یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 168187
ڈاؤنلوڈ: 4307

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168187 / ڈاؤنلوڈ: 4307
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یوسف قرآن

استادمحسن قرائتی

مترجم: سید مراد رضا رضوی

مجمع جہانی اہل بیت (ع)

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی (ص) غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہئ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے 23 برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۳

اگرچہ رسول اسلام (ص) کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہئ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۴

(عالمی اہل بیت (ع)کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت(ع) عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت(ع) عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت(ص)و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، استاد محسن قرائتی کی گرانقدر کتاب یوسف قرآن کو مولاناسید مراد رضا رضوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

گفتارمؤلف

بسم الله الرحمن الرحیم الحمد للّٰه رب العالمین

انبیاء گرامی (ع)خصوصا پیغمبراسلام(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت علیہم السلام پر خداوندمتعال، فرشتوں اور اس کے اولیاء کا درود و سلام ہو۔ خدا کاشکر ادا کرتاہوں کہ اب تک قرآن مجید کے پچیس (25)پاروںکی تفسیر لکھ چکاہوں اور پانچ سالوں میں دس ایڈیشن سے زیادہ شائع ہوچکے ہیں ۔نیز1376 شمسی میںیہ کتاب بعنوان ''کتاب سال جمہوری اسلامی ایران '' کااعزاز بھی حاصل کرچکی ہے ۔خداوندعالم کالطف وکرم ہے کہ اس تفسیرکا خلاصہ بیس سے زیادہ زبانوں میںترجمہ ہوچکاہے اور دوسرے ممالک میں ریڈیو پر بھی نشر ہواہے اس کے علاوہ یہ تفسیر دوسرے مسلمانوں کے درمیان بھی مورد استقبال قرار پائی ہے اگرچہ سورہ یوسف تفسیر نور کی چھٹی جلد میں شائع ہوچکاہے ۔لیکن چونکہ داستان حضرت یوسف علیہ السلام بہت شیریں اور پرکشش ہے. علاوہ ازیں نئی نسل کی تفسیر سے آشنائی اورقرآن کریم کے لطائف اور اشارات و نکات سے معرفت کے لئے بہترین راہ قرآنی داستانیں ہیں ۔لہٰذا ہم نے یہ ارادہ کیاکہ تفسیر نور کے اس حصہ کو علیحدہ شائع کراؤں تاکہ وہ لوگ جو پوری تفسیر کے مطالعہ کا وقت یا حوصلہ نہیں رکھتے یا تفسیر کاایک مکمل دورہ ( set )خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ بالکل محروم نہ رہ جائیں بلکہ کم از کم قرآن کے کچھ حصہ اور اس کی تفسیر سے آشنا ہوجائیں۔

ہمارے جوانوں کو اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یقین ہوجائے گا کہ کس طرح خداوند عالم نے قرآن مجید کے (تقریباً)بارہ صفحات میں ایک ایسی داستان بیان فرمائی ہے جس میںہزاروںنکات پوشیدہ ہیں ۔ میں اپنی کم معلومات کے باوجود تقریباً نو سو (900) نکات حاصل کرکے اس کتاب میں آپ کے سامنے پیش کررہاہوں ۔اس داستان میں تمام سازشوں پر خدا کے ارادہ کاغلبہ ،بدترین اور سخت ترین حالات میں ایک جوان کی پاکدامنی، تدبیر وحکمت سے ایک قحط زدہ ملک کو نجات دلانا ، تلخ حوادث کے مقابلہ میں ایک بوڑھے باپ کاصبر ،حاسدوں کے مقابلے میں عفو و بخشش، نیک کردار افراد پر خدا کا خاص لطف موجود ہے اس کے علاوہ سینکڑوں تربیتی ، خاندانی،اجتماعی ،سیاسی ، اعتقادی ، اور انتظامی نکتے بھی ہیں۔

۶

ہم سمجھتے ہیں کہ اس سورہ کا مطالعہ دنیائے تفسیر میں وارد ہونے کے لئے بہترین راستہ قرار پائے گا ۔ لیکن اس کے باوجود جلد بازی میں قضاوت کرنا نہیں چاہتابلکہ کتاب کے مطالعہ کے بعد اس سلسلے میں آپ کے فیصلے کامنتظر ہوں ۔

بہرحال جو کچھ بھی ہے خداوندمتعال ، انبیاء (ع)، ائمہ معصومین (ع)، مراجع ، علماء اور مدرسین کے وسیلے سے ہم تک پہنچا ہے اس کے علاوہ ہمیں اسلامی انقلاب ، امام خمینی (رح) اور شہداء کے خون نے قرآن مجید سے انس اور اس میں غور و فکر کی راہ عنایت فرمائی ہے جس کے شکر سے ہم عاجز ہیں ۔ جن افراد کے ذہن میں کوئی نئے نکات یا اعتراضات پیدا ہوں، ہمیں ان سے آگاہ فرمائیں، ہم ان کے شکرگزار ہوں گے ۔

محسن قرائتی

21۔3۔1379 شمسی

۷

سورہ یوسف کا رخ زیبا

سورہ یوسف مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی ایک سو گیارہ ( 111) آیتیں ہیں ، حضرت یوسف علیہ السلام کا نام قرآن میں 27/مرتبہ آیا ہے جس میں پچیس بار خود اسی سورہ میں ہے اس سورہ کی آیتیں آپس میں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور چند فصلوں میں جذاب انداز اور خلاصہ کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو بچپن سے لے کر مصر کی خزانہ داری تک بیان کیا گیا ، آپ(ع) کی عفت و پاکدامنی ، آپ(ع) کے خلاف تمام سازشوں کا پردہ فاش ہونا اور قدرت الٰہی کی جلوہ نمائی اس سورہ میں نمایاں ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان فقط اسی سورہ میں بیان ہوئی ہے ۔ جبکہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستانیں مختلف سوروں میں موجود ہے ۔(1) حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان توریت کی ''کتاب پیدائش''میں فصل نمبر 37 سے لیکر پچاس 50 تک مذکور ہے۔

لیکن قرآن اورتوریت کا تقابلی جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور تورات میں تحریف ہوئی ہے ۔

ادبی دنیا میں بھی یوسف و زلیخا کی داستان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ ''نظامی گنجوی کی منظوم یوسف و زلیخا'' ''فردوسی کی طرف منسوب یوسف و زلیخا''کا نام اس ادبی دنیا میں لیا جاسکتا ہے۔

--------------

( 1 )حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) دونوں کی داستانیں بارہ 12 سورتوں میں ، داستان حضرت ابراہیم (ع) اٹھارہ 18 سورتوں میں ، داستان حضرت صالح(ع) گیارہ 11 /سورتوں میں، حضرت داؤود(ع) کا واقعہ پانچ سورتوں میں ، حضرت ہود (ع)و سلیمان (ع)دونوں کی داستانیں چار 4 سورتوں میں اور حضرت عیسیٰ (ع)و زکری(ع) کی داستانیں تین 3 سورتوں میں مذکور ہیں ۔ تفسیر حدائق

۸

قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں خود آپ(ع) کی شخصیت کو حوادث کی بھٹی سے گزرنے ہی کو داستان کا اصلی مرکز و محور قرار دیتاہے ۔

جبکہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستانوں میں زیادہ تر مخالفین کا انجام ، ان کی ہٹ دھرمی اور ان کی ہلاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

بعض روایتوں میں عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم سے روکا گیا ہے لیکن بعض صاحبان نظر کے نزدیک ان روایتوں کی سند معتبر نہیں ہے ۔(2)

اس کے علاوہ نہی کا سبب ؛عزیز مصر کی بیوی زلیخاکا عشق کرنا ہے ، جس میں قرآنی بیان کی بنیاد پر کوئی منفی پہلو نہیں ہے ۔

--------------

(2)تفسیر نمونہ.

۹

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.

شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے ۔

آیت 1:

(1) الۤرٰ تِلْکَ ا یاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ.

'' الف لام را وہ واضح اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں''۔

آیت 2:

(2) اِنّا اَنْزَلْنَاهُ قُرْ اناً عَرَبِیّاً لَعَلّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.

'' ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیاہے تاکہ تم سمجھو''.

نکات:

قرآن جس زبان میں بھی نازل ہوتا دوسروں پر اس سے آشنائی لازم ہوتی لیکن قرآن کا عربی زبان میں نازل ہونا ایک خاص امتیاز کاحامل ہے ، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

الف ۔ عربی زبان کی لغات اتنی وسیع اور اس کے قوانین اتنے محکم ہیں کہ دوسری زبانوں میں ایسی باتیں نہیں ملتیں۔

ب۔ روایات کے مطابق اہل جنت کی زبان عربی ہے ۔

ج۔ جس علاقے کے لوگوں میں قرآن نازل ہوا ان کی زبان عربی تھی لہٰذا آسمانی کتاب کا کسی دوسری زبان میں ہونا ممکن نہ تھا ۔

۱۰

خداوندعالم نے قرآن مجید کے بھیجنے کے طریقے کو ''نزول '' کہا ہے جیساکہ بارش کے سلسلے میں بھی ''نزول'' ہی استعمال کیا گیا ہے قرآن اور بارش کے درمیان کچھ ایسی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر مناسب ہے :

الف۔دونوں آسمان سے نازل ہوتے ہیں(نزّلنا) (1)

ب۔ دونوں خود بھی پاک ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں(لیطهرکم ) (2) (یزکّیهم ) (3 )

ج۔دونوں زندگی کا وسیلہ ہیں(دعا کم لما یحییکم ) (4) (لنحی به بلدمیتا) (5)

د۔ دونوں باعث برکت ہیں(مبارکاً ) (6)

--------------

( 1 )سورہ ق آیت 9

( 2 )یُنزّل علیکم من السماء ماء لیُطهرّکم بہ۔انفال ،آیت 11

( 3 )ربناوابعث فیهم رسولاً یعلمهم الکتاب والحکم ویزکیهم ۔ بقرہ آیت 129

( 4 )انفال آیت 24

( 5 )فرقان آیت 49

( 6 )هذا کتاب انزلناه مبارک انعام آیت 92نزّلنا من السماء ماء مبارکا ۔(سورہ ق آیت 9

۱۱

ھ۔ قرآن بارش کی طرح قطرہ قطرہ ، آیت آیت نازل ہواہے(نزول تدریجی)

شائد قرآن کے عربی ہونے پر تاکید کی وجہ یہ ہو کہ ان لوگوں کا جواب دےدیا جائے جو کہتے ہیں کہ قرآن کو ایک عجمی شخص نے پیغمبر اسلام(ص) کو سکھایا تھا۔(1)

پیام:

1۔ قرآن خود معجزہ ہے اس میں معجزات کی تمام اقسام: علمی ، تاریخی ، عینی سب شامل ہیں اس میں انہیں حروف تہجی کو استعمال کیا گیا ہے جنہیں تم استعمال کرتے ہو ۔(الۤر) (سورہ کی پہلی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے )

2۔ قرآن کا مقام ومرتبہ بہت بزرگ و برتر ہے(تلک)

3۔ قرآن عربی زبان میں ہے لہٰذا دوسری زبانوں میں اس کاترجمہ نماز میں عربی کا قائم مقام نہیں ہوسکتا(قرآناً عربی)

4۔ ایک طرف قرآن کا عربی میں نازل ہونا ، اور دوسری طرف اس میں تدبراور غور و فکر کا حکم اس بات کی علامت ہے کہ تمام مسلمانوں پر عربی زبان سے آشنائی لازمی ہے(قرآناً عربی)

5-قرآن فقط تلاوت ، تبرّک اور حفظ کے لئے نہیں ہے بلکہ بشر کے لئے تعقل اور تکامل کا ذریعہ ہے ۔(لعلکم تعقلون)

--------------

( 1 )۔.۔وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِی یُلْحِدُونَ إِلَیْهِ أَعْجَمِیٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِینٌ .( سورہ نحل آیت 103 )

۱۲

آیت 3:

(3) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ کُنتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنْ الْغَافِلِینَ.

''ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کرکے آپ سے ایک نہایت عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ آپ اس سے پہلے (ان واقعات سے بالکل) بے خبر تھے ''۔

نکات:

''قصص'' داستان اور بیانِ داستان دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔

قصہ اور داستان انسان کی تربیت میں قابل توجہ حصہ رکھتے ہیں کیونکہ داستان ایک امت کی زندگی کا عینی مجسمہ اور عملی تجربہ ہے ۔ تاریخ اقوام کا آئینہ ہے ہم جس قدر ماضی کی تاریخ سے آشنا ہوں گے اتنا ہی محسوس ہو گا کہ ہم نے ان لوگوں کی عمر کے برابر زندگی گزاری ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 31 میں اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو مخاطب کرکے کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں جن کا مضمون یہ ہے :

''اے میرے لخت جگر ! میں نے ماضی کی تاریخ اور سرگزشت کا اس طریقے سے مطالعہ کیا ہے اور آگاہ ہوں گویا میں نے ان لوگوںکے ساتھ زندگی گزاری ہو اور ان کی عمر پائی ہو ''۔

۱۳

شاید انسان پر قصہ اور داستان کی تاثیر کی وجہ یہ ہو کہ انسان داستان سے قلبی لگ رکھتا ہے تاریخی کتابیں اور داستانی آثار معمولاً تاریخ بشریت میں ایک خاص اہمیت کے حامل اور اکثر لوگوں کے لئے قابل فہم رہے ہیں ۔ جبکہ عقلی و استدلالی بحثوں کو بہت کم افراد ہی درک کرپاتے ہیں ۔

قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو بعنوان ''احسن القصص'' یاد کیا ہے لیکن روایات میں پورے قرآن کو ''احسن القصص'' کہا گیا ہے ۔یقینا ان دونوں باتوںمیں کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ پورا قرآن تمام کتب آسمانی کے درمیان ''احسن القصص'' ہے جبکہ سورہ یوسف تمام قرآنی سورتوں میں ''احسن القصص'' ہے۔(1)(2)

--------------

(1)تفسیر کنزالدقائق.

(2)اگر آیت کے اس ٹکڑے ''احسن القصص'' کو بغور دیکھا جائے تو اس توجیح کی ضرورت پیش نہیں آئے گی جسے صاحب کنزالدقائق نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ یہاں بہترین داستان مقصود نہیں ہے اس لئے کہ قصہ کی جمع ''قَصص ''نہیں بلکہ '' قِصص ''ہے یہاں خداوندمتعال کا مقصود یہ ہے کہ ہم قصہ گوئی کا بہترین طریقہ اور اس کی روش بیان کررہے ہیں یعنی پورا قرآن ''احسن القصص'' ہے لیکن اس سورہ میں بہترین شیوہ اور اسلوب کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ پورے سورہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کون سا بہترین شیوہ یہاں استعمال کیا گیا ہے ۔ جو قصہ گوئی کے فن سے آگاہ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بہترین قصہ وہ ہے جو بامقصد ہو۔ قرآن مجید کے سارے سورے بامقصدہیںاور وہ بھی عالی ترین مقصد جو ہدایت ہے وہ اس سورہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔لیکن دوسری شرط یہ ہے کہ قصہ ایک جگہ بیان کیا جائے اسی لئے جو چاشنی ایک مکمل ناول میں ہوتی ہے وہ قسط وار میں نہیں ہوتی ۔ یہی وہ بہترین روش ہے جو اس سورے میں استعمال کی گئی ہے۔ اس سے قبل آپ نے ''سورہ یوسف کا رخ زیبا'' عنوان میں ملاحظہ فرمایا کہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستان قرآن مجید کے مختلف سوروں میں ملتی ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ فقط اسی سورہ میں ہے وہ بھی اپنی خاص زیبائی و خوبصورتی کے ساتھ لہٰذا پورا قرآن احسن القصص ہے لیکن جناب یوسف کا قصہ ، قصہ گوئی کے تما م فنون سے بہرہ مند ہے ۔(مترجم)

۱۴

دوسری داستانوں سے قرآنی داستانوں کا فرق:

1۔قصہ کہنے والا خدا ہے(نحن نقص) (1)

2۔ بامقصد ہے(نقص علیک من انباء الرسل ما نثبّت به فادک) (2)

3۔صحیح اور سچ ہے نہ کہ خیال و تصور۔(نقص علیک نبأهم بالحق) (3)

4۔ علمی بنیاد پر ہے نہ کہ وہمی و گمانی(فلنقصّنّ علیهم بعلم) (4)

5۔وسیلہ تفکر ہے نہ کہ ذریعہ بے حسی(فاقصص القصص لعلهم یتفکرون) (5)

6۔عبرت و نصیحت کا ذریعہ ہے نہ کہ تفریح و سرگرمی(کان فی قصصهم عبر) (6)

--------------

( 1 ) سورہ یوسف آیت 3

( 2 ) سورہ ہود، آیت 120

( 3 )سورہ کہف آیت 13

( 4 )سورہ اعراف آیت 7

( 5 )سورہ اعراف آیت 176

( 6 )سورہ یوسف آیت 111

۱۵

حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ''احسن القصص ''ہے ، چونکہ:

1۔ تمام قصوں میں معتبرترین قصہ ہے ۔(بما اوحین)

2۔ اس داستان میں عظیم ترین جہاد (جسے جہاد بالنفس سے تعبیر کیا گیا ہے)کا تذکرہ ہے۔

3۔اس داستان کا مرکزی کردار ایک ایسا نوجوان ہے جو تمام انسانی کمالات کا حامل ہے(یعنی صبر، تقویٰ ، پاکدامنی ، ایمان ، امانت ، حکمت ، بخشش ، احسان، وغیرہ)

4۔ اس داستان کے تمام افراد آخرکار خوشبخت ہوگئے ، مثلاًحضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے جناب یوسف (ع)کے بھائیوںنے توبہ کرلی ، آپ (ع)کے پدر بزرگوار کی بینائی لوٹ آئی ، قحط زدہ ملک کو نجات مل گئی ، مایوسی اور حسادت ، وصال اور محبت میں تبدیل ہو گئی۔

5۔ اس قصے میں تمام اضداد کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ مثلاًفراق ووصال، خوشی و غم ، خشک سالی و سبزہ زاری ، وفاداری و جفاکاری ، مالک و مملوک ، کنواں اور محل ، فقر و غنا، غلامی و بادشاہی ، نابینائی و بینائی ، ناجائز تہمت اور پاکدامنی ۔

فقط الٰہی قصے ہی نہیں بلکہ خداوندعالم کے تمام کام ''عمدہ '' ہیں اس لئے کہ وہ :

۱۶

بہترین پیداکرنے والا ہے ۔احسن الخالقین (1)

بہترین کتاب کا نازل کرنے والا ہے ۔نزّل احسن الحدیث (2)

بہترین صورت بنانے والا ہے ۔فاحسن صورکم (3)

بہترین دین کا مالک ہے۔و من احسن دینا ممن اسلم وجهه للّٰ ہ(4)

بہترین جزا دینے والا ہےلیجزیهم الله احسن ما عملوا (5)

اورخداوندعالم ان تمام اچھائیوںکے مقابلے میں انسان سے بہترین عمل چاہتا ہےلیبلوکم ایّکم احسن عملا (6)

قرآن مجید میں غفلت کے تین معانی بیان ہوئے ہیں :

الف ۔ بری غفلت:(و انّ کثیرا من الناس عن ایاتنا لغافلون) (7) اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں ۔

ب۔ اچھی غفلت :(الذین یرمون المحصنات الغافلات المومنات

--------------

( 1 )سورہ مومنون آیت 14

( 2 )سورہ زمر آیت 23

( 3 )سورہ غافر آیت 64

( 4 )سورہ نساء آیت 125

( 5 )سورہ نور آیت 38

( 6 )سورہ ہود آیت 7

( 7 )سورہ یونس آیت 92

۱۷

لعنوا فی الدنیا والاخر) (1) جو لوگ بے خبر پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیاو آخرت میں لعنت ہے ۔

ج۔ طبیعی غفلت :یعنی آگاہ نہ ہونا(و ان کنت من قبله لمن الغافلین)

پیام:

1۔ قرآنی داستانوں میں قصہ گو ،خود خداوندعالم ہے(نحن نقص)

2۔دوسروں کےلئے نمونہ پیش کرنے کےلئے بہترین افراد کا انتخاب اور تعارف کروائیں۔(احسن)

3۔ قرآن ''احسن الحدیث'' اور سورہ یوسف ''احسن القصص''ہے( احسن القصص)

4۔بہترین داستان وہ ہے جو وحی کی بنیاد پر ہو(احسن القصص بما اوحین)

5۔قرآن شریف بہترین اور خوبصورت انداز میں داستان بیان کرنے والا ہے۔(احسن القصص)

6- پیغمبر گرامی (ص) وحی کے نازل ہونے سے پہلے ''گزشتہ تاریخ''سے ناآشنا تھے...(لمن الغافلین)

--------------

( 1 )سورہ نور آیت 23

۱۸

آیت 4:

(4) إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیهِ یَاأَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ

'' (وہ وقت یاد کرو )جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا: اے بابا! میں نے (خواب میں)گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں''۔

نکات :

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان خواب سے شروع ہوتی ہے تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی(رح) فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان ایک ایسے خواب سے شروع ہوتی ہے جو انہیں بشارت دیتا ہے اور مستقبل کے بارے میں روشن امید دلاتا ہے تاکہ انہیں تربیت الٰہی کی راہ میں صابر و بردبار بنائے ۔

جناب یوسف (ع)حضرت یعقوب (ع)کے گیارہویں فرزند ہیں جو بنیامین کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ بنیامین کے علاوہ دوسرے بھائی دوسری ماں سے ہیں۔ حضرت یعقوب (ع)حضرت اسحاق (ع)کے اور حضرت اسحاق (ع)حضرت ابراہیم (ع)کے فرزند ہیں(1) ۔

اولیاء ِالٰہی کے خواب مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی تعبیر کے محتاج ہوتے ہیں جیسے حضرت یوسف (ع)کا خواب اور کبھی تعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جیسے حضرت ابراہیم کا خواب جس میں حضرت اسماعیل (ع)کو ذبح کرنے کا حکم دیاگیا تھا ۔

--------------

( 1 )تفسیر مجمع البیان

۱۹

خواب کے سلسلے میں ایک اور گفتگو

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : الرویا ثلاث : بشری من اللہ ، تحزین من الشیطان والذی یحدث بہ الانسان نفسہ فیراہ فی منامہ(1)

یعنی خواب کی تین قسمیں ہیں: (الف)خدا کی طرف سے بشارت۔ (ب)شیطان کی طرف سے غم و غصہ (ج) وہ مشکلات جن سے انسان روزمرہ دچار ہوتاہے پھر انہیں خواب میں دیکھتا ہے ۔

بعض دانشمند اور علوم نفسیات کے ماہرین خواب دیکھنے کو شکست اور ناکامی کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ اپنی بات کو مستند کرنے کے لئے ایک پرانی ضرب المثل پیش کرتے ہیں ''شتر در خواب بیند پنبہ دانہ'' جسے اردو میں ''بلی کے خواب میں چھیچھڑے ''کہہ سکتے ہیں ۔ بعض تو خواب کو خوف کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسکے لئے یہ ضرب المثل پیش کرتے ہیں ''دور از شتر بخواب تا خواب آشفتہ نبینی''(اونٹ سے دورسو تاکہ پریشان کنندہ خواب نہ دیکھو)بعض ، خواب کو غرائز اور ہوس کا آئینہ سمجھتے ہیں ۔

--------------

( 1 )بحار الانوار ج 14 صفحہ 441

۲۰