یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 168204
ڈاؤنلوڈ: 4307

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 168204 / ڈاؤنلوڈ: 4307
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آیت 13:

(13) قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ یَأْکُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ.

''(یعقوب نے)کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے صدمہ پہنچاتا ہے اور میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ تم سب کے سب اس سے بے خبر ہوج اور (مبادا)اسے بھیڑیا کھا جائے''۔

نکات:

حضرت یعقوب (ع)نے بظاہر بھیڑئے کے حملے سے خوف کا اظہار کیا۔ مصلحتوں کی بنیاد پر حسادت کا ذکر نہیں فرمایاہمارا حال بھی یہی ہے کہ ہمیں جس چیز سے ڈرنا چاہیئے اس سے نہیں ڈرتے۔ ہمیں حساب و کتاب دوزخ سے ڈرنا چاہیئے لیکن نہیں ڈرتے ۔ رزق و روزی، مقام و دولت جو پہلے سے مقدر ہیں اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے لیکن ہم پھر بھی ڈرتے ہیں!!۔

۴۱

پیام:

1۔ راز فاش نہ کریں(اخاف ان یاکلہ الذئب) حضرت یعقوب علیہ السلاماپنے بیٹوں کی حسادت سے واقف تھے اسی لئے حضرت یوسف (ع)سے فرمایا تھاکہ بھائیوں سے اپنا خواب بیان نہ کرنا ، لیکن یہاں پر ان کی حسادت کا ذکر نہیں کرتے بلکہ بھیڑئےے اور غفلت کا بہانہ کررہے ہیں ۔

2۔ اپنے بچوں کی نسبت احساس ذمہ داری پیغمبروں (ع)کی ایک خصلت ہے۔(لَیَحْزُنُنِی...اخاف)

3۔ اپنے بچوں کو مستقل بنائیں، عشق پدری اور اپنے بچے کو آنے والے احتمالی خطرہ سے بچانادو حقیقتیں ہیں، لیکن اپنے بچے کو مستقل بنانا بھی ایک حقیقت ہے حضرت یعقوب (ع)نے جناب یوسف (ع)کو تمام بھائیوں کےساتھ روانہ کردیا اسلئے کہ نوجوان کو آہستہ آہستہ باپ سے جدا ہوکر اپنے لئے دوست بنانا چاہیئے اسے فکر کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے چاہے کتنی ہی مشکلات اور غم والم کا سامنا کرنا پڑے۔

4۔جھوٹے کو راستہ نہ دکھ(روایتوںمیں آیا ہے کہ بھیڑئےے کا موضوع جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کے ذہن میں نہیں تھا بلکہ حضرت یعقوب (ع)کے بیان نے انہیںاس طرف متوجہ کیا)(1)

--------------

( 1 )تفسیرنورالثقلین

۴۲

آیت 14:

(14)قَالُوا لَئِنْ أَکَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ

'' وہ لوگ (یعقوب کے بیٹے)کہنے لگے جبکہ ہماری جماعت قوی ہے (اس پر بھی)اگر اس کو بھیڑےا کھاجائے تو ہم لوگ یقینا بڑے گھاٹا اٹھانے والے(نکمے) ٹھہریں گے''۔

نکات:

''عصب'' متحدو قوی گروہ و جماعت کو کہتے ہیں اس لئے کہ وحدت و یکجہتی میں اعصاب بدن کی طرح ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔

پیام:

1۔ کبھی بزرگ اپنے تجربہ اور آگاہی کی بنیاد پر خطرے کا احساس کرلیتے ہیں لیکن جوان اپنی طاقت و قدرت پر مغرور ہوتے ہیںاور خطرہ کو مذاق سمجھتے ہیں ۔(نحن عصب)باپ پریشان ہے لیکن بچے اپنی طاقت و قدرت پر نازاں ہیں۔

2۔اگر کوئی ذمہ داری کو قبول کرلے اور اسے نہ نبھا سکے تو وہ اپنا سرمایہ ، شخصیت ، آبرواور ضمیر کوخطرے میں ڈال دیتا ہے اور آخر کار نقصان اٹھاتاہے(لخاسرون)

3۔ظاہری فریب اور جھوٹے احساسات کا اظہار جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کا ایک دوسرا حربہ تھا۔(إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ)

۴۳

آیت 15:

(15) فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ یَجْعَلُوهُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ

''غرض یوسف کوجب یہ لوگ لے گئے اور اس پر اتفاق کرلیا کہ اسکو اندھے کنویں میں ڈال دیں اور (آخر کاریہ لوگ کر گزرے تو)ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (تم گھبر نہیں)ہم عنقریب تمہیں بڑے مرتبہ پر پہنچائیں گے (تب آپ انکے)اس فعل (بد)کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہوگا''۔

نکات:

جب سے خدا نے حضرت یوسف (ع)کوحاکم بنانے کا ارادہ کیا اسی وقت سے ضروری ہوگیاکہ جناب یوسف (ع)چند مراحل سے گزریں غلام بنیں تاکہ غلاموں پر رحم کریں، کنویں اور قید خانہ میں رہیں تاکہ قیدیوں پر رحم کریں ۔ اسی طرح خداوندمتعال اپنے پیغمبر حضرت محمد (ص) سے فرماتاہے کہ آپ فقیر و یتیم تھے پس یتیم و فقیر کو اپنے پاس سے نہ بھگائےں(الم یجدک یتیمافاوی...فاما الیتیم فلا تقهر...) (1)

پیام:

1۔ کنویں کے اندر جناب یوسف (ع)کے اطمینان کا بہترین وسیلہ روشن مستقبل اور نجات کے بارے میں ''خداکی طرف سے الہام ہے''(اوحینا الیه)

--------------

( 1 )سورہ ضحی آیت 6 تا 9

۴۴

2۔مخالفین کااتفاق نظر اور اجتماع تمام مقامات پر کارساز اور حقانیت کی دلیل نہیں ہے بلکہ قانون خداوندی ہی حق ہونے کی دلیل ہے ۔(اجمعوا و اوحیناالیه)

3۔ حساس مواقع پر امداد الٰہی ،اولیاء ِخداکی طرف آتی ہے(فی غیابت الجب ...و اوحیناالیه)

4۔ جناب یوسف (ع)جوانی میں بھی وحی الٰہی کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے(اوحیناالیه)

سازش اور عمل کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے (بھائیوں نے کنویں میں پھینکنے کی سازش کی(القوه) لیکن جب عمل کا مرحلہ آیا تو جناب یوسف (ع)کو کنویں میں چھوڑ دیا(یجعلوه)

۴۵

آیت 16:

(16) وَجَائُوا أَبَاهُمْ عِشَائً یَبْکُونَ.

''اور یہ لوگ (اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے بعد) رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس (بناوٹی رونا ) روتے ہوئے آئے ''۔

پیام:

1۔ سازش کرنے والے احساسات اور مناسب موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔(عشائ)

2۔گریہ ہمیشہ صداقت کی علامت نہیں ہے لہٰذا ہر آنسو پر بھروسہ نہ کریں ۔(یبکون) (1)

--------------

( 1 )قرآن مجید میں گریہ اور آنسو کی چار قسمیں ہیں:

1 ۔شوق و محبت کے آنسو۔ عیسائیوں کا ایک گروہ قرآن مجید کی آیتیں سن کر آنسو بہاتا تھا(...تری اعینهم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق) (سورہ مائدہ آیت 83 )

2 ۔حزن و حسرت کے آنسو ۔ عشق و محبت سے سرشارمسلمان جیسے ہی رسول اکرم (ص)سے سنتے تھے کہ جنگ میں جانے کی جگہ نہیں ہے تو رونے لگتے تھے۔(تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون) (سورہ توبہ آیت 92 )

3 ۔خوف وہراس کے آنسو: اولیاء الٰہی کے سامنے جیسے ہی آیات کی تلاوت ہوتی ہے روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں:(خرّواسجداو بکیا) (سورہ مریم آیت 58 )(و یخرون للاذقان یبکون و یزیدهم خشوعا) ( سورہ بنی اسرائیل آیت 109 )

4 ۔ مگرمچھ کے آنسو:سورہ یوسف کی یہی سولہویں آیت جس میں برادران یوسف اپنے باپ کی خدمت میں روتے ہوئے آئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا(یبکون)

۴۶

آیت 17:

(17) قَالُوا یَاأَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَکَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ

''اور کہنے لگے : اے بابا !ہم لوگ تو جاکر دوڑ لگانے لگے اور یوسف کو (تنہا)اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا اتنے میں بھیڑیاآکر اسے کھا گیا اور ہم لوگ سچے بھی ہوں پھر بھی آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آئے گا''۔

نکات:

بھائیوں نے اپنی خطا کی توجیہ کے لئے پے درپے تین جھوٹ کا سہارہ لیا:

1۔ کھیلنے گئے تھے۔

2۔ یوسف کو سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا۔

3۔ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

پیام:

1۔خیانت کار ؛ڈرپوک اور جھوٹا ہوتاہے ، راز فاش ہونے سے ڈرتاہے(ما انت بمومن لنا و لو کنا صادقین)

2۔مقابلہ و مسابقہ کا رواج گزشتہ ادیان میں بھی تھا ۔(نستبق)

۴۷

آیت 18:

(18)وَجَائُوا عَلَی قَمِیصِهِ بِدَمٍ کَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاﷲُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ

''یہ لوگ یوسف کے کرتے پر جھوٹ موٹ (بھیڑ)کا خون بھی(لگا کے باپ کے پاس)لے آئے ۔ یعقوب نے کہا (بھیڑئےے نے نہیںکھایا ہے)بلکہ تمہارے دل نے تمہارے بچ کے لئے ایک بات گڑھی ہے پھر (تو مجھ کو)صبر جمیل (کرنا)ہے اور جو تم لوگ کہتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد مانگی جاتی ہے''۔

نکات:

مقدرات الٰہی پر صبر کرنا اچھی بات ہے لیکن ایک بچے پر جو ظلم ہوا ہے اس پر صبر کرنا کون سی ایسی بات ہے جسے حضرت یعقوب(ع)''فصبر جمیل'' سے یاد فرما رہے ہیں؟

جواب :سب سے پہلی بات تو یہ کہ حضرت یعقوب (ع)وحی کے ذریعہ سے جانتے تھے کہ جناب یوسف (ع)زندہ ہیں ۔دوسری بات یہ کہ جناب یعقوب(ع) کی ذرا سی ایسی حرکت جس سے بھائیوں کو گمان ہوجاتا کہ حضرت یوسف (ع)زندہ ہیں تو وہ کنویں پر جاکر انہیں نیست و نابود کردیتے ،تیسری بات یہ کہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے کہ حتی ظالموں پر بھی مکمل طور پر توبہ کی راہیں بند ہوجائیں۔

۴۸

پیام:

1۔ مظلوم نمائی کے دھوکے میں نہ (جناب یعقوب (ع)خون بھرے کرتے اور آنسو کے فریب میں نہ آئے بلکہ فرمایا یہ تم نے اپنے بچ کے لئے گڑھا ہے)(بل سولت لکم انفسکم)

2۔سازشوں سے بچتے رہو۔(بدم کذب)

3۔نفس اور شیطان، انسان کے نزدیک گناہ کو اچھا کرکے پیش کرتے ہیں اور گناہگاروں کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں ۔(بل سولت لکم انفسکم)

4۔ بہترین صبر وہ ہے جہاں دل جل رہا ہو آنسو نہ تھمتے ہوں پھر بھی خدا فراموش نہ ہو ۔(واللّٰه المستعان)

5۔ باطنی طاقت اور صبر کے علاوہ حوادث میں انسان کو اللہ سے بھی مدد حاصل کرنی چاہیئے(فصبر جمیل واللّٰه المستعان)

۴۹

آیت 19:

(19) وَجَائَتْ سَیَّارَ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَی دَلْوَهُ قَالَ یَابُشْرَی هَذَا غُلَامٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَ وَاﷲُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ

''اور (خدا کی شان دیکھویوسف کنویں میں تھے کہ )ایک قافلہ (وہاں)آکر اترا ان لوگوں نے اپنے سقے کو (پانی بھرنے)بھیجا اس نے اپنا ڈول ڈالا ہی تھا (کہ یوسف اس میں ہو بیٹھے اور اس نے کھینچا تو باہر نکل آئے)وہ پکارا ! آہا یہ تو لڑکا ہے اور قافلہ والوں نے یوسف کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا رکھا حالانکہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑتا بلکہ مصیبتوں اور مشکلات سے نجات دیتا ہے ۔

جیسا کہ جناب نوح (ع) کو پانی کے اوپر ، جناب یونس (ع) کو پانی کے اندراور جناب یوسف (ع)کو پانی کے کنارے نجات دی ۔ اسی طرح جناب ابراہیم (ع)کو آگ سے جناب موسیٰ(ع) کو وسط دریا میں اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو غارکے اندر ، حضرت علی علیہ السلام کو شب ہجرت رسول اکرم (ص)کے بستر پر سوتے ہوئے نجات دی۔

جب بھی خدا ارادہ کرتا ہے تو انسانی درخواست اور خواہش کے بغیر وہ جامہ عمل سے آراستہ ہوجاتا ہے ۔ جناب موسیٰ(ع) آگ لانے گئے تھے لیکن وحی اور پیغمبری کے ساتھ لوٹے، یہ قافلہ پانی لانے کے لئے گیا تھا لیکن وہ جناب یوسف (ع)کو نجات دے کر لوٹا۔

ارادئہ الٰہی سے کنویں کی رسی وسیلہ قرار پائی کہ جناب یوسف (ع)کنویں کی گہرائی سے نکل کر تخت و تاج اور حکومت تک پہنچیں تو ذرا غور کریں کہ''حبل الله'' ( اللہ کی رسی )سے کیا کیا کارنامے انجام پذیر ہوسکتے ہیں اور انسان بلندیوں کی کن منازل تک پہنچ سکتا ہے ۔

۵۰

پیام:

1۔ جب اپنے حمایت نہیں کرتے توخدا غیروں کے ذریعہ سے مدد کرتا ہے جناب یوسف کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال کر چلے گئے لیکن نا آشنا قافلہ نے انہیں نجات دی(جائت سیار)

2۔کام کا آپس میں تقسیم کرنا معاشرتی زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے(واردهم) (پانی لانے کے ذمہ دار شخص کا ذکر ہے)

3۔ کچھ لوگ انسان کو بھی بضاعت اور پونجی سمجھنے لگتے ہیں ۔(بضاع)

4۔حقیقت دوسروں سے پوشیدہ ہوسکتی ہے لیکن عالم الغیب خدا سے کیسے پوشیدہ ہو(1) (اسروه والله علیم)

--------------

( 1 )واقعہ یوسف میں ہر گروہ نے کچھ نہ کچھ چھپانا چاہا لیکن خداوندعالم نے سب کچھ آشکار کردیا بھائیوں نے کنویں میں ڈالنے کو چھپایا، زلیخا نے اپنے عشق کو چھپایا ۔ لیکن خدانے ظاہر کردیا.

۵۱

آیت 20:

(20) وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَ وَکَانُوا فِیهِ مِنْ الزَّاهِدِینَ

''(قافلے والوں نے)یوسف کو بڑی کم قیمت پر چند گنتی کے کھوٹے درہم کے عوض بیچ ڈالا اور وہ لوگ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے ''۔

نکات:

ہر آدمی اپنے وجود کے یوسف کو سستا بیچ کر پشیمان ہوتا ہے کیونکہ ، عمر ، جوانی ، عزت و استقلال اور انسان کی پاکیزگی ان میں سے ہر ایک یوسف ہے جسے سستا نہیں بیچنا چاہیئے۔

پیام:

1۔ وہ مال جو آسانی سے آتا ہے وہ آسانی سے چلا بھی جاتا ہے (شَرَوْه)

2۔ جو شخص کسی چیز کی اہمیت اور قیمت کو نہیں پہچانتااسے سستا بیچ دیتا ہے(بِثَمَنٍ بَخْسٍ )(قافلہ والے حضرت یوسف (ع)کی حقیقت و اہمیت سے نا آشنا تھے)

3۔ انسان پہلے گرایا جاتا ہے پھر غلام بنایا جاتا ہے اس کے بعد سستا بیچ دیا جاتا ہے۔

4۔ پیسوں کی تاریخ ،اسلام سے ہزاروں سال پرانی ہے (دَرَاهِمَ )

5۔ نظام غلامی اور غلام فروشی کا سابقہ طولانی ہے ۔ (شَرَوْه)

6۔ قانون طلب و رسد (بازار میں مال کی آمد اور خریدار کی کثرت )قیمت کی تعیین میں موثر ہے (چونکہ قافلے والے بیزار تھے اس لئے یوسف کو ارزاں بیچ دیا)

7۔بے معرفت مردوں نے جناب یوسف (ع)کو کم قیمت میں بیچ دیا لیکن با معرفت عورتوں نے جناب یوسف(ع) کو ایک کریم فرشتہ کہا ۔ روایت میں آیا ہے''رُبّ امرئ افقه من الرجل'' کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو مردوں سے زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں۔

۵۲

آیت 21:

(21) وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَکْرِمِی مَثْوَاهُ عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ

''اور مصر کے لوگوں میں سے جس نے ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اس کو عزت و آبرو سے رکھو (غلام نہ سمجھو) عجب نہیں یہ ہمیں کچھ نفع پہنچائے یا (شاید) اسکو اپنا بیٹا ہی بنالیں ۔اور یوں ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں (جگہ دے کر)قابض بنایا اور غرض یہ تھی کہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں اورخدا تو اپنے کام پر ہر طرح سے غالب و قادر ہے مگر بہتیرے لوگ اسے نہیں جانتے ہیں''۔

نکات:

اگر انسان کا خریدار عزیز ہو تو تلخ حوادث میں بھی انجام اچھا ہوتا ہے لہٰذااگر ہم خود کو واقعی عزیز (یعنی خدائے متعال) کے ہاتھوں بیچ ڈالیں تو آخرت میں خسارت و حسرت میں گرفتار نہ ہوں گے ۔

۵۳

پیام:

1۔ بزرگواری جناب یوسف (ع)کے چہرہ سے نمایاں تھی یہاں تک کہ جس نے آپ (ع)کو خریدا اس نے بھی اپنی بیوی سے تاکید کردی کہ ان کو غلام کی نگاہ سے نہ دیکھے۔(أَکْرِمِی مَثْوَاهُ )

2۔ دل، اللہ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا حضرت یوسف (ع)کی محبت خریدار کے دل میں بیٹھ گئی( عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا )

3۔ لوگوں کا احترام کرکے ان سے مدد کی امید رکھ سکتے ہیں(اکرمی... ینفعن)

4۔ بچے کو گود لینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے( نَتَّخِذَهُ وَلَدًا )

5۔ علم و قدرت ،ذمہ داری کو قبول کرنے کی دوشرطیں اور نعمت الٰہی ہیں(مَکَّنَّا... َلِنُعَلِّمَه)

6۔ تلخیاں برداشت کرنے کا نتیجہ شیرینی ہے( بِثَمَنٍ بَخْسٍ... مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

7۔ خدا کا غالب ارادہ جناب یوسف (ع)کو چاہ سے جاہ تک لے گی( مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

8۔ جس کو ہم حادثہ سمجھتے ہیں در حقیقت خداوندعالم اس کے ذریعہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کرتا ہے( غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ )

9۔ لوگ ظاہری حوادث کو دیکھتے ہیں لیکن الٰہی اہداف سے بے خبر ہوتے ہیں(لاَیَعْلَمُون)

۵۴

آیت 22:

(22) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَیْنَاهُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ

''اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکم (نبوت یا حکمت)اور علم عطا کیا اور نیکوکاروں کو ہم ایسے ہی جزا دیا کرتے ہیں ''۔

نکات:

کلمہ''أَشُد'' کا ریشہ'' شدّ''ہے جو مضبوط گرہ کے معنی میں استعمال ہوتاہے یہاں بطور استعارہ(1) ''روحی و جسمی استحکام ''کے لئے آیاہے ۔

یہ کلمہ قرآن مجید میں کبھی بلوغ کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے''حتی یبلغ اشده'' (2) یعنی مال یتیم کے قریب نہ ج یہاں تک کہ وہ سن بلوغ تک پہنچ جائے ۔اور کبھی ''یہی ''اشد چالیس سال کے سن کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ احقاف میں ارشاد ہوا ہے''بلغ اشده و بلغ اربعین سن' '(3) اور کبھی بڑھاپے سے پہلی والی زندگی کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ غافر میں ارشاد ہوا''ثم یخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم ثم لتکونوا شیوخا'' (4)

--------------

( 1 )استعارہ علم معانی بیان کی ایک اصطلاح ہے جو در حقیقت تشبیہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ و مشبہ بہ مذکور ہوتاہے لیکن جب یہ حذف ہوجاتے ہیں تو اسے ''استعارہ ''کہتے ہیں۔مترجم

( 2 ) سورہ انعام آیت 152 ،

( 3 ) سورہ احقاف آیت 15 ،

( 4 ) سورہ غافر آیت 62

۵۵

پیام:

1۔ایک قوم و معاشرے کی رہبری کے لئے علم و حکمت کے علاوہ جسمی طاقت بھی ضروری ہے( بَلَغَ أَشُدَّه)

2۔علوم انبیاء (ع)اکتسابی نہیں ہیں(آتَیْنَاهُ عِلْمً)

3۔ الطافِ الٰہی انسان کی لیاقت اور قانون کی بنیاد پر ہےں( نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

4۔ پہلے نیکی اور احسان کرنا چاہیئے تاکہ انعام الٰہی کے لائق ہوسکیں( نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

5۔نیک کام کرنے والے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں(کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ)

6۔ ہر وہ شخص جو علمی اورجسمانی طاقت رکھتا ہے لطف الٰہی اس کے شامل حال نہیں ہوتا بلکہ محسن ہونا بھی ضروری ہے۔(نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

آیت 23:

(23) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّهُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

'' اور جس عورت کے گھر میں حضرت یوسف رہتے تھے اس نے( اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے) خود ان سے آرزو کی اور تمام دروازے بند کردیئے اور (بے تابانہ ) کہنے لگی : لو میں تمہارے لئے آمادہ ہوںیوسف نے کہا: معاذاللہ(اللہ کی پناہ)وہ میرا پروردگار ہے اس نے مجھے اچھامقام دیا ہے (میں ایسا ظلم کیونکر کرسکتا ہوں)بے شک (ایسا)ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے ''۔

۵۶

نکات:

اآیت کے اس جملہ''إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ'' کی تفسیر میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

1۔خداوندمتعال میرا پروردگار ہے جس نے مجھے عزت دی ہے اور میں نے اسی کی طرف پناہ لی ہے ۔

2۔عزیز مصر میرا مالک ہے اور میں نے اس کے دسترخوان پر زندگی گزاری ہے ، اس نے تم سے میرے بارے میں ''اکرمی مثواہ '' کہا ہے لہٰذا میں اس سے خیانت نہیں کرسکتا ۔

یہ دونوں احتمال اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں اور شواہد کی بنیاد پر استناد بھی کیا جاتا ہے ۔لیکن ہماری نظر میں پہلا احتمال بہتر ہے کیونکہ حضرت یوسف (ع)نے تقوی الٰہی کی بنیاد پر خود کو گناہ سے آلودہ نہ کیا ۔ نہ یہ کہ اس بنیاد پر پرہیز کیا کہ چونکہ میں عزیز مصر کے گھر میں رہتا ہوں اور اس کے مجھ پر حق ہیں لہٰذا اس کی بیوی کے ساتھ برا قصد نہیں کروں گا ۔ کیونکہ یہ کام تقوی سے کم تر ہے۔

یقینا اس سورہ میں چند جگہوں پر کلمہ(ربّک) سے مراد ''عزیز مصر''ہے لیکن کلمہ''ربیّ'' جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد خداوندمتعال ہے۔ دوسری طرف جناب یوسف (ع)کی شان سے بعید ہے کہ وہ خود کو اتنا حقیر بنالیں کہ عزیز مصر کو''ربیّ'' کہنے لگیں۔

۵۷

پیام:

1۔ جہاں کم تقوی اور نامحرم عورتیں رہتی ہیں وہاں جوان لڑکوں کو نہیں چھوڑنا چاہیئے کیونکہ وہاں غلط آرزں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ( وَرَاوَدَتْهُ فِی بَیْتِهَ)

2۔ بڑے گناہ نرم لطیف انداز سے شروع ہوتے ہیں ۔ (وَرَاوَدَتْهُ )

3۔غلط کام کرنے والوں کا نام لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے ان کے سلسلے میں فقط اشارہ کنایہ سے بات کرنی چاہیے (الَّتِی)

4۔ مرد کا پاک ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ کبھی کبھی عورتیں بھی مردوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں (وَرَاوَدَتْهُ )

5۔ نامحرم مرد و عورت کا کسی ایسی جگہ جمع ہونا جہاں کوئی نہ ہو ،گناہ کی راہ ہموار کرتا ہے (غَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ)

6۔ہمیشہ تاریخ میں ''زنا کا گناہ ایک ثابت شدہ جرم ہے''اسی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی نے تمام دروازوں کو مضبوطی سے بند کردیا تھا ۔(غَلَّقَتْ الْأَبْوَابَ)

7۔ رسوائی سے بچنے کے لئے بذات خود اقدامات کئےے۔ (غَلَّقَتْ)

8۔ عشق بطور دفعی اور یک بارگی نہیںہوتا بلکہ دل لبھانے کے نتیجہ میں تدریجاً پیدا ہوتا ہے یوسف کا مسلسل گھر میں رہنا عشق کا باعث ہوا ( فِی بَیْتِهَ)

۵۸

9۔ شہوت کی طاقت اس حد تک ہے کہ بادشاہ کی بیوی بھی اپنے غلام کی اسیر ہوجاتی ہے ۔ ( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی)

10۔ تقوی کی بہترین قسم یہ ہے کہ خدا سے محبت کی بنیاد پر گناہ نہ کریں نہ کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت کے خوف سے گناہ ترک کریں ( مَعَاذَ اﷲِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ )

11۔تمام دروازے بند ہیں لیکن خدا کی پناہ کا دروازہ کھلا ہے۔ (غَلَّقَتِ الْأَبْوَاب ...مَعَاذَ اﷲِ)

12۔ تقوی اور انسانی ارادہ انحراف اور غلطیوں کی راہ پرغالب آسکتا ہے (مَعَاذَ اﷲِ) (1)

--------------

(1)اولیاء الٰہی خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں ۔حضرت موسیٰ(ع) نے فرعون کے فتنوں سے خدا کی پناہ مانگی( انی عذت بربی و ربکم من کل متکبر لا یومن بیوم الحساب .) (سورہ مومن آیت 27)،جناب مریم کی والدہ فرماتی ہیں : خدایا میں مریم اور اسکی نسل کو تیری پناہ میں دیتی ہوں(انی اعیذها بک و ذریتها من الشیطان الرجیم ) (سورہ آل عمران آیت 36)خداوندعالم اپنے پیغمبر کو اپنی ذات کی پناہ حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے(قل اعوذ... ) (سورہ فلق آیت 1، سورہ ناس آیت 1)

۵۹

13۔خدا سے لو لگانا گناہ اور لغزش سے دور رہنے کا سبب ہے( مَعَاذَ اﷲِ)

14۔ اگر ہماراکوئی بزرگ یا سربراہ گناہ کا حکم دے تو ہمیں اس کی اطاعت نہیںکرنا چاہیئے( هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ ) (لا طاع لمخلوق فی معصی الخالق) لوگوں کی اطاعت کے لئے اللہ کی معصیت نہیں کرنا چاہیئے(1)

15۔ اعوذ باللہ کہنے کے بجائے یک بیک خدا کی پناہ میں چلے گئے اور''مَعَاذَ اﷲِ'' کہہ دیا تاکہ اپنی پناہندگی (کہ میں نے خود پناہ حاصل کی ہے)کو بیان نہ کریں درحقیقت حضرت یوسف(ع) اپنے لئے کسی کمال کے قائل نہ ہوئے۔

16۔گناہ کے انجام کی یاد، گناہ کرنے سے روکتی ہے(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

17۔ زنا یا پاک دل نوجوان کے خلاف سازش کرنا ،خود اپنے او پر ،اپنے شوہر یا بیوی پر ،معاشرے اور معاشرے کے افراد پر ظلم ہے۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

18۔ پل بھر کا گناہ انسان کو ابدی فلاح و بہبود سے روک دیتا ہے۔(لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُون)

19۔ گناہ کرنا ناشکری اور کفران نعمت ہے ۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

--------------

( 1 )بحار۔ج، 10 ص 227

۶۰