شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 76468
ڈاؤنلوڈ: 4074

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76468 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

عبادات میں سجدہ کی اہمیت:

اسلام کی نظر میں سجدہ، اللہ تعالی کی سب سے اہم یا اہم ترین عبادات میں سے ایک ہے_ اور جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ انسان سجدہ کی حالت میں دیگر تمام حالات کی نسبت سب سے زیادہ اللہ تعالی کے نزدیک ہوتا ہے_ تمام بزرگان دین بالخصوص رسو ل اکرم(ص) اور اہلبیت بہت طولانی سجدے کیا کرتے تھے_ خدا کی بارگاہ میں طولانی سجدے انسان کی روح اور جان کی نشو ونما کرتے ہیں_ اور یہ اس لم یزل کی بارگاہ میں خضوع اور عبودیت کی سب سے بڑی علامت شمار ہوتے ہیں_ اسی لیے نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے بجالانے کا حکم دیا گیا ہے_

اسی طرح سجدہ شکر اور قرآن مجید کی تلاوت کے دوران مستحب اور واجب سجدے بھی اسی سجدہ کا واضح ترین مصداق شمار ہوتے ہیں_

انسان سجدہ کی حالت میں سوائے خدا کے ہر چیز کو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے بہت نزدیک پاتا ہے اور گویا وہ اپنے آپ کو بساط قرب پر پاتا ہے_

یہی وجہ ہے کہ سیرو سلوک و عرفان کے اساتید اور اخلاق کے معلم حضرات ،سجدہ کے مسئلہ پر انتہائی تاکید فرماتے ہیں_

۱۲۱

مذکورہ بالا مطالب اس مشہور حدیث پر ایک روشن دلیل ہیں کہ انسان کا کوئی عمل بھی شیطان کو اتنا پریشان نہیں کرتا جتنا سجدہ اسے پریشان کرتا ہے_

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ '' جناب ختمی مرتبت نے اپنے ایک صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگرچاہتے ہو کہ قیامت کے دن میرے ساتھ محشور ہو تو خداوند قہار کے حضور طولانی سجدے انجام دیا کرو''

و اذا اَرَدتَ ا ن یحشُرَک الله معی يَومَ القیامة فأطل السّجودَ بین يَدَی الله الواحد القهّار'' (۱)

غیر خدا کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس واحد و یکتا پروردگار کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سجدہ انتہائی عاجزی اور خضوع کی علامت اور پرستش کا روشن مصداق ہے اور پرستش و عبوديّت صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے_

قرآن مجید کی اس آیت ''( وللّه يَسجُد مَن فی السموات و الارض'' ) (۲) میں کلمہ '' اللہ '' کو مقدم کیا گیا ہے اور یہ تقدیم حصر پر دلالت کر رہی ہے یعنی زمین اور آسمان کی ہر چیز صرف اور صرف اللہ تعالی کو سجدہ کرتی ہے

اسی طرح سورہ اعراف کی ۲۰۶ نمبر آیت( '' و له یسجدون'' ) بھی اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ سجدہ صرف اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے_

____________________

۱) سفینة البحار ، مادہ سجدہ_

۲) سورة رعد، آیہ ۱۵_

۱۲۲

حقیقت میں سجدہ خضوع کا آخری درجہ ہے اور یہ درجہ خداوند عالم کے ساتھ مخصوص ہے_ لہذا کسی اور شخص یا چیز کے لیے سجدہ کرنا گویا خداوند عالم کے برابر قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے_

ہمارے نزدیک توحید کے معانی میں سے ایک معنی '' توحید در عبادت'' ہے یعنی پرستش اور عبادت صرف اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے بغیر توحید کامل نہیں ہوتی ہے_

دوسرے الفاظ میں : غیر خدا کی عبادت کرنا شرک کی ایک قسم ہے اور سجدہ عبادت شمار ہوتا ہے_ اس لیے غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_

اور جو سجدہ ملائکہ نے حضرت آدم کو کیا تھا ( اور اسکا قرآن مجید میں کئی مقامات پر تذکرہ ہے ) مفسرین کے بقول یا تو یہ حضرت آدم(ع) کی تعظیم ، تکریم اور احترام کا سجدہ تھا نہ عبادت کا سجدہ، بلکہ اسی سجدہ سے ملائکہ کی مراد یہ تھی کہ چونکہ یہ سجدہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے لہذا اس ذات حق کی عبودیت ہے _ اور یا یہ شکر خدا کا سجدہ تھا_اسی طرح جو سجدہ حضرت یعقوب(ع) اورانکے بیوی بچّوں نے حضرت یوسف _ کے لیے کیا تھا اور اسے قرآن مجید نے ''خرَّ و له سُجَّداً'' اور سب انکے سامنے سجدہ میں گر پڑے'' کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے_ یہ بھی اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر تھا_ یا ایک قسم کی تعظیم، تکریم اور احترام کے معنی میں سجدہ تھا_

اور قابل توجہ یہ ہے کہ '' وسائل الشیعہ'' کہ جو ہماری کتب حدیث کاایک مصدرشمار ہوتی ہے، میں سجدہ نماز کے ابواب میں ایک مکمل باب ''عدم جواز السجود بغیر الله '' کے عنوان سے ذکر ہوا ہے اور اس میں پیغمبر اکرم(ص) اور آئمہ معصومینسے سات احادیث نقل کی گئی ہیں کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_(۱)

____________________

۱)وسائل الشیعہ، جلد ۴، ص ۹۸۴_

۱۲۳

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرما لیجئے کیونکہ آئندہ اسی گفتگو سے ہم نتیجہ اخذ کریںگے_

کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیے:

مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زمین کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں ہوسکتا ہے، ہاں البتہ جو چیزیں زمین سے اُگتی ہیں اور کھانے و پہننے کے کام نہیں آتیں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی و غیرہ اسی طرح حصیر و بوریا و غیرہ_ ان پر سجدہ کیا جاسکتا ہے_ جبکہ علماء اہلسنت عام طور پر معتقد ہیں کہ ہر چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے_ ہاںان میں سے صرف بعض علماء نے لباس کی آستین اور عمامہ وپگڑی کے گوشے کو مستثنی کیا ہے کہ اُن پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_

اس مسئلہ میں مکتب اہلبیت(ع) والوں کی دلیل، رسولخدا(ص) اور آئمہ اطہار(ع) سے نقل ہونے والی احادیث اور اصحاب کا عمل ہے_ ان محکم ادلّہ کی وجہ سے وہ اس عقیدہ پر اصرار کرتے ہیں اور اس لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی(ص) میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ قالین و غیرہ پر سجدہ نہ کریں بلکہ پتھر پر سجدہ کریں اور کبھی حصیر اور مصلی و غیرہ اپنے ساتھ لاتے ہیں اور ا س پر سجدہ کرتے ہیں_

ایران، عراق اور دیگر شیعہ نشین ممالک کی تمام مساجد میں چونکہ قالین بچھے ہوئے ہیں، اس لیے خاک سے ''سجدہ گاہ'' بنا کر اسے قالین پر رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں تاکہ پیشانی کو کہ جو تمام اعضاء میں اشرف و افضل ہے اللہ تعالی کے حضور، خاک پر رکھا جاسکے_ اور اس ذات احديّت کی بارگاہ میں انتہائی تواضع و انکساری کا مظاہرہ کیا جاسکے_ کبھی یہ '' سجدہ گاہ''

۱۲۴

شہداء کی تربت سے بنائی جاتی ہے تا کہ راہ خدا میں ان کی جانثاری کی یاد تازہ ہو اور نماز میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_اور پھر شہدائے کربلا کی تربت کو دوسری ہر قسم کی خاک پر ترجیح دی جاتی ہے لیکن شیعہ ہمیشہ اس تربت یا دوسری خاک کے پابند نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے مساجد کے صحنوں میں لگے ہوئے پتھروں ( جیسے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے صحن والے سنگ مرمر) پر بھی با آسانی سجدہ کر لیتے ہیں ( غور کیجئے)

بہرحال مکتب اہلبیت(ع) کے پاس زمین پر سجدہ کے وجوب کے بارے میں بہت سی ادلّہ ہیں من جملہ پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث ، صحابہ کی سیرت جو آئندہ بحث میں بیان ہوگی اور آئمہ اطہار سے نقل ہونے والی روایات کہ جنہیں ہم عنقریب نقل کریں گے_

ہمیں تعجب یہ ہے کہ بعض اہلسنت برادران ہمارے اس فتوی کے مقابلے میں کیوں اسقدر شدید ردّعمل کا مظاہرہ کرتے ہیںاور کبھی اسے بدعت سے تعبیر کرتے ہیں حتی بعض اوقات اسے کفر اور بُت پرستی شمار کرتے ہیں_

اگر ہم خود ان کی اپنی کتابوں سے ثابت کردیں کہ رسولخدا(ص) اور انکے اصحاب، زمین پر سجدہ کرتے تھے تو کیا پھر بھی یہ عمل بدعت ہوگا؟

اگر ہم ثابت کردیں کہ آنحضرت(ص) کے بعض اصحاب جیسے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری وغیرہ جب شدید گرمی کی وجہ سے پتھر اور ریت گرم ہوجاتی تھی تو وہ کچھ مقدار ریت کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل کرتے تھے تا کہ کچھ ٹھنڈی ہوجائے اور اس پر سجدہ کیا جاسکے''(۱) تو کیا اس صورت میں جناب جابر ابن عبداللہ کو بت پرست یا بدعت گزار شمار کریں گے؟

____________________

۱) مسند احمد ، ج ۳، ص ۳۲۷و سنن بیہقی جلد ۱ص ۲۳۹_

۱۲۵

پس جو شخص حصیر پر سجدہ کرتا ہے یا ترجیح دیتا ہے کہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی(ص) کے فرش پر سجدہ کرے تو کیا وہ حصیر کی پرستش کرتا ہے یا مسجد کے فرش کی پوجا کرتا ہے؟

کیا ضروری نہیں ہے کہ یہ برادران اس موضوع پر مشتمل ہماری ہزاروں فقہی کتابوں میں سے کم از کم ایک کتاب کا مطالعہ کریں تا کہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان ناروا نسبتوں میں ذرّہ برابر بھی حقیقت کی جھلک نہیں ہے؟

آیا کسی پر بدعت یا کفر و بت پرستی کی تہمت لگنا،کم گناہ ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالی اسے آسانی سے معاف کردیگا؟

اس بات کو جاننے کے لیے کہ کیوں شیعہ زمین پر سجدہ کرتے ہیں، امام صادق _ کی اس حدیث کی طرف توجہ کافی ہے_ ہشام بن حکم نے کہ جو امام کے خصوصی اصحاب میں سے تھے سوال کیا، کہ کس چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اور کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا''السجود لا یجوز الا علی الارض او ما انبتت الارض الا ما أکل اَو لبس'' کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے مگر صرف زمین پر یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہیں اور کھانے اور پہننے کے کام نہیں آتیں ہشام کہتا ہے میں نے عرض کی آپ(ع) پر قربان ہوجاؤں اس کی حکمت کیا ہے ؟

آپ(ع) نے فرمایا:''لانّ السّجُودَ هُو الخضوع للّه عزّوجل فلا ینبغی أن یکونَ علی ما يُؤكَلُ و يُلبس لانّ أَبناء الدُّنیا عَبید ما یا کلون و یلبسون و الساجدُ فی سُجوده فی عبادة الله فلا ینبغی أن يَضَعَ جَبهَتَهُ فی سُجوده علی معبود أبناء الدُّنیا الذین اغتَرُّ وا بغرورها'' کیونکہ سجدہ اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور انکساری ہے اس لیے مناسب نہیں ہے کہ انسان کھانے اور پہننے کی چیزوں پر سجدہ کرے_

۱۲۶

کیونکہ دنیا پرست لوگ کھانے اور پہننے والی چیزوںکے بندے ہوتے ہیں_ جبکہ وہ شخص جو سجدہ کر رہا ہے سجدہ کی حالت میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہے پس مناسب نہیں ہے کہ انسان اپنی پیشانی کو سجدہ کی حالت میں ایسی چیزوں پر رکھے جو دنیا پرستوں کے معبود ہیںاور انکی زرق و برق کے وہ فریفتہ ہیں_

اس کے بعد امام _ نے اضافہ فرمایا: ''و السّجودُعلی الارض أفضلُ لانّه أبلغ للتواضع و الخُضوع للّه عزوجل ''کہ زمین پر سجدہ کرنا افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے حضور بہتر طور پرخضوع وتواضع اور انکساری کی علامت ہے_(۱)

۴_ مسئلہ کی ادلّہ:

اب ہم اس مسئلہ کی ادلّہ بیان کرتے ہیں _سب سے پہلے رسول اکرم(ص) کے کلام سے شروع کرتے ہیں:

الف) زمین پر سجدہ کے سلسلہ میں معروف حدیث نبوی:

اس حدیث کو شیعہ و اہل سنت نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا''جُعلت لی الارضُ مسجداً و طهوراً'' کہ زمین میرے لیے محل سجدہ اور طہارت ( تیمم) قرار دی گئی ہے''(۲)

بعض علماء نے یہ خیال کیا ہے کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ پوری روئے زمین اللہ کی عبادت کا مقام ہے_ پس عبادت کا انجام دینا کسی معيّن مقام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ یہود

____________________

۱) علل الشرائع، جلد ۲، ص ۳۴۱_

۲) صحیح بخاری جلد ۱، ص ۹۱و سنن بیہقی، جلد ۲_ ص ۴۳۳ (ا ور بہت سی دوسروی کتابوں میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے)_

۱۲۷

و نصاری گمان کرتے تھے کہ عبادت کو حتماً کلیساؤں اور عبادت خانوں میں انجام دینا چاہیے''_

لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفسیر حدیث کے حقیقی معنی کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرما یا'' زمین طہور بھی ہے اور مسجد بھی'' اور ہم جانتے ہیں کہ جو چیز طہور ہے اور جس پر تیمّم کیا جاسکتا ہے وہ زمین کی خاک اور پتھر ہیں پس سجدہ گاہ کو بھی وہی خاک اور پتھر ہونا چاہیے_

اگر پیغمبر اکرم(ص) اس معنی کو بیان کرنا چاہتے کہ جسکا بعض اہلسنت کے علماء نے استفادہ کیا ہے تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ ''جُعلت لی الارض مسجداً و ترابُها طهوراً'' پوری سرزمین کو میرے لیے مسجد قرار دیا گیا اور اس کی خاک کو طہارت یعنی تیمم کا وسیلہ قرار دیا گیاہے'' لیکن آپ(ص) نے یوں نہیں فرمایا_ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں مسجد سے مراد جائے سجدہ ہے لہذا سجدہ گاہ کو بھی اسی چیز سے ہونا چاہیے جس پر تیمم ہوسکتا ہے_

پس اگر شیعہ زمین پر سجدہ کرنے کے پابند اور قالین و غیرہ پر سجدہ کو جائز نہیں سمجھتے تو یہ کوئی غلط کام نہیں کرتے بلکہ رسولخدا(ص) کے دستور پر عمل کرتے ہیں_

ب) سیرت پیغمبر(ص) :

متعدّد روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے، کپڑے یا قالین و غیرہ پر سجدہ نہیں کرتے تھے_

ابوہریرہ کی ایک حدیث میں یوں نقل ہوا ہے وہ کہتا ہے ''سجد رسول الله (ص) فی یوم مطیر حتی أنّی لانظر الی أثر ذلک فی جبهته و ارنبته'' میں نے رسولخدا(ص) کو ایک

۱۲۸

بارانی دن زمین پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا _ سجدہ کے آثار آپ کی پیشانی اور ناک پر نمایاں تھے_(۱)

اگر سجدہ کپڑے یا دری و غیرہ پر جائز ہوتا تو ضرورت نہیں تھی کہ آنحضرت(ص) بارش کے دن بھی زمین پر سجدہ کریں_

حضرت عائشےہ نیز فرماتی ہیں ''ما رأیتُ رسول الله متقیاً وجهه بشیئ''میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آنحضرت(ص) ( سجدہ کے وقت ) اپنی پیشانی کسی چیز سے ڈھانپ لیتے ہوں''(۲)

ابن حجر اسی حدیث کیتشریح میں کہتے ہیں: کہ یہ حدیث اس بات کیطرف اشارہ ہے کہ سجدہ میں اصل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر لگے لیکن اگر قدرت نہ ہو تو پھر یہ واجب نہیں ہے_(۳)

ایک دوسری روایت میں جناب میمونہ ( رسول اکرم(ص) کی ایک دوسری زوجہ) سے یوں نقل ہوا ہے کہ ''و رسول الله یصّلی علی الخُمرة فیسجد'' پیغمبر اکرم حصیر (چٹائی) پر نماز پڑھتے اور اس پرسجدہ کرتے تھے_

اہلسنت کی معروف کتب میں متعدّد روایات نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) '' خمرہ'' پر نماز پڑھتے تھے ( خُمرہ اس چھوٹے سے مصلی یا حصیر کو کہتے ہیں جو کجھور کے پتوں سے بنایا جاتا تھا)تعجب یہ ہے کہ اگر شیعہ اسی طرح عمل کریں اور نماز پڑھتے وقت کوئی مصلی بچھالیں تو ان پر بعض متعصب لوگوں کی طرف سے بدعت کی تہمت لگائی جاتی ہے_ اور غصے کے ساتھ انہیں

____________________

۱) مجمع الزوائد، جلد ۲، ص ۱۲۶_ ۲) مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد ۱ ، ص ۳۹۷_

۳) فتح الباری ، جلد۱، ص ۴۰۴_

۱۲۹

دیکھا جاتا ہے_

حالانکہ یہ احادیث بتاتی ہیں کہ یہ کام پیغمبر اکرم(ص) کی سنت ہے_

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ سنّت کو بدعت شمار کیا جائے

مجھے نہیں بھولتا کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر مدینہ میں ، میں مسجد نبوی(ص) میں ایک چھوٹی سی چٹائی پر نماز پڑھنا چاہتا تھا تو ایک متعصّب وہابی عالم دینآیا اور اس نے بڑے غصّے کے ساتھ چٹائی اٹھاکر کونے میں پھینک دی گویا وہ بھی اس سنت کو بدعت سمجھتا تھا_

ج) صحابہ اور تابعین کی سیرت

اس بحث میں دلچسپ موضوع یہ ہے کہ اگر ہم اصحاب اور انکے بعد آنے وال-ے افراد (یعنی تابعین) کے حالات کا غور سے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے وہ بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے مثال کے طور پر:

۱_ جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں''کنتُ اُصلّی مع النّبی الظهر فآخذ قبضة من الحصی فاجعلها فی کفّی ثُم احولها الی الکفّ الاُخری حتی تبرد ثم اضعها لجبینی حتی اسجد علیها من شّدة الحرّ''میں پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا_ شدید گرمی کی وجہ سے کچھ سنگریزے ہاتھ میں لے لیتا تھا اور انہیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل کرتا رہتا تھا تا کہ وہ کچھ ٹھنڈے ہوجائیں اور ان پر سجدہ کرسکوں یہ کام گرمی کی شدت کی وجہ سے تھا''(۱)

____________________

۱) مسند احمد ، جلد ۳، ص ۳۲۷ ، سنن بیہقی ، جلد۱ ، ص ۴۳۹_

۱۳۰

اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب پیغمبر(ص) زمین پر سجدہ کرنے کے پابند تھے، حتی کہ شدید گرمی میں بھی اس کا م کے لیے راہ حل تلاش کرتے تھے_ اگر یہ کام ضروری نہ ہوتا تو اتنی زحمت کی ضرورت نہیں تھی_

۲_ انس بن مالک کہتے ہیں ''كُنّا مع رسول الله (ص) فی شدّة الحرّ فیأخذأحدنا الحصباء فی یده فإذا برد وضعه و سجّد علیه '' ہم شدید گرمی میں رسولخدا(ص) کے ساتھ تھے ہم میں سے بعض لوگ کچھ سنگریزے ہاتھ میں لے لیتے تھے تا کہ ٹھنڈے ہوجائیں پھر انہیں زمین پر رکھ کر اُن کے اوپر سجدہ کرتے تھے_(۱)

یہ تعبیر یہی بتاتی ہے کہ یہ کام اصحاب کے درمیان رائج تھا_

۳_ ابوعبیدہ نقل کرتے ہیں ''انّ ابن مسعود لا یسجد _ أو قال لا یصلّی _ الا علی الارض'' کہ جناب عبداللہ ابن مسعود صرف زمین پر سجدہ کرتے تھے یا یوں کہا کہ صرف زمین پر نماز پڑھتے تھے_(۲)

اگر زمین سے قالین یا دری و غیرہ مراد ہوتی تو کہنے کی ضرورت نہیں تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے وہی خاک: ریت اور سنگریزے و غیرہ مراد ہیں_

۴_ عبداللہ ابن مسعود کے ایک دوست مسروق بن اجدع کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ'' کان لا یرخص فی السجود علی غیر الارض حتی فی السفینة وکان یحمل فی السفینة شیئاً یسجدعلیه'' وہ سوائے زمین کے کسی شے پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے حتی اگر کشتی میں سوار ہونا ہوتا تو کوئی چیز اپنے ساتھ کشتی میں رکھ لیتے تھے جس

____________________

۱) السنن الکبری بیہقی ، جلد ۲، ص ۱۰۶_

۲) مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد ۱، ص ۳۹۷_

۱۳۱

پر سجدہ کرتے''(۱)

۵_ جناب علی ابن عبداللہ ابن عباس نے '' رزین '' کو خط میں لکھا''ابعث اليّ بلوح من أحجار المروة علیه اسجُد'' کہ مروہ کے پتھروں میں سے ایک صاف سا پتھر میرے لیے بھیجنا تا کہ میں اس پر سجدہ کرسکوں''(۲)

۶_ کتاب فتح الباری ( شرح صحیح بخاری) میں نقل ہوا ہے کہ ''کان عمر ابن عبدالعزیز لا یکتفی بالخمرة بل یضع علیها التراب و یسجد علیه'' عمر ابن عبدالعزیز نماز کے لیے صرف چٹائی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر مٹی رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے_(۳)

ان تمام روایات سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟ کیا یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ اصحاب اور انکے بعد آنے والے افراد کی ( ابتدائی صدیوں میں ) یہی سیرت تھی کہ زمین پر یعنی خاک ، پتھر، ریت اور سنگریزوں و غیرہ پر سجدہ کرتے تھے_

اگر آج ہمارے زمانے میں کچھ مسلمان اس سنت کو زندہ رکھنا چاہیں تو کیا اسے بدعت کے عنوان سے یاد کیا جائے؟

کیا فقہائے اہلسنت کو نہیں چاہیے کہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس سنّت نبوی (ص) کو زندہ کریں، وہی کام جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں انتہائی خضوع، انکساری اور عاجزی سے حکایت کرتا ہے اور سجدہ کی حقیقت کے ساتھ زیادہ سازگار ہے_ ( ایسے دن کی امید کے ساتھ)_

____________________

۱) طبقات الکبری ، ابن سعد، جلد ۶، ص ۵۳_

۲) اخبار مكّہ ازرقی، جلد ۲ ،ص ۱۵۱_

۳) فتح الباری ، جلد ۱ ، ص ۴۱۰_

۱۳۲

۷

جمع بین صلاتین

۱۳۳

بیان مسئلہ:

نماز، خالق اور مخلوق کے درمیان ایک اہم ترین رابطہ اور تربيّت کے ایک اعلی ترین لائحہ عمل کا نام ہے_ نماز خودسازی اور تزکیہ نفوس کا ایک بہترین وسیلہ اور فحشاء و منکر سے روکنے والے عمل کا نام ہے_ نماز قرب الہی کا بہترین ذریعہ ہے_

اور با جماعت نماز مسلمانوں کی قوّت و قدرت اور انکی صفوف میں وحدت کا مظہر اور اسلامی معاشرے کے لیے با افتخار زندگی کا باعث ہے_

نماز اصولی طور پر دن رات میں پانچ مرتبہ انجام دی جاتی ہے جس سے انسان کے دل و جان ہمیشہ فیض الہی کے چشمہ زلال سے دُھلتے رہتے ہیں_

نماز کو رسول خدا(ص) نے اپنی آنکھوں کا نور قرار دیا اور اس کے لیے ''قرةُ عینی فی الصلاة ''(۱) ارشاد فرمایا اور اسے مؤمن کی معراج شمار کرتے ہوئے_''الصلوة معراج المؤمن'' (۲) کی صدا بلند کی اور اسے متّقین کے لیئے قرب الہی کے وسیلہ کے عنوان سے

____________________

۱) مکارم الاخلاق ، ص ۴۶۱_

۲) اگرچہ یہ جملہ کتب احادیث میں نہیں ملا لیکن اسقدر مشہور ہے کہ علامہ مجلسی نے اپنے بیانات کے دوران اس جملہ سے استشہاد فرمایا ہے ( بحار الانوار ، جلد ۷۹ ص ۲۴۸، ۳۰۳)_

۱۳۴

متعارف کرایا''الصلاة قربان کلی تقّی'' (۱)

اس مقام پر موضوع سخن یہ ہے کہ کیا پانچ نمازوں کا پانچ اوقات میں علیحدہ علیحدہ انجام دینا ایک واجبی حکم ہے؟ اور اس کے بغیر نماز باطل ہوجاتی ہے ( جسطرح وقت سے پہلے نماز پڑھ لینا ،اس کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے ) یا اسے تین وقتوں میں انجام دیا جاسکتا ہے؟

( یعنی ظہر و عصر کی نماز اور مغرب و عشاء کی نماز کو جمع کر کے ادا کیا جائے) علمائے شیعہ _ مکتب اہلبیت(ع) کی پیروی کرتے ہوئے _ عموماً اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ پانچ نمازوں کو تین وقتوں میں انجام دینا جائز ہے اگرچہ افضل و بہتر یہ ہے کہ نماز پنچگانہ کو پانچ وقتوں میں انجام دیا جائے_

لیکن علمائے اہلسنت کی اکثریت _ سوائے چند ایک کے _ اس بات کی قائل ہے کہ نماز پنچگانہ کو علیحدہ علیحدہ پانچ اوقات میں انجام دینا واجب ہے ( صرف عرفہ کے دن میدان عرفات میں ظہر و عصر کی نماز وں کو اکٹھا پڑھا جاسکتا ہے اور عید قربان کی رات مشعر الحرام میں مغرب و عشاء والی نماز کواکٹھا بجالایا جاسکتا ہے البتہ بہت سے علماء نے سفر اور بارش کے اوقات میں کہ جب نماز جماعت کے لیے مسجد میں رفت وآمد مشکل ہو دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کی اجازت دی ہے)_

شیعہ فقہاء کی نظر میں _ جیسا کہ بیان ہوا _ نماز پنچگانہ کے جدا جدا پڑھنے کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ _ نمازوں کو تین اوقات میں بجالانے کی اجازت اور ترخیص کو ایک عطیہ الہی شمار کیا جاتا ہے جسے امر نماز میں سہولت اور لوگوں کے لیے وسعت کی خاطر پیش کیا گیا ہے_

____________________

۱) کافی جلد ۳، ص ۲۶۵ ، حدیث ۲۶_

۱۳۵

اور اس اجازت کو روح اسلام کے ساتھ سازگار سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسلام ایک ''شریعة سمحة و سہلة'' (آسان و سہل) ہے_

تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نماز کے لیے پانچ وقتوں پر علیحدہ علیحدہ تاکید کبھی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اصل نماز بالکل فراموش ہوجائے اور بعض لوگ نماز کو ترک کردیں_

اسلامی معاشروں میں پانچ اوقات پر اصرار کے آثار:

اسلام نے کیوں عرفہکے دن ظہر و عصر کی نماز اور مشعر الحرام میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے؟

کیوں بہت سے اہلسنت فقہائ، روایات نبوی(ص) کی روشنی میں سفر کے دوران اور بارش کے اوقات میں دو نمازوں کے اکٹھا پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں؟ یقیناً امت کی سہولت کی خاطر یہ احکام نازل ہوئے ہیں_

یہ تسہیل تقاضا کرتی ہے کہ دیگر مشکلات میں بھی چاہے سابقہ زمانے میں ہوں یا اس دور میں _ نماز کے جمع کرنے کی اجازت دینی چاہیے_

ہمارے زمانے میں لوگوں کی زندگی تبدیل ہوچکی ہے_ کارخانوں میں بہت سے مزدوروں، دفتروں میں بہت سے ملازمین اور کلاسوں میں بہت سے طالب علموں کو پانچ وقت نماز کی فرصت نہیں ملتی ہے یعنی انکے لیےکام کرنا کافی دشوار اور پیچیدہ ہوجاتا ہے_

پس ان روایات کے مطابق جو پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوئی ہیں اور آئمہ طاہرین نے ان پر تاکید کی ہے اگر لوگوں کو دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو اس اعتبار سے

۱۳۶

انکے کام میں سہولت حاصل ہوگی_ اور نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ جائیگی_

اگر ایسا نہ کیا جائے تو ترک نماز میں اضافہ ہوگا اور تارک صلوة لوگوں کی تعداد بڑھتی جائیگی شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہلسنت کے جوان نماز کو چھوڑ تے ہیں اور اہل تشیع میں تارکین نماز کی تعداد بہت کم ہے_

انصاف یہ ہے کہ'' بُعثتُ الی الشریعة السمحة السهلة'' (۱) اور رسولخدا(ص) سے نقل ہونے والی متعدد روایات کی روشنی میں لوگوں کو تین اوقات میں نماز پڑھنے کی اجازت دینی چاہیے اسی طرح فرادی نماز کی بھی اجازت دینی چاہیے تا کہ زندگی کی مشکلات، ترک نماز کا موجب نہ بنے _ اگرچہ اسلام میں پانچ وقت نماز کی فضیلت پر تاکید ہوئی ہے اور وہ بھی جماعت کے ساتھ_

دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کے جواز پر روایات:

اہلسنت کی معروف کتب جیسے صحیح مسلم ، صحیح بخاری ، سنن ترمذی ، مؤطّاء مالک، مسند احمد، سنن نسائی، مصنف عبدالرّزاق اور دیگر مشہور کتابوں میں تقریباً تیس ۳۰ روایات نقل کی گئی ہیں جن میں بغیر سفر اور مطر ( بارش) کے، بغیر خوف اور ضرر کے ، نماز ظہر و عصر یا نماز مغرب و عشاء کے اکٹھا پڑھنے کو نقل کیا گیا ہے_ ان میں سے اکثر روایات کو ان پانچ مشہور اصحاب نے نقل کیا ہے_

۱_ ابن عباس، ۲، جابر ابن عبداللہ انصاری، ۳_ ابو ايّوب انصاری ، ۴_ عبداللہ ابن عمر ، ۵_ ابوہریرہ ، ان میں سے بعض کو ہم قارئین محترم کے لیئے نقل کرتے ہیں_

____________________

۱)مُجھے ایک سہل اور آسان شریعت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ( ترجمہ)_

۱۳۷

۱_ ابوزبیر نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ '' صلّی رسول اللہ(ص) الظہر و العصر جمیعاً بالمدینة فی غیر خوف و لا سفر'' رسولخدا(ص) نے مدنیةمیں بغیر کسی خوف اور سفر کے نماز ظہر او ر عصر کو اکٹھا انجام دیا_

ابو الزبیرکہتے ہیں میں نے سعید ابن جبیر سے پوچھا کہ پیغمبراکرم(ص) نے ایسا کیوں کیا؟ تو وہ کہنے لگے کہ یہی سوال میں نے ابن عباس سے کیا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا تھا ''أراد أن لا يَحرجَ أحداً من أمّته '' آنحضرت(ص) کا مقصد یہ تھا کہ میری امت کا کوئی مسلمان بھی زحمت میں نہ پڑے''(۱)

۲_ایک اور حدیث میں ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے ''جَمع رسول اللّه بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر'' ''پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا انجام دیا''_

حدیث کے ذیل میں آیا ہے کہ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) کا اس جمع بین صلاتین سے کیا مقصد تھا تو انہوں نے جواب میں کہا''أراد أن لا یحرج'' آنحضرت(ص) کا یہ مقصد تھا کہ کوئی مسلمان بھی زحمت و مشقت سے دوچار نہ ہو_(۲)

۳_ عبداللہ ابن شقیق کہتے ہیں:

' ' خطبنا ابن عباس یوماً بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة، الصلاة قال فجائه، رجل من بنی تمیم لا

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۱۵۱_

۲) صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۱۵۲_

۱۳۸

یفتر و لا یتنی: الصلوة ، الصلوة فقال ابن عباس أتعلّمنی بالسّنّة لا اَمّ لک ثمّ قال: رایت رسول الله جمع بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء قال عبدالله بن شقیق: فحاک فی صدری من ذلک شیء فأتیتُ ابا هریره فسألته ، فصّدق مقالتَه'' (۱)

کہ ایک دن ابن عباس نے نماز عصر کے بعد خطبہ پڑھنا شروع کیا یہاںتک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے ، لوگوں نے نماز، نماز کی آوازیں لگانا شروع کردیں_ ایسے میں بنو تمیم قبیلہ کا ایک آدمی آیا وہ مسلسل نماز، نماز کی صدائیں بلند کر رہا تھا اس پر ابن عباس نے کہا ، تو مجھے سنت رسول(ص) سکھانا چاہتا ہے اے بے حسب و نسب میں نے دیکھا ہے کہ رسولخدا(ص) نے نماز ظہر و عصر کو ،اسی طرح نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا پڑھا ہے عبداللہ بن شقیق کہتا ہے میرے دل میں شک سا پیدا ہوگیا، میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اُن سے یہی بات دریافت کی انہوں نے ابن عباس کے کلام کی تصدیق کی_

۴_ جابر ابن زیدلکھتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ : ''صلّی النّبی(ص) سبعاً جمیعاً و ثمانیاً جمیعاً'' پیغمبر اکرم(ص) نے سات رکعتیں اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں'' (مغرب اور عشاء کی نماز اسی طرح ظہر اور عصر کی نماز کے اکٹھا پڑھنے کی طرف اشارہ ہے)(۲)

____________________

۱) سابقہ مدرک_

۲) صحیح بخاری ، جلد ۱، ص ۱۴۰ ( باب وقت المغرب)_

۱۳۹

۵_ سعید بن جُبیر، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ:

'' جَمع رسولُ الله (صلی الله علیه و آله و سلم ) بین الظهر و العصر و بین المغرب و العشاء بالمدینة من غیر خوف و لا مطرً قال: فقیل لأبن عباس : ما أراد بذلک؟ قال أراد أن لا یحرج أمتّه'' (۱)

'' پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف اور بارش کے ، ظہر و عصر کی نماز، اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آنحضرت(ص) کا اس کام سے کیا مقصدتھا؟ تو انہوں نے کہا آپ(ص) چاہتے تھے کہ انکی امت مشقّت میں نہ پڑے''

۶_ امام احمد ابن حنبل نے بھی اسی کے مشابہ حدیث اپنی کتاب مسند میں ابن عباس سے نقل کی ہے_(۲)

۷_ امام مالک نے اپنی کتاب '' مؤطا'' میں مدینہ کا تذکرہ کیے بغیر ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے:

'' صلَّ رسولُ الله (ص) الظهر و العصر جمیعاً و المغرب و العشاء جمیعاً فی غیر خوف و لا مطر'' (۳)

____________________

۱) سنن ترمذی ، جلد ۱۲۱ حدیث ۱۸۷_

۲) مسند احمد، جلد ۱ ، ص ۲۲۳_

۳) مؤطا مالک، جلد ۱ ، ص ۱۴۴_

۱۴۰