حصہ دُوُم
قرآنی وسائنسی علوم کا دائرۂ کار
باب اوّل
قرآنی علوم کی وُسعت
اَشرفُ المخلوقات بنی نوع اِنسان سے اللہ ربّ العزت کا آخری کلام حتمی وحی قرآنِ مجید کی صورت میں قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔ چونکہ یہ اللہ تعالی کی آخری وحی ہے اور اُس کے بعد سلسلۂ وحی ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اُس میں قیامت تک وُقوع پذیر ہونے والے ہر قسم کے حقائق کا علم جمع کر دیا ہے۔ کلامِ اِلٰہی کی جامعیت بنی نوعِ انسان کے لئے روزِ قیامت تک کے لئے رہنمائی کی حتمی دستاویز ہے جو عقلی و نقلی ہر دو قسم کے علوم کو محیط ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو اوّل سے آخر تک اصلاً تمام حقائق و معارف اور جملہ علوم و فنون کی جامع ہے۔ قرآن خود کئی مقامات پر اِس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔
اِرشادِ باری تعالی ہے:
وَ نَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئٍ
(النحل، ۱۶:۸۹)
اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔
شئ کے لفظ کا اِطلاق کائنات کے ہر وُجود پر ہوتا ہے، خواہ وہ مادّی ہو یا غیر مادّی۔ جو چیز بھی ربِ ذوالجلال کی تخلیق ہے ’شئ‘ کہلاتی ہے، چنانچہ ہر شئے کا تفصیلی بیان قرآن کے دامن میں موجود ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا ہے:
وَ تَفصِیلَ کُلِّ شَیئٍ
(یوسف، ۱۲:۱۱۱)
اور (قرآن) ہر شئے کی تفصیل ہے۔
ایک اور مقام پر اِرشاد ہے:
مَا فَرَّطنَا فِی الکِتَابِ مِن شَیئٍ
(الانعام، ۶:۳۸)
ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا کنایۃً بیان نہ کر دیا ہو)۔
چونکہ اَزل سے ابد تک جملہ حقائق اور مَا کَانَ وَ مَا یَکُون کے جمیع علوم قرآنِ مجید میں موجود ہیں اِس لئے اِس حقیقت کو اِس انداز سے بیان کیا گیا ہے:
وَ لَا رَطبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍ(الانعام، ۶:۵۹)
اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔
اِس آیتِ کریمہ میں دو لفظ رَطبٍ اور یَابِسٍ اِستعمال ہوئے ہیں۔ رطب کا معنی تر ہے اور یابس کا خشک۔ یہ آیت قرآنی اِیجاز اور فصاحت و بلاغت کی دلیلِ اَتم ہے کیونکہ کائناتِ ارض و سماء کا کوئی وُجود اور کوئی ذرّہ ایسا نہیں جو خشکی اور تری کی دونوں حالتوں سے خارِج ہو۔ بحر و بر، شجر و حجر، زمین و آسمان، جمادات و نباتات، جن و اِنس، خاکی ذرّات اور آبی قطرات، حیوانات اور دیگر مخلوقات الغرض عالمِ پست و بالا کی جس شے کا بھی تصوّر کر لیجئے وہ یا تو خشک ہو گی یا تر یا دونوں حالتوں کا مرکب ہو گی۔ قرآن نے صرف دو لفظ وَلَا رَطبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِستعمال کر کے درحقیقت ساری کائنات کے ایک ایک ذرّے کا بیان کر دیا کہ اُس کا علم قرآن میں موجود ہے۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے:
وَ کُلَّ شَیئٍ فَصَّلنَاهُ تَفصِیلًا(بنی اِسرائیل، ۱۷:۱۲)
اور ہم نے (قرآن میں) ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔
علامہ ابنِ برہان اِسی کی تائید میں فرماتے ہیں:
ما من شئ فهو فی القرآن أو فیه أصله
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
کائنات کی کوئی شئے ایسی نہیں جس کا ذِکر یا اُس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔
گویا قرآن میں یا تو ہر چیز کا ذکر صراحت کے ساتھ ملے گا یا اُس کی اصل ضرور موجود ہو گی۔ یہ بات لوگوں کی اپنی اپنی اِستعداد و صلاحیت، فہم و بصیرت اور قوتِ اِستنباط و اِستخراج کے پیشِ نظر کہی گئی ہے کیونکہ ہر کوئی ہر شئے کی تفصیل قرآن سے اَخذ کرنے کی اِستعداد نہیں رکھتا۔
اگر قدرت کی طرف سے کسی کو نورِ بصیرت حاصل ہو، اِنشراحِ صدر ہو چکا ہو، حجابات اُٹھ چکے ہوں اور ربّ ِذُوالجلال نے اُس کے سینے کو قرآنی معارف کا اَہل بنا دیا ہو تو اُسے ہر شئے کا تفصیلی بیان بھی نظر آتا ہے۔
اِسی موقع پر اِمام سیوطی فرماتے ہیں کہ اصلاً ذِکر کا معنی یہ ہے:
ما من شئ إلا یمکن إستخراجه من القرآن لمن فهّمه ﷲ
۔
کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا اِستخراج و اِستنباط آپ قرآن سے نہ کر سکیں لیکن یہ علوم و معارف اُسی پر آشکار ہوتے ہیں جسے ربّ ِذُوالجلال خصوصی فہم سے بہرہ وَر فرما دیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس نبیٔ اکرم (ص) کے وہ جلیلُ القدر صحابی ہیں جنہیں حضور (ص) نے ترجمانُ القرآن کے لقب سے سرفراز فرمایا تھا۔ اُن کے بارے میں جبرئیلِ اَمینؑ نے یہ خوشخبری بھی دی تھی:
إنّه کائن حبر هذه الأمة
وہ (عبداللہ بن عباس) اِس اُمت کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
آپ فرماتے ہیں:
لو ضاع لی عقالُ بعیرٍ لوجدتُه فی کتابِ ﷲ
۔
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
(صحبتِ نبوی کے فیضان سے مجھے قرآن کی اِس قدر معرفت حاصل ہو چکی ہے کہ) میرے اُونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو قران کے ذریعے تلاش کر لیتا ہوں۔
اُونٹ کی رسی کا گم ہونا کتنا معمولی واقعہ ہے لیکن اہلِ بصیرت اَیسا معمولی سے معمولی واقعہ اور حادثہ بھی قرآن سے معلوم کر لیتے ہیں۔ محقق بن سراقہ ’کتابُ الاعجاز‘ میں جامعیتِ قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
ما من شئ فی العالم إلا و هو فی کتاب ﷲ
۔(الاتقان، ۲:۱۲۶)
کائنات میں کوئی شئے اَیسی نہیں جس کا ذِکر قرآن میں موجود نہ ہو۔
اِس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شئے قرآن میں مذکور نہ ہو تو وہ کائنات میں موجود نہیں ہو سکتی، گویا قرآن میں کسی چیز کا مذکور نہ ہونا کائنات میں اُس کے موجود نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اُس میں کسی چیز کے ذِکر یا عدم ذِکر کو کائنات میں اُس کے وُجود و عدم کی دلیل تصوّر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِمام شافعی نے جامعیتِ قرآن کی نسبت یہ دعویٰ کیا:
سلونی عمّا شِئتم، أخبرکم عنه فی کتابِ ﷲ
۔ (الاتقان، ۲:۱۲۶)
جس چیز کی نسبت چاہو مجھ سے پوچھ لو، میں تمہیں اُس کا جواب قرآن سے دوں گا۔
آپ نے حضرت سعید بن جبیر کا یہ قول بھی اپنی کتاب ’الام‘ میں نقل فرمایا ہے:
ما بلغنی حدیث عن رسول ﷲ علی وجهه إلا وجدت مصداقه فی کتاب ﷲ
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
آج تک رسول اللہ(ص) کی کوئی حدیث مجھے ایسی نہیں ملی جس کا واضح مصداق میں نے قرآن مجید میں نہ پایا ہو۔
تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات و مطالب اور علوم و معارف کی جامع بھی یہی کتاب ہے۔ امام بیہقی حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں، جن میں کائنات کے تمام علوم و معارف بیان کر دیئے۔ پھر اُن تمام علوم کو چار کتابوں (تورات، زبور، انجیل اور قرآن) میں جمع کر دیا۔ پھر اُن میں سے پہلی تین کتابوں کے تمام معارف کو قرآنِ حکیم میں جمع فرمایا اوریوں یہ قرآن ایسی جامع کتاب قرار پائی کی ابنِ ابی الفضل المرسیص فرماتے ہیں:
جمع القرآن علوم الأوّلین و الآخرین بحیث لم یح بها علما حقیقة إلا المتکلم، ثم رسول ﷲ(ص)
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
اِس قرآن نے اوّل سے آخر تک، اِبتداء سے اِنتہا تک کائنات کے تمام علوم و معارف کو اپنے اندر اِس طرح جمع کر لیا ہے کہ فی الحقیقت خدا اور اُس کے بعد رسول(ص) کے سوا اُن علوم کا اِحاطہ نہ کوئی آج تک کر سکا اور نہ کر سکے گا۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اِس سلسلے میں مروی ہے:
مَن أراد العلم فعلیه بالقرآن، فإنّ فیه خیر الأولین و الآخرین
(الاتقان، ۲:۱۲۶)
جو شخص علم حاصل کرنا چاہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا دامن تھام لے کیونکہ اِسی قرآن میں ہی اوّل سے آخر تک سارا علم موجود ہے۔
تمام ظاہری و باطنی علوم و معارف کا جامع ہونا، تمام موجوداتِ عالم کے اَحوال کا جامع ہونا اور تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات و مطالب کا جامع ہونا، یہ وہ نمایاں خصوصیات تھیں جن کے باعث اِس مقدس کتاب کا نام اللہ تعالی نے ’القرآن‘ رکھا ہے۔ اَب ہم قرآنِ مجید کی جامعیت پر چند عملی شہادتیں پیش کرتے ہیں تاکہ علومِ قرآنی کی ہمہ گیریت اور سائنسی علوم کی تنگ دامانی عیاں ہو سکے۔
جامعیتِ قرآن کی عملی شہادتیں
پہلی شہادت ۔ ۔ ۔ ’ہر معاملے میں اُصولی رہنمائی‘
جامعیتِ قرآن کی نہایت وقیع اور عملی شہادت یہ بھی ہے کہ قرآن اپنی تعلیمات کے اِعتبار سے اِنسان کی نجی زِندگی کی فکری و عملی ضروریات سے لے کر عالمی زِندگی کے جملہ معاملات پر حاوی ہے۔ حیاتِ اِنسانی کا مذہبی و رُوحانی پہلو ہو یا مادّی و جسمانی، عائلی و خاندانی پہلو ہو یا سماجی و معاشرتی، سیاسی و معاشی پہلو ہو یا تعلیمی و ثقافتی، حکومت و سلطنت کی تاسیس ہو یا اِدارت کی تشکیل، مختلف طبقاتِ اِنسانی کے نزاعات و معاہدات ہوں یا اَقوامِ عالم کے باہمی تعلّقات، اَلغرض قرآنی اَحکام و تعلیمات اِس قدر جامع ہیں کہ ہر مسئلے میں اُصولی رہنمائی قرآن ہی سے میسر آتی ہے۔
قرآنی اَحکام کا بیان و اِستنباط کہیں ’عبارۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِشارۃُ النّص‘ سے، کہیں ’دلالۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِقتضائُ النّص‘ سے۔ کہیں اُس کا انداز ’حقیقت‘ ہے، کہیں ’مجاز‘ ،کہیں ’صریح‘ ہے، اور کہیں ’کنایہ‘۔ کہیں ’ظاہر‘ ہے، کہیں ’خفی‘، کہیں ’مجمل‘ ہے، اور کہیں ’مفسر‘۔ کہیں ’مطلق‘ ہے، کہیں ’مقید‘، کہیں ’عام‘ ہے اور کہیں ’خاص‘۔ اَلغرض قرآنی تعلیمات مختلف صورتوں اور طریقوں میں موجود ہیں۔ اُن میں اصل اَحکام ( substantive laws ) بھی ہیں اور ضابطہ جاتی اَحکام ( procedural laws ) بھی، جیسا کہ اِس آیتِ کریمہ سے ثابت ہے:
(
لِکُلٍّ جَعَلنَا مِنکُم شِرعَةً وَّ مِنهَاجًا
)
۔ (المائدہ، ۵:۴۸)
ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک اصل قانون بنایا اور ایک اُس کا ضابطہ و طریقِ کار۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اِسلام نے تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق قوانین اور اُصول و ضوابط کا اِستخراج اصلاً قرآن ہی سے کیا ہے۔
اِسی طرح قرآن علوم کے بیان کے اِعتبار سے بھی جامع و مانع ہے۔ دُنیا کا کوئی مفید علم اَیسا نہیں جس کا سرچشمہ قرآن نہ ہو۔ قاضی ابوبکر بن عربی اپنی کتاب ’قانون التأویل‘ میں اِبتدائی طور پر قرآنی علوم کی تعداد۷۷۷,۴۵۰ بیان کرتے ہیں۔ یہی تعداد قرآنِ مجید کے کل کلمات کی بھی ہے، تو اِس سے یہ حقیقت مترشّح ہوئی کہ قرآنِ حکیم میں اَلحَمد سے وَالنَّاس تک اِستعمال ہونے والا ہر کلمہ یقینا کسی نہ کسی مستقل علم اور فن کی بنیاد ہے۔ گویا ہر قرآنی حرف سے کوئی نہ کوئی علم اور فن جنم لے رہا ہے۔ یہاں سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی یہ حدیثِ رسول اللہ(ص) بھی پیشِ نظر رہے کہ قرآن کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور پھر ہر ظاہر و باطن کے لئے ایک حدِ آغاز ہے اور ایک حدِاِختتام۔ اِس لحاظ سے ہر قرآنی حرف کے چار پہلو متعین ہوئے۔ چنانچہ قاضی ابوبکر بن عربی متذکرۃُ الصدر تعداد کو پھر چار سے ضرب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ درحقیقت قرآنی علوم کی تعداد کم از کم ۳,۰۹,۸۰۰ ہے۔ یہ تو ایک بزرگ کی وُسعتِ نظر ہے، فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اُوست۔ اِمام رازی فرماتے ہیں کہ صرف تعوّذ و تسمیہ (أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ اور بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
) میں لاکھوں مسائل کا بیان ہے اور باقی آیات و کلمات کا تو ذِکر ہی کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علوم کے اِعتبار سے بھی قرآن کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کی صحیح تعداد کا شمار ہو سکتا ہے اور نہ اَندازہ۔ اَیسے اَقوال یا تو اُن اَکابر کی تحقیقات ہیں یا اُن کے ذاتی اِنکشافات، درحقیقت قرآنی علوم اِحصاء و تحدید سے ماوراء ہیں۔ کوئی علم ہو یا فن، کوئی صنعت و حرفت ہو یا پیشہ و تجارت، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی دریافت ہو یا علومِ قدیمہ کی، اِس کائنات میں کوئی ایسی شئے معرضِ وُجود میں نہیں آئی اور نہ آ سکتی ہے جس کا ذِکر خلّاقِ عالم نے کسی نہ کسی اَنداز سے قرآنِ مجید میں نہ کر دیا ہو۔
فلسفہ ( philosophy ) تمام علوم کا سرچشمہ اور مبداء تصور کیا جاتا ہے۔ علمِ طبیعیات ( physics ) اور علمِ حیاتیات ( biology ) بھی اِبتداءً فلسفے ہی کا حصہ تھے۔ طبیعی کائنات کے حقائق سے بحث کرنے والے علوم یہی تین ہیں۔
فلسفہ ( philosophy ) شروع سے آج تک تین چیزوں سے بحث کرتا چلا آیا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ علم کیا ہے اور کیونکر ممکن ہے؟ اور اَعلیٰ ترین نصبُ العین کیا ہے؟ گویا فلسفے کی بحث ’حقیقت‘، ’علم‘ اور ’نصبُ العین‘ سے ہے۔ اِسی طرح طبیعیات ( physics ) کا موضوعِ تحقیق یہ ہے کہ موجوداتِ عالم اور مظاہرِ طبیعی کا آغاز کب ہوا؟ کس طرح ہوا؟ اور اُن مظاہرِ طبیعی کی حرکت کی علّت کیا ہے؟ حیاتیات ( biology ) کا موضوع یہ ہے کہ اِنسان اور دیگر مظاہرِ حیات کی اصل کیا ہے؟ اور تمام مظاہرِ حیات کی حرکت اور زندگی کی علّت کیا ہے؟ تینوں علوم کا خلاصۂ مبحث یہ ہواکہ:
فلسفہ کائنات کی حقیقت، اَعلیٰ نصبُ العین اور اُس کے علم کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ طبیعیات مظاہرِ طبیعی اور اُن کی حرکت کو جاننے میں مصروف ہے جبکہ حیاتیات مظاہرِ حیات کے آغاز اور اُن کے اِرتقاء کو سمجھنے میں مشغول ہے۔ آج تک یہ علوم اِقدام و خطاء ( trial / error ) کے اَنداز میں اپنی اِرتقائی منازل طے کرتے چلے آ رہے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک علم و فن نے بھی یہ حتمی دعویٰ نہیں کیا کہ اُس نے مظاہرِ حیات کے نقطۂ آغاز کو یقینی طور پر جان لیا ہے یا اُس نے اُن کی حرکت کی علّت کو حتمی طور پر متعین کر لیا ہے۔ اِسی طرح فلسفہ آج تک یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ اُس نے وہ حقیقت پا لی ہے جو کائنات کی حتمی و اَبدی حقیقت ہے۔ ہندوستان کے ۹ کے ۹ فلسفے نفسِ ناطقہ کو بھی حقیقت مانتے ہیں اور مادّہ کو بھی۔ (سائنسی علوم میں پائی جانے والی اِقدام خطاء کی روِش پر آئندہ فصل میں مناسبِ حال بحث کی گئی ہے۔)
فلسفہ اور قرآن
ہزاروں سال کی اِنسانی جدّوجہد کے باوُجود آج تک یہ علوم و فنون اپنی صحت اور کمال کی حتمی منزل کو نہیں پہنچ سکے لیکن آخری اِلہامی کتاب قرآن کا یہ عالم ہے کہ سورۂ علق کی صرف پہلی ہی پانچ آیتوں نے فلسفے کے تمام مسائل کو حل کر دیا ہے۔ آیات ملاحظہ ہوں:
(
اِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ اِقرَأ وَ رَبُّکَ الاَکرَمُ الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم)
(العلق،۹۶:۱۔۵)
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے، جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا O اُس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیا O پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم
ہے O جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا O (جس نے) اِنسان کو (اُس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھااگر غور کریں تو اِن آیاتِ بیّنات میں فلسفے کے جملہ موضوعات اور اُن کے حتمی جوابات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ فَاعتَبِرُوا یٰ۔آ اُولِی الاَبصَار
اِن آیات کی وضاحت اور تفصیلی معانی میں جائے بغیر یہاں صرف اِس قدر بیان کرنا مقصود ہے کہ اِس کائنات کی حقیقتوں کو جاننے کے لئے آج تک تاریخِ اِنسانی میں جتنی فلسفیانہ کوششیں ہوئی ہیں وہ سب قطعیت و حتمیت سے محروم رہیں لیکن قرآن کی جامعیت و قطعیت کا یہ عالم ہے کہ صرف پانچ مختصر فقرات میں فلسفے کے تمام موضوعات، مسائلِ تحقیق اور اُن کے حتمی جوابات کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اَب یہ اہلِ تحقیق کا کام ہے کہ وہ اِس رُخ پر ریسرچ کریں اور اِن حقائقِ کائنات کی کامل معرفت حاصل کریں۔
سائنس اور قرآن
اِسی طرح طبیعی اور حیاتیاتی سائنس جن مسائل پر تحقیق سے عبارت ہے وہ اِصطلاحات کی صورت میں درج ذیل ہیں:
۱۔ تخلیقِ کائنات اور اُس کا تشکیلی نظام
Creation of Universe and its structural system
۲۔ زمانہ ہائے تخلیق اور اَدوارِ اِرتقاء
Periods of creation and eras of evolution
۳۔ وُجودِ کائنات کی طبیعی اور کیمیائی اَساس
Physical and chemical basis of the formation of universe
۴۔ زمین اور ظہورِ حیات
Earth and appearance of life
۵۔ اِرتقائے حیات کے طبیعی اور کیمیائی مراحل
Physical and chemical process of evolution of Life
۶۔ اَجرامِ فلکی کی ماہیت اور نظامِ کار
Nature and phenomena of heavenly bodies
۷۔ اِنسانی زندگی کا آغاز اور نظامِ اِرتقاء
Origin of human life and its development
۸۔ نباتات و حیوانات کی زندگی
The vegetable and animal kingdoms
۹۔ اَفزائشِ نسلِ اِنسانی کا نظام
System of human production and self-perpetuation
اِن تمام سائنسی موضوعات پر قرآنِ حکیم نے بہت سا بنیادی مواد فراہم کیا ہے، جو اُس میں سینکڑوں مختلف مقامات پر مذکور ہے۔ ہم اِستشہاد کے طور پر یہاں صرف تین مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں:
(
اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنٰهُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ)
کیا اُن کافروں نے اِس پر غور نہیں کیا کہ کائنات کے بالائی اور زیریں حصے دونوں باہم پیوست تھے یعنی ایک
(
شَئ حَیٍّ اَفَلَا یُؤمِنُونَ وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِهِم وَ جَعَلنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُم یَهتَدُونَ وَ جَعَلنَا السَّمَآءَ سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ هُم عَن اٰیٰتِهَا مُعرِضُونَ وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ وَ مَا جَعَلنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبلِکَ الخُلدَ أفَائِنم مِّتَّ فَهُمُ الخَالِدُونَ
)
(الانبیاء، ۲۱:-۳۴۳۰)
تخلیقی وحدت ( unit of creation ) کی صورت میں موجود تھے۔ ہم نے اُن دونوں کو جدا جدا کر کے کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے تخلیق کیا O اور ہم نے زمین کی تیز رفتاری کے باعث اُس میں پیدا ہونے والی جنبش کو ختم کرنے کے لئے اُس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے تاکہ وہ اپنے اُوپر بسنے والی مخلوق کو لے کر کانپے بغیر حرکت پذیر رہے اور ہم نے اُس میں (بحری، برّی اور فضائی) کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ اپنی اپنی منازل سفر تک جا سکیں O اور ہم نے آسمانی کائنات کو محفوظ چھت بنایا۔ اور (کیا) وہ اُس کی نشانیوں سے اَب بھی رُو گرداں ہیں؟ O اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن بنائے اور سورج اور چاند جو اپنے اپنے مدار اور فلک میں گردِش پذیر ہیں O اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر (ارضی مخلوق) کو ایسی ہمیشگی اور دوَام نہیں بخشا (کہ وہ ہمیشہ اپنے حال پر بدلے یا ختم ہوئے بغیر قائم رہی ہو) اگر آپ اِنتقال فرما گئے تو کیا یہ طعنہ زنی کرنے والے ہمیشہ رہیں گے؟وَ قَد خَلَقَکُم اَطوَارًا O اَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللهُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا O وَّ جَعَلَ القَمَرَ فِیهِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًا O وَ اللهُ اَنبَتَکُم مِّنَ الاَرضِ نَبَاتًا O ثُمَّ یُعِیدُکُم فِیهَا وَ یُخرِجُکُم اِخرَاجًا O وَ اللهُ جَعَلَ لَکُمُ الاَرضَ بِسَاطًا O لِّتَسلُکُوا مِنهَا سُبُلًا فِجَاجًا(نوح، ۷۱:-۲۰۱۴)
حالانکہ اُس نے تمہیں نوع بنوع اور درجہ بدرجہ تخلیق کیا (یعنی تمہیں تخلیق کے کئی مراحل، ادوار اور احوال سے گزار کر مکمل کیا) O کیا تم غور نہیں کرتے کہ اللہ نے کس طرح آسمانی کائنات کے سات تدریجی طبقات بنائے O اور اُن میں چاند کو (اِنعکاسی نور سے) روشن کیا اور سورج کو چراغ (کی طرح روشنی کا منبع) بنایا O اور اللہ نے تمہیں زمین میں سے سبزے ( genealogical tree ) کی طرح اُٹھایا O پھر وہ تمہیں اُسی میں لے جائے گا۔ اور تمہیں دوبارہ نئی زندگی کے ساتھ باہر نکالے گا O اور اللہ نے تمہارے لئے زمین کو بچھایا ہوا قطعہ بنایا O تاکہ تم اُس کے کشادہ راستوں پر چلو(
اَللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ مَا لَکُم مِّن دُونِه مِن وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیعٍ اَفَلَا تَتَذَکَّرُونَ یُدَبِّرُ الاَمرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلَیهِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُه اَلفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ذٰلِکَ عَالِمُ الغَیبِ وَ الشَّهَادَةِ العَزِیزُ الرَّحِیمُ الَّذِی اَحسَنَ کُلَّ شَئ خَلَقَه وَ بَدَاَ خَلقَ الاِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَه مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّآئٍ مَّهِینٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِه وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الاَبصَارَ وَ الاَفئِدَةَ قَلِیلًا مَّا تَشکُرُونَ
)
(السجدہ،۳۲:-۹۴)
ﷲ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ دِنوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا کیا پھر وہ عرش یعنی کائنات کے تختِ اِقتدار پر جلوہ اَفروز ہوا۔ اُسے چھوڑ کر نہ تمہارا کوئی کارساز ہے نہ سفارشی، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ O وہ اپنے اَوامر اور معاملات کی تدبیر آسمان سے اِس لئے کرتا ہے کہ زمین (یعنی نچلی کائنات) میں ان کا نفاذ اور تعمیل ہو، پھر وہ اُمور رفتہ رفتہ اُسی کی طرف اُوپر اٹھائے جائیں گے۔ اِس تدریجی مرحلے کی تکمیل ایک دن ( one era of evolution ) میں ہو گی جس کا عرصہ تمہارے شمار کے مطابق ہزار سال پر محیط ہے o وُہی ہر نہاں اور عیاں کا جاننے والا (اور) عزت و رحمت والا ہے o جس نے ہر اُس چیز کو، جسے اُس نے پیدا کیا، (اُس کے حال کے مطابق) نہایت اَحسن اور مناسب صورت میں تشکیل دیا اور اُس نے اِنسانی تخلیق کی اِبتداء زمین کی مٹی یعنی غیر نامی مادّے ( inorganic matter ) سے کی، پھر اُس کی نسل کو کمزور اور بے قدر پانی ( despised fluid ) کے نچوڑ سے چلایا o پھر اُس وُجود کو صحیح شکل و صورت دی اور اُس میں اپنی طرف سے رُوح پھونکی۔ یعنی اُسے زندگی عطا کی، بعد اَزاں تمہیں سماعت اور دِل و دِماغ ( physical / mental faculties ) سے نواز دیا لیکن تھوڑے لوگ ہی اِن نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہیں (یعنی اُن کا صحیح اِستعمال کرتے ہیں)اگر ہم فقط مذکورہ بالا تین مقامات پر ہی غور و فکر کریں تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو گی کہ طبیعیات ( physics ) اور حیاتیات ( biology ) کے جملہ مسائل پر اُصولی اور بنیادی رہنمائی قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی اِسی وُسعتِ علمی کا نام ’جامعیت‘ ہے۔
دُوسری شہادت ۔ ۔ ۔ ’قرآن تمام نقلی علوم و فنون کا ماخذ ہے‘
علوم و فنون کے اِعتبار سے جامعیتِ قرآن کا اندازہ اِس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے اِسلام نے جملہ علوم کی اَنواع و اَقسام سب قرآنِ حکیم سے ہی اَخذ کی ہیں۔ قرون وُسطیٰ میں جب تمام علوم و فنون کی باقاعدہ تقسیم اور علم و فن کی تفصیلات مرتب کرنے کا کام سر انجام دیا جانے لگا تو علماء کی ایک جماعت نے لغات و کلمات قرآن کے ضبط و تحریر کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ اُس نے مخارجِ حروف کی معرفت، کلمات کا شمار، سورتوں اور منزلوں کی گنتی، سجدات و علاماتِ آیات کی تعداد و تعین، حصرِکلمات، متشابہ و متماثلہ آیات کا اِحصاء، الغرض تعرضِ معانی و مطالب کے بغیر جملہ مسائلِ قرات کا کام سراِنجام دیا۔ اُن کا نام ’قرّاء‘ رکھا گیا اور اِس طرح ’علمُ القراۃِ و التجوید‘ منصہ شہود پر آیا۔ بعض نے قرآن کے معرب و مبنی، اَسماء و اَفعال اور حروفِ عاملہ و غیر عاملہ وغیرہ کی طرف توجہ کی تو ’علمُ النحو‘ معرضِ وُجود میں آیا۔ بعض نے اَلفاظِ قرآن، اُن کی دلالت و اِقتضاء اور اُن کے مطابق ہر حکم کی تفصیلات بیان کیں تو ’علمُ التفسیر‘ وُجود میں آیا۔ بعض نے قرآن کی ادِلّہ عقلیہ اور شواہدِ نظریہ کی جانب اِلتفات کیا اور اللہ تعالی کے وُجود و بقاء، قدم و وُجود، علم و قدرت، تنزیہہ و تقدیس، وحدانیت و اُلوہیت، وحی و رسالت، حشر و نشر، حیات بعد الموت اور اِس قسم کے دیگر مسائل بیان کئے تو ’علمُ الاصول‘ اور ’علمُ الکلام‘ وُجود میں آئے۔ پھر اُنہی اُصولییّن میں سے بعض نے قران کے معانی خطاب میں غور کیا اور قرآنی اَحکام میں اِقتضاء کے لحاظ سے عموم و خصوص، حقیقت و مجاز، صریح و کنایہ، اِطلاق و تقیید، نص، ظاہر، مجمل، محکم، خفی، مشکل، متشابہ، اَمر و نہی، اَنواعِ قیاس اور دیگر ادِلّہ کا اِستخراج کیا تو فنِ ’اُصولِ فقہ‘ تشکیل پذیر ہوا۔ بعض نے قرآنی اَحکام سے حلال و حرام کی تفصیلات و فروعات طے کیں تو ’علمُ الفقہ‘ یا ’علمُ الفروع‘ کو وُجود ملا۔ بعض نے قرآن سے گزشتہ زمانوں اور اُمتوں کے واقعات و حالات کو جمع کیا اور آغازِ عالم سے قیامت تک کے آثار و وقائع کو بیان کیا جس سے ’علمُ التاریخ‘ اور ’علمُ القصص‘ وُجود میں آئے۔ بعض نے قرآن سے حکمت و موعظت، وَعد و وعید، تحذیر و تبشیر، موت و معاد، حشر و نشر، حساب و عقاب اور جنت و نار کے بیانات اَخذ کئے جس سے ’علمُ التّذکیر‘ اور ’علمُ الوعظ‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض نے قرآن سے مختلف خواب اور اُن کی تعبیرات کے اُصول اَخذ کئے تو ’علمِ تعبیرُالرؤیا‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض نے قرآن سے ’علمُ المیراث‘ اور ’علمُ الفرائض‘ کی تفصیلات بیان کیں۔ بعض نے رات، دِن، چاند، سورج اور اُن کی منازل وغیرہ کے قرآنی ذِکر سے ’علمُ المیقات‘ حاصل کیا۔ بعض نے قرآن کے حسنِ اَلفاظ، حسنِ سیاق، بدیع، نظم اور اطناب و اِیجاز وغیرہ سے ’علمُ المعانی‘، ’علمُ البیان‘ اور ’علمُ البدیع‘ کو مدوّن کیا۔ عرفائے کاملین نے قرآن میں نظر و فکر کے بعد اُس سے معانیٔ باطنہ اور دقائقِ مخفیہ کا اِنکشاف کیا۔ اُنہوں نے اُس سے تزکیہ و تصفیہ، فنا و بقاء، غیبت و حضور، خوف و ہیبت، اُنس و وَحشت اور قبض و بسط وغیرہ کے حقائق و تصوّرات بھی اَخذ کئے، جن سے’علمُ التصوّف‘ کی تشکیل ہوئی۔ بعض علماء نے قرانِ مجید ہی سے طب، ہیئت، ہِندسہ، جدل، جبر و مقابلہ، نجوم اور مناظرہ وغیرہ جیسے عقلی علوم و فنون اَخذ کئے اور اُن کی تفصیلات بھی طے کیں۔ اِس طرح یہ مقدس اور جامع اِلہامی کتاب بالفعل دُنیا کے ہر فن اور علم کے لئے منبع و سرچشمہ قرار پا گئی۔ اِمام موسی نے مزید تفصیل کے ساتھ مذکورہ بالا موضوع پر روشنی ڈالی ہے، جس کی تلخیص اِمام جلال الدین سیوطی نے الاتقان میں کی ہے۔
تیسری شہادت۔ ۔ ۔ ’حضور(ص) کی عمرِ مبارک کا اِستشہاد‘
تاجدارِ کائنات (ص) کی عمرِمبارکہ کے حوالے سے اِمام جلالُ الدین سیوطی ’الاتقان‘ میں یہ آیت نقل کرتے ہیں:
(
وَ لَن یُّؤَخِّرَ اللهُ نَفسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا
)
(المنافقون، ۶۳:۱۱)
جب کسی کی اَجل آ جائے تو اللہ تعالی ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں فرماتا۔
قرآنِ کریم کی اِس آیتِ مبارکہ کا اِطلاقِ عمومی ہر اِنسان کی موت پر ہوتا ہے لیکن اَہلِ علم و بصیرت جانتے ہیں کہ اِس کے نزول کے وقت اِس میں وِصالِ محمدی (ص) کی طرف اِشارہ کر دیا گیا تھا۔
یہ آیت ’سورۃُ المنافقون‘ (جو قرآن مجید کی تریسٹھویں ۶۳ سورت ہے) کی آخری آیت ہے۔ اِس سورت کے بعد ربّ ِذوالجلال نے ’سورۃ التغابن‘ کو منتخب فرمایا۔ تغابن ناپید ہو جانے اور ہست سے نیست ہو جانے کو کہتے ہیں۔ ۶۳ویں سورۃ کے اِختتام پر کسی پر وقت اَجل آ جانے کا ذِکر اِس اَمر کی طرف اِشارہ تھا کہ حضور(ص)کی ظاہری عمرِ مبارک ۶۳ویں برس پر اپنے اِختتام کو پہنچ جائے گی اور اِس آیت کے فوراً بعد سورۃُ التغابن کا اِنتخاب مزید صراحت کے لئے تھا کہ اَب اِس ہستیِ مبارک کی حیاتِ ظاہری کے ناپید ہو جانے کے بعد اِنعقادِ قیامت کا ہی دَور آئے گا۔ درمیان میں کسی اور نبی یا اُمت کا دَور ممکن نہیں۔ یعنی حضور(ص) کا دَورِ نبوّت روزِ قیامت سے متصل ہے اور درمیانی سارے عرصے کو یہی محیط ہے۔ کسی اور کا زمانہ باقی نہیں رہا جیسا کہ حضور(ص) نے خود اپنی درمیان والی انگلی اور انگشتِ شہادت کو ملا کر فرمایا تھا:
أنا و الساعة کهاتین
۔ (جامع ترمذی، ۲:۴۴)
میں (یعنی میرا دَور) اور قیامت دونوں آپس میں اِن دو اُنگلیوں کی طرح متصل ہیں۔
جیسے اِن دو اُنگلیوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں اِسی طرح میرے دورِ نبوت اور قیامت کے درمیان کوئی فاصلہ یا زمانہ نہیں۔ گویا یہ آیتِ مقدسہ آنحضرت(ص) کی عمرِ مبارک کے تعین کے ساتھ ساتھ آپ(ص) کے ختمِ نبوت کے اِعلان پر بھی مشتمل ہے۔ اِس شہادت سے ’قرآن‘ کی شانِ جامعیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔
چوتھی شہادت ۔ ۔ ۔ ’اَجرامِ فلکی کی دُہری گردِش‘
اِمام غزالی سے ایک غیرمسلم نے سوال کیا کہ جملہ اَجرامِ فلکی یعنی سورج، چاند اور دیگر سیارگان فضا میں جو حرکت کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہے، ایک سیدھی اور دُوسری معکوس یعنی ایک سیارہ اگر کسی دُوسرے سیارے کے تناسب سے دائیں سے بائیں طرف جاتا ہے تو وہ مدار میں اپنا چکر پورا کرنے کے لئے واپس پلٹ کر بائیں سے دائیں طرف بھی آتا ہے کیونکہ تمام سیاروں کے مدار بیضوی ہیں۔ اِس بارے میں اُس غیرمسلم نے سوال کیا کہ قرآنِ مجید میں ایک سمت کی حرکت کا ذِکر تو موجود ہے لیکن دُوسری کا کہاں ہے؟ پہلی حرکت کے بارے میں اُس نے یہ آیت پڑھی:
(
کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ
)
(یٰسین، ۳۶:۴۰)
تمام (سیارے اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں (یعنی گردِش کر رہے ہیں)اِمام غزالی نے فرمایا کہ اِسی آیت میں اُن کی حرکتِ معکوس کا ذِکر بھی موجود ہے۔ اگر کُلٌّ فِی فَلَکٍ کے اَلفاظ کو اُلٹا کر کے (یعنی معکوس طریقے سے پڑھا جائے) یعنی فَلَکٍ کے ’ک‘ سے شروع کر کے کُلٌّ کی ’ک‘ تک پڑھا جائے تو پھر بھی "کُلٌّ فِی فَلَکٍ" ہی بنے گا، گویا آیت کے اِس حصہ کو سیدھی سمت میں پڑھنے سے سیارگانِ فلکی کی سیدھی حرکت کا ذِکر ہے اور معکوس سمت میں پڑھنے سے حرکت معکوس کا ذکر ہے۔
(
کُلٌّ فِی فَلَکٍ
)
کو اُلٹی سمت سے پڑھئے، فَلَکٍ میں آخری حرف "ک" ہے پھر "ل" ہے تو یہ کُلٌّ بن گیا، اَب اُلٹی سمت سے اگلا حرف "ف" ہے اور پھر "ی" اِس طرح یہ فِی بن گیا، اُس کے بعد "ف" آتا ہے پھر "ل" اور آخری حرف "ک" ہے تو فَلَکٍ ہو گیا، چنانچہ اُلٹی ترتیب سے بھی کُلٌّ فِی فَلَکٍ ہی بنتا ہے۔ یہی سیارگان کی سیدھی حرکت ہے اور اِنہی لفظوں میں اُن کی اُلٹی حرکت بھی مذکور ہے۔
پانچویں شہادت ۔ ۔ ۔ ’واقعۂ تسخیرِ ماہتاب اور قرآن‘
اِس ضمن میں ایک اور شہادت تسخیر ماہتاب کے واقعہ سے متعلق ہے۔ جولائی ۱۹۶۹ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی اِدارے ’ناسا‘ ( National Aeronautic Space Agency ) کے تحت تین سائنس دانوں کے ہاتھوں تسخیرِ ماہتاب کا عظیم تاریخی کارنامہ انجام پذیر ہوا۔ اُس واقعہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے قرآن نے چودہ سو سال پہلے اِعلان کر دیا تھا:
(
وَ القَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ
)
(الانشقاق، ۸۴:۱۸۔۲۰)
اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے O تم یقیناً طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے O تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےاِن تینوں آیات کا باہمی ربط اور سیاق و سباق یہ ہے کہ اِس سورت میں قیامت سے پہلے رُونما ہونے والے حادثات اور واقعات کا ذِکر ہے۔ مذکورہ بالا آیات سے پہلے اَجرامِ فلکی، کائناتی نظام اور بالخصوص نظامِ شمسی کے اہم پہلوؤں کا بیان ہے۔ اِسی طرح اِس میں کائنات کے اہم تغیرات کا بھی ذِکر ہے۔ پھر مختلف قسمیں کھائی گئی ہیں، کبھی شفق کی اور کبھی رات کی، تیسری قسم چاند کی ہے۔ اُس کے بعد اِرشاد فرمایا گیا کہ تم یقینا ایک طبق سے دُوسرے طبق تک پہنچو گے، یعنی تم طبق در طبق پرواز کرو گے۔
اَب اِن آیات پر دوبارہ غور فرمایئے:
(
وَ القَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ
)
(الانشقاق، ۸۴:۱۸)
اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہے(
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ
)
(الانشقاق، ۸۴:۱۹)
تم یقینا طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے(
فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ
)
(الانشقاق، ۸۴:۲۰)
تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےقرآنِ حکیم کا انداز بیان، ربط بین الآیات اور نظم عبارت کا ایک ایک پہلو بلکہ ایک ایک حرف مستقل مفہوم، نمایاں اِفادیت اور خاص حکمت و مصلحت کا حامل ہوتا ہے۔ "(
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ
)
" سے پہلے متصلاً قرآنِ حکیم کا چاند کی قسم کھانا اِس اَمر کی طرف واضح اِشارہ ہے کہ آگے بیان ہونے والی حقیقت چاند سے ہی متعلق ہو گی۔
لترکبنّ، رکب یرکب سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے کسی پر سوار ہونا۔ اِسی سے اِسمِ ظرف (مَرکَب) نکلا ہے، یعنی سوار ہونے یا بیٹھنے کی جگہ۔ گھوڑے پر سوار ہوتے وقت جس پر پاؤں رکھا جاتا ہے اُسے بھی اِسی وجہ سے رکاب کہتے ہیں۔
گویا لَتَرکَبُنَّ کا لفظ اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اُوپر جانا کسی سواری کے ذریعے ہو گا۔ اِمام راغب اِصفہانی فرماتے ہیں:
الرّکوب: فی الأصل کون الإنسان علی ظهر حیوان، و قد یُستعمل فی السفینة
۔ (المفردات:۲۰۲)
رکوب: اصل میں اِنسان کے کسی حیوان پر سوار ہونے کو کہتے ہیں لیکن اِس کا اِستعمال جہاز پر بھی ہوتا ہے۔
لہٰذا اوّلین ترجیح کے طور پر ہم ’لَتَرکَبُنَّ‘ کے اصلی اور حقیقی معنی مراد لیں گے، مجازاً بلند ہونا مراد نہیں لیں گے۔ کیونکہ بعض اَوقات کوئی لفظ حقیقت اور مجاز دونوں معنوں پر دلالت کرتا ہے لیکن عام حالات میں جب کہ حقیقت مستعملہ ہو، معتذّرہ یا مہجورہ نہ ہو تو مجازی معنوں کی طرف اِلتفات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی اِس قدر فروغ پذیر نہ ہوئی تھیں کہ اِنسان زمین سے پرواز کر کے کسی دُوسرے طبق تک پہنچ سکے، اُس وقت تک مجازی معنوں کی بنیاد پر ہی آیت کا مفہوم بیان کیا جاتا رہا ہے کیونکہ حقیقی معنی کا اِطلاق ممکن نہ تھا لیکن آج جبکہ سائنسی ترقی کے دَور میں نہ صرف فضائی بلکہ خلائی حدُود میں بھی اِنسانی پرواز نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو گئی ہے تو لَتَرکَبُنَّ کا اپنے حقیقی معنی پر اِطلاق بلا شک و شبہ جائز ہو گا۔
مزید برآں لَتَرکَبُنَّ میں لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ دونوں اِظہارِ مقصود میں خصوصی تاکید پیدا کر رہے ہیں۔جس سے مراد یہ ہے کہ آیتِ متذکرہ میں بیان ہونے والا واقعہ بہرصورت رُو نما ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ترکیب مستقبل میں صدورِ فعل پر دلالت کیا کرتی ہے۔ لہٰذا یہ آیت پیشین گوئی کے اِعتبار سے ایک چیلنج کے طور پر نازِل کی گئی اور لَتَرکَبُنَّ کے اِعلان سے قبل پے در پے قسموں کا ذِکر منکرینِ قرآن کے لئے اِس چیلنج میں مزید شدت اور سنجیدگی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ مستزاد یہ کہ لَتَرکَبُنَّ جمع کا صیغہ ہے اور صیغہ جمع عام طور پر عربی زبان میں کم از کم تین کے لئے اِستعمال ہوتا ہے جس سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ لَتَرکَبُنَّ کے فاعل کم از کم تین اَفراد ہوں گے جو ایک طبق سے دُوسرے تک پرواز کر کے جائیں گے اور وہ غیرمسلم ہوں گے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ Apolo-۱۱ میں تسخیرِ ماہتاب کے لئے جانے والے مسافر تین ہی تھے اور وہ تینوں غیرمسلم تھے: نیل آرمسٹرانگ ( Neil Armstrong )، ایڈوِن بُز ( Edwin Buzz ) اور کولنز ( Collins )۔ اَب پھر اِن آیاتِ کریمہ اور اُن کی ترکیب ملاحظہ کیجئے۔
قرآن قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ "قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے۔ اے بنی آدم! تم میں سے کم از کم تین اَفراد پرواز کریں گے"۔ کہاں سے کہاں تک۔ ۔ ۔ "طَبَقًا عَن طَبَقٍ" ایک طبق سے دُوسرے طبق تک۔ پہلا طبق تو یقیناً زمین ہے کیونکہ مخاطب اہلِ زمین تھے جو کسی دُوسرے طبق تک جائیں گے۔ دُوسرے طبق کا تعین بھی حکیمانہ انداز میں کیا گیا۔ اگر یہاں دُوسرے طبق کے لفظ کی بجائے سیدھا چاند ہی کہہ دیا جاتا تو پھر تسخیرِ کائنات کی مہم صرف طبقِ مہتاب تک ہی محدود و محصور تصور کی جاتی۔ ربِ ذوالجلال کو یہ منظور نہ تھا کہ انسان کی پرواز زمین کے بعد چاند پر جا کر رک جائے بلکہ وہ چاند کے بعد دیگر اَجرامِ فلکی کی تسخیر بھی چاہتا تھا۔ اِسی لئے لفظ طَبَقٍ کو تنوین کے ساتھ عام کر دیا تاکہ یکے بعد دیگرے اِنسان اَجرام و طبقاتِ کائنات کو تسخیر کرتا چلا جائے اور رازِ کائنات فاش کرنے کی مہم جاری رہ سکے۔ لیکن پہلا طبق جس پر اوّلاً اِنسان پہنچے گا وہ چاند ہو گا۔ اِس لئے اُس کی قسم پہلے کھائی گئی کیونکہ زمین کے سب سے زیادہ قریب چاند ہی کا طبق تھا اور باقی سب اُس کے مقابلے میں دُور تھے۔ آج سے چودہ سو سال قبل اہلِ زمین کو یہ پیشینگوئی سنائی گئی کہ تم میں سے کم از کم تین شخص کسی چیز پر سوار ہو کر پرواز کریں گے اور زمین کے طبق سے چاند تک پہنچیں گے، لیکن تسخیرِ مہتاب کے بعد اِنسان کی تگ و دَو ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ جاری رہے گی۔ اَب اِسی طرح مریخ کے طبق تک بھی اِنسان رسائی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اِنسانی پرواز کی یہ کامیاب کاوِشیں دراصل واقعۂ معراج کی صحت و حقانیت پر رَوشن مادّی دلیلیں بنتی جا رہی ہیں۔ بقول اِقبال:
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردُوں
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ معجزات و کرامات جن کے اِمکان و وقوع کو انسانی عقل منطقی پیمانوں پر سمجھنے سے قاصر تھی، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ نے کسی حد تک اُن کے سمجھنے کی مادّی اور عقلی بنیادیں فراہم کر دی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر منکشف ہوتا جا رہا ہے کہ انسان جسے ایک دَور میں ناممکن سمجھتا ہے وہ مستقبل میں نہ صرف ممکن بلکہ واقع ہو جاتا ہے۔ اِس لئے نام نہاد تعقل پسند طبقے کے اِنکارِ خوارق کی یہ دلیل کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے اور سمجھ میں نہیں آتی قابلِ اِلتفات نہیں رہتی کیونکہ عقل کا اِنحصار صرف محسوسات و مشاہدات پر ہوتا ہے اور جب تک کوئی حقیقت محسوس نہ ہو یا اُس کی کوئی مثل مشاہدے میں نہ آئی ہو، عقل اُس کے اِمکان کو کیونکر سمجھ سکتی ہے! اِس لئے عقل کا فیصلہ جزئی و اِضافی ہوتا ہے، وہ کلی و مطلق نہیں ہو سکتا۔ جبکہ قرآن کا ہر دعویٰ ابدی ہے، اِس لئے عین ممکن ہے کہ اِنسانی عقل قرآن کے بعض دیگر دعاویٰ و اِعلانات کو آج ممکن نہ سمجھے لیکن مستقبل کے کسی دَور میں وہ سب کچھ ممکن اور واقع نظر آنے لگے۔ لہٰذا محض عقل کے قصورِ فہم کی بنا پر کسی حقیقت کا اِنکار کر دینا نادانی ہے، عافیت اِیمان بالغیب میں ہی ہے۔ (’اثباتِ معجزہ اور جدید سائنسی تحقیقات‘ پر سیر حاصل مطالعہ کے لئے سیرتُ الرسول کی جلد نہم ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔)
مزید برآں تسخیرِ ماہتاب کی متذکرہ بالا قرانی تعبیر کی نسبت یہ خیال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ Apollo-۱۱ کے سفر میں تین امریکی سائنسدانوں میں سے صرف دو چاند کی سطح پر اُترے تھے اور تیسرا شخص کمانڈ ماڈل میں بیٹھا کسی مصنوعی سیارے کی طرح چاند کے گرد گھومتا رہا تھا تاکہ بعد اَزاں گاڑی کے چاند پر اُترنے والے حصے ( lunar model ) کو ساتھ ملا کر واپس لا سکے، لہٰذا لَتَرکَبُنَّ کا اِطلاق تین اَفراد پر کیسے ہو گیا؟ ایسا خیال دراصل غور و فکر نہ کرنے کے باعث پیدا ہو گا کیونکہ اِس آیتِ کریمہ میں بات چاند کی سطح پر اُترنے کی نہیں بلکہ چاند کے طبق تک پہنچنے کی ہو رہی ہے اور یہی(
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ
)
کے اَلفاظ سے مستفاد ہے۔ اُس طبق (چاند) تک تو تین ہی اَفراد پہنچے تھے۔ اُن میں سے ایک جس کا نام کولنز ( Collins ) تھا کمانڈ ماڈل میں بیٹھا چاند کے گرد گھومتا رہا اور باقی دونوں اُس کی سطح پر اُتر گئے تھے۔ طبق محض کسی سیارے کی سطح ( soil surface ) کو نہیں کہتے بلکہ کسی سیارے اور اُس کے گرد فضائی حدود پر مشتمل اُس وسیع و عریض حلقے کو کہتے ہیں جہاں تک اُس سیارے کی کششِ ثقل ( gravitational force ) اثرانداز ہوتی ہے اور یہ علاقہ یا طبق سیارے کی سطح کے گرد فضا میں ہزاروں میل تک محیط ہوتا ہے۔ جس طرح ہوائی جہاز کی پرواز زمین کی سطح پر نہیں بلکہ اس سے اوپر فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر ہوتی ہے لیکن طبق ارضی میں ہی تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن بھی طبق ارضی سے پرواز کر کے انسان کے دیگر طبقات فلکی تک پہنچنے کی پیشگوئی کر رہا ہے۔ انسان کی ایسی کامیابیوں کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کائنات کے اندر یعنی آسمانوں اور زمین کی وسعتوں میں جو کچھ موجود ہے وہ اِنسان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور انسان ہی کے لئے مسخر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
(
وَ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مِّنهُ
)
۔ (الجاثیہ، ۴۵:۱۳)
اور اُس (ﷲ) نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔
اس کے بعد سورۂ اِنشقاق کی زیر مطالعہ آیت سے آگے فرمایا گیا:
(
فَمَا لَهُم لَا یُؤمِنُونَ
)
(الانشقاق، ۸۴:۲۰)
تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےاَے فرزندانِ آدم! تم میں سے کچھ اَفراد زمین سے اُٹھ کر چاند کے طبق تک پہنچیں گے، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے اِس دعویٰ کے پورا ہو جانے اور اُس طبق پر بھی ہماری قدرت کا نظام دیکھ لینے کے باوُجود اِیمان نہیں لائیں گے۔ ایمان نہ لانے کا ذِکر اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تسخیرِ ماہتاب کی مہم غیرمسلموں کے ہاتھ سے سر ہو گی۔ دُنیا نے دیکھا کہ تین غیرمسلم سائنسدان چاند تک پہنچے، وہاں بھی تخلیقِ خداوندی کے مناظر دیکھے، اُس کے نظامِ قدرت کا مشاہدہ کیا لیکن قرآنی دعویٰ کے عین مطابق اُن کی قوم قرآن کی حقانیت پر اِیمان نہ لائی۔
تسخیرِ کائنات کے مذکورہ بالا قرآنی بیان کے حوالے سے ایک غیر مسلم فرانسیسی سکالر Maurice Bucaille نے اپنی کتاب The Bible, the Qur'an and Science کے صفحہ نمبر۱۶۷ تا ۱۶۹ پر The Qur'an and Modern Science کے باب میں " The Conquest of Space " کے زیر عنوان لکھا ہے:
The Conquest of Space
From this point of view, three verses of the Qur'an should command our full attention. One expresses, without any trace of ambiguity, what man should and will achieve in this field. In the other two, God refers for the sake of the unbelievers in Makka to the surprise they would have if they were able to raise themselves up to the Heavens; He alludes to a hypothesis which will not be realized for the latter
There can be no doubt that this verse indicates the possibility men will one day achieve what we today call (perhaps rather improperly) "the conquest of space." One must note that the text of the Heavens, but also the Earth, i.e. the exploration of its depths
۱. The first of these verses is sura ۵۵, verse ۳۳: "O assembly of jinns and men, if you can penetrate regions of the heavens and the earth, then penetrate them; You will not penetrate them save with a power ."
۲. The other two verses are taken from sura ۱۵, verses ۱۴-۱۵. God is speaking of the unbelievers in Makka as the context of this passage in the sura shows: "Even if We opened unto them a gate to Heaven and they were to continue ascending therein, they would say: our sight is confused as in drunkenness. Nay, we are people bewitched ."
The above expresses astonishment at a remarkable spectacle, different from anything man could imagine
When talking of the conquest of space, therefore, we have two passages in the text of the Qur'an: one of them refers to what will one day become a reality thanks to the powers of intelligence and ingenuity God will give to man, and the other describes an event that the unbelievers in Makka will never witness, hence its character of a condition never to be realized. The event will however, be seen by others as intimated in the first verse quoted above
It describes the human reactions to the unexpected spectacle that travellers in space will see: their confused sight as in drunkenness the feeling of being bewitched . . .
This is exactly how astronauts have experienced this remarkable adventure since the first human spaceflight around the world in ۱۹۶۱. It is a completely new spectacle therefore, that presents itself to men in space and the photographs of this spectacle are well known to present-day man
چنانچہ یہ دعویٰ بجا طور پر حق ہے کہ کائنات کے اندر جو کچھ ہو چکا یا ہونے والا ہے اس کا ذکر قرآن کے اندر موجود ہے۔
الغرض دُنیا میں موجود ہر فن و صنعت جو اِنفرادی، اِجتماعی اور عالمی سطح پر اِنسانی زندگی کی بقا و دوام اور فروغ و اِرتقاء کے لئے ضروری ہے اَصلاً قرآن سے ثابت ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے قرآنِ مجید کی جامعیت کے بیان سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہو گئی کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو محض ذکر و عبادت اور اَخلاق و روحانیت کا ہی درس نہیں دیتا بلکہ دنیا میں ہر قسم کی علمی، فنی، صنعتی، سائنسی اور فوجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرتا ہے تاکہ ملتِ اسلامیہ ایک ہمہ گیر ترقی پسند اُمت کے طور پر اُبھرے اور آفاقی سطح پر اِنقلاب بپا کر کے عظیم مقام حاصل کر لے کیونکہ اُس کے بغیر عالمگیر غلبۂ حق کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جس کی نشاندہی قرآن نے پیغمبرِ اِسلام (ص) کے مقصدِ بعثت کے حوالے سے فرما دی ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
(
هُوَ الَّذِی اَرسَلَ رَسُولَه بِالهُدٰی وَ دینِ الحَقِّ لِیُظهِرَه عَلَی الدِّینِ کُلِّه وَ لَو کَرِهَ المُشرِکُونَ
)
(الصف، ۶۱:۹)
اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسولِ معظم (ص) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اِس لئے بھیجا کہ اُس نظامِ حق کو دُنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرک (یعنی کفر و طاغوت کے علمبردار) اُس کی مخالفت کرتے رہیںگزشتہ اَنبیائے کرام کے زمانوں میں وحی کا سلسلہ جاری تھا اور ہر ایک الہامی کتاب کا بدل اگلے زمانے میں بنی نوع اِنسان کو کسی دوسری اِلہامی کتاب یا صحیفے کی صورت میں میسر آ رہا تھا۔ اِس لئے اُن کتابوں کو اِس قدر جامع بنانے کی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کسی کتاب کو ہمیشہ کے لئے اپنی اصلی حیثیت میں باقی رہنا تھا۔ اس کے برعکس خاتم الانبیاء (ص) کے بعد نہ کوئی اور نبی یا رسول آ سکتا تھا اور نہ قران کے بعد کوئی آسمانی وحی۔ چنانچہ ضروری تھا کہ نبوت محمدی (ص)کو آفاقی، کائناتی، ابدی، کلی، حتمی، قطعی اور آخری بنانے کے لئے ہر اِعتبار سے کامل اور جامع بنایا جائے اور اِس طرح وہ کتاب جو نبی آخر الزماں (ص) پر نازِل ہوئی اُسے بھی عالمگیر اور ابدی بنانے کے لئے اِس قدر جامع کیا جائے کہ اِنسانیت کو سب کچھ اُس کتاب کے دامن سے میسر آ سکے اور کسی کو دُوسری سمت متوجہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔
قرآن اپنی جامعیت کا ذِکر اِس انداز میں کرتا ہے:
(
یَتلُوا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً فِیهَا کُتُبٌ قَیِّمَةٌ
)
(البینہ، ۹۸:۲،۳)
وہ (اُن پر) پاکیزہ اَوراقِ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیں O جن میں درُست اور مستحکم اَحکام (درج) ہیںکوئی ضرورت کی چیز جس پر اِنسانی زندگی کا اِنحصار ہو قرآن سے خارج نہیں۔ باوُجود قلتِ حجم کے اُس میں وہ تمام علوم و معارِف بیان کر دیئے گئے ہیں، جن کا اِحصاء و اِستیفاء کوئی فرد نہیں کر سکتا تھا۔
خود قرآن اِعلان کرتا ہے:
(
وَ لَو اَنَّ مَا فِی الاَرضِ مِن شَجَرَةٍ أَقلَامٌ وَّ البَحرُ یَمُدُّه مِنم بَعدِه سَبعَةُ اَبحُرٍ مَّا نَفِدَت کَلِمَاتُ ﷲ اِنَّ ﷲ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
)
(لقمان، ۳۱:۲۷)
اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، اُس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے (یعنی کلامِ اِلٰہی کی وُسعت و جامعیت کا احاطہ نہیں ہو سکے گا)، بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہےقرآنِ مجید کے اِسی اِعجازِ جامعیت اور ابدی فیضان کا ذِکر کرتے ہوئے اِمام جلالُ الدین سیوطی یہ شعر نقل کرتے ہیں:
کالبدرِ من حیث التفت رأیته
کالشّمسِ فی کبدِ السمآءِ و ضوئُها
یهدی إلی عینیک نورًا ثاقبًا
یغشی البلاد مشارقًا و مغاربًا
ترجمہ: "قرآن چودھویں رات کے چاند کی مانند ہے، تو اُسے جس طرف سے بھی دیکھے وہ تیری آنکھوں کو چمکتا ہوا نور عطا کرے گا۔ یہ قرآن آفتاب کی طرح آسمان کے وسط میں ہے لیکن اُس کی روشنی دُنیا کے مشارق و مغارب سب کو ڈھانپ رہی ہے"۔