اِسلامی سپین کا علمی و فنی اِرتقاء
اِسلامی سپین کے آٹھ سو سالہ دَور میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم بھی اِرتقاء کے عمل سے گزرے۔ سپین میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر ترویج کا باقاعدہ آغاز ’عبدالرحمن الناصر‘ کے دَور (۹۱۲ء تا۹۶۱ء) میں ہوا، جو سپین کی اُموی خلافت کا پہلا باضابطہ خلیفہ تھا۔ اِسلامی سپین کے اِبتدائی ۲۰۰سالہ دَور میں مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس کے اِنعقاد اور دُنیا کے تمام علوم و فنون پر کتابیں جمع کرنے کے کام کا آغاز کر دیا تھا مگر اُس کام کی رفتار کوئی خاص نہ تھی۔ اُس دو سو سالہ دَور کی علمی سرگرمیوں کے مشاہدے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اندلس میں علمی و فکری اِرتقاء مشرق کے اِسلامی ممالک کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا۔ اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ کا دَور جہاں تمدّنی حوالے سے قابلِ رشک ہے وہاں سیاسی اِستحکام کی بدولت علوم و فنون کی ترویج میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وہ دَور تھا جب اندلس کے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادیِ اَفکار نصیب ہوئی اور اُنہوں نے علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربی تحقیقات شروع کیں۔ اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا اور علمِ ہیئت ( astronomy )، علمِ ریاضی ( mathematics )، علمِ طب ( medical science )، علمِ نجوم ( astrology )، علمِ کیمیا ( chemistry )، علمِ نباتات ( botany )، علمِ جغرافیہ ( geography ) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔
تعلیم اِس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جا پہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اگر کوئی لکھنا پڑھنا جانتا بھی تھا تو وہ چند پادری لوگ تھے جو فقط اپنے مذہبی علوم سے آشنا ہوتے۔ سائنسی و عقلی علوم کا تصوّر بھی اُس دَور کے یورپ میں مفقود تھا بلکہ کلیسا کی طرف سے عقلی علوم پر کفر کا فتویٰ صادِر کیا گیا تھا۔ دُوسری طرف اِسلامی تعلیمات کے طفیل اندلس کے علمی عروج کا یہ عالم تھا کہ ’عبدالرحمن سوم‘ کے جانشیں ’حکم ثانی‘ کے دورِ خلافت (۹۶۱ء تا۹۷۶ء) میں قرطبہ ایک عالمی علمی مارکیٹ کی حیثیت سے دُنیا بھر میں شہرت اِختیار کر گیا تھا ۔ وہاں کتب فروشوں کی دُکانیں ۲۰ہزار تک جا پہنچی تھیں۔ کتب فروش نہ صرف کتابیں فروخت کرتے تھے بلکہ خاص اِہتمام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ماہر خطاطوں سے کتابت کے ذریعے اُن کی نقول بھی تیار کرواتے تھے ۔ کتابت میں عورتیں بھی مردوں سے کم نہ تھیں۔ شہر کے صرف ایک مشرقی محلے میں ۱۷۰کے قریب خواتین قرآنِ مجید کو خط کوفی میں لکھنے میں خاص شہرت رکھتی تھیں۔
قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، مالقہ ( Malaga )، سرقسطہ ( Zaragoza )، اشبیلیہ ( Seville ) اور جیان ( Jaen ) میں اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ صرف قرطبہ شہر میں حکم ثانی نے بالکل مفت تعلیم کیلئے ۲۷سکول قائم کر رکھے تھے۔ پرائیویٹ تعلیمی اِدارے اُن کے علاوہ تھے۔ نہ صرف تمام اَساتذہ بلکہ مستحق طلبہ کو بھی حکومت کی طرف سے وظائف ملتے اور دورانِ تعلیم اُن کی کفالت کی مکمل ذِمہ داری حکومت پر تھی۔ اندلس تعلیمی میدان میں دورِ حاضر کی جدید تہذیب کی کسی بھی فلاحی ریاست کے مقابلے میں کسی طور کم نہ تھا۔ لوگ علم کو برائے علم حاصل کرتے تھے نہ کہ برائے معاش۔
اندلس کے دُوسرے اُموی خلیفہ حکم ثانی (۹۶۱ء تا ۹۷۶ء) کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر مذہبی علوم کے علاوہ ہیئت ( astronomy )، ریاضی ( mathematics )، طب ( medical sciences )، نجوم ( astrology )، کیمیا ( chemistry )، طبیعیات ( physics )، فلسفہ ( philosophy )، منطق ( logic )، تاریخ ( history ) اور جغرافیہ ( geography ) سمیت تمام علومِ عقلیہ پر مشتمل ۴لاکھ سے زیادہ (ایک رِوایت کے مطابق ۶ لاکھ) کتب موجود تھیں۔ اُس لائبریری کی کیٹلاگ ۴۴ بڑی جلدوں پر مشتمل تھی۔ خلیفہ چونکہ خود بہت بڑا عالم تھا اور سائنس سے گہری دِلچسپی رکھتا تھا اِس لئے اُس نے اُن میں سے بیشتر کتب کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اُن پر جا بجا حواشی بھی چڑھا رکھے تھے۔ اندلس میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد جاہل پادریوں نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں جلا دیں، جن میں ’الحکم‘ کی عظیم الشان لائبریری بھی شامل تھی۔
بنواُمیہ کے بعد اندلس پر چھانے والی ’طوائف الملوکی‘ اور بعد ازاں ’مرابطون‘ کے دَور میں علمی اِرتقاء کا کام کسی حد تک زیرِ زمین چلا گیا مگر جونہی مؤحّدون کا دَور شروع ہوا پہلے کی سی تیزی پھر سے لوٹ آئی اور علمی و فکری میدانوں میں اِرتقاء کی رفتار روز اَفزوں ہو گئی۔ ملک بھر میں جا بجا سینکڑوں تعلیمی اِدارے قائم ہوئے۔ عہدِ مؤحّدون میں صرف قرطبہ ( Cordoba ) میں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے ۸۰۰ سے زائد تعلیمی اِدارے قائم تھے، جہاں ,۰۰۰۱۰ سے زیادہ طلبہ مذہبی و سائنسی ہر دو قبیل کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
سقوطِ قرطبہ کے بعد جب ’بنو نصر‘ غرناطہ ( Granada ) کی ریاست کے حکمران ہوئے تو اُن کے دَور میں بھی علم و فن نے خوب ترقی کی ۔ اُنہوں نے غرناطہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی جس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و اَدب کے علاوہ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی خاطر خواہ اِنتظام کیا گیا تھا۔ مرکزی یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں سینکڑوں سکول اور کالج بھی تھے جو اِبتدائی اور ثانوی تعلیم کی ترویج میں مصروف تھے۔ شہر میں ۷۰ بڑی لائبریریاں تھیں۔ سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں سپین کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔
اِسلامی سپین کے چند اہم علوم
جیسا کہ ہم پہلے ذِکر کر چکے ہیں کہ سپین کا علمی اِرتقاء بغداد اور دمشق کی نسبت کافی تاخیر سے شروع ہوا، جس کی وجہ ریاست کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن الناصر‘ کی تخت نشینی کے بعد جہاں ملک میں اَعلیٰ تہذیب و ثقافت پروان چڑھی وہاں علم و فکر کا راست انداز میں فروغ بھی اُس دَور کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ سائنسی علوم کی حقیقی بنیاد اُسی دَور میں پڑی۔ عبدالرحمن سوم کا دَور کاملاً آزادیِ اَفکار کا دَور تھا، جس کے نتیجے میں فقہائے مالکیہ کی گرفت خاصی کمزور پڑ گئی اور لوگ آزادانہ طور پر سائنس و فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سائنس کی بہت سی شاخوں میں باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ اور اُس کے جانشین ’حکم ثانی‘ نے یونانی علوم کی وہ کتابیں جنہیں پہلے سے بغداد میں عربی میں ترجمہ کر لیا گیا تھا وہ اندلس منگوائیں اور اُنہیں سائنسی علوم کی بنیاد قرار دے کر مزید تحقیقات کے دَر وَا کئے۔
یونانی علماء کا اندازِ فکر فلسفیانہ مُوشگافیوں میں بند تھا۔ مسلمانوں نے اپنی تحقیقات میں تجربہ کو کسوٹی قرار دیا اور علم کے باب میں ایک نئے فکر "سائنسی طریقِ کار" کو فروغ دیا۔ سائنسی طریقِ کار کا حقیقی بانی بغداد کا مسلمان سائنسدان ’ابو البرات البغدادی‘ (۱۰۶۵ء تا ۱۱۵۵ء) ہے جس نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور و خوض کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ مسلمانوں نے اِس فکر کو فروغ دیا کہ تجربہ ہی وہ کسوٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔
بغداد سے نشر ہونے والے اِس نئے فکر کو ۔ ۔ ۔ جو اِسلام ہی کی دی گئی تعلیمات پر مشتمل تھا ۔ ۔ ۔ جلد ہی تمام مسلمانانِ عالم نے دِل و جان سے قبول کر لیا۔ چنانچہ سپین میں بھی تجربہ علومِ سائنس کے حصول کے لئے حتمی کسوٹی قرار پایا۔
یوں تو سپین میں بہت سے سائنسی علوم و فنون پر کام ہوا جن میں سے بیشتر کا ذِکر "قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کے فروغ" کے تحت گزر چکا ہے۔ تاہم علمُ الطب ( medical sciences ) ، علمُ الہیئت ( astronomy ) اور علمِ نباتات ( botany ) دیگر علوم کی نسبت زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اَب ہم اِن علوم میں خاص طور پر اندلسی مسلمانوں کی پیش رفت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ قاری پر تاریخِ علوم کے کچھ مزید مخفی گوشے عیاں ہو سکیں۔
علمُ الطب ( Medical sciences )
اَوائل دَورِ اِسلام میں دُوسرے بہت سے عقلی علوم کے ساتھ ساتھ علمُ الطب ( Medical sciences ) کی کتب کو بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اُس دَور میں طبی تحقیقات کا سارا دار و مدار عیسائیوں بالخصوص یونانیوں کی مترجمہ ( translated ) کتب پر تھا۔ بغداد کی طرح سپین میں بھی پہلے پہل یونانی کتبِ طب متعارف ہوئیں، جن پر مسلمان اَطباء نے اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔
سپین میں اِسلامی طب ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے اَطباء کے ذریعہ متعارَف ہوئی جو اپنے ساتھ طبی کتب کا ذخیرہ بھی لائے تھے۔ علاوہ ازیں بغداد کی تحقیقات سے مستفید ہونے کے لئے سپین کے نوجوان حصولِ علم کے لئے افریقہ کی ہزارہا کلومیٹر طویل مسافت طے کر کے بغداد پہنچتے اور وہاں برس ہا برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب میں مشّاق ہونے کے بعد وطن واپس لوٹتے۔ یونس الحرانی، اِسحاق بن عمران، اِسحاق بن سلیمان اور ابنُ الجزّار اُس دَور میں سپین میں طبی علوم کے اِفشاء کا باعث ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشرقی ممالک سے ترکِ سکونت کر کے سپین میں آئے تھے۔
سپین میں اِسلامی طب کی معروف شاخوں تشخیصِ اَمراض، اَمراضِ نسواں، اَمراضِ اَطفال، امراضِ چشم اور سرجری پر خصوصی کام ہوا۔ بہت سے ماہر اَطباء نبض دیکھ کر مریض کی جملہ کیفیت بیان کر دیتے تھے۔ ابوالعلا زہر صرف نبض اور قارُورہ دیکھ کر مرض کی کامل تشخیص کر لیتا تھا، جبکہ ابنُ الاصم تشخیصِ اَمراض میں اِس قدر ماہر تھا کہ محض نبض دیکھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ مریض کیا کھا کر آیا ہے۔
سرجری میں اَبوالقاسم الزہراوی کا مقام تمام اندلسی اَطباء میں بڑھ کر تھا، بلکہ اگر اُسے جدید علمِ جراحت ( surgery ) کا بانی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ ایسا ماہر سرجن تھا کہ ایک بار اُس نے ایک ایسے آدمی کا کامیاب آپریشن کیا جس کا پیٹ چاک ہوئے ۲۴گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ زہراوی نے کمال مہارت سے اُس کے پیٹ سے باہر نکل آنے والی انتڑیوں کو اصل مقام پر رکھا اور اپنے ہی اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کی مدد سے اُس کا پیٹ سی دیا۔ نہ صرف اُس شخص کی زندگی بچ گئی بلکہ چند ہی روز میں وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہو گیا۔
ابوالقاسم الزہراوی قرونِ وُسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن تھا۔ بغداد میں رازی کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب ( clinic ) کا مالک تھا۔ اُس نے آپریشن کے لئے خاص مہارت کے ساتھ خود ایسے بہترین آلات تیار کر رکھے تھے، جن کی مدد سے وہ ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا جن میں ۱۰۰ فیصد کامیابی کی توقع دورِ حاضر کے ماہر سرجن بھی نہیں کر پاتے۔ وہ آنتوں کے آپریشن کے لئے بلی کی آنتوں سے تیار کردہ دھاگہ اِستعمال کرتا۔ زخم کی سلائی یوں کرتا کہ باہر کی سمت اُس کا نشان مکمل طور پر غائب ہو جاتا۔ وہ آپریشن سے قبل بڑی شریانوں کو باندھ دیتا اور نچلے حصۂ بدن کے آپریشن کے دَوران میں پاؤں کو سر سے اُونچا رکھنے کی تاکید کرتا۔ یہ دونوں طریقے بالترتیب فرانس کے ایک سرجن Pare اور جرمنی کے سرجن Frederich کی طرف غلط منسوب کئے جاتے ہیں۔ وہ تکلیف دِہ سرجری کی صورت میں مریض کو بے ہوشی کی دوا ( anaesthesia ) دینے سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ آنکھوں کے آپریشن کا بھی ماہر تھا۔
لَوزَتین ( tonsils ) کے آپریشن کا طریقہ اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ پیٹ، جگر، پیشاب کی نالی، ناک، کان، گلے اور آنکھ کے آپریشن میں وہ ماہر تھا۔ مثانہ سے پتھری توڑ کر نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔
الزہراوی نے علمُ الطب پر ایک ضخیم کتاب "التصریف لمن عجز عن التألیف" بھی لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے علمُ العلاج اور علمُ الدّواء کے ساتھ ساتھ جراحت ( surgery ) پر بھی خاص روشنی ڈالی ہے۔ الزہراوی نے اپنے اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کے اِستعمال کا طریقِ کار اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے، جن میں اکثر اُس نے تصویروں کی مدد سے اُن آلات کی وضاحت اور اُن کا طریقِ استعمال بیان کیا ہے۔ اُس کے اِیجاد کردہ بعض آلاتِ جراحی اِس قدر ترقی یافتہ تھے کہ اُن کا اِستعمال آج تک جاری ہے۔
ابوالقاسم الزہراوی کے علاوہ ابنِ زہر بن مروان کا شمار بھی اِسلامی سپین کے ماہر سرجنوں میں ہوتا ہے۔
آنکھوں کے اَمراض میں احمدالحرانی اور عمرالحرانی اندلس کے ماہر اَطباء میں سے تھے۔ یہ دونوں معروف اندلسی طبیب یونس الحرانی کے بیٹے تھے جو حصولِ علم کے لئے بغداد میں ۱۰سال رہ چکے تھے۔ اندلس واپس آ کر اُنہوں نے آنکھوں کے اَمراض کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور اِس فیلڈ میں خاصے مشّاق ( expert ) ہو گئے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں اُن کی تحقیقات سے اِستفادہ کیا۔ علاوہ ازیں ابنِ رُشد اور ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر بھی آنکھوں کے اَمراض کے ماہر ( ophthalmologist ) تھے۔
عورتوں کے اَمراض بالخصوص ایامِ حمل اور جنین کی پرورش کے بارے میں اندلس میں عریب بن سعد الکاتب کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ بچوں اور خواتین کے اَمراض کا ماہر معالج ہونے کے ناطے اُس نے اِس موضوع پر "خلق الجنین و تدبیر الحبالیٰ والمولود" کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اُس نے جنین کی نشو و نما، حاملہ عورتوں کی بیماریوں، اُن کے بارے میں حفظ ماتقدم اور علاج کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اِس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اسکوریال (سپین) میں محفوظ ہے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی ایک ماہر سرجن ہوتے ہوئے اپنی کتاب "التصریف لمن عجز عن التألیف" میں خواتین کے اَمراضِ مخصوصہ اور اُن کے علاج کے ساتھ ساتھ جنین کی مختلف حالتوں، وضعِ حمل اور غیر طبعی وِلادت کی صورت میں آپریشن کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔
اندلس کے اَطباء کی فہرست اِس قدر طویل ہے کہ اُن کے کارناموں کا احاطہ کرنے کے لئے الگ کتاب درکار ہو گی۔
علمُ الہیئت( Astronomy )
عبدالرحمن سوم کے دَور (۹۱۲ء تا ۹۶۱ئ) سے قبل سپین میں علم ہیئت کے مطالعہ و تحقیقات پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اُس سے پہلے فقط اِسی قدر مطالعۂ اَفلاک کو مشروع اور رَوَا رکھا جاتا تھا جس سے اُمورِ شرعیہ میں مدد ملتی ہو۔ نمازوں کے اَوقاتِ اِبتداء و اِختتام اور روزے میں سحری و اِفطاری کے اَوقات پر ہونے والی تحقیقات سے علمُ المیقات ( time keeping ) کی بنیاد پڑی۔ سمتِ قبلہ کے تعین میں ستاروں کی پوزیشن کا فائدہ اُٹھانے کے لئے علمُ الہیئت کا سہارا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں اِبتدائے رمضان اور عیدین کے ہلال کی رؤیت کے لئے بھی مطالعۂ اَفلاک ناگزیر تھا۔ چنانچہ اِن اُمورِ شرعیہ کی بہتر بجا آوری کے لئے ضروری حد تک علمُ الہیئت ( astronomy ) حاصل کیا جاتا تھا۔
عبدالرحمن سوم کے عہد تک یہ حالت برقرار رہی اور فقہائے مالکیہ کے اَثر و رُسوخ کے باعث فلسفے کی طرح علمِ ہیئت ( astronomy ) اور علمِ نجوم ( astrology ) کو بھی ناجائز تصوّر کیا جاتا رہا۔ اُس دور کے اکثر سائنسدان اپنی علمی قابلیت و صلاحیت کو صیغۂ راز میں رکھتے اور کسی صورت ظاہر نہ ہونے دیتے، کیونکہ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ فلاں شخص علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ و منطق یا ہیئت و نجوم کا ماہر ہے تو اُسے زِندیق مشہور کر دیا جاتا اور لوگ اُس سے ملنا جلنا ترک کر دیتے۔
عبدالرحمن سوم (الناصر لدین ﷲ) نے اپنے دورِ خلافت میں با ضابطہ طور پر علومِ عقلیہ کی سرپرستی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سرزمینِ اندلس ایک خوشگوار اِنقلاب سے فیضیاب ہوئی۔ متلاشیانِ علم علمُ الطب ( medical sciences ) کی طرح علمُ الہیئت ( astronomy ) کے حصول کے لئے بھی بلادِ مشرق بالخصوص بغداد و دمشق کا رُخ کرنے لگے۔
اندلس کا سب سے پہلا ماہرِ فلکیات جو ملک میں سائنسی علوم و فنون کے اِفشاء و اِشاعت کا باعث بنا وہ ’یحییٰ بن یحییٰ ابن السمینہ‘ تھا۔ اُس نے حصولِ علم کے لئے مشرقی اِسلامی ممالک کا سفر کیا اور حساب ( mathematics )، نجوم ( astrology )، ہیئت ( astronomy ) اور طب ( medical science ) کے علوم حاصل کئے۔ اُس کے علاوہ اُس دَور میں علمِ فلکیات و نجوم میں ’مسلمہ بن قاسم‘ اور ’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کے نام بھی قابلِ ذِکر ہیں۔
اِسلامی سپین کے ماہرینِ ہیئت نے مشرقی علوم کو اپنے ملک میں محض متعارف ہی نہ کرایا بلکہ مشرقی تحقیقات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر اُن میں بہت کچھ اِضافہ جات بھی کئے۔ اندلسی سائنسدانوں نے بہت سے آلاتِ رصد اِیجاد کئے جن کی بدولت آج کی جدید ہیئت کو مضبوط بنیادیں فراہم ہو سکیں۔ اندلس کی سب سے بڑی رصدگاہ اشبیلیہ ( Seville ) میں تھی، جہاں مشہورِ عالم مسلمان سائنسدانوں نے اپنی سماوی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔ ’ابو اِسحاق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی‘ ( Arzachel ) نے صدیوں سے مسلّمہ ’بطلیموسی نظریۂ اَفلاک‘ ردّ کرتے ہوئے زمین کی بجائے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا اور یہ ثابت کیا کہ تمام سیارے بیضوی مداروں ( elliptic orbits ) میں سورج کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تمام سیاروں کی بیضوی مداروں میں سورج کے گرد گردِش ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جسے کوپرنیکس جیسا عالی دِماغ جس پر پورے عالمِ مغرب کو فخر ہے ۱۵۱۴ء میں نظامِ شمسی سے متعلق دیئے جانے والے اپنے نظریئے میں بھی پیش نہ کر سکا۔ زرقالی ہی وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے اندلس میں سب سے معیاری اُسطُرلاب بنایا اور اُس کا نام "الصحیفہ" رکھا۔ اُس کے بنائے ہوئے اُسطُرلاب کے ذریعے اَجرامِ سماوی کا مُشاہدہ اِس قدر درُست ہوتا تھا کہ بغداد کے رہنے والے اِس فن کے بانی مسلمان سائنسدان بھی اُس کی عمدگی پر حیران تھے۔ ہوائی جہاز کے موجد ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک فلکیاتی کمرہ ( planetarium ) بنا رکھا تھا جس میں اُس نے سیارگانِ فلکی کی گردِش ، بادلوں کی حرکات اور آسمانی بجلی کی مصنوعی گرج چمک کا اِنتظام بھی کر رکھا تھا۔
’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کا نامور شاگرد ’مسلمہ المجریطی‘ بڑا ماہر سائنسدان تھا۔ اُس نے سورج، چاند اور دیگر سیاروں کی حرکات کو عددی اُصول پر منظم کرتے ہوئے ’الخوارزمی‘ سے بھی بہتر ’زیج‘ ( astronomical table ) ترتیب دی اور اُسے عربی تاریخوں میں ظاہر کیا۔ اُس کے علاوہ بھی اندلس کے بہت سے سائنسدانوں نے اَزیاج ( astronomical tables ) بنائے، جن کی رُو سے مشاہدۂ اَفلاک میں خاصی مدد ملتی تھی۔
زرقالی کے علاوہ اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے ماہرینِ فلکیات بھی اپنے دَور کا مسلّمہ نظریۂ بطلیموس ردّ کر چکے تھے۔ ابو اسحاق بطروجی نے بطلیموسی نظریۂ کواکب کو دلائل کے ساتھ ردّ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کیا۔ اُس سے قبل ابنِ باجہ نے بھی اپنے طور پر اِس نظریہ کا بطلان کر دیا تھا۔ ’بطروجی‘ کا شمار جدید علمِ ہیئت کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ ’جابر بن اَفلح‘ کا ذِکر بھی اُنہی سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُس نے بطلیموس کے نظریہ کے ردّ میں "کتابُ الھیئۃ فی إصلاح المجسطی" لکھی۔
علمُ النباتات ( Botany )
اندلس میں علمِ نباتات کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے اَوائل دَور ہی میں شروع کر دیا تھا۔ طبی بنیادوں پر نباتات پر تحقیق علمُ الطب کے فروغ کے لئے ایک جزوِ لاینفکّ تھی۔ چنانچہ ’عبدالرحمن اوّل‘ نے قرطبہ میں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" کے نام سے ایک ایگریکلچرل ریسرچ فارم بنایا، جہاں اَطباء اور نباتیوں ( botanists ) کو پودوں کے خواص، اُن کی اَفزائش اور اَثرات پر تحقیق کے گوناگوں مواقع میسر تھے۔ عبدالرحمن اوّل نے علمِ نباتات ( botany ) کی سرپرستی میں خاص دِلچسپی لی اور اندلس میں میسر نہ آنے والے پودوں اور درختوں کے بیج اور قلمیں دُور دراز ممالک سے درآمد کروائیں۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف برِاعظم افریقہ بلکہ بیشتر اَیشیائی ممالک کی طرف بھی سرکاری وفود بھیجے جو نایاب پودوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش اور پیداوار میں مددگار ثابت ہوئے۔
طبی جڑی بوٹیوں کی اَفزائش میں وادیٔ آش ( Guadix )، المریہ ( Almeria ) اور غرناطہ ( Granada ) کے قریب جبلِ شلیر ( Mulhacen ) اندلس بھر سے بڑھ کر تھے۔ خوشبودار بوٹیاں بھی بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ زعفران مسلمان ماہرینِ نباتات ( botanists ) ہی نے اندلس میں متعارف کرایا۔ طلیطلہ ( Toledo )، بلنسیہ ( Velencia )، بیاسہ ( Beyasa ) اور وادئ حجارہ ( Hijara Valley ) زعفران کی پیداوار میں مشہور تھے۔ ماہرینِ نباتات کی شبانہ روز محنت سے اندلس میں زعفران اِس کثرت سے پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ آس پاس کے ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح بنفشہ کی پیداوار بھی خاصی تھی۔ اندلس کے نباتیوں ( botanists ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ برس ہا برس کی تحقیقات سے نباتات میں موجود جنسی تفاوُت کا درُست مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔
اندلس کے نباتی نہ صرف طبی نباتات پر تحقیق کرتے بلکہ ہر قسم کے اناج اور نقد آور فصلوں پر بھی تجربات کرتے۔ ملک کا اکثر حصہ دریاؤں اور اُن سے نکالی جانے والی نہروں سے بہتر انداز میں سیراب ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا ملک فصلوں سے لدا رہتا، حتیٰ کہ پہاڑوں کو بھی بنجر نہیں رہنے دیا گیا۔ اکثر پہاڑی علاقوں میں انگور کی کاشت کی جاتی۔ اِس کے علاوہ لیموں، امرود، سیب، انجیر، زیتون، بہی، بادام، کیلا، آڑو، چکوترا، خربوزہ، انار، گنا، گندم، جَو، چنا، جوار، مکئی اور چاول کی کاشت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور اِن میں سے اکثر اَجناس بیرونِ ممالک برآمد کر کے خطیر زرِ مبادلہ بھی کمایا جاتا تھا۔
وادیٔ آش ( Guadix ) اور اشبیلیہ ( Seville ) میں اعلیٰ قسم کی ’رُوئی‘ پیدا ہوتی جو مسلمان ماہرینِ نباتات ہی نے سپین میں متعارف کروائی۔ رُوئی کو عربی میں ’قُطن‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہسپانوی میں alagodon اور انگلش میں cotton کہلانے لگا۔ اندلسی مسلمانوں کی تحقیقات سے ’پٹ سن‘ کے ایک نہایت اعلیٰ ریشے نے بھی جنم لیا، جس سے اچھی نسل کے دھاگے اور عمدہ قسم کا کاغذ تیار کیا جاتا تھا۔
ملک کے جنوبی ساحل پر واقع اکثر مقامات پر گنّے کی فصل نہایت شاندار ہوتی، جس سے اعلیٰ قسم کی شکّر ( sugar ) تیار کی جاتی۔
ابوعبید البکری، ابو جعفر بن محمد الغافقی، ابنِ بصال، ابنِ حجاج، شریف اِدریسی، ابنُ الرّومیہ، ابنِ بکلارش، ابوالخیر اشبیلی، ابنُ العوام اور ابنُ البیطار اندلس کے اِسلامی عہد کے نامور نباتی ( botanists ) تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی تحقیقات کے ذریعے اندلس کو پودوں، درختوں اور فصلوں سے لاد دیا بلکہ اُن کی حفاظت کا بھی بخوبی اِنتظام کیا، چنانچہ ابنُ العوام نے پھلوں اور اناج کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے بہت سے طریقے ’کتابُ الفلاحہ‘ میں ذِکر کئے ہیں۔ اُس نے کچھ ایسے طریقے بھی تحریر کئے ہیں جن سے گندم بیسیوں سال تک خراب ہونے سے بچی رہتی تھی۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے اُن ماہرین کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق بڑے بڑے گودام تیار کئے جاتے جن میں غلہ اور اناج سالہا سال تک محفوظ رہتا۔
اِسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی اِرتقاء
اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ تھا۔ پورے یورپ میں ہسپتالوں کا وُجود ہی نہ تھا۔ خطرناک بیماریوں کا علاج جادُو، ٹونے اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لوگ توہمات کے اِس قدر رسیا تھے کہ معالج کی بجائے عامل کی طرف رُجوع کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ کھانے اور پہناوے میں نفاست کا فقدان تھا۔ علمی حالت سب سے بڑھ کر قابلِ رحم تھی۔ لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گنتی کے چند پادریوں کے سوا کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اور وہ پادری چمڑے پر لکھی پرانی کتابوں کو کھرچ کر اُنہی کے اُوپر نئی تحریریں لکھنا شروع کر دیتے تھے جس سے اُن کا بچا کھچا علمی سرمایہ بھی ضائع ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تعلیم، علاج اور تہذیب و ثقافت غرض عملی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رحم حالت کو پہنچا ہوا تھا۔
مسلمانوں نے یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سپین کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی سپین یورپ بھر کے لئے رشکِ فلک بنا۔ دُنیا سپین کی ترقی اور تہذیب کی مثالیں دینے لگی۔ سپین نے جہاں علوم و فنون، صنعت و حرفت اور تجارت میں خوب ترقی کی وہاں تہذیب و ثقافت میں بھی قرونِ وُسطیٰ میں ہر طرف اُسی کا طوطی بولتا تھا۔
اِسلامی سپین کا کلچر عرب مسلمانوں ہی کا مرہونِ منّت تھا، جو ترکِ سکُونت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے۔ وہ اِسلامی تہذیب کی خوشنما روایات بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے، جس سے سپین کی سرزمین تہذیبی کمال کے عروج کو پہنچی۔
اِسلامی سپین کے دارُ الحکومت قرطبہ ( Cordoba ) کی آبادکاری کچھ اِس حسین انداز سے تھی کہ اُس کی سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیرات نے اُسے چار چاند لگا دیئے تھے۔ قرطبہ اپنی علمی و فنی سرگرمیوں اور صنعتی و تجارتی اہمیت کے باعث دُنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ اندلس کے مسلمانوں نے خلفائے عباسیہ کی شان و شوکت اور پُرتکلف مہذّب زندگی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اندلس تہذیب و ثقافت اور فیشن میں دُنیا بھر میں ایک معیار کی حیثیت اِختیار کر چکا تھا اور دُنیا اُس کی مثالیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ بڑے بڑے عالیشان محلات اور بنگلوں کے علاوہ بڑے شہروں میں میلوں تک پھلوں اور پھولوں کے باغات اُسے جنتِ ارضی کی صورت دے چکے تھے۔
مسلمانوں نے جہاں سپین کو تعمیرات سے آراستہ کیا وہاں اُسے تہذیبی اِرتقاء سے بھی منوّر کیا۔ سپین جہاں معاشرہ اَمن و امان کی ناقابلِ مثال صورت میں چین سے زندگی بسر کر رہا تھا، وہاں صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ نے شہریوں کو آسودہ حال کر دیا تھا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ سرمایہ نئی صنعتوں میں لگانے لگے تھے۔ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ لباس اور بہترین اَشیائے خورد و نوش پر بے دریغ رقم خرچ کرتے تھے۔ تہذیبی تکلّفات اُن کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ آرائش و زیبائش پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ گھروں کے باہر لان بنانے اور اُن میں دُور دراز ممالک سے نایاب درخت منگوا کر لگانے کا رواج عام تھا۔ اکثر گھروں میں فوّارے اور حوض بھی بنائے جاتے تھے۔
عبدالرحمن الداخل کے دورِ حکومت میں جب سپین میں اِسلامی سلطنت کو اِستحکام نصیب ہوا تو اُس نے ملک کی تعمیر و تزئین کی طرف خاص توجہ دی۔ اُس نے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جا بجا باغات، فوّاروں، پختہ گلیوں، سڑکوں اور دیدہ زیب عمارات کا جال بچھا دیا۔ گلی کوچے پختہ ہوتے اور اُن میں روشنی کا بخوبی اِنتظام حکومت کے خرچ سے ہوتا۔ شہروں میں سیورِیج کا بھی بہت اعلیٰ اِنتظام تھا۔ بلنسیہ ( Valencia ) کے بڑے گندے نالے پر پکی چھت تھی اور وہ اِتنا چوڑا تھا کہ ایک چھکڑا بآسانی اُس کے اُوپر چل سکتا تھا۔ عبدالرحمن اوّل ہی نے دریائے وادئ کبیر ( Guadalimor River ) اور دریائے شنیل ( Genil River ) کے کنارے آباد اکثر شہروں کو متعدّد نہریں کاٹ کر پانی بہم پہنچایا۔ غرناطہ کے باہر ایک عظیمُ الشان محل بنایا اور اُس کے اَطراف میں وسیع و عریض باغ لگایا ، جس کا نام ’رصّافہ‘ رکھا۔
عرب سے درخت منگوا کر اندلس کی سرزمین میں لگانے کا سلسلہ بھی عبدالرحمن اوّل ہی کے دَور سے جاری تھا۔ اُسی محل کے پائیں باغ میں اُس نے اپنے وطن دمشق سے کھجور کا ایک درخت منگوا کر لگایا جو اُسے اُس کے وطن کی یاد دِلاتا تھا۔ ایک روز کھجور کے اُس درخت کو دیکھ کر اُسے اپنا وطن اور اپنی بے سروسامانی کی حالت یاد آ گئی جس پر اُس نے بڑے ہی پُر سوز اَشعار کہے۔ ’تاریخِ مقرّی‘ میں اُس کے وہ اَشعار محفوظ ہیں۔
حکیمُ الاُمت علامہ محمد اِقبال نے بالِ جبریل میں اُن اَشعار کا مفہوم اور اپنے اِحساسات ایک نظم کی صورت میں یوں پیش کئے ہیں:
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرُور ہے تو
اپنی وادی سے دُور ہوں میں
میرے لئے نخلِ طور ہے تو
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تو
غربت کی ہوا میں بار وَر ہو
ساقی تیرا نمِ سحر ہو
عالم کا عجیب ہے نظارہ
دامانِ نگہ ہے پارہ پارہ
ہمت کو شناوری مبارک
پیدا نہیں بحر کا کنارہ
ہے سوزِ درُوں سے زندگانی
اُٹھتا نہیں خاک سے شرارہ
صبحِ غربت میں اور چمکا
ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے بھی خطۂ عرب سے بہت سے نئے پھلدار درخت سپین میں متعارف کروائے اور جا بجا اُن کے باغات لگوائے۔ اُن میں سے کچھ باغات کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔
عبدالرحمن دُوُم کے دورِ حکومت میں ملک تہذیب کے عروجِ کمال کو جا پہنچا تھا۔ مشرقی و مغربی تہذیب کے سنگم سے ایک نئے اِمتزاج نے جنم لیا۔ موسیقی سے عبدالرحمن دُوم کو خاص لگاؤ تھا ۔ اُس کے عہد میں اندلس میں موسیقی کے بڑے باکمال اساتذہ پیدا ہوئے جنہوں نے مشرق و مغرب کے دُور دراز ممالک سے بھی صاحبانِ ذوق سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ اِسلامی عہد کی صوفیانہ موسیقی اُس عہد میں اپنے کمال کو جا پہنچی اور بعد اَزاں اُس نے یورپ کی موسیقی پر بھی گہرے اَثرات مرتب کئے۔
سپین کی ثقافتی ترقی کا تذکرہ ہو اور اُس میں ’اُستاد زریاب‘ کا ذِکر نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ خلافتِ بغداد کے نامور موسیقار ’اِسحاق موصلی‘ کا عظیم شاگرد ’زریاب‘ بغداد سے ہجرت کر کے سپین میں جا آباد ہوا۔ اُس نے سپین کی تہذیب و ثقافت میں کئی درخشاں اَبواب کا اِضافہ کیا۔ وہ بلا مبالغہ سپین کا ’تان سین‘ تھا۔ ایک رِوایت کے مطابق اُسے ہزار راگ یاد تھے۔ موسیقی و دیگر فنونِ لطیفہ کا رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی شخصیت میں یہ خوبی تھی کہ وہ ہر فن مولا تھا۔ اُس کا ذوقِ لطیف بڑا عالی تھا اور وہ بے حد ذہین بھی تھا۔
موسیقی کے علاوہ اُس نے اِسلامی سپین کی تہذیب کے اِرتقاء میں دُوسرے بہت سے پہلوؤں پر بھی خاص توجہ دی۔ نئے نئے فیشن نکالنے میں اُسے کمال مہارت حاصل تھی۔ اُس نے ملک میں ’فنِ آرائش‘ ( decorative art ) کو ترویج دی۔ وہ شاہی مجالس کی تزئین و آرائش کا ماہر تھا۔ اُس نے اندلس کے لباس اور طعام میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کیں۔ نئے نئے فیشن اِیجاد کر کے جہاں اُس نے لوگوں کو بہترین اور دیدہ زیب لباس تیار کرنے کا ڈھنگ سکھایا اور سپین کے طرزِ معاشرت میں اِنقلاب پیداکیا، وہاں وہ ایک ماہر کک ( cook ) بھی تھا۔ سپین کے بہت سے کھانے اُسی نے اِیجاد کئے، جن کی باقیات آج کے سپین میں بھی موجود ہیں۔ اُس نے عام کھانے پکانے کے بھی نئے نئے طریقے نکالے جن سے کھانے زیادہ لذیذ تیار ہوتے تھے۔ اُس نے کھانے کے لئے شیشے کے برتنوں کو بھی رواج دیا اور چمچ اور چھری کانٹے سے کھانے کا طریقہ بھی نکالا۔
اُس کی بدولت لوگ مختلف موسموں میں مختلف فیشن اور رنگوں کا لباس پہننے لگے۔ سر کے بالوں کی مانگ بائیں طرف سے نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ اُس سے قبل ساری دُنیا کے لوگ ہمیشہ درمیان سے مانگ نکالتے تھے۔ یورپ بھر میں اُسے فیشن کا باوا آدم سمجھا جاتا تھا۔ الغرض اُس نے یورپ کے کلچر میں ایک حسین اِنقلاب بپا کر دیا جس کے اَثرات آج کے یورپ میں بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شومئ قسمت کہ آج کے سادہ لوح مسلمان اِن میں سے بہت سی اشیاء کو ’مغربی تہذیب‘ کا نام دے کر ناپسند کرتے ہیں، حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ یورپ کی موجودہ تہذیب میں بہت کچھ ہمارے ہی اَجداد کا تہذیبی وِرثہ ہے اور اگر آج ہم اُس میں سے کسی اچھی بات پر عمل کرتے ہیں تو وہ یورپ کی نقّالی ہرگز نہیں بلکہ ہماری اپنی ہی کھوئی ہوئی تہذیب کی بازگشت ہے۔
دارُالحکومت۔ ۔ ۔ قرطبہ
"اگر دُنیا کو ایک انگوٹھی فرض کر لیا جائے تو قرطبہ اُس کا نگینہ ہے"۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو آج سے ۱۲ صدیاں قبل ایک جرمن نن نے عبدالرحمن سوُم کے شہر قرطبہ ( Cordoba ) کے بارے میں کہے تھے۔ اِسلامی سپین کا دارُالحکومت ’قرطبہ‘ خلافتِ عباسیہ کے دارُالخلافہ ’بغداد‘ ( Baghdad ) سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ بعض وُجوہ کی بناء پر اُسے بغداد پر فوقیت حاصل تھی۔
شہر کی آبادی ۱۰,۰۰,۰۰۰سے متجاوز تھی، جس میں ۲,۰۰,۰۰۰ سے زائد رہائشی مکانات موجود تھے۔ سکے سے بنی پائپ لائنوں کی مدد سے اِتنے وسیع و عریض شہر کو پینے کے تازہ پانی کی فراہمی اُس دَور کا سب سے عظیم کارنامہ تھا۔ قرطبہ میں کل ۸۰,۴۰۰ دُکانیں تھیں، جن میں سے تقریباً ۲۰,۰۰۰ فقط کتب فروشی اور اُس سے متعلقہ کاروبار کے لئے وقف تھیں۔ قرطبہ یورپ کے دورِ جاہلیت ( dark ages ) کے دوران ایک عظیمُ الشان علمی مرکز کے طور پر اُبھرا۔ شہر میں ۳۰۰۰مساجد، ۸۰ کالج، ۵۰ ہسپتال، ۷۰۰حمام اور غلّے کو محفوظ رکھنے کے لئے۴,۳۰۰ گودام تھے۔ میلوں طویل سڑکیں پختہ پتھروں سے بنی تھیں۔ رات کے وقت شہر میں روشنی کا بخوبی اِنتظام تھا۔ سرِشام ہرکارے گلیوں میں نصب ستونوں سے آویزاں لیمپوں میں تیل ڈال جاتے، غروبِ آفتاب پر اُنہیں جلا دیا جاتا اور ساری ساری رات اُن کی روشنی سے سڑکیں اور گلیاں منوّر رہتیں۔ یہ اُس دَور کا ایک اور ناقابلِ یقین عظیم کارنامہ تھا۔
اِسلامی سپین کی تہذیب تو آج سے ۱۲ صدیاں قبل ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھی جبکہ کوہِ پیرینیز( Pyrenees ) کی دُوسری طرف یورپ بھر کے تمام عیسائی ملکوں کی علمی و تہذیبی حالت اور معیارِ زندگی اِس قدر ناگفتہ بہ تھا کہ پیرس اور لندن جیسے بڑے شہروں میں بھی راتیں گھپ اندھیرے میں گزرتی تھیں، جس سے اکثر وہاں امن و امان کا مسئلہ درپیش رہتا۔ گلیاں کیچڑ اور سیوریج کے بیماریاں پھیلاتے پانی سے اَٹی رہتیں اور صدیوں بعد تک بھی اُن کی گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کا اِنتظام نہ ہو سکا۔
اِسلامی سپین میں صنعت و ٹیکنالوجی کا اِرتقاء
حرکت میں برکت اور کام میں عظمت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو محنت و مشقت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ ہر نبی اپنی اُمت کیلئے آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے اور تاجدارِ کائنات (ص) کی شخصیت قیامت تک کی انسانیت کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو محنت میں عظمت کا درس دیا۔
کسی خاص فن میں کی گئی محنت جب ایک خاص مہارت تک پہنچتی ہے تو اُسے ’حرفہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہیں سے صنعت و حرفت کو بنیاد ملتی ہے اور انسانی معاشرے میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی ’محنت میں عظمت‘ کے عظیم تصوّر کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔
تاجدارِ کائنات (ص) کا فرمان ہے:
إنّ ﷲ یُحب إذا عمل أحدکم عملاً أَن یتقنه
۔
(مجمع الزوائد،۴:۹۸)
بیشک اللہ اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کو سرانجام دے تو اُسے مضبوطی سے کرے۔
اِسلام کی تعلیمات سے ملنے والے محنت کے سبق نے جاہل اور گنوار عرب قوم کو چند ہی برسوں میں اس قابل کر دیا کہ اُن کا پھریرا تین براعظموں پر لہرانے لگا۔ مسلمان جہاں کہیں فتوحات کرتے وہاں کی آبادی کے دلوں میں اپنے طرزِ حکومت اور عدل و انصاف کے باعث ایک اچھا مقام بنا لیتے۔ہر ملک میں ’محنت میں عظمت‘ کا تصور لے کر پہنچنے والے مسلمانوں نے ہر خطے کو فلاحی ریاست کے قیام کیلئے دن رات محنت میں مشغول کر دیا۔ صدیوں کی فراغت زدہ قومیں کام کی عظمت سے شناسا ہوتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے اپنے دور کی مناسبت سے ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال حاصل کر لیا۔ طلبِ علم اور فنی مہارت کے حصول کی ترغیب اقوام عالم کو اسلام ہی کے آفاقی پیغام سے نصیب ہوئی۔ اسلام سے قبل بھی ’علم‘ یونانی سانچوں میں موجود تھا، جس کا ’عمل‘ سے دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسلام نے علم کو برائے علم نہیں رہنے دیا بلکہ علم برائے زندگی کی تعلیم سے مسلمان قوم کو دنیا کی سب سے متحرک قوم بنا دیا اور جن خطوں پر انہیں سیاسی غلبہ حاصل ہوا وہاں کے عوام نے ان سے متاثر ہو کر محنت شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال پا گئیں۔ آج مسلمان تو اگرچہ اپنی اصل دینی تعلیمات سے رُو گرداں ہو کر پسماندہ ہو چکے ہیں مگر محنت کا وہ تصوّر جو انہوں نے سپین کے راستے یورپ کو دیا تھا وہ پوری دنیا میں اپنے ثمرات مرتب کر رہا ہے۔
سرِ دست ہم سپین کے اِسلامی دور کی ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں گے تاکہ قارئین پر اسلامی سپین میں فروغ پانے والی صنعت و ٹیکنالوجی عیاں ہو سکے:
کاغذ سازی ( Paper industry )
حصول و افشائے علم میں کاغذ کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ بغداد کی خلافتِ عباسیہ اور سپین کی خلافتِ اُمویہ کے دور میں علم کی وسیع پیمانے پر ترویج اشاعت کتب ہی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ کاغذ کی ایجاد سے قبل جن اشیاء (چمڑے وغیرہ) پر کتابیں لکھی جاتی تھی وہ اس قابل نہ تھیں کہ فقط اُن کے بل بوتے پر لاکھوں کتب پر مشتمل بڑی بڑی لائبریریاں وُجود میں آ سکتیں۔
رُوئی سے بننے والا کاغذ مسلمانوں کی ایجاد ہے، اُس سے پہلے دُنیا میں ریشمی کیڑے کے خول سے کاغذ بنایا جاتا تھا، جو نہ صرف بہت زیادہ مہنگا ہوتا بلکہ صرف انہی ممالک میں دستیاب ہوتا جن کی آب و ہوا اس قدر موزوں ہو کہ ریشم کا کیڑا وافر مقدار میں پرورش پا سکے۔ چنانچہ قرونِ وُسطیٰ میں یورپی ممالک میں چمڑا ہی وہ واحد شے تھی جس پر کتب لکھی جاتیں۔ چمڑا اِس قدر مہنگا اور کم یاب تھا کہ اُس دَور کے پادریوں نے مذہبی رسائل لکھنے کیلئے قدیم یونانی کتب کے حروف چھیل کر اُن کا چمڑا استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے یونانیوں کی بہت سے عقلی اور فلسفیانہ تصنیفات تلف ہو گئیں۔
مسلمانوں نے جب ۷۰۴ء میں چین کے مغربی علاقے سنکیانگ کو فتح کیا تو اُس وقت چین کے قیدی سپاہیوں کی مدد سے سمر قند میں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ یہیں سے انہیں کاغذ کی صنعت کو اپنانے اور فروغ دینے کا خیال آیا۔ کچھ کاغذ نمونے کے طور پر اسلامی سلطنت کے مرکزی شہروں دمشق اور بغداد بھیجے گئے اور فقط دو سال کے انتھک تجربات کے بعد ۷۰۶ء میں یوسف بن عمر نامی مسلمان سائنسدان نے روئی سے بننے والا کاغذ ایجاد کر لیا۔ جسے "دِمشقی" کاغذ کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ کاغذ سمرقندی کاغذ کو مات کر گیا۔ یوں آٹھویں صدی عیسوی کے اندر اندر تمام مسلمان ممالک میں بقدرِ ضرورت کاغذ سازی کی صنعت فروغ پذیر ہوئی اور سستا اور معیاری کاغذ وافر مقدار میں بننے لگا۔ بغداد میں ۷۹۴ء میں کاغذ سازی کا پہلا بڑا سرکاری کارخانہ فضل بن یحیٰ برمکی نے قائم کیا جسے ’صناعۃُ الورقہ‘ کا نام دیا گیا۔ روئی کے کاغذ کی آمد سے مصری قرطاس ( papyrus ) کا استعمال ختم ہونے لگا اور کچھ ہی عرصے میں تہامہ، دمشق اور طرابلس میں کاغذ سازی کی صنعت فروغ پذیر ہوئی۔ طرابلس کے بعد مراکش میں بھی کچھ فیکٹریاں کاغذ بنانے لگیں۔ یہیں سے یہ صنعت سپین میں داخل ہوئی۔
معروف مستشرق منٹگمری واٹ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے:
Harun ar-Rashid's vizier, Yahya the Barmakid, built the first paper-mill in Baghdad about the year ۸۰۰. The manufacture of paper then spread westwards through Syria and North Africa to Spain, and it came into common use. In the twelfth century pilgrims from France to Compostela took back pieces of paper as a great curiosity, though Roger II of Sicily had used paper for a document in ۱۰۹۰. From Spain and Sicily the use of paper spread into western Europe, but paper-mills were not established in Italy and Germany until the fourteenth century
( W. Montgomery Watt, The Influence of Islam on Medieval Europe, p.۲۵ )
یورپ بھر میں سپین پہلا ملک ہے جہاں کاغذ بنانے کا کام شروع ہوا۔ اسلامی سپین میں کاغذ سازی کی صنعت مشرقی اسلامی سلطنت ہی سے پہنچی۔ ۱۰۸۵ء میں شاطبہ( Xatiua )میں کاغذ سازی کا کارخانہ قائم ہوا۔تھوڑے ہی عرصے میں اسلامی سپین کے ماہرین نے کاغذ سازی کو نئے انقلابات سے روشناس کیا۔ سپین کا کاغذ مضبوط اور معیاری ہوتا ۔ بالخصوص شاطبہ( Xatiua )میں نہایت عمدہ کاغذ تیار ہوتا تھا جس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ اپنے بہترین معیار کی بدولت اُسے آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد کیا جانے لگا۔ شاطبہ( Xatiua )کے علاوہ قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، قسطلہ اور بلنسیہ ( Valencia ) میں بھی کاغذ سازی کے بڑے کارخانے موجود تھے۔
ٹیکسٹائل انجینئرنگ ( Textile engineering )
خوراک کے بعد لباس انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت و اہمیت سے کسی دور کے کسی بھی معاشرے نے انکار نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ دولت کی فراوانی اور اخلاقی بے راہ روی لباس پہنے ہوئے بھی بے لباسی کی کیفیت پیدا کر دے۔ اسلام نے جہاں لباس کیلئے ضروری ستر کی حدود متعین کی ہیں وہاں اُس کی زینت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ جہاں باطنی حسن و زیبائش کیلئے لِبَاسُ التَّقویٰ ذٰلِکَ خَیرٌ (الاعراف،۷:۲۶) میں تقویٰ کا لباس اپنانے کا حکم دیا گیا وہاں جمیع بنی آدم کو اللہ کے حضور حاضری اور سجدہ ریزی سے قبل بہترین لباس زیبِ تن کرنے کا بھی حکم دیا۔
فرمانِ خداوندی ہے:
(
یَا بَنِیٓ آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدٍ
)
۔
(الاعراف،۷:۳۱)
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت ( پہن ) لیا کرو۔
اِس آیتِ کریمہ میں ﷲ ربّ العزت نے لباس کی اہمیت اور زینت کی طرف دِلائی، یہ اِسی توجہ کا ثمرہ تھا کہ مسلمانوں نے پارچہ بافی کی صنعت میں کمال حاصل کر لیا۔ ابتداء میں نو مفتوحہ علاقوں ( newly conquered ) میں پہلے سے مروّجہ ٹیکسٹائل کی صنعت مسلمانوں میں متعارف ہوئی۔ جس کے کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں نے اِس فن میں بھی اپنا ایک تشخص قائم کر لیا اور ٹیکسٹائل کے باب میں بھی دنیا بھر کے اِمام ( leader ) قرار پائے۔
اسلامی سپین میں ٹیکسٹائل کی صنعت اپنے عروج پر تھی یہاں کے تیار شدہ ملبوسات ( garments ) آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد بھی کئے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ مرکزی اسلامی سلطنت کے دارالخلافہ بغداد میں بھی سپین کے معیار کا کپڑا تیار نہ ہوتا تھا۔ سپین کا ’دیباج‘ اور ’طِراز‘ دُنیا بھر میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ اور اکثر مؤرخین سپین کے شاہی ملبوسات کو بغداد کے شاہی ملبوسات پر فوقیت دیتے ہیں۔
سپین کے جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ ( Almeria ) ’دیباج‘ کی تیاری میں سب شہروں سے بڑھ کر تھا، جہاں پارچہ بافی کی۴,۵۰۰ سے زائد مشینیں نصب تھیں۔ اُس دَور کے سیاحوں اور مؤرّخین نے المریہ کے دیباج کی اعلیٰ بُنت کی بہت تعریف کی ہے۔
ٹیکسٹائل کے سلسلے میں بغداد کی مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح مسلم سپین میں بھی روئی کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ کپاس کی وسیع پیمانے پر کاشت کا بخوبی انتظام کیا جاتا اور ماہرین نباتات ( botanists ) اعلیٰ قسم کی کپاس کی کاشت کیلئے نت نئے تجربات کرتے جن کے نتیجے میں سپین کی ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی اپنے دور کے عروج کو جا پہنچی۔
Cotton was in India and ancient Egypt but it became an important textile only after the advent of Islam. Indeed, one of the results of the Muslim agricultural revolution was that cotton plantations spread throughout all Islamic lands, in the east as well as the west. Fine cotton was manufactured and exported to various countries, including China and the Far East
( Ahmed Y. Al-Hassan, Islamic Technology, p.۱۸۱ )
سپین میں ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کا سہرا بھی عرب مسلمانوں ہی کے سر ہے۔ مسلمانوں نے دوسری صدی ہجری میں وہاں ٹیکسٹائل کی صنعت کا آغاز کر دیا تھا۔ جبکہ فرانس اور جرمنی میں یہ صنعت بہت عرصہ بعد بالترتیب چھٹی اور آٹھویں صدی ہجری میں پہنچی۔
گھڑیاں ( Watches )
علم فلکیات ( astronomy ) کی طرح علم المیقات ( time keeping ) بھی مسلمانوں کا پسندیدہ علم رہا ہے۔ ان دونوں علوم میں مسلمانوں نے بیش بہا اضافے کئے اور یونانی دور کی بے شمار خطاؤں کو دُور کر کے بنی نوع انسان کے زائیدہ ان علوم کو حقیقی معنوں مین فطری بنیادوں پر اُستوار کیا۔ علم فلکیات اور علم المیقات دونوں میں وقت کی پیمائش نہایت اہم چیز ہے۔ سالوں، مہینوں اور دنوں کی پیمائش کیلئے تو قدرت کی طرف سے مہیا کردہ سورج اور چاند رہنمائی کرتے ہیں، جن سے بننے والی تقویمات انسان کو وقت شماری کے قابل بناتی ہیں لیکن دن کو گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم کرنا خالصتاً انسان کی شعوری کاوِش کا نتیجہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات ایسے آلات کا بنانا ہے جن کی مدد سے دن کے مختلف پہروں اور لمحوں کا شمار ممکن ہو سکے۔
وقت کی پیمائش کیلئے اسلام کی آمد سے قبل بھی کچھ قدیم پیمانے اور آلات مروّج تھے لیکن سادگی کی بناء پر اُن کی کارکردگی خالی از خطا نہ تھی۔
مسلمانوں نے میکینکل گھڑیاں ایجاد کیں اور اُن میں پنڈولم استعمال کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر کیا۔ جامع دمشق (شام) مین ایک کافی بڑی اور عجیب و غریب گھڑی آویزاں تھی جو دن کے پہروں اور گھنٹوں کا اعلان مختلف طریقوں سے کرتی تھی اور اُس کی کارکردگی بھی نہایت عمدہ تھی۔ وہ گھڑی اپنے دور کا نہایت حسین عجوبہ تھی۔ بلنسیہ( Velencia )کے نامور سیاح ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں اس گھڑی کی کارکردگی کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (رحلہ ابن جبیر:۲۰۷)
اِسلامی سپین میں ہاتھ پر باندھی جانے والی گھڑیاں بھی بنائی جاتی تھیں جنہیں "منتقلہ" کہا جاتا تھا۔ اُن گھڑیوں کی مدد سے منٹوں تک کے وقت کا صحیح تعین کیا جا سکتا تھا۔ عباس بن فرناس نے بھی ایک نہایت عمدہ گھڑی بنائی تھی جس کی کارکردگی بے مثل تھی۔ یوں علم المیقات ( timekeeping ) کے شعبے میں بھی سپین کے مسلمان ایشیا کی اِسلامی خلافت سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔
حرکی توانائی ( Kinetic energy )
پانی اور بجلی کے ذریعے حرکی توانائی کا حصول اور اُس کی مدد سے روز مرّہ زندگی کے کئی ایک چھوٹے بڑے کام سر انجام دینا اسلامی سپین میں معروف تھا۔ ماہر انجینئرز کے علاوہ عام لوگ بھی نہ صرف حرکی توانائی کا استعمال سمجھتے تھے بلکہ عملاً اُس سے فائدہ بھی اُٹھاتے تھے۔
اناج کی پسائی وغیرہ کیلئے پانی اور ہوا کے زور سے چلنے والی چکیاں پورے ملک میں عام تھیں۔ پون چکیاں ( windmills ) عموماً ایسے پہیوں پر بنائی جاتی تھیں کہ بوقت ضرورت اُن کا رُخ ہوا کی سمت گھما لیا جاتا تھا۔ پن چکیوں ( water mills ) کیلئے دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے مخصوص جگہوں پر لا کر بلندی سے یکدم گرا دیا جاتا جس سے نیچے لگی چرخیاں گھومنے لگ جاتیں۔ پن بجلی کیلئے بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیم آجکل اسی بنیاد پر قائم کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ’دریائے وادی کبیر‘ ( Guadalimar River )اور ’دریائے شنیل‘ ( Genil River )کے کنارے سینکڑوں پن چکیاں غلہ پیسنے کیلئے نصب تھیں۔ حرکی توانائی کا استعمال اس قدر عام ہو چکا تھا کہ پون چکیاں کشتیوں پر نصب ہونے لگ گئی تھیں۔ ایسی پون چکیاں بالعموم لوگوں کو کرایہ پر دینے کیلئے بنائی جاتی تھیں اور انہیں بآسانی دوسرے مقامات پر منتقل کیا جا سکتا تھا۔
اسلامی سپین میں عربوں نے حرکی توانائی ( kinetic energy ) کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا گیارھویں صدی عیسوی تک وہ مغربی یورپ کے چند ممالک تک بھی پھیل گیا اور وسطی یورپ میں یہ طریقِ کار چودھویں صدی تک پہنچ سکا۔ چنانچہ آج بھی یورپ کے اکثر ممالک بالخصوص ہالینڈ اور بیلجیئم میں پون چکیاں ( windmills ) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
کیمیکل ٹیکنالوجی ( Chemical technology )
اِسلامی سپین کے دورِ عروج میں مسلمانوں نے کیمیکل ٹیکنالوجی کی طرف بھی خاص توجہ دی اور روزمرّہ زندگی میں کارآمد بہت سی اشیاء بنائیں۔
خطاطی مسلمانوں کا ہر دِل عزیز فن تھا۔ بہترین خطاطی کیلئے معیاری روشنائی اور رنگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے رنگوں کے معیار کو بہتر کیا اور خاص قسم کی روشنائیاں ایجاد کیں جو سالہا سال اپنا اثر نہ چھوڑتی تھیں۔ مصوری میں استعمال ہونے والے رنگوں کیلئے وہ ایک خاص قسم کی وارنش بھی بناتے جس سے وہ دیرپا ہو جاتے۔
شیشہ سازی کی تاریخ میں بھی مسلمانوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ مسلمانوں کی سپین آمد سے قبل شیشہ کی صنعت وہاں موجود تھی اور قرطبہ ( Cordoba ) کے قریب شیشے کی ایک بڑی کان موجود تھی۔ اسلامی دور کے اوائل میں شیشے کے برتنوں کا رواج نہ تھا مگر ’زریاب‘ کی اندلس آمد کے بعد اُس کے اِیماء پر محلاتِ شاہی میں سونے چاندی کے برتنوں کی بجائے شیشے کے برتنوں کو رواج پڑا۔ یہیں سے شیشہ سازی کی صنعت نے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام و خواص بھی شیشے کے برتنوں کا عام استعمال کرنے لگے۔
ہوائی جہاز کے موجد عباس بن فرناس نے شیشہ بنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ چکنی مٹی کو بھٹی میں پکاتا اور اس سے شیشہ بناتا ۔ شیشہ سازی کا یہ نیا اُسلوب جلد ہی سپین میں رواج پکڑ گیا۔ اُس نے اس نئے طریقے کی ترویج کیلئے اس پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ ( Almeria ) میں شیشہ سازی کے بڑے کارخانے قائم تھے۔ جہاں سے شیشے کی مصنوعات کی اندرونِ ملک سپلائی کے علاوہ برآمد بھی کی جاتی تھیں۔ اِس کے علاوہ مُرسیہ ( Murcia )، مالقہ ( Malaga )، غرناطہ ( Granada )، قرطبہ ( Cordoba )، لورقہ ( Lorca ) اور موجودہ پرتگال میں واقع شہر باجہ ( Beja ) میں بھی شیشہ سازی کی صنعت فروغ پذیر تھی اور مقامی استعمال کیلئے وافر مقدار میں مصنوعات تیار کی جاتی تھیں۔
چمڑے کی مصنوعات کے سلسلے میں بھی سپین کے مسلمان کافی آگے تھے۔ اُنہوں نے چمڑے کی تیاری میں استعمال ہونے والے ایسے کیمیکلز ایجاد کئے جو چمڑے کو دیرپا رکھتے۔ قرطبہ ( Cordoba ) اور باجہ ( Beja ) چمڑے کی صنعت میں خاص مقام رکھتے تھے۔ قرطبہ تو لیدر انڈسٹری کی بدولت پورے یورپ میں مشہور تھا ۔ یہی وجہ ہے فرانس میں ایک عرصے تک چمڑے کو cordovan اور چرم سازی کا کاروبار کرنے والوں کو cordonniers کہا جاتا رہا۔
سمور کی پوستین کے سلسلے میں سرقسطہ ( Zaragoza ) اہم مقام رکھتا تھا۔ خلیج بسکونیہ ( Bay of Biscay ) سے ’سمور‘ نامی جانور کا شکار کیا جاتا ۔ جس کے بعد اُس کی کھال کو سرقسطہ لے جایا جاتا جہاں چرم سازی کا بخوبی انتظام تھا۔ ’سمور‘ کی کھال سے بننے والی پوستین کو بھی ’سمور ‘ ہی کہا جاتا تھا۔ یہ نہایت قیمتی ہوتی اور اس کی برآمد سے بھی زر مبادلہ کمایا جاتا۔ مرسیہ ( Murcia ) میں بعض قسم کے اسلحہ کیلئے بھی چمڑے کا استعمال کیا جاتا۔ یہاں کی شیلڈز بڑی مضبوط اور معیاری ہوتی ۔
اسلحہ سازی ( Ordnance )
جہاد اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ ظلم اور جبر و بربریت کی ہر ناروا صورت کو صفحۂ ہستی سے ناپید کر دینا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب بھی کسی مفلوک و مظلوم نے مسلمانوں کو مدد کیلئے پکارا آنِ واحد میں وہ ظلم کا سر کچلنے کو پہنچ گئے۔ چنانچہ ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔
جہاد کے سلسلے میں سب سے اہم اور ضروری شے اسلحہ سازی میں خود کفالت تھی۔ مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح اندلس کی اسلامی حکومت بھی اسلحہ سازی میں مکمل طور پر خود کفیل تھی۔ سپین کے بہت سے اضلاع میں لوہے کی کانیں موجود تھیں جن سے بھاری مقدار میں لوہا نکالا جاتا تھا۔ چنانچہ دیگر بہت سی ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُس سے تلواریں، تیر، نیزے، زرہیں اور خود (ہیلمٹ) وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے۔طلیطلہ ( Toledo ) کی تلواریں اپنی مضبوطی اور کاٹ میں دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شمشیر سازی میں اشبیلیہ ( Seville ) کا بھی اچھا مقام تھا۔ اُن کے علاوہ قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، مُرسیہ ( Murcia )، المِریہ ( Almeria ) اور سرقسطہ ( Zaragoza ) بھی اسلحہ سازی میں مشہور تھے۔ ان شہروں میں عمدہ قسم کے ہتھیار تیار ہوتے اور انہیں حسبِ ضرورت ملک کے دُوسرے شہروں میں بھی بھیجا جاتا تھا۔
اپنے دور کے روایتی ہتھیاروں کے علاوہ اسلامی سپین کے مسلمان بارود اور توپ کا استعمال بھی شروع کر چکے تھے۔ بارود کا استعمال انہوں نے ایشیا کی مرکزی اسلامی خلافت سے سیکھا تھا۔ مسلمانوں نے حجاج بن یوسف کے دور میں۶۹۲ء میں پہلی بار توپ اور بارود کا استعمال کیا۔ بعد میں اسلامی سپین میں توپ کا استعمال عام ہونے لگا اور اسے متعدد جنگوں میں استعمال کیا گیا جبکہ مد مقابل انگریزوں کی طرف سے اسلامی سپین کے خلاف جنگ میں توپ کا سب سے پہلا استعمال۱۳۴۶ء کی جنگ میں کیا گیا۔
ہوائی جہاز ( Aeroplane )
اپنی تخلیق کے اوّل روز سے ہی انسان کے دل میں تجسس کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ تجسس ہی تھا جو سیدنا آدمؑ کو دانۂ گندم تک لے گیا۔ تجسس نے ہمیشہ بنی نوع انسان کو ترقی کے شاہراہ پر گامزن کیا۔ سمندر کے پار اور پہاڑ کی اوٹ میں کیا واقع ہے؟ یہ تجسس اِنسان کو صحرا نوَردی پر مجبور کرتا رہا اور ایک وقت آیا کہ انسان نے پورے کرۂ ارضی کا چپہ چپہ چھان مارا اور انچ انچ کے نقشے بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سطحِ زمین کا قیدی انسان جب پرندوں کو آزادانہ فضا کی بلندیوں میں اڑتے دیکھتا تو اُس کے دل میں بھی اُڑنے کی خواہش جنم لیتی۔ پرندوں کیلئے اپنی خالی خولی اور ہلکی پھلکی ہڈیوں کی نسبت فضائی اُڑان ممکن تھی جبکہ انسان کے اعصاب اُس کے بدن کے وزن کو اُڑانے کیلئے کافی نہ تھے۔ تاہم مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کے لوگوں نے اپنے بازوؤں کے ساتھ پر باندھ کر اُڑنے کی کوشش کی اور پہاڑی ڈھلانوں سے کود کر مختصر سی اڑان بھی کی مگر اُن میں سے اکثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل ۱۷ستمبر۱۹۰۳ء میں اُس وقت ہوئی جب رائٹ برادران نے اپنے خود ساختہ ہوائی جہاز کی پہلی کامیاب پرواز کی جو صرف ۱۲منٹ پر مشتمل تھی۔۱۹۰۳ء میں کامیاب ہونے والا انسان ایک صدی گزرنے سے بھی بہت پہلے ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگا اور اُ س نے آواز سے تیز رفتار سفر کرنے والے جہاز ایجاد کر لئے۔ ایسا کرتے وقت صدیوں کا انسانی شعور اُس کی پشت پناہی کرتا ہے۔
دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز اسلامی سپین کے مسلمان سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے نویں صدی عیسوی میں ایجاد کیا اور اُسے اُڑانے میں کامیاب ٹھہرا۔ اُس نے اپنے جہاز کے دائیں بائیں بڑے بڑے پر بھی لگائے تھے جو جہاز اور اُس کا بوجھ اُٹھائے دور تک چلے گئے، تاہم وہ جہاز کی لینڈنگ ٹھیک طرح سے نہ کر سکنے کی بناء پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دراصل اُس نے اپنے جہاز کی دُم نہیں بنائی تھی اور وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھا کہ پرندے اپنی دُم کی مدد سے زمین پر واپس اُترتے ہیں۔
ہوائی اُڑان کی حد تک عباس بن فرناس کی یہ کوشش بنی نوع انسان کے اذہان پر ایک دستک تھی۔ بڑی بڑی ایجادات کے پس منظر میں انسان کی ایسی ہی ابتدائی کوششیں بنیاد بنتی ہیں۔ اسلامی سپین کی تاریخ میں میسر اس ایک مثال سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے مسلمان سائنسدان سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ میں کس قدر جنونی انداز اختیار کر چکے تھے کہ اپنی جان کو بھی داؤ پر لگا دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔