یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 168300
ڈاؤنلوڈ: 4313

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168300 / ڈاؤنلوڈ: 4313
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آیت 48:

(48) ثُمَّ یَأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ

'' پھر اسکے بعد بڑے سخت سات برس آئیں گے جو کچھ تم لوگوں نے ان سات سالوں کے واسطے پہلے سے جمع کررکھا ہوگا لوگ سب کھا جائیں گے مگر قدر قلیل جو تم (بیج کے طور پر)بچا رکھو گے ''۔

آیت 49:

(49)ثُمَّ یَأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ عَامٌ فِیهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیهِ یَعْصِرُونَ

''(بس) پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لئے بارش ہوگی (اور خشک سالی کی مشکل حل ہوجائےگی) اور لوگ اس سال (پھلوں اور روغن دار دانوں کی فراوانی کی وجہ سے ان کا رس) نچوڑیں گے''۔

نکات:

'' یُغَاثُ النَّاسُ '' یاتو''غوث'' سے ہے یعنی لوگوں کو خداوندعالم کی طرف سے مدد حاصل ہوگی اور 14 سالہ مشکلات حل ہوجائیں گی یا''غیث'' سے ہے یعنی بارش ہوگی اور تلخ حوادث ختم ہوجائیں گے۔(1)

--------------

( 1 )المیزان فی تفسیر القرآن.

۱۰۱

حضرت یوسف (ع)نے سات موٹی گائیں اور سات دبلی پتلی گائیوں اور سبز و خشک بالیوں کی تعبیر یہ فرمائی کہ 14 چودہ سال نعمت اور خشک سالی کے ہوں گے لیکن پندرہواں سال جو باران رحمت اور نعمت کی فراوانی کا ہوگا اس کا تذکرہ بادشاہ کے خواب میں نہیں ہے درحقیقت یہ غیب کی خبر تھی جسے حضرت یوسف(ع) نے بیان فرمایا تاکہ آپ (ع)اعلان نبوت کے لئے راہ ہموار کرسکیں(ثُمَّ یَأْتِی مِن بَعد ذَلِکَ عام...)

سماج میں ایک کارآمد اور کامیاب منتظم اور انتظامیہ کےلئے درج ذیل شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے۔

1۔ لوگوں کا اعتماد۔(انا لنراک من المحسنین)

2۔ صداقت۔(یوسف ایها الصدیق)

3۔ علم و دانائی ۔(علّمنی ربّی)

4۔ صحیح پیشین گوئی۔(فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

5۔ قوم کی اطاعت۔کیونکہ لوگوں نے حضرت یوسف کی بیان کردہ تجاویزپر عمل کیا۔

۱۰۲

پیام:

1۔ مستقبل کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے بچت کرنا اور منظم طریقے سے خرچ کرنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔( سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ...)

2۔ خرچ کرتے وقت تھوڑا سا بیج اور سرمایہ ذخیرہ کرلیں( إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ) (1)

3۔ خواب نہ صرف آئندہ کے حوادث کو بتا سکتے ہیں بلکہ انسان کے لئے مشکلات سے رہائی اور پھر خوشحالی کا ذریعہ اور اشارہ بھی ہوسکتے ہیں( یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیهِ یَعْصِرُونَ )

--------------

( 1 )مِمَّا تُحْصِنُون یعنی محفوظ جگہ پر ذخیرہ کرلیں.

۱۰۳

آیت 50:

(50) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ فَلَمَّا جَاءَ هُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَ اللاَّتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِهِنَّ عَلِیمٌ

''(یہ تعبیر سنتے ہی)بادشاہ نے حکم دیاکہ یوسف کو میرے حضور میں لے اور پھر جب (شاہی)چوبدار (یہ حکم لے کر)یوسف کے پاس آیا تو یوسف نے کہا تم اپنے بادشاہ کے پا س لوٹ ج اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے (مجھے دیکھ کر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ آیا میں ان کا طالب تھا یا وہ (میری) ،اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ میرا پروردگار ہی ان کے مکروفریب سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور سنجیدہ و منظم پروگرام، بغیر کسی شرط و قید کے بیان کرکے ثابت کردیا کہ وہ کوئی معمولی قیدی نہیں ہیں بلکہ ایک غیر معمولی اور دانا انسان ہیں ۔

جب بادشاہ کا فرستادہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں آیا تو آپ (ع)نے آزادی کی خبر کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ سابقہ فائل پر دوبارہ تحقیق کی درخواست کی، اس لئے کہ آپ (ع) نہیں چاہتے تھے کہ بادشاہ کا عفو آپ (ع)کے شامل حال ہو بلکہ یہ چاہتے تھے کہ آپ (ع)کی بے گناہی اور پاکدامنی ثابت ہوجائے تاکہ بادشاہ کو سمجھا سکیں کہ تمہاری حکومت میں کس قدر فساد اور ناانصافی کارفرما ہے۔

۱۰۴

شاید حضرت یوسف (ع)نے عزیز مصر کے احترام میں اس کی بیوی کا نام نہیں لیا بلکہ اس مہمان نوازی والے واقعہ کی طرف اشارہ کیا۔(قطعهن ایدهن)

حدیث میں موجود ہے کہ پیغمبراسلام (ص)نے فرمایا: مجھے حضرت یوسف (ع)کے صبر پر تعجب ہے اس لئے کہ جب عزیز مصر نے خواب کی تعبیر چاہی تو نہیں فرمایاکہ جب تک قید خانہ سے آزاد نہیں ہوجاتا خواب کی تعبیر بیان نہیں کروں گا ۔لیکن جب حضرت یوسف (ع)کو آزاد کرنا چاہا تو آپ (ع)قیدخانہ سے اس وقت تک باہر تشریف نہ لائے جب تک تہمت کا بالکل خاتمہ نہ ہوگیا۔(1)

--------------

( 1 )تفسیر اطیب البیان.

۱۰۵

پیام:

1۔ وہ متفکر ذہن جن کی ملک کو ضرورت ہو اگر وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تو حکومت کی مدد سے انہیں آزاد کردینا چاہیئے۔(قَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِه...)

2۔ ہر طرح کی آزادی قابل اہمیت نہیں ہے بلکہ بے گناہی کا ثابت کرنا آزادی سے اہم ہے۔(ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ)

3۔ جو قیدی آزادی کے بجائے فائل کی تحقیق کا مشورہ دیتا ہے وہ یقینا بے گناہ ہے۔(فَاسْأَلْهُ )

4۔حضرت یوسف (ع)نے پہلے لوگوں کے ذہن کو پاک کیا پھر مسلیت قبول فرمائی( مَا بَالُ النِّسْوَ)

5۔ آبرو اور عزت کا دفاع واجب ہے۔( مَا بَالُ النِّسْوَ )

6۔ حضرت یوسف (ع)کو قید خانہ میں ڈالنے کی سازش میں تمام عورتیں شریک تھیں۔(کَیْدهنّ)

7۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے پیغام میں بادشاہ کو یہ بھی بتا دیا کہ آزادی کے بعد آپ (ع) بادشاہ کو اپنا مالک نہیں سمجھیں گے اور نہ ہی وہ جناب یوسف (ع)کو اپنا غلام سمجھنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بلکہ خدا کو اپنا مالک سمجھتے ہیں( إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِهِنَّ عَلِیمٌ )

۱۰۶

آیت 51:

(51) قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ یُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوئقَالَتِ امْرَ الْعَزِیزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِینَ.

''چنانچہ بادشاہ نے ان عورتوں (کو طلب کیا اور)ان سے پوچھا کہ جس وقت تم لوگوں نے یوسف سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود ان سے تمنا کی تھی تو تمہیں کیا معاملہ پیش آیا تھا وہ سب کی سب عرض کرنے لگیں پاکیزہ ہے اللہ ہم نے یوسف میں کسی طرح کی کوئی برائی نہیں دیکھی (تب)عزیز (مصر)کی بیوی (زلیخا) بول اٹھی اب تو حق سب پر ظاہر ہو ہی گیا ہے (اصل بات یہ ہے کہ) میں نے خود اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی تمنا کی تھی اور بے شک وہ یقینا سچوں میں سے ہے ''۔

نکات:

کسی اہم کام کے سلسلے میں دعوت دینے کو ''خطب '' کہتے ہیں۔

''خطیب'' اس شخص کو کہتے ہیں جولوگوں کو کسی اہم اور بڑے ہدف و مقصد کی دعوت دے''حصص'' یعنی حق کا باطل سے جدا ہوکرآشکار ہوجانا۔(1)

اس داستان میں خداوندعالم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ جلوہ نما ہوئی ہے کہ تقوی الٰہی اور پرہیز گاری کی وجہ سے مشکل کام آسان ہوجاتے ہیں(2)

--------------

( 1 ) تفسیر اطیب البیان.

( 2 )(من یتق الله یجعل له مخرجا و یرزقه من حیث لایحتسب) اور جو تقوی الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتاہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔ (سورہ طلاق آیت 2 ،و 3 )

۱۰۷

پیام:

1۔ جب کوئی مسئلہ بہت سنگین ہوجائے اور کسی سے بھی حل نہ ہو پارہا ہو تو سربراہ مملکت کو اس میں مداخلت کرنی چاہیئے اور تحقیق کے بعد مشکل کو حل کرنا چاہیئے ۔( قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ ...)

2۔متہم کو عدالت میں حاضر کرنا چاہیئے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے ۔( قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ ...) یہاں تک کہ زلیخا بھی عدالت میں حاضر تھی( قَالَتِ امْرَ الْعَزِیز)

3۔ پریشانی کے ساتھ آسانی اور تلخی کے ساتھ شیرینی ہے کیونکہ جہاں (اراد باھلک سوئ)ہے وہاں اسی زبان پر( مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوئٍ) بھی جاری ہے۔

4۔ حق ہمیشہ کے لئے مخفی نہیں رہ سکتا ۔(الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ )

5۔ ضمیر کبھی نہ کبھی بیدار ہوکر حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔(أَنَا رَاوَدتُّهُ )

معاشرے اور ماحول کا دب ضمیر فروشوں کو حق کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیتا ہے (عزیز مصر کی بیوی نے جب دیکھا کہ تمام عورتوں نے یوسف (ع)کی پاک دامنی کا اقرار کر لیا ہے تو اس نے بھی حقیقت کا اعتراف کرلیا)

۱۰۸

آیت 52:

(52) ذَلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّی لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ اﷲَ لاَیَهْدِی کَیْدَ الْخَائِنِینَ

''(یوسف نے کہا)یہ قصہ میں نے اس لئے چھیڑا تاکہ(تمہارے )بادشاہ کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی (امانت میں)خیانت نہیں کی اور خدا خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا''۔

نکات:

یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کی گفتگو ہے یا عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا حصہ ہے؟اس سلسلے میں مفسرین کے دو نظرئےے ہیں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کلام ہے(1) جب کہ بعض مفسرین اسے عزیز مصر کی بیوی کا بیان قراردیتے ہیں(2) لیکن آیت کے مضمون کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلا نظریہ صحیح ہے لہٰذا یہ جملہ عزیز مصر

--------------

( 1 )تفسیر مجمع البیان، تفسیر المیزان

( 2 )تفسیر نمونہ.

۱۰۹

کی بیوی کا کلام نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک بے گناہ کو سالہا سال قید خانے میں قیدی بنا کر رکھنے سے بڑی خیانت اور کیا ہوسکتی ہے ؟

یوسف علیہ السلام اپنے اس جملے سے قید خانہ سے دیر سے آزاد ہونے کی وجہ بیان فرما رہے ہیں : دوبارہ ان کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے اور وہ اپنی حقیقی حیثیت و فضیلت پرفائز ہوئے ہیں۔

پیام:

1۔ کریم انسان انتقام لینے کے درپے نہیں ہوتا بلکہ حیثیت اور کشف حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے( ذَلِکَ لِیَعْلَمَ )

2۔ حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان تنہائی میں خیانت نہ کرے( لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ)

3۔ دوسروں کی ناموس پر بُری نگاہ ڈالنا گویا اس شخص کےساتھ خیانت کرنا ہے(لَمْ أَخُنْهُ)

4۔ خیانت کار اپنے کام یا برے کام کی توجیہ بیان کرنے کےلئے سازش کرتا ہے(کَیْدَ الْخَائِنِینَ)

5۔ خیانت کار ،نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کی عاقبت بھی بخیر نہیں ہوتی ،حقیقت میں اگر ہم پاک ہوں( لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ) تو خداوندعالم اجازت نہیں دیتا کہ ناپاک افراد ہماری آبرو برباد کرسکیں ۔(انَّ اﷲَ لاَیَهْدِی کَیْدَ الْخَائِنِینَ)

6۔ حضرت یوسف علیہ السلام اس کوشش میں تھے کہ بادشاہ کو آگاہ کردیں کہ تمام حوادث اور واقعات میں ارادہئ خداوندی اور سنت الٰہی کارفرما ہوتی ہے(انَّ اﷲَ لاَیَهْدِی ...)

۱۱۰

آیت 53:

(53) وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّی إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ

''اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا کیونکہ (انسانی) نفس برائی پر اکساتا ہے مگریہ کہ میرا پروردگار رحم کرے بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

قرآن مجید میں نفس کی مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1۔ نفس امارہ: یہ نفس انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اگر عقل و ایمان کے ذریعہ لگام نہ لگائی جائے تو انسان یک بارگی ذلت و ہلاکت میں گر جائے گا ۔

2۔ نفس لوّامہ : یہ وہ نفسانی حالت ہے جس کی بنیاد پر برائی کرنے والا انسان خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے ، تو بہ اورعذر خواہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، سورہ قیامت میں اس نفس کا تذکرہ ہے۔

3۔ نفس مطمئنہ: یہ وہ نفسانی حالت ہے کہ جو انبیاء و اولیائے الٰہی اور ان کے حقیقی تریبت یافتہ افراد کو حاصل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ہر وسوسے اور حادثے سے کامیاب و کامران پلٹتے ہیں ایسے افراد فقط خدا سے لو لگائے رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام اس امتحان میں اپنی سربلندی اور عدم خیانت کو خداوندعالم کے لطف کرم کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور ایک انسان ہونے کی بنیاد پر جس میں انسانی خصلت موجود ہے خود کو اس سے الگ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

متعدد روایات میں نفس کے خطرات اور خود کو بری الذمہ قرار دینے نیز نفس سے راضی ہونے کا تذکرہ موجود ہے اپنے نفس سے راضی ہونے کو روایات میں عقل کا دیوانہ پن اور شیطان کا سب سے بڑا پھندہ قراردیا گیا ہے(1)

--------------

( 1 )غررالحکم.

۱۱۱

پیام:

1۔ کبھی بھی اپنے آپ کو پاکباز اور خواہشات نفسانی سے محفوظ قرار نہیں دینا چاہیئے ۔(وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )

2۔ شرط کمال یہ ہے کہ اگرچہ ساری دنیا اسے کامل سمجھ رہی ہو لیکن وہ شخص کبھی خود کو کامل نہ سمجھے ۔ حضرت یوسف (ع)کی داستان میں برادران یوسف ، عزیز مصر کی بیوی ، گواہ ، بادشاہ ، شیطان ، قیدی، سب کے سب آپکی پاکدامنی کی گواہی دے رہے ہیں لیکن آپ (ع)خود فرما رہے تھے کہ۔(مَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )

3۔ ہوا و ہوس اور نفس کا خطرہ بہت ہی خطرناک ہے اسے کھیل نہیں سمجھنا چاہیئے۔( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ) (1)

4۔ انبیاء (ع)، معصوم ہونے کے باوجود انسانی فطری غرائز کے حامل ہیں۔( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)

5۔ نفس اپنی خواہشات کی باربار تکرار کرتا ہے تاکہ تمہیں مصیبت میں گرفتار کردے۔(لَأَمَّارَ )

6۔ اگر خداوندعالم کا لطف و کرم نہ ہو تو فطرت انسانی منفی امور کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہے ۔(2) ( لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)

7۔ فقط رحمت خداوندی ہی سرمایہ نجات ہے اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ قعر ضلالت و گمراہی میں گر پڑے گا۔( إِلاَّ مَا رَحِم)

8۔جناب یوسف (ع)خداوندعالم کی خاص تربیت کے زیر سایہ تھے لہٰذا کلمہ(رَبِّی) کی تکرار ہوئی ہے۔

9۔ مربی کو رحمت اور مہربانی سے کام لینا چاہیئے ۔( إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ )

10۔ عفو و درگزر رحمت الٰہی تک پہنچنے کا مقدمہ ہے پہلے(غَفُور)فرمایا ہے بعد میں(رَحِیم) کا ذکر ہے۔

11۔ تمام خطرات کے باوجود رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔( غَفُورٌ رَحِیمٌ )

--------------

( 1 ) آیہ شریفہ میں چار طریقوں سے تاکید کی گئی ہے ۔إِنّ ۔ لام تاکید ۔ صیغہ مبالغہ۔ جملہ اسمیہ.

( 2 )امام سجاد علیہ السلام نے مناجات شاکین میں نفس کے لئے 15 پندرہ خطرے ذکر کئےے ہیں جن کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے.

۱۱۲

آیت 54:

(54) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَهُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَامَکِینٌ أَمِینٌ

''اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لے ، میں ان کو خاص طور سے (بطور مشاور) اپنے لئے رکھوں گا اس نے یوسف سے باتیں کیں تو (یوسف کی اعلی قابلیت ثابت ہوئی اور)اس نے کہا بے شک آج سے آپ ہمارے بااختیار امانتدار ہیں''۔

نکات:

کتاب ''لسان العرب'' میں ہے :جب بھی انسان کسی کو اپنا محرمِ راز اور اسے اپنے امور میں دخیل قرار دیتا ہے تو ایسی صورت میں(استخلصه) کہا جاتا ہے ۔

جناب یوسف (ع)نے قید خانہ سے نکلتے وقت زندان کے دروازے پر چند جملے لکھے تھے جن میں آپ(ع) نے قید خانہ کی تصویر کشی کی ہے۔هذا قبور الاحیاء ،بیت الاحزان، تجرب الاصدقاء و شماته الاعداء ۔(1) زندان؛ زندہ لوگوں کا قبرستان ، غم و الم

--------------

( 1 )شماتت ،کسی کی تباہی و بربادی پر خوش ہونے کو کہتے ہیں.

۱۱۳

کا گھر، دوستوں کو پرکھنے کی جگہ اور دشمنوں کے لئے خندہ زنی کا مقام ہے(1)

بادشاہ کو جب حضرت یوسف (ع) کی امانت و صداقت پر یقین ہوجاتا ہے اور آپ(ع) میں شمہ برابر بھی خیانت نہیں پاتا تو آپ (ع)کو اپنے لئے چن لیتا ہے (غور کیجئے کہ) اگر خدا اپنے بندوں میں خیانت نہ پائے گا تو وہ کیا کرے گا!؟

یقینا ایسے افراد کو خدا اپنے لئے چن لے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء (ع)کے لئے یہ جملے مذکور ہیں ۔

(و انا اخترتک فاستمع لما یوحی) (2) ترجمہ: اور میں نے آپ (حضرت موسیٰ) کو منتخب کرلیا ہے لہٰذا جو وحی کی جارہی ہے اسے سنیں(واصطنعتک لنفسی)( 3) ترجمہ: اور میں نے آپ (حضرت موسیٰ) کو اپنے لئے اختیار کیا ہے۔

بادشاہ نے کلمہ ئ''لدینا'' سے یہ اعلان کیا کہ یوسف (ع)ہماری حکومت میں قدرومنزلت کے حامل ہیں، نہ کہ فقط ہمارے دل میں ۔لہٰذا تمام عہدہ دار افراد پر ان کی اطاعت ضروری ہے ۔

چونکہ حضرت یوسف کے لئے حکومت تقدیر الٰہی میں تھی، لہٰذا خداوند عالم نے آپ (ع)کو چند امتحانات میں مبتلا کیا تاکہ آپ (ع)کو تجربہ حاصل ہوجائے بھائیوں کے مکر و فریب میں گرفتار کیا تاکہ صبرکریں ۔ آپ (ع)کو کنویں اور قید خانے میں ڈلوایا تاکہ کسی (بے گناہ) کو

--------------

( 1 ) تفسیر مجمع البیان.

( 2 )سورہ طہ آیت 13

( 3 )سورہ طہ آیت 41

۱۱۴

کنویں اور قیدخانے میں نہ ڈالیں ۔

غلامی کی طرف کھینچا تاکہ غلاموں پر رحم کریں. زلیخا کے دام میں گرفتار کیا تاکہ جنسی مسائل کی اہمیت کو سمجھیں. بادشاہ کی مصاحبت میں رکھا تاکہ آپ (ع)کی تدبیر جلوہ نما ہو۔

پیام:

1۔ اگر خدا چاہے تو کل کے قیدی کو آج کا بادشاہ بنا سکتا ہے ۔(قَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی)

2۔ سربراہ مملکت کے خاص مشیروں کو باتقوی، با تدبیر، قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے صحیح پروگرام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ، اور امانت دار ہونا چاہیئے ۔(أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی... مَکِینٌ أَمِینٌ) حضرت یوسف (ع)میں یہ تمام صفات موجود تھیں۔

3۔ جب تک انسان خاموش رہے اس وقت تک اس کے عیوب و کمالات مخفی رہتے ہیں ۔( فَلَمَّا کَلَّمَهُ قَالَ)

4۔ انتخاب کرتے وقت حضوری گفتگو مفید ہے( فَلَمَّا کَلَّمَهُ)

5۔ اگر کسی پر اطمینان حاصل ہوجائے تو اسے اختیارات دے دینا چاہئے۔(لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ)

6۔ کافر و مشرک بھی معنوی کمالات سے لذت محسوس کرتے ہیں ''کمال''کو پسند کرنا ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے ۔(أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی)

7بااختیار اور امانت دار ہونا دونوں بیک وقت ضروری ہیں(مَکِینٌ أَمِینٌ ) کیونکہ اگر کوئی امین ہو لیکن بااختیار نہ ہو تو بہت سے امور کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا اور اگر بااختیار ہو اور امین نہ ہو تو بیت المال کو بے دریغ خرچ کردے گا(1)

--------------

( 1 )اسی بنا پر حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے ایک خط میں مصر کے گورنر مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگوں کو پہچاننے اور کام کرنے والوں کا انتخاب کرنے کے بعد انہیں کافی مقدار میں حقوق دو۔(اسبغ علیهم الارزاق) ،نہج البلاغہ مکتوب نمبر 53

۱۱۵

آیت 55:

(55) قَالَ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ

''یوسف نے کہا (جب آپ نے میری قدر دانی کی ہے تو) مجھے ملکی خزانوں پر مقرر کیجئے کیونکہ میں (اسکا ) امانت دار خزانچی (اور اس کے حساب کتاب سے بھی)واقف ہوں''۔

نکات:

سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ کیوں مانگا ؟ بزبان دیگر جناب یوسف علیہ السلام نے ریاست طلبی کیوں کی؟

جواب: چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر کے خواب سے لوگوں کے لئے خطرے کو محسوس کرلیا اور خود کو اس اقتصادی بحران سے نجات دلانے کے لائق سمجھ رہے

تھے لہٰذا اس نقصان سے بچانے کے لئے انہوں نے ایسے عہدے کو قبول کرنے کا اعلان کردیا ۔

۱۱۶

سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی تعریف و توصیف کیوں کی ؟ جبکہ قرآن کا فرمان ہے کہ اپنی تعریف و تمجید نہ کرو۔(1)

جواب: حضرت یوسف علیہ السلام اپنی ستائش کرکے اپنی قابلیت اور استعداد کی یاد دہانی کروا رہے تھے کہ میں عہدہ کو قبول کرنے کی قابلیت و صلاحیت رکھتا ہوں جس کی بنیاد پر قحط اور خشک سالی سے نجات دلائی جاسکتی ہے یہ ستائش تفاخر اور غلط فائدہ اٹھانے کے لئے نہ تھی۔

سوال:حضرت یوسف علیہ السلام نے کافر حکومت کا کیوں ہاتھ بٹایا ؟ جبکہ خداوندعالم نے اس سے روکا ہے(2)

جواب:حضرت یوسف علیہ السلام نے ظالم کی حمایت کرنے کے لئے اس عہدہ کو قبول نہیں فرمایا تھا بلکہ مخلوق خدا کو خشک سالی کی مصیبت سے نجات دلانے کے لئے ایسا قدم اٹھایا تھا حضرت یوسف (ع) نے ذرہ برابر بھی چاپلوسی نہیں کی ۔

تفسیر''فی ظلال القرآن'' کے بیان کے مطابق سیاستمدار افراد ایسے خطرات کے وقت قوم کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں لیکن حضرت یوسف (ع)پر ایسے وقت میں مخلوق

کی حفاظت لازم ہے۔

--------------

( 1 )فلا تزکوا انفسکم سورہ نجم آیت 32

( 2 )لا ترکنوا الی الذین ظلموا... سورہ ہود آیت 113

۱۱۷

علاوہ از این اگر ظالم حکومت کو سرنگوں کرنا اور اسکے نظام میں تغیر و تبدل لانا ممکن نہ ہو توجہاں تک ممکن ہو وہاں تک ظلم و انحرافات کا مقابلہ کرنا چاہیئے ۔اگرچہ کچھ امور مملکت کو قبول کرنا پڑے۔

تفسیر نمونہ میں ملتا ہے کہ ''قانونِ اہم و مہم کی رعایت'' عقل اور شرع میں ایک بنیادی چیز ہے ،مشرک حکومت کی حمایت کرنا جائز نہیں ہے لیکن ایک قوم کو قحط سے نجات دلانا ایک اہم کام ہے ۔ اس دلیل کی بنیاد پر ''تفسیرتبیان میں''ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سیاسی عہدہ قبول نہیں کیا تاکہ ظالم کی مدد نہ ہوسکے اور نہ ہی کوئی دفاعی و نظامی ذمہ داری قبول فرمائی تاکہ کسی کا ناحق خون نہ بہنے پائے فقط اور فقط اقتصادی ذمہ داری کو قبول فرمایا ۔ وہ بھی اس لئے کہ خلق خدا قحط سے محفوظ رہ سکے ۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا جب ضرورت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ یوسف (ع)مصر کے خزانوں کے سرپرست ہوں تو انہوں نے خود اس بات کا مشورہ دیا(1) علی بن یقطین امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بتائی ہوئی نصیحتوں کے بعد عباسی حکومت کے وزیر بنے تھے، اسی قسم کے افراد مظلوموں کے لئے پناہ گاہ ہوسکتے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :کفار عمل السلطان قضاء حوائج الاخوان۔یعنی حکومتی نظام میں کام کرنے کا کفارہ برادر مومن کی مدد کرناہے(2)

--------------

( 1 )تفسیر نورالثقلین.

( 2 )وسائل الشیعہ ج 12 ص 139

۱۱۸

حضرت امام رضا علیہ السلام سے لوگوں نے پوچھا : آپ نے مامون کی ولی عہدی کیوں قبول کی ؟ آپ (ع)نے جواب دیا : یوسف (ع)باوجودیکہ پیامبر (ع)تھے لیکن مشرک کی حکومت میں چلے گئے میں تو وصی پیامبر(ص) ہوں ۔ میں ایسے شخص کی حکومت میں داخل ہوا ہوں جو مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں مجھے عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ یوسف (ع)نے حالات کی اہمیت کے پیش نظر بذات خود عہدہ کو قبول کیا تھا ۔(1)

حضرت یوسف (ع) نے مقام و منزلت حاصل کرتے ہی فوراً اپنے والدین سے ملاقات کی خواہش نہیں کی بلکہ خزانے کی مسلیت کا تقاضا کیا کیونکہ والدین کے دیدار میں عاطفی پہلوتھے جب کہ لوگوں کو خشک سالی سے نجات دلانا ان کی اجتماعی ومعاشرتی رسالت اور اجتماعی ذمہ داریوں کا تقاضا تھا ۔

امام صادق علیہ السلام نے ایسے افراد کو خطاب کرتے ہوئے کہ جو زہد اختیار کرنے اور دنیا سے کنارہ کشی کا اظہار کررہے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے تھے کہ اپنی زندگی کس مپرسی میں گزر بسر کرو ،فرمایا: مجھے ذرا بت کہ تم لوگ یوسف (ع) پیامبر کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہو جنہوں نے بادشاہ مصر سے خود فرمائش کی کہ(اجعلنی علی خزائن الارض) اسکے بعد حضرت یوسف (ع) کے امور یہاں تک پہنچ گئے کہ پوری مملکت اور اس کے اطراف یمن کی سرحدوں تک اپنے ماتحت لے لئے تھے اسکے باوجود مجھے کوئی شخص نہیں ملتا کہ کسی نے اس کام کو حضرت یوسف (ع)کے لئے معیوب شمار کیا ہو(2)

--------------

( 1 )وسائل الشیعہ ج 12 ص 136

( 2 ) تفسیر نورالثقلین.

۱۱۹

ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے : حضرت یوسف (ع)نے پہلے سات سال گیہوں کو جمع اور ذخیرہ کیا ، دوسرے سات سال میں کہ جب خشک سالی شروع ہوگئی تو آہستہ آہستہ بہت دقت کے ساتھ اسے لوگوں کے حوالے کیا تاکہ وہ اپنے روز مرہ کے مصارف میں اسے خرچ کرسکیں اور بڑی ہی امانت داری اور دقت نظر کے ساتھ مملکت مصر کو بدبختی سے نجات دلائی ۔

حضرت یوسف (ع) نے سات سالہ قحط کے زمانے میں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ آپ (ع)بھوکے افراد کو فراموش کردیں۔(1)

تفسیر مجمع البیان اور تفسیر المیزان میں حضرت یوسف (ع) کی انداز حکمرانی کو اس طرح ذکر کیا گیا ہے :

جب خشک سالی شروع ہوئی تو حضرت یوسف (ع) نے پہلے سال گیہوں سونے چاندی کے بدلے ، دوسرے سال جواہر اور زیورات کے بدلے ،تیسرے سال چارپایوں کے بدلے ، چوتھے سال غلام کے بدلے ،پانچویں سال گھروں کے عوض میں ۔ چھٹے سال گندم کھیتیوں کے عوض میں اور ساتویں سال خود لوگوں کو غلام بنانے کے عوض میں گندم فروخت کی ۔ جب ساتواں سال ختم ہوگیا تو آپ(ع) نے بادشاہ مصر سے کہا :

تمام افراد اور ان کا تمام سرمایہ میرے پاس ہے لیکن خدا شاہد ہے اور تو بھی گواہ رہ کہ تمام لوگوں کو آزاد کرکے ان کے تمام اموال ان کو لوٹا دوں گا اور تمہارا محل ، تخت ،

--------------

( 1 ) تفسیر مجمع البیان.

۱۲۰