اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 71633
ڈاؤنلوڈ: 5542

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71633 / ڈاؤنلوڈ: 5542
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

نماز کے طبی فوائد

نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول(ص) نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، سرِدست چونکہ ہمارا موضوع طبی تحقیقات کے اِرتقاء میں اِسلام کا کردار ہے اِس لئے یہاں ہم اِسی موضوع کو زیرِبحث لائیں گے۔ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہر ( physiotherapists ) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا کہ جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔

ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکیج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( وَ إِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوا کُسَالٰی ) ۔(النساء ۴:۱۴۲)

اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔

تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درُست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول لیول کو اعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔

قرآنی اَحکامات کی مزید توضیح سرکارِ مدینہ(ص) کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:

فإنّ فی الصلٰوةِ شِفاءٌ ۔ (سنن ابن ماجہ:۲۲۵)

بیشک نماز میں شفاء ہے۔

جدید سائنسی پیش رفت کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار ۱۵۰ سے ۲۵۰ ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ جبکہ دُوسری طرف نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں اِس لئے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال کی وجہ سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے اِس لئے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔

نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِ جدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں تاجدارِ حکمت (ص) کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

حضور(ص) نے اِرشاد فرمایا:

أذِیبوا طعامَکم بذکرِ اللهِ وَ الصلٰوةِ (المعجم ا لأوسط،۵:۵۰۰، رقم:۴۹۴۹) (مجمع الزوائد،۵:۳۰)

اپنی خوراک کے کولیسٹرول کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔

اگر ہم رسولِ اکرم (ص) کے اِرشاد اور عمل کے مطابق صحیح طریق پر پنج وقتی نماز ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔ نماز کی مختلف حالتوں میں جو ورزش ہوتی ہے اُس کی تفصیل درج ذیل ہے:

تکبیرِ تحریمہ

تکبیرِ تحریمہ کے دوران نیت باندھتے وقت کہنی کے سامنے کے عضلات اور کندھے کے جوڑوں کے عضلات حصہ لیتے ہیں۔

قیام

ہاتھ باندھتے وقت کہنی کے آگے کھنچنے والے پٹھے اور کلائی کے آگے اور پیچھے کھنچنے والے پٹھے حصہ لیتے ہیں جبکہ جسم کے باقی پٹھے سیدھا کھڑے ہونے کی وجہ سے اپنا معمول کا کام ادا کرتے ہیں۔

رُکوع

رکوع کی حالت میں جسم کے تمام پٹھے ورزش میں حصہ لیتے ہیں۔ اُس میں کولہے کے جوڑ پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ گھٹنے کے جوڑ سیدھی حالت میں ہوتے ہیں۔ کہنیاں سیدھی کھنچی ہوئی ہوتی ہیں اور کلائی بھی سیدھی ہوتی ہے جبکہ پیٹ اور کمر کے پٹھے، جھکے اور سیدھے ہوتے وقت کام کرتے ہیں۔

سجدہ

سجدے میں کولہوں، گھٹنوں، ٹخنوں اور کہنیوں پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ ٹانگوں و رانوں کے پیچھے کے پٹھے اور کمر و پیٹ کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں اور کندھے کے جوڑ کے پٹھے اس کو باہر کی طرف کھینچتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کلائی کے پیچھے کے عضلات بھی کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ سجدے میں مردوں کے برخلاف عورتوں کے لئے گھٹنوں کو چھاتی سے لگانا احسن ہے یہ بچہ دانی کے پیچھے گرنے کے عارضے کا بہترین علاج ہے۔ سجدہ دل و دماغ کو خون کی فراہمی کے لئے نہایت ہی موزوں عمل ہے۔

تشہّد

التحیات کی صورت میں گھنٹے اور کولہے پر جھکاؤ ہوتا ہے، ٹخنے اور پاؤں کے عضلات پیچھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں، کمر اور گردن کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔

سلام

سلام پھیرتے وقت گردن کے دائیں اور بائیں طرف کے پٹھے کام کرتے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ سنتِ نبوی کی پیروی میں درُست طریقے سے نماز ادا کرنے کی صورت میں اِنسانی بدن کا ہر عضو ایک قسم کی ہلکی پھلکی ورزش میں حصہ لیتا ہے جو اُس کی عمومی صحت کے لئے مفید ہے۔

کم خوری اور متوازن غذا

طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔

ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھاری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔

قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( کُلُوا وَ اشرَبُوا وَ لَا تُسرِفُوا إِنَّه لَا یُحِبُّ المُسرِفِینَ ) (الاعراف، ۷:۳۱)

کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاقرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم (ص) نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے:

إنّ المؤمنَ یأکلُ فی معیٍ واحدٍ، وَ الکافر یأکلُ فی سبعة أمعاء ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۱۲) (جامع الترمذی، ۲:۴) (سنن الدارمی،۲:۲۵)

مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا:

إنّ اللهَ یبغض الأ کلَ فوق شبعه ۔(کنزالعمال: ۴۴۰۲۹)

اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

بسیار خوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت (ص) کا فرمان ہے:

أکثر الناسِ شبعاً فی الدُّنیا أطولهم جوعاً یومَ القیامةِ ۔ (سنن ابن ماجہ :۲۴۸)

جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔

اِسی طرح نبی اکرم(ص) نے مزید اِرشاد فرمایا:

حسب الآٰدمی لقیمات، یقمن صلبہ، فإن غلبت الآٰدمی نفسہ فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس۔

اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔ (سنن ابن ماجہ :۲۴۸)

کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلئے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیار خوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔

مجوزّہ غذائیں

اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بنیادی شے خوراک کی مقدار نہیں بلکہ ایسی خوراک کا چناؤ ہے جو متوازن ہو اور تمام جسمانی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر سکے۔ کھانا کھاتے وقت اگر ہم اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو بہت سے اَمراض سے بچ سکتے ہیں۔ حلال غذائیں یوں تو بے شمار ہیں مگر اُن میں چند ایک ہی ایسی ہیں جن کی ترغیب قرآن و سنت سے ملتی ہے اور وُہی غذائیں اِنسانی جسم کے لئے حیرت انگیز حد تک مفید ہیں۔

عام آدمی کو روزانہ جتنی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے:

حرارے ( calories )

۲۹۰۰ کیلوریز عام اوسط مردوں کیلئے، ۲۲۰۰ کیلوریز اوسط خواتین کے لئے

نشاستہ ( carbohydrates )

۴۰۰ گرام

نمکیات ( minerals )

سوڈیم کلورائیڈ، کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، سلفر، فاسفورس، اور آیوڈین کی شکل میں۔

لحمیات ( proteins )

کم از کم ۴۵ گرام

حیاتین ( Vitamins )

وٹامن A ، وٹامن B۱ ، B۲ ، B۶ ، B۱۲ ، وٹامن C ، وٹامن D اور وٹامن E

چکنائیاں ( fats )

صرف اتنی مقدار جتنی توانائی کے لئے جلائی جا سکے

پانی ( water )

خالص اور جراثیم سے پاک، یہ جسم کے ۶۶[ L: ۳۷ ] حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ویسے تو تمام حلال غذائیں اِستعمال کرنا جائز ہے مگر قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں بعض غذاؤں سے متعلق خاص ہدایات دیتی دِکھائی دیتی ہیں۔

گوشت ( Meat )

گوشت اِنسانی خوراک کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ بعض جانوروں کا گوشت عام انسانی صحت کے لئے مفید ہے جبکہ دوسرے بعض جانوروں کا گوشت کچھ مضر ہے۔ دیگر جانوروں کا گوشت مکمل طور پر نقصان دہ بھی ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کسی طور پر انسان کے لئے مناسب نہیں شریعت نے اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔ جن کا گوشت قدرے غیرمفید ہے اُن کا اِستعمال اگرچہ روا رکھا ہے مگر اُسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ جو جانور اپنے گوشت میں مضرات نہیں رکھتے اور صحتِ اِنسانی کے لئے مفید ہیں اُن کا گوشت کھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ شریعتِ مطہرہ میں چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے گوشت کو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن سفید گوشت (یعنی مچھلی اور پرندوں وغیرہ کے گوشت) کو ترجیح دی گئی ہے اُس میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے اور اِس طرح وہ دِل کے لئے کسی نقصان کا باعث نہیں بنتا۔

گائے کا گوشت ( Beef )

پیارے نبی(ص) نے سرخ گوشت کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے:

علیکم بألبانِ البقر فإنّها شفاءٌ، و سمنها دواءٌ و لحومها داءٌ ۔ (زاد المعاد، ۴:۳۲۴) (المستدرک للحاکم،۴:۱۰۴،۱۹۷)

گائے کا دودھ شفا ہے، اُس کے مکھن میں طبی فوائد ہیں، جبکہ اُس کے گوشت میں بیماری ہے۔

گائے کا گوشت جسے سرخ گوشت بھی کہتے ہیں اُس میں کولیسٹرول کی بہت بڑی مقدار ہوتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے نبی اکرم(ص) کے اِرشاد کی مزید تصدیق کر دی ہے۔

جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک جرثومہ taenia saginate پایا جاتا ہے جو پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اُس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

۱۰۰گرام گائے کے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی یہ مقدار پائی جاتی ہے:

-۱ پکے ہوئے قیمے میں ۲۲۹ حرارے ۱۵.۲ گرام چکنائیاں

-۲ پشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے میں ۲۴۶ حرارے ۱۴.۶ گرام چکنائیاں

-۳ کباب میں ۲۱۸ حرارے ۱۲.۱ گرام چکنائیاں

-۴ روسٹ کئے ہوئے پٹھہ میں ۲۸۴ حرارے ۲۱.۱ گرام چکنائیاں

چھوٹا گوشت ( Mutton )

اِس میں بھی بہت زیادہ چکنائی ہوتی ہے، درج ذیل جدول میں دیکھئے کہ ۱۰۰ گرام چھوٹے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی مقدار یوں ہے:

-۱ ٹانگ کا بھنا ہوا گوشت ۲۶۶ حرارے ۱۷.۹ گرام چکنائیاں

-۲ پشت کا بھنا ہوا گوشت ۳۵۵ حرارے ۲۹ گرام چکنائیاں

-۳ کباب (چربی کے بغیر گوشت) ۲۲۲ حرارے ۱۲.۳ گرام چکنائیاں

-۴ بھنا ہوا چربی کے بغیر گوشت ۱۹۱ حرارے ۸.۱ گرام چکنائیاں

چھوٹے گوشت میں گردن ایک ایسا عضو ہے جس میں چکنائی کی مقدار باقی بدن کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔ اسی لئے اس میں کچھ زیادہ کولیسٹرول نہیں ہوتا۔ چنانچہ نبی اکرم (ص) نے چھوٹے گوشت میں سے گردن کے گوشت کو تجویز کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

و کان أحبّ الشاةِ إلٰی رسول ﷲ (ص) مقدّمها و کل ما علا منه سوی الرأس کان أخفّ و أجود مما سفل ۔

(زاد المعاد، ۴:۳۷۳)

رسول اللہ (ص) کو بکری میں سب سے زیادہ اگلے حصے (گرد)ن کا گوشت پسند تھا اور جو کچھ سر کے علاوہ اگلے بدن میں ہے کیونکہ یہ حصہ خفیف (بوجھل پن سے پاک) ہوتا ہے اور پچھلے حصے کی نسبت عمدہ ہوتا ہے۔

ماہرینِ غذا نے بھی بغیر چربی کے گوشت ( lean ) کو بہترین قرار دیا ہے کیونکہ اُس میں سیرشدہ چکنائی نسبتاً کم ہوتی ہے۔

سفید گوشت ( White meat )

مچھلی اور پرندوں کے گوشت میں چونکہ نسبتاً کم چکنائی ہوتی ہے اِس لئے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں اُس کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید نے پرندوں کے گوشت کو "جنت کی خوراک" قرار دیا ہے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ( لَحمِ طَیرٍ مِّمَّا یَشتَهُونَ ) (الواقعہ، ۵۶:۲۱)

اور اُنہیں پرندوں کا گوشت ملے گا، جتنا وہ چاہیں گےعلاوہ ازیں نبی مکرم(ص) نے گوناگوں غذائی اور طبی فوائد کی بنا پر ہی مچھلی کے گوشت کی خاص طور پر اِجازت عطا کی۔ سفید مچھلی میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے جبکہ تیل والی مچھلی میں غیرسیرشدہ چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ کولیسٹرول کے تناسب کو خود بخود کم کر دیتی ہے۔ اِس لئے اُس کا اِستعمال بھی اِنسانی صحت کے لئے مفید ہے۔

انجیر اور زیتون ( Fig / Olive )

قرآنِ مجید میں انجیر اور زیتون کی اہمیت کو اللہ ربّ العزت نے قسم کھا کر اُجاگر کیا ہے، فرمایا:

( وَ التِّینِ وَ الزَّیتُونِ ) (التین، ۹۵:۱)

انجیر اور زیتون کی قسمانجیر سے کیلشیم، فاسفورس اور فولاد کے ضروری اجزاء کی بڑی مقدار حاصل ہوتی ہے لیکن اُس کی زیادہ مقدار ریشے ( fibre )میں پائی جاتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں اور چھاتی کو طاقت بخشتا ہے اور ذہنی و قلبی امراض کے علاج میں مدد دیتا ہے۔ چونکہ اُس میں ریشے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اِس لئے غیرسیرشدہ چکنائی ہونے کے ناطے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا اِستعمال دل کے مریض کے لئے بہت مفید ہے۔

قرآنی پھل ہونے کے ناطے زیتون بہت سے اَمراض میں مفید ہے۔ جو لوگ اپنی روزانہ خوراک میں کولیسٹرول کی کمی کرنا چاہتے ہیں اُن کے لئے زیتون کا تیل گھی کا بہترین متبادل ہے۔

۱۰۰ گرام زیتون ان اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:

کیلوریز ۸۲

پروٹین ۰.۷ گرام

سیرشدہ چکنائیاں ۱.۲ گرام

غیر سیرشدہ چکنائیاں ۱.۰ گرام

غذائی ریشہ ۳۵گرام

مکمل چکنائی ۸.۸گرام

جبکہ اِس میں کولیسٹرول کی مقدار صفر ہوتی ہے۔

چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج کی جدید طب کی تحقیق یہ ہے کہ جمنے والی چیزوں بناسپتی گھی وغیرہ کو چھوڑ کر اُس کی جگہ تیل کو اِستعمال میں لایا جائے تاکہ اِنسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار مقررّہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اُن محققین و ماہرینِ طب کی نظر سے آقائے دوجہاں(ص) کے فرمودات و اِرشادات کا یہ رُخ گزرے تو اُنہیں اِسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے چودہ سو سال قبل زیتون کی اِفادیت کا اِعلان فرما دیا تھا۔ آج زیتون کی یہ تحقیق ثابت ہو چکی کہ اَمراضِ قلب، انجائنا، بلڈپریشر اور اَمراضِ سینہ وغیرہ میں زیتون کا تیل نہایت مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں دل کے اَمراض باقی دُنیا کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں کے باشندے گھی اور مکھن جیسی چکنائیوں کی بجائے زیتون کا تیل کثرت سے اِستعمال کرتے ہیں۔

یہاں تاجدارِ رحمت و حکمت(ص) کا یہ فرمان خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:

إنّ عمر بن الخطاب قال، قال رسول ﷲ (ص): "کلوا الزیت وَ ادّهنُوا به، فإنّه مِن شجرةٍ مبارکةٍ ۔ (جامع الترمذی، ۲:۶)

حضرت عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم (ص) نے فرمایا: "تم روغنِ زیتون کو کھاؤ اور اُس کا بدن پر بیرونی اِستعمال بھی کرو کیونکہ وہ مبارک درخت سے ہے"۔

شہد ( Honey )

شہد حفظانِ صحت کے لئے بہترین ٹانک ہے۔ قدرت نے اُس میں اِنسانی جسم کی تمام ضروریات و مقتضیات کو یکجا کر دیا ہے۔ شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:

فِیهِ شِفآء لِّلنَّاسِ ۔ (النحل، ۱۶:۴۹)

اُس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔

اِس ضمن میں رسولِ اکرم(ص) کا اِرشاد ِگرامی ہے:

علیکم بالشفائین، العسل و القرآن ۔

دو چیزیں شفا کے لئے بہت ضروری ہیں: (کتابوں میں) قرآن اور (اشیائے خوردنی میں) شہد۔ (سنن ابن ماجہ :۲۵۵)

شہد نہ صرف حفظانِ صحت کے لئے مفید ہے بلکہ اُس میں بہت سی بیماریوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ایک بیمار صحابی کا واقعہ بھی مذکور ہے جو نہایت موذی مرض میں مبتلا تھے اور اُنہیں شہد ہی سے اِفاقہ ہوا۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ یوں ہیں:

عن أبی سعید، قال: جآء رجل إلی النبی(ص)، فقال: "إن أخی إستطلق بطنه"، فقال: "اسقه عسلاً"، فسقاه، ثمّ جآء، فقال: "یارسولَ ﷲ! قد سقیتُه عسلاً فلم یزده إلا إستطلاقًا"، فقال رسول ﷲ(ص): "اسقه عسلاً"، قال فسقاه، ثم جآء، فقال: "یارسول ﷲ! إنی قد سقیتُه فلم یزده إلا إستطلاقا"، قال: فقال رسول ﷲ(ص): "صدق ﷲ و کذب بطن أخیک، اسقه عسلاً"، فسقاهُ فبرأ ۔

ابو سعید خدری روایت کرتے ہیںکہ حضور اکرم (ص) کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اُس کے بھائی کو اِسہال لگے ہوئے ہیں۔ آپ(ص) نے اُس کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ اُس شخص نے واپس آ کر بتایا کہ اِسہال زیادہ ہو گئے ہیں، آپ(ص) نے فرمایا: "اُسے پھر شہد دو"۔ اِس طرح اُس بیمار کو تین مرتبہ شہد دیا گیا۔ چوتھی مرتبہ حضور(ص) کو بتایا گیا کہ آرام نہیں آیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ خداوند تعالی نے شہد کے متعلق جو فرمایا ہے وہ درُست ہے لیکن تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ چنانچہ بیمار کو پھر شہد دیا گیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ (جامع الترمذی، ۲:۲۹)

شہد کے اجزاء

امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے بہت بڑے کیمسٹ ’ڈاکٹر سی اے براؤن‘ نے شہد میں موجود مندرجہ ذیل غذائی اَجزاء معلوم کئے ہیں:

۱۔ پھلوں کی شکر ۴۰ سے ۵۰ فیصد

۲۔ انگور کی شکر ۳۴.۲ فیصد

۳۔ گنے کی شکر ۱,۹ فیصد

۴۔ پانی ۱۷.۷ فیصد

۵۔ گوند وغیرہ ۱.۵ فیصد

۶۔ معدنیات ۰.۱۸ فیصد

شہد میں فولاد، تانبہ، میگنیز، کلورین، کیلشئم، پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، گندھک، ایلومینیم اور میگنیشئم بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے سائنسدان کھلاڑیوں پر تجربات کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شہد کو عام قسم کی شکر پر مندرجہ ذیل فوقیتیں حاصل ہیں:

-۱ شہد معدے اور انتڑیوں کی جھلی میں خراش پیدا نہیں ہونے دیتا۔

-۲ یہ زُود ہضم ہے۔

-۳ اِس کا گُردوں پر کوئی مضر اثر نہیں ہے۔

-۴ یہ اَعصابِ ہضم پر بغیر بوجھ ڈالے حراروں کا بہترین سرچشمہ ہے۔

-۵ شہد تھکاوٹ کو بہت جلد دُور کرتا ہے اور اُسے باقاعدہ اِستعمال کرنے والا جلدی نہیں تھکتا۔

-۶ یہ کسی حد تک قبض کشا بھی ہے۔