شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 76469
ڈاؤنلوڈ: 4074

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76469 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

بعض علماء نے تو اس مسئلہ میں شیعوں کی کتب کی ایک سطر کا بھی مطالعہ نہ کیا ہو اور اسی بات پر ہمیں افسوس ہے_

اس لیے ہم اس مختصر سی کتاب میں نکاح موقت کی شرائط اور اس کا نکاح دائم کے ساتھ فرق واضح الفاظ میں بیان کریں گے تا کہ سب پر حجت تمام ہوجائے_

نکاح موقت اکثر شرائط و احکام میں نکاح دائم ہی کی طرح ہے_

۱_ مرد و عورت دونوں مکمل رضایت اور اختیار کے ساتھ بغیر کسی جبر کے ایک دوسرے کو میاں بیوی بننے اور شادی کے لیئے قبول کریں_

۲_ عقد کا صیغہ لفظ''نکاح'' '' ازدواج'' یا '' متعہ'' کے ذریعے جاری کیا جائے اس کے علاوہ دوسرے الفاظ کافی نہیں ہیں_

۳_ اگر لڑکی باکرہ ہو تو ولی کی اجازت ضروری ہے اگر باکرہ نہ ہو تو اجازت شرط نہیں ہے_

۴_ عقد کی مدّت اور حق مہر دقیق اور واضح طور پر معین کیا جائے_ اگر مدت کو نکاح کے درمیان بیان کرنا بھول جائے تو بہت سے فقہاء کے فتوی کے مطابق یہ عقد، نکاح دائم میں تبدیل ہوجائیگا ( اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دو نکاح کی حقیقت ایک ہی ہے صرف مدت کے ذکر کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے فرق ہے) ( توجہ فرمایئے

۵_ مدت کا اختتام، طلاق کی مثل ہے بلافاصلہ عورت کو عدّت گزارنا ہوگی ( البتہ اگر آمیزش واقع ہوئی ہے)

۶: عقد دائم کی عدت تین مرتبہ ماہواری کا دیکھنا ہے یعنی تیسری مرتبہ ماہواری دیکھنے کے بعد عدت تمام ہوجائیگی_ لیکن عقد موقّت کی عدت دو مرتبہ ماہواری کا دیکھنا ہے_

۱۰۱

۷: عقد متعہ سے پیدا ہونے والے بچے شرعی حوالے سے اولاد شمار ہوتے ہیں_ انکے لیئےمام وہی احکام ہیں جو عقد دائم سے پیدا ہونے والے بچوں کے احکام ہیں_ اور اسی طرح یہ بچے ماں، باپ، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے وراثت بھی پائیںگے_ ان بچوں اور دائمی شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے_

یہ بچے بھی ماں،باپ کی کفالت میں رہیں گے ان کے تمام اخراجات اور نفقہ نکاح دائمی سے ہونے والے بچوں کی طرح لازمی ہے کہ ادا کئے جائیں_

بعض لوگ یہ شرائط سُن کر شاید حیران ہوں _ انکا حق بنتا ہے کیونکہ متعہ کے بارے غلط اور عوامانہ ذہنیت بنائی گئی ہے _شاید لوگ اسے مخفی ، ناجائزاور غیر قانونی شادی تصوّر کرتے ہیں ، یعنی ایک لفظ میں کہا جائے تو اسے جو زنا کے مشابہ خیال کرتے ہیں_ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے_

ہاں ان دو نکاحوں کے درمیان میاں بیوی کے حقوق کے لحاظ سے کچھ فرق ہے_ اس نکاح میں عقد دائم کی نسبت آپس کے تعہد اور ذمہ داریاں بہت کم ہیں_ کیونکہ اس نکاح کا مقصد ہی سہولت اور قوانین کا بہت سخت نہ ہونا ہے_ من جملہ :

۱_ بیوی عقد متعہ میں نفقہ اور وراثت کی حقدار نہیں بنتی_ البتہ بعض فقہاء قائل ہیں کہ یہ اُس صورت میں ہے جب نکاح میں نفقہ اور وراثت کی شرط نہ لگائی جائے یعنی اگر نکاح میں یہ شرط رکھ دی ہے تو پھر اس شرط کے مطابق عمل کرنا ہوگا_

۲_ اس نکاح میں عورت آزاد ہے کہ گھر سے باہر جاکر کام ( ملازمت) کرسکتی ہے _اس کے لیے شوہر کی اجازت شرط نہیں ہے جب تک یہ کام شوہر کے حقوق کو تلف نہ کرتا ہو_ لیکن عقد دائم میں بیوی کیلئے شوہر کی رضایت کے بغیر باہر ملازمت کرنا جائز نہیںہے_

۳: اس نکاح میں مرد پر واجب نہیں ہے کہ رات کو اپنی بیوی کے پاس رہے_

۱۰۲

مذکورہ احکام میں غور و فکر کرنے سے بہت سے سوالات، غیر منصفانہ قضاوت، شبہات اور تہمتوں کا جواب روشن ہوجائیگا_اور اسلام کے اس حکیمانہ اور مقدس حکم کے بارے میں بنائی گئی غلط ذہنیت خودبخود ختم ہوجائیگی_ اور اس گفتگو سے یہ بات بھی بالکل واضح و روشن ہوجاتی ہے کہ اس نکاح موقّت کا زنا اور دیگر عفت کے منافی اعمال کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے_ جو لو گ ان دونوں کا آپس میں قیاس کرتے ہیں وہ یقیناً ناآگاہ ہیں اور انہیں نکاح متعہ کی حقیقت اور شرائط کے بارے میں بالکل معلومات نہیں ہیں_

سوء استفادہ:

ہمیشہ مثبت امور سے سوء استفادہ بد زبان لوگوں کی زبان کھولتا اور بہانہ گروں کو بہانہ فراہم کرتا ہے تا کہ اسے بہانہ بنا کر مثبت امور کے خلاف کام کریں اور اپنا زہر اگلیں_

نکاح متعہ بھی اس قسم کی بحثوں کا ایک روشن مصداق ہے_

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض ہوس پرستوں نے اس نکاح متعہ کو جو کہ حقیقت میں ضروریات کی گرہ کھولنے اور اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لیئے تشریع کیا گیا تھا، بازیچہ بنادیا ہے اور بے اطلاع لوگوں کے سامنے اس کا چہرہ مسخ کرکے مخالفین کو بہانہ فراہم کیا ہے_ جس کی وجہ سے یہ حکیمانہ حکم تنقید کا نشانہ بن گیا ہے_

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسا حکم ہے جس سے ایک دن ضرور سوء استفادہ نہ کیا گیا ہو اور وہ کونسا نفیس سرمایہ ہے جس سے نا اہل غلط طور پربہرہ مندنہ ہوئے ہوں؟

اگر لوگوں نے ایک دن جھوٹ اور دھوکے سے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا تا کہ اپنی ظالم حکومت کا دفاع کرسکیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم قرآن مجید کو چھوڑ دیں؟

۱۰۳

یا اگر ایک دن منافقین نے مسجد ضرار بنادی جس کے ویران کرنے اور جلانے کا حکم خود پیغمبر اسلام(ص) نے صادر فرمایا تو کیا اس کامطلب یہ ہے کہ ہم مسجد سے کنارہ کشی اختیار کرلیں؟

بہرحال ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعض نادان لوگوں نے اسلامی حکم سے سوء استفادہ کیا ہے لیکن چند بے نمازیوں کی وجہ سے مسجد کو تالا نہیں لگایا جاسکتا ہے_

اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہوس پرستوں کے لیئے راستہ بند کیا جائے اور اس نکاح متعہ کے لیئےحیح راہ حل نکالا جائے_

بالخصوص ہمارے زمانے میں یہ کام منظّم اور دقیق راہ حل کے بغیر ممکن نہیں ہے_ لہذا ضروری ہے کہ بعض شائستہ اور ماہر شخصیات اور اہل خبرہ لوگ اس مسئلہ کے لیئےیک کار آمد اور قابل اجراء قانون نامہ لکھ کرشیاطین کے ہاتھ قطع کردیں اور اس حکیمانہ حکم کے خوبصورت چہرہ کو آشکار کردیں_ تا کہ دو گروہوں کے لیئےاستہ بند ہوجائے_ ایک ہوس پرست گروہ اور دوسرا تنقید کرنے والا کینہ توزٹولہ_

نکاح متعہ، قرآن و سنّت اور اجماع کی روشنی میں :

قرآن مجید میں نکاح موقّت کو '' متعہ'' کے عنوان کے ساتھ سورہ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں بیان کیا گیا ہے_ ارشاد باری تعالی ہے '' فَمَا استَمتَعتُم بہ منہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجورَہُنَّ فَریضَةً'' پس جن خواتین کے ساتھ تم متعہ کرو انکا حق مہر انہیں ادا کرو''

اور اہم نکتہ یہ ہے کہ رسولخدا(ص) سے نقل شدہ بہت سی احادیث میں '' متعہ'' کا لفظ، نکاح موقت کے لیئےستعمال کیا گیا ہے ( جیسا کہ آئندہ ابحاث میں یہ روایات قارئین کی نظروں سے گزریں گی) اس کے علاوہ فقہاء اسلام کی کتابوں میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سُنّی ہر جگہ نکاح

۱۰۴

موقت کو '' متعہ'' کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے_ پس اس بات کا انکار مسلّمات کا انکار شمار ہوگا ( فقہاء کے بعض کلمات بھی آئندہ اوراق میں آپکی خدمت میں پیش کیے جائینگے)

اس کے باوجود بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ اس آیت میں '' استمتاع'' کا لفظ '' لذت اٹھانے'' اور ہمبستری کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے_ اور کہتے ہیں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس وقت تم بیویوں سے جنسی استفادہ کرو تو انکا حق مہر ادا کیا کرو_اس بات میں دو واضح اعتراض ہیں:

اولاً: حق مہر کی ادائیگی کا وجوب، عقد اور نکاح پر موقوف ہے_ یعنی نکاح ہونے کے فوراً بعد عورت اپنے پورے حق مہر کی ادائیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے چاہے ہمبستری نہ ہی کی ہو حتی خوش فعلی بھی واقع نہ ہوئی ہو ( ہاں اگر ہمبستری سے پہلے طلاق واقع ہوجائے توطلاق کے بعد حق مہر آدھا ہوجاتا ہے) (غور فرمایئے

ثانیا: جیسا کہ کہا ہے کہ متعہ کی اصطلاح شریعت کی عرف میں ، شیعہ اور سنّی فقہاء کے کلمات اور احادیث کی زبان میں '' نکاح موقّت'' کے معنی میں استعمال ہوتی ہے_ اس بات کی ادلّہ مفصل طور پر آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی_

مشہور مفسّر مرحوم طبرسی، تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں وضاحت فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بارے میں دو نظریے ہیں، ۱_ ایک اُن لوگوں کا نظریہ ہے جو استمتاع کو '' لذت اٹھانے'' کے معنی میں تفسیر کرتے ہیں_ اس کے بعد انہوں نے بعض اصحاب یا تابعین وغیرہ کو اس نظریہ کے قائلین کے طور پر پیش کیا ہے ۲_ دوسرا اُن لوگوں کا نظریہ ہے جو قائل ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ اور نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اسے انہوں نے ابن عباس و سدی و ابن مسعود اور تابعین کے ایک گروہ کا نظریہ قرار دیا ہے_

۱۰۵

اس کےبعد وہتفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوسرا نظریہ واضح ہے کیونکہ متعہ اور استمتاع کا لفظ شریعت کی عرف میں نکاح موقّت کے لیے استعمال ہوتا ہے_ ۱ ور اس کے علاوہ دوسری دلیل یہ ہے کہ حق مہر کا وجوب لذت اٹھانے کے ساتھ مشروط نہیں ہے_(۱)

قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:کہ جمہور کے عقیدہ کے مطابق اس آیت سے مراد وہی نکاح موقت ہے جو صدر اسلام میں رائج تھا_(۲)

اس کے علاوہ سیوطی نے تفسیر در المنثور میں اور ابوحیان، ابن کثیر اور ثعالبی نے اپنی تفاسیر میں اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے_

یہ مسئلہ تمام علمائے اسلام ( شیعہ ، سنّی) کے نزدیک مسلّم ہے کہ نکاح موقّت ( متعہ) پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں موجود تھا_ لیکن فقہائے اہلسنت کی ایک بڑی جماعت قائل ہے کہ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا تھا_ البتہ کس زمانے میں منسوخ ہوا؟ اس بارے میں انکا شدید اختلاف ہے_ اور یہ بات توجہ طلب ہے_

من جملہ مشہور عالم '' جناب نووی'' صحیح مسلم کی شرح میں یوں اقوال نقل کرتے ہیں:

۱_ بعض کہتے ہیں کہ ( متعہ کو) غزوہ خیبر میں پہلے حلال کیا گیا پھر حرام کردیا گیا_

۲_ صرف عمرة القضاء میں حلال تھا_

۳_ فتح مکہ کے دن پہلے حلال اور پھر حرام کردیا گیا_

۴_ غزوہ تبوک ( سنہ ۹ ہجری ق) میں حرام کیا گیا_

۵_ صرف جنگ اوطاس ( سنہ ۸ ہجری ق) میں حلال کیا گیا_

____________________

۱) تفسیر مجمع البیان، جلد ۳ ،ص ۶۰_

۲) تفسیر قرطبی ، جلد ۵ ،ص ۱۲۰ وفتح الغدیر ، جلد ۱ ص ۴۴۹_

۱۰۶

۶_ حجة الوداع ( سنہ ۱۰ ہجری ق) میں حلال کیا گیا_(۱)

دلچسپیہ ہے کہ اس بارے میں متضاد روایات نقل کی گئی ہیں بالخصوص جنگ خیبر میں اس کی تحریم اور حجة الوداع میں اس کی تحریم والی روایات مشہور ہیں_ بعض اہلسنت فقہاء نے ان دو احادیث کو جمع کرنے کے لیئےہت کوشش کی ہے لیکن کوئی مناسب راہ حل پیش نہیں کرسکے ہیں_(۲)

اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب شافعی کا یہ جملہ ہے: وہ فرماتے ہیں''لا اَعلَمُ شَیئاً اَحَلَ الله ثم حرَّمّہ ثم اَحَلَّہ ، ثم حرَّمَہ الا المُتعة'' مجھے متعہ کے علاوہ کس اور چیز کا علم نہیں ہے کہ اسے پہلے اللہ تعالی نے حلال کیا ہو پھر حرام کردیا ہو پھر دوبارہ حلال کیا ہو اور اس کے بعد پھر حرام کردیا ہو''(۳)

دوسری طرف سے ابن حجر، سھیلی سے نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خیبرکے دن متعہ کی تحریم ایسی چیز ہے جسے راویوں اور ارباب تاریخ میں سے کسی نے نقل نہیں کیا_(۴)

۷: ایک اور قول یہ ہے کہ متعہ رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھا، بعد میں حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے_ جیسا کہ اہلسنت کی معتبرترین کتاب صحیح مسلم میں یوں آیا ہے '' ابن ابی نضرة'' کہتے ہیں میں جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کی خدمت میں تھا، وہ کہنے لگے کہ ابن زبیر اور ابن عباس کے درمیان عورتوں کے ساتھ متعہ اور متعہ حج ( حج تمتع یعنی عمرہ اور حج کے

____________________

۱) شرح صحیح مسلم جلد ۹ ص ۱۹۱_

۲) ایضاً_

۳) المغنی ابن قدامہ، جلد ۷ ص ۵۷۲_

۴) فتح الباری، جلد ۹ ص ۱۳۸_

۱۰۷

درمیان فاصلہ ہو) کے مسئلہ میں اختلاف تھا (میں نے کہا آپ کی کیا نظر ہے؟) کہنے لگے: ہم نے ہر دو مسئلوں پر رسولخدا(ص) کے زمانے میں عمل کیا ہے یہانتک کہ حضرت عمر نے ہر دو سے منع کردیا اس کے بعد ہم نے پرہیز کیا''(۱)

اس صریح نص کے بعد اور وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں ، کیا اب بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعہ رسولخدا(ص) کے دور میں حرام ہوگیا تھا_

کس نے متعہ کو حرام کیا؟

جس بات کو ہم نے اوپر جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے وہ اس مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے جسے اہلسنت کے بہت سے محدّثین ، مفسّرین اور فقہاء نے اپنی کتابوں میں خلیفہ دوم سے نقل کیا ہے_ حدیث کا متن یوں ہے:

'' متعتان کانتا مشروعتین فی عَهد رسول الله و أنا اَنهی عَنهما: متعة الحج و متعه النسائ''

دو قسم کے متعے ،رسولخدا(ص) کے زمانے میں جائز اور حلال تھے میں اُن دونوں سے منع کرتا ہوں ایک حج متعہ اور دوسرا متعة النساء ( نکاح موقت )

بعض کتابوں میں یہ حدیث اس جملہ کے اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے'' و اُعاقبُ علیهما'' اور میں ان دونوں پر سزا دوں گا_

متعہ حج سے یہ مُراد ہے کہ حاجی پہلے عمرہ بجالائے اور احرام کھول دے اس کے بعد حج کے دنوں میں دوبارہ حج کا احرام باندھ لے_

____________________

۱) صحیح مسلم جلد ۴، ص ۵۹ حدیث ۳۳۰۷ ، دارالفکر بیروت_

۱۰۸

یہ حدیث اُن مشہور احادیث میں سے ہے جو تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ حضرت عمر سے نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے منبر سے یہ بات لوگوں کے سامنے بیان کی _ ہم ذیل میں اہلسنت کی حدیث ، فقہ اور تفسیر کی کتب میں سے اس حدیث کے سات حوالے ذکر کرتے ہیں_

۱ _ مسند احمد، جلد ۳ صفحہ ۳۲۵_

۲ _ سنن بیہقی، جلد ۷ صفحہ ۲۰۶_

۳ _ المبسوط سرخسی ، جلد ۴ صفحہ۲۷_

۴ _ المغنی ابن قدامہ، جلد ۷، صفحہ ۵۷۱_

۵_محلی ابن حزم ، جلد ۷، صفحہ ۱۰۷_

۶_کنز العمّال، جلد ۱۶ صفحہ ۵۲۱_

۷_تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۰ صفحہ ۵۲_

یہ حدیث متعدّد مسائل سے پردہ اٹھاتی ہے_

الف) خلیفہ اول کے دور میں متعہ کا حلال ہونا:

متعہ ( نکاح موقت) رسول اکرم(ص) کی طول حیات میں بلکہ خلیفہ اول کے دور حکومت میں بھی حلال تھا اور خلیفہ دوم نے بعد میں اس سے منع کیا_

ب) اجتہاد در مقابل نصّ:

خلیفہ اپنی اتنی اتھارٹی سمجھتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی صریح نص کے مقابلے میں نیا قانون اور اسلامی حکم جعل کریں حالانکہ قرآن مجید واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ:

۱۰۹

( '' و ما آتاکم الرّسول فَخُذُوهُ و ما نَهاكُم عنه فانتَهُوا'' ) (۱)

پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کو دیں اسے لے لیں اور جس چیز سے منع کریں اس سے پرہیز کریں''

کیا پیغمبراکرم(ص) کے علاوہ کسی اور کو احکام الہی میں تصرّف کرنے کا حق حاصل ہے؟

کیا کوئی بھی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ایسا کیا لیکن میں یوں کرتا ہوں؟

کیا پیغمبر اکرم(ص) کی صریح نص کے مقابلے میں کہ جو وحی سے اخذ شدہ ہے اجتہاد کرنا جائز ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ رسولخدا(ص) کے احکام کو اتنی لاپرواہی کے ساتھ ردّ کرنا واقعاً تعجب آور ہے اور اس سے بڑھ کر اگر نصّ کے مقابل میں اجتہاد کا دروازہ کھول دیا جائے تو کیا ضمانت ہے کہ دوسرے لوگ ایسا کام نہیں کریں گے؟ کیا اجتہاد صرف ایک آدمی کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ مجتہد نہیں ہوسکتے ہیں؟

یہ بہت حسّاس مسئلہ ہے کیونکہ نص کے مقابلے میں اجتہاد کا دروازہ کھل جانے کے بعد احکام الہی میں سے کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا; اور اسلام کے جاودانہ احکام میں عجیب ہرج پیدا ہوجائیگا اور اس طرح تمام اسلامی احکام خطرے میں پڑ جائیں گے_

حضرت عمر کی مخالفت کا سبب:

کیوں حضرت عمر،ان دو احکام الہی کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے؟ حج تمتّع کے

____________________

۱) سورہ حشر آیہ ۷_

۱۱۰

بارے میں انکا خیال یہ تھا جو مسلمان حج کے لیے آتے ہیں انہیں حج اور عمرہ ختم کرنے کے بعد احرام کھولنے چاہئیں اور بعد میں مثلاً اپنی بیویوں کے ساتھ آمیزش کرنی چاہیئےاور یہ کہ عمرہ تمتع انجام دینے کے بعد حاجی چند دن کے لیئے احرام کھول دے اور آزاد ہوجائے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اور روح حج کے ساتھ سازگار نہیں ہے

یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ حج اور عمرہ دو علیحدہ عمل ہیں اور ممکن ہے ان دو اعمال کے درمیان ایک ماہ سے زیادہ فاصلہ ہو_ مسلمان ماہ شوال یا ذی قعدہ میں مکہ مشرّف ہوتے ہیں اور عمرہ بجالاتے ہیں اس کے بعد آٹھ ذی الحجّہ تک آزاد ہوتے ہیں پھر حج کے موسم میں دوبارہ احرام باندھتے ہیں اور عرفات چلے جاتے ہیں اس بات پر کیا اشکال ہے جسکی وجہ سے حضرت عمر نے اَپنے سخت ردّ عمل کامظاہرہ فرمایا اور بہرحال متعہ اور نکاح موقّت کے بارے میں ( بعض لوگوں کے عقیدہ کے مطابق ) انکا خیال یہ تھا کہ اگر متعہ جائز ہو تو پھر نکاح اور زنا کے درمیان شناخت مشکل ہوجائیگی_ کیونکہ اس صورت میں اگر کسی مرد اور عورت کو اکٹھا دیکھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم نے آپس میں متعہ کیا ہوا ہے اس طرح زنا کی شرح بڑھ جائیگی

یہ خیال تو اس پہلے خیال سے زیادہ بوگس ہے، چونکہ اتفاقاً مسئلہ الٹ ہے کیونکہ عقد متعہ سے منع کرنا، زنا اور بے عفتی کے بڑھاؤ کا موجب ہے_ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیاہے کہ بہت سے ایسے جوان جو دائمی ازدواج کی قدرت نہیں رکھتے ہیں یا ایسے لوگ جو اپنی بیویوں سے دور ہیں اور زنا یا نکاح موقت کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے واضح سی بات ہے کہ انہیں صحیح راستے اور عقد موقت سے روکنا گناہوں اور بے عفتی کی وادی میں دھکیلنا ہے_

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی _ کی مشہور حدیث میں یوں نقل ہوا ہے کہ اگر

۱۱۱

جناب عمر متعہ سے منع نہ کرتے تو سوائے شقی اور بدبخت کے کوئی بھی انسان دنیا میں زنا سے آلودہ نہ ہوتا''لو لا ا نّ عمر نهی النّاس عن المتعة ما زنی الَّاشقی'' (۱)

متعہ کی تحریم کے بعد لوگوں کا ردّ عمل:

مذکورہ بالا روایت سے کہ جسے اہلسنت کے بہت سے محدّثین،مفسّرین اور فقہاء نے نقل کیا ہے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ متعہ کی تحریم حضرت عمر کے زمانے میں تھی نہ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات جو انہی کتب میں نقل ہوئی ہیں اس بات کی تائید کرتی ہیں_ نمونہ کے طور پر چند ایک روایات ذکر کرتے ہیں:

۱_ مشہور محدّث جناب ترمذی نقل کرتے ہیں کہ اہل شام کے ایک آدمی نے جناب عبداللہ بن عمر سے متعہ نساء کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا _حلال ہے_ سائل نے کہا آپ کے والد حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے_ جناب عبداللہ بن عمر نے کہا :

'' ا را یت إن کان ا بی قد نهی عنها و قد سَنَّها رسولُ الله ، ا نترک السنّة و نَتبعُ قولَ ا بی؟'' (۲)

____________________

۱)تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۰، ص ۵۰_

۲) یہ حدیث آجکل کی شائع شدہ صحیح ترمذی میں اس طرح نہیں ہے بلکہ اس میں متعة النساء کی جگہ متعة الحج آیا ہے _ لیکن جناب زین الدین المعروف شہید ثانی نے کہ جو دسویں صدی کے علماء میں سے تھے کتاب شرح لمعہ میں اور مشیر ابن طاؤوس نے کہ جو ساتویں صدی کے علماء میں سے تھے کتاب الطرائف میں اسی حدیث کو متعہ النساء کے ساتھ نقل کیا ہے ایسا لگتاہے کہ صحیح ترمذی کے قدیمی نسخوں میں یہ حدیث اسی طرح تھی لیکن بعد میں اس میں تبدیلی کردی گئی ہے ( اس قسم کی مثالیں بہت زیادہ ہے)_

۱۱۲

اگر میرے والد ایک چیز سے منع کریں لیکن رسولخدا(ص) نے اسے سنت قرار دیا ہو تو کیا ہم آنحضرت(ص) کی سنت کو ترک کرکے اپنے باپ کی بات پر عمل کریں گے؟

ایک اور حدیث ( صحیح مسلم) میں جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم رسولخدا(ص) کے زمانے میں تھوڑی سی کجھوروں یا آٹے کے حق مہر پر چند دن کے لیئے متعہ کر لیا کرتے تھے اور یہ سنت حضرت ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری تھی یہاں تک کہ حضرت عمر نے '' عمروبن حریث'' والے واقعہ کی وجہ سے اس کام سے منع کردیا_(۱)

۳_ اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں یوں آیا ہے کہ ابن عباس اور ابن زُبیر کا متعة النساء اور متعة الحج کے بارے میں اختلاف ہوگیا ( اور انہوں نے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کو ثالث بنایا) تو جابر نے کہا ہم نے ان دونوں پر رسولخدا(ص) کے زمانے میں عمل کیا ہے، اس کے بعد حضرت عمر نے منع کیا اور ہم نے پرہیز کیا(۲)

۴_ ابن عباس کہ جنہیں ''حبر الامّة'' ( امت کے عالم) کا لقب دیا گیا ہے ، رسولخدا(ص) کے زمانے میں حکم متعہ کے منسوخ نہ ہونے کے قائل تھے اس بات کی دلیل انکے اور جناب عبداللہ بن زُبیر کے درمیان ہونے والی بحث ہے جسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے: عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں رہائشے رکھی ہوئی تھی ایک دن ( کچھ لوگوں کے سامنے جن میں جناب ابن عباس بھی تھے) کہنے لگے بعض ایسے لوگ کہ خداوند نے انکے دل کی آنکھوں کو اُنکی ظاہری آنکھوں کی طرح اندھا کردیا ہے،وہ فتوی دیتے ہیں کہ متعہ جائز ہے_ انکا مقصد ابن عباس کو سنانا تھاجو کہ اس زمانے میں نابینا ہوچکے تھے_ ابن عباس نے جب یہ بات سُنی تو کہنے لگے

____________________

۱)صحیح مسلم ، جلد ۲،ص ۱۳۱_

۲) صحیح مسلم ، جلد ۲،ص ۱۳۱_

۱۱۳

کہ تو ایک بے وقوف اور نادان آدمی ہے، مجھے اپنی جان کی قسم ہم نے رسولخدا(ص) کے زمانے میں اس سنت پر عمل کیا ہے_ ابن زبیر نے ( رسولخدا(ص) کے نام سے لاپرواہی کرتے ہوئے) کہا: تو آزما کر دیکھ لے، خدا کی قسم اگر تو نے اس پر عمل کیا تو تجھے سنگسار کردوں گا_(۱)

یعنی منطقی بات کا جواب زور اور دھمکی کے ساتھ دیا

احتمالاً یہ بات اس زمانے کی ہے جب عبداللہ بن زبیرنے مکہ میں حکومت حاصل کرلی تھی اسی لیے تو اس نے ابن عباس جیسے دانشمند اور عالم کے مقابلے میں ایسی بات کرنے کی جسارت کی_ حالانکہ ابن عباس، سن کے اعتبار سے اس کے باپ کے برابر تھے اور علم کے اعتبار سے تو یہ انکے ساتھ قابل قیاس ہی نہیںتھا_ بالفرض اگر علم میں انکے برابر بھی ہوتا تو اس قسم کی دھمکی کا حق اسے نہیں پہنچتا تھا_ کیونکہ اس قسم کے احکام میں اگر کوئی اپنے فتوی پر عمل کرے اور بالفرض اس کا فتوی غلط بھی ہو تب بھی '' وطی بالشبہہ'' شمار ہوگی اور معلوم ہے کہ وطی بالشبہہ میں حد جاری نہیں ہوتی ہے لہذا سنگسار کرنے کی دھمکی دینا ایک بے معنی اور جاہلانہ سی بات ہے_

البتہ اس قسم کی بے ہودہ دھمکی عبداللہ بن زبیر جیسے ایک نادان اور گستاخ جوان کی طرف سے بعید نہیں ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب محاضرات میں نقل کیا ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے سرزنش کے لہجہ میں ابن عباس کو کہا کہ تو کیوں '' متعہ'' کو حلال سمجھتا ہے_ ابن عباس نے کہا جا کر اپنی ماں سے پوچھ لے وہ اپنی ماں کے پاس آیا_ ماں نے اس سے کہا '' ما ولدتک الّا فی المتعہ'' تو اس زمانے میں پیدا ہوا تھا جب میں تیرے باپ کے متعہ میں

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد۴، ص ۵۹، حدیث ۳۳۰۷_ چاپ دار الفکر_

۱۱۴

تھی''(۱)

۵_ مسند احمد میں '' ابن حصین'' سے نقل کیاگیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعہ کی آیت نازل ہوئی اور اس پر ہم نے عمل کیا اور اس کو نسخ کرنے والی آیت نازل نہیں ہوئی یہاںتک کہ رسولخدا(ص) کی رحلت ہوگئی_(۲)

یہ ان روایات کے بعض نمونے ہیں جو صراحت کے ساتھ حکم متعہ کے منسوخ نہ ہونے کو بیان کرتے ہیں_

ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایات نقل کی گئی ہیں جو کہتی ہیں کہ یہ حکم رسولخدا(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکا تھا_ اے کاش یہ روایات آپس میں متفق ہوتیں اور ایک ہی زمانے کی نشاندہی کرتیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہر روایت نے دوسری روایت سے جداگانہ زمانے کو بیان کیاہے_

۱_ ان روایات میں سے بعض میں ذکر ہوا ہے کہ متعہ کی تحریم کا حکم جنگ خیبر والے دن ۷ ہجری میں ) صادر ہوا_(۳)

۲_ بعض دوسری روایات میں آیا ہے کہ رسولخدا(ص) نے عام الفتح ( فتح مکہ والے سال ۸ ہجری) میں مکہ کے اندر متعہ کی اجازت فرمائی اور کچھ عرصہ کے بعد اسی سال منع فرمادیا_(۴)

۳_بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ غزؤہ اوطاس میں (فتح مکہ کے بعد )ہوازن کی

____________________

۱) محاضرات، جلد ۲، ص ۲۱۴ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۲۰ ،ص ۱۳۰_

۲) مسند احمد، جلد۴ ،ص ۴۳۶_

۳) درّ المنثور جلد ۲،ص ۴۸۶_

۴) صحیح مسلم ، جلد۴ ، ص ۱۳۳_

۱۱۵

سرزمین پر (مکہّ کے نزدیک) تین دن کے لیے اجازت فرمائی اس کے بعد منع فرمادیا(۱) اگر کوئی مختلف اقوال کی تحقیق انجام دے تو معلوم ہو گا کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس سے کہیںزیادہ ہے کیونکہ اہلسنت کے مشہور فقیہ (جناب نووی )نے صحیح مسلم کی شرح میں اس مسئلہ کے بارے میں چھ قول نقل کیے ہیں اورہر قول کسی نہ کسی روایت کے ساتھ سازگار ہے :

۱_متعہ جنگ خیبر میں حلال کیا گیا اور پھر (اس کے چند دن بعد )تحریم ہوگیا

۲_عمرة القضاء میں حلال ہوا (پھر حرام ہوگیا )

۳_فتح مکہ کے دن حلال ہوا اس کے بعد حرام ہو گیا

۴_رسولخدا -(ص) نے اسے غزوہ تبوک کے دن حرام کیا

۵_جنگ ہوازن میں (سرزمین اوطاس پر )حلال کیا گیا

۶_حجة الوداع میں پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کے آخری سال میں اسے حلال قرار دیا گیا ہے(۲)

ان سب اقوال سے تعجب آور امام شافعی کا کلام ہے وہ کہتے ہیں''مجھے متعہ کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ملی جسے اللہ تعالی نے پہلے حلال کیا ہو پھر حرام کردیا ہو اس کے بعد دوبارہ حلال کیا ہو اور پھر حرام کردیا ہو ''(۳)

ہر محققّ ان متضاد روایات کا مشاہدہ کرکے اس بات کا اطمینان حاصل کرلیتا ہے کہ یہ روایات جعلی اورایک سیاسی منصوبہ بندی کے تحت جعل کی گئی ہیں _

بہترین راہ حل

حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف اور متضاد اقوال کو دیکھ کو ہر انسان اس مسئلہ میں تحقیق و جستجو کی

____________________

۱)مصدر سابق، ص ۱۳۱_

۲) شرح صحیح مسلم از نووی ، جلد ۹، ص ۱۹۱_

۳)المغنی ابن قدامہ، جلد ۷ ، ص ۵۷۲_

۱۱۶

طرف مائل ہو تا اور سوچتا ہے کہ ایسا کونسا واقعہ رونما ہو اہے کہ مسئلہ میں اسقدر متضاد و متناقض روایات بیان کی گئی ہیں اور ہر محدث یا فقیہ نے کیوں اپنا جدا گانہ راستہ اختیار کیا ہے؟

ان متضاد روایات کے در میان کس طرح جمع کیا جا سکتاہے ؟

کیا یہ سَب اختلاف اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس مقام پر کو ئی نازک سیاسی مسئلہ درپیش تھا جس نے حدیث گھڑ نے والوں کو اس بات پر ابھاراکہ روایات جعل کریں اور اصحاب رسول (ص) کے نام سے سوء استفادہ کرتے ہوئے ان روایات کوانکی طرف نسبت دیں کہ انہوں نے آنحضر ت (ص) سے اس طرح نقل کیا ہے_ اور وہ سیاسی مسئلہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ خلیفہ دوم نے کہا تھا ''دوچیزیں رسولخدا (ص) کے زمانے میں حلال تھیں اور میں انہیں حرام کر رہا ہوں ان میں سے ایک ''متعة النساء ہے '' _اس بات کا ایک عجیب منفی اثر تھا کیونکہ اگر امّت کے افراد یا خلفاء ،اسلام کے احکام کو اس صراحت کے ساتھ تبدیل کردیں تو پھر یہ کام صرف خلیفہ ثانی کے ساتھ مخصوص نہ رہتا بلکہ دوسروںکو بھی یہ حق مل جاتا کہ رسولخدا(ص) کی نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کریں _اور اس صورت میں احکام اسلام یعنی واجبات اور محرّمات کے در میان ہر ج و مرج پیدا ہوجاتا اور زمانہ گزر نے کے ساتھ ساتھ اسلام کے دامن میں کچھ باقی نہ رہتا _

اس منفی اثر کوختم کرنے کے لیے ایک گروہ نے یہ کام شروع کیا کہ کہنے لگے: ان دو احکام کی حرمت خود رسولخد(ص) اکے زمانے میں واقع ہوئی تھی _ ہر ایک نے نئی حدیث گھڑلی اور اسے

اصحاب رسول(ص) کی طرف نسبت دے دی _کیونکہ کوئی بھی حدیث واقعيّت نہیں رکھتی تھی اس لیے ایک دوسرے سے متضاد بن گئیں

ورنہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی احاد یث ایک دوسرے کے مخالف ہوں حتی کہ بعض فقہاء کو انکے در میان جمع کرنے کے لیے کہنا پڑا کہ متعہ ایک زمانے میں مباح تھا پھر حرام ہو گیا پھر مباح

۱۱۷

ہوگیا پھر حرام ہوگیاکیااحکام الہی کھیل ہیں کہ جو ہر روز تبدیل ہوتے رہیں_

ان سب باتوں سے قطع نظررسولخدا(ص) کے زمانے میں متعہ کا مباح ہونا حتماً ایک ضرورت کی وجہ سے تھا اور وہ ضرورت دو سرے زمانوں میں بھی موجود ہے _ با لخصوص ہمارے زمانے میں مغربی ممالک کی طرف طولانی سفر کرنے والے بعض جوانوں کے لیے یہ ضرورت شدّت کے ساتھ موجودہے پس متعہ کیوں حرام ہو ؟

اس زمانے میں اسلامی معاشر ے میں جذبات بھڑ کانے کے عوامل اتنے زیادہ نہیں تھے _بے پردہ عورتیں 'فلمیں ،ٹیلی وین ،انٹرنیٹ،ڈش، فسا د والی محفلیں اور فاسدلٹریچر و غیرہ جو سب کچھ آج کے زمانے میں بہت سے جوانوں کے دامن گیر ہو تے ہیں اُس زمانے میں نہیں تھے_ اُس زمانے میں متعہ کو ایک احتیاج اور ضرورت کے عنوان سے جائزقرار دیا گیا اور اس کے بعد ہمیشہ کے لیے اس سے منع کردیا گیا ہے ؟ کیا یہ بات قابل قبول ہے ؟

ان سب ادلہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے فرض کرلیتے ہیں کہ بہت سے فقہائے اسلام اس کو حرام شمار کرتے ہیں اور فقہاء کا ایک گروہ اس کوجائز سمجھتاہے_ اور یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے_ پس اس صورت میں یہ سزاوار نہیں ہے کہ حلال کے طرفدار لوگ اسے حرام سمجھنے والوں پراحکام دین کی پابندی نہ کرنے کی تہمت لگائیں_ اسی طرح اسکی حرمت کے قائل افراد کیلئے یہ سزاوار نہیں کہ اسے مباح سمجھنے والوں پر معاذ اللہ زنا کے طرفدار ہونے کی تہمت لگائیں _ اگر ایسا کریں تو قیامت والے دن اللہ تعالی کے حضور کیا جواب دیں گے؟ پس پتہ چلتا ہے کہزیادہ سے زیادہ یہ ایک اجتہادی اختلاف ہے_

جناب فخر رازی اس قسم کے مسائل میں ایک خاص تعصّب رکھنے کے باوجود اپنی تفسیر میں

۱۱۸

فرماتے ہیں کہ ''ذهب السواد الاعظم من الاُمة الی انّها صارت منسوخة و قال السواد منهم ا نّها بقیت کما کانت'' امت کی اکثریت قائل ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن ایک گروہ قائل ہے کہ یہ حکم اسی طرح باقی ہے''(۱) یعنی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے_

ہم اس جگہ نکاح موقّت کی بحث کو تمام کرتے ہیں _ اور سب لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ تہمتیں لگانے اور بغیر علم کے قضاوت کرنے کی بجائے ایک بار پھر اس مسئلہ پر تحقیق اور اس کے بعد قضاوت کریں_ یقیناً انہیں اطمینان ہوجائیگا کہ متعہ آج بھی ایک حکم الہی ہے اور شرائط کی پابندی کرتے ہوئے یہ آج بھی بہت سی مشکلات کو حل کرتا ہے_

____________________

۱) تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، ص ۴۹_

۱۱۹

۶

زمین پر سجدہ

۱۲۰