یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 168299
ڈاؤنلوڈ: 4313

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168299 / ڈاؤنلوڈ: 4313
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اگرچہ خواب کے سلسلے میں مختلف نظریات ہیں لیکن کسی نے بھی خواب کی حقیقت و اصلیت سے انکار نہیں کیا ہے ۔ہاں اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ تمام خواب ایک ہی تحلیل کے ذریعہ قابل حل نہیں ہیں ۔

علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان(1) میں فرماتے ہیں : عالم وجود تین ہیں(1) عالم طبیعت(2) عالم مثال(3) عالم عقل ، چونکہ انسان کی روح مجرد ہے لہٰذا خواب میں ان دو عالم سے ارتباط پیدا کرتی ہے اور استعداد و امکان کے مطابق حقائق کو درک کرتی ہے اگر روح کامل ہو تو صاف فضا میںحقائق کو درک کرلیتی ہے اور اگر روح کمال کے آخری درجوں تک نہ پہنچی ہو تب بھی حقائق کو دوسرے سانچوںمیں درک کرلیتی ہے ۔

جس طرح عالم بیداری میں ہم شجاعت کو شیر کے سانچے میں ،حیلہ و مکر کو لومڑی کے قالب میں اور بلندی کو پہاڑکی صورت میں دیکھتے ہیں اسی طرح خواب میں علم کو نور ، شادی بیاہ کو لباس اور جہل ونادانی کو سیاہ چہرہ کے قالب میں دیکھتے ہیں ۔اس بحث کے نتیجہ کو ہم چند مثالوں میں پیش کرتے ہیں ۔ جو لوگ خواب دیکھتے ہیں ان کی متعدد قسمیں ہیں :

پہلی قسم : ان لوگوں کا خواب جو کامل اور مجرد روح کے حامل ہیں وہ حواس کے خواب آلود ہونے کے بعد عالم عقل سے ارتباط پیداکرتے ہوئے حقائق کو صاف وشفاف دوسری دنیا سے حاصل کرلیتے ہیں (جیسے ٹی۔وی اپنے مخصوص انٹینے کے ذریعہ کہ جو بلندی پر نصب ہوتاہے دور دراز کی امواج کو بھی باآسانی پکڑ لیتاہے )ایسے خواب جو حقائق کو

--------------

( 1 )المیزان فی تفسیر القرآن ج 11 ص 299

۲۱

براہ راست درک کرلیتے ہیں وہ تعبیر کے محتاج نہیں ہوتے ہیں ۔

دوسری قسم : ان لوگوں کا خواب جو متوسط روح کے حامل ہوتے ہیں ایسے افراد حقائق کو دھندلا ، اور تشبیہ و تخیل کے ساتھ دیکھتے ہیں (ایسے خواب کی تعبیر کے لئے ایسا مفسر درکار ہے جو مشاہدات کی دنیا سے دور رہ کر تفسیر کرے یعنی جوکہ خوابوں کی تعبیر جانتا ہو اسے خواب کی تعبیر کرنی چاہیئے)

تیسری قسم : ایسے افراد کا خواب جن کی روح حد درجہ پریشان اور گوناگوں خیالات میں گم ہوتی ہے ایسے لوگوں کا خواب کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتا یہ خواب کی وہ قسم ہے جو تعبیر کے قابل نہیں ہے ایسے ہی خواب کو قرآن نے ''اضغاث احلام''(یعنی پریشان کرنے والے خواب)کے نام سے یاد فرمایا ہے۔

ابن سیرین نے خواب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب کسی نے اس سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہے کہ ایک شخص عالم خواب میں منہ اور شرمگاہ پر مہر لگا رہا ہے ؟ تو ابن سیرین نے جواب دیا : وہ شخص ماہ مبارک رمضان کا موذن ہوگا جو اذان کے ذریعہ کھانے اور جماع کوممنوع اعلان کرے گا (یعنی اذان سنتے ہی کھانا پینا اور جماع حرام ہے)

قرآن نے کچھ ایسے خوابوں کا ذکر کیا ہے جو تحقق پذیر ہوئے ہیں ۔ آپ حضرات مندرجہ ذیل خوابوں کو ملاحظہ فرمائیں :

الف۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب جس میں انہوں نے گیارہ ستارے اور چاند و سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس کی تعبیر یہ ہوئی کہ حضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے اور بھائیوں اور ماں باپ نے سرتسلیم خم کردیا۔

۲۲

ب۔ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دونوں ساتھیوں کا خواب جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ ایک آزاد ہو گیا دوسرے کو سزائے موت سنائی گئی ۔

ج۔ عزیز مصر کا خواب کہ لاغر اور کمزور گائے موٹی تازی گائے کو کھا رہی ہے جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ کھیتی ،سرسبزو شادابی کے بعد خشک سالی میں تبدیل ہوگئی ۔

د۔ جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص) کا خواب جس میں آپ (ص)نے مشرکین کی تعداد کو کم دیکھاجس کی تعبیر مشرکوں کی شکست ہوئی(1)

ھ۔ حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا وہ خواب کہ مسلمین اپنا سر منڈوائے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہورہے ہیں ۔ جس کی تعبیر فتح مکہ اور خانہ خدا کی زیارت ہوئی(2)

و۔ حضرت موسیٰ (ع)کی مادر گرامی کا خواب جس میں انہیں جناب موسیٰ (ع)کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا(اذ اوحینا الی امک ما یوحی ان اقذفیه فی التابوت) (3)

''جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کی جاتی ہے (وہ یہ)کہ اس (بچے)کو صندوق میں رکھ دیں...''، روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ

--------------

( 1 )سورہ انفال آیت 43.( إِذْ یُرِیکَهُمُ اﷲُ فِي مَنَامِکَ قَلِیلًا وَلَوْ أَرَاکَهُمْ کَثِیراً لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ...)

( 2 )سورہ فتح آیت 27.( لَقَدْ صَدَقَ اﷲُ رَسُولَهُ الرُّیَا بِالْحَقِّ ...)

( 3 )سورہ طہ آیت 38 ۔ 39

۲۳

یہاں وحی سے مراد وہی''خواب''ہے

ز۔ حضرت ابراہیم (ع)کا خواب کہ وہ اپنے فرزند اسماعیل (ع)کو ذبح کررہے ہیں(1)

قرآنی خوابوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوںنے خواب کے ذریعہ بعض ایسے امور سے آگاہی حاصل کی ہے کہ جہاںتک معمولاً انسان کی رسائی ناممکن ہوتی ہے ۔

سید قطب فرماتے ہیں :میں نے امریکہ میں خواب دیکھاکہ میرے بھانجے کی آنکھ سے خون بہہ رہا ہے ۔ میں نے مصر ایک خط لکھا جواب ملایہ بات صحیح ہے حالانکہ خونریزی ظاہراً آنکھوں سے نہیں ہورہی تھی ۔

ملا علی ہمدانی جو کہ مراجع تقلید میں سے تھے ان سے حکایت ہوئی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے ایک عالم نے خواب میں پیغمبراکرم (ص) کو دیکھا جنہوںنے اس سے فرمایا:

'' ابھی جو پیغام ایران سے پہنچا ہے کہ اس سال وجوہات سامرہ سے نہیں پہنچیں گی اس سے پریشان نہ ہوں، الماری میں سو تومان ہیں انہیں لے لو''۔

جب میں خواب سے بیدارہوا تو میرزائے شیرازی کے نمائندے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے ان کے سامنے پیش کردیا میں جیسے ہی حاضر ہوا میرزائے شیرازی نے فرمایا :الماری میں سو تومان ہیں دروازہ کھول کر نکال لو اور مجھے سمجھایا کہ خواب کے موضوع کو ظاہر نہ کرو۔

--------------

(1)سورہ صافات آیت 102(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَيَّ إِنِّي أَرَیٰ فِی الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ...)

۲۴

صاحب مفاتیح الجنان جناب شیخ عباس قمی (رح) نے اپنے بیٹے کو خواب میں آکرکہا : میرے پاس ایک کتاب امانت تھی اس کو اس کے مالک تک پہنچا دو تاکہ میں برزخ میں آرام سے رہ سکوں۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئے تو اس کتاب کی تلاش میں لگ گئے جو علامتیں باپ نے بتائی تھیں ان کے مطابق کتاب کو لے کر چلے لیکن راستے میں وہ کتاب گر کر تھوڑی سی خراب ہوگئی ۔اسی کتاب کو انہوںنے مالک تک پہنچادیا اور باپ کی طرف سے عذر خواہی بھی کرلی۔ رات کو محدث قمی دوبارہ اپنے فرزندکے خواب میں آئے اور فرمایا: تم نے اس کتاب کے مالک سے کیوں نہیں کہاکہ وہ کتاب تھوڑی سی خراب ہوگئی ہے تاکہ وہ اگرتاوان چاہتا تو تم سے اسکا مطالبہ کرتایا اسی عیب پر راضی ہوجاتا ۔

پیام:

1۔ ماںباپ اپنے بچوں کی مشکلات کو حل کرنے کیا بہترین ذریعہ ہیں(یا ابت)

2۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچے کے خواب کے بارے میں بھی متوجہ رہیں(یا ابت)

3۔ خواب کی لغت میں ''اشیاء حقائق کی نمائندگی کرتی ہیں ''(مثلاً خورشید باپ کی اور چاند ماں کی اور ستارے بھائیوں کی علامت ہیں)۔(رایت احد عشرا کوکبا...)

4۔ کبھی خواب دیکھنا حقائق کو دریافت کرنے کا ایک راستہ ہوتاہے ۔( انی رایت)

5۔ کبھی نوجوانوں میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے جو بزرگوں کو سرجھکانے پر مجبور کردیتی ہے(ساجدین)

6۔ اولیائے خدا کا خواب سچا ہوتاہے(ر ایت)

اس آیت میں ''رایت ''کی تکرار اس بات کی علامت ہے کہ حتماًدیکھاہے۔ واقعہ خیالی و تصوری نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت رکھتاہے ۔

7۔ حضرت یوسف (ع)شروع میں خواب کی تعبیر نہیں جانتے تھے لہٰذا خواب کی تعبیر کے لئے اپنے باپ سے مدد طلب کی(یا ابت)

۲۵

آیت 5:

(5) قَالَ یَابُنَیَّ لاَتَقْصُصْ رُیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ فَیَکِیدُوا لَکَ کَیْدًا إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُبِینٌ

''یعقوب (ع)نے کہا: اے بیٹا (دیکھو خبردار)کہیں اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا (ورنہ) وہ لو گ تمہارے لئے مکاری کی تدبیر کرنے لگیں گے اس میں تو شک ہی نہیں ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے''۔

نکات:

اصول زندگی میں سے ایک اصل ''راز داری'' ہے اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں عمل کیا ہوتا تو یہ سب استعداد و سرمایہ ، خطی کتابیں ،علمی آثار اور تما م آثار قدیمہ دوسرے ممالک کے میوزیم میںنہ ہوتے اور محقق ( Diplomite )وسیاح کے روپ میں دشمن ہمارے منافع ، منابع اور امکانات سے باخبر نہ ہوتااور سادہ لوحی و خیانت کی وجہ سے ہمارے اسرار ایسے لوگوںکے ہاتھ میں نہ جاتے جو ہمیشہ مکر وفریب کے ذریعہ ہماری تاک میں رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوںکے سامنے اپنے خواب کو اپنے باپ سے بیان نہ کرنا خود آپ (ع)کی عقل مندی کی علامت ہے ۔

۲۶

پیام:

1۔والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کی خواہشات اور عادات سے آگاہ ہوں تاکہ صحیح راستہ کی رہنمائی کرسکیں۔(فیکیدوالک کید)

2۔ معلومات اور اطلاعات کی تقسیم بندی کرتے ہوئے پوشیدہ اور آشکار چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہئے(لاتقصص)

3۔ ہر بات کو ہرکس وناکس سے نہیں کہنا چاہیئے(لاتقصص)

4۔حسادت کی راہوں کو نہ بھڑکائیں(لاتقصص...فیکیدو)

5۔اگر کچھ خواب بیان کرنے کے لائق نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ بیداری میں دیکھی جانے والی بہت ساری چیزوں کو بھی بیان نہیں کرنا چاہئے(لاتقصص)

6۔ انبیاء (ع)کے گھرانوں میں بھی مسائل اخلاقی مثلاً حسد و حیلہ وغیرہ موجود ہیں(یا بنی لاتقصص...فیکیدوا...)

7۔ اہم مسائل کی صحیح پیش بینی کرتے ہوئے اگر سوء ظن کا اظہار کیا جائے یا بعض خصلتوں سے پردہ فاش کیا جائے تو کوئی برائی نہیں ہے ۔(فیکیدوالک کید)

8۔ انسان کا مکر و فریب میں مبتلا ہونا شیطانی کام ہے(فیکیدوا...ان الشیطان)

9۔ شیطان ہماری اندرونی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر مسلط ہوجاتا ہے ۔ بھائیوں کے درمیان حسد و جلن کے ماحول نے شیطان کے لئے انسان سے دشمنی کرنے کی راہ کو ہموار کردیا(فیکیدوا...ان الشیطان للانسان عدو مبین)

۲۷

آیت 6:

(6) وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّهَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ

''(جو تم نے دیکھا ہے )ایسا ہی ہو گا تمہارا پروردگار تم کو برگزیدہ قرار دے گا اور تمہیں ان باتوں کے انجام کا علم (اور خوابوں کی تعبیر)سکھائے گا اور وہ اپنی نعمت کو تم پر اور خاندان یعقوب پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے تمہارے دادا و پردادا پر اپنی نعمتیں پوری کرچکا ہے بے شک تمہارا پروردگار بڑا واقف کار حکمت والا ہے''۔

نکات:

تاویل خواب باطن کو بیان کرنا اور خواب کے وقوع کی کیفیت ہے ''احادیث''کلمہ ''حدیث'' کی جمع ہے یہ کلمہ ''ماجرا بیان کرنے''کے معنی میں استعمال ہوتاہے چونکہ انسان اپنے خواب کو مختلف لوگوں سے بیان کرتاہے لہٰذا خواب کو بھی حدیث کہا جاتا ہے بنابریں''تاویل الاحادیث'' یعنی خوابوں کی تعبیر۔

حضرت یعقوب (ع)اس آیت میں اپنے فرزند جناب یوسف (ع)کو ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے ان کے مستقبل کی خبر دے رہے ہیں

۲۸

پیام:

1۔ اولیائے الٰہی خواب کے ذریعہ افراد کے مستقبل کا نظارہ کرتے ہیں(یجتبیک ربک و یعلمک)

2۔ انبیاء علیہم السلام، خداوندعالم کے برگزیدہ افراد ہیں( یجتبیک )

3۔ انبیاء (ع)اللہ کے بلا واسطہ شاگرد ہیں( یعلمک)

4۔ مقام نبوت و حکومت، نعمتوں کا سرچشمہ ہے( ویتم نعمته)

5۔ انبیاء گرامی (ع)کا انتخاب علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر ہے(یجتبیک. علیم حکیم)

6۔ اپنے برگزیدہ بندوں کے لئے خدا وند عالم کا سب سے پہلا تحفہ ''علم ''ہے(یجتبیک ربک و یعلمک)

7۔ تعبیر خواب ان امور میں سے ہے جسے خداوندمتعال انسان کو عطاکرتاہے ۔(یعلمک من تاویل الاحادیث)

8۔ انتخاب میں لیاقت کے علاوہ اصل و نسب بھی اہمیت رکھتاہے(یجتبیک ...و ابویک من قبل )

9۔ قرآن کی لغت میں اجداد باپ کے حکم میں ہیں:( ابویک من قبل ابراهیم و اسحاق )

۲۹

آیت 7:

(7) لَقَدْ کَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ

'' یوسف اور انکے بھائیوں (کے قصہ)میں پوچھنے والوں کےلئے یقینا بہت سی (ارادہ خداکے حاکم ہونے کی) نشانیاں ہیں''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی داستان میں بہت سی ایسی علامتیں اور نشانیاں موجود ہیں جن سے خداوندعالم کی قدرت آشکار ہوتی ہے ان میں سے ہر ایک اہل تحقیق و جستجو کے لئے عبرت و نصیحت کا باعث ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا پُر اسرار خواب (2)تعبیر خواب کا علم (3) حضرت یعقوب (ع)کا اپنے فرزند کے مستقبل سے مکمل طور پر آگاہ ہونا (4)کنویں میں رہنا اور کسی خطرے سے دوچار نہ ہونا(5) اندھا ہونا اوردوبارہ بینائی کا لوٹنا (6)کنویںکی گہرائی اور جاہ و جلال کی بلندی (7)قید خانہ میں جانااور حکومت تک پہنچنا (8)پاک رہنا اور ناپاکی کی تہمت سننا (9) فراق و وصال (10)غلامی و بادشاہی (11)گناہوں کی آلودگی کے بجائے زندان کو ترجیح دینا (12)اپنی بزرگواری سے بھائیوںکی غلطیوں کو جلد معاف کردینا۔

انہیں نشانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے سوالات بھی ہیں جن میں سے ہر ایک کا جواب زندگی کی راہوں کو روشن کرنے والا ہے ۔

۳۰

حسادت انسان کو بھائی کے قتل پر کیسے آمادہ کردیتی ہے ؟

دس آدمی ایک خیانت میں کیسے متحد ہوجاتے ہیں ؟

حضرت یوسف علیہ السلام اپنی بزرگواری کی وجہ سے اپنے خیانت کار بھائیوں کو سزا دینے سے کیسے صرف نظر کرلیتے ہیں ؟

انسان آلودگی اور لذت گناہ پر یاد الٰہی کے ساتھ قید خانہ کو کیسے ترجیح دیتاہے؟

یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر اسلام (ص) اقتصادی اور اجتماعی محاصرہ میں سخت گرفتار تھے۔ یہ داستان ا نحضر(ص)ت کی تسلی ئخاطر کا باعث ہوئی کہ اے پیغمبر اگر آپ کے بعض رشتہ دار ایمان نہیں لاتے ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں ،جناب یوسف کے بھائیوں نے تو ان کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔

اس سورہ کی اہم آیتیں سازشوں پر خدا کے غلبہ کے بارے میں ہیں(بشری سازشیں ارادہ الٰہی کے سامنے بیکار ہوجاتی ہیں) حضرت یوسف (ع)کو کنویں میں ڈال دیاتاکہ باپ کے نزدیک محبوب ہوجائیں ۔ لیکن مبغوض ہو گئے دروازوں کو بند کیا گیا تاکہ آپ (ع)شہوت سے آلودہ ہوجائیں لیکن آپ(ع) کی پاکیزگی ثابت ہوگئی ،نہ کنواں ، نہ غلامی نہ قید خانہ نہ قصر اور نہ سازشیں کوئی بھی ارادہ الٰہی پر غالب نہ آسکیں ۔

۳۱

پیام:

1۔ قصہ بیان کرنے سے پہلے سننے والے کو داستان سننے اور عبرت آموزی کے لئے آمادہ کریں(لقد کان فی یوسف)

2۔ جب تک سننے اور سیکھنے کے عاشق نہ ہوں اس وقت تک قرآنی درسوں سے بطور کامل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں(للسائلین)

3۔ داستان ایک ہے لیکن اس واقعہ سے حاصل ہونے والے درس اور نکات بہت ہیں( آیات)

4۔ قرآنی داستانیں زندگی میں پیش آنے والے بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہیں(للسائلین)

5۔ ''حسد''خاندان اور رشتہ داری کے محکم ستون کو بھی منہدم کردیتاہے(لقد کان فی یوسف)

آیت 8:

(8)إِذْ قَالُوا لَیُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَی أَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّ أَبَانَا لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ

''جب (یوسف کے بھائیوں نے)کہا کہ باوجودیکہ ہماری جماعت بڑی طاقت ور ہے تاہم یوسف اور اس کا حقیقی بھائی (بنیامین )ہمارے والد کے نزدیک ہم سے بہت زیادہ پیارے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والد یقینا صریح غلطی میں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ لڑکے تھے ان میں سے دو (یوسف و بنیامین) ایک ماں سے تھے جبکہ باقی دوسری ماں سے تھے۔ باپ کی محبت جناب یوسف (ع)سے (آپ (ع)کے چھوٹے ہونے یا کمالات کی وجہ سے تھی)بھائیوں کے لئے حسد و جلن کا سبب بنی اور حسادت کے علاوہ ''نحن عصب''کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر خوئے تکبر اور غرور بھی موجود تھی اور اسی غرور و تکبرکے نتیجہ میں باپ کو بچوں سے محبت کرنے پر انحراف اور غلطی سے متہم کرنے لگے

۳۲

معاشرے اور سماج میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو خود کو بلندی پر لے جانے کے بجائے بلند افراد کو نیچے لے آتے ہیں ۔ خود محبوب نہیں ہیں لہٰذا محبوب افراد کو داغدار کرتے ہیں ۔

تبعیض و تفاوت کے درمیان فرق: تبعیض کسی کو بغیر دلیل کے برتری دینا ۔تفاوت:لیاقت و شرافت کی بنیاد پر برتری دینا ۔ مثلاًڈاکٹر کے نسخے اور معلم کے نمبر فرق کرتے ہیں لیکن یہ تفاوت حکیمانہ ہے ظالمانہ نہیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت حکیمانہ تھی نہ کہ ظالمانہ لیکن حضرت یوسف (ع)کے بھائی اس محبت کو تبعیض اور بدون دلیل سمجھ رہے تھے ۔

کبھی زیادہ محبت مصیبتوں کا سبب بنتی ہے ۔ حضرت یعقوب - حضرت یوسف - کو بہت چاہتے تھے یہی محبت بھائیوںکے کینہ اور ان کے کنویں میں ڈالے جانے کا سبب بنی اسی طرح'' زلیخا کی حضرت یوسف (ع)سے محبت '' قید خانہ میں جانے کا سبب بنی لہٰذا جب حضرت (ع)کے اخلاق سے متاثر ہو کر زندان بان نے کہاکہ میں آپ (ع)سے محبت کرتا ہوں تو حضرت (ع)نے فرمایا : میں ڈرتا ہوں کہیں اس محبت و دوستی کے پیچھے بھی کوئی مصیبت پوشیدہ نہ ہو۔(1)

--------------

( 1 )تفسیر الستین الجامع.

۳۳

پیام:

1۔ اگر اولاد تبعیض اور دو گانگی کا احساس کرلے توا ن کے درمیان حسادت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے(احب ابینامنّ)

2۔ بچوں کے درمیان تفاوت کرنے سے باپ سے ان کا عشق و محبت کم ہوجاتاہے(ان ابانا لفی ضلال مبین)

3۔ طاقت و قدرت محبت آور نہیں ہے(احب الی ابینا و نحن عصب)

4۔ ''حسد ''نبوت اور پدری حدود کو بھی توڑ دیتاہے اور بچے اپنے باپ کو جو پیغمبر بھی ہیں ''منحرف''اور ''بے انصاف''کہنے لگتے ہیں(ان ابانا لفی ضلال مبین)

5۔ محبوب نظر ہونے کا عشق اور اسکی محبت ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اگر کوئی انسان سے محبت نہ کرے یا کم توجہی برتے تو انسان کو اس سے تکلیف ہوتی ہے(احب الی ابین)

۳۴

آیت 9:

(9) اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِینَ

''(بھائیوں نے ایک دوسرے سے کہاخیر تو اب مناسب یہ ہے کہ یاتو)یوسف کو مار ڈالو یا (کم از کم ) اس کو کسی جگہ (چل کر)پھینک تو البتہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی اور اسکے بعد تم سب کے سب (باپ کی توجہ سے)اچھے آدمی بن ج گے''۔

نکات:

جب انسان کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو اس کی چار حالتیں ہوتی ہیں ۔حسادت ، بخل ، ایثار، غبطہ ۔ جب یہ فکر ہو کہ اگر ہمارے پاس فلاں نعمت نہیں ہے تو دوسرے بھی اس نعمت سے محروم رہیں تو اسے ''حسادت'' کہتے ہیں۔اگر یہ فکر ہو کہ یہ نعمت فقط میرے پاس رہے دوسرے اس سے بہرہ مند نہ ہوں تو اسے ''بخل''کہتے ہیں اگریہ فکر ہو کہ دوسرے اس سے بہرہ مند ہوں اگرچہ ہم محروم رہیں تو اسے ''ایثار'' کہتے ہیں۔ اگر یہ کہے کہ دوسرے افراد نعمت سے بہرہ مند رہیں ۔اے کاش ہم بھی نعمت سے بہرہ مند ہوتے تو اسے غطبہ اور رشک کہتے ہیں ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں کبھی اپنے بچوں سے اظہار محبت کرتاہوں اور انہیں اپنے زانوں پر بٹھاتاہوں جبکہ وہ ان تمام محبتوں کے مستحق نہیں ہوتے (میں اس لئے ایسا کرتا ہوں کہ) کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے تمام فرزند ایک دوسرے سے حسد وجلن کرنے لگیں اور حضرت یوسف (ع)کے ماجرے کی تکرار ہوجائے۔(1)

--------------

( 1 )تفسیر نمونہ بنقل بحار، ج 74 ص 87

۳۵

پیام:

1۔ بُری فکر انسان کو خطرناک عمل کی طرف لے جاتی ہے(لیوسف.احب .اقتلو)

2۔ حسد وجلن انسان کو بھائی کے قتل پر آمادہ کرتی ہے(اقتلوا یوسف)

3۔انسان ، محبت کا خواہاں ہے اور محبت کا کم ہونابہت بڑے خطرات و انحرافات کا باعث ہوتاہے(یخل لکم وجه ابیکم)

4۔ اگرچہ قرآن ''محبوبیت کی راہ''ایمان و عمل صالح کو قرار دیتاہے ان الذین

امنوا و عملوا الصالحات سیجعل لهم الرحمن ودّا (1) لیکن شیطان محبوبیت کی راہ کو برادر کشی بتاتا ہے(اقتلوا ...یخل لکم وجه ابیکم)

5۔ حسد کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ دوسروں کو نابود کرنے سے اسے نعمتیں مل جائیں گی ۔(اقتلوا ...یخل لکم وجه ابیکم)

6۔ شیطان کل توبہ کرلینے کا دھوکا دے کر آج گناہ کا راستہ دکھاتا ہے۔(وتکونوا من بعده قوماً صالحین)

7۔ علم و آگاہی ہمیشہ انحراف سے دوری کا سبب نہیں ہے ۔ جناب یوسف (ع)کے بھائیوں نے قتل اور شہر بدر کرنے کو برا سمجھنے کے باوجود اسی کو انجام دی(و تکونوا من بعدہ قوما صالحین)

آیت 10:

(10) قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لاَتَقْتُلُوا یُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَ إِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ

''ان میں سے ایک کہنے والا بول اٹھا کہ یوسف کو جان سے تو نہ مارو (ہاں اگر تم کو ایسا ہی کرنا ہے) تو کسی اندھے کنویں میں (لے جاکر)ڈال دو کوئی راہ گیر اسے نکال کر لے جائے گا(اور تمہارا مطلب بھی حاصل ہوجائےگا)''

--------------

( 1 )سورہ مریم آیت 96

۳۶

نکات:

''جُبّ'' اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پتھر نہ بچھائے گئے ہوں''غیابت'' بھی ان طاقچوں کوکہتے ہیں جو کنویںکی دیوار میں پانی کے قریب ہوتے ہیں جو اوپر سے دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔

نہی از منکر(برائیوں سے روکنا) ایسی برکتوں کا حامل ہے جو آئندہ روشن ہوتے ہیں۔(لا تقتلوا) نے حضرت یوسف (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد آپ (ع)نے ایک مملکت کو قحط سے نجات دلائی اسی طرح جس طرح ایک دن جناب آسیہ نے فرعون سے'' لاتقتلوا'' کہہ کرجناب موسی (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی در حقیقت یہ وعدہ الٰہی کا روشن نمونہ ہے خداوندعالم فرماتاہےمن احیاء ها فکانما أحیا الناس جمیعا (1) جو بھی ایک شخص کو حیات دے گا گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

پیام:

1۔ اگر برائیوں کو بطور کامل نہیں روک سکتے تو جہاں تک ممکن ہو روکنا چاہئیے۔(لاتقتلوا ...والقوه)

-----------

1:سورہ مائدہ آیت 32.

۳۷

آیت 11:

(11) قَالُوا یَاأَبَانَا مَا لَکَ لاَتَأْمَنَّا عَلَی یُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

''سب نے (یعقوب سے)کہا اباجان آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم لوگ تو اس کے خیر خواہ ہیں''۔

پیام:

1۔ جو لوگ کچھ نہیں ہوتے وہ زیادہ دعوی اور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔(انا له لناصحون)

2۔ ہر بھائی قابل اطمینان نہیںہے(گویاحضرت یعقوب نے جناب یوسف کوبارہا بھائیوں کےساتھ جا نے سے روکا ہے اسی لئے بھائیوں نے یہ کہہ کر(مالک لاتأمنّ) اعتراض کیا ہے )

3۔ نعرے بازی سے دھوکا نہ کھ اور بے مسمی اسم سے پرہیز کرو (خائن اپنا نام ناصح رکھتا ہے)(لناصحون)

4۔ دشمن بد گمانی کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کا اطمینان دلاتا ہے ۔(اناله لناصحون)

5۔ خیانت کار اپنی غلطی کو دوسروں کی گردن پر ڈالتاہے ۔(مالک)

۳۸

6۔ روز اول ہی سے انسان نے خیر خواہی کے نام پر دھوکا کھایا ہے ، شیطان نے جناب آدم و حوا کوغفلت میں ڈالنے کے لئے یہی کہا تھا کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں(وقاسمهما انی لکما لمن الناصحین) (1) (انا له لناصحون)

7۔بعض و حسد،انسان کو مختلف گناہوں پر مجبور کرتاہے (جیسے جھوٹ ، دھوکہ دینا یہاں تک کہ اپنے محبوب ترین رشتہ دارکو بھی دھوکہ دینا چاہتا ہے ۔(انا له لناصحون)

آیت 12:

(12) أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.

'' آپ اس کو کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ ذرا (جنگل) سے پھل پھلاری کھائے اور کھیلے کودے اور ہم لوگ تو اس کے نگہبان ہی ہیں''۔

نکات:

انسان تفریح و ورزش کا محتاج ہے جیسا کہ اس آیت میں مشاہدہ ہوتاہے کہ وہ قوی ترین منطق و دلیل جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع)کو اپنے بیٹوں کی خواہش کو تسلیم کرنا پڑا وہی تفریح ہے کہ یوسف کو تفریح کی ضرورت ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومن کو اپنا کچھ وقت تفریح ولذات کے لئے مخصوص کرنا چاہیئے تا کہ اس کے وسیلہ سے تمام کام بخوبی انجام دے(2)

--------------

( 1 )سورہ اعراف آیت 21

( 2 )نہج البلاغہ حکمت 390

۳۹

فقط کل ہی نہیںبلکہ آج بھی اور آئندہ بھی اس کھیل اور ورزش کے بہانے جوانوں کو سرگرم کیاجارہا ہے اور کیاجاتا رہے گا ہمارے جوانوں کو حقیقی ہدف سے دور اور غفلت میں رکھا جا رہا ہے کھیلوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تاکہ اہم چیزیں کھیل شمار ہونے لگیں۔ استکبار اور سازشی لوگ صرف کھیل کود سے سوء استفادہ نہیں کرتے بلکہ ہر پسندیدہ و مقبول نام سے اپنے برے اہداف کی ترویج کرتے ہیں، ڈپلومیٹ ( diplomate ) کے روپ میں خطرناک ترین جاسوسوں کو دوسرے ممالک میں روانہ کرتے ہیں فورس اور دفاعی امور کے مشیر ہونے کے پیچھے سازش کرتے ہیں اور اس کے راز حاصل کرلیتے ہیں۔

حقوق بشر کے بہانے کرکے اپنے نوکروں کی حمایت کرتے ہیں، دوا کے نام پر اپنے نوکروں کے لئے اسلحہ روانہ کرتے ہیں ، اقتصادی ماہرین کے بہانے ممالک کو کمزور تر بنا دیتے ہیں ، سم پاشی کے بہانے باغات اور کھیتوں کو برباد کردیتے ہیں ۔حتی اسلامی ماہرین کے روپ میں غیر اسلامی چیزوں کو اسلامی لباس میں پیش کرتے ہیں۔

پیام:

1۔بچے کی تفریح باپ کی اجازت سے ہونی چاہیئے(ارسله)

2۔ورزش و تفریح ، کھیل کود شیطانی جالوںمیں سے ایک جال ہے اور غافل کرنے کا ذریعہ ہے(ارسله معنا غدا یرتع و یلعب)

3۔ بھائیوں نے دھوکہ دینے کے لئے مباح اور منطقی وسیلہ سے سوء استفادہ کیا(ارسله ...یرتع و یلعب)

۴۰