یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 168301
ڈاؤنلوڈ: 4313

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168301 / ڈاؤنلوڈ: 4313
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آیت 100:

(100) وَرَفَعَ أَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ هَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ وَجَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِمَا یَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''اور(مصر پہنچ کر) یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب کے سب (یوسف کی تعظیم کے واسطے )ان کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت)یوسف نے کہا : اے بابا یہ تعبیر ہے میرے اس پہلے خواب کی میرے پروردگار نے اسے سچ کردکھایا،بے شک اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے جب اس نے مجھے قیدخانہ سے نکالااور باوجودیکہ کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں شیطان نے فساد ڈال دیا تھا ،اس کے بعد بھی آپ لوگوں کو صحرا سے (کنعان سے مصر)لے آیا (اور مجھ سے ملا دیا) بے شک میرا پروردگارجو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے ، بے شک وہ بڑا واقف کار حکمت والا ہے ''۔

نکات:

''عرش'' اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے''خرّوا'' زمین پر گرنا ''بدو'' بادیہ اور صحرا،''نزغ'' کسی کے درمیان فساد کی غرض سے وارد ہونا۔

''لطیف'' خداوندعالم کا ایک نام ہے ، یعنی اس کی قدرت پیچیدہ اور مشکل امور میں بھی اپنا راستہ بنالیتی ہے اس نام کا تناسب آیت میں یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ایک ایسی مشکل گرہ تھی جسے صرف قدرت خدائی ہی کھول سکتی تھی ۔

حضرت یوسف علیہ السلام مثل کعبہ ہوگئے تھے اور انکے ماں باپ اور بھائیوں نے انکے بلند رتبے اور کرامت کی وجہ سے انکی طرف رخ کرکے خداوند عالم کا سجدہ کیا(خَرُّوا لَهُ سُجَّدًا) اگر یہ سجدہ غیر خدا کےلئے اور شرک کا باعث ہوتا تو یوسف اوریعقوب + جیسے دو پیغمبر الٰہی کبھی ایسے عظیم گناہ کے مرتکب نہ ہوتے ۔

۲۰۱

پیام:

1۔ ہم جس مقام پر بھی ہیں اپنے والدین کو اپنے سے برترسمجھیں(رَفَعَ أَبَوَیْهِ) جس نے زیادہ رنج و مصیبت کاسامنا کیا ہے اس کو زیادہ صاحب عزت ہونا چاہئےے۔

2۔ انبیاء بھی تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے ہیں( عَلَی الْعَرْش)

3۔ حاکم برحق کا احترام اور اس کے سامنے تواضع ضروری ہے۔(خَرُّوا لَهُ سُجَّدً)

4۔ سجدہئ شکر ،تاریخی سابقہ رکھتا ہے(خَرُّوا لَهُ سُجَّدً) (1)

5۔خداوندعالم حکیم ہے کبھی کبھی سالہاسال کی طولانی مدت کے بعد دعا مستجاب فرماتاہے یا خواب کی تعبیر دکھاتاہے( هَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْل)

6۔ تمام پروگرام کو اس کے حقیقی انجام تک پہنچانا خداوندعالم کے ہاتھ میں ہے( قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّ) جی ہاں حضرت یوسف (ع)اپنی مقاومت اور صبر کے سلسلے میں رطب اللسان نہ تھے بلکہ ہر چیز کو خداوندعالم کا لطف سمجھ رہے تھے ۔

7۔ اولیاء خدا کے خواب برحق ہوتے ہیں(جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّ)

8۔ تمام اسباب و علل اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ حقیقی اصل اور سبب خداوندعالم کو سمجھنا چاہیئے حضرت یوسف کی زندگی میں مختلف اسباب و علل نے مل کر انہیں اس بزرگ مقام تک پہنچایا لیکن پھر فرماتے ہیں(قَدْ أَحْسَنَ بِی)

9۔ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت گزشتہ تلخیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیئے۔(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ) باپ سے ملاقات کے وقت حضرت یوسف (ع)کا سب سے پہلاکام خدا کا شکر تھا گزشتہ واقعات کی تلخیوں کا ذکر نہیں فرمایا۔

10۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اور مہمان کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیئے (آیہ شریفہ میں حضرت یوسف (ع)زندان سے نکلنے کا واقعہ تو بیان فرماتے ہیں لیکن کنویں سے

--------------

(1)امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: جناب یعقوب (ع)اور ان کے فرزندوں کا سجدہ ،سجدہئ شکر تھا۔ احسن القصص.

۲۰۲

باہر نکلنے کی داستان نہیں دہراتے کہ کہیںدوبارہ ایسا نہ ہو کہ بھائی شرمندہ ہوجائیں )( إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

11۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اہل کینہ و انتقام نہیں حضرت یوسف (ع)فرمارہے ہیں ۔(نَزَغَ الشَّیْطَانُ) یعنی شیطان نے وسوسہ کیا ورنہ میرے بھائی برے نہیں ہیں ۔

12۔اولیائے الٰہی زندان میں قید ہونے اور وہاں سے آزادی کو توحید و ربوبیت کا محور سمجھتے ہیں (رب السجن احب)گزشتہ آیتوں میں ملتا ہے اور ابھی فرمایا:(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

13۔مصیبتوں کے بعد خوشی ہے ، مشکلوں کے بعد آسانی ہے ۔(أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ)

14۔بادیہ نشینی ضرورت ہے، فضیلت نہیں۔(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ...)

15۔بچوں کے ہمراہ والدین کا زندگی بسر کرنا ایک لطف الٰہی ہے(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ )

16۔بھائیوں ،بلکہ گھر کے ہر ہر فرد کو یہ جان لینا چاہیئے کہ شیطان ان کے درمیان اختلاف، افتراق اور جھگڑا کرانے کے چکر میں لگا رہتا ہے ۔( نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی )

17۔اپنے آپ کو برتر شمار نہ کیجئے( بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی ) حضرت یوسف (ع)نے یہ نہیں کہاکہ شیطان نے ان لوگوں کو فریب اور دھوکادیا بلکہ فرمایا میرے اور ان کے درمیان یعنی اپنے آپ کو بھی ان کے ہمراہ مدمقابل قراردیا ۔

18۔خداوندعالم کے امور نرمی، مہربانی ، اور لطف و کرم پر استوار ہوتے ہیں۔(لَطِیف)

19۔تمام تلخ و شیریں حادثات ،علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔(الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ)

20۔کسی کو معاف کرنے کے بعد اسے شرمندہ نہ کیجئے جب حضرت یوسف (ع)نے بھائیوں کو بخش دیا تو واقعہ بیان کرنے میں کنویں کا نام نہیں لیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بھائیوں کو شرمندگی ہو۔

۲۰۳

آیت 101:

(101) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ

''(اس کے بعد یوسف نے دعا کی )پروردگار تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ بھی عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر بھی سکھائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مالک و سرپرست ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو مجھے (دنیا سے)مسلمان اٹھالے اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما''۔

نکات:

اولیائے خدا جب بھی اپنی عزت و قدرت کو ملاحظہ کرتے ہیں تو فوراً یاد خدا میں سر نیاز خم کردیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں: خدایاجو کچھ بھی ہے تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ حضرت یوسف(ع) نے بھی یہی کہا ،باپ سے گفتگو کرتے کرتے خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ خداوندعالم نے مصر کی حکومت دو افراد کے ہاتھ میں دی ایک فرعون کہ جس نے اس حکومت کو اپنی طرف منسوب کرلیا۔(الیس لی ملک مصر) (1) دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام جنہوں نے اس کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی(اتیتنی من الملک)

ابراہیمی طرز تفکر ،ان کی نسل میں بھی جلوہ گر ہے ۔کل حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا تھا۔(اسلمت لرب العالمین) (2) میںپروردگارعالم کے سامنے تسلیم ہوں ۔ آپ(ع) کے بعد آپ (ع)کے پوتے حضرت یعقوب (ع)اپنے فرزندوں سے وصیت فرماتے ہیں کہ باایمان اس دنیا سے رخصت ہوں(لاتموتن الا و انتم مسلمون) (3) یہاںفرزند یعقوب حضرت یوسف بھی وقت وفات تسلیم و رضائے الٰہی کی درخواست کررہے ہیں (توفنی مسلما)۔ بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شمار صالحین میں ہوتا ہے(انه فی الاخر لمن الصالحین) (4) اورحضرت یوسف (ع)چاہتے ہیں کہ انہی سے ملحق

--------------

(1) سورہ زخرف آیت 51 (2)سورہ بقر آیت 131.

(3) سورہ بقر آیت 132 (4) سورہ بقر آیت 130

۲۰۴

ہوجائیں(الحقنی بالصالحین)

خداوندعالم نے حضرت آدم (ع)کو اسما کی تعلیم دی(علم آدم الاسماء کلها) (1) حضرت دد (ع)کو زرہ سازی کی تعلیم دی(علمناه صنعه لبوس) (2) حضرت سلیمان (ع)کومنطق الطیر (پرندوں کی بولی سمجھنا )کا علم دیا(علمنامنطق الطیر) (3) اسی طرح حضرت یوسف (ع)کو تعبیر خواب کا علم عنایت فرمایا(علمتنی من تاویل الاحادیث) لیکن ہمارے نبی کو علم اولین و آخرین عنایت فرمایا۔علمک مالم تکن تعلم (4)

یوسفی چہرہ (ایک کامیاب رہبر کی صفات و خصوصیات)

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کے اختتام پر ان کا رخ زیبا دیکھتے چلیں۔

--------------

(1) سورہ بقر آیت 31

(2) سورہ انبیاء آیت 80.

(3) سورہ نمل آیت 16.

(4) سورہ نساء آیت113.

۲۰۵

(1) تلخیوں میں خداوندعالم پر بھرپور بھروسہ(رب السجن احب...) اور خوشی و شاد کامی میں بھی اسی پر توجہ(رب قد اتیتنی من الملک)

(2) ہر منحرف گروہ کی انحرافی را ہ اور نقوش ترک کرنا(انی ترکت مل قوم لا یومنون باللّٰه و هم بالاخر کافرون)

(3) بزرگوں کی راہ ِمستقیم پر گامزن ہونا(واتبعت مل آبائی ابراهیم ،

والحقنی بالصالحین)

(4) خدا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری(توفنی مسلما)

(5) رقیبوں کے مقابلے میں وقار(احب الی ابینا منّا)

(6) حوادث اور تلخیوں میں صبر(یجعلوه فی غیابت الجب ، ارادباهلک سوئ)

(7) آرام و آسائش پر پاکدامنی اور تقوی کو ترجیح دینا(معاذاللّٰه ، رب السجن احب الی مما یدعوننی)

(8) غیروں سے باتوں کو چھپانا(وشروه بثمن بخس)

(9) وافر علم(علمنی من تاویل الاحادیث ، انی حفیظ علیم...)

(10)فصیح اور خوبصورت انداز بیان(فلما کلّمه قال انک لدینامکین)

(11)خاندانی عظمت وبزرگی(آبائی ابراهیم و اسحق...)

۲۰۶

(12)دینی اور فکری مخالفین سے محبت سے پیش آنا(یا صاحبی السجن)

(13)اخلاص۔(کان من المخلصین)

(14)دوسروں کی ہدایت کے لئے سوز دل(ءَ ارباب متفرقون)

(15)منصوبہ بندی کرنے کی قدرت وتخلیقی صلاحیت(جعل السقای ، ائتونی باخ لکم ، فذروه فی سنبله...)

(16)تواضع اور فروتنی(رفع ابویه علی العرش )

(17)عفو و اغماض نظر(لاتثریب علیکم)

(18)شجاعت وجواں مردی(نزغ الشیطان بینی و بین اخوتی)

(19)امانتداری(اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم)

(20)مہمان نوازی(انا خیرالمنزلین)

۲۰۷

پیام:

1۔اعطائے حکومت؛ الٰہی ربوبیت کی شان ہے( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ )

2۔حکومت کو اپنی فکر، مال، قدرت، یارومددگار اور منصوبہ بندی کا نتیجہ نہ سمجھئے بلکہ ارادہ خداوندی اصلی اور حقیقی عامل ہے(آتَیْتَنِی )

3۔جو چیز خدا ہمیں دیتا ہے یا ہم سے لے لیتا ہے سب کے سب ہماری تربیت کے لئے ہیں(رب بما اتیتنی، رب السجن احبّ)

4۔حکومت تعلیم یافتہ افراد کا حق ہے جاہلوں کا نہیں( آتَیْتَنِی... عَلَّمْتَنِی) حضرت یوسف (ع)کا علم ان کی حاکمیت کا وسیلہ قرار پایا۔

5۔ہر حال میں خود کو خدا کے سپرد کردینا چاہیئے(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

6۔قدرت و حکومت و سیاست ، دین الٰہی سے دور ہونے کی راہ کو ہموار کرتے ہیں مگر یہ کہ لطف خداوندشامل حال ہو( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) (حضرت یوسف (ع)نے کنویں میں ایک دعا کی ، قید خانہ میں ایک دوسری دعا کی لیکن جیسے ہی مسند حکومت پر پہنچے آپ (ع)کی دعا یہ تھی: ''خدایا میںمسلمان اس دنیا سے رخصت ہوں '')

۲۰۸

7۔اللہ کے بندے عزت و طاقت کی معراج پر بھی موت ، قیامت اور عاقبت کی یاد میں ہوتے ہیں(توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین) (1)

8۔عظمت خدا فقط یہی نہیں کہ وہ ہماری نعمتوں میں اضافہ کردے بلکہ وہ تمام ہستی کو معرض وجود میں منصہئ شہود پر ظہور پذیر کرنے والا ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

9۔افتخار یوسف (ع)یہ نہیں کہ وہ لوگوں پر حاکم ہیں بلکہ آپ (ع)کا افتخار یہ ہے کہ خدا آپ (ع)پر حاکم ہے(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

10۔کار خیر میں پائیداری اور اس کا نیک انجام اس کے شروع ہونے سے بہتر ہے ۔ انبیاء حسن عاقبت کے لئے دعا فرماتے ہیں( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) یعنی مجھے اپنی تسلیم و رضا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری عنایت فرما(2)

11۔دعا میں پہلے خداوندعالم کی نعمتوں کا ذکر کیجئے( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی) اس کے بعد اپنی

--------------

(1)اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ بھی اس کے محل میں قیامت کی فکر میں تھیں۔ فرمایا:(رب ابن لی عندک بیت فی الجن ة ) خدایا جنت میں تو اپنے پاس میرے لئے ایک گھر بنا دے.

(2)تفسیر المیزان.

۲۰۹

درخواست پیش کیجئے(تَوَفَّنِی مُسْلِمًا) (1)

12۔جب قدرت مل جائے تو خدا سے مناجات فراموش نہ ہو(رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی...)

13۔دعا اور مناجات میں فقط دنیا اور مادیات کے چکر میں نہیں رہنا چاہیئے(فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

14۔انسان کی قدرت ناچیز ہے(مِنْ الْمُلْکِ ) انسان کا علم کم ہے(مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ...) لیکن خدا وندعالم کی حکومت تمام ہستی پر حکم فرما ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

15۔باایمان دنیا سے رخصت ہونا اور صالحین میں شمار ہونا ایک بہت بڑی فضلیت ہے ۔(تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ )

--------------

(1)حضرت یوسف (ع)جن کو خداوندعالم نے شروع سے محفوظ رکھا، انہیں علم عطا فرمایا۔حکومت عنایت فرمائی ، خطرات سے بچایا، وہ اپنی عاقبت اور انجام کار سے مضطرب اور پریشان ہیں ،ان لوگوں کا کیا برا حال ہوگا جنہوں نے کرسی ، حکومت ، علم سب کے سب مکاری اور فریب کاری سے حاصل کئے ہیں.

۲۱۰

آیت 102:

(102)ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْکُرُونَ

''(اے رسول) یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں ورنہ جس وقت یوسف کے بھائی مشورہ کررہے تھے اور ( ہلاک کرنے کی) تدبیریں کررہے تھے آپ انکے پاس موجودنہ تھے ''۔

پیام:

1۔انبیاء (ع)بذریعہ وحی غیب کی باتوں سے آشنا ہوتے ہیں(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ...)

2۔انبیاء (ع)غیب کی تمام خبروں سے واقف نہیں ہوتے(مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ)

3۔جب تک مشیت خداوندی نہ ہو تو نہ کسی کا ارادہ(أَمْرَهُم) نہ کسی قوم کا اجماع(أَجْمَعُو) اور نہ ہی کسی کی پالیسی اور سازش( یَمْکُرُونَ) کوئی بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

4۔جب پے درپے حوادث رونما ہورہے ہوں تو اس میں اصلی نکتہ اور شروع ہونے کے محل کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئےے حضرت یوسف (ع)کی داستان کا مرکزی نقطہ حضرت یوسف (ع)کو نابود کرنا تھا۔(أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْکُرُون)

۲۱۱

آیت 103:

(103)وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ

''اور آپ کتنے ہی خواہش مند ہوں مگر بہترے لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ''۔

نکات:

''حرص'' یعنی کسی چیز سے بے حد لگ اور اس کو پانے کے لئے حد سے زیادہ جدوجہد کرنا۔

پیام:

1۔بارہا قرآن مجید میں انسانوں کی کثیر تعداد اپنے دینی عقائد و نظریات کی وجہ سے مورد تنقید قرار پائی ہے(وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ... بِمُمِنِینَ)

2۔الٰہی نمایندے دوسروں کی ہدایت کےلئے سوز، درد ، اور اشتیاق رکھتے ہیں(حَرَصْت)

3۔اکثر و بیشتر لوگوں کا ایمان نہ لانا پیغمبروں (ع)کی کوتاہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خود انسان کی آزادی اور اختیار کا نتیجہ ہے کہ وہ ایمان لانا نہیں چاہتے تھے(مَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ)

۲۱۲

آیت 104:

(104) وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ

''حالانکہ آپ ان سے اس بات (تبلیغ رسالت)کا کوئی صلہ بھی نہیں مانگتے اور یہ قرآن تو تمام جہان کے واسطے نصیحت (ہی نصیحت) ہے''۔

نکات:

دوسرے پیغمبروں ٪ کی طرح پیغمبر اسلام (ص) نے بھی قوم کی ہدایت کے لئے کوئی اجزت نہیں مانگی کیونکہ اگر لوگوں سے اجر کی توقع رکھی جائے تو لوگ دعوت حق کو قبول کرنے سے اجتناب اور بوجھ محسوس کرتے ہیں ۔سورہ طور کی 40ویں آیت میں خداوندعالم فرماتا ہے :(ام تسئلھم اجرا فھم من مغرمٍ مثقلون)مگر کیا ان سے آپ نے کسی اجر کی درخواست کی ہے کہ جس کی ادائیگی ان پر بھاری ہے ۔اب اگر ہم دوسری آیت میں ملاحظہ فرماتے ہیں کہ قربی کی مدت اجر رسالت قرار پارہی ہے(الاّالمد فی القربی) (1) تو اس کا ہدف یہ ہے کہ اہلبیت (ع)کی پیروی میں خود امت کا فائدہ ہے، پیغمبر اسلام (ص) کا نہیں۔ کیونکہ اسی قرآن میں ایک دوسری جگہ پر موجود ہے کہ(وماسئلتکم من اجر فهو لکم) (2) ہم جو اجر تم سے مانگ رہے ہیںوہ تمہارے لئے ہی ہے ۔ جی ہاں جوشخص اہل بیت (ع)سے محبت کرے گا اور ان کی اطاعت کرے گا در حقیقت اس نے خداوپیغمبر (ص) کی اطاعت کی ہے۔

--------------

(1)سورہئ شوری آیت۔23.

(2)سورہ ئسبا آیت43.

۲۱۳

قرآن ذکر ہے اس لئے کہ :

خدا کی آیات و نعمات و صفات کا یاد دلانے والا ہے ۔

انسان کے ماضی و مستقبل کویاد دلانے والا ہے ۔

سماج کی عزت و ذلت کے اسباب کو یاددلانے والا ہے۔

میدان قیامت کے احوال یاد دلانے والا ہے ۔

جہان و ہستی کی عظمتوں کو یاد دلانے والا ہے۔

تاریخ ساز شخصیتوں کی تاریخ اور زندگی یاد دلانے والا ہے۔

قرآن مجید کے معارف و احکام وہ حقائق ہیں جن کا جاننا ضروری ہے اور انہیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ ''ذکر'' اس علم و معرفت کو کہتے ہیں جو ذہن میں حاضر ہو اور اس سے کبھی غفلت نہ ہو۔

پیام:

1۔جس طرح انبیاء (ع)،قوم سے کوئی توقع نہیں رکھتے اس طرح مبلغ کو بھی قوم سے توقع نہیں رکھنی چاہیئے(مَا تَسْأَلُهُمْ مِنْ أَجْر)

2۔اجر کی درخواست بری چیز ہے نہ اجر کا دریافت کرنا( تَسْئل)

3۔پیغمبراسلام (ص) کی رسالت تمام کائنات کے لئے ہے( لِلْعَالَمِینَ )

4۔امت کا ایک گروہ حتی اکثریت کہیں کسی وقت ایمان نہ لائے تو دینی مبلغ کو مایوس اور غمگین نہیں ہونا چاہیئے اگر زمین کے کسی حصے میں کسی گروہ نے ایمان قبول نہیں کیا تو دوسری جگہ جاکر تبلیغ کرنی چاہیئے( لِلْعَالَمِینَ )

۲۱۴

آیت 105:

(105)وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ

''اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ (دن رات) گزرا کرتے ہیں اور اس سے منہ پھیرے رہتے ہیں''۔

نکات:

در حقیقت یہ آیہ شریفہ رسول اکرم (ص) کی تسلی خاطر کے لئے نازل ہوئی ، بلکہ ہر برحق رہبر و پیشوا کے لئے تسلی ہے کہ اگر قوم ان کے فرامین کی نسبت بے توجہ ہے اور اسے قبول نہیں کررہی ہے تو اس سے پریشان نہ ہوں ،ایسے لوگ تو ہمیشہ طبیعت و خلقت خدائی میں قدرت و حکمت خداوندی کے شاہکار کا سامنا کرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس سلسلے میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ زلزلے ،سورج گرہن چاند گرہن ، بجلیوںکی کڑک ستاروں کی گردش ، کہکشں کا اپنے مدار پر حرکت کرنا ان سب نشانیوں کو دیکھتے ہیں پھر بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

یمرون علیھا کا تین طرح معنی کیا گیا ہے :(الف) آیات الٰہی کا سامنا کرنے سے مقصود ان نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ہے ۔(ب)انسانوں کا'' الٰہی نشانیوںسے گزرنے'' سے مراد زمین کی حرکت ہے کیونکہ زمین کی حرکت سے انسان اجرام فلکی پر مرور کرتا ہے۔(1)

--------------

(1)تفسیر المیزان.

۲۱۵

3۔'' الٰہی نشانیوں سے گزرنا''ایک پیشنگوئی ہے کہ انسان فضائی وسائل پر سوار ہوگا اور آسمانوں میں حرکت کرے گا۔(1)

کسی چیز سے منہ موڑنا ، غفلت سے زیادہ خطرناک ہے چونکہ ان نشانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے(کَأَیِّنْ ) اور انسان ان سے دائماً رابطے میں بھی ہے'' یَمُرُّونَ'' لیکن اسکے باوجود نہ صرف اسے فراموش کرتا ، اور ان سے غافل رہتا ہے بلکہ بعض اوقات متوجہ ہونے کے باوجود ان سے منہ موڑ لیتا ہے ۔

پیام:

1۔انسان اگر ہٹ دھرمی سے کام لے تو کسی نشانی کو بھی قبول نہیں کرسکتا(وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ... یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُون)

2۔تمام کائنات خدا کی پہچان کے اسرار و رموز اور نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔(آیَ)

--------------

(1)سفر نامہ حج آیت اللہ صافی.

۲۱۶

آیت 106:

(106) وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُهُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ

''اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ''۔

نکات:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:شرک اس آیت میں کفر و بت پرستی کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ غیر خدا کی طرف لو لگانا مقصودہے(1)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایاشرک انسان میں ''اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کی حرکت ''سے بھی خفیف تر ہے(2)

امام باقر علیہ السلام نے بھی فرمایا لوگ عبادت میں موحد ہیں لیکن اطاعت میں غیر خدا کو شریک بنالیتے ہیں(3) دوسری روایات میں آیا ہے کہ اس آیت میں شرک سے مراد شرک نعمت ہے۔

مثلاًانسان کہے ''کہ فلاں انسان نے ہمارا کام کردیا ''۔ ''اگر فلاں صاحب نہ ہوتے تو ہم نابود ہو گئے ہوتے ''اس جیسی دوسری مثالیں(4)

--------------

(1)تفسیر نمونہ.

(2)سفینہ البحار، ج 1، ص 697.

(3)کافی ،ج 2، ص 692.

(4)تفسیر نمونہ.

۲۱۷

مخلص انسان کی علامتیں

1۔انفاق میںکسی سے اجر کی توقع اور تشکر کا انتظار نہیں رکھتا(لانرید منکم جزاء ولا شکور) (1)

2۔عبادت میںخدا کے علاوہ کسی دوسرے کی بندگی نہیں کرتا۔(ولا یشرک بعباد ربه احد )(1)

3۔تبلیغ میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے اجر نہیں چاہتا(ان اجری الا علی اللّٰه) (2)

4۔شادی بیاہ میں فقر و تنگدستی سے نہیں ڈرتا بلکہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے شادی کرلیتا ہے(ان یکونوا فقراء یغنهم اللّٰه من فضله) (3)

5۔لوگوں سے سلوک کرنے میں خدا کی رضا کے علاوہ دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے(قل اللّٰه ثم ذرهم) (4)

6۔جنگ اور دشمن سے مقابلہ کرنے میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔(لایخشون احداالا اللّٰه ) (5)

7۔مہرو محبت میں خدا سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کرتا(والذین آمنوا اشد حبا للّٰه) (6)

--------------

(1)سورہ انسان آیت 9.

(1)سورہ کہف آیت 110.

(2)سورہ یونس آیت 72.

(3)سورہ نور آیت 32.

(4)سورہ انعام آیت 91.

(5)سورہ احزاب آیت 39.

(6)سورہ بقرہ آیت 165.

۲۱۸

(٭)عباس ساجری ہو کہ اکبر سامہہ جبیں

تجھ کو سبھی عزیز تھے لیکن خدا کے بعد

8۔تجارت اور کسب معاش میں خداوندعالم کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔(لاتلهیهم تجار ولا بیع عن ذکر اللّٰه) (1)

مومن مشرک کی علامتیں

1۔دوسروں سے عزت کا آرزومند ہوتا ہے(ایبتغون عندهم العز) (2)

2۔عمل میںاچھے اور برے عمل کو مخلوط کردیتاہے(خلطوا عملا صالحا و آخر سیّ) (3)

3۔لوگوں سے ارتباط میں حزبی اور گروہی تعصبات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(کل حزب بما لدیهم فرحون) (4)

4۔عبادت میںبے توجہ اور ریاکار ہوجاتا ہے(الذین هم عن صلاتهم ساهون والذین هم یرن )(5)

5۔جنگ و جدال میں انسانوں سے ڈرتا ہے(یخشون الناس کخشی اللّٰه ) (6)

--------------

(1)سورہ نور آیت 37.

(2)سورہ نساء آیت 139.

(3)سورہ توبہ آیت 102.

(4)سورہ مومنون آیت 53.

(5)سورہ ماعون آیت 6۔5.

(6)سورہ نساء آیت 77.

۲۱۹

6۔تجارت اوردنیاوی امورمیں زیادتی اور اضافہ کی طلب اسے سرگرم کئے رکھتی ہے(الهٰکم التکاثر) (1)

7۔دنیا اور دین کے انتخاب میں دنیا کو منتخب کرلیتے ہیں اور پیغمبر (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے ہےں(واذا رأو تجار او لهوا انفضوا الیها وترکوک قائم) (2)

پیام:

1۔ایمان کے مختلف مراتب ہیں۔خالص ایمان جس میں کوئی شرک نہ ہو بہت کم ہے۔(وَمَا یُمِنُ...إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ)

آیت 107:

(107)أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِیَهُمْ غَاشِیَ مِنْ عَذَابِ اﷲِ أَوْ تَأْتِیَهُمْ السَّاعَ بَغْتَ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ.

''کیا وہ لوگ (جو ایمان نہیں لائے) اس بات سے مامون ہیں کہ خدا کی طرف سے گھیرنے والا عذاب جو ان پر چھا جائے یا ان پر اچانک قیامت کی گھڑی آجائے اور ان کو کچھ خبربھی نہ ہو''۔

نکات:

''غاشیہ'' اس عذاب و عقاب کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے لے۔

--------------

(3)سورہ تکاثر آیت 1.

(4)سورہ جمعہ آیت 11.

۲۲۰