹۱۵ء میں جب اپنا ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) پیش کیا تو اُس وقت تک اُسے ’نظریۂ جمودِ کائنات‘ پر اِتنا پختہ یقین تھا کہ اُس نے اُس نظریئے کی مساوات میں مشہورِ عالم ’تخلیقیاتی مستقل‘ ( cosmological constant )کو مُتعارف کراتے ہوئے اپنے نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔

دَرحقیقت رُوسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان ’الیگزینڈر فرائیڈ مین‘ ( Alexander Friedmann ) وہ شخص تھا جس نے ۱۹۲۲ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں ۱۹۲۹ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر ۱۹۶۵ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات ’آرنوپنزیاس‘ ( Arno Penzias ) اور ’رابرٹ وِلسن‘ ( Robert Wilson ) نے اُسے ثابت کیا۔ یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع ’بیل فون لیبارٹریز‘ میں کام کرتے تھے، جنہیں ۱۹۷۸ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ یہ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید کا ایک سائنسی معجزہ ہے۔

باب نہُم

سیاہ شگاف ( Black Hole ) کا نظریہ اور قرآنی صداقت

’سٹیفن ہاکنگ‘ ( Stephen Hawking ) دورِ حاضر میں طبیعیات ( physics ) کا عظیم سائنسدان ہے۔ اِنعقادِ قیامت کے حوالے سے اُس کی تحقیقات نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہیں۔ وہ سیاہ شگاف کو قیامت کی ایک ممکنہ شکل قرار دیتا ہے۔ ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کی اِصطلاح فزکس کی تاریخ میں زیادہ قدیم نہیں۔ اسے ۱۹۶۹ء میں ایک امریکی سائنسدان ’جان ویلر‘ ( John Wheeler ) نے ایک ایسے تصوّر کی جدوَلی صراحت کے لئے وَضع کیا جو کم از کم ۲۰۰سال پرانا ہے۔ اُس وقت جبکہ روشنی کے بارے میں کوئی موجودہ نظریات نہیں پائے جاتے تھے۔ قدیم نظریات میں سے ایک نظریہ تو ’نیوٹن‘ کا تھا کہ روشنی ذرّات سے بنی ہے اور دُوسرے کے مطابق یہ لہروں پر مشتمل ہے۔ آج ہم اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دونوں نظریات اپنی جگہ درُست ہیں۔ ’کوانٹم مکینکس‘ کی لہروں اور ذرّات کی ثنویت کی وجہ سے روشنی کو لہر اور ذرّہ دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے۔

سیاہ شگاف ( Black Hole )کا تعارُف

جب سورج سے ۲۰گنا بڑا کوئی ستارہ ۳,۵۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ سینٹی گریڈ کے حامل ’عظیم نوتارہ‘ ( supernova ) کی صورت میں پھٹتا ہے تو اُس کا باقی ماندہ ملبہ اِتنا بڑا قالب ہوتا ہے کہ جو عام طور پر ایک ’نیوٹران ستارے‘ کا آخری مرحلہ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اُس کی کشش اِس قدر زیادہ ہو کہ وہ ناقابلِ تصوّر حد تک ہر شے کو اپنے اندر گِراتا چلا جائے۔ جوں جوں اُس کی کثافت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں اُس کی قوّتِ کشش میں اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ روشنی سمیت کوئی شے بھی اُس کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ اسی کو ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کہتے ہیں۔ سیاہ شگاف کے مرکز میں سابقہ ستارے کا ملبہ تباہ ہو کر لا محدُود کثافت کا حامل ہو جاتا ہے جبکہ اُس کا حجم صفر ہوتا ہے۔ اُسی نقطہ کو ’اِکائیت‘ ( singularity ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

’فلکی طبیعیات‘ ( astrophysics ) کے جدید نظریات کی رُو سے اِتنے کثیف ستارے کے قالب کو اپنی ہی کشش کے تحت ہونے والی غیرمتناہی اندرونی تباہی سے روکنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایک کروڑ کے لگ بھگ سیاہ شگاف پائے جانے کا اِمکان ہے جو عظیمُ الجثہ ستاروں کے عظیم نوتارہ ( supernova ) دھماکوں سے معرضِ وُجود میں آئے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود اَجرامِ سماوی میں اِعتدال و توازُن اِنہی سیاہ شگافوں کی بدولت قائم ہے۔

سیاہ شگاف ( Black Hole )کا معرضِ وُجود میں آنا

سیاہ شگاف بننے کے عمل کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں کسی بھی ستارے کی آغاز تا انجام زِندگی کا پورا چکر ( life-cycle ) سمجھنا ہو گا۔ سِتارہ اِبتدائی طور پر ایسی گیس۔ ۔ ۔ جو زیادہ تر ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ کی ایک بہت بڑی مقدار کے کششِ ثقل کے باعث سُکڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اِس صورت میں اُس گیس کے ایٹم آزادانہ اور تیز ترین رفتار کے ساتھ باہم ٹکراتے ہوئے گیس کو گرم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آخرکار گیس اِتنی گرم ہو جاتی ہے کہ ’ہائیڈروجن‘ ( Hydrojen ) کے ایٹم جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ زیادہ دیر اِکٹھے اُچھل کُود بند نہیں کرتے بلکہ آپس میں ضم ہو کر ’ہیلئم‘ ( Helium ) تشکیل دیتے ہیں۔ اِس عمل سے بے پناہ حرارت خارج ہوتی ہے۔ ۔ ۔ بالکل اُسی طرح جیسے ایک ’ہائیڈروجن بم‘ پھٹتا ہے۔ ۔ ۔ اسی کی بدولت ستارے چمکتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ اِضافی حرارت گیس کا دباؤ اِس قدر بڑھا دیتی ہے جو کششِ ثقل میں توازُن برقرار رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے، اور یوں گیس مزید سکڑنا بند کر دیتی ہے۔

یہ کسی حد تک غبارے کی مِثل ہے جس کے اندر کی ہوا میں توازُن ہوتا ہے۔ ہوا غبارے کو مزید پھیلانا چاہتی ہے مگر غبارے کی ربڑ کا تناؤ اُسے چھوٹا کر دینا چاہتا ہے۔ یوں ہوا اور غبارے کی ربڑ کے مابین پائے جانے والے توازُن کے سبب غبارہ ایک خاص متوازن حد تک پھُلا رہتا ہے۔ سِتارے بھی اِسی طرح نیوکلیائی ردِ عمل سے پیدا ہونے والی حرارت اور کششِ ثقل کے درمیان توازُن کی وجہ سے عرصۂ دراز تک سلامت رہتے ہیں۔ بالآخر ستارہ جل جل کر اپنی ہائیڈروجن اور نیوکلیائی اِیندھن ختم کر دیتا ہے۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جتنے زیادہ اِیندھن کے ساتھ کوئی ستارہ اپنی زندگی کی دَوڑ کا آغاز کرے گا اُتنی ہی جلدی وہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ستارہ جتنا بڑا ہو گا اُسے اپنی کششِ ثقل کے ساتھ توازُن برقرار رکھنے کے لئے اُتنا ہی زیادہ گرم رہنا پڑے گا، اور جتنا زیادہ وہ گرم رہے گا اُسی تیزی سے وہ اپنا اِیندھن خرچ کرے گا۔ ہمارے سورج میں اِتنے اِیندھن کی موجودگی کا اِمکان ہے کہ وہ ۵ ارب سال مزید گزار سکے، لیکن اُس سے بڑے سِتارے اپنا اِیندھن صرف ۵۰کروڑ سال میں ختم کر سکتے ہیں، جو اِس کائنات کی مجموعی عمر کی نسبت بہت کم مدّت ہے۔ جب کسی ستارے کا اِیندھن کم ہو جاتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ پھر اُس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ اِس بات کا پتہ سب سے پہلے ۱۹۲۰ء کے عشرے کے اَواخر میں چلایا گیا۔

’سیاہ شگاف‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے اِختتام پر رَوشن نوتارے ( supernova ) کے پھٹنے کی صورت میں رُو نما ہوتے ہیں۔ ایسے ستارے کا کثیف مرکزہ ( dense core ) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں معدُوم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ کچھ ماہرینِ فلکیات کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح عمل پذیر ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور جگہ جا نکلتا ہے۔ یوں جدید سائنسی تحقیقات ہمیں اِسلام کے تصوّرِ آخرت سے خاصا قریب لے آتی ہیں۔ ایک لحاظ سے سیاہ شگاف ’قواسرز‘ ( quasars ) کی طرح پُر اسرار ہیں۔ وہ فزکس کے قوانین پر عمل درآمد کرتے دِکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر ناقابلِ دید ہیں۔

جب ہمارے سورج سے ۱۰گنا بڑا کوئی ستارہ اپنی تمام تر توانائی خرچ کر بیٹھتا ہے تو اُس کی بیرونی تہہ مرکز کی طرف مُنہدم ہونا شروع کر دیتی ہے۔ تب ستارہ ’عظیم نوتارہ‘ ( supernova ) کے دھماکے کے ساتھ بیرونی تہہ کو دُور پھینکتے ہوئے پھٹتا ہے۔ اُس دھماکے کے بعد ستارے کا کثیف مرکزہ باقی بچ رہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ کسی ’نیوٹران ستارے‘ کی طرح شدید دباؤ زدہ ہو۔ تیزی سے گھومتے ہوئے ستاروں کو دمکتے ہوئے ’شعاع اَفشاں ذرائع‘ یا ’ پلسر‘ ( pulsar ) کی صورت میں پایا گیا ہے۔ اگر ستارے کے باقی ماندہ مرکزے ( core ) کی اہمیت بہت زیادہ ہو تو وہ اپنی کششِ ثقل کے بل بوتے پر سکڑتے ہوئے سیاہ شگاف کی صورت اِختیار کر لیتا ہے۔ اُس سوراخ میں مادّہ گِر تو سکتا ہے مگر کوئی بھی شے اُس سے فرار اِختیار نہیں کر سکتی۔

سیاہ شگاف سے روشنی بھی فرار نہیں ہو سکتی

’اوپن ہائمر‘ ( Oppenheimer ) کی تحقیق سے حاصل ہونے والی تصویر کشی کے مطابق سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جانے والے اُس ستارے کا ’مقناطیسی میدان‘ کسی بھی زمان و مکان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے۔ روشنی کی وہ ’مخروطی شکلیں‘ ( cones ) ۔ ۔ ۔ جو اپنے کناروں سے خارج ہونے والی روشنی کی چمک سے زمان و مکان میں اپنا راستہ نمایاں کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ اُس ستارے کی سطح کے قریب آہستگی سے اندر کو مُڑ جاتی ہیں۔ سورج گرہن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس امر کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے ثبوت کے طور پر کیا گیا تھا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے، اُس کی سطح کا مقناطیسی میدان ( magnetic field ) طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں۔ یہ چیز روشنی کے اُس ستارے سے فرار کو مزید مشکل بنا دیتی ہے اور دُور سے نظارہ کرنے والے ناظر کے لئے روشنی نسبتاً ہلکی اور سرخ ہو جاتی ہے۔ آخرکار جب وہ ستارہ اپنے کم از کم ممکنہ رد اس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کا مقناطیسی میدان اِتنا طاقتور ہو جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں اُس کی طرف اِس قدر جھک جاتی ہیں کہ روشنی کے فرار کے تمام ممکنہ راستے مسدُود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق کوئی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے اگر روشنی بھی اُس سیاہ شگاف بن جانے والے مُردہ ستارے سے نہیں بچ سکتی تو صاف ظاہر ہے کہ اور بھی کوئی شے اُس سے نہیں بچ سکتی، اُس کا ’مقناطیسی میدان‘ ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لے گا۔ کسی دُور بیٹھے ناظر کے لئے اُن مخصوص حالات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ وہ مُشاہدے کے لئے بلیک ہول کے زیرِ اثر مکان-زمان کے اُس مخصوص خطہ کی طرف جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی چلا آئے۔ یہی وہ جگہ ہے جسے ہم اب ’سیاہ شگاف‘ ( black hole ) کا نام دیتے ہیں۔ اُس کی اصل حدُود کو’واقعاتی اُفُق‘ یا ’اِیونٹ ہورِیزن‘ ( event horizon ) کہا جاتا ہے اور یہ روشنی کی اُن لہروں کے راستے کے سِرے پر واقع ہوتا ہے جو سیاہ شگاف سے فرار اِختیار کرنے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔

سیاہ شگاف بیرونی نظارے سے مکمل طور پر پوشیدہ ہیں

’سٹیفن ہاکنگ‘ ( Stephen Hawking )کہتا ہے کہ اُس کی اور ’راجرپینروز‘ ( Roger Penrose ) کی۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۵ء تک کی گئی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق سیاہ شگاف کے اندر ’لا محدُود کمیّت کی اِکائی‘ ( singularity of infinite density ) اور ’زمان و مکان کے اِنحناء‘ ( space-time curvature ) کی موجودگی ضروری ہے۔یہ کسی حد تک زمانے کے آغاز میں رُو نما ہونے والے عظیم دھماکے کی طرح ہوتا ہے جو اِنہدام زدہ جسم اور اُس کی طرف سے خلا میں سفر کرنے والے خلا نورد کے لئے وقت کا اِختتام ثابت ہو گا۔ اُس اِکائیت کے مقام پر سائنس کے قوانین اور ہماری مستقبل کو جاننے کی صلاحیت دونوں جواب دے جائیں گی۔ تاہم ہر وہ ناظر جو اُس سیاہ شگاف سے دُور رہے گا، جہاں وہ پیش از وقت ممکنہ خدشات کے اَندازے کی صلاحیت سے محروم رہے گا وہاں وہ ہر قسم کے نقصان سے بھی محفوظ رہے گا، کیونکہ سیاہ شگاف میں واقع صفر جسامت کی حامل اُس ’اِکائیت‘ سے روشنی سمیت کوئی مضر شعاع اُسے نقصان پہنچانے کی غرض سے باہر نکل کر اُس تک نہیں پہنچ سکتی۔

زمین آخرکار سورج سے جا ٹکرائے گی

’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ یہ اِنکشاف کرتا ہے کہ بڑے اَجرامِ فلکی کشش کی ایسی لہروں کے اِخراج کا باعث بن جائیں گے جو خلاء کے اِنحناء کی وجہ سے بنتی ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یہ روشنی کی لہروں جیسی ہوتی ہیں جو ’برقی مقناطیسی میدان‘ میں بنتی ہیں، لیکن اُنہیں پا سکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ یہ جن اَجسام سے خارج ہوتی ہیں اُن سے روشنی کی طرح توانائی لئے جاتی ہیں۔ اِس بات کا اَندازہ ہر کوئی بآسانی کر سکتا ہے کہ اُن بڑے اَجسام کا نظام آخرکار ساکن حالت پر آ جائے گا کیونکہ کسی بھی حرکت میں پیدا ہونے والا کشش کی لہروں کا اِخراج توانائی کو ساتھ لے جاتا ہے۔ مِثال کے طور پر زمین کی سورج کے گِرد اپنے مدار میں گردِش کشش کی لہریں پیدا کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے توانائی کے ضیاع کا اثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے مدار کو تبدیل کر دے گا اور یوں یہ سورج سے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی اور بالآخر اُس سے ٹکرا کر ساکن حالت اِختیار کر لے گی۔ زمین اور سورج کے معاملے میں ضائع ہونے والی توانائی کی شرح اِس قدر کم ہے کہ اُس سے ایک چھوٹا برقی چولھا بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ دُوسرے لفظوں میں زمین کو سورج میں گرنے میں تقریباً ایک ارب سنکھ (۱,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰) سال لگیں گے۔ سیاہ شگاف کی تشکیل کے لئے ایک ستارے کے ثِقلی اِنہدام کے دَوران حرکات اِس قدر تیز ہوں گی کہ توانائی کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہو جائے گی۔ تاہم یہ اِتنا طویل نہیں ہو گا کہ ایک ساکن حالت کو پہنچ جائے۔

موجود سیاہ شگافوں کی تعداد اور جسامت

ہمیں اب تک اپنی کہکشاں ( Milky Way ) اور دو ہمسایہ کہکشاؤں ( Magellanic Clounds ) میں پائے جانے والے ’سیگنس ایکس ون‘ ( Cygnus X-۱ ) جیسے نظاموں میں موجود بہت سے سیاہ شگافوں کی شہادت میسر آ چکی ہے۔ تاہم حقیقت میں سیاہ شگافوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کائنات کی طویل ترین تاریخ میں بہت سے ستارے اپنا اِیندھن جلا کر ختم کر چکے ہوں گے اور اُنہیں اندرونی اِنہدام کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ ممکن ہے کہ سیاہ شگافوں کی تعداد قابلِ دید ستاروں سے بھی زیادہ ہو، جو تقریباً ایک کھرب کی تعداد میں تو صرف ہماری کہکشاں میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنی کثیر تعداد میں پائے جانے والے سیاہ شگافوں کی اِضافی کششِ ثقل کو شمار کرتے ہوئے ہی ہماری کہکشاں کی محورِی گردِش اور اُس کے توازُن کی موجودہ شرح کی وضاحت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ صرف قابلِ دید ستاروں کی تعداد اُس شرح کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہمیں اِس بات کی شہادت بھی میسر آ چکی ہے کہ ہماری کہکشاں کے وسط میں سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ کمیّت کا حامل عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف موجود ہے۔ کہکشاں میں پائے جانے والے وہ ستارے جو اُس سیاہ شگاف سے زیادہ قریب آ جاتے ہیں، اپنے قریبی اور بعیدی جہات میں پائی جانے والی قوّتِ کشش میں اِختلاف کی وجہ سے جدا ہو کر اُس سیاہ شگاف کے گرد گردش کرنے والے طوفان کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اُسی جیسے۔ ۔ ۔ بلکہ جسامت میں اُس سے بھی بڑے۔ ۔ ۔ کمیّت میں ہمارے سورج سے ۱۰کروڑ گنا بڑے۔ ۔ ۔ سیاہ شگاف ’قواسرز‘ کے وسط میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنے عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف میں مادّے کا مسلسل گرنا ہی قوّت کا وہ ذریعہ ہے جو اِتنا عظیم ہے کہ اُسے شمار کرنے سے اُن سیاہ شگافوں سے خارج ہونے والی توانائی کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ مادّہ جس سمت میں گھومتے ہوئے سیاہ شگاف میں گرتا ہے اُسی طرف کو سیاہ شگاف گھومنے لگ جاتا ہے، چنانچہ اسی سے اُس سیاہ شگاف کا ’میدانِ تجاذُب‘ پروان چڑھتا ہے۔ مادّے کے سیاہ شگاف میں گرنے سے اُس کے قریب بہت بڑی توانائی کے ذرّات پیدا ہوتے ہیں۔

یہ گمان بھی بجا ہے کہ شاید ہمارے سورج سے کم کمیّت کے حامل سیاہ شگاف بھی پائے جاتے ہوں۔تاہم ایسے سیاہ شگاف ’اندرونی کششی اِنہدام‘ کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کی کمیّت ’چندرشیکھر‘ کی ’کمیتی حدُود‘ ( Chandrasekhar Mass Limit ) سے کم ہوتی ہے۔ اِس قدر کم کمیّت کے حامل ستارے صرف اِسی صورت میں کششِ ثقل کے خلاف مزاحمت سے اپنے وُجود کو سہارا دے سکتے ہیں جب وہ اپنے نیوکلیائی اِیندھن کا مکمل طور پر اِخراج کر چکے ہوں۔ کم کمیّت کے سیاہ شگاف صرف اِسی صورت میں تشکیل پا سکتے ہیں جب مادّہ شدید ترین بیرونی دباؤ سے دب کر اِنتہا درجہ کثیف ہو جائے۔

سیاہ شگاف۔ ۔ ۔ ایک ناقابلِ دید تنگ گزرگاہ

جیسا کہ اِن کے نام سے ظاہر ہے سیاہ شگاف نظر نہیں آ سکتے کیونکہ وہ بالکل روشنی خارِج نہیں کرتے۔ ایک سیاہ شگاف اگرچہ خود تو نظر نہیں آ سکتا مگر اِس کے باوُجود جب وہ کسی ہمسایہ ستارے کو کھینچ رہا ہوتا ہے اور اُس کے مادّے کو ہڑپ کر کے نگل جاتا ہے تو ’ایکس ریز کے اِخراج‘ کی وجہ سے اُس کا سراغ لگانا ممکن ہو جاتا ہے۔

سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ جو مادّہ سیاہ شگاف کی طرف جاتا ہے وہ زمان و مکان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہو، جس سے ہم بالکل آگاہ نہیں ہیں۔ جب ہماری تحقیق اِس مقام پر آن پہنچتی ہے تو ہمیں اِسلام کے عطا کردہ عقیدۂ آخرت پر مزید پختگی میسر آتی ہے۔