اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 71652
ڈاؤنلوڈ: 5542

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71652 / ڈاؤنلوڈ: 5542
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

علمُ الطب ( Medical Science )

اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ المثال مقام کی حامل ہے۔ اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام سرِ فہرست آتے ہیں۔

"مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال اور طبی اِدارے ( medical colleges ) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ ( pharmacy ) اور علمُ الجراحت ( surgery ) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں"۔

( Islamic Science, S.H. Nasr, pp.۱۵۶ )

ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب ’الرازی‘(۹۳۰ء)نے علمُ الطب ( medical science ) پر ۲۰۰ سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا لا طینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف ۱۴۹۸ء سے ۱۸۶۶ء تک تقریباً ۴۰ مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی ’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔

اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا ( Avicenna)(۱۰۳۷ ئ) نے ’القانون‘ ( Canon of Medicine ) لکھ کر دُنیائے طب میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دیگر زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب ۱۶۵۰ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی۔

ابو ریحان البیرونی (۱۰۴۸ء) نے pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے :

"جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے"۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں:

The practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection. Travelling hospitals were known in the eleventh century ۔ ۔ ۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around ۱۲۸۴ AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentery and kindred intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a dispensary and so on

( E. G. Browne, Arabian Medicine, pp.۱۰۱ )

ترجمہ "اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور ادویہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادویہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری ( mobile ) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔ ۱۲۸۴ء کے قریب دمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے ( fever ward ) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے ( eye ward ) ایک وارڈ سرجری کے لئے ( surgical ward ) اور ایک وارڈ پیچش ( dysentery ) اور آنتوں کی بیماریوں ( intestinal ailments ) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا گیا تھا"۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو:

" Their medical studies, later translated into Latin and the European languages, revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The work of Abul-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of al-Majusi (died ۹۸۲ AD), which shows according to Browne that the Muslim physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in the works of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died ۱۲۸۸ AD) was the first in time and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to the left cavity of the heart

( Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, ۲۳:۱۶۶, June, ۱۹۳۵ )

ترجمہ: "اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التألیف‘ جس کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات۹۸۲ء) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادی تصوّرات اور معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات۱۲۸۸ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقیناً پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے"۔

علم ادویہ سازی ( Pharmacology )

Seirton اور Gulick جیسے مغربی محققین نے لکھا ہے کہ ابن البیطار نے سادہ ادویات کے مجموعے ( collection of simple drugs ) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ علمِ نباتات ( botany ) پر عربی زبان میں اُس زمانے کی سب سے بڑی تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ اُس نے بحیرۂ رُوم میں اندلس ( Spain ) سے لے کر شام ( Syria )تک کے علاقے سے مختلف پودے، جڑی بوٹیاں اور دوائیاں اِکٹھی کیں اور۱,۴۰۰ سے بھی زیادہ طبی ادویات کا اپنی کتاب میں ذِکر کیا اور اُن کا موازنہ اپنے سے قبل ۱۵۰ دیگر مصنفین کی تصنیفات سے بھی کیا:

Ibn al-Baytr wrote the Collection of Simple Drugs, which is regarded as the greatest Arabic book on botany of the age. He collected plants, herbs and drugs around the Mediterranean from Spain to Syria and described more than ۱۴۰۰ medicinal drugs, comparing them with the records of over ۱۵۰ writers before him

اُس دَور کے عظیم مسلمان ادویہ سازوں ( pharmacologists ) میں ابوبکر محمد بن زکریا رازی، علی بن عباس، ابوالقاسم خلاف ابن عباس الزہراوی (جسے لاطینی زبان میں Albucasis کا نام دیا گیا)، ابو مروان ابن ظہر (جسے لاطینی زبان میں Aben Bethar کا نام دیا گیا) کے نام بڑے معروف ہیں۔

اِسی طرح medicine پر ابنِ رُشد ( Ibn Rushd ) کی ’کتابُ الکلیات‘ ایک معرکہ آراء تصنیف ہے، جسے لاطینی میں ترجمہ کر کے پورے عالمِ مغرب میں نصابی کتاب ( textbook ) کا درجہ دیا گیا مگر اَفسوس کہ ترجمہ کے ذریعے اُس کا نام بدل کر colliget بن گیا، جسے آج کوئی معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ حقیقت میں کون سی کتاب تھی۔ ( Islamic Science, p.۱۸۱ )

علمُ الجراحت ( Surgery )

اندلس کے عظیم طبیب اور سرجن ابوالقاسم بن عباس الزہراوی کی نسبت پروفیسر Hitti لکھتا ہے:

Albucasis (۱۰۱۳ AD) was not only a physician but a surgeon of the first rank. He performed the most difficult surgical operations in his own and the obstetrical departments. The ample description he has left of the surgical instruments employed his time gives an idea of the development of surgery among the Arabs in lithotomy, he was equal to the foremost surgeons of modern times. His work al-Tasrif li-Man Ajaz an al-Ta'alif (an aid to him who is not equal to the large treatises) introduces or emphasises new ideas. It was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in ۱۴۹۷ AD, at Basle in ۱۵۴۱ AD and at Oxford in ۱۷۷۸ AD. It held its own for centuries as the manual of surgery in Salerono, Montpellier and other early schools of medicine ."

( Hitti, History of Arabs, pp.۵۷۶-۵۷۷ )

ترجمہ "آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اوّل درجے کے عظیم سرجن بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے شعبے میں اِنتہائی مشکل اور پیچیدہ سرجری (آپریشن) کئے اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے زچگی کے شعبے میں بھی آپریشن کئے اور اُنہوں نے اپنے زیر استعمال آلاتِ سرجری کی بڑی واضح اور روشن وضاحت کی ہے، جس سے عربوں میں سرجری کے فن کی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ Lithotomy میں وہ موجودہ دَور کے عظیم ترین سرجنوں کا ہم پلہ تھے۔ اُن کا کام ’التصریف لِمن عجز عنِ التألیف‘ نئے تصوّرات کو متعارف کرواتا ہے۔ اُس کا ترجمہ کریمونا ( Cremona ) کے Gerard نے کیا اور اُس کے مختلف ایڈیشن ۱۴۹۷ء میں وینس سے اور ۱۵۴۱ء میں باسلے اور ۱۷۷۸ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا مقام و مرتبہ صدیوں تک سرجری کے علم میں برقرار رکھا اور طب کے اِبتدائی اَیام میں بھی طبی سکولوں میں اچھے کام کے ساتھ متعارف رہے"۔

سید حسین نصر نے ابنِ زہر کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھا ہے:

Al-Zahrawi's rank in the art of surgery was paralleled by that of Ibn Zuhr (Aven-Zoar) in the science of medicine (۱۰۹۱-۱۱۶۲ AD). Of the six medical works written by them three are extent. The most valuable is al-Taysir fil-Mudawat al-Tadbir (the Facilitation of Therapy and Diet). Ibn Zuhr is hailed as the greatest physician since Galen. At least he was the greatest clinician in Islam after al-Razi. Ibn Zuhr wrote another book, Kitab al-Aghdhiyah (the Book of Diets) which is among the best of its kind dealing with the subject

( Islamic Science, p.۱۸۱ )

ترجمہ: "ابنِ زہر کا مرتبہ ادویہ ( medicine ) میں وُہی ہے جو الزہراوی کا سرجری ( surgery ) کے فن میں تھا۔ جو چھ قسم کا کام اُنہوں نے ’ادویہ سازی‘ پر کیا اُن میں سے تین ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ سب سے گراں قدر کام ’خوراک اور غذائیت کی نشو و نما‘ ہے۔ گیلن کے بعد ابنِ زہر کو سب سے بڑا طبیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ کم از کم ’الرازی‘ کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب ( clinic ) کے مالک تھے۔ ابنِ زہر نے ایک اور تصنیف ’کتاب الاغذیہ‘ بھی ہے، جو اپنے موضوع کے اِعتبار سے اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے"۔

علمِ اَمراضِ چشم ( Ophthalmology )

مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے علاوہ دیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔

Muslim physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists) and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the art for centuries. Ali ibn Isa's works were taught everywhere and even translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources on this subject

( Islamic Science, pp.۱۶۶-۱۶۷ )

بیہوش کرنے کا نظام ( Anaesthesia )

علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔

Ali ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into Latin and Hebrew languages

( Islamic Science, p.۱۷۸ )

علمُ الکیمیا ( Chemistry )

اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزید (۷۰۴ء) اور امام جعفر الصادق (۷۶۵ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (۷۷۶ء) اِمام جعفر الصادق ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر ( hypothesis / speculation )کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت ( objective experimentation ) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی ( Alchemy ) باقاعدہ سائنس کا رُوپ دھار گئی۔ evaporation ، sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد ’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین ( The Seventy Books ) اور کتابُ المیزان ( The Book of Balance ) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘، ’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔ یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً الرازی کو Rhazes ، ابنِ سینا کو Avicenna ، ابوالقاسم کو Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی اِصطلاحات بھی تراجم کے ذریعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل ( Arabic origin ) ہیں۔

اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں:

۱. Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.۵۷۸-۵۷۹ (London, ۱۹۷۴ ).

۲. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, ۱۹۶۵ ).

۳. Corbin, En Islamiranien vol.۲, chap.۴ (Paris, ۱۹۷۱ )

۴. F.A.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, ۱۹۶۴ )

۵. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, ۱۹۷۶ ))

۶. George Sorton, An Introduction to the History of Science

۷. Briffault, The Making of Humanity

۸. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, ۱۹۴۷ )

۹. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh )

۱۰. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, ۱۹۶۹ )

فنونِ لطیفہ( Fine Arts )

جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ ( calligraphy )کو فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ ( architecture ) اور’ فن تزئین و آرائش‘ ( decorative art ) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِ نبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِخُلد(بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔

اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر ترویج ملی اور وہاں خطّاطی ( calligraphy )، موسیقی ( music )، تعمیر و تزئین( architecture / decorative art )، مصوّری ( painting )، فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

علمِ فقہ و قانون ( Law / Jurisprudence )

اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہ (متوفی ۱۵۰ھ) نے دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا جو صدیاں گزرنے کے با وُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔

۱ ۔ آپ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانی نے ’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ اعظم کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن پر بعد ازاں اِمام سرخسی نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strake اور Oppenheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام سرخسی کی ہی ۳۰ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون ( law ) پر آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ المثال مجموعہ ہے۔ یہ تاجدارِ کائنات (ص) ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔

۲۔ بین الاقوامی قانون پر اِمام زید بن علی (متوفی ۱۲۰ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالک، اِمام ابویوسف، اِمام محمد، اِمام اَوزاعی، اِمام شافعی اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔

۳۔ comparative case law ، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ کے نمونے ہیں۔

۴۔ علمِ دستور ( constitutional law ) پر دُنیا کی سب سے پہلی با ضابطہ دستاویز خود حضور سرورِ کائنات (ص) کا تیار کردہ "میثاقِ مدینہ" ( The Pact of Madina ) ہے، جو ۶۳ دفعات ( articles ) پر مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشام، ابنِ اِسحاق، ابو عبید، ابنِ سعد، ابنِ کثیر اور ابنِ اَبی خثیمہ کے ذریعے کامل شکل میں ہم تک پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر ۱۲۱۵ء میں اُس وقت شروع ہوا جب شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘ ( Magna Carta ) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے ۵۹۳ سال قبل ہجرت کے پہلے سال ۶۲۲ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبیٔ اکرم (ص) کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ( written constitution ) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات میں حضور نبیٔ اکرم (ص) کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (۵۰۰ ق م)، آرتھ شاستر (۳۰۰ ق م) اور ارسطو (۳۲۲ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘( Athenian Constitution ) جو گزشتہ صدی میں مصر سے دریافت ہوا اور ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پند و نصائح شامل ہیں۔ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ شان سب سے پہلے "میثاقِ مدینہ" کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی (ص) کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔

تاجدارِ کائنات (ص) کی طرف سے دستوری و آئینی کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردی اور ابوعلی کی ’الاحکام السلطانیہ‘ ،غزالی کی ’نصیحۃُ الملوک‘، طرطوسی کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابی کی ’المدینہ الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء مقننہ ( legislature )، اِنتظامیہ ( executive ) اور عدلیہ ( judiciary ) کو الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ پذیر ہوا۔

۵۔ Common law پر باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات ( juristic / legal codes ) بھی اِسلام کی دُوسری صدی کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب ( parts / chapters ) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات ( religious laws ) ، مناکحات ( family laws )، معاملات و معاہدات ( civil / contractual laws )، عقوبات ( penal laws )، مالیات ( fiscal laws ) اور قضا و شہادات ( procedural / evidence laws ) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبیٔ اکرم (ص) کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی دُنیا بنیادی حقوقِ انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔

اِمام ابو حنیفہ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے شاگرد اِمام محمد نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالک کی ’الموطا‘، اِمام شافعی کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں "فقہ حنفی" میں سرخسی کی ’المبسوط‘، مرغینانی کی ’الھدایہ‘، ابن ہمام کی ’فتح القدیر‘، کاسانی کی ’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، "فقہ مالکی" میں ابنِ سحنون کی ’المدوّنۃ الکبریٰ‘، ابنِ جزی کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحون کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطاب اور خرشی کی شرح ’المختصر‘ وغیرہ، "فقہ شافعی" میں نووی کی ’المجموع‘، غزالی کی ’الوجیز‘، بصیر کی ’النہایہ‘ وغیرہ، "فقہ حنبلی" میں ابنِ قدامہ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیم کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزم کی ’المحلی‘ اور القرافی کی ’الفروق‘ وغیرہ، "فقہ جعفریہ" میں الحلی کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘ وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات ( judicial decisions ) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ اِمام نووی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔

۶۔ fiscal / taxation law اور administrative law میں اِمام ابو یوسف اور یحییٰ بن آدم کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلام کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔

علم تاریخ اور عمرانیات ( Historiography / Sociology )

اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی ا بلکہ دس ہزار سے زائد صحابہ کرام کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔ تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے تحت محققین نے ۵ لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دیگر رُواۃِ حدیث کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاق، جنہوں نے عہدِ حضرت آدمؑ سے عہدِ رسالت مآب (ص) تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی، اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشام، طبری ، مسعودی، مسکویہ حلبی، اندلسی، ابنِ خلدون، دیار بکری، یعقوبی، بلاذری، ابنُ الاثیر، ابنِ کثیر، سہیلی، ابنِ سیدُالناس وغیرہ کے کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ political thought اور sociology میں غزالی، فارابی، ماوردی، ابنِ خلدون، ابنِ رُشد، ابنِ تیمیہ، ابنُ القیم اور شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔

جغرافیہ اور مواصلات ( Geography / Communications )

اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ بلاذری اور ابنِ جوزی بیان کرتے ہیں کہ عہدِ فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘ ( Central Asia ) سے ’مصر‘ ( Egypt ) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی تھی۔ geography اور topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی ( alphabetic order ) میں فراہم کرنے کا اِہتمام کیا جاتا تھا۔

اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے تیار کئے اور cartography کے فن پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروی شکل ( circular shape ) میں دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم ( Mediterranean sea ) کی حُدود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔ اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (۱۱۰۱ء ۔ ۱۱۵۴ئ) کے لئے آج سے ۹ صدیاں قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طویل ترین دریا ’دریائے نیل‘ ( Nile ) کے مصادر ( sources ) تک کی خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے ۶,۰۷۶ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

’یاقوت حموی ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم ( dictionary ) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات حروفِ تہجی کی ترتیب ( alphabetic order ) سے پیش کی ہیں۔

’خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ ( Image of the Earth ) کے نام سے ایسا جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔

’حمدانی‘ (۹۴۵ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔

نامور مغربی مؤرِخ Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے اِعتراف میں لکھا ہے کہ:

" The bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels ."

( History of the Arabs, pp.۳۸۳-۳۸۷ )

ترجمہ: "اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔ ۔ ۔ خواہ وہ ’علمِ فلکیات‘ (اَجرامِ سماوی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی) کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔ ۔ ۔ اندلس ( Spain ) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی ( Sicily ) کے ذریعے عالمِ مغرب میں داخل ہوا"۔

علمِ جغرافیہ ( geography ) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ ۱۳۳۱ء میں چین ( China ) کا سرکاری نقشہ ( official map ) بھی مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔

( Islamic Culture, ۸:۵۱۴, Oct.۱۹۳۴ )

وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا ( Scandinavia )، فن لینڈ ( Finland )، کازن ( Kazan ) اور رُوس ( Russia ) کے دیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں، مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما ( compass ) کے اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal ، admiral ، cable ، monsoon اور tariff وغیرہ جیسے بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوی زندگی میں صدیوں تک علمی و فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں ’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل ۱۰ سے ۱۵ اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبیٔ اکرم (ص) کا فیضانِ سیرت اور آپ(ص) کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔

اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات

یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔

ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:

The coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse. It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad conquered Makkah in ۶۳۰ AD, it took the southern world by storm. In a hundred years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By ۷۳۰ AD the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe lapsed into the Dark Age ۔ ۔ ۔ Muhammad had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in intellectual content a pattern of contemplation and analysis

( J Bronowski, The Ascent of Man, London ۱۹۷۳, pp.۱۶۵-۱۶۶ )

ترجمہ: "حضرت عیسیٰؑ کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبیٔ اکرم (ص) ۶۳۰ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی ایران کے شہر ’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ ۷۳۰ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمد(ص) نے اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔

اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے:

It should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden Age of Islamic civilisation

( Muhammad, The Educator )

ترجمہ: "اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبیٔ اکرم (ص) کے اُن اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے"۔

پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے:

These statements must not be construed as idle and useless words. The results have been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks

( Muhammad, The Educator )

Robert L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے"۔

اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے:

It is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never have assumed that ۔ ۔ ۔ character which has enabled it to transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit. What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs

( The Making of Humanity, pp.۱۹۰-۱۹۱ )

رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشو و نما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘، ’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔

یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے:

There is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture

( Joseph Schacht / C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.۴۲۶-۴۲۷ )

ترجمہ: "اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشأۃِ ثانیہ پر دیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس ( Spain ) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا"۔

ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے:

Islam, impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator of the Renaissance in Europe

( Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture )

Stanwood Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ کی نشأۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔

اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا تھا؟

Robert L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا اِظہار کیا ہے:

That important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs is not open to question. But were these development the result of the influence of Muhammad[L: ۶۳ ]

( Muhammad, The Educator )

ترجمہ: "یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمد(ص) کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی"۔

اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدی(ص) تھی، جس کے ذریعے عرب مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجو کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔

Reverend George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے:

No revolution in history, if we accept that affected by the religion of the Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world than that which has grown out of the rise, progress and permanence of Muhammadanism

( The Life of Muhammad )

ترجمہ: "اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اِسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا"۔