شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 76463
ڈاؤنلوڈ: 4074

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76463 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

بحث کا آخری نتیجہ:

۱_ قرآن مجید نے وضو میں اصلی فریضہ پاؤں کے مسح کو قرار دیا ہے ( سورہ مائدہ آیت ۶) اس طرح اہلبیت کی تمام روایات اور انکی اتباع کرنے والے تمام امامیہ فقہاء کا فتوی بھی اسی آیت کے مطابق ہے_

۲: اہلسنت کے فقہاء ،وضومیں اصلی فریضہ غالباً پاؤں دھونے کو قرار دیتے ہیں لیکن ان میں اکثر اجازت دیتے ہیں کہ اختیاری صورت میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے البتہ ان میں سے بعض اس مسح کو ضرورت کے موارد میں منحصر کرتے ہیں_

۳: جو روایات اہلسنت کے منابع میں جوتوں پر مسح کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں اس قدرمتضاد و متناقض ہیں کہ ہر محقق کو شک میں ڈال دیتی ہیں_ بعض روایات بغیر کسی قید و شرط کے جوتوں پر مسح کی اجازت دیتی ہیں، بعض کلی طور پر منع کرتی ہیں جبکہ بعض ضرورت کے مواقع کے ساتھ مختص کرتی ہیں اور اس کی مقدار سفر میں تین دن اور حضر میں ایک دن بیان کرتی ہیں_

۴: روایات کے درمیان بہترین جمع کا طریقہ یہ ہے کہ اصلی حکم پاؤں پر مسح کرنا ہے (اور انکے عقیدہ کے مطابق پاؤں دھونا ہے) اور ضرورت و اضطرار کے وقت جیسے جنگ اور دشوار سفر کہ جس میں نعلین کے بجائے بند جوتے (انکی تعبیر کے مطابق خُفّ) پہنتے تھے اور اُن کا اتارنا بہت مشکل تھا جوتوںپر ( مسح جبیرہ کی مثل) مسح کرتے تھے_

۱۸۱

۹

بسم الله سورة الحمد کا جزء ہے

۱۸۲

ایک تعجب آور نکتہ :

جب شیعیان اہلبیت (ع) خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں تو اس وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے جس کا حکم ائمہ اہلبیت(ع) نے دیا ہے وہ اہلسنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہوئے مسجدالحرام اور مسجد النبّی(ص) میں با جماعت نماز کا ثواب حاصل کرتے ہیں_ تو اس وقت سب سے پہلی چیز جو انکی توجہ کو اپنی طرف جلب کرتی ہے یہ ہے کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام جماعت سورة الحمد کی ابتداء میں یا تو بالکل بسم اللہ پڑھتے نہیں ہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو آہستہ اور مخفی انداز میں پڑھتے ہیں حتی کہ مغرب و عشاء کی نماز میں جنہیں با آواز بلندپڑھا جاتا ہے _

حالانکہ دوسری طرف وہ اس بات کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں کہ جو اکثر مکہ مکرّمہ سےشائع ہوتے ہیں سورة حمد کی سات آیات ذکر کی گئی ہیں جن میں سے ایک بسم اللہ ہے_ یہ بات سب کے لیے تعجب کا باعث بنتی ہے کہ قرآن مجید کی سب سے اہم ترین آیت '' بسم اللہ'' کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ او رجس وقت لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں اور ہم انکے سامنے اس بارے میں اہلسنت کے مذاہب و روایات کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے تعجب میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے_

اس مقام پر ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ میں موجود فتاوی اور اس کے بعد بحث میں وارد ہونے والی مختلف روایات کی طرف رجوع کریں_

۱۸۳

اس مسئلہ میں مجموعی طور پر اہلسنت کے فقہاء تین گروہوں پر مشتمل ہیں_

۱_ بعض علما کہتے ہیں کہ سورہ حمد کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا چاہیے_

جہری نمازوں میں بلند آواز کے ساتھ پڑھنا چاہیے اور اخفاتی نمازوں میں آہستہ پڑھنا چاہیے_ یہ امام شافعی اور انکی پیروی کرنے والے علما ہیں _

۲_ بعض علما کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھی چاہیے لیکن ہمیشہ دل میں یعنی آہستہ پڑھنی چاہیے_ یہ حنبلی علماء ( امام احمد ابن حنبل کے پیروکاروں) کا نظریہ ہے_

۳_ ایک گروہ بسم اللہ پڑھنے کو اصلاً ممنوع سمجھتا ہے_ یہ امام مالک کے پیروکار ہیں_ امام ابوحنیفہ کے پیروکاروں کی نظر بھی مالکی مذہب والوں کے قریب ہے_

اہلسنت کے مشہور فقیہ ''ابن قدامہ'' اپنی کتابمغنی میں یوں رقمطراز ہیں:

'' انّ قراء ة بسم الله الرحمن الرّحیم مشروعةً فی اوّل الفاتحة و اوّل کلّ سورة فی قول ا کثر ا هل العلم و قال مالک و الا وزاعی لایقرؤها فی اول الفاتحة و لا تختلف الروایة عن احمد ان الجهر بها غیر مسنون و یروی عن عطاء و طاووس و مجاهد و سعید بن جبیر الجهر بها و هو مذهب الشافعی ...، (۱)

سورہ حمد اور ہردوسری سورت کے آغاز میںبسم الله الرحمن الرحیم کا پڑھنا اکثر

____________________

۱) المغنی ابن قدامہ، جلد ۱ ص ۵۲۱_

۱۸۴

اہلسنت کے نزدیک جائز ہے لیکن مالک اور اوزاعی ( اہلسنت کے فقہائ) نے کہا ہے کہ سورة حمد کی ابتداء میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے ( اور بسم اللہ کے بالجہر پڑھنے کے بارے میں ) جتنی روایات بھی امام احمد بن حنبل سے نقل ہوئی ہیں سب کی سب کہتی ہیں کہ بسم اللہ کو بالجہر( بلند آواز کے ساتھ) پڑھنا سنت نہیں ہے اور عطا، طاووس، مجاہد اور سعید بن جبیر سے روایت نقل ہوئی ہے کہ بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا چاہیے اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے''

اس عبارت میں انکے تینوں اقوال نقل ہوئے ہیں :

تفسیر ''المنیر'' میں وھبہ زحیلی نے یوں لکھا ہے_

''قال المالکيّة و الحنفيّه لیست البسملة بآیة من الفاتحة و لا غیرها الّا من سورة النمل

الّا ا ن الحنفيّة قالوا یقرء المنفرد بسم الله الرحمن الرّحیم مع الفاتحة فی کلّ رکعة: سرّاً

و قال الشافعيّة و الحنابلة البسملة آیة من الفاتحة یجب قرائتها فی الصلوة الّا ا ن الحنابلة قالوا کالحنفيّة یقرؤ بها سرّاً و لایجهر بَها و قال الشافعيّة: یسّرّ فی الصلوة السرّیة و یجهر بها فی الصلاة الجهريّة(۱)

____________________

۱)تفسیر المیز، جلد ۱، ص ۴۶_

۱۸۵

امام مالک اور ابوحنیفہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ بسم اللہ سورہ حمد اور قرآن مجید کی دیگر سورتوں کی جزء نہیں ہے صرف سورہ نمل میں ذکر ہونے والی آیت جو بسم اللہ پر مشتمل ہے سورت کا جزء ہے

لیکن امام ابوحنیفہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ جو شخص فرادی نماز پڑھ رہا ہے وہ ہر رکعت میں صرف سورہ حمد کے ساتھ آہستہ آواز میں بسم اللہ پڑھے لیکن امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے پیروکار کہتے ہیں:

کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے اور نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے اس فرق کے ساتھ کہ حنبلی کہتے ہیں کہ بسم اللہ کو آہستہ پڑھا جائے، بالجہر پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن شافعی مذہب والے کہتے ہیں کہ اخفاتی نمازوں ( ظہر و عصر کی نماز) میں آہستہ پڑھا جائے اور بالجہر نمازوں ( مغرب، عشا اور صبح کی نماز) میں بلند آواز سے پڑھا جائے ''

ان اقوال میں شافعی مذہب والوں کا قول: شیعہ فقہا کے نظریہ سے نزدیک ہے_ اس فرق کے ساتھ کہ ہمارے علماء تمام نمازوں میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں اور سورہ حمد میں بسم اللہ پڑھنے کو متفقہ طور پر واجب سمجھتے ہیں اور دیگر سورتوں میں مشہور و معروف قول بسم اللہ کا جزء سورہ ہونا ہے_

سچ تو یہ ہے کہ ایک غیرجانبدار محقق واقعاً حیرت میں ڈوب جاتاہے_

چونکہ وہ دیکھتاہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے پورے ۲۳ سال اپنی اکثر نمازوں کو جماعت کے ساتھ اور سب کے سامنے پڑھا_ اور سب اصحاب نے آنحضرت(ص) کی نمازوں کو اپنے کانوں

۱۸۶

سے سنا لیکن تھوڑا سا عرصہ گزرنے کے بعد اتنا شدید اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ بسم اللہ کا پڑھنا اصلا ممنوع ہے جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ اسکا پڑھنا واجب ہے، ایک گروہ کہتاہے کہ آہستہ پڑھا جائے جبکہ دوسرا گروہ کہتاہے کہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے_

کیا اس عجیب اور ناقابل یقین اختلاف سے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتاہے کہ یہ مسئلہ عادی نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ کی پشت پر ایک سیاسی گروہ کا ہاتھ ہے جس نے متضاد احادیث کو جعل کیا اور انہیں رسالتمآب کی طرف نسبت دے دی ہے_

امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہے جو اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے وہ کہتے ہیں ; مطرف نے '' عمران بن حصین'' سے نقل کیا ہے کہ جب اس نے بصرہ میں حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی، تو کہا

'' ذکرنا هذا الرجل صلاة کنّا نصلیها مع رسول الله ''

اس مرد نے اپنی نماز کے ذریعے ہمیں رسولخدا(ص) کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نمازوں کی یاد دلا دی ہے_(۱)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز حتی نماز بھی تبدیل ہوگئی تھی امام شافعی مشہور کتاب''الام'' میں ''وہب بن کیسان'' سے نقل کرتے ہیں کہ '' کل سنن رسول الله (ص) قد غیرّت حتی الصلاة'' پیغمبر اکرم(ص) کی تمام سنتوں حتی نماز کو تبدیل کردیا گیا(۲)

____________________

۱) صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۹۰_

۲) الامّ، جلد ۱ ص ۲۶۹_

۱۸۷

بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے کے بارے میں احادیث نبوی

اس مسئلہ کے بارے میں اہلسنت کی معروف کتب میں مکمل طور پر مختلف اقسام کی احادیث نقل ہوئی ہیں_ یہی احادیث انکے فتاوی میں اختلاف کا سبب بنی ہے اور عجیب یہ ہے کہکبھی ایک ہی مشخص راوی نے متضاد روایات نقل کی ہیں_ جنکے نمونے آپ آئندہ احادیث میں ملاحظہ فرمائیںگے_

پہلی قسم کی احادیث:

اس قسم میں وہ روایات ہیں جو نہ صرف بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء شمار کرتی ہیں بلکہ بلند آواز میں پڑھنے کو بھی مستحب (یا ضروری) قرار دیتی ہیں اس گروہ میں ہم پانچ مشہور راویوں کی پانچ احادیث پر اکتفاء کرتے ہیں:

۱_ یہ حدیث امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل ہوئی ہے _ انکا مقام و منزلت سب پر عیاں ہیں کہ وہ جلوت و خلوت اور سفر وحضر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ رہے ہیں_دار قطنی نے اپنی کتاب سنن میں آ پ (ع) سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ

'' کان النبی (ص) یجهر ببسم الله الرحمن الرحیم فی السورتین جمیعاً'' (۱)

پیغمبر اکرم(ص) دو سورتوں (حمد اور بعد والی سورت) میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھتے تھے''

____________________

۱) سنن دار قطنی، جلد ۱ ص۳۰۲، اسی حدیث کو سیوطی نے درّ المنثور میں جلد ۱ ص ۲۲ پر نقل کیا ہے _

۱۸۸

۲_ یہ روایت انس بن مالک سے نقل ہوئی ہے کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی خادم اور جوانی سے ہی آپ(ص) کی خدمت میں پہنچ گئے تھے_ حاکم نے مستدرک میں اس روایت کو نقل کیا ہے _ وہ کہتے ہیں :

'' صلّیت خلف النبی و خلف ابی بکر و خلف عمر و خلف عثمان و خلف علی کلَّهم کانوا یجهرون بقرائة بسم الله الرحمن الرحیم'' (۱)

۳ _ حضرت عائشےہ عام طور پر شب و روز پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ تھیں _دارقطنی کی روایت کے مطابق وہ فرماتی ہیں کہ :

''ان رسول الله (ص) کا ن یجهر ببسم الله الرحمن الرحیم'' (۲)

رسول خدا(ص) بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے''

۴_ اہلسنت کے معروف راوی جناب ابوہریرة کہ جن کی بہت سی روایات کو صحاح ستّہ میں نقل کیا گیا ہے یوں کہتے ہیں'' کان رسول الله صلی الله علیه و آله یجهر ببسم الله الرحمن الرّحیم فی الصلوة'' کہ رسولخدا(ص) نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم بلند آواز کے ساتھ پڑھا کرتے تھے_

____________________

۱) مستدرک الصحیحین، جلد ۱ ،ص ۲۳۲، میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے پیچھے نمازیں پڑھیں سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_مترجم

۲) الدّر المنثور جلد ۱ ص ۲۳_

۱۸۹

یہ حدیث تین معروف کتب '' السنن الکبری''(۱) '' مستدرک حاکم''(۲) اور ''سنن دار قطنی''(۳) میں نقل ہوئی ہے_

۵_ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جبرائیل امین نے بھی پیغمبر اکرم(ص) کو نماز کی تعلیم دیتے وقت بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھا_ دار قطنی کی نقل کے مطابق نعمان بن بشیر یوں کہتے ہیں''اَمَّنی جبرئیل عند الکعبة فجهر ببسم الله الرحمن الر ّحیم'' جبرائیل امین نے خانہ کعبہ کے پاس میری امامت کی ( مجھے نماز پڑھائی) اور بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا(۴)

دلچسپ یہ ہے کہ بعض معروف علماء نے بسم اللہ بالجہر پڑھنے والی احادیث کو نقل کرنے کے ساتھ یہ تصریح کی ہے کہ ان احادیث کے راوی عام طور پر ثقہ ہیں جیسے حاکم نے مستدرک میں اس بات کی تصریح کی ہے_

یہاں ہمیں اس بات کا اضافہ کرنا چاہیے کہ مکتب اہلبیتکی فقہ و حدیث کی کتب میں بسم اللہ کو سورة حمد کی ایک آیت شمار کیاگیا ہے اور اس بارے میں احادیث تقریباً متواتر ہیں اور اسی طرح بہت سی احادیث میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنے کے بارے میں تصریح کی گئی ہے_

ان روایات کے بارے میں مزید آگاہی کے لیئے کتاب ''وسائل الشیعہ'' میں ''نماز میں قراء ت'' والے ابواب میں سے باب نمبر ۱۱ ،۱۲،۲۱ ،۲۲ کی طرف رجوع کیا جائے_ وہاں دسیوں

____________________

۱) السنن الکبری جلد ۲ ، ص ۴۷_

۲) مستدرک الصحیحین، جلد ۱، ص ۲۰۸_

۳) دار قطنی،جلد ۱ ،ص ۳۰۶ _

۴) سنن دار قطنی، جلد ۱، ص ۳۰۹_

۱۹۰

روایات آئمہ اہلبیت (ع) سے نقل کی گئی ہیں اور دیگر معتبر کتب جیسے کافی، عیون اخبار الرّضا(ع) ، اور مستدرک الوسائل میں ( نماز میں قرائت قرآن کے مربوطہ ابواب میں ) بھی بہت سی روایات ذکر کی گئی ہیں_

حدیث ثقلین کی روشنی میں کہ جسے فریقین نے نقل کیا ہے اور اس میں حکم دیا گیا ہے کہ میرے بعد قرآن مجید اور میرے اہلبیت(ع) کا دامن تھام کر رکھنا تا کہ گمراہی سے بچے رہو_ کیا ہمیں اس قسم کے اختلاف انگیر مسئلہ میں مذہب اہلبیت کی پیروی نہیں کرنا چاہیے (تا کہ گمراہی سے محفوظ رہیں )؟

دوسری قسم کی احادیث:

یہ قسم ان احادیث پرمشتمل ہے جو بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء شمار نہیں کرتیں یا بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھنے سے منع کرتی ہیں_

۱_ یہ حدیث صحیح مسلم میں قتادہ سے نقل ہوئی ہے جس میں انس کہتے ہیں کہ:

'' صلّیت مع رسول الله (ص) و ابی بکر و عمر و عثمان فلم اسمع احداً منهم یقرء بسم الله الرحمن الرّحیم'' (۱)

میں نے رسولخدا (ص) ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی میں نے کسی سے نہیں سنا کہ انہوںنے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم پڑھی ہو''

____________________

۱)صحیح مسلم، جلد ۲، '' باب حجة من قال لا یجہر بالبسملة'' ص ۱۲_

۱۹۱

توجہ کرنی چاہیےکہ اس حدیث میں حضرت علی (ع) کی قراء ت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے

واقعاً تعجب آور ہے کہ ایک معّین شخص جیسے انس ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) ، خلفائے ثلاثہ اور حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی_ سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_ دوسری جگہ وہی کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) اور خلفائے ثلاثہ کے پیچھے نماز پڑھی کسی نے بھی نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھی چہ جائیکہ بلند آواز سے پڑھنا_

کیا ہرصاحب فہم یہاں یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہوتا کہ پہلی حدیث کو بے اثر کرنے کے لیئے جاعلین حدیث نے ( جیسا کہ عنقریب بیان کیا جائیگا) اس دوسری حدیث کوجعل کیا ہے اور اسے انس کی طرف نسبت دی ہے اور چونکہ حضرت علی (ع) کا بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا مشہور ہے اور انکے پیروکار جہاں کہیں بھی ہیں یہی کام کرتے ہیں اس لیے ان کا نام نہیں لیا گیا ہے تاکہ ڈھول کاپول نہ کھل جائے؟

۲_ سنن بیہقی میں عبداللہ بن مغفل سے نقل ہوا ہے، وہ کہتے ہیں:

''سمعنی ا بی و ا نا ا قرا بسم الله الرحمن الرّحیم فقال; ا ی بنيّ محدث؟ صلَّیتُ خلف رسول الله صلی الله علیه و آله و ا بی بکر و عمر و عثمان فلم ا سمع ا حداً منهم جهر بسم الله الرّحمن الرّحیم'' (۱)

____________________

۱) السنن الکبری، جلد ۲ ، ص ۵۲_

۱۹۲

میرے والد نے مجھے نماز میں بسم اللہ پڑھتے سنا توکہنے لگے: کیا بدعت ایجاد کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ان میں سے کسی کو میں نہیں دیکھا کہ بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھتا ہو'' _

اس حدیث میں بھی حضرت علی _ کی نماز کا تذکرہ نہیں ہوا ہے

۳_ جناب طبرانی کی کتاب'' المعجم الوسیط'' میں ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ :

'' کان رسول الله صلی الله علیه و آله اذا قرء بسم الله الرّحمن الرّحیم هزء منه المشرکون و قالوا محمد یذکرا له الیمامة_ وکان مسیلمة یسمی ''الرّحمن'' فلمّا نزلت هذه الآیة امر رسول الله صلی الله علیه و آله ان لا یجهر بها؟

کہ رسولخدا(ص) جب نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے تو مشرکین تمسخر کرتے تھے_ کیونکہ یمامہ کی سرزمین پر خدائی کا دعوی کرنے والے مسیلمہ کا نام رحمن تھا_ اس لیئے مشرکین کہتے تھے کہ محمد(ص) کی مراد وہی یمامہ کا خدا ہے_ اس وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے حکم دے دیا تھا کہ اس آیت کو بلند آواز سے نہ پڑھا جائے ''

اس حدیث میں جعلی ہونے کے آثار بالکل نمایاں ہیں کیونکہ :

اولّا: رحمن کاکلمہ قرآن مجید میں صرف بسم اللہ الرّحمن الرّحیم میں نہیں آیا ہے بلکہ اور بھی ۵۶ مقامات پر ذکر ہوا ہے_ صرف سورہ مریم میں ہی اس کا سولہ۱۶ مرتبہ تکرار ہوا ہے_ اگر

۱۹۳

یہی وجہ ہے تو قرآن مجید کی دوسری سورتوں کو بھی نہیں پڑھنا چاہیے، کہیں مشرکین مسلمانوں کامذاق نہ اڑائیں _

ثانیاً : مشرکین تو قرآن مجید کی تمام آیات کا تمسخرکرتے تھے جیسا کہ متعدد آیات میں اس بات کا تذکرہ کیاگیاہے من جملہ سورہ نساء کی چالیس نمبر آیت ''اذا سمعتم آیات الله یکفر بها و يُستهزا بها فلا تقعدوا معهم''

مشرکین نماز کے لیے دی جانے والی اذان کا بھی مذاق اڑاتے تھے جیسے سورہ مائدہ کی ۵۸ نمبر آیت میں تذکرہ ہوا ہے''و اذا نادیتم الی الصلوة اتخذوها هُزُواً '' کیا پیغمبر اکرم(ص) نے اذان کے ترک کرنے کا بھی حکم دیا ہے_ یا اذان آہستہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ کہیں مشرکین مذاق نہ اڑائیں _

بنیادی طور پر مشرکین خود پیغمبر اکرم(ص) کا استہزاء کرتے تھے جیسا کہ اس آیت میں تذکرہ ہوا ہے''و اذا آک الذین کفروا ان یتّخذونک الّا هُزُواً'' (۱)

اگر یہی دلیل ہے تو خود پیغمبر اکرم(ص) کو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوجانا چاہیے تھا_

ان سب ادلّہ سے قطع نظر اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو بڑی صراحت کے ساتھ وعدہ دیا تھا کہ آپ(ص) کو استہزا کرنے والون کے شر سے محفوظ رکھے گا'' انّا کفیناک المستهزئین'' (۲)

ثالثاً: مسیلمہ کوئی ایسی شخصیت نہیں تھا جس کو اسقدر اہمیت دی جاتی کہ پیغمبر اکرم(ص) اس کا نام

____________________

۱) سورة انبیاء آیت ۳۶_

۲) سورة حجرات آیت ۹۵_

۱۹۴

رحمن ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی آیات کو مخفی کرتے یا آہستہ پڑھتے_ خاص طور پر اس بات کیطرف بھی توجہ رہے کہ مسیلمہ کے دعوے ہجرت کے دسویں سال منظر عام پر آئے تھے اوراس وقت اسلام مکمل طور پر قوت اور قدرت پیدا کرچکا تھا_

ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث گھڑنے والے اپنے کام میں مہارت نہیں رکھتے تھے اور نا آگاہ تھے_

۴: ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب '' مصنف'' میں ابن عباس سے نقل کیا ہے '' الجہر ببسم الله الرحمن الرّحیم قرائة الا عراب'' بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھنا عرب کے بدّووں کی عادت تھی''(۱)

حالانکہ ایک اور حدیث میں علی ابن زید بن جدعان نے بیان کیا ہے کہ ''عبادلہ'' ( یعنی عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر) تینوں بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے''(۲)

اس سے بڑھ کر حضرت علی _ بسم اللہ کو ہمیشہ بالجہر پڑھتے تھے_ یہ بات تمام شیعہ و سنی کتب میں مشہور ہے کیا علی _ بیابانی اعراب میں سے تھے؟ کیا ان متضاد احادیث کا وجود انکے سیاسی ہونے کی دلیل نہیں ہے؟

ہاں حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی _ ہمیشہ بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے تھے_ جب امیرالمؤمنین کی شہادت اور امام حسن _ کی مختصر سی خلافت کے بعد معاویہ کے ہاتھ میں حکومت

____________________

۱) مصنف ابن ابی شیبة ، جلد ۲ ص ۸۹_

۲) الدر المنثور ،جلد ۱ ص ۲۱_

۱۹۵

کی باگ ڈور آگئی، تو اس کی پوری کوشش یہ تھی کہ تمام آثار علوی کو عالم اسلام کے صفحہ سے مٹا دے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسلمانوں میں آپ(ع) کے فکری اور معنوی افکار کا نفوذ اس کی سلطنت کے لیے خطرہ ہے_

اس بات کا منہ بولتا ثبوت اس حدیث میں ملتا ہے جسے حاکم نے مستدرک میں نقل کیا اور معتبر قرار دیا ہے (پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی خادم ) جناب انس بن مالک فرماتے ہیں کہ معاویة مدینہ میں آیا اس نے جہری نماز ( مغرب، عشاء ویا صبح کی نماز) میں سورة الحمد سے پہلے بسم اللہ کو پڑھا لیکن بعد والی سورت میں نہیں پڑھا_ جب نماز ختم کی تو ہر طرف سے مہاجرین و انصار کی ( کہ جو شاید جان بچانے کی خاطر نماز میں شریک ہوئے تھے) صدائیں بلند ہوگئیں '' اسرقت الصلوة ام نسیت؟ '' کہ تو نے نماز میں سے چوری کی ہے یا بھول گیاہے ؟ معاویہ نے بعد والی نماز میں سورہ حمد سے پہلے اور بعد والی سورت سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھی''(۱)

معاویہ گویا اس بات کے ذریعے مہاجرین و انصار کو آزمانا چاہتا تھا کہ یہ لوگ بسم اللہ اور اس کے بالجہر پڑھنے کے سلسلہ میں کتنی توجہ و سنجیدگی رکھتے ہیں_ لیکن اس نے اپنا کام شام اور دیگر علاقوں میں جاری رکھا_

ما بین الدّفتین قرآن ہے:

یقینا جو کچھ قرآن کی دو جلد کے درمیان ہے وہ قرآن مجید کا جزء ہے_ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ قرآن مجید کا جز نہیں ہے صرف سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے

____________________

۱) مستدرک الصحیحین، جلد ۱ ص ۲۳۳_

۱۹۶

کے لیے ہے_ اوّلاً یہ بات سورہ حمد کے بارے میں صحیح نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں آیات کے نمبر لگائے گئے ہیں_ بسم اللہ کو سورہ حمد کی آیت شمار کیا گیا ہے_

ثانیاً: یہ سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والا کام کیوں سورہ براء ة میں نہیں کیا گیاہے_ اور اگر جواب میں کہا جائے کہ چونکہ اس سورت کا سابقہ سورہ ( سورة انفال) کے ساتھ رابطہ ہے تو یہ بات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اتفاقاً سورہ انفال کی آخری آیات اور سورہ براء ة کی ابتدائی آیات کے درمیان کوئی مفہومی رابطہ نہیں ہے_ حالانکہ قرآن مجید میں اور کئی سورتیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط رکھتی ہیں لیکن بسم اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے_

حق یہ ہے کہ کہا جائے بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے_ جیسا کہ قرآن مجید کا ظاہر بھی اس بات کی خبر دیتا ہے _ اور اگر سورہ توبہ میں بسم اللہ کو ذکر نہیں کیاگیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے اس سورت کا آغاز پیمان شکن دشمنوں کے ساتھ اعلان جنگ کے ذریعے ہوتا ہے اور اعلان جنگ ، رحمن اور رحیم کے نام کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا ہے کیونکہ یہ نام رحمت عامّہ اور رحمت خاصہ الہی کی حکایت کرتا ہے _

بحث کا خلاصہ :

۱_ پیغمبر اکرم(ص) سورہ حمد اوردیگر تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھتے تھے( ان کثیر روایات کے مطابق جو آپ(ص) کے نزدیک ترین افراد سے نقل ہوئی ہیں ) اور متعدد روایات کے مطابق آپ(ص) بسم اللہ کو بالجہر پڑھا کرتے تھے_

۲_ سابقہ روایات کے مقابلے میں جو روایات کہتی ہیں کہ بسم اللہ اصلاً قرآن مجید کا جزء

۱۹۷

نہیں ہے یا آنحضرت(ص) ہمیشہ اسے بالاخفات پڑھتے تھے_ مشکوک ہیں بلکہ خود ان روایات میں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روایات جعلی اور ان کے پیچھے بنو اميّہ کی پر اسرار سیاستیں ہیں _ کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ حضرت علی _ بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے ہیں اور یہ تو معلوم ہے کہ جو کچھ بھی حضرت علی (ع) کی خصوصیت یا علامت شمار ہوتی تھی ( اگر چہ وہ پیغمبر اکرم(ص) سے حاصل کی ہوئی ہوتی تھی) بنو اميّہ اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے تھے یہ موضوع اس شدید اعتراض کے ذریعے آشکار ہو جاتا ہے کہ جو اصحاب نے معاویہ پر کیا _ اور اس کے علاوہ بھی قرائن و شواہد موجود ہیں جنہیں ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے _

۳_ ائمہ ا ہلبیتکا امیرالمؤمنین(ع) ( کہ انہوں نے سالہا سال پیغمبر اکرم(ص) سے بسم اللہ کو بالجہر ادا کرنے کا درس لیا تھا) کی پیروی کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق ہے_ یہاںتک کہ امام جعفر صادق _ فرماتے ہیں :

''اجتمع آلُ محمّد صلی الله علیه و آله علی الجهر ببسم الله الرّحمن الرّحیم '' (۱)

کہ آل محمّد (ص) کا بسم اللہ کے بلند پڑھنے پر اتفاق ہے ''

حداقل اس قسم کے مسائل میں حدیث ثقلین پر عمل کرتے ہوئے روایات اہلبیت (ع) کیطرف توجّہ کرنی چاہیے اور تمام اہلسنت فقہاء کو چاہیے کہ امام شافعی کی طرح حداقل جہری نمازوں میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا واجب قرار دیں_

۴_ حسن اختتام کے عنوان سے اس بحث کے آخر پر دو باتیں جناب فخررازی صاحب''تفسیر الکبیر'' سے نقل کرتے ہیں :

____________________

۱) مستدرک الوسائل ، جلد ۴ ص ۱۸۹_

۱۹۸

وہ کہتے ہیں کہ:

''انّ عليّا _ کا ن یبالغ فی الجهر بالتسمیة فلما وصلت الدولة الی بنی اميّه بالغوا فی المنع من الجهر سعیاً فی ابطال آثار علّی _ '' (۱)

حضرت علی _ بسم اللہ کے بالجہر پڑھنے پر اصرار کرتے تھے، جب حکومت، بنوامیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بسم اللہ کے بلند پڑھنے سے منع کرنے پر اصرار کیا تا کہ حضرت علی _ کے آثار کو مٹایا جاسکے''

اہلسنت کے اس عظیم دانشمند کی گواہی کے ذریعے بسم اللہ کے آہستہ پڑھنے یا اس کے حذف کرنے والے مسئلہ کا سیاسی ہونا اور زیادہ آشکار ہوجاتا ہے _اسی کتاب میں ایک اور مقام پر جناب فخررازی، مشہور محدث بیہقی سے اس بات کونقل کرنے کے بعد کہ حضرت عمر ابن خطاب، جناب ابن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے اس بات کا اضافہ کرتے ہیں:

'' اَمّا ا نَّ علی ابن ابی طالب کان یجهر بالتسمیة فقد ثبت بالتواتر و من اقتدی فی دینه بعلّی ابن ابی طالب فقد اهتدی، و الدلیل علیه قول رسول الله اللّهم ا در الحق مع علی حیث دار، (۲)

____________________

۱) تفسیر کبیر فخررازی ، جلد ۱، ص ۲۰۶_

۲) ایضاً ص ۲۰۴ و ۲۰۵_

۱۹۹

بہر حال حضرت علی (ع) بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے تھے یہ بات تواتر کے ذریعہ ثابت ہے اور جو بھی دین میں حضرت علی (ع) کی پیروی کریگا یقینا ہدایت پاجائیگا_ اس بات کی دلیل رسولخدا(ص) کی یہ حدیث ہے کہ بارالہا حق کو ہمیشہ علی (ع) کے ساتھ رکھ اور حق کو اسی طرف پھیر دے جس طرف علی (ع) رخ کرے''

۲۰۰